ہم نے مدرسہ کیوں چھوڑا؟
سوچا کہ مدارس کے اندر کے پوشیدہ حقائق اور مہتمم گردی کی پراسرار داستانیں اب سوشل میڈیا پر آ ہی رہی ہیں تو کیوں نہ ہم بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالیں اور اپنے ساتھ 8 سال تک روا رکھے جانے والے دلخراش مظالم کی منظر کشی کریں ۔ سو مدارس کے طلبہ و مدرسین کے غم میں دن رات گھلنے والے انسانیت کے چاچے مامے ذرا قریب قریب آجائیں۔
تو قصہ یہ ہے دوستو کہ جب ہم نے درجہ اولی پڑھنے کے لیے جامعہ خیرالمدارس ملتان میں داخلہ لیا تو سب سے پہلی بات یہ معلوم ہوئی کہ یہاں نہ تو کوئی داخلہ فیس ہے اور نہ ہی ماہانہ فیس۔ مطلب پہلے ہی قدم پر ہم سے وہ خوشی چھین لی گئی جو ہر ماہ ابو سے اسکول فیس کے نام پر کڑکڑاتے نوٹ وصولتے وقت ہوا کرتی تھی۔ پھر اسباق شروع ہوئے تو پتہ چلا کہ یہاں تو سارے اساتذہ صنفِ کرخت سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی اب "تصویرِ کائنات کے رنگ" بھی دکھائی نہیں دیں گے۔ اور تو اور مدرسے آکر "یہاں سے وہاں تک یاد کرکے آنا، کل سنوں گی" والی مدھر آوازیں سنے کو بھی کان ترس گئے، کیونکہ یہاں تو اساتذہ کتاب کا ایک ایک لفظ جان مارکر سمجھاتے تھے اور ہم پر یاد کرنے اور اگلے دن سنانے کا ستم بھی ڈھاتے تھے۔ کچھ کچھ ماحول سمجھ آیا تو پتا چلا کہ یہاں "he loves her" اور "she loves him" کے موٹیویشنل سلوگنز کی بجائے "ضرب یضرب" کی گردانیں کہلوائی جاتی ہیں جن سے شر کی قوتوں کے خلاف شدت پسندی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
جوں جوں یہ سفر کٹتا گیا، ہم پر مدارس کی چار دیواری میں پوشیدہ حقائق کھلتے گئے ۔ یہ خوفناک تجربہ بھی ہوا کہ یہاں تو ہمیں ہفتے میں کم از کم دو دن مفت میں بکرا کھلا کر موٹاپے کا مریض بنانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اور پھر ہمیں پڑھائے جانے والے مضامین کو ذرا دیکھئے! صرف، نحو، منطق، بلاغت، ادب، فلسفہ، عقائد، فقہ، تفسیر اور حدیث جیسے مضامین جو خدا کی خوشنودی تک تو پہنچا سکتے ہیں لیکن مال پانی بنانے اور سُندر زنانی پھنسانے کے گر نہیں سکھا سکتے۔ مطلب "لائف انجوائے " کرنے کا پروگرام تو وڑ گیا ۔ اندازہ کیجیے کہ ہمیں 8 سال کے دوران ایک مرتبہ بھی ڈانس پارٹی اور میوزک کنسرٹ جیسی تفریحات فراہم نہیں کی گئیں۔
امتحانات کے موقع پر تو بنیادی حقوق کی اس حد تک خلاف ورزی کی جاتی کہ انسانی بنیادوں پر اپنے مجبور و پریشان حال بھائیوں کی مدد کرنے اور کسی ورلڈ بینک ٹائپ طالبعلم سے بحالتِ مجبوری امداد لینے کو بالکل ہی ممنوع قرار دے دیا جاتا ۔ امتحان ہال میں جا کر صاف پتہ چلتا تھا کہ خون کیسے سفید ہوتے ہیں اور بے رخی و بے حسی کس کیفیت کا نام ہے۔ بے چارے طالبعلموں کی شکلیں غریب افریقی ممالک کے بوندِ آب کو ترستے بچوں جیسی بھی بن جاتیں لیکن مجال ہے کہ کسی استاد یا فرمانبردار طالبعلم کو ذرہ بھر رحم آتا ہو۔ اور تو اور، ادھر روکڑا شوکڑا بھی نہیں کام نہیں آتا تھا کہ جس کا قاضی الحاجات ہونا مسلّمات میں سے ہے۔
