Saturday 28 September 2024

کیا دین اسلام میں تعدد ازدواج مستحسن نہیں ہے؟

کیا دین اسلام میں تعدد ازدواج مستحسن نہیں ہے؟
-------------------------------
قرآن کریم نے جس سیاق میں (وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً سورہ النساء آیت ۳) دو تا چار خواتین سے نکاح کو مباح کہا ہے وہ ترغیب وتحریض کا اصولی اسلوب نہیں ہے 
بلکہ عرب کے اس ماحول میں یتیم بچیوں کے سرپرستان یتیموں کے اموال  پر خزانے پہ بیٹھے از دہا کی طرح قبضہ جمائے رکھنے کے لئے معمولی مہر دین کے بدلے ان ہی یتیموں سے نکاح کرلیتے تھے، جبکہ وہ اگر دوسری خواتین سے نکاح کرتے تو اتنے معمولی مہر میں نکاح ممکن نہ ہوتا، یوں زیر پرورش یتیموں کے ساتھ معمولی مہر کے بدلے نکاح کرنا دراصل ان کا مالی استحصال کرنا تھا، قرآن کریم نے اس ظالمانہ طریقہ کار کی تردید کی اور جو مسلمان  یتیموں سے شادی کرنا چاہتے ہیں انہیں دو چیزوں کا مکلف بنایا:
اول: یتیموں کو پوری طرح مہر دے کر ان کے ساتھ انصاف کیا جائے، جیسا کہ دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے میں ان کے خاندانی رتبے کا اعتبار کرکے مہر دیا جاتا ہے، یتیموں کی پرورش اور ان کی دیکھ بھال کے دوران ان پر خرچ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہوں اور انہیں اونے پونے مہروں میں نکاح کرلو۔
دوسرا: اگر یتیم بچیوں کے ساتھ مہر مستحق دے کر انصاف نہیں کرسکتے تو تم ان سے شادی نہ کرو، بلکہ کسی دوسری عورت کے پاس جاؤ جو تمہیں پسند ہو! تب لگ پتہ جائے گا کہ مہر میں عدل کیا ہوتا ہے؟
صحیح بخاری کی ایک روایت (حدیث نمبر 4574) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک سوال کے جواب میں آیت تعدد کی یہ تفسیر فرمائی ہے کہ: "یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی (محافظ رشتہ دار جیسے چچیرا بھائی، پھوپھی زاد یا ماموں زاد بھائی) کی پرورش میں ہو اور ترکے کے مال میں اس کی ساجھی ہو اور وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی پر فریفتہ ہوکر اس سے نکاح کرلینا چاہے لیکن پورا مہر انصاف سے جتنا اس کو اور جگہ ملتا وہ نہ دے، تو اسے اس سے منع کردیاگیا کہ ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ان کے ولی انصاف کرسکیں اور ان کی حسب حیثیت بہتر سے بہتر طرز عمل مہر کے بارے میں اختیار کریں (تو اس صورت میں نکاح کرنے کی اجازت ہے) اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے سوا جو بھی عورت انہیں پسند ہو ان سے وہ نکاح کرسکتے ہیں۔"
يا ابْنَ أُخْتِي، هذِه اليَتِيمَةُ تَكُونُ في حَجْرِ ولِيِّهَا، تَشْرَكُهُ في مَالِهِ، ويُعْجِبُهُ مَالُهَا وجَمَالُهَا، فيُرِيدُ ولِيُّهَا أنْ يَتَزَوَّجَهَا بغيرِ أنْ يُقْسِطَ في صَدَاقِهَا، فيُعْطِيَهَا مِثْلَ ما يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا عن أنْ يَنْكِحُوهُنَّ إلَّا أنْ يُقْسِطُوا لهنَّ، ويَبْلُغُوا لهنَّ أعْلَى سُنَّتِهِنَّ في الصَّدَاقِ، فَأُمِرُوا أنْ يَنْكِحُوا ما طَابَ لهمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ۔   
