Tuesday, 10 December 2024

فساد شام {إذا فسد أهل الشام} کی حقیقت

فساد شام {إذا فسد أهل الشام} کی حقیقت

-------------------------------

آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے بڑے لڑکے (مشہور قول کے مطابق) "سام" کے نام پہ آباد ہونے والے ملک "شام" کو انگریزی میں "syria"  عربی میں "سوریا" اور سریانی میں شام کہتے ہیں۔ طوفان نوح کے بعد سام بن نوح اسی علاقے میں آباد ہوئے تھے۔ اس لئے "شام " کے نام سے یہ علاقہ مشہور ہوگیا۔ قدیم نبوتوں، صحیفوں، قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں "شام" کو بڑی عظمت حاصل ہے۔ اس بابرکت اور باحیثیت ملک کے حدود کافی وسیع تھے۔ جسے اسلام دشمن فرانسیسی  استعماری قوت  نے سنہ 1920 عیسوی میں درج ذیل چار الگ الگ سرحدوں میں بانٹ دیا۔ 

1 : حالیہ شام (دارالحکومت دمشق) جہاں روافض کا خونی پنجہ مسلم جسم کو نوچ رہا ہے۔

2 : فلسطین =اسرائیل = (دارالحکومت بیت المقدس) جہاں پون صدی سے یہود قابض ہیں،

3 : لبنان (دارالحکومت بیروت) جہاں مسلمانوں کو اقلیت میں رکھا گیا ہے اور طریقے طریقے سے ان کا استحصال کیا جاتا ہے،

4 : اردن (دارالحکومت عمان) جہاں برطانوی استعمار کے پرانے ایجنٹ اور نمک خور مسلط ہیں اور صیہونیوں سے یاری کا حق ادا کرتے ہیں!

غیرمنقسم ملک شام پر 636 عیسوی سے 1920 عیسوی تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔

1920 میں  شریف مکہ کی غداری کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اور 1920 میں شام  فرانس کے قبضہ میں چلا گیا۔

1946 میں فرانسیسی استعماریت سے آزادی ملی۔

اور حافظ امین وہاں کا سربراہ بنا۔ 1970 عیسوی میں حافظ الاسد ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ  امین سے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

2000 میں اس کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا بشارالاسد اس  ملک کا صدر بن گیا اور آج تک اسی کی  قہرمانیوں کی زد میں سرزمین انبیاء ہے۔

بشارالاسد شیعہ نصیری فرقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ جو مسلمانوں کا سخت ترین دشمن اور صیہونیوں کا وفادار رہا ہے۔ اس فرقہ کے چند مخصوص عقائد یہ ہیں: 

1: حضرت علی رضی اللہ عنہ میں خداتعالی حلول کئے ہوئے ہیں۔

2: ہندوستانی برہمنوں کی طرح تناسخ ارواح (آوا گون) کا قائل ہے۔ حساب کتاب اور بعث وحشر کا منکر ہے۔

3: دینی فرائض نماز روزہ کی فرضیت کا قائل نہیں۔ مسجدوں کی تعمیر وبناء کا بھی انکاری ہے۔

4: محرمات شرعیہ: زناء، شراب نوشی وغیرہ کی حلت کا قائل ہے۔

اسی لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے مختلف رسائل میں یہ فتوی دیا کہ:

نہ ان کی عورتوں سے مناکحت جائز ہے۔ نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ نہ ان کی میت پہ نماز جنازہ پڑھنا درست ہے۔ اس کے کسی بھی فرد کو اسلامی فوج و لشکر میں نوکری دینا ایسے ہی خطرناک ہے جیسے بکریوں کے ریوڑ میں بھیڑ کو رکھنا۔ اس لئے اسے مسلم فوجیوں میں ملازمت دینا گناہ کبیرہ ہے۔ مسلمانوں کی بجائے صہیونی اور یہودیوں سے ان کے تعلقات رہتے ہیں-"

انہوں نے صلاح الدین ایوبی کے خلاف صلیبیوں کا، ظاہر بیبرس  کے خلاف تاتاریوں کا، اور عثمانیوں کے خلاف صفویوں اور فرانسیسیوں کا ساتھ دیا ہے۔ مذہب اسلام میں اچھا یا برا ہونے کا اصل معیار تو انسانی عمل ہے۔ انسان حسب نسب جاہ وحشمت سے نہیں، بلکہ خود اپنے عمل  سے نیک وبد بنتا ہے۔ لیکن بعض مکانوں اور جگہوں  کے فضائل قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ حرمین طیبین  کے بعد سب سے زیادہ اس غیرمنقسم بلاد شام کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ سورہ الانبیاء آیت 71+ 81+  میں اس کی برکت واہمیت کی صراحت آئی ہے۔ بعض علماء نے اس کے فضائل پہ مستقل کتابیں لکھی ہیں اور اس کی اہمیت و حیثیت کے حوالے سے ساری روایتیں جمع کی ہیں۔ جس میں رطب ویابس، صحیح وسقیم حتی کہ من گھرت  قسم کی روایتیں بھی در آئی ہیں۔ لیکن ہم  ذیل میں  فضائل شام کی بیس احادیث ذکر کررہے ہیں جنہیں فن حدیث کے ماہرین نے صحیح کہا ہے۔

1- عن عبدالله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «اللهم بارك لنا في شامنا، اللهم بارك لنا في يمننا»، قالوا: "يا رسول الله، وفي نجدنا؟" فأظنه قال في الثالثة: «هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان» (أخرجه البخاري [1037])    

ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا]: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما) صحابہ کرام نے عرض کیا: "اور ہمارے نجد میں بھی؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما)، صحابہ کرام نے عرض کیا: "اورہمارے نجد میں بھی؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (وہاں زلزلے، فتنے ہونگے اور وہیں سے شیطان کا سینگ رونما ہوگا) 