ان 8 سال کے دوران ہمارا واسطہ جن اساتذہ سے پڑا وہ بھی عجیب اللہ کے ولی تھے۔ نہ اپنی صحت کا خیال کرتے، نہ گرمی سردی اور آندھی طوفان دیکھتے، نہ کم تنخواہوں کو خاطر میں لاتے ۔ بس گھنٹی بجنے کی دیر ہوتی کہ وہ ٹھک سے مسند پر آموجود ہوتے۔ ستم بالائے ستم کہ ان کی لغت میں تدریس کا مطلب پورا گھنٹہ سبق پڑھانا تھا۔ دورانِ سبق نہ تو کالیں کرتے، نہ فیسبک چلاتے، نہ اخبار پڑھتے اور نہ ہی ان کے ہاں آدھا وقت پڑھا کر رفو چکر ہونے کی کوئی ترتیب تھی۔ اوپر سے طالبعلموں پر ایسی شفقت برتتے کہ کبھی کبھی تو ہماری شاگرد ہونے والی فیلنگ ہی ختم ہوجاتی تھی۔
آخری سال "دورہ حدیث" آیا تو مولانا محمد حنیف جالندھری نامی اس شخصیت سے آمنا سامنا ہوا جسے مہتمم کہا جاتا ہے۔ سنا تھا کہ بڑے ظالم و جابر قسم کے انسان ہیں۔ سو اس خیال کی حرف بحرف تصدیق ہوئی۔ بھئی اب اس سے بڑا بھی کوئی ظلم ہو گا کہ آپ اتنے مصروف ہونے کے باوجود بھی روزانہ ہی بخاری پڑھانے آجائیں اور وہ بھی پورے مطالعے اور تیاری کے ساتھ! نہ ہی چھٹیاں اور نہ ہی کوئی غیر تحقیقی ٹرخاؤ پروگرام!اساتذہ کے ساتھ سلوک ایسا تحکمانہ کہ 40، 40 اور 50 50 سال انہیں پڑھاتے ہوئے گزرگئے لیکن مجال ہے جو مہتمم صاحب نے کبھی کسی پر ترس کھا کر اس کا اخراج کیا ہو۔ یہ تو وہ ظلم ہے جو مدرسے میں تھا ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی چیرہ دستیوں سے تو بڑے بڑے شرفاء، زردار اور خوانین تک محفوظ نہ تھے۔ بس کوئی غلطی سے مدارس کے خلاف کچھ لکھے بولے سہی، اس کا تو وہ حال کرتے تھے کہ وہ بیچارا گھٹنے ٹیکنے میں ہی عافیت سمجھتا تھا۔ بدمعاشی ایسی تھی کہ وزیرِ اعظم بھی اگر کوئی حکم جاری کرتا اور وہ ان کی طبعِ شاہانہ کے موافق نہ ہوتا تو اسے مسترد کرنے کا اعلان ایسے کرتے تھے جیسے ناک سے مکھی اڑائی ہو۔ مطلق العنانی کا یہ عالم تھا کہ وفاق المدارس سے ملحق سینکڑوں مدارس اکیلے ہی سنبھالے ہوئے تھے، مجال ہے جو تقسیم کے کسی عمل کو چلنے دیں اور کسی اور کو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر لیڈر بننے کا موقع فراہم کریں۔
آخر ہم بھی گوشت پوست کے انسان تھے، کس قدر برداشت کرتے! سو ابھی "ضرب یضرب" سے شروع ہونے والا صعوبتوں بھرا سفر "کلمتان حبیبتان" تک ہی پہنچا تھا کہ ہمارے صبر کے پیمانے لبریز ہوگئے۔ ضبط کا دامن چھوٹ گیا اور برداشت جواب دے گئی ۔ سو بوریا بستر سمیٹا اور مدرسے کو الوداع کہنے کا جرأتمندانہ اور دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ مدرسہ تو ہم نے چھوڑ دیا لیکن یہ بات ہمیں آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر ظلم و جبر کے اس مرکز اور انسانی حقوق کی اس قربان گاہ کی دہلیز پار کرتے وقت ہماری ان کمبخت آنکھوں کو کیا ہوا تھا کہ خواہ مخواہ بہہ کر آزادی کا مزہ خراب کررہی تھیں۔
اس سلسلہِ جبر کا سب سے کربناک پہلو یہ ہے کہ ظلم و ستم کی چکی میں دن رات پسنے کے باوجود بھی ہم طلبہ کے ذہن اس قدر ماؤف ہوچکے تھے کہ نہ تو ہمیں کبھی احتجاج کا خیال آتا، نہ کلاسوں کا بائیکاٹ سوجھتا اور نہ ہی سوشل میڈیا پر اشک باری کی ہمت ہوتی۔ یہ تو اب ماحول دیکھ کر کچھ ہمت ہوئی ہے اور ڈرتے، جھجھکتے اور کانپتے ہوئے قلم اٹھایا ہے کہ متاعِ کارواں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ کہیں احساسِ زیاں بھی نہ جاتا رہے ۔ بس اب بہت ہوگیا۔ آخر کو اپنے لبرل مہربانوں کے لئے بھی تو کچھ مواد باقی چھوڑنا ہے۔
والسلام
مظلوم المدارس
محمد اسامہ ملتانی ( #ایس_اے_ساگر )
No comments:
Post a Comment