اس پس منظر کو سامنے رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ تعدد ازواج والی آیت اصلاً ترغیب تعدد ازواج کے لئے نہیں آئی ہے؛ بلکہ یتیم بچیوں کے مہر کے حوالے سے ناانصافی کے خوف کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے آئی ہے۔ جس آیت سے تعدد ازواج پہ استدلال کیا جاتا ہے اس کا اصل محمل یہ ہے۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ آیت مبارکہ کا عموم تعدد ازواج کے جواز کو ثابت کررہا ہے۔ لیکن یہ اصلاً نہیں؛ تبعاً ہے۔ اسی لئے علماء کے نقطہاے نظر اس بابت مختلف ہیں کہ جوازِ تعدد سے قطع نظر (کہ بہ نص قرآنی تعدد ازواج ثابت ہے) افضل وبہتر کون سا عمل ہے؟ ایک پہ اکتفا کرنا یا بلاضرورت بیک وقت متعدد نکاح کرنا؟ اسی آیت کے بعد والے ٹکڑے {وإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} میں ترک تعدد کا اشارہ بھی موجود ہے اور اس کی علت بھی بتادی گئی ہے، کہ جہاں متعدد ازواج کے ساتھ مآلاً عدل وانصاف قائم رکھنے کا امکان موجود نہ ہو تو تعدد ازواج کا مباح عمل مرغوب ومستحسن نہیں؛ بلکہ ناپسندیدہ عمل ہوگا اور اگر مرد کو پتہ ہوکہ واقعۃً وہ تعدد زوجات کی صورت میں عدل ومساوات قائم نہیں کرسکے گا تو باتفاق فقہاء تعدد ازواج ناجائز ہے۔ آیت کے اسی ٹکڑے کی بناء پر فقہاء شوافع وحنابلہ؛ بالخصوص امام شافعی رحمہ اللہ نے باضابطہ تصریح فرمادی ہے کہ ایک پر اکتفاء کرنا تعدد کے بالمقابل پسندیدہ عمل ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أُحب له أن يقتصر على واحدة وإن أبيح له أكثر؛ لقوله تعالى: ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾ [النساء: 3] (مختصر المزني ٣١٨/٢)
خطيب شربيني شافعي رحمه الله فرماتے ہیں:
وَيُسَنُّ أَنْ لَا يَزِيدَ عَلَى امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ ظَاهِرَةٍ. (مغني المحتاج ٢٠٧/٤)
شیخ مرداوی حنبلی فرماتے ہیں:
ويُسْتَحَبُّ أيضًا أنْ لا يزيدَ على واحِدَةٍ إنْ حصَل بها الإعْفافُ، على الصَّحيحِ مِنَ المذهبِ.(كتاب الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف - ت التركي۔ [المرداوي] ٢٥/٢٠)
شیخ عبدالرحمن بن قاسم حنبلی فرماتے ہیں:
ويسن نكاح واحدة) لأَن الزيادة عليها تعريض للمحرم (حاشية الروض المربع لابن قاسم ٢٢٩/٦)
علامہ ابن قدامة مقدسي فرماتے ہیں:
الأولى أن لا يزيد على امرأة واحدة؛ لقول الله تعالى: ﴿ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ﴾ [النساء: 3]، ولقوله سبحانه: ﴿ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ﴾ [النساء: 129] (الشرح الكبير ٢٤/٢٠)
حنفیہ میں علامہ سراج الدین ابن نُجيم مصری رحمه الله فرماتے ہیں:
لو لم يزد على واحدة كي لا يدخل الغم على ضعيف القلب ورَقَّ عليها فهو مأجور، وتركُ إدخال الغم عليها يُعد من الطاعة، والأفضل الاكتفاء بواحدة [ابن نجيم، النهر الفائق شرح كنزالدقائق، تحقيق: أحمد عزو عناية، طبعة: دارالكتب العلمية- بيروت، ط1، 1422هـ، 2002 م، (2/ 197).