2- عن أبي الدرداء رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بينا أنا نائم إذ رأيتُ عمود الكتاب احتمل من تحت رأسي، فظننتُ أنه مذهوب به، فأتبعته بصري، فعمد به إلى الشام، ألا وإن الإيمان حين تقع الفتن بالشام» (أخرجه أحمد [21733]، وصحّحه الأرناؤوط۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ عمودالکتاب (ایمان) کو لے گئے اور انہوں نے (ملک) شام کا قصد کیا۔ جب جب بھی فتنے پھیلیں گے تو شام میں امن وسکون رہے گا۔)

3- عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرو بن العاص رضي اللَّه عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «إني رأيتُ عمودَ الْكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فنظرتُ فَإِذَا هُوَ نورٌ ساطعٌ عُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، أَلا إِنَّ الإِيمَانَ - إِذَا وَقَعَتِ الفتن- بالشام» (أخرجه الحاكم [8554]، وصحّحه على شرط الشيخين ووافقه الذهبي، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب میں سویا ہوا تھا تو میں نے دیکھا کہ عمودالکتاب (ایمان) میرے سر کے نیچے سے کھینچا جارہا ہے۔ میں نے گمان کیا کہ اس کو اٹھالیا جائے گا تو میری آنکھ نے اس کا تعاقب کیا، اس کا قصد (ملک) شام کا تھا جہاں پھوٹتا ہوا نور تھا۔ جب جب بھی شام میں فتنے پھیلیں گے وہاں ایمان میں اضافہ ہوگا۔)

4- عن عبدالله بن عمر بن الخطاب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ لنا النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يومًا: «إني رأيتُ الملائكة في المنامِ أخذوا عمود الكتاب، فعمدوا به إلى الشام، فإذا وقعت الفتنُ فإن الإيمان بالشام» (أخرجه ابن عساكر في تاريخ دمشق [1/110]، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام لأبي الحسن الربعي۔

(ترجمہ تقریبا برابر ہے).

5- عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رأيتُ عمودًا من نور خرج من تحت رأسي ساطعًا حتى استقر بالشام» (أخرجه البيهقي في دلائل النبوة [6/448]، وابن عساكر في تاريخ دمشق [1/109]، وصحّحه الألباني في المشكاة [6280]۔

(ترجمہ تقریبا برابر ہے)

6- عن عبدالله بن حوالة رضي اللَّه عنه: كُنّا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فشكونا إليه العُري والفقر وقلة الشيء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أبشروا؛ فوالله! لأنا من كثرة الشيء أخوف عليكم من قلته، والله! لا يزال هذا الأمر فيكم حتى يفتح الله عز وجل أرض فارس، وأرض الروم، وأرض حِمير، وحتى تكونوا أجناداً ثلاثة: جنداً بالشام، وجنداً بالعراق، وجنداً باليمن، وحتى يُعطى الرجل المئة فيسخطها». قال ابن حوالة: "فقلتُ: يا رسول الله! اخترلي إن أدركني ذلك؟" قال: «إني أختار لك الشام؛ فإنه صفوة الله عز وجل من بلاده، وإليه يحشر صفوته من عباده. يا أهل اليمن! عليكم بالشام؛ فإنه صفوة الله عز وجل من أرض الشام، ألافمن أبى؛ فليسق من غُدر اليمن -جمع غدير الماء-؛ فإن الله عز وجل قد تكفّل بالشام وأهله» (أخرجه ابن عساكر في تاريخ دمشق [1/75]، وقال الألباني في السلسلة الصحيحة [7/1260]: إسناده صحيح رجاله كلهم ثقات).

حضرت ابن حولہ ؓ کہتے ہیں کہ  ہم رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس تھے۔ ہم نے فقر وتنگدستی وبرہنگی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہارے حوالے سے فقر وتنگدستی سے زیادہ افراط زر سے خوف ہے۔ پھر آپ نے صلی الله علیہ وسلم فرمایا: دین وملت کا یہ نظام چلتا رہے گا یہاں تک  کہ تم مسلمانوں کے جدا جدا کئی لشکر ہوجائیں گے ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، (یہ سن کر ) ابن حولہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (اگر اس زمانہ میں میں ہوا تو) فرمائیے کہ میں کون سا لشکر اختیار کروں؟ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سرزمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ سر زمین ہے (یعنی اللہ نے آخر زمانہ میں دینداروں کے رہنے کے لئے شام کی سر زمین ہی کو پسند فرمایا ہے پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو اپنے آپ کو بھی اور اپنے جانوروں کو بھی اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض میری وجہ سے میری امت کے حق میں یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ (کفار کے فتنہ و فساد اور ان کے غلبہ سے) شام اور اہل شام کو مامون ومحفوظ رکھے گا۔"

7- عن ابن حَوالة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «سيصير الأمرُ إلى أن تكونوا جُنوداً مُجَندَةً: جندٌ بالشام، وجندٌ باليمن، وجندٌ بالعراق» قال ابن حَوَالة: "خِرْ لي يا رسول الله! إن أدركتُ ذلك؟" فقال: «عليك بالشام؛ فإنها خيرةُ الله مِنْ أرضه، يَجْتَبِي إليها خِيرتَهُ منعباده. فأما إن أبيتم؛ فعليكم بيمنكم، واسقوا من غُدُركم؛ فإن الله توكللي بالشام وأهله» (أخرجه أحمد [17005]، وأبو داود [2483]، وصحّحه الألباني في صحيح الجامع الصغير [3659]).

حضرت ابن حولہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: وہ زمانہ قریب ہے جب دین اور ملت کا یہ نظام ہوگا کہ تم مسلمانوں کے جدا جدا کئی لشکر ہوجائیں گے ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، (یہ سن کر) ابن حولہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (اگر اس زمانہ میں میں ہوا تو) فرمائیے کہ میں کون سا لشکر اختیار کروں؟ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سرزمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ سر زمین ہے (یعنی اللہ نے آخر زمانہ میں دینداروں کے رہنے کے لئے شام کی سرزمین ہی کو پسند فرمایا ہے پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو اپنے آپ کو بھی اور اپنے جانوروں کو بھی اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض میری وجہ سے میری امت کے حق میں یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ (کفار کے فتنہ و فساد اور ان کے غلبہ سے) شام اور اہل شام کو مامون ومحفوظ رکھے گا۔"

8- عن ابن حَوالة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا ابن حوالة، إذا رأيتَ الخلافة قد نزلت أرض المقدَّسة فقد دنت الزلازل والبلابل والأمور العظام، والساعة يومئذٍ أقرب من الناس من يدي هذه من رأسك» (أخرجه أحمد [22487]، وأبو داود [2535]، وصحّحه الألباني في صحيح أبي داود [2286]).

