Monday 22 May 2017

ردائے خلافت؛ کس نے چاک کی.....؟

تحریر خاصی طویل ہے، لیکن موضوع کا تقاضا تھا اس سے مختصر ممکن نہ تھی... امید ہے کہ میں نے جس محنت سے لکھا، آپ بھی "ہمت" کر کے پڑھ ہی لیں گے۔
آہ ... وہ بھی جولائی تھا اور آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ١٠٢ برس بعد پھر جولائی ہی ہے... جی ہاں جولائی ١٩١٤ کو آسٹریا اور سربیا کے درمیان جنگ چھڑ گئی... اور بہت جلد اس نے پورے یوروپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا...
خلافت عثمانیہ ناتواں سہی لیکن مسلمانوں کی یکجہتی کی آخری علامت تھی... لیکن چار سو سال سے جاری یہ خلافت دیمک زدہ لکڑی کی مانند تھی جو کسی بھی وقت گر سکتی تھی.. اٹلی نے طرابلس پر اپنی فوجیں کیا اتاریں، خلافت کے برے دن شروع ہو گئے... اس دوران جنگ عظیم میں تیزی آگئی.. عثمانیوں نے جرمنی سے تعلقات کی بنیاد پر، اور اس امید پر کہ وہ اتحادیوں سے طرابلس کا انتقام لے سکے گا اور سابقہ مقبوضہ علاقے ان سے واپس لے لے گا، 29 اکتوبر 1914 کو جرمنی کا اتحادی بن کر اتحادیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا..... لیکن جرمنی جنگ ہار رہا تھا... ترکوں نے جنگ کا دائرہ مشرق کی طرف وسیع کر دیا اور نہر سویز سے برطانیہ کی سپلائی لائن منقطع کرنے کے لئے شام کے گورنر جمال پاشا کی قیادت میں مصر کی طرف لشکر روانہ کیا گیا جسے شکست فاش ہوئی.. اور پھر ہزیمتوں کا یہ سسلہ رکا نہیں... شام، عراق، فلسطین، غزہ تک کے علاقے سب ترکوں کے ہاتھ سے نکل گئے... برطانیہ کی افواج شام کے شہر "حلب" پہنچ کر رکیں..
وہ اس سے آگے بھی آ سکتے تھے لیکن.... آگے مسلمانوں کی مقدس سر زمین تھی... اور آگے بڑھتے تو سمجھا جاتا کہ انگریز مکہ اور مدینہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں.. اور رد عمل میں اپنے مقبوضات میں بغاوت کا سوچ کر ہی برطانیہ کو خوف آ رہا تھا اور یہ خوف بھی تھا کہ برطانوی فوج کے مسلمان ہندوستانی سپاہی بغاوت نہ کر دیں... جن کی تعداد بعض ذرائع کے مطابق ایک ملین تک تھی... اور ان میں سے اکثریت مسلمان تھے... کیسا "کمال" تھا کہ ہندی مسلمان تن من دھن سے برطانوی مملکت کی خلافت اسلامیہ کو ختم کرنے کی جدو جہد کا حصہ تھے..... پھر بھی بغاوت کے اس ممکنہ خوف میں ایک "مسلمان" ہی برطانیہ کے کام آیا.....
مکہ کے گورنر کو شریف مکہ کہا جاتا تھا.. اور جنگ کے دنوں میں حسین بن علی "شریف مکہ" تھا.. شریف حسین سے کا تعلق ہاشمی خاندان سے تھا، وہ اس وقت خلیفتہ المسلمین کی جانب سے جدہ مکہ اور مدینہ کا نائب یا گورنر مقرر تھا اور اردن کے موجودہ بادشاہ عبداللہ بن حسین کا پردادا تھا.. جب اس نے دیکھا کہ عرب مقبوضات ترکی کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں تو اسے اپنی بادشاہت کے خواب نظر آنے لگے.. ایسے میں کرنل "ایڈورڈ لارنس" بروئے کار آیا. جو بعد ازاں "لارنس آف عریبیہ" کے نام سے معروف ہوا...
