Wednesday 4 May 2022

عقل کا مرکز کہاں ہے دل یا دماغ؟؟ عقل کا استعمال کیا ہے؟؟ عقل میں اضافہ کیسے کریں؟؟؟

عقل کا مرکز کہاں ہے دل یا دماغ؟؟ عقل کا استعمال کیا ہے؟؟ عقل میں اضافہ کیسے کریں؟؟؟

عقل کا مرکز کہاں ہے؟ دل یا دماغ؟؟

سوال: سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اچھائی اور برائی کا مرکز دل کو قرار دیا ہے یعنی اگر دل کی اصلاح ہوجائے تو تمام بدن اور اعمال کی اصلاح ہو جائے گی اور اگر دل میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو تمام بدن اور اعمال میں بگاڑ پیدا ہوجائے گا اور اسی طرح علم کا مرکز سینے کو قرار دیا ہے نہ کہ دماغ کو لیکن سائنسی اور تجرباتی حقائق اس کے خلاف ہیں سائنسی حقائق انسان کے خیالات اور اعمال کا مرکز دماغ کو قرار دیتے ہیں نہ کہ دل کو. میں اپنے سوال کو واضح کرنے کی خاطر کچھ آیات اور احادیث کے معانی لکھ رہا ہوں۔ آیات: (۱) اور اپنے رب کو یاد کیا کر اپنے دل میں اور ذرا دھیمی آواز سے بھی اس حالت میں کہ عاجزی بھی ہو اور اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو (ہمیشہ) صبح کو بھی اور شام کو بھی اور غافلین میں سے نہ ہو۔ (الاعراف) بند لگا دیا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ اور ان کے لئے سزا بڑی ہے (البقرۃ) الحدیث: (۱) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص کے قلب میں قرآن شریف کا کوئی حصہ محفوظ نہیں وہ بمنزل ویران گھر کے ہے (رواہ الترمذی) (۲) حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے کلام اللہ پڑھا اس نے علوم نبوت کو اپنی پسلیوں کے درمیان لے لیا گو اس کی طرف وحی نہیں بھیجی جاتی۔ حامل قرآن کے لیے مناسب نہیں کہ غصہ والوں سے غصہ کرے یا جاہلوں کے ساتھ جہالت کرے حالانکہ اس کے پیٹ میں اللہ کا کلام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس طرح سورہ اعراف میں دل کا ذکر ہے کہ اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں کیا یہ ممکن ہے؟ حالانکہ انسان جب کوئی چیز یاد کرتا ہے تو دماغ میں یا دماغ کی مدد سے یاد کرتا ہے نہ کہ دل میں کیونکہ انسان کا علمی اور معلوماتی مرکز دماغ ہی ہوتا ہے۔ اب میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے تو اس نے اتنی بڑی غلطی (نعوذبااللہ) کیوں کی؟ حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ لوگوں کی غلط فہمی کو دور کردیتے۔ ایک اور سوال ذہن میں ابھر رہا ہے کہ انسان کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے وہی انسان کے جسم کے متعلق بہتر جانتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ یہ بات نہیں کر سکتا لہٰذا یہ کتاب (نعوذ باللہ) آسمانی نہیں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنائی ہے۔ لہٰذا آپ سے گذارش ہے کہ مجھے اس پیچیدگی سے نکالنے کی بلاتعصب کوشش کریں اگر میری باتیں صحیح ہیں تو آپ بھی جواب دیجئے اور اگر غلط ہیں تو خدا کے لئے جلد از جلد میرے شکوک و شبہات کو دور کرنے میں میری مدد کریں اور مجھے دوزخ سے بچائیے۔

جواب: چونکہ زیربحث مسئلہ میں اکثر پڑھے لکھے لوگ شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا شکار ہیں جس سے دین و ایمان کے ضیاع کا خطرہ ہے اس لئے مناسب یہ ہے کہ اس پر کسی قدر تفصیل سے گفتگو کی جائے تاکہ اس مسئلہ کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے اور مسئلہ ہر اعتبار سے الم نشرح ہوجائے۔

مقصودی مباحث سے قبل چند بنیادی باتیں معلوم ہونا ضروری ہیں تاکہ راہ حق کے متلاشی تقلیدی تاریکیوں اور جانبدارانہ آراء سے ہٹ کر ایک منزل کو متعین کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوں اور علوم و فنون کی قدر و منزلت اور باہمی تفاوت کے تعین کے لیے کسی شخص کی ذات یا اس کی مخصوص آراء سے نکل کر صداقت اور واقعیت کے واضح معیار کے تحت دلائل و براہین کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدگی سے غور و فکر کیا جاسکے۔