ابن حوالہ کہتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے  اور فرمایا اے ابن حوالہ جب تو خلافت کو ارض مقدس (شام) میں اترتا دیکھے تو سمجھ لے کہ زلزلے مصائب اور حوادث قریب آگئے اور اس دن قیامت لوگوں سے اس قدر قریب ہوگی جس قدر تیرے سر سے میرا ہاتھ ہے۔

9- - عن زيد بن ثابت رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طوبى للشام» قلنا: "لأي ذلك يا رسول الله؟" قال: «لأن ملائكة الرحمن باسطة أجنحتها عليها» (أخرجه أحمد [21606]، والترمذي [3954]، والحاكم [2900] وصحّحه على شرط الشيخين ووافقه الذهبي، وصحّحه الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة [503]).

"شام کتنی مبارک جگہ ہے!"، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: "اے اللہ کے رسول، ایسا کیوں ہے؟"، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: "میں اللہ کے فرشتوں کو دیکھتا ہوں کہ انھوں نے شام کے اوپر اپنے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔"

10- عن أبي الدرداء رضي اللَّه عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن فسطاط المسلمين يوم الملحمة بالغوطة إلى جانب مدينة يقال لها: دمشق، من خير مدائن الشام» (أخرجه أحمد [21725]، وأبو داود [4298]، وصحّحه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب [3097]).

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قتل کرنے کے دن (یعنی جنگ میں) مسلمانوں کا خیمہ الغوطہ میں ہوگا، جو دمشق کے قریب واقع ہے۔

[وأخرجه أبو داود (4298) ، ويعقوب بن سفيان في "المعرفة والتاريخ" 2/290، والطبراني في "مسند الشاميين" (589)، وابن عساكر في "تاريخ دمشق" 1/103 و104 من طرق عن يحيى بن حمزة، بهذا الإسناد.

وأخرجه ابن عساكر 1/104 من طريق صدقة بن خالد، عن عبد الرحمن ن يزيد بن جابر، به.

وأخرجه الطبراني في "الشاميين" (1313) ، والحاكم 4/486، وابن عساكر 1/103 من طريق خالد بن دهقان، عن زيد بن أرطاة، به.

وانظر ما سلف برقم (17470) من حديث أصحاب النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.]

11- عن أبي هريرة رضي الله عنه أنه سمع رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا وقعت الملاحِمُ بعث الله من دمشقَ بعثًا من الموالي، أكرمَ العرب فرسًا، وأجودهم سلاحًا، يؤيدُ الله بهم الدين» (أخرجه ابن ماجة [4090]، والحاكم [8646]، واللفظ له وصحّحه ووافقه الذهبي وحسّنه الألباني في السلسلة الصحيحة [2777]).

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ فتنوں اور لڑائیوں کے زمانے میں دمشق سے اللہ تعالی بہترین شہسوار اور شاندار ہتھیار بند شہسوراوں کو بھیجیں گے جن کے ذریعہ دین کو مستحکم فرمائیں گے۔

12- عن النواس بن السمعان الكلابيّ رضي اللَّه عنه قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال، فقال: «إن يخرج وأنا فيكم فأنا حجيجه دونكم، وإن يخرج ولستُ فيكم، فامرؤ حجيج نفسه، والله خليفتي على كل مسلم، فمن أدركه منكم فليقرأ عليه فواتح سورة الكهف، فإنها جواركم من فتنته»، قلنا: "وما لبثه في الأرض؟" قال: «أربعون يوماً: يومٌ كسنة، ويومٌ كشهر، ويومٌ كجمعة، وسائر أيامه كأيامكم»، فقلنا: "يا رسول الله، هذا اليوم الذي كسنة، أتكفينا فيه صلاة يوم وليلة؟" قال: «لا، اقدروا له قدره، ثم ينزل عيسى ابن مريم عند المنارةالبيضاء شرقي دمشق، فيُدرِكه عند باب لد، فيقتله» (أخرجه مسلم [2937]).

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر میرے رہتے ہوئے دجال نکل آیا تو میں اس سے تم لوگوں کی حفاظت کروں گا۔ اور اگر میرے بعد نکلا تو پہر ہر آدمی اپنی حفاظت آپ کرے۔ اللہ تعالی ہر مسلم کی طرف سے میرا نائب ہوگا۔ اگر دجال نکل آئے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی چند آیتیں پڑھے۔کیونکہ وہ اس کے فتنہ حفاظت کا ذریعہ بنیں گی۔ ہم نے کہا وہ کتنا دن ٹھہرے گا؟  فرمایا چالیس دن ٹھہرے گا۔ ایک دن ایک سال کے برابر۔ ایک دن ایک مہینہ کے برابر اور ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا۔ باقی دن معمول کے مطابق ہونگے۔ صحابہ نے پوچھا کہ سال کے برابر  لمبے دن میں ہم نماز وغیرہ کیسے پڑھیں گے؟ کیا ایک دن رات کی نماز کافی ہوجائے گی پورے سال میں؟

حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ بلکہ ہر دن کے حساب سے اندازہ لگاکے پانچ وقت کی نماز پڑھو۔ پھر عیسی علیہ وسلم دمشق کے شرقی جانب سفید مینار کے پاس اتریں گے۔ دجال کو تلاش کریں گے۔ باب لد کے پاس اسے پائیں گے پھر اسے قتل کردیں گے۔

13- عن أوس بن أوس الثقفي رضي الله عنه أنه سمع رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وعلى آله وسلم يقول: «ينزل عيسى بن مريم عليهما السلام عندالمنارةِ البيضاء شرقي دمشق» (أخرجه الطبراني في المعجم الكبير [590]، وصحّحه الألباني في صحيح الجامع الصغير [8169]).

 رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہوگا۔ 

14- عن معاوية رضي اللَّه عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال طائفة من أُمّتي قائمة بأمر الله لا يضرهم من خذلهم أو خالفهم حتى يأتي أمرالله وهم ظاهرون على الناس» (أخرجه البخاري [3641]، ومسلم [1037]، وزاد البخاري في روايته وأحمد [16932]: فقام مالك بن يخامر السكسكي فقال: "سمعتُ معاذ بن جبل يقول: وهم بالشام").

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے احکام کی پابندی کرے گی، جس کو نیچا دکھانے والے اور مخالفت کرنے والے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک وہ اللہ کے دین پر قائم رہیں گے… مالک بن یخامر  نے کہا: اے امیرالموٴمنین! میں نے حضرت معاذ سے سنا ہے کہ یہ جماعت ملک شام میں ہوگی۔ (بخاری، مسلم، طبرانی)

15- عن جابر بن عبدالله رضي اللَّه عنهما قال: سمعتُ النبي صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «لا تزال طائفة من أُمّتي يقاتلون على الحق ظاهرين إلى يوم القيامة»، قال: «فينزل عيسى بن مريم صلى الله عليه وسلم، فيقول أميرهم: "تعال صلّ لنا"، فيقول: "لا، إن بعضكم على بعض أمراء تكرمة الله هذه الأمة»» (أخرجه مسلم [156]).

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی جماعت حق کے لئے برسر پیکار رہے گی۔ قیامت تک یہ جماعت اپنے مخالفین پر غالب رہے گی۔ پھر عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ مسلمانوں کے امیر ان سے امامت کی درخواست کریں گے۔وہ امت محمدیہ کے اکرام میں  یہ کہکر عذرخواہی فرمائیں گے کہ تمہارے میں سے ہی کوئی امامت وامارت کرے۔

16- عن أبي هريرة رضي اللَّه عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال عصابة من أُمّتي قائمة على أمرالله، لا يضرّها من خالفها، تقاتل أعداءها، كلما ذهبت حرب نشبت حرب قوم آخرين، يرفع الله قومًا ويرزقهم منه حتى تأتيهم الساعة» ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هم أهل الشام» (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط [7948]، وحسّن إسناده الأرناؤوط في تحقيق المسند [14/26]).

 نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے قتال کرتا رہے گا، ان کو ان کے مخالف نقصان نہ دے سکیں گے  اور وہ اپنے دشمنوں سے لڑتے رہیں گے جب بھی جنگ جائے گی ایک اور لڑنے والی جنگ ان سے الجھ جائے گی. اللہ ایک قوم کو بلند کردے گا کہ ان کو رزق دے (کر آزمائش میں ڈالے گا) یہاں تک کہ قیامت  آئے اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا: "وہ اہل شام ہونگے۔"

17- عن سلمة بن نفيل رضي اللَّه عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال طائفة من أُمّتي ظاهرين على الناس يرفع الله قلوب أقوام يقاتلونهم، ويرزقهم الله منهم حتى يأتي أمر الله عز وجل وهم على ذلك، ألا إن عقر دار المؤمنين الشام، والخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة» (أخرجه أحمد [16965]، وحسّنه الألباني في السسلة الصحيحة [1961]).

میری امت کا ایک گروہ لوگوں پر ہمیشہ غالب رہے گا، اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کے دلوں کو اٹھائے گا، وہ ان سے قتال کریں گے اور اللہ انہیں وہاں سے رزق عطاء فرمائے گا، حتی کہ جب اللہ کا حکم آئے گا تو وہ اسی حال میں ہوں گے، یاد رکھو! مسلمانوں کا خون بہنے کی جگہ شام ہے اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لئے خیروبرکت رکھ دی گئی ہے۔

18- عن بهز بن حكيم بن معاوية القشيري، عن أبيه، عن جده قَالَ: "قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أين تأمرني؟" فقال: «ها هنا»، وأومأ بيده نحو الشامِ، قال: «إنكم محشورون رجالًا وركبانًا، ومُجْرَون على وجوهِكم» (أخرجه أحمد [20050]، والحاكم [8686]، وصحّحه ووافقه الذهبي، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام).

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو ملک شام کی طرف ہجرت کرنے کا اشارہ فرمایا۔ نیز فرمایا کہ تم پیادہ پا اور سوار ہوکر اٹھائے جائوگے۔ منہ کے بل ہنکائے جائوں گے۔

19- عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «سَتَخْرُجُ نَارٌ فِي آخِرِالزَّمَانِ من حَضْرَمَوْت تحشرُالناس»، قلنا: "فماذا تأمرنا يا رسول الله؟" قال: «عليكم بالشام» (أخرجه أحمد [4536]، والترمذي [2217]، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام).

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخر زمانے میں حضر موت سے ایک آگ نکلے گی اور لوگوں کو جمع کرے گی ۔صحابہ نے پوچھا کہ حضور!  پھر ایسے موقع سے ہمارے لئے کیا ہدایت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایسے برے وقت میں شام کا رخ کرلینا۔

20- عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أبيه رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «إِذَا فسدَ أهلُ الشامِ فَلا خيرَ فِيكُمْ، لا تزالُ طائفةٌ من أُمتي منصورين، لا يضرُّهم مَنْ خَذَلَهم حَتَّى تقومَ الساعةُ» (أخرجه أحمد [20361]، والترمذي [2192] والحديث صححه الترمذي وابن حبان وكثير من المعاصرين كالشيخ الألباني  والارنؤوط وغيره.

[وأخرجه ابن أبى شيبة (6/409، رقم 32460) وأحمد (15596 + 15597 +20361  + 20367)، والترمذى (4/485، رقم 2192) وقال: حسن صحيح، والطبرانى (19/27، رقم 55، 56)، وابن حبان (16/292، رقم 7302). وأخرجه أيضًا: الطيالسى (ص 145، رقم 1076) والرويانى (2/128، رقم 946)]

ورواه أحمد في «مسنده» (3/436) برقم (15634)، و(5/34) برقم (20377) عن يزيد بن هارون، وفي (3/436) برقم (15635)، و(5/34) برقم (20383) عن يحيى بن سعيد، كلاهما عن شعبة، به.

