مختلف عمر کے مختلف فضائل
سوال: کیا یہ حدیث صحیح ہے مسند احمد اور مسند ابو یعلیٰ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ جب تک بالغ نہیں ہوتا اس کے نیک عمل اس کے والد یا والدین کے حساب میں لکھے جاتے ہیں اور جو کوئی برا عمل کرے تو وہ نہ اس کے حساب میں لکھا جاتا ہے نہ والدین کے۔ پھر جب وہ بالغ ہو جاتا ہے تو قلم اس کےلئے جاری ہو جاتا ہے اور دو فرشتے جو اس کے ساتھ رہنے والے ہیں ان کو حکم دے دیا جاتا ہے کہ اس کی حفاظت کریں اور قوت بہم پہنچائیں ۔جب حالتِ اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو (تین قسم کی بیماریوں ”جنون‘ جذام اور برص“ سے محفوظ کردیتے ہیں۔ جب پچاس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب ہلکا کردیتے ہیں‘ جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دے دیتے ہیں۔ جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی 80 سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حسنات کو لکھتے ہیں اور سیئات کو معاف فرما دیتے ہیں۔ پھر جب نوے سال کی عمر ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کو اپنے گھر والوں کے معاملے میں شفاعت کرنے کا حق دیتے ہیں اور اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں اور اس کا لقب امین اللہ اور اسیر اللہ فی الارض (یعنی زمین میں اللہ کا قیدی) ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس عمر میں پہنچ کر عموماً انسان کی قوت ختم ہو جاتی ہے‘ کسی چیز میں لذت نہیں رہتی‘ قیدی کی طرح عمر گذارتاہے اور جب ارذل عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس کے تمام وہ نیک عمل نامہ اعمال میں برابر لکھے جاتے ہیں جو اپنی صحت و قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا اور اگر اس سے کوئی گناہ ہو جاتا ہے تو وہ لکھا نہیں جاتا۔
جواب: مذکورہ حدیث کو مسند ابی یعلی میں ذکر کیا گیا ہے، حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدثنا منصور بن أبي مزاحم حدثني خالد الزيات حدثني داوود بن سليمان عن عبد الله بن عبد الرحمن بن معمر بن حزم الأنصاري : عن أنس بن مالك رضي الله عنه -رفع الحديث- قال: (المولود حتي يبلغ الحنث ما عمل من حسنة كتبت لوالده أو لوالديه، وما عمل من سيئة لم تكتب عليه ولا على والديه، فإذا بلغ الحنث جرى عليه القلم أمر الملكان اللذان معه أن يحفظا وأن يشددا فإذا بلغ أربعين سنة في الإسلام أمنه الله من البلايا الثلاثة: الجنون والجذام والبرص فإذا بلغ الخمسين خفف الله من حسابه فإذا بلغ الستين رزقه الله الإنابة إليه بما يحب فإذا بلغ السبعين أحبه أهل السماء فإذا بلغ الثمانين كتب الله حسناته وتجاوز عن سيئاته رضي الله عنه فإذا بلغ التسعين غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر وشفعه في أهل بيته وكان أسير الله في أرضه فإذا بلغ أرذل العمر لكي لا يعلم بعد علم شيئا كتب الله له له مثل ما كان يعمل في صحته من الخير فإذا عمل سيئة لم تكتب عليه)
محشی نے اس حدیث پر صحت کا حکم لگایا ہے۔ (مسند ابی یعلی، مسند عبداللہ بن عبدالرحمن عن انس بن مالک :۶/۳۵۱، ط: دارالمامون للتراث)
لیکن علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے مسند ابی یعلی کی سندیں نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اسی طرح کی روایتیں مسند احمد میں اختصار کے ساتھ مذکور ہیں، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایات بھی ذکر کی ہیں، اس کے بعد فرمایا کہ ابو یعلی کی روایت میں بعض ضعیف جدًّا (بہت زیادہ ضعیف) راوی پائے جاتے ہیں، اور بعض ایسے راوی جو مجہول ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
"وروى بعده بسنده إلى عبد الله بن عمر بن الخطاب عن النبي صلى الله عليه و سلم قال مثله، ورجال إسناد ابن عمر وثقوا على ضعف في بعضهم كثير، وفي أحد أسانيد أبي يعلى ياسين الزيات، وفي الآخر يوسف بن أبي ذرة، وهما ضعيفان جدًّا. وفي الآخر أبو عبيدة بن الفضيل بن عياض وهو لين، وبقية رجال هذه الطريق ثقات، وفي إسناد أنس الموقوف من لم أعرفه". (مجمع الزوائد ، باب فیمن طال عمره من المسلمین :۱۰/۳۴۰، ط:دارالفکر بیروت)
اور بچے کے بارے میں اضافہ چوں کہ صرف مسند ابی یعلی کی روایات ہی میں ہے اور اس کے رجال شدید ضعیف ہیں، اس لیے ان روایات میں دیگر جو فضائل ہیں وہ تو قابلِ قبول ہیں، لیکن مسند ابی یعلی والی روایت قابل قبول نہیں ہوگی.
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200112
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (صححہ: #S_A_Sagar )
------
نوے برس کی عمر تک پہنچنے والے کے لیے ایک فضیلت کی تحقیق
سوال: اس بات کی کیا دلیل ہے کہ جو شخص نوے برس کی عمر میں مرے تو وہ شہید ہے؟
جواب: تلاش بسیار کے باوجود سوال میں مذکور بات کی کوئی دلیل ہمیں نہیں ملی، البتہ اس کے قریب قریب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ملتی ہے، جس میں نوے برس کی عمر تک پہنچنے پر اگلے پچھلے گناہوں کی معافی کا ذکر ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ مُعَمَّرٍ يُعَمَّرُ فِي الْإِسْلَامِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، إِلَّا صَرَفَ اللَّهُ عَنْهُ ثَلَاثَةَ أَنْوَاعٍ مِنَ الْبَلَاءِ : الْجُنُونَ، وَالْجُذَامَ، وَالْبَرَصَ، فَإِذَا بَلَغَ خَمْسِينَ سَنَةً لَيَّنَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْحِسَابَ، فَإِذَا بَلَغَ سِتِّينَ رَزَقَهُ اللَّهُ الْإِنَابَةَ إِلَيْهِ بِمَا يُحِبُّ، فَإِذَا بَلَغَ سَبْعِينَ سَنَةً أَحَبَّهُ اللَّهُ، وَأَحَبَّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، فَإِذَا بَلَغَ الثَّمَانِينَ قَبِلَ اللَّهُ حَسَنَاتِهِ، وَتَجَاوَزَ عَنْ سَيِّئَاتِهِ، فَإِذَا بَلَغَ تِسْعِينَ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، وَسُمِّيَ أَسِيرَ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ، وَشَفَعَ لِأَهْلِ بَيْتِهِ." (مسند أحمد، مُسْنَدُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، رقم الحديث: ١٣٢٧٩)
لیکن علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے "الموضوعات" میں لکھا ہے:
"هذا الحديث لايصح عن النبي صلى الله عليه وسلم. اهـ"
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر محدثین مثلًا قاضی شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200571
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (صححہ: #S_A_Sagar )
https://saagartimes.blogspot.com/2022/05/blog-post_53.html
No comments:
Post a Comment