فتاوى هنديہ میں ہے:
إذا كانت للرجل امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى، وخاف أن لا يعدل بينهما لم يجز له ذلك، وإن كان لا يخاف جاز له، والامتناعُ أولى، ويُؤجر بترك إدخال الغم عليها۔ [الفتاوى الهندية، (1/ 341].
علامہ خرشی مالکی مختصر خلیل کی شرح میں بلاضرورت نکاح کرنے کو مکروہ اور بیوی کے حقوق ادانہ کرنے کی صورت میں نکاح کرنے کو حرام فرماتے ہوئے لکھتے ہہیں:
وَقَدْ يُكْرَهُ فِي حَقِّ مَنْ لَمْ يَحْتَجْ إلَيْهِ وَيَقْطَعْهُ عَنْ الْعِبَادَةِ وَيَحْرُمُ فِي حَقِّ مَنْ لَمْ يَخْشَ الْعَنَتَ وَيَضُرُّ بِالْمَرْأَةِ لِعَدَمِ قُدْرَتِهِ عَلَى النَّفَقَةِ (شرح الخرشي على مختصر خليل - ومعه حاشية العدوي ١٦٥/٣)
جب بلاضرورت نفس نکاح مکروہ ہے تو بلاضرورت ان کے یہاں تعدد ازواج مستحسن وافضل کیسے ہوسکتا ہے؟ ان تمام تصریحات سے واضح ہے کہ جس طرح نکاح کرنے کے کئی حالات ہیں، مثلاً جو شخص جسمانی اعتبار سے تندرست ہو، مہر اور نان نفقہ ادا کرنے پر قادر ہو، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ اور معصیت  میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو، اور نکاح کی صورت میں بیوی پر ظلم  و زیادتی کا اندیشہ نہ ہو، تو ایسے شخص پر نکاح کرنا واجب ہے۔ اور اگر نکاح نہ کرنے کی صورت میں برائی میں پڑنے کا اندیشہ نہیں، اور مالی و جسمانی اعتبار سے نکاح کرنے پر قادر ہو تو ایسے شخص پر نکاح کرلینا سنتِ مؤکدہ ہے۔ اگر نکاح کے بعد اندیشہ ہوکہ بیوی کے حقوق ادا نہیں کرپائے گا، اور ظلم کا مرتکب ہوگا تو نکاح مکروہِ تحریمی ہے، اور اگر اس کا صرف اندیشہ نہ ہو بلکہ اپنی عادات یا نفسیاتی میلانات کی وجہ سے اسے یہ یقین ہوکہ نکاح کے بعد بیوی کے ساتھ جور و ظلم کا معاملہ رکھے گا تو ایسے شخص کے لیے  نکاح  کرنا حرام ہے۔ اسی طرح تعدد ازدواج کے حالات بھی مختلف ہیں، جسمانی قویٰ یا دیگر وجوہ سے جنہیں واقعی اس کی ضرورت ہو تو معاشرتی عدل کی شرط کے ساتھ اس کے لئے تعدد ازدواج کی اجازت ہے۔ جنہیں اس کی ضرورت نہ ہو یا تعدد ازدواج کی صورت میں عدل کا قیام مشکوک ہو تو ایسوں کے لئے تعدد ازدواج بہتر نہیں ہے! شریعت اسلامیہ میں تعدد ازدواج کی کہیں فضیلت نہیں آئی ہے۔ تکثیر امت والی روایات کا مقصد تجرد وتبتل کے بالمقابل محض ترغیب نکاح ہے ترغیب تعدد ازدواج نہیں۔ سورہ نساء کی جس آیت میں تعدد ازدواج کی اباحت کا ذکر ہے اس کا مبنی یتیموں کے ساتھ ہورہے جبر کا خاتمہ اور ان سے نکاح کرنے کی صورت میں معتدل مہر کی ادائی کو یقینی بنانا ہے، ترغیب تعدد اس آیت کا مفاد نہیں ہے، اسی لیے مذاہب اربعہ متَبعہ میں بوقت ضرورت تعدد ازدواج کی عدل کی شرط کے ساتھ رخصت واباحت تو بیشک ہے، لیکن مذاہب اربعہ میں سے کسی نے بھی مطلقاً تعدد ازدواج کو افضل وبہتر نہیں کہا ہے؛ کہ یہ عموماً بیویوں کے ساتھ جور و ظلم یا حقوق تلفی کا موجب بنتا ہے، چونکہ شارع علیہ السلام کے حق میں یہ علت غیر متصور تھی؛ اس لئے ان کے حق میں استثناءً تعدد افضل وبہتر تھا، عام امتیوں کے حق میں عمومی احوال میں مطلقاً یہ حکم نہیں! مذاہب اربعہ میں سے شافعیہ اورحنابلہ نے تو دو ٹوک انداز میں ترک تعدد کو افضل ومستحسن کہا ہے. جبکہ احناف نے باب نکاح کے ضمن میں قسم وعدل کی بحث کے ذیل میں اور مالکیہ نے نکاح کے احوال مختلف کے ضمن میں اشارۃً اسے غیرمستحسن مانا ہے، لیکن مطلقاً افضلیتِ تعدد کے قائل یہ (احناف وموالک) بھی نہیں ہیں۔
خلاصہ بحث: 
جیساکہ اوپر کے سطروں میں قدرے تفصیل سے عرض کیا  کہ جس طرح نفس نکاح وزواج کے احوال مختلف ہیں، کسی کے لئے سنت، کسی کے لئے مکروہ وحرام اور کسی کے لئے واجب! ہر ایک کے لئے ہر حالت میں نکاح مسنون، واجب یا مستحب نہیں ہے. ورنہ شیخ عبدالفتاح ابو غدہ کی کتاب مستطاب "العلماء العزاب" میں درج اکابر امت:
 شیخ بشرحافي، هناد سري، طبري، زمخشري، نووي، ابن تيمية اور حضرت شیخ یونس جونپوری رحمہم اللہ اجمعین کا پھر کیا بنے گا؟ 
کیا ان حضرات کو تارکین سنت قرار دینے کی مجال کسی میں ہے؟  
اسی طرح تعدد نکاح کے تئیں بھی ہر شخص کے لئے ہر حال میں علی الاطلاق کوئی حکم متعین کردینا مشکل ہے۔ نکاح کی مشروعیت ہمہ جہت ان گنت وبے شمار اغراض ومقاصد کے تحت ہوئی ہے، تعدد ازواج کا حال بھی یہی کچھ ہے ۔ہر شخص کی انفرادی حالت اور معاشرتی مجبوری، ضرورت اور تقاضہ ایک دوسرے سے جداگانہ ہے. جس کے ساتھ ہی تعدد ازواج کی افضلیت یا عدم افضلیت دائر ہوگی ۔اختلاف احوال کے تحت اس کا حکم بھی مختلف ہوگا۔ تاہم اتنا متیقن ہے کہ شرعی نصوص میں تعدد ازواج کی باضابطہ واصالۃً ترغیب کہیں نہیں آئی ہے، اقتضاء واشارات ہیں۔ اگر اس کی ترغیب منصوص ہوتی تو ذرا سوچئے! شوافع وحنابلہ (احناف کے بعض فقہاء بھی) ایک پر اکتفا کرنے کو مستحب ومسنون کیوں کہتے؟ 
چاروں فقہی مذاہب کا فی الجملہ اکتفاء بالواحدہ کو اصل اور تعدد ازواج کو استثنائی اور رخصت قرار دینا واضح دلیل ہے کہ تعدد ازواج کا مسئلہ اپنے اصل کے اعتبار سے عام افراد امت کے لئے مطلقاً مطلوب ومرغوبِ شرع نہیں ہے. ہاں! بعض اشخاص وافراد کے احوال مخصوصہ کے باعث ان کے لئے مستحسن ہوجائے تو مضائقہ نہیں۔
(اتوار 24 ربیع الاول 1446ھ 29 ستمبر 2024ء) ( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_28.html

No comments:

Post a Comment