ورواه البزار في «مسنده» (8/243) برقم (3303) عن عمرو بن عليّ، عن يحيى بن سعيد، عن شعبة، به.

ثمّ قال البزار: "وهذا الحديث بهذا اللفظ لا نعلم رواه عن النبيّ إلا قرة بن إياس!".

ورواه ابن ماجة في «سننه»(1/4) عن مُحَمَّد بن بَشَّارٍ، عن مُحَمَّد بن جَعْفَرٍ، عن شُعْبَة، به.

ورواه سعيد بن منصور في «سننه»(2/178) عن عَبْدالرَّحْمَنِ بن زِيَادٍ، عن شُعْبَة، به.

ورواهُ يعقوب بن سفيان في «المعرفة والتاريخ» (2/170) عن سليمان بن عبدالرحمن الدمشقيّ، عن عيسى بن يونس، قال: حدثنا شعبة، عن معاوية بن قرة، عن أبيه - وكانت له صحبة- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكره.

ثمّ رواه عن الرَّبيع بن يحيى قال: حدثنا شعبة، قال: سمعت معاوية بن قرة يُحدِّث عن أبيه - وقد رأى النبي ومسح النبي برأسه – فقال: إذا فسد أهل الشام فلا خير فيكم.

ورواه الطبراني في «المعجم الكبير» (19/27) من طريق أَسَد بن مُوسَى وعَاصِم بن عَلِيٍّ وعَلِيّ بن الْجَعْدِ، ثلاثتهم عن شُعْبَة، به.

وعقد ابن عساكر باباً في «تاريخه» (1/305): "باب نفي الخير عن أهل الإسلام عند وجود فساد أهل الشام"

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر اہل شام میں بگاڑ پیداہوجائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی جس کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور اس کو نیچا دکھانے والے کل قیامت تک اس جماعت کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں۔ آج کل اسی بیسویں نمبر کی حدیث کا ترجمہ لوگ کررہے ہیں کہ: "جب شام مکمل تباہ وبرباد ہوجائے تو دنیا میں کہیں خیر نہیں."

"فساد أهل الشام" کا ترجمہ مکمل تباہی وبربادی سے کرنا بالکل ہی غلط ہے۔ زیرنظر مضمون میں اسی کا علمی جائزہ لیا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ ترجمہ کرنا نصوص کے بالکل خلاف ہے۔

فَسَدَ (ن ض) وفَسُدَ (ش) فَسَادًا و فُسوُدًا ۔ خراب ہونا ۔ بگڑ جانا۔ یہ صلح کی ضد ہے۔ صفت فَسِیدٌ۔ ج۔ فُسدٰی و اَفَاسِدُ

اَفسَدَہٗ و فَسَّدَہٗ۔ کسی کو خراب کرنا۔ بگاڑ نا

فسداللحم او اللبن او نحوهما فسادا: خراب ہونا بگڑنا سڑنا، ناقابل استعمال ہونا۔

فسدالعقد ونحوه: معاہدہ وغیرہ کا لعدم ہوجانا، باطل ہونا۔

فسدالرجل: آدمی کا بگڑجانا، حدود عقل وحکمت سے تجاوز کرجانا۔

فسدالامور: معاملات بگڑ جانا، افرا تفری پیدا ہونا، نظام میں خلل پڑنا۔ قرآن حکیم میں ہے: لوکان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا۔ اگر ان ( زمین وآسمان ) میں متعدد خدا ہوتے تو ان کا نظام بگڑ جاتا۔ ھو فاسد وفسید۔

افسدالرجل: آدمی کا بگڑنا، خراب ہونا حدود عقل وحکمت سے باہر ہوجانا۔

افسدالشئ: بگاڑنا، خراب کرنا (2) بے نفع اور بئ نتیجہ بنانا، ناکام بنان، باطل کرنا، صحیح بنیاد سے ہٹا دینا، غلط کرنا۔

افسد في الارض: زمین میں خرابی اور بگاڑ پھیلانا، فساد مچانا۔

لسان العرب میں ہے: قال ابن منظور: «الفساد نقيض الصلاح... وتفاسد القوم: تدابروا وقطعوا الأرحام... واستفسد السلطان قائده إذا أساء إليه حتى استعصى عليه، والمفسدة خلاف المصلحة، والاستفساد خلاف الاستصلاح"  (لسان العرب 3:335)

وعن الراغب: «الفساد خروج الشيء عن الاعتدال ، قليلاً كان الخروج عنه أو كثيراً» (معاني القرآن: 379)

ويضاده الصلاح، ويستعمل ذلك في النفس والبدن والأشياء الخارجة عن الاستفادة.

یعنی دین، عقل، نسل، عقیدہ اور عمل وغیرہ میں بگاڑ، فساد اور ناہمواری کو قرآن وحدیث میں "فساد " سے تعبیر کیا گیا ہے۔اس لفظ کے مفہوم میں کافی وسعت ہے۔ اسے صرف قتل وغارت گری کے معنی میں ہی استعمال کرنا  ناواقفیت پر مبنی ہے۔

امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ میانہ روی اور حد اعتدال سے نکل جانے والی ہر چیز کو "فساد " کہتے ہیں۔ خواہ تھوڑا نکلے یا زیادہ۔ اس کا تعلق جیسے نفس اور بدن سے ایسے ہی ہر چیز سے۔ یعنی افراط وتفریط سے دوچار ہوجانے والی ہر چیز کو شرعی اصطلاح میں فساد کہتے ہیں:

 والفساد في الاصطلاح: خروج الشيء عن الاعتدال، قليلًا كان الخروج أو كثيراً، ويستعمل ذلك في النفس، والبدن، والأشياء الخارجة عن الاستقامة (المفردات للراغب 2: 192، بصائر ذوي التمييز 4: 192، التوقيف للمناوي ص 556)

