Wednesday, 30 November 2016

کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے

ایس اے ساگر
البشائر العشر للمحافظين على صلاة الفجر

*البشارة الأولى*:
● قال النَّبِيِّ ﷺ :"بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ ، بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". رواه أبو داود والترمذي وصححه الألباني

*البشارة الثانية*:
● قال النَّبِيِّ ﷺ:"رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا". رواه مسلم

*البشارة الثالثة*:
● قال النَّبِيِّ ﷺ :"مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى الْمَسْجِدِ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَالْقَاعِدُ فِي الْمَسْجِد يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ كَالْقَانِتِ، وَيُكْتَبُ مِنَ الْمُصَلِّينَ، حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ". أخرجه أحمد

*البشارة الرابعة* :
● قال جل في علاه :"أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوداً ". الإسراء : ٧٨

*البشارة الخامسة* :
● قال رَسُولُ اللَّهِ ﷺ :"لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا، يَعْنِى الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ". رواه مسلم

*البشارة السادسة* :
● قال النَّبِيِّ ﷺ :"مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّى اللَّيْلَ كُلَّهُ". رواه مسلم

*البشارة الثامنة* :
● قال النَّبِيِّ ﷺ :"مَنْ صَلَّى الْفَجْرَ ثُمَّ جَلَسَ فِي مُصَلاَّهُ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلاَئِكَةُ، وَصَلاَتُهُمْ عَلَيْهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ". رواه أحمد

*البشارة التاسعة* :
● قال النَّبِيِّ ﷺ :"مَنْ صَلَّى الْغَدَاةَ الفجر فِي جَمَاعَةٍ، ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، كَانَتْ لَهُ كَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ". رواه الترمذي وصححه الألباني

*البشارة العاشرة* :
● قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : "مَنْ صَلَّى صَلاَةَ الصُّبْحِ فَهْوَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ، فَلاَ يَطْلُبَنَّكُمُ اللَّهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَىْءٍ، فَإِنَّهُ مَنْ يَطْلُبْهُ مِنْ ذِمَّتِهِ بِشَىْءٍ يُدْرِكْهُ، ثُمَّ يَكُبَّهُ عَلَى وَجْهِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ". رواه مسلم
شریعت اسلامیہ میں فجر سے مراد وہ نماز ہے جس سے مسلمان اپنے دن کی ابتدا کرتا ہے اور اس کا وقت دوسری فجر (صبح صادق) کے طلوع ہونے سے شروع ہوتاہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ مساجد میں فجر کے وقت بہت کم لوگ آتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ تر جھکی ہوئی کمر والے، بوڑھے لوگ ہوتے ہیں، نوجوان خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر لوگ رات بھر فضول باتیں کرتے ہیں‘ لچر فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں‘ طرح طرح کے گناہ کرتے ہیں۔ اور اللہ رب العزت کی نافرمانی میں مشغول رہتے ہیں۔ ان وجوہ سے وہ فجر کے وقت بڑی غفلت اور غلبے کی نیند سوتے ہیں‘ یوں وہ نماز فجر جیسی عظیم الشان دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مساجد نمازیوں کی قلت کی وجہ سے نوحہ خواں ہیں۔ اگر مساجد بول سکتیں تو لوگ ان کی اپنے رب کے حضور شکایت اور آہ و زاری ضرور سنتے۔ ڈاکٹر اقبال نے اسی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے: 
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نماز ی نہ رہے
فرائض میں تفریق کرنا بہت بڑی غلطی ہے یعنی بعض من پسند احکام اختیار کرنا اور بعض احکام کو مشکل سمجھ کر چھوڑ دینا۔ اسلام تو ایک مسلم سے سب سے پہلا مطالبہ ہی یہ کرتا ہے کہ 
’اُدخُلُوا فِی السِّلمِ کافَّۃً‘ 
یعنی ہمارا دین ہم سے تمام فرائض کی ادائیگی کا متقاضی ہے، اس لیے لازم ہے کہ تمام لوگ فجر میں بھی اسی طرح حاضر ہوں جس طرح جمعۃ کی نماز میں ہجوم در ہجوم شریک ہوتے ہیں۔ 
پانچ نمازوں میں سے سب سے اہم نماز فجر کی ہے جسے ادا کرتے ہی ایک مسلمان اپنے دن کا آغاز کرتا ہے۔ اس لیے اس کا اہتمام نہایت ضروری ہے۔ 
اس کی فضیلت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ضعیف الایمان شخص اس کی طاقت نہیں رکھتا بلکہ منافقین پر تو اس کی ادائیگی بے حد مشکل ہے۔ جیسا کہ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 
کا فرمان ہے: 
’’عشاء اور فجر کی نماز منافقین پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے۔‘‘ 
اور فجر کی با جماعت نماز ایک مسلمان کی صداقت اور اس کا ایمان پرکھنے کی کسوٹی ہے۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : 
’’ہم اگر فجر اور عشاء کی نماز میں کسی آدمی کو نہ پاتے تو اس کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری نمازوں کے اوقات میں آدمی بیدار ہوتا ہے اس لیے دیگر نمازوں کا پڑھنا چنداں دشوار نہیں ہوتا، لیکن فجر اور عشاء کی با جماعت نماز کا اہتمام صرف مؤمن ہی کرتا ہے جس کی بابت خیر و بھلائی کی اُمید کی جاتی ہے۔ فجر کی نماز کی فضیلت اتنی گراں مایہ ہے کہ اسے کماحقہٗ قلمبند نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ اللہ! ذرا اندازہ تو کیجیے کہ فجر کا وقت کتنا رفیع المنزلت اور کس قدر بابرکت ہے کہ خو د اللہ تعالیٰ اہلِ دانش کو خطاب کرتے ہوئے فجر کی قسم اٹھاتا ہے۔ اور فرماتا ہے:
’’قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی، اور جفت اور طاق کی، اور رات کی جب وہ چلنے لگے، یقیناًان میں عقلمند کے لیے بڑی قسم ہے۔‘‘ 
(الفجر 89:5-1)
پس جس کی عقل اُسے نماز فجر کے ضائع ہونے سے نہیں روکتی، اللہ رب العزت کے فرمان کی رو سے وہ عقل والوں میں شمار نہیں ہو گا۔ 
اللہ کی قسم! ان آیات کا سیاق ان کے لیے، جو غور و فکر کرتے ہیں، صلاۃ فجر کا شوق، اس کا اہتمام اور اس میں رغبت پیدا کرنے کے لیے بے حد اہم ہے۔ تم یقیناًاس میں ایسی روحانی غذا پاؤ گے جو تمھارے دل کو اطمینان بخشے گی اور دل کی سختیوں کو نابود کر دے گی۔ 
فجر اور مغرب کا وقت ایسا ہوتا ہے جس سے دل میں اطمینان اور خشوع پیدا ہوتا ہے۔ یہ اوقات کائنات کے راز، اس کے قانون فطرت میں غور و فکر کرنے کی راہ ہموار کرتے ہیں جس سے انسان میں فہم و فراست کا نُور پیدا ہوتا ہے۔ 
جب زندگی کی راہ کٹھن ہو، خطرات اور آزمائشیں منڈ لا رہی ہوں تو اللہ رب العزت بندۂ مومن کے لیے فجر کی نماز میں سکون و اطمینان کا سامان عطا فرماتا ہے۔ اس نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمدؐ سے فرمایا:
پس ان کی باتوں پر صبر کریں اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتے رہیں سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔‘‘ 
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو تلقین فرمائی کہ صبر کریں اس بات پر جو وہ کہتے ہیں، یعنی جو کفر کرتے، انکار کرتے، مذاق اُڑاتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں۔ ان کی ان بے ہودہ باتوں کی وجہ سے آپ کے سینے میں تنگی پیدا نہ ہو، نہ آپ کا دل کسی حسرت و درماندگی کا شکار ہو۔ پس آپ اپنے رب کی طرف متوجہ رہیں۔ ’وسبح بحمد ربک۔۔۔‘ 
صبح کی فضا میں دل پر سکون ہوتا ہے اور زندگی کی راہیں آسان اور کشادہ ہوتی ہیں‘ یہی حالت عصر کے وقت بھی طاری ہوتی ہے۔ 
ہمیں چاہیے کہ ہم نہایت التزام و اہتمام سے نماز پنجگانہ ادا کرتے رہیں۔ اس کے لیے ہمیں اوقاتِ صلاۃ کی دم بدم فکر کرنی چاہیے۔ 
نماز فجر کی اس لحاظ سے بڑی اہمیت ہے کہ نبی کریمؐ نے اللہ رب العزت سے اپنی امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا کرنے کی دعا فرمائی ہے: ’اللھم بارک لامتی فی بکورھا‘ 
’’اے اللہ! میری امت کے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے۔‘‘ 
(صحیح الترغیب: 307/2) 
اس دعا کے نتیجے میں جو شخص اپنے دن کا آغاز نماز فجر سے کرے گا، یقیناًاس کے ہر کام میں اللہ کی طرف سے برکت کی قوی امید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ کہیں کوئی لشکر روانہ فرماتے تو فجر کے وقت منہ اندھیرے ہی روانہ فرماتے تھے۔ اس حدیث کے راوی سیدنا صخرؓ تاجر ہیں، یہ اپنا تجارتی مال دوسرے علاقوں میں بھیجتے تو صبح صبح ہی بھیجتے، ان کے اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی تجارت میں بڑی برکت ڈال دی اور وہ بڑے خوشحال اور مال دار ہو گئے۔ 
(صحیح الترغیب: 307/2) 
صحیح مسلم میں رسول اللہؐ کا فرمان ہے: 
’’جس نے صبح کی نماز (با جماعت) ادا کی، وہ شخص اللہ کے ذمہ (حفاظت) میں آ گیا پس تم میں سے کسی سے اللہ تعالیٰ اپنے ذمے کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے، پس جس شخص سے اس نے اپنے ذمے کے بارے میں کوئی مطالبہ کر دیا تو وہ اس کو پکڑلے گا اور اوندھے منہ جہنم میں پھینک دے گا۔ ‘‘ 
اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں آ جانے سے مراد اس کی حفاظت و نگرانی اور اس کی رعایت میں آ جانا ہے۔ تم جانتے ہو کہ اس کی حفاظت و نگرانی کیا ہے؟ یہ تمام تر اللہ کی رحمت ہے، جب وہ انسان کو اپنے دامن میں ڈھانپ لیتی ہے تو اس کے آلام‘ راحت میں بدل جاتے ہیں، یہ تمام تر اس کا لطف و کرم ہے، جب اللہ رب العزت کا لطف و کرم ہوتا ہے تو وہ آگ کو بھی ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیتا ہے، وہ اس کی حکمت، غلبہ اور ارادہ ہے جو سب پر غالب ہے اور جب وہ فیصلہ کرتا ہے تو دشمن کو بھی دوست بنا دیتا ہے اور خون خوار شیر کو بھی مہربان کر دیتا ہے۔ 
ایک عربی شاعر نے اس سلسلے میں چند بہترین اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ درج ذیل ہے:
پس اے نوجوان! اگر تجھ کو عورتوں کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے تو تو اپنے دن کا آغاز فجر کی نماز سے کر۔ اللہ تیرا نگہبان و محافظ بن جائے گا۔ 
گھر سے نکلتے ہوئے، اگر تیرا دل ظالم کی ملاقات سے لرزاں ہے تو اپنے دن کا آغاز فجر کی با جماعت نماز کی ادائیگی سے کر۔ اللہ تعالیٰ تیرا محافظ اور ساتھی بن جائے گا۔ 
اگر تیرا دل سفر کے خطرات اور اس کی وحشتوں سے گھبراتا اور لرزتا ہے تو تجھ کو چاہیے کہ اپنے دن کا آغاز فجر کی نماز سے کر تو اللہ کی حفاظت اور اس کی پناہ میں آ جائے گا۔ 
تو اپنی اولاد کے آگ (جہنم) میں جھونکے جانے کے خوف میں مبتلا ہے تو تجھے چاہیے کہ فجر کی نماز وقت پر ادا کر اور اپنے اہل خانہ کو بھی اس کا حکم دے اور اس بات پر استقامت اختیار کر۔ تو اور تیرے اہل خانہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت و نگہبانی میں آ جائیں گے۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’جو عشاء میں حاضر ہوا گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جو صبح کی نماز میں حاضر ہوا گویا اس نے تمام رات قیام کیا۔‘‘ 
(مسلم: 1491) 
سیدنا عمر فاروق 
رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: 
’صبح کی باجماعت نماز ادا کرنا میرے نزدیک تمام رات قیام کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ 
(مؤطا امام مالک: 126/1) 
ہمارے اسلاف عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت پڑھتے تھے، حالانکہ رات کا قیام بھی ان کا معمول تھا، لیکن یہ قیام لیل ان کی ہمتوں کو کبھی پست نہیں کرتا تھا۔ 
صحیح مسلم اور مسند أحمد میں روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے فرمایا: 
’’طلوع شمس سے پہلے اور غروب شمس سے پہلے نماز ادا کرنے والا جہنم میں ہرگز داخل نہیں ہو گا۔‘‘ 
(مسلم بشرح النووي، کتاب المساجد، مسند أحمد: 136/4) 
گویا فجر اور عصر کی با جماعت نماز کی ادائیگی جہنم کی آگ سے بچاتی ہے۔ یہ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے۔ اُن کے فرمان سے بڑھ کر سچا اور راحت بخش فرمان اور کس شخص کا ہو سکتا ہے۔۔۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’من صلی البردین دخل الجنۃ‘ 
’’جس نے بردین (دو ٹھنڈک والی) نمازیں ادا کیں وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ 
(صحیح البخاری: 574) 
بردین سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔ برد سے مراد ٹھنڈک ہے۔ ان دو نمازوں کو بردین اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جس وقت ان کی ادائیگی ہوتی ہے اس وقت دن ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور سورج کی حرارت کم ہو جاتی ہے۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’’فجر کی دو رکعتیں تمام دنیا سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘ 
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ 
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں فرمایا: 
’’یعنی یہ رکعتیں مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘

چار شادیوں کے چودہ فائدے

ایس اے ساگر
اسلام میں چار نکاح کی اہمیت و حکمت کیا ہے؟

چار نکاح کی اجازت کیا ہر ایک مرد کے لئے ہے یا کوئی تخصیص ہے؟


بحوالہ مدلل اس پر روشنی ڈالیں

الجواب وباللہ التوفيق :
حامدا و مصلیا ومسلما 
شریعت مطہرہ اور دین اسلام ایک مکمل مذہب ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں پوری پوری رہنمائی کرتاہے ،اور یہی مابہ الامتیاز چیز ہے دوسرے ادیان سے کہ انکے ادیان کچھ رسموں میں سمٹے ہوئے ہوتےہیں ۔
اسی میں سے ایک نکاح ہے کہ شریعت کے یہاں اس کا بہت صاف ستھرا نظام ہے اور جو اس پر اعتراض کرتےہیں در حقیقت ان کو مذہب اسلام سے حسد ہے چنانچہ اسی تعلق سے اعتراضات میں ایک یہ تعدد ازواج ہے جو آج بڑا بحث کا محور بن گیا ہے ۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تعدد ازواج یہ انسان کا فطری تقاضا ہے اور اس سے انکار فطرت انسانی سے ناواقفیت ہے ،چنانچہ اسکی حکمتوں کو بیان کیا گیا ہے ۔
صاحب کتاب النوازل حضرت مفتی سلمان منصورپوری صاحب نے حضرت تھانوی ؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے ،
(۱) تقویٰ کا حصول :
شریعت کی نظر میں پاکدامنی اور گناہوں سے پاک زندگی کی بڑی اہمیت ہے اور جابجا اسے اجاگر کیاگیاہے اور ایک سے زائد نکاح اس مقصد میں بہت معین ہے 
چنانچہ عورتیں ہر حالت میں یکساں نہیں رہتیں بلکہ ان کو کئی ایسے حالات سے سابقہ پڑتا ہے جس میں وہ شوہر کے لئے استمتاع کے کام کی نہیں رہتیں ،
ان کو ہر ماہ ۵،۷ دن حیض آتا ہے جس میں صحبت ممنوع ہے اور حمل کا وقت ایسا ہوتاہے جس میں صحبت نقصان دہ ہوتی ہے اور یہ زمانہ بھی لمبا ہوتاہے 
اب اسکے علاج کی دو شکلیں ہیں 
یاتو مرد کو کہیں بھی اپنے تعلقات قائم کرکے جنسی ضرورت پوری کرنے کی اجازت دے دی جائے جیساکہ یورپ اور مغرب کی تہذیب ہے،کہ وہاں نکاح ثانی تو معیوب ہے البتہ آپ نکاح کے علاوہ کہیں بھی تعلقات رکھیں 
دوسری شکل ہے کہ مرد ایک نکاح اور کرلے اور حلال طریقے سے جنسی تعلقات قائم کرے اور پھر دوسری کے حقوق بھی ادا کریں صرف خواہش کرکے ختم نہ کردے ۔
یہ دو میں سے ظاہر ہے ہر عقلمند کا فیصلہ ہوگا کہ دوسری شکل ہی زیادہ بہتر ہے ۔
(۲) دوسری حکمت حفظ القویٰ ;
مردوں کو اللہ تعالٰی نے فطری طور پر زیادہ قوت عطا فرمائی ہے اور عورت فطرتا کمزور ہے تو مرد کی جنسی تکمیل کے لئے بھی ایک سے زائد نکاح کی اجازت دینا عین عقل کے مطابق ہے 
(۳) تیسری حکمت زوجین میں عدم توافق :
کبھی ایسا ہوتاہے کہ مرد،عورت دونوں نیک اور اپنی جگہ صحیح ہوتےہیں لیکن آپس میں مزاج میں یگانگت و یکسانیت نہیں ہوتی تو اس میں دو صورتیں ہیں :۔کہ یا تو اس پہلی کو چھوڑ دے اور دوسری کرلے 
یا دوسرا نکاح اسکے باقی رہتے ہوئے کرلے ہر عقلمند فیصلہ کرسکتاہے کہ دوسری صورت زیادہ بہتر ہے 
(۴) چوتھی وجہ بانجھ پن :
اگر پہلی بیوی میں اولاد کی طاقت نہیں اور ہر مرد کو اولاد کے حصول کا جذبہ فطری ہوتاہے حتی کہ انبیاء علیہم السلام نے اولاد کے لئے دعائیں کی ہیں تو اب یاتو اسے چھوڑ دے یا اس کو رکھتے ہوئے دوسری کرلے ،ظاہر ہے دوسری صورت بہتر ہے 
(۵) کثرت بنات :
بعض جگہ عورتوں کی بڑی کثرت ہوتی ہیں خود ہمارے یہاں ہی دیکھ لیں کہ کس ودر عورتیں ہیں 
ایسے وقت میں بہتر یہی ہے کہ ایک سے زائد نکاح کی اجازت دیدی جائے تاکہ عورتیں بے نکاح رہ کر گھٹ گھٹ کر زندگی نہ گزاریں 
(۶) بعض مرتبہ حکام و امراء کے لئے تعدد نکاح ایک سیاسی مصلحت بن جاتی ہے جس سے بہت سے فائدے ہوجاتے ہیں 
تاریخ اسکی شاہد ہے، خود نبیﷺ کے حضرت صفیہ رض سے نکاح کرنے کی بناپر سو گھرانے آزاد ہوگئے تھے 
(۷) زنا سے اجتناب :
جہاں نکاح ثانی ممنوع ہوگا اور بیوی صحبت کی متحمل نہ ہوگی تو زنا کے دروازے کھلیں گے اور جہاں نکاح ہوگا بدی کا دروازہ بند ہوگا ۔
(۸) نکاح کا ایک اہم مقصد افزائش نسل ہے جو زیادہ عورتوں کی صورت میں باحسن وجوہ پورا ہوگا 
(کتاب النوازل ص ۱۸۷ ملخصا )
اور غور کیا جائے تو اسلام نے عورتوں کی حفاظت کی اور انکو کھلونا اور ہوس کا ذریعہ بننے سے روکا ہے چنانچہ اسلام سے پہلے شادی میں کوئی حد بندی ہی نہ تھی ،آدمی جتنی چاہے کرتا اور جس کے چاہے حقوق ادا کرتا جسکے چاہے پامال کرتا ،
کئے صحابہءکرام سے منقول ہے ،جب وہ ایمان لائے تو انکے پاس آٹھ،دس بیویاں تھیں نبیﷺ سے فرمایا :
چار کو پسند کرلو باقی کو چھوڑ دو 
اس سے واضح ہوگیا کی اسلام نے تو عورتوں کو تحفظ فراہم کیا ہے ۔
دنیا کے تمام مذاہب نے ایک سے زیادہ بیوی کو قانونی حیثیت دی ہے ،
مشہور اسلامی اسکالر اور محقق ڈاکٹر مصطفٰی سباعی نے اپنی کتاب المراۃ بین الفقہ والقانون میں تحریر فرماتےہیں کہ تمام  قدیم اقوام مثلاﹰ یونانیوں چینیوں ہندوﺅں بابلیوں اشوریوں اور مصریوں میں بھی اس کا رواج موجود تھا لیکن بیویوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی، چینی مذہب لبکی میں ایک سو تیس بیویاں رکھنے کی اجازت تھی اور بعض چینی سربراہوں کے یہاں تین ہزار بیویاں تھیں۔
قدیم