کرنل لارنس آف عربیہ انتہائی اعلی درجے کا محقق تھا برطانوی فوج میں شمولیت سے قبل لارنس نے عرب دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف تحقیقاتی موضوعات کے حوالے سے بہت وقت گزارا تھا اس کے نتیجے میں ایڈورڈ لارنس عربی زبان سے اس طرح واقف ہوگیا تھا کہ اہل زبان عربی کی مانند وہ عربی بولتا.. بلکہ عربی زبان کے مختلف لہجوں، مثلا عراقی شامی، سعودی اردنی، کو بھی ان عربوں ہی کے انداز میں اس طرح بولتا کہ کوئی عرب بھی یقین نہ کر پاتا۔
کرنل لارنس نے شریف کو جنگ کی صورت حال بتا کر اور دلائل سے قائل کر لیا کہ اگر وہ آزادی کا اعلان کر دے گا تو ترک اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے... لارڈ کچر نے شریف کو آزادی کی ضمانت دی... چناچہ ١٤ جولائی ١٩١٥ کو شریف نے بغاوت کے لیے برطانیہ کو اپنی شرائط پیش کیں.. لیکن اب یورپ فاتح تھا... پھر بھی اردن اور شام کی حد تک اس کی بات مان لی گئی.. جب معاہدہ ہو گیا تو شریف نے عرب نیشنلزم کا نعرہ بلند کیا اور ترکوں سے آزادی کی جنگ شروع کر دی.. اس نے عرب قبائل کو ترکوں کے خلاف جنگ کے لیے ابھارا۔ انگریزوں نے دھماکہ خیز مواد کے لیے اس سے تعاون کیا تاکہ پورے جزیرۃ العرب میں بچھائے جانے والی ریل کی پٹڑیوں کو اڑا دیا جائے۔ اور ترکی کی فوج کو پہنچنے والی کمک کا راستہ روکا جاسکے۔ عربوں کی بغاوت نے ترک فوج کو بہت سے مشکلات سے دوچار کردیا تھا اور انگریزوں کی فتح کے لیے راہ ہموار کی... شریف کا بیٹا فیصل اس بغاوت کی نگرانی کر رہا تھا..
کرنل لارنس آف عربیہ کو شریف مکہ کے ولی عہد فیصل بن شریف اردن کے موجودہ بادشاہ عبداللہ کے دادا کے بھائی نے اپنی ذاتی فوج کا نگہبان بنایا یہ فوج اس وقت چند سو ایسے افراد پر مشتمل تھی جو اس وقت کے وسائیل کے مطابق توڑے دار بندوقوں سے مسلح اور اونٹوں کا مالک تھے اگر چے کہ یہ افراد قبائیلی جنگ کے تو ماہر تھے یا پھر تجارتی قافلوں کو لوٹنا ان کا پیشہ تھا مگر یہ منظم فوج نہیں تھے البتہ شریف مکہ کے ولی عہد فیصل بن شریف کے ذاتی گارڈ اور ملازم تھے سب سے پہلے کرنل لارنس آف عربیہ نے اس بے ہنگم فوج کو باقاعدہ لڑائی کی تربیت دی ان کے لئے جدید اسلحہ قاہرہ میں موجود برطانوی فوج کے جرنیلوں سے بذریعہ بحری جہاز منگوایا گیا جن میں مشین گنیں ترکوں کے خلاف اعلی درجے کی بندوقیں اور اس لشکر کی تنخواہ کے لئے سونا اور سونے کی اشرفیاں خوراک اس فوج کی رہائش کے لئے سازو سامان باقائدہ چھاونی کا نظام بنانے کے لئے بھی سامان شامل تھا۔
کرنل لارنس آف عربیہ نے اپنے دیگر تجربہ کار برطانوی ساتھیوں کے ہمراہ اس بے ہنگم فوج کو ایک منظم اور چھاپہ مار فوج میں تبدیل کر دیا.. اس کی باقائدہ تنخواہ مقرر کی گئی... ترکوں کی فوجی تنصیبات کو چھاپہ مار جنگوں کے ذریعے تباہ کرنا شروع کیا پہلے ریلوے لائِن کے پلوں کو تباہ کیا گیا ترکی سے مدینہ جانے والی ریلوے لائین کو جو اس وقت جرمنی کے ماہرین کی مدد سے بے بہا لاگت سے بنائی گئی تھی جس کا جہاں یہ مقصد تھا عراق ایران شام روس یورپی ممالک اور ترکی مصر سے زائرین سہولت کے ساتھ حج و عمرہ ادا کرسکیں وہیں اس ریلوے لائین کا دوسرا اہم ترین مقصد یہ بھی تھا کہ خلافت المسلمین کی دفاعی ضروریات کے لیئے معاون ثابت ہو اس اہم ترین ریلوے لائین کو جگہ جگہ سے ڈائنا مائٹ کے زریعے تباہ کرنا شروع کیا ..
لارنس اف عریبیہ نے شریف مکہ کو ضمانت دی تھی کہ اگر اس نے خلیفتہ المسلمین سے بغاوت میں کامیابی حاصل کرلی تو اسے یعنی شریف حسین کو جزیرۃ االعرب یا موجودہ سعودی عرب کا بادشاہ بنا دیا جائے گا بڑے بیٹے فیصل کو شام کا بادشاہ مقرر کیا جائے گا چھوٹے بیٹے عبداللہ کو اردن کا بادشاہ بنایا جائے گا جیسا کہ اردن کے موجودہ بادشاہ عبداللہ شریف حسین کے پڑ پوتے ہیں جب کہ شریف حسین کے دیگر بیٹوں کو عراق اور یمن کی بادشاہی دی جائے گی... ستم ظریفی کہ برطانیہ آج بھی اس معاہدے کے وجود سے انکار کرتا ہے لیکن اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ جب عالم عرب کے حصے بخرے ہو گئے تو کس "خدمت" کی بنا پر شریف کے بیٹے عبدللہ کو اردن کا بادشاہ مقرر کیا گیا اور فیصل کو شام کا.. اور صرف یہی نہیں بلکہ جب فیصل کو فرانسیسیوں نے شام کی بادشاہت سے ١٩٢١ میں معزول کر دیا تو اس فیصل کو عراق بلا کر اسے عراق کا بادشاہ بنا دیا... کیا کمال ہے کہ بادشاہتیں مفت کا مال سمجھ کے تقسیم ہو رہی ہیں.... پورے پورے ملک تحفے میں ایسے ہی تو نہیں دیے جاتے.. خدمات بھی تو بے انتہا بڑی تھی یعنی تیرہ سو برس سے قائم خلافت وار امت کی وحدت کا خاتمہ سو انعام بھی بڑا ہی ہونا چاہئے تھا... مگر دوسری طرف لارنس آف عربیہ نے اپنی کتاب میں اس معاہدے کا ذکر بھی کیا اور اس پر مکمل عمل نہ ہونے پر اظہار افسوس بھی... اسی فیصل کے بارے میں اقبال کا شعر ہے
کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی تھا پر دل کا حجازی بن نہ سکا
بغاوت کامیاب ہو گئی..... اور ٦ نومبر ١٩١٥ کو شریف نے خود کو حجاز کا بادشاہ قرار دے دیا اور فرانس، روس اور برطانیہ نے اس کی حکومت کو تسلیم کر لیا.. اسی پر اقبال نے تب یہ شعر کہا
ہاشمی بیچتا ہے ناموسِ دین مصطفی،
مل رہا ہو خاک و خون میں ترکمان سخت کوش۔
جنگ ختم ہو گئی.. جرمنی اور ترکی شکست کہا چکے تھے... ترکی کے اسی فیصد مقبوضات اس کے ہاتھ سے نکل چکے تھے... ہارے ہوۓ نے کیا معاہدے کرنے ہوتے ہیں؟... اس پر تو معاہدے تھوپے جاتے ہیں... سو معاہدہ ترکی کو ماننا ہی تھا جس کی رو سے جزیرۃ العرب باقاعدہ عثمانی ترکوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ فرانس اور برطانیہ کے درمیان "سایکس پیکو " معاہدے کی رو سے عراق، کویت، اردن اور فلسطین برطانیہ کی نو آبادیاں ٹھریں.. ۔ اور شام اور لبنان فرانس کے حصے میں آگئے۔ عثمانی سلطنت کی جانب سے یہ معاہدہ جس پر سیاسی قائدین نے دستخط کیے ترک فوج کے لئے قابل قبول نہ تھا.. اور شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ترک فوج نے مسلسل مخالفت جاری رکھی۔ مصطفی کمال پاشا جس نے عالمی جنگ میں خوب نام کمایا تھا خلافت کے سربراہان کے خلاف اپنی شہرت کو خوب استعمال کیا۔ ناراض فوجیوں کو ابھارا اور خلافت کے خلاف بغاوت کردی۔ مصطفی کمال نے ١٩٢٤ میں خلافت کا ادارہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اتحادیوں کے لشکر کو ترکی کے اصل علاقوں سے باہر کر دیا اور ترکی کو سیکولر نظام پر استوار کر دیا۔ عثمانی خلافت کے گرنے سے مسلمانوں کی وہ عالمی قوت ختم ہوگئی جس نے صدیوں صدیوں سے یوروپی جارحیت پسندوں کا راستہ روک رکھا تھا ۔..
دوسری طرف شریف بھی اس پر خوش نہ تھا کیونکہ وعدے اس سے کہیں زیادہ کے تھے... اور دیا بہت کم گیا تھا... یہ اس معاہدے کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی جو کرنل لارنس آف عربیہ نے شریف مکہ کے ساتھ کی تھی شریف مکہ نے برطانوی حکومت سے اور کرنل لارنس آف عربیہ سے اس معاہدے کے حوالے سے بے انتہا احتجاج کیا مگر اس کے باوجود شریف مکہ کی ایک نہ سنی گئی یوں شریف مکہ کا خواب چکنا چور ہوگیا.. اور غداری کا صلہ یہ ملا کہ امیر فیصل کی لاش پھر بغداد میں عوام نے سڑکوں پر گھسیٹی
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس دوران عبدالعزیز ابن سعود کیا کر رہا تھا؟...
نجد کا سعودی خاندان انیسویں صدی کے آغاز میں جزیرہ نمائے عرب کے بہت بڑے حصے پر قابض ہو گیا تھا لیکن مصری حکمران محمد علی پاشا نے آل سعود کی ان حکومت کو ١٨١٨ء میں ختم کردیا تھا۔ سعودی خاندان کے افراد اس کے بعد تقریباً 80 سال پریشان پھرتے رہے.. اس وقت کویت کے اپنے رشتے دار سرداروں کے ہاں پناہ گزین تھے یہاں تک کہ بیسویں صدی کے اوائل میں اسی خاندان میں ایک اور زبردست شخصیت پیدا ہوئی جس کا نام عبدالعزیز ابن سعود تھا جو عام طور پر سلطان ابن سعود کے نام سے مشہور ہیں۔
ابن سعود ہمہ وقت اپنے آبائی علاقے کو جانے کے خواب دیکھتا تھا... جلد ہی اس کے خواب کی تعبیر ظاہر ہوئی جب اس نے صرف چھبیس جانبازوں کے ساتھ رات کے اندھیارے میں ریاض پر دوبارہ قبضہ کرلیا تھا اور اپنے والد کی کھّوئی ہوئی سلطنت کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا... جی ہاں ١٩٠٢ء میں عبدالعزیز نے اپنے خاندانی حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دے دیا....
ابن سعود کو شریف کے دعوے بادشاہت سے اختلاف تھا اور نہ وہ اسے عربوں کا سردار مانتا تھا... سو وہ علاقے پر علاقے فتح کرتا آگے بڑھتا رہا... جنگ کے دنوں میں لارنس اف عریبیہ ابن سعود سے رابطے میں رہا لیکن لارنس کا مقصد صرف یہی تھا کہ شریف مکہ کو وقت مل جائے.. لیکن خود ابن سعود کو بھی وقت چاہئے تھا کہ گھوڑوں اور اونٹوں کے لشکر کے ساتھ ہزار میل دور حجاز اور بھی دور لگتا تھا.... اب جنگ ختم ہو چکی تھی.. برطانیہ کی شریف سے دلچسپی کم ہو چکی تھی.... خلافت بھی ختم ہو چکی تھی... بقول جواہر لال نہرو؛
" یہ دیکھتے ہوۓ کہ جس گھوڑے پر وہ سوار ہیں کبھی نہیں جیتے گا، برطانیوں نے پینترہ بدلا اور شریف کی حمایت ترک کر دی، اس کی امداد بند کر دی اور اسے طاقتور دشمن کے سامنے بے یار و مددگار چھوڑ دیا."
ستمبر١٩٢٤ میں ابن سعود نے طائف فتح کیا... خود مکہ کے باسیوں نے شریف کو تخت سے اتارا اور اس کے بیٹے کو حکمران بنا دیا لیکن اگلے مہینے ہی ابن سعود نے مکے پر قبضہ کر لیا اور اس سے اگلے ہی برس دسمبر ١٩٢٥ میں مدینے پر... شریف نے امت مسلمہ سے غداری کی... وہ جلاوطن ہو کر اپنے مربی برطانیہ کی پناہ میں چلا گیا.... دو بیٹے غداری کا انعام پاکر دو الگ ملکوں میں بادشاہ تھے.
ابن سعود کا خلافت اسلامیہ کے خلاف برطانیہ کی جانب سے کی گئی اس بغاوت میں کسی بھی طرح کا کوئی حصہ نہیں تھا ویسے بھی اس کا مرکز ریاض مکہ اور مدینہ جدہ سے بے انتہا دور واقع تھا جہاں سے اونٹوں کے ذریعے مکہ جدہ مدینہ جدہ دنوں میں نہیں بلکہ ہفتوں میں پہنچا جاتا تھا..... اور جب ترکوں کو حجاز سے دیس نکالا ملا تب ابن سعود ابھی عسیر، مائل اور جوف بھی نہیں پہنچا تھا.. حجاز تو بہت دور تھا... مکہ پر اس کے قبضے سے ٹھیک آٹھ برس پیشتر ترک حکومت جزیرہ عرب سے ختم ہو چکی تھی.....
خلافت سے غداری شریف نے کی... اور اس کے تابوت میں آخری کیل. مصطفی کمال پاشا نے ٹھونکی کہ جس کے بارے میں اقبال کہتا ہے...
چاک کردی ترک نادان نے خلافت کی قبا،
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
 ابوبکر قدوسی
اس مضمون کی تیاری میں
*وکی پیڈیا،
*تاریخ عالم از جواہر لال نہرو،
*عرب ورلڈ آرڈر اور صدام حسین،
*اسلامی انسائیکلو پیڈیا ازسید قسم محمود،
*اور کچھ ویب سائٹس کی مدد لی گئی
"योगीराज: बजरंग दल के गुंडों ने दो मुस्लिम युवकों को दौड़ा-दौड़ाकर लात-घूसों से पीटा
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1929982000548135&substory_index=0&id=1569219773291028
.....
हिन्दू बेटी की इज्ज़त बचाने के लिए औरंगजेब ने अपने मुस्लिम सेनापति को दी थी सजा-ए-मौत
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1930207270525608&substory_index=0&id=1569219773291028
......
सभी धर्मों को सम्मान व चन्दा देता था औरंगज़ेब
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1930160440530291&substory_index=0&id=1569219773291028

No comments:

Post a Comment