علامہ ابن الجوزی کا کہنا ہے کہ ہر اچھی حالت کا برائی کی طرف میلان وانحطاط خواہ اقوال میں ہو یا افعال میں۔ کفر وشرک کے ذریعہ ہو یا عصیان ونافرمانی کے ذریعہ، ہر ایک کو فساد کہتے ہیں۔ یہ ذات میں بھی ہوتا ہے اور دین میں بھی۔

 «الفساد: تغيُّر عمَّا كان عليه من الصَّلاح، وقد يقال في الشيء مع قيام ذاته، ويقال فيه مع انتقاضها، ويقال فيه إذا بطل وزال، ويُذكر الفساد في الدِّين كما يذكر في الذَّات، فتارةً يكون بالعِصيان، وتارة بالكفر، ويُقال في الأقوال إذا كانت غير منتظمة، وفي الأفعال إذا لم يعتدَّ بها»{نزهة الأعين النواظر ص 469}

"فساد "ظلم" سے زیادہ عام ہے۔ ظلم تو خامی اور کمی کو کہتے ہیں جبکہ فساد کے مفہوم میں مزید وسعت ہے۔ خامی اور کمی کے ساتھ لہو ولعب میں انہماک اور شریعت سے غیر ثابت شدہ ہر چیز (بدعت ) پر فساد کا اطلاق ہوتا ہے۔

والفساد أعمُّ منَ الظلم؛ لأنَّ الظلم نقص، أما الفساد فيقع عليه وعلى الابتداع واللهو واللعب۔

الكليات لأبي البقاء ص{1097}

قرآن کریم میں لفظ "فساد" قریب پچاس سے زیادہ جگہوں میں استعمال ہوا ہے۔ ہر جگہ اگرچہ مختلف معنی مراد لئے گئے ہیں! لیکن حد اعتدال سے تجاوز، خواہشات نفسانی کی پیروی، فرائض ومحارم شرعیہ کی بے توقیری اور حدود اللہ کی پامالی  وغیرہ قریب ہر جگہ مشترک ہے۔

 قرآن کریم میں لفظ فساد کا استعمال: 

لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥ البقرة﴾

فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ ﴿١١٦ هود﴾

وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ﴿٧٧ القصص﴾

وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٧٧ القصص﴾

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ ﴿٤١ الروم﴾

إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ ﴿٢٦ غافر﴾

فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ ﴿١٢ الفجر﴾

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ﴿١١ البقرة﴾

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِنْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿١٢ البقرة﴾

وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿٢٧ البقرة﴾

قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ ﴿٣٠ البقرة﴾

وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿٦٠ البقرة﴾

وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا ﴿٢٠٥ البقرة﴾

وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ﴿٢٢٠ البقرة﴾

وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ ﴿٢٥١ البقرة﴾

فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ ﴿٦٣ آل عمران﴾

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ﴿٣٢ المائدة﴾

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا ﴿٣٣ المائدة﴾

وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٦٤ المائدة﴾

وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٦٤ المائدة﴾

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ﴿٥٦ الأعراف﴾

فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿٧٤ الأعراف﴾

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ﴿٨٥ الأعراف﴾

وَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿٨٦ الأعراف﴾

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿١٠٣ الأعراف﴾

أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ﴿127 الأعراف﴾

اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿142 الأعراف﴾

إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ﴿73 الأنفال﴾

وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ ﴿40 يونس﴾

إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿81 يونس﴾

آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿91 يونس﴾

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿85 هود﴾

قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ ﴿73 يوسف﴾

وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ﴿25 الرعد﴾

زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ ﴿88 النحل﴾

لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ ﴿4 الإسراء﴾

إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ﴿94 الكهف﴾

لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ﴿22 الأنبياء﴾

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ ﴿71 المؤمنون﴾

الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴿152 الشعراء﴾

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿183 الشعراء﴾

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿14 النمل﴾

قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا ﴿34 النمل﴾

وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴿48 النمل﴾

يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿4 القصص﴾

نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ﴿83 القصص﴾

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ ﴿30 العنكبوت﴾

وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿36 العنكبوت﴾

أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ ﴿28 ص﴾

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ﴿22 محمد﴾

ان مذکورہ مقامات میں فساد کے ساتھ کہیں اشارتا اور کہیں صراحتا "ارض" کا استعمال ہوا ہے۔ لیکن جہاں مفسدین کے انجام کو بتانا یا اس سے عبرت دلانا مقصود تھا وہاں "ارض" کے اضافہ کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ اور ایسے کل گیارہ مقامات ہیں۔ جو اوپر مذکور ہوئے۔ قرآن کریم میں ان مقامات پہ فساد درج ذیل معنی میں استعمال ہوا ہے۔

 1: کفر کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴾ [البقرة: ٢٧] [   تفسير إبن عطية 1:99،تفسير القرطبي 1: 247،تفسير البيضاوي 1:267، تفسير أبي حيان 1:274،تفسير إبن عجيبة 1: 66 ].

و قوله تعالى: ﴿وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ﴾ [يونس: ٤٠] [تفسير الطبري 15: 94، تفسيرالقرطبي 8: 345، تفسير إبن كثير 4: 270].

وقولہ تعالى: ﴿وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ﴾ [الأعراف: ٨٥] 

2: نفاق کے معنی میں:

قوله تعالى: ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ * أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ ﴾ [البقرة: ١١ - ١٢] [البحر المديد لابن عجيبة 1: 51].

3: معاصی اور گناہ کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ﴾ [الأعراف: ٥٦] [تفسيرالبغوي 3: 238، ابن عطية 2: 277،  القرطبي 7: 226، أبي حيان 4: 313، إبن عجيبة 2: 499].

و قوله تعالى: ﴿وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَاللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ﴾ [الرعد: ٢٥] 

وقوله تعالى: ﴿ تِلْكَ الدَّارُالْآَخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾ [القصص: ٨٣] 

 4: عالمی نظام کی خرابی کے معنی میں: 

و قوله تعالى: ﴿ لَوْ كَانَ فِيهِمَا آَلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ [الأنبياء: ٢٢] [الجامع لأحكام القرآن 11: 279، المحرر الوجيز 4 : 95 ، روح المعاني 17: 25 ، التحرير والتنوير 17: 39].