ہندوستان میں بھی ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا چلن تھا ،
۱۔شری رام چندر جی کی اولاد مہاراجہ دسرتھ کی تین بیویاں تھیں ۔
۲۔شری کرشن جی کی سینکڑوں بیویاں تھیں 
(ماخوذ از سہ ماہی خبرنامه مسلم پرسنل لا بورڈ اپریل تا جون ۲۰۱۶ )
ان تفصیلات سے معلوم ہوگیا کہ یہ چیز تمام مذاہب میں رائج تھی 

اب یہ سوال کہ کیا ہر ایک کے لئے ہے یا تخصیص ہے :
تو شریعت نے ایک سے زائد نکاح کے لئے بڑی شرطیں لگائی ہیں 
(۱) عدل ،تمام بیویوں میں مساوات و برابری بہت ضروری ہے 
(۲) حقوق کی ادائیگی پر قدرت 
جس کو ان دو میں سے کسی ایک کی بھی قدرت نہ ہو اسکو ایک سے زائد نکاح کرنا جائز نہیں 
(ماخوذ از معارف القرآن۲،۲۹۴ )
دیکھئے اسلام نے ہر طرح سے عورت کے تحفظ اور اسکے لئے ہر طرح سے اچھا انتظام کیا ،بس شرط ہے کہ انصاف سے دیکھا جائے
والله سبحانہ اعلم  

ابراہیم علیانی
آج کا سوال نمبر 196
23 محرم الحرام ؁ھ1438 مطابق
25اکتوبر ؁ع2016 بروز سہ شنبہ۔۔
............................................................................................
بعض کے نزدیک ایک بیوی پر اکتفاء مناسب نہیں ہے کیونکہ امت کی تعداد میں اضافہ بھی ضروری ہے، تجربہ کی بات یہ ہے کہ اگر جسم میں مردانگی ہو اور کمائی بھی ہو اور دو بیویوں کو سنبھالنے جی صلاحیت بھی تو پھر دو کیا چار بھی کر لینی چاہئے کہ اس سے سب مل کر شوہر کو خوش کرنے کی چکر میں رہیں گی. دو تو کم از کم ہونا چاہئیں، قران پاک میں بھی اوّل حکم دو سے نکاح کا ہے، 
غور کیاجاۓ آیت میں 
فانکحوا مَا باب لکم من النساء مثنی
دو سے شادی کرنے کا حکم دیا تو پتہ چلا کہ شریعت کا تقاضا تعدد کا ہے اور کم سے کم دو ہی کا ہے پھر تین پھر چار، اگر عدل نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو پھر فواحدہ کہا گیا ہے.
ورنہ اصل تو تعدد ہی کو شریعت چاہتی ہے.
إِنَّ الْعَدْلَ بَيْنَ اثْنَتَيْنِ مُسْتَحِيلٌ ; لِأَنَّهُ عِنْدَمَا يَتَزَوَّجُ الْجَدِيدَةَ لَا بُدَّ أَنْ يَكْرَهَ الْقَدِيمَةَ، فَكَيْفَ يَعْدِلُ بَيْنَهُمَا، وَاللهُ أَمَرَ بِالْعَدْلِ، فَالْأَحْسَنُ وَاحِدَةٌ،
اللہ تعالٰی تم کو بہتر بدلہ دے، آپ کا فورا نکاح کردے اور کنواری عورت سے شادی کروادے اور اللہ آپ کو چار ،چار دیدے.
شیخ محمد صالح المنجد 14022: تعدد زوجات کا حکم اوراس کی حکمت
اللہ سبحانہ وتعالی نے رسالت کو دین اسلام کے ساتھ ختم کیا ہے اور یہ وہی دین اسلام ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے یہ بتایا کہ اس کے علاوہ کوئی اور دین قابل قبول نہيں ہوگا۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا ہے:
{بلاشبہ اللہ تعالی ہاں دین تو اسلام ہی ہے اور جو کوئی بھی دین اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اوروہ آخرت میں بھی خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا} 
آل عمران (85) ۔
تعدد زوجات کے بارہ میں حکم ، پھر اس کی حکمت اورغرض و غایت بھی آپ کے سامنے ہے
اول :
دین اسلام میں تعدد زوجات کاحکم:
تعدد کی اباحت اوراس کے جواز میں شرعی نصوص :
اللہ تبارک وتعالی نے اپنی کتاب عزیز قرآن مجید میں فرمایا ہے:
{اور اگرتمہیں یہ خدشہ ہوکہ تم یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے انصاف نہیں کرسکوں گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمھیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو ، دو دو ، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمھیں برابری اور عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈي ، یہ زيادہ قریب ہے کہ تم ایک طرف جھک پڑنے سے بچ جاؤ} 
النساء ( 3 ) ۔
تو تعدد کے جواز میں یہ نص ہے اور اس آیت سے اس کے جواز پر دلیل ملتی ہے، لہذا شریعت اسلامیہ میں یہ جائز ہے کہ وہ ایک عورت یا پھر دو یا تین یا چار عورتوں سے بیک وقت شادی کرلے، یعنی ایک ہی وقت میں اس کے پاس ایک سے زیادہ بیویاں رہ سکتی ہيں ۔
لیکن وہ ایک ہی وقت میں چار بیویوں سے زيادہ نہیں رکھ سکتا اورنہ ہی اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، مفسرون، فقہاء عظام اور سب مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کسی نے بھی اس میں کوئي اختلاف نہيں کیا۔
اور یہ بھی علم میں ہونا چاہئے کہ تعدد زوجات کے لیے کچھ شروط بھی ہیں: ان میں سے سب سے پہلی شرط عدل ہے :
اول : عدل :
اس کی دلیل اللہ سبحانہ و تعالی کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :
{تو اگر تمھيں یہ خدشہ ہو کہ تم ان کے درمیان برابر اور عدل نہیں کرسکتے تو پھر ایک ہی کافی ہے} النساء ( 3 ) ۔
تواس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تعدد زوجات کے لیے عدل شرط ہے ، اوراگرآدمی کویہ خدشہ ہو کہ وہ ایک سےزیادہ شادی کرنے کی صورت میں عدل و انصاف نہیں کرسکے گا تو پھر اس کےلیے ایک سے زيادہ شادی کرنا منع ہے ۔
اور تعدد کے جواز کے لیے جو عدل اور برابری مقصود اور مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اسے اپنی بیویوں کے مابین نفقہ، لباس، اور رات بسر کرنے وغیرہ اور مادی امور جن پر اس کی قدرت اور استطاعت ہے میں عدل کرنا مراد ہے۔
اور محبت میں عدل کرنے کے بارہ میں وہ مکلف نہیں اور نہ ہی اس چيز کا اس سے مطالبہ ہے اور نہ ہی وہ اس کی طاقت رکھتا ہے اور پھر اللہ تعالی کے مندرجہ ذيل فرمان کا بھی یہی معنی ہے :
{اور تم ہرگز عورتوں کے مابین عدل نہیں کرسکتے اگرچہ تم اس کی کوشش بھی کرو} النساء (129) ۔
دوم : دوسری شرط:
بیویوں پرنفقہ کی قدرت (خرچہ کرنے کی استطاعت):
اس شرط کی دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب عزيز میں کچھ اس طرح فرمایا ہے:
{اور ان لوگوں کو پاکدامن رہنا چاہئے جو اپنا نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتے حتی کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے} النور ( 33 )

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا ہے کہ جو بھی نکاح کرنے کی استطاعت اورطاقت رکھتا ہو اور اسے کسی قسم کا مانع نہ ہو تو وہ پاکبازی اختیار کرے، اور نکاح کے مانع اشياء میں یہ چيزيں داخل ہيں:
جس کے پاس نکاح کرنے کے لیے مہر کی رقم نہ ہو، اورنہ ہی اس کے پاس اتنی قدرت ہو کہ وہ شادی کے بعد اپنی بیوی کا خرچہ برداشت کرسکے ۔
دیکھیں المفصل فی احکام المراۃ ( 6 / 286 ) ۔
دوم :
تعدد نکاح کی اباحت میں حکمت:
1 – تعدد اس لیے مباح کیا گیا ہے کہ امت مسلمہ کی کثرت ہوسکے ، اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ کثرت شادی کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور ایک بیوی کی بہ نسبت اگر زيادہ بیویاں ہوں تو پھر کثرت نسل میں بھی زيادتی ہوگی۔
اور عقلمندوں کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ افراد کی کثرت امت کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے ، اورپھر افرادی قوت کی زيادتی سے کام کرنے کی رفتار بھی بڑھے گی جس کے سبب سے اقتصادیات بھی مضبوط ہوں گی –لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ حکمران ملک میں اگر تدبیری امور صحیح جاری کریں اورموارد سے صحیح طور پر نفع اٹھائيں توپھر-
آپ ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئيں کہ جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ افراد کی کثرت سے زمین کے موارد کو خطرہ ہے اور وہ انہیں کافی نہیں رہيں گے، یہ ان کے بات غلط ہے اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی حکیم و علیم ہے جس نے تعدد کو مشروع کیا اور اپنے بندوں کے رزق کی ذمہ داری بھی خود ہی اٹھائی، اور زمین میں وہ کچھ پیدا فرمایا جو ان سب کے لیے کافی ہے بلکہ اس سے بھی زيادہ ہے، اور اگر کچھ کمی ہوتی ہے تو وہ حکومتوں اور اداروں کے ظلم و زیادتی اور غلط قسم کی پلاننگ کی وجہ سے ہے ۔
مثال کے طور پر آپ سکان اور افرادی قوت کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک چین کو ہی دیکھیں جو کہ اس وقت پوری دنیا میں سب سے قوی ملک شمار کیا جاتا ہے، بلکہ کئی ہزار گناہ شمار ہوتا ہے، اور اسی طرح دنیا کا سب سے بڑا صنعتی ملک بھی چین ہی شمار ہوتا ہے، توکون ہے جو چین پر چڑھائی کرنے کا سوچے اور اس کی جرات کرے کاش ؟ اور پھر کیوں ؟
2 - سروے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہيں زيادہ ہے، تواس طرح اگر ہر مرد صرف ایک عورت سے ہی شادی کرے تو اس کا معنی یہ ہوا کہ کتنی ہی عورتوں شادی کے بغیر بچ جائيں گے جو کہ معاشرے اور بذات خود عورت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا ۔
عورت ذات کو جو نقصان پہنچے گا وہ یہ کہ اس کے پاس ایسا خاوند نہیں ہوگا جو اس کی ضروریات پوری کرے اور اس کے معاش اور رہائش وغیرہ کا بندوبست کرے اور حرام قسم کی شہوات سے اسے روک کر رکھے ، اور اس سے ایسی اولاد پید کرے جو کہ اس کی آنکھوں کے لیے ٹھنڈک ہو، جس کی بنا پر وہ غلط راہ پر چل نکلے گی اور ضائع ہوجائے گی سوائے اس کے جس پر آپ کے رب کی رحمت ہو ۔
اور جو کچھ معاشرے کو نقصان اور ضرر ہوگا وہ یہ ہے کہ سب کو علم ہے کہ خاوند کے بغیر بیٹھی رہنے والی عورت سیدھے راستے سے منحرف ہوجائے گی اور غلط اور گندے ترین راستے پر چل نکلے گی، جس سے وہ عورت زنا اور فحش کام میں پڑ جائے گی– اللہ تعالی اس سے بچا کررکھے– اور معاشرے میں فحاشی اور گندے ترین ایڈز اور اس جیسے دوسرے متعدی امراض پھیلیں گے جن کا کوئی علاج نہیں، اور پھر خاندان تباہ ہوں گے اورحرام کی اولاد بہت زيادہ پیدا ہونے لگے گی جسے یہ علم ہی نہیں ہوگا کہ ان کا باپ کون ہے ؟
تو اس طرح انھیں نہ تو کوئی مہربانی اور نرمی کرنے والا ہاتھ ہی میسر ہوگا، اور نہ ہی کوئی ایسی عقل ملے گی جو ان کی حسن تربیت کرسکے، اور جب وہ اپنی زندگی کا آغاز کریں اور اپنی حقیقت حال کا انہیں علم ہوگا کہ وہ زنا سے پیدا شدہ ہیں تو ان کے سلوک پر برا اثر پڑے گا اور وہ الٹ جائيں اور پھر انحراف اور ضائع ہونا شروع ہوجائيں گے ۔
بلکہ وہ اپنے معاشرے پر وبال بن جائيں گے اور اسے سزا دیں گے، اور کسے معلوم ہوسکتا کہ وہ اپنے معاشرے کی تباہی کے لیے کدال بن کر اسے تباہ کرکے رکھ دیں ، اور منحرف قسم کے گروہوں کے لیڈر جن جائيں، جیسا کہ آج دنیا کے اکثر ممالک کی حالت بن چکی ہے۔
3 - مرد حضرات ہر وقت خطرات سے کھیلتے رہتے ہیں جوکہ ہوسکتا ہے ان کی زندگی ہی ختم کردے ، اس لیے کہ وہ بہت زيادہ محنت ومشقت کےکام کرتے ہیں ، کہیں تووہ لڑائيوں میں لشکر میں فوجی ہیں ، تومردوں کی صفوں میں وفات کا احتمال عورتوں کی صفوں سے زيادہ ہے ، جوکہ عورتوں میں بلاشادی رہنے کی شرح زیادہ کرنے کا باعث اورسبب ہے ، اوراس کا صرف ایک ہی حل تعدد ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائيں ۔
4 – مردوں میں کچھ ایسے مرد بھی پائے جاتے ہيں جن کی شھوت قوی ہوتی ہے اورانہیں ایک عورت کافی نہیں رہتی ، تواگر ایک سے زيادہ شادی کرنے کا دروازہ بند کردیا جائے اوراس سے یہ کہا جائے کہ آپ کو صرف ایک بیوی کی ہی اجازت ہے تو وہ بہت ہی زيادہ مشقت میں پڑجائے گا، اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی شھوت کسی حرام طریقے سے پوری کرنے لگے ۔
آپ اس میں یہ بھی اضافہ کرتے چلیں کہ عورت کوہرماہ حیض بھی آتا ہے اورجب ولادت ہوتی ہے توپھر چالیس روز تک وہ نفاس کی حالت میں رہتی ہے جس کی بنا پر مرد اپنی بیوی سے ہم بستری نہیں کرسکتا ، کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حيض اورنفاس کی حالت میں ہم بستری یعنی جماع کرنا حرام ہے ، اورپھر اس کا طبی طور پر بھی نقصان ثابت ہوچکا ہے ، تو اس لیے جب عدل کرنے کی قدرت ہوتو تعدد مباح کردیا گیا ۔
5 - یہ تعدد صرف دین اسلامی میں ہی مباح نہیں کیا گيا بلکہ پہلی امتوں میں بھی یہ معروف تھا ، اوربعض انبیاء علیھم السلام کئي عورتوں سے شادی شدہ تھے، دیکھیں اللہ تعالی کے یہ نبی سلیمان علیہ السلام ہیں جن کی نوے بیویاں تھیں، اورعھد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کئي ایک مردوں نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس آٹھ بیویاں تھیں اوربعض کی پانچ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے چار کورکھیں اورباقی کوطلاق دے دیں ۔
6 – ہوسکتا ہے ایک بیوی بانجھ ہو یا پھر خاوند کی ضرورت پوری نہ کرسکے، یا اس کی بیماری کی وجہ سے خاوند اس سے مباشرت نہ کرسکے ، اورخاوند کوئي ایسا ذریعہ تلاش کرتا رہے جوکہ مشروع ہو اور وہ اپنی ازواجی زندگی میں اپنی خواہش پوری کرنا چاہے جوکہ اس کے لیے مباح ہے تواس کے لیے اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ دوسرے شادی کرے ۔
تواس لیے عدل و انصاف اوربیوی کے بھلای یہی ہے کہ وہ بیوی بن کر ہی رہے اور اپنے خاوند کو دوسری شادی کرنے کی اجازت دے دے ۔
7 - اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت آدمی کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوجس کا کوئي اعالت کرنے والا نہ ہو اور وہ شادی شدہ بھی نہیں یا پھر بیوہ ہو اوریہ شخص خیال کرتا ہوکہ اس کے ساتھ سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ وہ اسے اپنی بیوی بنا کر اپنے ساتھ اپنی پہلی بیوی کےساتھ گھر میں رکھے تا کہ اس کے لیے عفت و انفاق دونوں جمع کردے جوکہ اسے اکیلا چھوڑنے اوراس پر خرچ کرنے سے زيادہ بہتر ہے ۔
8 - کچھ مشروع مصلحتیں جو تعدد کی دعوت دیتی ہيں :
مثلا دوخاندانوں کے مابین روابط کی توثیق ، یا پھر کسی جماعت اورکچھ افراد کے رئیس اوران کے مابین راوبط کی توثیق، اوروہ یہ دیکھے کہ یہ غرض شادی سے پوری ہوسکتی ہے اگرچہ اس پرتعدد ہی مرتب ہو یعنی اسے ایک سے زيادہ شادیاں کرنی پڑیں ۔
اعتراض :
ہوسکتا ہے کوئی اعتراض کرتاہوا یہ کہے :
تعدد یعنی ایک سے زائد بیویاں کرنے میں ایک ہی گھر میں کئي ایک سوکنوں کا وجود پیدا ہوگا ، اوراس بنا پر سوکنوں میں دشمنی و عداوت اورفخر ومقابلہ پیدا ہوجائے گا جس کا اثر گھر میں موجود افراد یعنی اولاد اور خاوند پربھی ہوگا، جوکہ ایک نقصان دہ چيز ہے ، اورضرر ختم ہوسکتا ہے اوراسے ختم کرنے کے لیے تعدد زوجات کی ممانعت ضروری ہے ۔
اعتراض کا رد :
اس کا جواب یہ ہے کہ :
خاندان میں ایک بیوی کی موجودگی میں بھی نزاع اورجھگڑا پیدا ہوسکتا ہے، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک سے زيادہ بیویاں ہونے کی صورت میں نزاع اورجھگڑا پیدا نہ ہو ، جیسا کہ اس کا مشاہدہ بھی کیاگيا ہے ۔
اوراگرہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ایک بیوی کی بنسبت زیادہ بیویوں کی صورت میں نزاع اورجھگڑا زيادہ پیدا ہوتا ہے ، تواگرہم اس جھگڑے کوضرر اورنقصان اورشر بھی شمار کرلیں تویہ سب کچھ بہت سی خير کے پہلو میں ڈوبا ہوا ہے ، اورپھر زندگی میں نہ توصرف خير ہی خير ہے اورنہ ہی صرف شر ہی شر ، مطلب یہ ہے کہ مقصود و مطلوب وہ چيز ہے جو کہ غالب ہو تو جس کے شر پر خیر اوربھلائی غالب ہوگی اسے راجح قرار دیا جائے گا ، اورتعدد میں بھی اسی قانون کومد نظر رکھا گيا ہے ۔
اورپھر ہر ایک بیوی کا مستقل اورعلیحدہ رہنے کا شرعی حق ہے ، اورخاوند کے لیے جائز نہيں کہ وہ اپنی بیویوں کو ایک ہی مشترکہ گھرمیں رہنے پر مجبور کرے ۔
ایک اوراعتراض :
جب تم مرد کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مباح کرتے ہو توپھر عورت کے لیے تعدد کیوں نہیں ، یعنی عورت کویہ حق کیوں نہیں کہ ایک سے زیادہ آدمیوں سے شادی کرسکے ؟
اس اعتراض کا جواب :
عورت کواس کا کوئي فائدہ نہيں کہ اسے تعدد کا حق دیا جائے ، بلکہ اس سے تو اس کی قدر اورعزت میں کمی واقع ہوگی ، اوراس کی اولاد کا نسب بھی ضائع ہوگا ، اس لیے کہ عورت نسل بننے کا مستودع ہے ، اورنسل کا ایک سے زيادہ مردوں سے بننا جائز نہیں اورپھر اس میں بچے کے نسب کا بھی ضياع ہے ۔
اوراسی طرح اس کی تربیت کی ذمہ داری بھی ضائع ہوگی اورخاندان بکھر جائے گا اولاد کے لیے باپ کے روابط ختم ہوجائيں گے جوکہ اسلام میں جائز نہیں ، اوراسی طرح یہ چيز عورت کی مصلحت میں بھی شامل نہيں اورنہ ہی بچے اورمعاشرے کی مصلحت میں ہے۔
دیکھیں المفصل فی احکام المراۃ ( 6 / 290 ) ۔
واللہ اعلم .


Tuesday, 29 November 2016

اَللّٰھُمَّ خَالِف بَینَ کَلِمَتِھِم

ایس اے ساگر

ان دنوں امت کو ہر طرف سے مصائب اور دشواریوں کا سامنا ہے. گذشتہ روز حسن تو حید قاسمی، رکن دارالعلوم وقف دیو بند کے حوالہ سے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کو بند کئے جانے سے ملک میں پیدا ہونے والے معاشی بحران میں بیس دن گذر جانے کے باوجود خاطر خواہ بہتری نہیں آئی ہے اور حالات سے ایسا اندازہ لگا یا جارہا ہے کہ جلدی معمولات پٹری پر لوٹ بھی نہیں پائینگے ۔ نوٹ بندی سے جہاں، عام آدمی، تجارتی مراکز اور چھوٹی بڑی صنعتیں مکمل طورپر تنزلی طرف چلی گئی وہیں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی نظام الحمداللہ معمولات کے مطابق جاری وساری ہے لیکن وقتی پریشانیوں اور بینکا ر اہلکاروں کے نارواسلوک سے یہ الہامی ادارہ بھی پوری طرح متاثرہے۔ ادارہ نے جہاں موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تمام تعمیراتی کاموں کو بند کردیا ہے وہیں ملک بھر سے تمام سفراء کو بھی واپس بلالیا گیاہے۔گزشتہ 8؍ نومبر کو پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کی بندی کے بعد پورے ملک میں اقتصادی بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی ،جس کا اثر یقینی طورپر ازہر ہند دارالعلوم دیوبند اور اس کے جیسے اداروں بر بھی پڑا۔ دارالعلوم دیوبند کے محاسبی اور تنظیم و ترقی محکمہ کے کارکنان مسلسل بینکوں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن انہیں بھی وہی رقومات فراہم کرائی جارہی ہیں جس کی ہدایت آر بی آئی کی طرف ایک عام آدمی کے لئے ہے،یعنی ایک کھاتہ سے ہفتہ بھر میں محض چوبیس ہزار روپے ہی دیئے جارہے ہیں، کئی بینکوں کا عالم تو یہ ہے وہ ادارے کے کارکنان کے ساتھ بدسلوکی تک کررہے ہیں، جس سے عوام میں سخت غم و غصہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند جیسے کروڑوں کے بجٹ والے ادارے کو گزشتہ بیس یوم میں اپنے بینک کھاتوں سے محض تین لاکھ روپے کی ہی آمد ہوئی ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں بشمول تنخواہیں نو سے دس لاکھ روپے تک کے یومیہ اخراجات ہیں لیکن بینک کھاتوں سے ملنے والی حکومت کی جانب سے مختص کردہ رقم اس ضخیم بجٹ کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے، باوجوداس کے الحمد اللہ ادارے میں تمام علمی سرگرمیاں اور مطبخ کا نظام معمول کے مطابق جاری ہیں۔ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت ادارہ کے ذمہ داران شدید مشکلات سے گذر رہے ہیں اور ان کے سامنے مسائل کاانبار ہے، جہاں ادارہ میں یومیہ دہاڑی لگانے والے اجیران کو ان کا محنتانہ دینے میں دقتیں پیش آرہی ہیں وہیں تقریباً پانچ سو سے زائد ملازمین و کارکنان کی تنخواہیں دینے کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا، حالانکہ انتظامیہ نے پہلی فرصت میں دانشمندانہ قدم اٹھاتے ہوئے سرکولر جاری کرکے تمام اساتذہ اورکارکنان کے سیلری اکاؤنٹ ایچ ڈی ایف سی بینک میں کھلوا دیئے ہیں اور وظیفہ حاصل کرنے والے طلباء کو بینکوں میں کھاتے کھلوانے کی ہدایت دے دی ہے۔ تاہم ملک بھر سے تمام سفراء کو واپس بلا لیا گیا ہے اور نوٹ بندی کے بعد ادارہ کے دفتر تنظیم و ترقی کی آمدنی نہ کے برابر ہوگئی ہے۔ حالانکہ تعمیرات پر اس وقت مکمل طریقہ سے روک لگا دی گئی ہے لیکن ضروری اخراجات بشمول مہمانوں کی آمدورفت، مطبخ اور طلباء و کارکنان کی بنیادی ضروریات کو تکمیل میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق سنبھلی کے مطابق دارالعلوم دیوبند کی تمام ضروریات اللہ کی رحمت اور بہی خواہان کے تعاون سے پوری ہوتی ہیں اور انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ نوٹ بندی کے سبب وقتی پریشانیاں آرہی ہیں، جس کے سبب ادارہ اپنے ہی کھاتوں سے ضرورت کے مطابق رقم نہیں نکال پارہاہے، لیکن انتظامیہ مسلسل بینکوں کے رابطہ میں ہے تاکہ کھاتوں سے ضرورت کے مطابق رقم حاصل ہوسکے، انھوں نے کہا کہ بہر حال وقتی طورپر ادارہ کے سامنے بڑے مسائل ضرور پیدا ہوگئے ہیں لیکن امید ہے کہ اللہ تعالیٰ غائبانہ طور پر ادارے کے تمام مسائل حل فرمائینگے۔ ادھر دارالعلوم وقف دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، دارلعلوم زکریادیوبند، جامعہ امام محمد انور شاہ، جامعۃ الشیخ جیسے اداروں کاحال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہم تمام بہی خواہان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس نازک گھڑی میں دارالعلوم دیوبند جیسے اداروں کی بڑھ چڑھ کر معاونت کریں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں کیا دعائے قنوت کا اہتمام نہیں کیا جانا چاہئے؟

کن صورتوں میں پڑھی جاتی ہے قنوت نازلہ؟

اہل علم حضرات کے نزدیک قنوتِ نازلہ پڑھنے کے مواقع حسب ذیل ہیں؛
١. جب مسلمانوں پر کوئی عام اور عالمگیر مصیبت نازل ہو جائے مثلاً غیر مسلم حکومتوں کی طرف سے حملہ اور تشدد ہونے لگے اور دنیا کے سر پر خوفناک جنگ چھا جائے یا دیگر بلائوں اور بربادیوں اور ہلاکت خیز طوفانوں میں مبتلا ہو جائے یا طاعون کی وبا پھیل جائے تو ایسی مصیبت کے دفعیہ کے لئے فرض نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھی جائے اور جب تک وہ مصیبت دفع نہ ہو جائے یہ عمل برابر جاری رہے اس کا جواز جمہور ائمہ کے نزدیک عموماً اور حنفیہ کے نزدیک خصوصاً باقی ہے اور منسوخ نہیں ہے اور اس کے ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت اور ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز اور حقوق العباد کی ادائگی کا پورا پورا لحاظ رکھیں اور ہر بات میں شرعیتِ مقدسہ کی پابندی کا خیال رکھیں اور اخلاص و خشوع و خضوع سے دعا کریں اللّٰہ پاک اس .عام بلا و مصیبت سے نجات عطا فرمائے گا وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز
٢. احناف کی نزدیک تین جہری نمازوں میں قنوتِ نازلہ کا پڑھنا مذکور ہے دیگر ائمہ خصوصاً شافعی پانچوں نمازوں میں اس کو جواز کے قائل ہیں اس لئے پانچوں نمازوں میں پڑھنے والوں پر اعتراض نہ کیا جائے
٣. اولٰی مختار یہ ہے کہ قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی جائے پس فجر کی دوسری رکعت ، مغرب کی تیسری رکعت اور عشا کی چوتھی رکعت میں رکوع کے بعد سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہہ کر امام دعائے قنوت پڑھے اور مقتدی آمین کہتے رہیں دعا سے فارغ ہو کر اللّٰہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائیں اگر دعائے قنوت مقتدیوں کو یاد ہو تو بہتر یہ ہے کہ امام بھی آہستہ پڑھے اور سب مقتدی بھی آہستہ پڑھیں اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ امام دعائے قنوت جہر سے پڑھے اور سب مقتدی آہستہ سے آمین کہتے رہیں دعائے قنوت کے وقت ہاتھ ناف پر باندھے رہیں یہی اولٰی ہے اور اگر ہاتھ چھوڑ کر پڑھیں یا دعا کی طرح سینے کے سامنے ہاتھ اٹھا کر پڑھیں تب بھی جائز ہے
٤. دعائے قنوتِ نازلہ جماعت کے ساتھ فرض نماز میں پڑھی جائے منفرد نہ پڑھے،

کہاں سے ہے ثابت؟

مولانا  ابوالکلام شفیق القاسمی المظاہری‏، استاذ دارالعلوم زکریا، دیوبند رقمطراز ہیں کہ حضرت اقدس مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ متوفی۱۴۱۷ھ کی مجلس میں بندہ موجود تھا، میں نے عرض کیا کہ ہم جو دعاء قنوت پڑھتے ہیں کس کتاب میں ہے؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا الحزبُ الاعظم میں، میں نے عرض کیا کہ حدیث کی کس کتاب میں ہے؟ ارشاد فرمایا: ملا علی قاری نے لکھا ہے، میں نے الحزب الاعظم میں حدیث سے ثابت شدہ دعائیں جمع کی ہیں، حافظ طیب صاحب زیدمجدہم (مکتبہ نعمانیہ دیوبند) پابندی سے بعد نماز عصر حضرت کی مجلس میں شرکت کرتے تھے اور حضرت سے سوالات کرتے رہتے تھے، انھوں نے عرض کیا کہ حضرت ان کا مقصود یہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں سے کس کتاب میں یہ دعاء ہے؟ حضرت رحمة اللہ علیہ نے مصنف ابن ابی شیبہ یا مصنف عبدالرزاق کا حوالہ دیا تھا۔
          چونکہ یہ سوال اور بھی دوستوں کے دل میں آتا رہتا ہے، خیال ہوا کہ ان احادیث کو جمع کردوں، علامہ ابن منظور متوفی (۷۱۱) لکھتے ہیں:
          القنوت کے معنی ہیں: بات چیت سے رک جانا اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی نماز میں دعا کرنے کے ہیں، نیز القنوت کے معنی خشوع اختیار کرنا عبودیت کا اقرار کرنا اور ایسی فرمانبرداری کرنا جس میں نافرمانی نہ ہو اور کہا گیا کہ اس کے معنی کھڑے ہونے کے ہیں۔ ثعلب کہتے ہیں کہ قنوت کے اصلی معنی کھڑا ہونے کے ہیں اور کہا گیا کہ دیر تک کھڑا ہونے کو قنوت کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے:
اللہ کے لئے دیر تک کھڑے رہو۔
          ابوعبیدہ نے کہا کہ قنوت کے اصلی معنی کئی ہیں:
          (۱) کھڑا ہونا، اس سلسلے میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں؛ کیونکہ اس میں کھڑے ہوکر دعا کی جاتی ہے، اس سے زیادہ واضح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ کون سی نماز افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس میں قیام لمبا ہو۔
           نمازی کو قانت کہا جاتا ہے، حدیث میں ہے، مجاہد کی مثال نمازی اور روزے دار کی طرح ہے، حدیث میں ہے کہ ایک گھڑی غور وفکر کرنا رات بھر کھڑے ہوکر عبادت کرنے سے افضل ہے۔ قنوت کا لفظ حدیثوں میں متعدد معانی کے لئے آیا ہے۔ مثلاً فرمانبرداری، خشوع، نماز، دعا، قیام، لمباقیام خاموشی اختیار کرنا؛ چنانچہ حسب موقع ان معانی کا استعمال حدیثوں میں کیاگیاہے۔ ابن سیدہ نے کہا: قنوت کے اصلی معنی اطاعت کے ہیں، اللہ کا ارشاد ہے فرمانبردار مرد فرمانبردار عورتیں، پھر نماز میں کھڑے ہونے کو قنوت کہا گیا اور اسی میں سے وتر کا قنوت قنت اللّٰہ یقنتہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اللہ کی اطاعت کی اللہ کا ارشاد ہے: سب کے سب اس کے فرمانبردار ہیں۔ القانت کے معنی ہیں؛ اللہ کا ذکر کرنے والا اللہ پاک کا ارشاد ہے: بھلا وہ جو بندگی میں لگا ہوا ہے رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے۔ اور کہا گیا کہ القانت کے معنی عابد کے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وہ عبادت گذار عورتوں میں تھیں، لغت میں مشہور یہ ہے کہ قنوت کے معنی دعا کے ہیں۔
          قانت کے حقیقی معنی اللہ کے حکم کو کرنے والا، دعا کرنے والا۔ جب کھڑا ہوتو اس کے ساتھ اس کو خاص کردیا جاتا ہے اور اس کو قانت کہا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ اللہ کا ذکر کھڑے ہوکر کرتا ہے، قنوت کی حقیقت عبادت اور کھڑے ہوکر اللہ سے دعا مانگنے کی ہے۔ تمام عبادتوں پر بھی اس کا اطلاق ہوسکتا ہے؛ کیونکہ عبادتیں اگرچہ سب کی سب قیام کی حالت میں نہیں ہوتیں؛ لیکن کم از کم نیت کے ساتھ بالارادہ ان کو کیا جاتا ہے، اس پر قنوت کا اطلاق کیا جاتا ہے۔(لسان العرب۲/۷۳)
          علامہ شامی نے لکھا ہے کہ دعاء القنوت یہ اضافتِ بیانیہ ہے۔ یعنی قنوت کے معنی بھی دعا کے ہیں اور کلام عرب میں اس طرح بولا جاتاہے۔
          قنوت کا وتر میں اور فرض نمازوں میں پڑھنے کا تذکرہ احادیث سے ثابت ہے۔
          برصغیر میں فرض نمازوں میں پڑھے جانے والے قنوت کو قنوتِ نازلہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ حنفیہ جس قنوت کو پڑھتے ہیں وہ سند کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے:
          (۱)      مصنف عبدالرزاق متوفی ۲۱۱ھ
          (۲)      مصنف ابن ابی شیبہ متوفی ۲۳۵ھ
          (۳)     المراسیل لابی داؤد سجستانی متوفی ۲۷۵ھ
          (۴)     مختصر قیام اللیل محمد بن نصر المروزی ۲۹۴ھ
          (۵)      شرح معانی الآثار امام طحاوی رحمة اللہ علیہ ۳۲۱ھ
          (۶)      الدعاء للطبرانی ۳۶۰ھ
          (۷)     الدعوات الکبیر للبیہقی ۴۵۸ھ
          (۸)     السنن الکبریٰ ۴۵۸ھ
          (۹)      کنزالعمال المتقی الہندی ۹۷۵ھ
          مندرجہ ذیل صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے حنفیہ کا قنوت مروی ہے:
          ۱-       حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
          ۲-       عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
          ۳-       اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ
          ۴-       علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
          ۵-       حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
          ۶-       خالد بن ابی عمران رضی اللہ عنہ
          ۷-       انس بن مالک رضی اللہ عنہ
          رکوع سے قبل قنوت پڑھنے کی روایات مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے:
          الآثار للامام ابی یوسف رحمہ اللہ حدیث نمبر:۳۴۵
          الآثار للامام محمد بن الحسن الشیبانی رحمہ اللہ حدیث نمبر: ۲۱۱
          مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر:۴۹۷۴
          مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر: ۶۹۰۵، ۶۹۷۲، ۶۹۷۵
          مسند احمد حدیث نمبر: ۱۲۷۲۸
          سنن الدارمی حدیث نمبر: ۱۶۳۷
          صحیح البخاری حدیث نمبر: ۹۵۷، ۲۹۹۹، ۳۸۷۰
          صحیح مسلم باب استحباب القنوت فی جمیع الصلاة رقم: ۳۰۱ (۶۷۷۰)
          سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۱۱۸۲، ۱۱۸۳
          سنن ابی داؤد حدیث نمبر: ۱۴۲۹
          سنن نسائی حدیث نمبر: ۱۶۹۹
          شرح مشکل الآثار حدیث نمبر: ۴۵۰۰، ۴۵۰۱، ۴۵۰۳
          عن عطاء عن عبید بن عمیر أن عمر رضی اللّٰہ عنہ قنتا بعد الرکوع: فقال: اللّٰہم اغفرلنا وللمومنین وللمومنات والمسلمین والمسلمات وألّف بین قلوبہم واصلح ذات بینہم وانصرہم علی عدوک وعدوہم․ اللّٰہم العن الکفرة اہل الکتاب الذین یصدون عن سبیلک ویکذبون رسلک ویقاتلون اولیائک․ اللّٰہم خالف بین کلمتہم وزلزل اقدامہم وانزل بہم بأسک الذی لا تردہ عن القوم المجرمین․
بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
          اللّٰہم ایاک نعبد ولک نصلی ونسجد والیک نسعی نحفد ونخشی عذابک الجد نرجو رحمتک ان عذابک بالکافرین ملحق رواہ سعید بن عبد الرحمن بن ابزی عن ابیہ عن عمر فخالف ہذا فی بعضہ السنن الکبری للبیہقی: ۲/۲۹۸․
بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
          اللّٰہم انا نستعینک ونستغفرک ونثنی علیک ولا نکفرک ونخلع ونترک من یفجرک․
          عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد أبزی سے اس کو بیان کیا ہے۔ (الاتقان:۱/۲۲۶)
          علامہ شامی لکھتے ہیں:
          خصوص اللّٰہم انا نستعینک فسنة فقط حتی لو أتی بغیرہ جاز اجماعاً (الدرالمختار واجب الصلاة: ۴۶۸)
          اللّٰہم انا نستعینک کو خصوصی طور پر پڑھنا نماز وتر میں سنت ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی دعا کرے تو جائز ہوجائے گا۔
          قنوت کے مختلف الفاظ احادیث میں مروی ہیں، سب سے قنوت کی سنت ادا ہوجائے گی۔
          حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے تلامذہ کو مندرجہ ذیل قنوت سکھلاتے تھے۔
          حدثنا ابن فضیل عن عطا بن السائب عن ابی عبد الرحمٰن قال: علمنا ابن مسعود أن نقرأ فی القنوت:
          اللّٰہم انا نستعینک ونستغفرک ونثنی علیک الخیر ولا نکفرک ونخلع ونترک من یفجرک اللّٰہم ایاک نعبد ولک نصلی ونسجد والیک نسعی نحفد نرجو رحمتک ونخشی عذابک ان عذاب بالکفار ملحق (مصنف ابن ابی شیبہ رقم: ۶۹۶۵)
          ہمارے ہاں ہندوستان میں جو قنوت پڑھا جاتا ہے اس میں کچھ الفاظ زیادہ بھی ہیں، قنوت صبح کی نماز میں اور وتر دونوں میں پڑھا جاتا ہے۔
          عن ابن جریج قال: اخبرنی من سمع ابن عباس ومحمد بن علی بالخیف یقولان کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقنت بہولاء الکلمات فی صلاة الصبح وفی الوتر باللیل․ (مصنف عبدالرزاق رقم: ۴۹۵۷)
          مجھ کو خبر دی حسن نے حضرت ابن عباس اور محمد بن علی سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر اور رات کی وتر میں مندرجہ ذیل دعا پڑھا کرتے تھے۔
قنوت سے قبل تکبیر کہی جائے گی اور پھر قنوت پڑھا جائے گا
          (۱) عن الثوری عن عبد الأعلیٰ عن ابی عبد الرحمن السلمی أن علیا کبر حین قنت فی الفجر ثم کبر حین رکع․
          ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور پھر صبح کی نماز میں قنوت پڑھی، پھر تکبیر کہی اوررکوع کیا۔ (مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر: ۴۹۶۰)
          حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ قنوت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کے زمانہ میں پڑھی تھی۔
          (۲) عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کان اذا فرغ من القرأة کبر ثم قنت․
          حضرت ابن مسعود جب قرأت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہتے اور پھر دعاء قنوت پڑھتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث:۶۹۴۸)؛
          ایک بار حضرت اقدس مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے پاس، حضرت مولانا ارشاد صاحب مبلغ دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور عرض کیا کہ حضرت قنوت کے بعد دُرود شریف پڑھا جائے گا؟ حضرت نے جواب دیا:
ہاں، انھوں نے کہا کہ:
آپ بھی پڑھتے ہیں؟
حضرت نے جواب دیا:
ہاں!
انھوں نے کہا: کب سے پڑھتے ہیں؟
حضرت نے جواب دیا: جب سے نورالایضاح پڑھی تھی۔
ملاحظہ: اللّٰہم نستعینک اور اللّٰہم اہدنا دونوں کو جمع کرنا مستحب ہے۔ دیکھئے (فتاوی ہندیہ: ۱/۱۱۱)
وصلی اللّٰہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین․

یہ ہے قنوتِ نازلہ؟

اَللَّھُمَ اھدنَا فِیمَن ھَدَیتَ ط وَعَافِنَا فِیمَن عَافَیتَ ط وَتَوَلَنَا فِیمَن تَوَلَّیتَ ط وَبَارِک لَنَا فِیمَااَعطَیتَ ط وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیتَ ط اِنَّکَ تَقضِی وَلَا یُقضَی عَلَیکَ ط وَاِنَّہُ لَا یَذِلُّ مَن وَّ الَیتَ ط وَلَا یَعِزُّ مَن عَادَیتَ ط تَبَارکتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیتَ ط نَستَغفِرُکَ وَنَتُوبُ اِلَیکَ ط وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی النَّبّیِ الکَرِیم ط اَلّٰلھُمَّ اغفِر لَنَا وَلِلمُومِنِینَ وَ المُومِنَاتِ وَ المُسلِمِینَ وَالمُسلِمَاتِ ط وَاَلِّف بَینَ قُلُوبِھِم ط وَاَصلِح ذَاتَ بَینَھُم ط وَانصُرنَا وَ انصُر ھُم عَلٰی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِم ط اَللّٰھُمَّ العَنِّ الکَفَرةَ الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَن سَبِیلِکَ وَیُکَذِّبُونَ رُسُلَکَ وَیَقَاتِلُونَ اَولِیَائِ کَ ط اَللّٰھُمَّ خَالِف بَینَ کَلِمَتِھِم وَزُلزِل اَقدَامَھُم وَ اَنزِل بِھِم بَاسَکَ الَّذِی لَا تَرُدُّہ عَنِ القَومَ المُجرِمِینَ ط اِلٰہُ الحَقَّ اٰمِین ط 

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1353625828012720&id=194131587295489

Sunday, 27 November 2016

ہار جیت میں پیسے کی شرط

ایس اے ساگر

دوستوں کے درمیان شرط لگی کہ سر کے بل الٹا کھڑے ہوکر بیئر کون پئے گا، جسے پورا کرنے میں ایک جوان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا. کسی کو شک ہو تو موت سے چند منٹ قبل شروع ہونے والی ویڈیو ریکارڈنگ دیکھ سکتا ہے جس نے زندگی کے آخری لمحات تک محفوظ کرلئے. ایسے لوگوں کو کون سمجھائے کہ اسلام کامل ومکمل شریعت اور اعتدال پسند مذہب ہے، ہر چیز میں میانہ روی کو پسند کرتا ہے، اسلامی نظام کوئی خشک نظام نہیں؛ جس میں تفریحِ طبع اور زندہ دلی کی کوئی گنجائش نہ ہو؛ بلکہ وہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ اور فطری مقاصد کو بروئے کار لانے والا مذہب ہے۔ اس میں نہ تو خود ساختہ 'رہبانیت' کی گنجائش ہے، نہ ہی بے ہنگم تقشف اور جوگ کی اجازت ہے۔ آسانی فراہم کرنا اور سختیوں سے بچانا شریعت کے مقاصد میں داخل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر․ 
(البقرہ:۱۸۵) 
(اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی فراہم کرنا چاہتا ہے، دشواری پیدا کرنا نہیں چاہتاہے)۔
          اسلام آخرت کی کامیابی کو اساسی حیثیت دیتے ہوئے، تمام دنیاوی مصالح کی بھی رعایت کرتا ہے، اس کی پاکیزہ تعلیمات میں جہاں ایک طرف عقائد، عبادات، معاشرت ومعاملات اوراخلاقیات وآداب کے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، وہیں زندگی کے لطیف اور نازک پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اقوامِ یورپ کی طرح پوری زندگی کو کھیل کود بنادینا اور ”زندگی برائے کھیل“ کا نظریہ اسلام کے نقطئہ نظر سے درست نہیں ہے؛ بلکہ آداب کی رعایت کرتے ہوئے، اخلاقی حدود میں رہ کر کھیل کود، زندہ دلی، خوش مزاجی اور تفریح کی نہ صرف یہ کہ اجازت ہے؛ بلکہ بعض اوقات بعض مفید کھیلوں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اسلام سستی اور کاہلی کو پسندنہیں کرتا؛ بلکہ چستی اور خوش طبعی کو پسند کرتا ہے۔ شریعت کی تعلیمات اس امر کا تقاضہ کرتی ہیں کہ مسلمان شریعت کے تمام احکام پر خوشی خوشی عمل کرے۔ یہ عمل انقباض اور تنگ دلی کے ساتھ نہ ہو؛ کیوں کہ سستی اور تنگ دلی کے ساتھ عبادات کو انجام دینا نفاق کی علامت ہے۔ ارشاد باری ہے: 
وَاِذَا قَامُوْا الٰی الصَّلوٰةِ قَامُوْا کُسَالیٰ․ 
(النساء:۱۴۲) 
(کہ منافقین جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں؛ تو سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، سستی اور کاہلی بے جا فکرمندی اتنی ناپسندیدہ چیز ہے کہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور سے پناہ مانگی ہے۔
          اسلام کی اعتدال پسندی ہی کا یہ اثر ہے کہ حضرت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلافِ امّت کی زندگیاں جہاں خوف وخشیت اور زہد وتقویٰ کا نمونہ ہیں؛ وہیں تفریح، خوش دلی اور کھیل کود کے پہلوؤں پر بھی بہترین اُسوہ ہیں۔ ان امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے تفریح اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ پیش کیاجارہا ہے۔
کیا شریعت میں تفریح اور مزاح جائزہے؟
تفریح عربی زبان کا لفظ ہے۔ جو ”فرح“ سے مشتق ہے۔ فرح کے بارے میں علامہ قرطبی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: اَلْفَرْحُ لَذَّةٌ فِی الْقَلْبِ فِادْرَاکِ الْمَحْبُوْب (تفسیر قرطبی) کہ محبوب چیز کے پالینے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے،اسی کو فرحت اور خوشی کہتے ہیں۔ اگر یہ فرحت محض قلبی خوشی ہو اور اللہ کی نعمتوں کے احساس اور اس کے فضل وکرم کے استحضار پر مبنی ہو؛ تو وہ شرعاً مطلوب،مستحسن اور پسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا (یونس۵۸) 
(آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور مہربانی سے ہے، تو چاہیے کہ وہ لوگ خوش ہوں)۔
دوسری جگہ ارشاد ہے: فَرِحِیْنَ بِمَا اٰتَاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ․ 
(آل عمران۱۷۰) 
کہ جنتی لوگ خوش ہوں گے؛ ان نعمتوں پر جو اللہ نے انھیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رَوِّحُوا الْقُلُوْبَ سَاعَةً․ کہ دلوں کو وقتاً فوقتاً خوش کرتے رہا کرو۔ 
(الجامع الصغیر للسیوطی بحوالہ احکام القرآن للمفتی محمد شفیع جلد۳،ص۱۹۵)
ایک روایت میں ہے: 
اَلْقَلْبُ مُمِلٌّ کَمَا تَمُلُّ الْأبْدَانُ فَاطْلُبوا بِہَا طَرَائِقَ الْحِکْمَةِ․ یعنی دل اسی طرح اکتانے لگتا ہے، جیسے بدن تھک جاتے ہیں؛ لہٰذا اس کی تفریح کے لیے حکیمانہ طریقے تلاش کیا کرو۔ (احکام القرآن للمفتی محمد شفیع ،ج۳،ص۱۹۵)
          یہ قلبی خوشی اگر ا نسان کو غرور وتکبر پر آمادہ کردے، تواس طرح کی فرحت شرعی نقطئہ نظر سے ممنوع ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ (القصص۷۶) کہ مت اِتراؤ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتے ہیں۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے: انَّہ لَفَرِحٌ فَخُوْر (ہود۱۰) کہ بلاشبہ وہ اترانے والا اور شیخی بگھارنے والا بن جاتا ہے۔
          اسی طرح ”مزاح“ مزح سے بنا ہے مزاح کے بارے میں ملاعلی قاری فرماتے ہیں: اَلْمِزَاحُ اِنْبِسَاطٌ مَعَ الْغَیْرِ مِنْ غَیْرِ اِیْذَاءٍ فانْ بَلَغَ الایْذَاءَ یَکُوْنُ سُخْرِیَّة (حاشیہ مشکوٰة المصابیح، ص۴۱۶) کہ مزاح ایسے عمل کو کہتے ہیں، جس کے ذریعہ دوسرے کے ساتھ مل کر خوش طبعی حاصل ہوسکے۔ اس طور پر کہ اس عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے۔ اور اگر وہ خوش طبعی کسی کے لیے باعثِ تکلیف ہوجائے، تو اسے مزاح نہیں؛ بلکہ ”سخریہ“ یعنی مذاق اڑانا کہیں گے۔
          مزاح اور زندہ دلی وخوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہوجانا نازیبا اور مضر ہے،اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک محض بنادیتی ہے۔ بسا اوقات ہمجولیوں اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لیے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان وشوکت کے باوجود، بسا اوقات اپنے جاں نثاروں اور نیازمندوں سے مزاح فرماتے تھے۔ ذیل کی احادیث سے اندازہ لگایا جاسکتاہے، کہ آپ کا پرشفقت مزاح کس طرح ہواکرتا تھا۔
          ۱-      عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَة قَالَ: قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ انَّکَ لَتُدَاعِبنَا قَالَ انّی لاَ أقُوْلُ الاَّ حَقًا․ (ترمذی۲/۲۰) ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ نے حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: کہ میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں (یعنی اس میں کوئی بات غلط اور باطل نہیں ہوتی)۔
          ۲-      عَنْ أنَسٍ قَالَ انْ کَانَ النَّبِیُّ صَلی اللّٰہ علیہ وسلم لَیُخَالِطُنَا حَتٰی یَقُوْلَ لِأخٍ لِیْ صَغِیْرٍ یَا أبا عُمَیْرُ! مَا فُعِلَ النُّغَیْرُ․ کَانَ لَہ نُغَیْرٌ یَلْعَبُ بِہ فَمَاتَ․متفق علیہ (مشکوٰة المصابیح ۴۱۶، ترمذی ۲/۱۹)
          ترجمہ: (آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اتنے بلند تھے کہ) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں سے مکمل اختلاط رکھتے تھے؛ یہاں تک کہ ازراہِ شفقت ومزاح ہمارے چھوٹے بھائی سے کہتے تھے: اے ابوعمیر! نغیر بلبل کا کیا ہوا؟ ان کے چھوٹے بھائی کے پاس ایک بلبل تھا؛ جس سے وہ کھیلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ مرگیا۔
          ۳-      عَنْ أنَسٍ أنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ لَاِمْرَأة عَجُوْزٌ انَّہ لاَ تَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَجُوْزٌ، فَقَالَتْ وَمَالَہُنَّ وَکَانَتْ تَقْرَءُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَہَا أمَا تَقْرَئِیْنَ الْقُرْآنَ ”انّا أنْشَأنَاہُنَّ انْشَاءً ا فَجَعَلْنَاہُنَّ أبْکَارًا“ (مسند رزین بہ حوالہ مشکوٰة ص۴۱۶)
          ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا: کہ برھیا جنت میں نہیں جائے گی؛ ان بے چاری نے عرض کیا ان بوڑھیوں میں کیا ایسی بات ہے؛ جس کی وجہ سے وہ جنت میں نہیں جاسکیں گی۔ وہ بوڑھی قرآن خواں تھی، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی ؟ ”اِنَّا أنْشْأنَاہُنَّ انْشَاءً ا فَجَعَلْنَاہُنَّ أبْکَارًا“ کہ جنت کی عورتوں کی ہم نئے سرے سے نشوونما کریں گے اور ان کو نوخیز دوشیزائیں بنادیں گے۔
          ۴-      عَنْ أنَسٍ اَنَّ رَجُلاً اِسْتَحْمَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: انّی حَامِلُکَ عَلیٰ وَلَدِ نَاقَةٍ، فَقَالَ: مَا أصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ؟ فقالَ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وَہَلْ تَلِدُ الابِلُ الاَّ النُّوقَ․ (ترمذی۲/۲۰، ابوداؤد،ص۶۸۲)
          ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ایک شخص نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے اونٹ مانگا؛ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں! میں تم کو سواری کے لیے اونٹ کا بچہ دوں گا، اس شخص نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچہ کا کیا کروں گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹنی ہی کے بچے ہوتے ہیں۔ (یعنی ہراونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی تو ہے جو اونٹ بھی دیا جائے گا، وہ اونٹنی کا بچہ ہی ہوگا)
          ۵-      عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ أنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لَہ: یَاذَا الأذْنَیْنِ! (ترمذی۲/۲۰)
          ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں (ازراہِ مزاح وشفقت) یا ذالاذنین اے دو کان والے کہہ کر مخاطب کیا۔ (حالاں کہ ہر شخص دوکان والا ہوتاہے؛ لیکن حدیث کے ظاہر سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ شاید یہ انفرادی صفت انھیں کی خصوصیت ہے۔ دوسرے میں نہیں پائی جاتی)
          ۶-        حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے ایک مرتبہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی۔ اسی درمیان آپ کو گھریلومعاملات میں حضرت عائشہ کی آواز بلند محسوس ہوئی۔ جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہ کی طرف مارنے کے لیے لپکے اور اپنی بچی حضرت عائشہ کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہا ہوں؟! یہ دیکھ کر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو ان کے والد کی مار سے بچانے کی کوشش کرنے لگے۔ اسی دوران حضرت ابوبکر غصّہ کی حالت میں گھر سے نکل گئے۔ حضرت ابوبکر کونکلتے دیکھ کر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا: کیا خیال ہے؟ میں نے تمھیں اس شخص سے بچایا کہ نہیں؟ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کچھ دنوں تک ناراض رہے، پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں حاضر ہوکر اندر آنے کی اجازت چاہی، گھر جاکر محسوس کیا کہ آنحضرت اور حضرت عائشہ کے مابین صلح ہوچکی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ: آپ دونوں مجھے اپنی صلح میں شامل کرلیجیے؛ جس طرح آپ دونوں نے مجھے اپنے جھگڑے میں شامل کیا تھا، تو آں حضرت نے فرمایا کہ: جی ہاں آپ کو صلح میں شامل کرلیا(ابوداؤد۲۸۲)۔ (اس حدیث میں ابوّت کے رشتہ کے حامل بزرگ حضرت ابوبکر کو محض ”الرجل“ کہنے سے جو مزاح پیدا ہوتا ہے، اسے کوئی بھی شخص محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا)۔
          ۷-      عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأشْجَعِیْ قَالَ أتَیْتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فِیْ غَزْوَةِ تبوکَ وَہُوَ فِیْ قُبَّةٍ مِنْ أدَمٍ فسلَّمْتُ فَرَدَّ وَقَالَ اُدْخُلْ فَقُلْتُ أکُلِّی یا رسولَ اللّٰہ، قَالَ کلُّکَ فَدَخَلْتُ (ابودواؤد۶۸۳)
          ترجمہ: حضرت عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ: میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غزوئہ تبوک میں حاضر ہوا، جب کہ آپ چمرے سے بنے سائبان میں قیام پذیر تھے۔ میں نے سلام کیا، تو انھوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا آجاؤ میں نے عرض کیا: پورا کا پورا آجاؤں؟ آپ نے فرمایا: ہاں پورا کاپورا۔ (جگہ کی قلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان صحابی نے جس محبت کے ساتھ مزاح کیا آں حضرت نے کمالِ اخلاق مندی سے انھیں کے مزاحیانہ اسلوب میں جواب دیا)۔
          ۸-       حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص دیہات کے رہنے والے تھے، ان کا نام ازہر تھا، وہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دیہات سے ہدیہ وتحفہ بھیجا کرتے تھے، تو آں حضرت بھی بازار سے ان کی ضرورت کی چیزیں انھیں دیا کرتے تھے۔ ایک دن جب وہ اپنے سامان بازار میں فروخت کررہے تھے، کہ ان کی نظر سے بچ کر آں حضرت نے ان کو پیچھے سے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ زاہر نے کہا کوئی ہے، جو مجھے ان سے چھڑائے۔ ذرا پیچھے دیکھا تو آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا، جوں ہی پہچانا، پوری طاقت سے اپنی پشت کو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے چمٹانے لگے اور حضورِاکرم  صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ اس غلام کو کون خریدے گا؟ ازہر نے کہا: یا رسولَ اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ فروخت کرتے وقت کھوٹا پائیں گے۔ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مگر اللہ کی بارگاہ میں توکھوٹا نہیں ہے۔
مزاح کے جواز کے حدود:
          مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ: آداب کی رعایت کرتے ہوئے کبھی کبھی مزاح کی نہ صرف گنجائش ہے؛ بلکہ مستحسن ہے اور اسوئہ نبوی کی اتباع ہے؛ لیکن اگرمزاح دوسرے آدمی کے لیے ناگواری اور اذیت کا باعث بن جائے، یا حد سے زیادہ ہنسی کا ذریعہ بن جائے یا مزاح کا عمل کبھی کبھار کے بجائے کثرت سے ہونے لگے، تو ایسے مزاح کی ممانعت ہوگی اور اس کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔
          آپس میں مذاق کرنا اگر دوسرے کے لیے باعث تکلیف نہ ہو، معاملہ برابر کا ہو؛ تو اس کی گنجائش نکلتی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: ایک دن حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرماتھے اور حضرت سودہ بھی تھیں، میں نے سالن پکایا اور حضرت سودہ سے کہا: آؤ کھانا کھائیں؛ انھوں نے انکار کیا۔ نشست اس طرح واقع ہوئی تھی، کہ ایک طرف وہ تھیں، دوسری طرف میں اور بیچ میں سرورِکائنات  صلی اللہ علیہ وسلم۔ جب حضرت سودہ نے انکارکیا؛ تو میں نے کہا کہ: کھاتی ہوتو کھاؤ؛ نہیں تو منھ پر مل دوں گی۔ انھوں نے نہ کھایا، میں نے ان کے منھ پر مل دیا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں بیچ میں سے ہٹادیے؛ تاکہ حضرت سودہ اپنا بدلہ مجھ سے لے سکیں؛ چنانچہ انھوں نے بھی ایسا کیا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے۔ (نسائی، ابن ماجہ) مسلمانوں کو تکلیف دینے، ان کا مذاق اڑانے، ان کی تحقیر کے سلسلے میں سخت ممانعت احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے: اَلْمُسْلِمُ أخُو الْمُسْلِمِ لاَ یَظْلِمُہ وَلاَ یَخْذُلُہ وَلاَ یُحَقِّرُہ․ (صحیح مسلم) ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،اس پر کوئی ظلم وزیادتی نہ کرے۔ اس کو بے مدد نہ چھوڑے اور اس کو حقیر نہ جانے اورنہ اس کے ساتھ حقارت کابرتاؤ کرے۔ پھر آپ نے فرمایا: آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے، کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے اور اس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے، معلوم ہوا کہ ایسے امورانجام دینا؛ جن سے چہروں پر مسکراہٹ بکھرجائے، لوگ ہنسنے پر آمادہ ہوجائیں، کچھ دیر کے لیے دل سے ہموم وغموم اور غبار نکل جائیں، فکرِ آخرت برقرار رہے اور کسی کی تکلیف کا سبب نہ بنے اس کی نہ صرف یہ کہ اجازت ہے؛ بلکہ اسے مستحسن بھی کہا جاسکتا ہے۔
          حضرت مولانا احمدعلی محدث سہارنپوری تحریر فرماتے ہیں: کثرت سے مستقل مزاح اور خوش طبعی میں لگے رہنا ممنوع ہے؛ اس لیے کہ وہ بہت زیادہ ہنسنے کا داعیہ پیدا کرتا ہے، قلب میں فساد پیداکرتا ہے، ذکر اللہ سے غافل کرتا ہے اور ہیبت کو ختم کرتا ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھاکہ کبھی کبھار آپ کسی مصلحت یا مخاطب کو مانوس کرنے کے لیے مزاح فرمایا کرتے تھے اور اس طرح کا مزاح پسندیدہ سنت ہے(حاشیہ ترمذی)۔
          تکلیف دہ مزاح کی ممانعت کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے: حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو اور اس سے مذاق نہ کرو اور اس سے تم ایسا وعدہ نہ کرو جس کی وعدہ خلافی کرو(ترمذی ۲/۲۰)۔ اس حدیث میں دیگر تکلیف دہ اعمال (جھگڑا، وعدہ خلافی) کے ساتھ اس مزاح کی بھی ممانعت کی گئی ہے؛ جو اذیّت ناک اور ناگواری کا باعث ہو۔ مذکورہ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزاح کے طور پر جو گفتگو کی جائے، وہ ظرافت ولطافت کے باوصف فی نفسہ صحیح اور درست ہو، خوش طبعی کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا بھی مذموم ہے۔ رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: وَیْلٌ لِلَّذِیْ یُحَدِّثُ فَیَکْذِبُ لِیَضْحَکَ بِہ الْقَوْمُ وَیْلٌ لَہ وَیْلٌ لَہ․ (ابوداؤد:۶۸۱) کہ اس شخص کے لیے ہلاکت ہو، جو دورانِ گفتگو جھوٹی باتیں کرتا ہے، محض اس لیے کہ وہ لوگوں کو ان باتوں سے ہنسائے۔ اس کے لیے ہلاکت ہو، اس کے لیے ہلاکت ہو۔
          معلوم ہوا کہ مزاح میں اگر جھوٹ یا تمسخر واستہزاء کا پہلو ہو، تو وہ موجبِ ہلاکت ہے۔ تمسخر واستہزاء کفار کا شیوہ ہے، جو وہ اہل ایمان؛ بلکہ انبیاء کرام  صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے ۔ اہل ایمان کے لیے اس کی قطعاً گنجائش نہیں۔ مزاح سے ایک درجہ آگے مذاق کا معاملہ ہے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو مغموم دیکھتے، تو دل لگی کے ذریعہ اسے خوش فرماتے (مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰة المصابیح:۲۶۸) ایک مرتبہ حضرت ابوبکر نے حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین دیکھا، تو اپنا ایک واقعہ سناکر خوش کیا۔ (تکملہ فتح الملہم ج:۱،ص:۱۷۸)
مزاحیہ پروگرام اور مزاحیہ مشاعرہ:
مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ مزاح فی نفسہ اگر آداب واخلاق کے دائرہ میں ہوتو درست ہے۔ یہی حال مزاح پر مشتمل اشعار اور مزاحیہ شعرگوئی کا بھی ہے۔ وزن اور قافیہ کی رعایت کرتے ہوئے بالارادہ کہے گئے کلام کو شعر کہتے ہیں(فتح الباری:۱۰/۶۲۸) اصل لغت میں شعر ہر اس کلام کو کہا جاتا ہے، جس میں محض خیالی اور غیرتحقیقی مضامین بیان کیے گئے ہوں۔ فن منطق میں بھی ایسے ہی مضامین کو ”قضا یا شعریہ“ یا ادلہٴ شعریہ کہا جاتا ہے۔
          چوں کہ آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ نبوت سے شعرگوئی میل نہیں کھاتی تھی؛ اس لیے مشیّت الٰہی نے خاص حکمت کے تحت آپ کو اس سے بالکل محفوظ رکھا۔ (یٰسین:۶۹)
           حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شعر کے بارے میں ذکر آیا؛ تو آپ نے فرمایا کہ شعر بھی کلام ہے،اس میں جو اچھا ہے، وہ اچھا ہے اور جو برا ہے، وہ برا ہے(رواہ الدارقطنی، مشکوٰة ۱۱/۴۱۰)۔
          شرائط وآداب کے ساتھ فی نفسہ مزاح کا درست ہونا (چاہے وہ نظم میں ہو یا نثر میں) الگ چیز ہے اور باضابطہ مزاحیہ پروگرام منعقد کرنا یا مزاحیہ مشاعرہ منعقد کرنا الگ چیز ہے۔ ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ پروگرام کا انعقاد اہتمامِ زائد کی علامت ہے۔ اور مباح چیزوں کا ضرورت سے زائد اہتمام کرنا، اسے زمرئہ کراہت میں داخل کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اہتمام مزاح اور تفریح کے لیے ہورہا ہے اور تفریح جب حد اعتدال سے بڑھے گی؛ تو وہ لہو ولعب میں داخل ہوجائے گی اور لہب ولعب سے قرآن کریم میں ممانعت کی گئی ہے۔ 
          اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ایسی مجلسوں میں اس قدر انہماک ہوتا ہے کہ عام طور پر نماز ودیگر فرائض کا پاس وخیال بھی نہیں رہتا۔ شور وشغب ہوتا ہے، تالیاں پیٹی جاتی ہیں۔ مردوزن کا بے محابا اختلاط ہوتا ہے۔ ہنسانے کے لیے جھوٹی باتوں کا سہارا لیاجاتا ہے۔ لہٰذا ایسی مجالس کا انعقاد کراہت سے خالی نہیں اور اگر عملی طور پر ایسی مجالس میں محرمات وناجائز امور کا ارتکاب ہو؛ تو اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا ہے۔ حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن ابی العاص کسی ختنہ میں بلائے گئے، آپ نے انکار فرمادیا، کسی نے وجہ دریافت کی؛ تو آپ نے فرمایا کہ پیغمبرِ خدا  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہٴ مبارک میں ہم لوگ ختنہ میں نہیں جاتے تھے اور نہ اس کے لیے بلائے جاتے تھے (احمد، اصلاح الرسوم ۱۱۰)
          معلوم ہوا کہ جس کام کا اہتمام سلف صالحین سے ثابت نہیں اس کے لیے اہتمام کرنا اور بلانا پسندیدہ نہیں ہے۔ اتفاقیہ طور پر حسبِ موقع مزاحیہ گفتگو کرلینا اور تفریحی اشعار کہہ سن لینا اگرچہ جائز ہے؛ لیکن اس کے لیے اہتمام سے اجتماع کرنا اوراس میں گھنٹوں لگانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَا لاَیَعْنِیْہِ (ترمذی) یعنی آدمی کے اچھے اسلام کی علامت یہ ہے کہ وہ لایعنی امور کو ترک کردے۔ حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری کے حوالہ سے یہ بات آچکی ہے کہ مستقل طور پر مزاح میں لگا رہنا ممنوع ہے؛ اس لیے کہ وہ زیادہ ہنسنے کا سبب، قلب کے بگاڑ کا ذریعہ اور ذکر اللہ سے اعراض کا موجب ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار ہی مزاح فرماتے تھے، وہ بھی کسی خاص مصلحت کے لیے یا مخاطب کو مانوس کرنے کے لیے (حاشیہ ترمذی۲/۲۰)
مزاحیہ کہانی کا شرعی حکم:
          ماحیہ کہانیاں جو پندونصیحت پر مشتمل ہوں اور مزاح اس میں ضمنی طور پر ہو، یا مزاح کے پہلو بہ پہلو حکمت وموعظت اور سبق آموز باتیں بھی ہوں؛ تو ایسی کہانیاں لکھنے کی گنجائش ہے۔ جب لکھنے کی گنجائش ہے، تو پڑھنے ، شائع کرنے ، خریدوفروخت کرنے کی بھی گنجائش ہوگی؛ لیکن شرط یہ ہے کہ تمام امور فرائض وواجبات، سنن وغیرہ غفلت کا سبب نہ بنیں۔ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: حکمت ودانائی کی باتیں مومن کے لیے متاعِ گمشدہ ہے، وہ جہاں مل جائے؛ تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔
          اس کے علاوہ ادب کے نام پر ہمارے پاس جو اسلاف کے زمانے سے ذخیرے چلے آرہے ہیں؛ وہ بھی کچھ نہ کچھ مزاحیہ حکایتوں پر مشتمل ہیں اور اکابر کے نزدیک ان کے پڑھنے پڑھانے کا کسی نہ کسی حد تک سلسلہ رہا ہے۔ اس سلسلے میں ابوالفرج اصفہانی کی ”کتاب الأغانی“ جاحظ کی ”کتاب البخلاء“ اور عبداللہ ابن المقفع کی ”کلیلہ ودمنہ“ کا نام لیاجاسکتا ہے؛ بلکہ موخرالذکر کتاب تو بہت سے مرکزی مدارس وجامعات میں داخل درس ہے۔ اسی طرح مشہور محقق عالم دین علامہ ابوالفرج ابن الجوازی نے تفریحی مضامین پر مشتمل ایک مستقل کتاب ”أخْبارُ الْحَمْقٰی والمُغفَّلین“ کے نام سے تحریر فرمائی ہے۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ عربی شاعری کے جوذخیرے موجود ہیں؛ ان میں مزاحیہ شاعری، عشقیہ شاعری، بلکہ فسقیہ وبیہودہ شاعری کا بھی ایک معتد بہ حصہ ہے۔ امرء القیس، حطّیہ اور ابولطیب متنبی کی شاعری اس کے لیے شاہد عدل ہے؛ لیکن محض ا علیٰ مقاصد کے لیے اسے انگیز کیاگیاہے؛ لہٰذا حکمت ودانائی پر مبنی مزاحیہ کہانیوں کو بھی ایک حد تک انگیز کیا جاسکتا ہے؛ لیکن اگر مزاح برائے مزاح ہو، حکمت وموعظت سے خالی ہو، حقائق سے کوسوں دور ہو، غلط بیانی اور جھوٹ کی آمیزش ہو، دوسروں کی کردارکشی کی گئی ہو، تو ایسی مزاحیہ کہانیاں نہ تو لکھنا درست، نہ اس کی خریدوفروخت درست ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے لہوالحدیث (کھیل کی باتوں) کے خریدنے کی مذمت فرمائی ہے۔ درّمنثور میں روایت ہے کہ نضربن حارث مشرکین میں سے ایک بڑا تاجر تھا اور تجارت کے لیے مختلف ملکوں کا سفر کیا کرتا تھا۔ وہ ملک فارس سے شاہانِ عجم کسریٰ وغیرہ کے تاریخی قصّے خریدکر لایا اور مکہ کے مشرکین سے کہا کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم تم کو عاد وثمود وغیرہ کے واقعات سناتے ہیں۔ میں تمھیں ان سے بہتر رستم اور اسفند یار اور دوسرے شاہانِ فارس کے قصے سناتا ہوں، یہ لوگ اس کو شوق ورغبت سے سننے لگے؛ کیوں کہ اس میں کوئی تعلیم تو تھی نہیں؛ جس پرعمل کرنے کی محنت اٹھانی پڑے، صرف لذیذ قسم کی کہانیاں تھیں۔ اس کی وجہ سے بہت سے مشرکین جو اس سے پہلے کلام الٰہی کے اعجاز اوریکتائی کی وجہ سے اس کو سننے کی رغبت رکھتے تھے اور چوری چوری سنا کرتے تھے۔ ان لوگوں کو قرآن سے اعراض کا بہانہ ہاتھ آگیا۔
          اگر مزاح کے پہلوؤں کا حامل، مفید امور پر مشتمل کوئی کہانی ہو، تو اسے افادیاتی نقطئہ نظر سے انگیز کیا جاسکتا ہے۔ ایک بار آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو عرب کی تیرہ عورتوں اور ان کے شوہروں کا قصہ سنایا جو ”حدیثِ امّ ِذرح“ کے نام سے حدیث کی کتابوں میں مذکور ہے۔ 
لطیفہ گوئی اور مزاح کو ذریعہٴ معاش بنانا:
          کبھی کبھار لطیفہ کہہ دینے یا مزاح اور تفریح کرلینے کی تو گنجائش ہے؛ لیکن مستقل لطیفہ گوئی کرنا اور کو ذریعہٴ معاش بنالینا، یہ اس مقصد حیات کے برخلاف ہے، جو اسلام افراد اورمعاشرے میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور مستقل لطیفہ گوئی اور مزاح وتفریح میں مشغول رہنا انسان کو فکرِ آخرت، ذکر اللہ، عبادت اور تلاوت قرآن سے غافل کردیتا ہے۔ زیادہ ہنسنے ہنسانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے۔ انھیں اسباب کی وجہ سے شعر وشاعری کی مذمت کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انسان اپنا پیٹ پیپ سے بھرے، یہ اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے بھرے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ: شعر جب ذکر اللہ، قرآن کریم کی تلاوت اور علم کے اشتغال پر غالب آجائے، اور اگر شعر مغلوب ہے تو پھر برا نہیں۔ یہی حال لطیفہ گوئی اور مزاح نویسی کا ہے۔ اس کو مستقل پیشہ بنالینا انہماک کی دلیل ہے اور ایسی چیزوں میں غالب انہماک ممنوع ہے؛ لہٰذا اس کی اجرت وصول کرنا بھی درست نہیں، ازخود کوئی بطور انعام کے دے دے، تو اس کے لینے کی گنجائش ہے۔ 
بہ تکلف قہقہہ لگانے کی مجلسوں میں شرکت:
          ہنسی کے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور بلا موقع اور محل تکلف سے ہنسنا اور قہقہہ لگانا فطرت کے خلاف عمل ہے۔ موجودہ دور میں ڈاکٹروں کی رائے میں اگرچہ ہنسنا انسانی صحت کی برقراری اور اس کو چست ونشیط رکھنے کے لیے معاون فعل ہے، اس کے لیے خاص طور پر ہنسنے کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں لوگ بہ تکلف قہقہہ لگاتے ہیں اور دیر تک ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں؛ لیکن یہ عمل شرعی لحاظ سے مناسب نہیں؛ اس لیے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لاَتُکْثِرِ الضِّحْکَ فَانَّ کَثْرَةَ الضِّحْکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ (ترمذی، مشکوٰة:۴۴) کہ تم زیادہ مت ہنسا کرو، اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ قہقہہ لگانا یہاں تک کہ کھلکھلاکر ہنسنا بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم (جو بالیقین ایمان والوں کے لیے ہر عمل میں بہترین اسوہ ہیں) سے ثابت نہیں؛ بلکہ آپ خوشی کے مواقع پر صرف زیر لب مسکرایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طور پر کھل کھلاکر ہنستے ہوئے کہ آپ کے دہن مبارک کا اندرونی حصہ نظر آجائے، کبھی نہیں دیکھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف تبسم فرمایا کرتے تھے (بخاری، مشکوٰة ۴۰۶)
          معلوم ہوا کہ اگر سلسلہٴ کلام میں کوئی تعجب خیز، حیرت انگیز یا مضحکہ خیز بات زیر تذکرہ آجائے؛ تو ان پر ہنسنے اور مسکرانے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ ایسے مواقع پر ہنسنا اور مسکرانا چاہیے؛ تاکہ دل کا بوجھ ہلکا اور غبار کم ہو اور موجودہ زمانے کی تحقیق کے مطابق صحت، مستعدی اور نشاط میں اضافہ ہو؛ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ ہنسنا اور مسکرانا غافلین کا سا نہ ہو؛ اس لیے کہ اس طرح کا ہنسنا دلوں کو مردہ کردیتا ہے۔ حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے کسی نے پوچھا کہ کیا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہنسا بھی کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! بیشک! وہ حضرات ہنسنے کے موقع پر ہنستے بھی تھے؛ لیکن اس وقت بھی ان کے قلوب میں ایمان پہاڑ سے زیادہ عظیم ہوتا تھا۔ حضرت بلال ابن سعد کا بیان ہے کہ میں نے صحابہٴ کرام کو دیکھا کہ وہ مقررہ نشانوں کے درمیان دوڑا بھی کرتے تھے اور باہم ہنستے ہنساتے بھی تھے۔ پھر جب رات ہوتی تو وہ راتوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔ (شرح السنة، مشکوٰة ۴۰۷)
          لہٰذا موجودہ دور کے ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق عمل کرتے ہوئے بہ تکلف قہقہے لگانے کی مجلس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے؛ بلکہ بے تکلف فطری انداز میں جس قدر انسان ہنس لے، وہی اس کی صحت وتندرستی کے لیے کافی ہے؛ اس لیے کہ زیادہ ہنسنا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق صحت وتندرستی کا سبب نہیں؛ بلکہ دلوں کے مردہ ہونے کا سبب ہے۔
کھیل کود سے متعلق احکام:
          (الف) اصولی ہدایت: اسلام انسان کو ایک بامقصد زندگی گزارنے کی ہدایت دیتا ہے اور کھیل وکود اور لہوولعب پرمشتمل زندگی کی مذمت کرتا ہے۔ بامقصد زندگی جس کی اساس ہمہ وقت اللہ کی خوشنودی کی جستجو، تعمیر آخرت کی فکر مندی اور لہولعب سے اِعراض ہو؛ وہ زندگی اہل ایمان کی پہچان ہے اور جس کی بنیاد لہوولعب پر مشتمل غفلت و بے پرواہی ہو وہ کفار کا شعار ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المومنون:۳) کہ اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ وہ لغو اور فضول باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔
          لہٰذا شرعی نقطئہ نظر سے ہر وہ کام، قابلِ تعریف ہے؛ جو انسان کو مقصدِ اصلی پر گامزن رکھے۔ ہر اس کام کی اجازت ہے، جس میں دنیا وآخرت کا یقینی فائدہ ہو۔ یا کم از کم دنیا وآخرت کا خسارہ نہ ہو۔ کھیلوں میں سے بھی صرف انھیں اقسام کی اجازت ہے، جو جسمانی یا روحانی فوائد کا حامل ہو۔ وہ کھیل جو محض تضیعِ اوقات کا ذریعہ ہوں، فکرِ آخرت سے غافل کرنے والے ہوں؛ وہ کھیل جو دوسروں کے ساتھ دھوکہ فریب یا ضررسانی پر مبنی ہوں؛ ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کُلُّ مَا یَلْہُوبِہ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ الَّا رَمْیَةٌ بِقَوْسِہ وَتَأدِیْبُہ فَرَسَہ وَمُلاَعَبَتُہ اِمْرَأتُہ فَانَّہُنَّ مِنَ الْحَقِّ․ (ترمذی، ابن ماجہ، فتح الباری ۱۱ صلی اللہ علیہ وسلم۹۱) یعنی مرد مومن کا ہر کھیل بیکار ہے سوائے تین چیز کے: (۱) تیر اندازی کرنا، (۲) گھوڑے سدھانا، (۳) اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا؛ کیوں کہ یہ تینوں کھیل حق ہیں۔
          (ب) لباس وپوشاک سے متعلق: لباس اور پوشاک کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ کھلاڑی کھیل کے درمیان ایسا لباس پہنے، جو ساتر ہو یعنی جسم کا وہ حصہ چھپ جائے، جن کا چھپانا واجب ہے، یعنی مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک اور عورت کے لیے ہتھیلی اور چہرہ کو چھوڑ کر پورا جسم ستر میں داخل ہے، ان کا ڈھکا ہوا ہونا واجب ہے۔ لباس اتنا باریک اور چست بھی نہ ہو کہ جسم کے اعضا نمایاں ہوں۔ اسی طرح اس لباس میں کفّار کے ساتھ ایسی مشابہت نہ ہو کہ اس لباس کو دیکھنے سے کوئی خاص قوم سمجھ میں آتی ہو۔ اور نہ اس لباس کا تعلق غیر اسلامی شعار سے ہو۔ مردوں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ لباس ٹخنوں سے نیچے نہ ہو۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مَاأسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الازَارِ فِی النَّارِ (بخاری، مشکوٰة ۳۷۳) کہ جو شخص بھی ٹخنوں سے نیچے پاجامہ پہنے گا، اسے جہنم کی آگ میں جلنا پڑے گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے: کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو زعفرانی رنگ کا کپڑا پہنے دیکھا، تو آپ نے فرمایا : یہ کفار کا لباس ہے اس لیے اسے مت پہنو۔ (مسلم، مشکوٰة ۳۷۴) حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب سے منقول روایت میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ (احمد،ابوداؤد، مشکوٰة ۳۷۴) کہ جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی اس کا تعلق اسی قوم کے ساتھ سمجھا جائے گا۔
(ج) پسندیدہ کھیل: 
          ۱- تیراندازی اور نشانہ بازی: اصول شریعت کی روشنی میں مروّجہ کھیلوں میں مندرجہ کھیل مستحب اورپسندیدہ ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے بعض کی اہمیت وجوب تک پہنچ جاتی ہے۔ نشانہ بازی (چاہے وہ تیر کے ذریعہ ہو یا نیزہ، بندوق اور پستول یا کسی اور ہتھیار کے ذریعہ ہو۔ احادیث میں اس کے فضائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے سیکھنے کو باعثِ اجر وثواب قرار دیاگیا ہے؛ یوں کہ یہ کھیل انسان کے ذاتی دفاع اور ملکی دفاع کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ کھیل جہاں جسم کی پھرتی، اعصاب کی مضبوطی اور نظر کی تیزی کا ذریعہ ہے۔ وہیں یہ خاص حالات میں، مثلاً بھیڑ کے وقت یا جہاد کے موقع پر دشمنوں سے مقابلہ آرائی کے کام آتا ہے۔ قرآن کریم میں باضابطہ مسلمانوں کو حکم دیاگیاہے: وَاَعِدُّو لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (الانفال) کہ اے مسلمانو! تمہارے بس میں جتنی قوت ہو، اسے کافروں کے لیے تیار کرکے رکھو۔ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ”قوة“ کی تفسیر رمی (تیراندازی) سے کی ہے۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ألاَ أَنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ۔ یعنی خبردار ”قوة“ پھینکنا ہے۔ (مسلم، مشکوٰة ۳۳۶) اس پھینکنے میں جس طرح تیر کا پھینکنا داخل ہے، اسی طرح اس میں کسی بھی ہتھیار کے ذریعہ مطلوبہ چیز کو نشانہ بنانا، راکٹ، میزائل وغیرہ کوٹھیک نشانہ تک پہنچانا بھی داخل ہے اور ان میں سے ہر ایک کی مشق جہاں جسمانی لحاظ سے بہترین ورزش ہے، وہیں باعث اجر وثواب بھی ہے۔ (بذل المجہود:۱۱/۴۲۸) ایک حدیث میں آں حضرت نے ارشاد فرمایا: بے شک ایک تیر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تین افراد کو جنت میں داخل کردیتا ہے۔ ایک تیر بنانے والا؛ جبکہ وہ تیر بنانے میں ثواب کی نیت رکھے۔ دوسرا تیر پھینکنے والا اور تیسرا پکڑنے والا، پس اے لوگو! تیر اندازی سیکھو (سنن دارمی، مشکوٰة ۳۳۷)۔
          ۲- سواری کی مشق: یہ کھیل بھی اسلام کا پسندیدہ کھیل ہے، اس سے بھی جسم کی پوری ورزش کے ساتھ انسان میں مہارت، ہمت وجرأت اور بلند حوصلہ جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں اور سفر میں اور جہاد میں بھی خوب کام آتا ہے، اگرچہ قرآن وحدیث میں عام طور پر گھوڑے کاذکر آیا ہے؛ مگر اس میں ہر وہ سواری مراد ہے؛ جو جہاد میں کام آسکے۔
          جہاد کے اس اعلیٰ مقصد کے پیش نظر جو شخص گھوڑا پالے اس کے لیے بڑی بشارتیں ہیں۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے اللہ کے راستے میں گھوڑے باندھ کر رکھا، اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اس کے وعدہ کی تصدیق کرتے ہوئے، تو اس گھوڑے کا تمام کھانا پینا حتی کہ گوبر، پیشاب، قیامت کے دن اس شخص کے نامہٴ اعمال میں نیکی کے طور پر شمار ہوگا۔ (بخاری، مشکوٰة۳۳۰)
          مقاصد کے لحاظ سے گھوڑا رکھنے کی متعدد شکلیں ہوسکتی ہیں: ایک روایت میں اس پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے ”آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں، بعض کے لیے ثواب، بعض کے لیے باعث تحفظ، بعض کے لیے وبال۔ باعث ثواب تو وہ گھوڑے ہیں؛ جنھیں آدمی راہ خدا میں استعمال کرنے کے لیے تیار رکھتا ہے۔ ایسے گھوڑے اپنے پیٹ میں جو کچھ بھی اتارتے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کے عوض مالک کے لیے ثواب لکھ دیتا ہے․․․․ اور باعث تحفظ وہ گھوڑے ہیں جنھیں آدمی اپنی عزت کو برقرار رکھنے اور اللہ کی نعمت کے اظہار کے لیے رکھتا ہے اور گھوڑے کی پشت اور شکم سے متعلق جو حقوق وابستہ ہیں، انھیں فراموش نہیں کرتا۔ خواہ تنگی ہو یا فراخی اور باعثِ وبال وہ گھوڑے ہیں، جنھیں مالک نے ریا، غرور، تکبر اور اترانے کے لیے رکھا ہو، ایسے گھوڑے مالک کے لیے وبال ہیں۔ (مسلم کتاب الزکوٰة۲/۶۰)
          احادیث طیبہ میں اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے اگرچہ گھوڑوں کے فضائل مذکور ہیں؛ مگر اشتراکِ علت کے پیش نظر ہر وہ سواری جو جہاد میں کام آتی ہو، یا ذاتی تحفظ اور اچھے مقاصد کے لیے آمد ورفت کے کام آتی ہو۔ اگر اسے بھی اچھی نیت سے چلانے کی مشق کی جائے؛ تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوگی۔ جیسے: ہیلی کاپٹر، ہوائی جہاز، بحری جہاز، لڑاکا طیارہ، ٹینک، بکتربند گاڑیاں، جیپ کار، بس، موٹر سائیکل، سائیکل وغیرہ۔ ان سب سواریوں کے چلانے کی مشق اور ٹریننگ اسلامی نقطئہ نظر سے پسندیدہ کھیل ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ جائز اور نیک مقاصد کے لیے انھیں سیکھا جائے اور استعمال کیا جائے۔
          ۳- دوڑلگانا: اپنی صحت اور توانائی کے مطابق، ہلکی یا تیز دوڑ بہترین جسمانی ورزش ہے۔ اس کی افادیت پر سارے علماء اور ڈاکٹر متفق ہیں۔ احادیث سے بھی اس کا جواز؛ بلکہ استحباب مفہوم ہوتا ہے۔ رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کی یاد سے تعلق نہ رکھنے والی ہر چیز لہوولعب ہے، سوائے چار چیزوں کے: (۱) آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا (۲) اپنے گھوڑے سدھانا (۳) دونشانوں کے درمیان پیدل دوڑنا (۴) تیراکی سیکھنا سکھانا۔ (کنزالعمال ۱۵/۲۱۱، الجامع الصغیر۵/۲۳)
          پیدل دوڑنے کی اسی افادیت کی وجہ سے صحابہٴ کرام عام طور پر دوڑ لگایا کرتے تھے اور ان میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ سابق میں مشکوٰةُ المصابیح کے حوالہ سے شرح السنہ کی یہ روایت آچکی ہے کہ بلال بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے صحابہٴ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ (مشکوٰة ۴۰۷)
          پیدل دوڑ میں مثالی شہرت رکھنے والے صحابی حضرت سلمہ بن الاکوع کہتے ہیں: کہ ہم ایک سفر میں چلے جارہے تھے، ہمارے ساتھ ایک انصاری نوجوان بھی تھا، جو پیدل دوڑ میں کبھی کسی سے مات نہ کھاتا تھا، وہ راستہ میں کہنے لگا، ہے کوئی؟ جو مدینہ تک مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کرے، ہے کوئی دوڑ لگانے والا؟ سب نے اس سے کہا: تم نہ کسی شریف کی عزت کرتے ہو اور نہ کسی شریف آدمی سے ڈرتے ہو۔ وہ پلٹ کر کہنے لگا ہاں! رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ میں نے یہ معاملہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رکھتے ہوئے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیجیے کہ میں ان سے دوڑلگاؤں۔ آپنے فرمایا ٹھیک ہے، اگر تم چاہو؛ چنانچہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑلگائی اور جیت گیا۔ (صحیح مسلم)
          حضرت عبداللہ بن عمر کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروق اور زبیربن العوام میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت زبیر آگے نکل گئے، تو فرمایا: رب کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ دوڑ کا مقابلہ ہوا، تو حضرت فاروق آگے نکل گئے، توانھوں نے وہی جملہ دہرایا: ربِ کعبہ کی قسم میں جیت گیا۔ (کنزالعمال ۱۵/۲۲۴)
          ۴- بیوی کے ساتھ بے تکلّفانہ کھیل: مرد کا اپنی بیوی کے ساتھ مختلف بے تکلفی کا کھیل بھی اسلام کی نظر میں مستحسن ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔ میں نے آپ سے دوڑ لگائی اور آگے نکل گئی۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک سفر میں میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے دوڑلگائی اب میرے جسم پر گوشت چڑھ گیا تھا تو آپ مجھ سے آگے نکل گئے اور آپ نے فرمایا یہ اس کے بدلہ میں ہے (سنن ابی داؤد)
          مذکورہ حدیث نبوی سے بیوی کے ساتھ تفریح کرنے اور دوڑ لگانے دونوں کی افادیت سمجھ میں آتی ہے؛ لیکن واضح رہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دونوں واقعہ اس وقت کا ہے؛ جب کہ قافلہ آپ کے حکم سے آگے جاچکا تھا اور وہاں آں حضور اور حضرت عائشہ کے علاوہ کوئی نہ تھا، وہ تنہا تھے۔ کسی اور کی موجودگی میں ایسا نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ یہ حیا کے خلاف ہے۔
          ۵- نیزہ بازی: نیزہ زنی اور بھالا چلانا ایک مستحسن کھیل ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم میں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ میرے حجرے کے دروازہ پر کھڑے ہوگئے۔ جب کہ کچھ حبشی نیزوں کے ساتھ مسجد کے باہر صحن میں نیزوں سے کھیل رہے تھے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی چادر سے چھپارہے تھے اور میں آپ کے کان اور کندھوں کے درمیان حبشیوں کو کھیلتے دیکھ رہی تھی۔ (صحیح بخاری مع الفتح)
          ۶- تیراکی: تیرنے کی مشق ایک بہترین اور مکمل جسمانی ورزش ہے، جس میں جسم کے تمام اعضا وجوارح کی بھرپور ورزش ہوتی ہے، یہاں تک کہ سانس کی بھی ورزش ہوتی ہے۔ سیلاب آنے کی صورت میں ایک ماہر تیراک انسانیت کی بہترین خدمت کرسکتا ہے۔ نشیبی علاقوں میں عام طور پر قریب میں ندی نالے تالاب وغیرہ ہوتے ہیں اور ان میں ڈوبنے کے واقعات بھی عام طور پر پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسے حادثاتی مواقع پر ماہر تیراک لوگوں کی جان بچانے کی کامیاب کوشش کرسکتا ہے۔ اس سے جہادی تربیت کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے؛ کیوں کہ کسی بھی جنگ میں ندی نالے، تالاب اور دریا کو عبور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ ایک طبعی امر ہے۔ آج کل کی جنگوں میں سمندر کی ناکہ بندی کو دفاعی نقطئہ نظر سے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ لہٰذا تیراکی جہاں تفریحِ طبع اور جسمانی ورزش کا عمدہ ذریعہ ہے، وہیں بہت سے دیگر سماجی ودماعی فوائد کا حامل بھی ہے۔ اسی لیے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کا بہترین کھیل تیراکی ہے اور عورت کا بہترین کھیل سوت کاتنا۔ (کنزالعمال۱۵/۲۱۱) اسی لیے صحابہٴ کرام نہ صرف یہ کہ تیراکی کے ماہر تھے؛ بلکہ بسا اوقات تیراکی کا مقابلہ بھی کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ہم حالتِ احرام میں تھے کہ مجھ سے حضرت عمر کہنے لگے آؤ! میں تمہارے ساتھ غوطہ لگانے کا مقابلہ کروں، دیکھیں ہم میں سے کس کی سانس لمبی ہے (عوارف المعارف للسہروردی)
          ۷،۸- کُشتی اورکبڈی: اس کھیل میں ورزش کا بھرپور سامان ہے۔ اگر ستر کی رعایت اور انہماک کے بغیر کھیلا جائے، تو جائز ہوگا؛ بلکہ نیک مقصد کے لیے مستحسن قرار دیاجائے گا۔ عرب کا ایک مشہور پہلوان رُکانہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کشتی ٹھیرائی، تو آپ نے اس کو کشتی میں بچھاڑ دیا۔ (ابوداؤد فی المراسیل) مذکورہ تمام کھیل چوں کہ احادیث وآثار سے ثابت ہیں؛ اس لیے ان کے جواز؛ بلکہ استحباب میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا، اورکبڈی کا حکم بھی کشتی کی طرح ہے۔
ناپسندیدہ کھیل:
          ان کے علاوہ جو کھیل کود رائج ہیں: ان کی شرعی حیثیت کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ جن کھیلوں کی احادیث و آثار میں صریح ممانعت کی گئی ہے، وہ سب ناجائز ہیں: جیسے نرد، شطرنج، کبوتربازی، اور جانوروں کو لڑانا۔
          ۱- نرد: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نرد یعنی چوسر کھیلنے سے سختی سے منع فرمایا: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے نرد شیر کا کھیل کھیلا، تو گویا اس نے اپنے ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خوں سے رنگ لیے (مسلم، مشکوٰة ۳۸۶) ایک دوسری روایت میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جس نے نرد یعنی چوسر کھیلا اس نے اللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی (ابوداؤد)
          ۲- شطرنج: صحابہٴ کرام نے شطرنج کھیلنے سے صراحتاً منع فرمایا اور ظاہر ہے کہ صحابہٴ کرام نے شطرنج کی ممانعت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوگی۔ (مرقاة المصابیح ۳۸۷) حضرت علی فرماتے ہیں کہ: شطرنج عجمیوں کا جوا ہے (بیہقی، مشکوٰة ۳۸۷) حضرت ابوموسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ: شطرنج گناہ گاروں کا کھیل ہے۔ انہی سے ایک شخص نے شطرنج کھیلنے کے بارے میں دریافت کیا؛ تو انھوں نے فرمایا: یہ باطل (بیکار کھیل) ہے اور اللہ تعالیٰ باطل کو پسند نہیں فرماتے (بیہقی، مشکوٰة ۸۷) انہی آثار و روایات کی وجہ سے حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام احمد ابن حنبل اس کے کھیلنے کو ناجائز کہتے ہیں۔ امام شافعی کی طرف اگرچہ جواز کی نسبت ہے؛ لیکن صحیح یہ ہے کہ ان کے نزدیک بھی مکروہ ہے۔ علامہ نووی نے شرح مسلم میں صراحت فرمائی: أمَّا الشِطْرَنْجُ فَمَکْرُوہٌ عِنْدَنَا لاَ حَرَامٌ․ اور یہ کراہت بھی مشروط ہے چند شرائط کے ساتھ کہ نماز اور جوابِ سلام سے غافل نہ کرے اور بہت نہ کھیلے۔ (التفسیر الأحمدی بحوالہٴ امداد الفتاویٰ۴/۲۴۱)
          ۳- کبوتربازی: احادیث کی روشنی میں یہ بھی ممنوع ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے دوڑتے ہوئے دیکھا؛ تو فرمایا: شَیْطَانٌ یَتَّبِعُ شَیْطَانَةً کہ ایک شیطان دوسرے شیطان کے پیچھے دوڑا جارہا ہے۔ (ابوداؤد)
          کنزالعمال کی ایک روایت میں ہے کہ جب دنیا میں سازوسامان کی فراوانی ہوئی اور لوگوں پر موٹاپا چڑھنے لگا، تو مدینہ طیبہ میں پہلی برائی یہ ظاہر ہوئی کہ لوگوں نے کبوتر بازی اور غلیل بازی شروع کردی۔ حضرت عثمان غنی کا زمانہ تھا؛ انھوں نے بنو لیث سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کو مدینہ منورہ میں محض اس کام کے لیے مقرر کیا کہ وہ کبوتر کے پرکاٹ دیں اور غلیلیں توڑ دیں۔
          علامہ نووی فرماتے ہیں کہ کبوتر پالنا انڈا یابچوں کے حصول کے لیے درست ہے؛ لیکن کبوتر بازی کرنا اگر جوے کے ساتھ ہو تو مکروہ ورنہ ناجائز ہے۔ (حاشیہ مشکوٰة)
          ۴- مرغ بازی، بٹیر بازی: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح سے جانوروں کو آپس میں لڑانے کی ممانعت فرمائی ہے، چاہے مرغیوں کو لڑایا جائے یا بٹیر کو یا مینڈھے کو جس کے لڑانے کا معاشرے میں عام رواج ہے، یا کسی اور جانور کو لڑایا جائے۔ نَہٰی رسولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنِ التَّحْرِیْشِ بَیْنَ الْبَہَائِمِ (ترمذی، ابوداؤد) حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اپنے رسالہ ”جانوروں کے حقوق“ میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”مرغ بازی، بٹیر بازی،اور مینڈھے لڑانا اسی طرح کسی جانور کو لڑانا، سب اس میں داخل ہے اور سب حرام ہے کہ خواہ مخواہ ان کو تکلیف دینا ہے اور اسی کے حکم میں ہے، گاڑی بانوں کا بیلوں کو بھگانا کہ وہ بھی ہانپ جاتے ہیں اور بعض اوقات سواریوں کی چوٹ لگ جاتی ہے اور بجز تفاخر اور مقابلہ کے اس میں کوئی مصلحت نہیں اور گھوڑ دوڑ وغیرہ جب کہ اس میں جوانہ ہو، اس سے مستثنیٰ ہے کہ ان کی مشاقی میں مصلحت ہے۔“ (ارشاد الہائم فی حقوق البہائم ۱۹)
موجودہ زمانے کے چند کھیل:
          ۱- پتنگ بازی: جو حکم کبوتر کے پیچھے دوڑنے کا ہے، وہی حکم پتنگ کے پیچھے دوڑنے کا ہے؛ یعنی ناجائز۔ حدیث میں ایسے شخص کو شیطان قرار دیاگیا ہے۔ (ابوداؤد) اس میں بھی اور ناجائز کھیلوں کی طرح متعدد مفاسد ومضرتیں پائی جاتی ہیں اور بعض علاقوں میں خاص مواقع پر ”بسنت منانے“ کے عنوان سے وہ ہلڑبازی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ! اس کے علاوہ قوم کا لاکھوں کروڑوں روپے محض پتنگ بازی کے نذر ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات چھتوں سے گرکر جان کا ضیاع بھی ہوتا ہے، کٹے ہوئے پتنگ کو زبردستی لوٹ لیا جاتا ہے، بے پردگی الگ ہوتی ہے، ان امورِ قبیحہ کی وجہ سے پتنگ بازی بھی شرعی نقطئہ نظر سے ممنوع ہے۔
          ۲- تاش بازی: یہ کھیل بھی شرعی نقطئہ نظر سے ممنوع ہے؛ اس لیے کہ تاش عام طور پر باتصویر ہوا کرتے ہیں۔ تاش کھیلنا عام طور پر فاسق وفاجر لوگوں کا معمول ہے۔ بالعموم جوا اور قمار کی شمولیت ہوتی ہے۔ اس کھیل میں تفریح کی جگہ پرالٹا ذہنی تکان ہوتی ہے۔ اگر جوے کے بغیر بھی کھیلاجائے، تو شطرنج کے حکم میں ہوکر مکروہ تحریمی کہلائے گا۔ بعض احادیث میں شطرنج کی ممانعت آئی ہے۔ جو مصلحت شطرنج کو منع کرنے میں ہے، وہی بات تاش کھیلنے میں پائی جاتی ہے۔ جہاں تک معاملہ تعلیمی تاش کا ہے؛ تو یہ کھیل اگر جوے اور انہماکِ زائد سے پاک ہو، تو نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛ بلکہ مبتدیوں کے لیے یک گونہ مفید بھی ہے۔ (امداد الفتاوی)
          ۳- باکسنگ، فائٹنگ: موجودہ زمانہ میں باکسنگ مُکّا بازی، فری اسٹائل فائٹنگ کے جو مقابلے منعقد ہوتے ہیں، وہ شریعتِ اسلامی میں بالکل حرام ہیں، اسے جائز ورزش کا نام نہیں دیا جاسکتا، ایسے باکسنگ مقابلوں کو ٹی․وی پر براہِ راست نشر کرنا بھی جائز نہیں؛ کیوں کہ اس میں فریق مقابل کو شدید جسمانی اذیت پہنچانے کو جائز تصور کیاجاتا ہے؛ جس سے ہوسکتا ہے کہ مدِمقابل اندھے پن، سخت نقصان، دماغی چوٹ یا گہرے ٹوٹ پھوٹ؛ بلکہ موت سے بھی دوچار ہوجائے۔اس میں مارنے والے پراس نقصان کی کوئی ذمہ داری عاید نہیں ہوتی ہے، جیتنے والے کے حامیوں کو اس کی جیت پر خوشی اور مقابل کی اذیت پر مسرت ہوتی ہے، جو اسلام میں ہرحال میں حرام اور ناقابل قبول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلاَ تُلْقُوْا بِأیْدِیْکُمْ الیٰ التَّہْلُکَةِ یعنی اور تم اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو۔
          ۴- بیلوں کے ساتھ کشتی: اسی طرح بیلوں کے ساتھ کشتی جس میں تربیت یافتہ مسلح افراد اپنی مہارت سے بیل کو موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں، یہ بھی حرام ہے؛ کیوں کہ اس میں جانور کو ایذا پہنچاکر اور جسم میں نیزے بھونک کر قتل کیاجاتا ہے اور بعض اوقات بیل بھی مدِمقابل انسان کو ختم کردیتا ہے یہ عمل کسی بھی حال میں درست نہیں؛ اس لیے کہ روایت میں ایک بلی کو بھوکا مارنے پر جہنم میں ڈالنے کا مضمون آیا ہے۔
          ۵- کیرم بورڈ: یہ کھیل بھی اگر نہماک اور جوے کے بغیر کھیلا جائے تواس کی گنجائش ہے۔
          ۶- لوڈو: اگر اس میں ذی روح کی تصویر نہ ہو اور مذکورہ خرابیوں سے پاک ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
          ۷- ویڈیوگیم: اس کھیل کی مختلف شکلیں رائج ہیں: (۱) جس میں جاندار کی تصویریں نہ ہوں؛ بلکہ بے جان اشیاء مثلاً: ہیلی کاپٹر، جہاز، موٹر سائیکل، بس، ٹیکسی وغیرہ چلانے یا انھیں شکار کرنے کا کھیل ہو۔ یا جاندر کی تصویریں ہوں؛ مگر وہ اس قدر غیرواضح ہوں کہ انھیں تصویر نہ کہا جاسکے؛ بلکہ وہ محض ایک خاکہ کی شکل ہوں؛ تو ان دونوں شکلوں میں وقتی تفریح طبع کے لیے یا ذہن کی تیزی اورحاضر دماغی کے لیے۔ اس کھیل کی شرط کے ساتھ گنجائش ہے کہ مذکورہ ممانعتوں سے پاک ہو (۲) وہ بڑے ویڈیوگیم، جن میں جانداروں کی تصویریں واضح ہوں۔ یہ کھیل تصویر کی حرمت کی وجہ سے ناجائز ہوں گے۔ ہاکی، فٹ بال، والی بال، ٹینس، بیڈمنٹن، کرکٹ: اوپر ذکر کیے گئے کھیلوں کے علاوہ جو بھی کھیل ہے اگر وہ کسی معصیت، حرام یا ناجائز کام پرمشتمل ہوں، وہ بھی اس مقصد حرام کی وجہ سے ناجائز ہوں گے۔ مثلاً کسی کھیل میں سترکھولا جائے، یا اس کھیل میں جوابازی ہو، یا اس میں مرد وعورت کا مخلوط اجتماع ہو، یا اس میں موسیقی کا اہتمام ہو، یا کفار کی خاص مشابہت ہو، یا اس کی وجہ سے فرائض وواجبات میں غفلت ہورہی ہو۔
          اسی طرح وہ کھیل جو بلامقصد محض وقت گزاری کے لیے کھیلے جاتے ہیں، وہ بھی ناجائز ہوں گے۔ اس لیے کہ قرآن کریم میں تو مومنوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بیکار باتوں سے اعراض کرتے ہیں(مومن ۱۳)۔ اس طرح کے کھیلوں کا اصولی طور پر حکم جاننے کے لیے حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کا یہ فتویٰ چشم کشا ہے: (الف) وہ کھیل جس سے دینی یا دنیوی معتد بہا فائدہ مقصود نہ ہو وہ ناجائز ہے اور وہی حدیث کا مصداق ہے۔
          (ب) جس کھیل سے کوئی دینی یا دنیوی فائدہ معتد بہا مقصود ہو، وہ جائز ہے۔ بشرطیکہ اس میں کوئی امر خلافِ شرع ملا ہوا نہ ہو اور من جملہ امور خلاف شرع تشبّہ بالکفار (کفار کی نقالی) بھی ہے۔
          لہٰذا معلوم ہوا کہ گیند کا کھیل خواہ کرکٹ وغیرہ ہوں، یا دوسرے دیسی کھیل، فی نفسہ جائز ہیں؛ کیوں کہ ان سے تفریح طبع اور ورزش وتقویت ہوتی ہے، جو دنیوی اہم فائدہ بھی ہے اور دینی فوائد کے لیے سبب بھی؛ لیکن شرط یہی ہے کہ یہ کھیل اس طرح پر ہوں کہ ان میں کوئی امر خلاف شرع اور تشبہّ بالکفار نہ ہو، نہ ہی لباس کے طرزمیں انگریزیت ہو اور نہ گھٹنے کھلے ہوں، نہ اپنے نہ دوسروں کے اور نہ اس طرح اشتغال ہو کہ ضروریاتِ اسلام نماز وغیرہ میں خلل آئے، اگر کوئی شخص ان شرائط کے ساتھ کرکٹ، ٹینس وغیرہ کھیل سکتا ہے، تو اس کے لیے جائز ہے ورنہ نہیں، آج کل چوں کہ عموماً یہ شرائط موجودہ کھیل میں نہیں ہیں؛ اس لیے ناجائز کہاجاتا ہے (امداد المفتیین جدید ۱۰۰۱،۱۰۰۲) معلوم ہوا کہ موجودہ دور میں مروّج کھیل مثلاً: ہاکی، فٹ بال، والی بال، ٹینس، بیڈ منٹن، کشتی، کرکٹ کی بعض شکلیں وغیرہ، جس میں بھرپور ورزش کا امکان ہوتا ہے، فی نفسہ ان کاکھیل درست ہے؛ لیکن چوں کہ عام طور پر ان کھیلوں میں اور ان کے لیے منعقد ہونے والے مقابلوں میں مندرجہ ذیل خرابیاں درآئی ہیں: (۱) انہماک زیادہ ہونا (۲) لوگ فرائض وواجبات سے غافل ہوجاتے ہیں (۳) اسراف وتبذیر کی نوبت آتی ہے (۴) وقت کا بے پناہ ضیاع ہوتا ہے (۵) اکثر کھیلوں میں سترپوشی کا اہتمام نہیں کیا جاتا ہے۔ (۶) اکثر جگہوں پر مرد وعورت کا اختلاط ہوتا ہے (۷) محرمات: مثلاً بدنظری، گانا، ڈانس، ہلڑبازی کا ارتکاب ہوتا ہے (۸) بعض کھیل کے ماہرین کو قومی ہیرو اور آئیڈیل کا درجہ دے کر نونہالوں کے مستقبل سے کھلواڑ کیاجاتا ہے۔ (۹) سٹے بازی، جوے بازی، میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ کا سیلاب بلاخیز آیا ہوا ہے؛ لہٰذا مذکورہ خرابیوں کی وجہ سے ان کھیلوں کے عدمِ جواز کا حکم لگایا جاتا ہے۔
          جیت ہار میں پیسے کی شرط: کھیل کی جیت ہار میں اگر پیسے کی شرط ہو، تو اس کی چار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک صورت ناجائز ہے، باقی تین صورتیں جائز ہیں: (۱) دو یا چند افراد کے مابین مقابلہ ہو اور ہر شخص پر یہ بات لازم قرار دی گئی ہو کہ وہ ہارنے کی صورت میں جیتنے والے کو متعین رقم دے گا اور اگر وہ جیت جائے تو دوسرے لوگ اسے رقم دیں گے۔ یہ صورت جوا ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔(۲) دو آدمیوں میں جیت ہار پر دوطرفہ شرط ہو؛ لیکن تیسرے آدمی کو بغیر کسی شرط کے شریک کرلیاگیا ہو کہ اگر وہ ہارجائے، تو اسے کچھ دینا نہ پڑے گا اور اگر وہ جیتے، تو باقی دونوں اسے حسب معاہدہ انعام دیں گے اور تیسرا شخص بھی اس پوزیشن میں ہوکہ اس کے جیتنے کی توقع کی جاسکتی ہو؛ یہ صورت بھی جائز ہے۔ (۴) دوشخص مقابلہ میں شریک ہوں اور جیتنے والے کو انعام کوئی کمپنی، حکومت، ادارہ یا کوئی اور شخص دے۔ یہ صورت بھی جائزہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب السباق ۶/۶۰۶ ، رد المحتار)
          کھیل دیکھنے کے لیے ٹکٹ خریدنے کا حکم: کھیل دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم اور میدان میں داخل ہونے کے لیے ناظرین کو داخلہ کارڈ، یا ٹکٹ کی خریداری کرنی پڑتی ہے۔ اس کا شرعی حکم کھیل کی نوعیت سے وابستہ ہے۔ جائز کھیلوں کے لیے ٹکٹ کی خریداری اور انھیں دیکھنے کی گنجائش ہے اور ناجائز ومکروہ کھیل کے لیے نہ ٹکٹ خریدنے کی گنجائش ہے، نہ دیکھنے کی۔ کیوں کہ یہ آیت کریمہ ”یشتری لہو الحدیث“ کے وعید میں شامل ہے۔
سیر وسیاحت:
          نئے مقامات کی دریافت، فرحت انگیز اور خوش کن مناظر، بلندوبالا عمارت، آثار قدیمہ اور تہذیبوں کے مدفن کھنڈرات کے مشاہدہ اور مقدّس مقامات ومذہبی اماکن کی زیارت کا داعیہ فطری ہے۔ اس سے انسان کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے، بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی جذبہ کے تحت سیر وسیاحت کا ہر زمانہ میں رواج رہا ہے، بہت سے علما ومحققین اور دانشوروں نے سیروسیاحت اور بادیہ پیمائی اور ہفت خوانِ عالم کی اسیری وصحرانوردی سے حاصل تجربات کو دوسروں تک بھی پہنچانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس طرح ایک مستقل فن ”سفرناموں“اور ”رحلات“ کی شکل میں سامنے آیا۔ دنیا ان سفرناموں اور رحلات کے ذریعہ ان تاریخی اسرار ورموز، تہذیب وتمدن اقوام وملل رسم ورواج، مختلف ممالک کے باشندوں کی زندگی کے حالات اور تجربات وغیرہ سے روشناس ہوئی کہ اگریہ سفرنامے نہ ہوتے، تو کبھی ان کا پتہ بھی نہ چلتا، نہ اس کا سراغ ملتا۔ ابن بطوطہ مغربی ابن حوقل، حکیم ناصر خسرو مسلمانوں میں شہرہ آفاق سیاح گذرے ہیں۔ خود ہندوستان کی تاریخ اور قدیم تمدن کے بیان میں مشہور چینی سیاح ہیان جیونگ کو دستاویزی حیثیت حاصل ہے۔
          (الف) شرعی نقطئہ نظر سے سیروسیاحت جائز مقاصد اور جائز طریقہ پر درست ہے؛ بلکہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ”سِیْرُوْا فِیْ الْأرْضِ“ کا حکم دیاگیا ہے۔ سورئہ نمل میں ارشاد ہے: قُلْ سِیْرُوا فِی الأرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْن(۴۹) کہ اے نبی کہہ دیجیے کہ روئے زمین پر سیر کرو اور دیکھو کہ جرم کرنے والوں کا انجام کیا ہوا۔ سورئہ روم میں ارشاد ہے: قُلْ سِیْرُوْا فِی الْأرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلُ، کَانَ أکْثَرُہُمْ مُشْرِکِیْنَ(۴۲) اے نبی کہہ دیجیے! کہ تم روئے زمین پر گھومتے پھرو اور دیکھو کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا جو پہلے ہوا کرتے تھے، ان میں سے اکثر مشرک تھے۔
          مذکورہ آیات اوراس مفہوم کی دوسری آیتوں میں غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ”سیرفی الارض“ یا سیاحت نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛ بلکہ مطلوب ہے؛ لیکن یہ سیر بامقصد ہونا چاہیے، ”نیک لوگوں“ کے علاقوں اور ان کے آثار کو دیکھ کر اسبابِ انعام کی رغبت پیدا ہو،نیکی اور بھلائی کا شوق پیدا ہو۔ اور ”نافرمانوں“ کے مقامات اور ان کے آثار کو دیکھ اسابِ غضب سے بچنے کا داعیہ پیدا ہو، قلب میں رقت پیدا ہو، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک غزوے کے موقع پر قوم عاد کے علاقہ سے گذررہے تھے، تو آپ نے سواریوں کو تیز ہکانے کا حکم فرمایا اور چہرے پھیر لیے۔ اور استغفار کی کثرت کا حکم دیا، مطلق سیر کی کوئی ممانعت نہیں۔ اس کا جواز یا عدم جواز مقصد سفر سے وابستہ ہے۔ اگرمقاصد درست ہوں؛ تو سفر بھی درست ہوگا، اگر مقاصد غلط ہوں تو سفر بھی غلط ہوگا۔ حدیث نبوی: لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ الاَّ الیٰ ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ (بخاری مع الفتح ۱۱۸۹) کی تحقیق میں بھی علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ علامہ بدرالدینی عینی نے عمدة القاری (۳/۶۳) میں اپنے شیخ زین الدین عراقی سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث میں مساجد کے حکم کو بیان کرنا مقصود ہے۔ جہاں تک مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات کے قصد کا تعلق ہے، جیسے طلبِ علم کے لیے سفر کرنا، رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے سفر کرنا، تفریح یا مبارک آثار اور مقابر کی زیارت کے لیے سفر کرنا اور اس طرح کے دوسرے اسفار اس ممانعت میں داخل نہیں ہیں۔ (معارف السنن۳/۳۳۶)
          (ب) جن علاقوں میں جان مال عزت وآبرو کو خطرہ لاحق ہو، ان علاقوں کا نہ تو خود سفر کرنا درست ہے۔ نہ اہل وعیال کو لے جانا درست ہے۔ ارشاد باری ہے: وَلاَ تُلْقُوْا بِأیْدِیْکُمْ الیٰ التَّہْلُکَةِ (بقرہ۱۹۵) اور تم اپنے آپ کو ہلاکت اور تباہی میں مت ڈالو۔ بخاری کی ایک روایت میں رات کے اوقات میں تنہا سفر کرنے سے منع فرمایاگیا ہے؛ کیوں کہ اس میں خطرہ ہے۔
          (ج) جن مقامات پر مختلف ممالک کے سیاحوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ وہاں بعض غیرشرعی باتیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایسے مقامات پر نظر کی حفاظت کرتے ہوئے، جانے کی گنجائش ہے؛ لیکن چوں کہ ماحول کا اثر مسلم ہے۔ لہٰذا ایسے مقامات پر نہ جانا بہتر ہے،ایسے مقامات پر آداب کی رعایت کے ساتھ جس طرح جانے کی گنجائش ہے، فی نفسہ وہاں کے لیے سواری کرایہ پر لینے اور وہاں کاروباری نقطئہ نظر سے دکان لگانے کی بھی گنجائش ہے؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ حکومتوں اور تنظیموں کی طرف سے بے حیائی کے روک تھام کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
          (د) ٹورکمپنیاں قائم کرنے کا جواز یا عدم جواز مقاصد سے وابستہ ہے۔ جائز مقاصد کے لیے ٹورکمپنیاں قائم کرنا اور اسے چلانا درست ہے۔
          ۴- تعلیم وتذکیر کے لیے فلموں کا استعمال: فلم درحقیقت عکس بندی کا نام ہے۔ یہ عکس بندی جاندارچیزوں کی بھی ہوتی ہے اور بے جان چیزوں کی بھی۔ کسی بھی جاندار کی تصویر کھینچنا اور کھینچوانا کسی حال میں بھی درست نہیں ہے۔ خواہ ہاتھ کے ذریعہ ہو، یا قلم سے یا کیمرہ کے ذریعہ ہو یا پریس پر چھاپ کر۔ یا سانچہ او رمشین میں ڈھال کر۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَشَدُّ النَّاسِ عَذَاباً یَومَ القِیَامَةِ الْمُصَوِّرُوْن (بخاری حدیث ۵۹۵۴/باب التصاویر) قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد صحیح احادیث ہیں؛ جن میں تصویر سازی کی مذمت کی گئی ہے۔ ویڈویو اور کیمرہ کی تصویر بھی درحقیقت تصویر ہی ہے۔ اس سلسلہ میں عرب کے بعض غیرمحتاط علماء کے ضعیف اقوال کو وجہ جواز نہیں بنایا جاسکتا؛ لہٰذا جان دار چیزوں کی فلم بندی کسی حال میں درست نہیں ہے، ضرورت کے مواقع مستثنیٰ ہیں۔ تعلیمی مقاصد وتذکیری مقاصد ضرورت میں شامل نہیں۔
          (۵) کارٹون دو طرح کے ہوتے ہیں: محض خاکہ جس میں چہرہ سروغیرہ نہیں ہوتا ہے۔ دوسرا کارٹون،جو اخباروں اور ٹیلویژن میں مروّج ہے۔ جس میں سر بھی ہوتا ہے، چہرہ بھی ہوتا ہے اگرچہ وہ مسخ شدہ ہوتا ہے۔ پہلے قسم کا کارٹون؛ بلکہ خاکے بنانا درست ہے۔
          دوسرے قسم کے کارٹون جو موجودہ زمانے میں مروّج ہیں؛ وہ بھی تصویر کے حکم میں داخل ہیں، اگرچہ وہ تصویر بگڑی ہوئی ہوتی ہے؛ لہٰذا اس طرح ذی روح کا کارٹون بنانا درست نہیں؛ بلکہ تصویر سازی کے گناہ پر بھلی صورتوں کو بگاڑکر مذاق بنانے کا گناہ مستزاد ہوگا۔
          (۶) کارٹون بنانا چوں کہ گناہ کا کام ہے؛ اس لیے اس کو ذریعہٴ آمدنی بنانا اور اس مقصد کے لیے ملازمت کرنا گناہ کے کاموں پر تعاون ہونے کی وجہ سے ممنوع ہوگا۔ ارشاد باری ہے: تَعَاوَنُوا عَلیٰ البِرِّ وَالتَّقْویٰ وَلاَ تَعَاوَنُوا عَلیٰ الاثْمِ وَالْعُدْوَانِ․ یعنی نیکی کے کاموں پر تعاون کرو۔ گناہ اور ظلم کے کاموں پر تعاون مت کرو۔ بعض فقہاء نے نابالغ بچوں کے لیے باتصویر کھلونوں سے کھیلنے کو درست قرار دیا ہے۔ نابالغ بچے اگر کارٹون کے پروگرام دیکھیں؛ تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ بچوں کا وقت ضائع نہ ہو اور ان کے دلوں سے تصویر کی کراہت نہ نکلے۔ (تصویر کے شرعی احکام: از: مفتی محمد شفیع)
          اسٹیج ڈرامہ: بہتر مقاصد کے لیے اگراسٹیج ڈرامہ کیا جاتا ہے؛ تو اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت ہے کہ: اس میں (۱) دھوکہ نہ ہو (۲) موسیقی کا استعمال نہ ہو (۳) کسی مومن کی کردارکشی نہ کی گئی ہو (۴) شکلیں بگاڑی نہ جائیں (۵) انہماک زائد نہ ہو (۶) مردوزن کا اختلاط نہ ہو؛ لیکن موجودہ زمانے میں جو ”اسٹیج شو“ کے نام سے ڈرامے مروّج ہیں، وہ مفاسد سے پُرہوتے ہیں۔ اس لیے ممنوع ہیں۔
          مدارس میں منعقد ہونے والے مکالمے، محادثے بالعموم اصلاحی تذکیری ہوتے ہیں اور مذکورہ مفاسد سے پاک ہوتے ہیں؛ اس لیے ان کی گنجائش ہے۔ تمام تفریحات اور کھیل کود میں اصل یہ ہے کہ انسان کسی حال میں اپنے مقصدِ حیات اور فکرِ آخرت سے غافل نہ ہو۔
واللّٰہ اعلم بالصواب