وہ علوم و فنون جن کے بنیادی نقطہ نظر میں دلائل نقلیہ اور اخبارِ صادقہ سے ہٹ کر اپنے تجربات اور اپنی سوچ و فہم اور دور رسی سے اخذ نتائج کے بعد چند بنیادی اصول وضع کر لیے گئے اور مزید امعان فکر سے مسائل کے ایک مرتب مجموعہ کی شکل میں اس پر علم یا فن کا اطلاق کیا جانے لگا اور رفتہ رفتہ وہ مستقل علم و فن کی حیثیت سے شہرت اختیارکر گئے ان کی چند اقسام ہیں جن میں سے زیربحث موضوع کے متعلق چند ایک مفید علوم کو ذکر کیا جاتا ہے۔

ریاضیات: اس علم کا تعلق حساب و ہندسہ یا ہیئت وفلکیات سے ہے دینیات سے بہر کیف اس کو نفیاً یا اثباتا کوئی سروکار نہیں ان کے متعلق یہ کہنا چاہیے کہ یہ سراسر علوم برھانیہ سے لگاؤ رکھتے ہیں اور جو کوئی بھی انہیں اچھی طرح جانتا ہے ان کی قدر و قیمت اور افادیت کا انکار نہیں کرسکتا۔

منطق: اس فن پر غور کیجئے تو اس کے معروف قواعد دینی تقاضوں سے متصادم نہیں معلوم ہوتے اس کا علم دین سے براہ ٔ راست نفیاً یا اثباتاً کوئی لگاؤ نہیںکیونکہ اس میں تو صرف یہ بحث کی جاتی ہے کہ دلائل کیا ہیں؟ ان کی جانچ پرکھ کے کیا پیمانے ہیں؟ برہان کسے کہتے ہیں اس کے شرائط اور مقدمات کی نوعیت کیا ہے؟ تعریف کس سے تعبیر ہے؟ اور کیونکر اسے ترتیب دیا جاتا ہے؟ اس کے علاوہ اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں تصور یا تصدیق تصور کو تعریف وحدّ کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے اور تصدیق کی پہچان برہان و دلیل سے ہوپاتی ہے ظاہر ہے کہ ان میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کو دین کے منافی قرار دیا جائے۔

طبیعات، سائنس: اس علم میں اجسام عالم سے بحث کی جاتی ہے جیسے کہ آسمان ، نجوم و کواکب،پانی ، ہوا، مٹی، آگ، حیوانات، نباتات اور معادن وغیرہ اس میں ان کے تغیرات، استحالات اور امتزاجات کی کیفتیں بیان کی جاتی ہیں یہ بحث ایسی ہی ہے جیسے ایک معالج یا طبیب انسان اور اس کے اعضائے رئیسہ و خادمہ کو نظر و فکر کا ہدف قرار دیتا ہے پھر جس طرح علم طب میں اور دین میں کوئی منافات نہیںاسی طرح طبعیات کے مبنی برحقیقت مسائل اور دین میں بھی کوئی تصادم نہیں۔

الٰہیات: اس فن میں حکماء نے بہت ٹھوکریں کھائیں ہیں اس سلسلے میں ان کی کتابوں کا بنظر انصاف مطالعہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان حضرات نے جب دلیل و برہان کی محکمی اور استواری بیان کرنا چاہی تو اس کیلئے تو ایسی کڑی شرطیں ٹھہرائیں کہ جن سے یہ قطعیت و یقین کے درجہ تک پہنچ جائیں۔ جب الٰہیات پر گفتگو کا موقع آیا تو ان شرائط کا حق ادا نہ کیا بلکہ انتہا درجے کے تساہل سے کام لیا۔ جو کوئی بھی ان کے قابل وثوق علوم (ریاضی و منطق وغیرہ) کا مطالعہ کر تا ہے وہ ان کے دقائق سے متاثر ہو کر اور یہ دیکھ کر کہ ان میں جن دلائل کو پیش کیا گیا ہے وہ کس درجہ واضح اور محکم ہیں متعجب ہوتا ہے معاملہ اگر صرف تحسین و استعجاب تک محدود رہتا تو اس میں کوئی مضائقہ نہ تھا اصل مصیبت یہ ہے کہ یہ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ ان کے تمام علوم و افکار دلائل کی محکمی و وضوح کے اعتبار سے ایسے ہی پختہ اور ناقابل تردید ہیں اور اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب یہ ان کے اقوال غیر سدیدہ کو دوسروں سے سنتا ہے تو اس پر سر دُھنتا ہے بلکہ بسا اوقات خود بھی ازراہ تقلید ان کے پروپیگنڈہ میں ان کا ہم نوا ہوجاتا ہے مگر اس کی طرف توجہ نہیں جاتی کہ جہاں ریاضیات میں ان کے استدلال کی عمارت دلیل و برہان کی استواریوں پر مبنی ہے وہاں الٰہیات میں یہ محض تخمین کے بل بوتے پر چلتے ہیں مگر اس کا فرق عوام کو ہر گز نہیں ہو سکتا اس کو تو کچھ وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے ان علوم میں گہرے غور و فکر سے کام لیا ہو اور ان کی جزئیات و فروع کا تجربہ کیا ہو۔ (ماخذہ المنقذ من الضلال للغزالی / ص:۲۱ وما بعدہ)