و قوله تعالى: ﴿قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ ﴾ [النمل: ٣٤] 

5: منکر اور برائی کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ ﴾  [هود: ١١٦] [الطبري 15: 527، القرطبي 9: 113، تفسير إبن عجيبة 3: 344].

6: غارت گری کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا.... ﴾ [المائدة: ٣٣]   [تفسير إبن عطية 2: 215].

 7: فتنہ انگیزی اور جنگ بھڑکانے کے معنی میں: 

قوله تعالى في اليهود: ﴿كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾ [المائدة: ٦٤] 

8: حکومت وسلطنت کے معنی میں: 

 قوله تعالى: ﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴾ [محمد: ٢٢] الرازي 12: 39، القرطبي 6: 241، البضاوي 2: 347، أبي حيان 3: 537].

9: جادو کے معنی میں: 

 قوله تعالى: ﴿قَالَ مُوسَى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ﴾ [يونس: ٨١] [تفسيرالقرطبي 8: 368،  البيضاوي 3: 211 ، تفسير إبن العاشور 11: 256].

10: یتیم کا مال نا حق کھانے کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ﴾ [البقرة: ٢٢٠][ تفسير الطبري 4: 357،  تفسيرالزمخشري 1: 291، تفسيرالقرطبي 3: 66، تفسيرالبضاوي 1 : 506].

11: لواطت کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ﴾ [العنكبوت: ٣٠] [تفسير إبن كثير 6: 276، تفسير الشوكاني 5 : 371].

12: جبر وظلم اور حقوق کی پامالی کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ * فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ﴾ [الفجر: ١١ – ١٢] ﴿ طَغَوْا﴾ ﴿فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ ﴾[القرطبي 20: 49].

13: مسلمانوں پر غلبہ کفار کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ  تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ﴾ [الأنفال: ٧٣] [الجامع لأحكام القرآن 8: 58].

14: چوری کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ ﴾ [يوسف: ٧٣]  [التحرير والتنوير 13: 29].

15: فضاء وماحول کےبگاڑ کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ [الروم: ٤١] [درج الدرر 2 : 438،  الجامع لأحكام القرآن 14: 41].

16: دنیا کے نظام کی خرابی کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ﴾ [المؤمنون: ٧١]   [ تفسيرالطبري 19: 57].

17: ہر قسم کی تعدی سے ممانعت کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [الأعراف: ٥٦][التحرير والتنوير 8: 173].

و قوله تعالى: ﴿قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا﴾ [الكهف: ٩٤] [البحرالمحيط لأبي حيان 4: 313].

و قوله تعالى: ﴿وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي  الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴾ [النمل: ٤٨] [القرطبي 13: 215].

حدیث رسول میں لفظ فساد کا استعمال:

1: دوران جنگ قتل وتخریب کے معنی میں:

فعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ: «الْغَزْوُ غَزْوَانِ، فَأَمَّا مَن ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ»[أخرجه مالك في الموطأ برقم 998، وأبو داود في الجهاد برقم 2515، والنسائي في الجهاد برقم 3188، والدارمي في الجهاد برقم 2417، والطبراني في الكبير برقم 16933، والحاكم في المستدرك 2: 94 برقم 2435 وقال: صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذهبي]

اس میں اجتناب فساد کی مراد یہ ہے کہ قتل کرنے، مال لوٹنے اور قیدی بنانے میں شرعی اصولوں کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔

[شرح المشكاة للطيبي 8: 2657، فيض القدير للمناوي 4: 411. قوله «ياسر الشريك» أي: ساهل الرفيق، واستعمل اليسر معه نفعًا بالمعونة وكفاية للمؤنة. وقوله: «لم يرجع بالكفاف» أي: لم يعد من الغزو رأسًا برأس، بحيث لا يكون له أجر ولا عليه وزر، بل وزره أكثر؛ لأنه لم يغز لله، وأفسد في الأرض]

2: مال برباد کرنے کے معنی میں: 

فعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «إِذَا أَنْفَقَت الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ وَلِزَوْجِهَا أَجْرُهُ بِمَا كَسَبَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ لَا يَنْقُصُ بَعْضُهُمْ أَجْرَ بَعْضٍ شَيْئًا» [أخرجه البخاري في الزكاة برقم 1359، ومسلم في الزكاة برقم 1024. شرح المشكاة للطيبي 5: 1568، شرح مسلم للنووي 7: 113]

ومن ذلك ما رواه جابر بن عبدالله رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنَّه قال: «أمسِكُوا عَلَيْكُم أَمْوَالَكُم ولا تُفْسِدُوْهَا..»[أخرجه مسلم برقم 1625. إكمال المعلم 5: 358]

3: لڑکی کا بغیر شوہر کے رہنے کے معنی میں (قلت عفت وعصمت):

فعَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ، فَأَنْكِحُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ»، وَفِي رِوَايَةٍ: «عَرِيضٌ»، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَإِنْ كَانَ فِيهِ؟ قَالَ: «إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ» قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ[ أخرجه الترمذي برقم 1085 وقال: حديث حسن غريب، وابن ماجه برقم 1967، والطبراني في الكبير 22: 299 برقم 81614، والبيهقي في السنن الكبرى 7: 132 برقم 13481]

4: دلوں کے بگاڑکے معنی میں: 

فعن النعمان بن بشيرٍ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «..ألاَ وَإنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَت صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، ألاَ وَهِيَ القَلْبُ»[أخرجه البخاري في الإيمان برقم 52؛ ومسلم في المساقاة برقم 1599، واللفظ له. عن النعمان بن بشيررضي الله عنه]

5: اجتماعی تعلقات کے بگاڑ کے معنی میں:

فعَنْ أبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه عَنْ رسول الله صلى الله عليه وسلم قَالَ: «ألا أخْبِرُكُمْ بِأفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامَ وَالصلاة والصدقة؟»، قَالُوا: بَلَى يَا رسول الله، قَالَ: «إِصْلاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفًسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ»  [أخرجه البخاري في الأدب المفرد ص142 برقم 391، وأحمد في مسنده 6: 444 برقم 27548، وأبو داود برقم 4919، والترمذي برقم 2509 وقال: حديث صحيح، وابن حبان في صحيحه 11: 489 برقم 5092. [شرح المشكاة للطيبي 10: 3213 - 3214]

6: لوگوں کے احوال کی تبدیلی کے معنی میں: 

فعنْ إبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، أَوِ ابْن أَبِي الْمُغِيرَةِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِصلى الله عليه وسلم: «طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ»، قِيلَ: وَمَنِ الْغُرَبَاءُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يُصْلِحُونَ حِينَ يُفْسِدُ النَّاس» [أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف 13: 237 برقم 235]

امام بیضاوی نے فساد فی الارض کی تعریف میں لکھا ہے: "الاخلال بالشرائع الالھیۃ" یعنی اللہ کی نازل کردہ شریعت میں خلل ڈالنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا "فساد فی الارض" ہے۔ امام شاہ ولی اللہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے زمین میں اصلاح ہوتی ہے اور شریعت کے خلاف کرنے سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں پاکیزہ عقیدے، پاکیزہ عمل، خدا کے سامنے عاجزی اور عدل و انصاف کے قیام سے انسان کا مزاج درست رہتا ہے اور وہ فرشتوں کے مزاج کے ساتھ مل جاتا ہے مگر جب انسان میں عقیدے کی نجاست آجاتی ہے اخلاق اور عمل کی نجاست پیدا ہوجاتی ہے۔ عاجزی کی بجائے غرور، احسان کی بجائے لوٹ کھسوٹ اور عدل کی جگہ ظلم لے لیتا ہے تو پھر انسان کا مزاج بگڑ جاتا ہے۔ اس کی مثال حلال جانوروں کی ہے جن کا ہم دودھ پیتے اور گوشت کھاتے ہیں۔ جب تک یہ جانور: اونٹ، گائے، بھینس، بھیڑ، بکری وغیرہ گھاس کھاتے رہیں گے ان کا مزاج درست رہے گا اور اگر ان میں سے کوئی جانور چارے کی بجائے گوشت کھانا شروع کردے تو اس کا مزاج بگڑ جائے گا، پھر اس کا دودھ قابل استعمال رہے گا اور نہ گوشت، اس لئے شریعت میں گندگی کی کھانے والے جانور کا گوشت مکروہ تحریمی میں آتا ہے کیونکہ گندی چیزیں کھانے سے اس کا مزاج بگڑجاتا ہے اور اس کا دودھ اور گوشت قابل استعمال نہیں رہتا۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ: "ایسے جانور کو کم از کم دس دن تک باندھ کر رکھو تاکہ وہ گندگی نہ کھائے اس دوران اسے پاک چارہ کھلائو، تب اس کا دودھ اور گوشت کھانے کے قابل ہوگا-" شریعت الٰہیہ کو قائم رکھنے سے انسان کا مزاج درست رہتا ہے اور جب وہ شرائع کی پابندی چھوڑ دیتا ہے تو مزاج بگڑ جاتے ہیں اور پھر تباہی و برباد کی کی قریب ہوجاتا ہے۔ ان نصوص کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل وخون ریزی کے ذریعہ نفس انسانی میں بگاڑ، محرمات کے ارتکاب سے بدن انسانی میں بگاڑ، لوٹ کھسوٹ چوری، ڈاکہ زنی، سودی کاروبار، رشوت وکرپشن کے ذریعہ اموال انسانی میں بگاڑ، کفر وشرک، بدعات وخرافات، یہودی عیسائی اور صہیونی طاقتوں سے ولاء ودوستی اور انہیں مسلم زمین کی فراہمی کے ذریعہ دین ومذہب  میں  بگاڑ، زناء کاری و فحاشی کی ترویج، رقص وسرود کی محفلوں اور نائٹ کلبوں کے ذریعہ نسل انسانی میں بگاڑ، شراب اور دیگر تمام مخدرات ومنشیات کی ارزانی وفراوانی کے ذریعہ عقل انسانی میں بگاڑ جب پیدا ہوجائے تو پھرانسانی معاشرہ بالکل فاسد ہوجاتا ہے۔ امن وامان ختم ہوجاتا ہے۔ انتہائی قابل افسوس پہلو ہے کہ گزشتہ دسیوں سال سے سرزمین انبیاء غیرمنقسم شام میں بدقسمتی سے فساد کی یہ  ساری قسمیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ حالانکہ ملک شام کے اسی بابرکت خطے سے دنیا کا امن وامان بھی وابستہ تھا۔ یہاں کے لوگوں کی اعتقادی اور عملی زندگی کی پوری عمارت دینی فرائض اور شرعی آحکام پہ استوار ہونی چاہئے۔ کتاب وسنت کی حفاظت واشاعت، جہاد فی سبیل اللہ، خلق خدا کی نفع رسانی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احساس ذمہ داری کے ساتھ اعلاء کلمة اللہ اور دعوت الی اللہ زندگی کا نصب العین ہونا چاہئے۔ لیکن نفس، نسب، مال، عقل دین وعقیدہ میں حد درجہ فساد کی وجہ سے نبوی پیشین گوئی حرف بحرف صادق آئی۔ اور پورے خطے پہ یہودی اور صہیونیوں کا راج ہوگیا۔ بشارالاسد جیسا درندہ صفت بھیڑیا ڈھائی لاکھ سے زیادہ بے گناہوں کے قتل سے اپنا ہاتھ رنگ چکا ہے۔

اذا فسد اھل الشام:

سے دینی واخلاقی فساد مراد ہے۔ شام مکمل طور پر کبھی بھی تباہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی حفاظت کے لئے نگراں فرشتے پر بچھائے تیار ہیں۔ حدیث کا دوسرا ٹکڑا "ولاتزال طائفة من أمتي منصورين. لايضرهم من خذلهم حتي تقوم الساعة" خود اس مفہوم کی تکذیب کررہا ہے کہ شام میں موجود اس طائفہ کو دنیا کی کوئی طاقت ختم کردے! 

واللہ اعلم بالصواب 

١٤\٦\١٤٣٩ ہجری
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2024/11/3201-2232-3202.html
( #ایس_اے_ساگر)