Sunday 20 August 2017

اجتماعی قربانی سے فاضل رقم کا مصرف؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
مفتی صاحب ایک مسئلہ کی وضاحت فرمائیں نوازش ہوگی 

مدرسے والے مشترکہ قربانی کا نظم کرتے ہیں مثلا ۱۵۰۰ روپے فی حصہ متعین ہوا. اس اعتبار سے ایک جانور کی قیمت ۱۰۵۰۰ ہوئی کوئی جانور ۹۰۰۰ میں مل گیا باقی ۱۵۰۰ روپے مدرسہ میں جمع کرنا درست ہے یا نہیں؟ اگر اشتہار میں لکھ دیں کہ جانور کی قیمت سے بچنے والی رقم کی مدرسہ میں رسید کاٹ دی جائے گی کیا اس کو اجازت مان کر باقی رقم مدرسہ میں جمع کرنا درست ہوگا؟
عبد المعبود قاسمی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق 
 اجتماعی قربانی میں بچی ہوئی رقم صاحب قربانی کی امانت ہے۔ ان کی اجازت کے بغیر کسی بھی مصرف میں خرچ کرنا باطل وناجائز ہے ۔۔۔۔ قربانی میں حصہ کے لئے رقم جمع کرتے وقت اگر شرکا سے یہ اجازت لے لی جائے کہ اخراجات قربانی سے فاضل رقم مدرسہ کے خزانہ میں داخل کردی جائیگی اور وہ اس پہ آمادگی ظاہر کردیں تو پھر بطور وکیل منتظم مدرسہ اس زائد رقم کو مدرسہ میں داخل کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔ اشتہارات میں یکطرفہ  اعلان لکھدینا بھی ان کی رضامندی کو مستلزم نہیں۔
الإذن والاجازة توكيل .شرح المجلة للشيخ خالد الاناسي. كتاب الوكالة .45/4. رقم المادة 1452.

وفي ’’ السنن الکبری للبیہقي ‘‘ : ’’ لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ ‘‘ ۔ (۶/۱۶۶، کتاب الغصب ، مشکوۃ المصابیح :ص/۲۵۵ ، السنن الدارقطني :۳/۲۲، کتاب البیوع ، رقم الحدیث:۲۸۶۲ ،


وفي ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ۔ 

(۹/۲۹۱، کتاب الغصب ، مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر)
و في ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : لا یجوز لأحد أن یتصرف في ملک الغیر بلا إذنہ ۔

(۱/۹۶، المادۃ)

بچی ہوئی رقم کو اخراجات ومزدوری کی مد میں مان کر اہل مدارس کے لئے مباح کرنا بالکل غلط ہے۔
اجرت اور اخراجات کی مقدار پہلے رقم لیتے وقت طے کردیا جائے تو طے شدہ مقدار کی حد تک متفرق اخراجات کے عنوان سے مباح التصرف ہوگا۔
اجرت اور اخراجات مجہول رکھ کے ہر فاضل رقم کو اس کے تحت جائز قرار دینا کس فقہی ضابطہ سے مستنبط ہے۔ ؟ اس سے تو عقدہی فاسد ہوجائے گا ! 
في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وشرطہا : کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین ، لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ ۔ (۹/۷، کتاب الإجارۃ ، الفتاوی الہندیۃ :۴/۴۱۱، کتاب الإجارۃ، الباب الأول في تفسیر الإجارۃ) (المسائل المہمۃ:۶/۱۶۰،ایڈیشن ثانی)
و في ’’ درر الحکام ‘‘ : شرائط الصحۃ أنواع : ۔۔۔۔۔ النوع الثاني تعیین الأجرۃ ۔ 
(۱/۴۹۵-۴۹۶، کتاب الإجارۃ ، الفصل الثاني في شروط انعقاد الإجارۃ)
و في ’’ قواعد الفقہ ‘‘ : ’’ جہالۃ المعقود علیہ تفسد العقد ‘‘ ۔ (ص/۷۵)۔
ایسی کوئی ناقابل برداشت و تحمل حرج نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے جواز کی راہ ڈھونڈی جائے  اور الحرج مدفوع جیسے فقہی ضابطہ کا سہارا لیا جائے (جیساکہ بعض لوگ کربیٹھے ہیں)
خصوصا جبکہ وکیل تصرف مان لینے والا حل موجود ہو تو ان تکلفات کی کیا ضرورت ہے.

واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment