Monday, 30 December 2024

نعت گوئی میں مبالغہ آرائی کے ذریعے حد سے تجاوز کرنا ممنوع ہے

نعت گوئی میں مبالغہ آرائی کے ذریعے حد سے تجاوز کرنا ممنوع ہے
-------------------------------
حضرت مفتی صاحب! 
عرض خدمت یہ ہے کہ آیا یہ نعت پڑھنا درست ہے یا نہیں بالخصوص نشان زدہ مصرعہ کا مرحمت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
سائل: محمد ارشد علی قاسمی سید پوری
الجواب وباللہ التوفیق:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا باعثِ تخلیق کون ومکان ہونا متعدد احادیث سے ثابت ہے، بوصیری کے مقبول عام قصیدہ بردہ کا ایک مصرعہ یوں بھی ہے:
وكيف تدعو إلى الدنيا ضَرُورَةُ مَن …..لولاه لم تُخْرَج الدنيا من العَدَم
مستدرک حاکم ، دلائل النبوہ للبیہقی مرقات وغیرہ میں اس مضمون کی صحیح الاسناد حدیث موجود ہے، توحید وتبدیع جیسے معاملات میں علامہ ابن تیمیہ جیسی متشدد شخصیت بھی ان احادیث کی روشنی میں یہ نقل کررہی ہے: 
"إن الله خلق من أجله العالَم أو: إنه لولا هو لَمَا خَلق الله عرشًا ولا كرسيًّا ولا سماءً ولا أرضًا ولا شمسًا ولا قمرًا. مجموع الفتاوى (11/86-96)
لہٰذا اس تناظر میں  "جہاں آپ کا ہے ستاروں کا، یہ کارواں آپ کا“ کہنا موجب شرک نہیں ہے- 
"اگر میرے آقا عنایت کریں گے"
عنایت کے معنی لطف وکرم اور توجہ کے ہیں، اس کے معنی عطاء وبخشش کی ہی نہیں ہیں. اس لحاظ سے اس مصرع میں بھی شرکیہ مفہوم مجھے نہیں معلوم ہوتا ہے 
نعت گوئی انتہائی نازک وحساس صنف سخن ہے. اس میں بیجا مدح سرائی اور تعریف وتوصیف میں حدود سے تجاوز کرنا اور مدح وستائش میں مبالغہ آرائی سے کام لینا خاصا خطرناک ہے اور انسان کو کہیں سے کہیں پہنچادیتا ہے ۔
مبالغہ آمیز مدح سرائی، منبع اوصاف وکمالات، وجہ تخلیق کون ومکان، محبوب باری، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے لئے منع فرمادی ہے، ارشاد نبوی ہے: 
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ: لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ.
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھادیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں- (صحیح البخاری: ٣٤٤٥)
اس حدیث میں غیرواقعی چیزوں پہ تعریف کرتے ہوئے مبالغہ آرائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ایسی چیزیں منسوب کرنے سے منع کیا گیا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہیں. جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علم غیب، حاضر وناظر یا اختیارکلی جیسی چیزیں منسوب کردینا، کیونکہ یہ چیزیں صرف اللہ کی خصوصیات ہیں، حضور باوجود جملہ خصوصیات کے لوگوں کے ان دعاوی محضہ سے متصف نہیں، جیسے عیسی ابن مریم جملہ معجزات کے علی الرغم ابنیت خداوندی سے متصف نہیں ہیں۔ لہذا نعت لکھتے یا پڑھتے ہوئے ان حدود کا پاس ولحاظ رکھنا ازبس ضروری ہے. 
٢٦ دسمبر ٢٠٢٤ء
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2024/12/blog-post_30.html
( #ایس_اے_ساگر)

No comments:

Post a Comment