مشاہداتی اور تجرباتی نوعیت کی سائنسی معلومات جن کی پشت پہ درست مشاہدہ اور صحیح تجربہ کا سہارا ہو ان سے حاصل شدہ نظریات و افکار کا دین و شریعت سے کوئی تصادم نہیں اور نہ دین ان علوم کی تحصیل میں رکاوٹ ہے چنانچہ مذہبی تعلیمات اور مذہبی کتب میں کہیں بھی مفید علوم اور قابل قدر فنون سے لا تعلق رہنے اور دوررس سوچ و فکر کے ذریعے کائنات کے طبعی اور تکوینی امور سے جدید اکتشافات کے حصول کو نظر انداز کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اسلام ہر نافع اور مفید امر کی اجازت دیتا ہے اور مضر اور غیر مفید اور بے کار شئی سے روکتا ہے اسی لیے یہ دین فطرت ہے لہٰذا یہ سائنس اور طبیعات کے مبنی برحقیقت مسائل اور جدید اکتشافات سے ترقی کی راہ میں ہر گز رکاوٹ حائل نہیں کرتا۔

لیکن مشاہدات اور تجربات سے ہٹ کر سائنس کے بعض وہ مسائل ہیں جو کسی مضبوط بنیاد پر استوار نہیں کیے گئے بلکہ وہ محض تخیلات اور مفروضات پر مبنی نظریات ہیں محض ایک ذہنی اختراع اور وھمی مفروضہ کو نظریہ کا جامہ پہنا کر پیش کر دیا گیا اور شاگردان رشید نے بڑوں کی قابلیت اور تسلیم شدہ بزرگی کے آگے ’’سر تسلیم خم‘‘ کہتے ہوئے ان تخیلات و مفروضات کو من وعن تسلیم کر لیا اور صدھا برس تک ان مفروضات اور قیاس آرائیوں کو سائنس میں مسلمات کا درجہ دیا گیانہ ان کی صداقت سے بحث کی گئی نہ ان کے دلائل کو نقل و عقل کے اعلیٰ معیاری اصولوں پر پرکھنے کی کوشش کی گئی۔ مگر بعد میں مفکرین نے ان نظریات کی بلند و بالا عظیم الشان عمارت میں شگافیں ڈال دیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سائنس کے ان نظریات اور مفروضات کی عمارت زمین بوس ہو گئی اور کتابوں میں ان کا تذکرہ تردید کے لیے کیا جانے لگا۔

مثال کے طور پر گیلیلیو کے زمانے تک سائنس کے اس اصول کو قطعی تصور کیا جاتا تھا کہ بھاری چیزیں ہلکی چیزوں کی نسبت تیزی سے نیچے گرتی ہیں لوگ اس نظریے کی تصدیق کرنے کیلئے تجربہ کو بھی گناہ سمجھتے تھے مگر گیلیلیو نے آکر اس نظریہ کی تردید کی اور ثابت کیا کہ ہلکی اور وزنی چیزیں ایک ساتھ گرتی ہیں۔ (دیکھئے کتاب، انسان کے کارنامے)

متقدمین سائنس دانوں کے اہم نظریات میں سے ایک نظریہ قانونِ علیت ہے جس کے تحت انہوں نے تصوراتی دنیا میں خدا کے وجود کو ایک عضو معطل کے درجہ میں بلند و بالا مقام پر بٹھا دیا، مگر مسلمان مفکرین میں امام غزالی ؒ نے اور بعد میں اسکاٹ لینڈ کے ذہین اور طباع فلسفی ڈیوڈ ہیوم نے اس نظریے کے خلاف آواز اٹھائی اورمسلمہ قانونِ علیت پر ضرب کاری لگاتے ہوئے اس کی تاروپود بکھیر کر رکھ دی(دیکھئے سر گزشت غزالی /ص:۶۲، تاریخ فلسفہ، مصنفہ الفرڈ ویبر، اردو ترجمہ از ڈاکٹر عبدالحکیم / ص: ۳۵۹)

فیثا غورث اور اس کے نظریہ کے حامی ہمیشہ آفتاب ساکن ہے ساکن ہے کہ رٹ لگاتے رہے اور صدیوں یورپ کی معقولی بھی اسی سبق کو دھراتے رہے بالآخر یہ نظریہ غلط ثابت ہوا اور مانا گیا کہ سورج بھی اپنے طور پر گھومتا ہے (دیکھئے انسان کے کارنامے)

عصرجدید کے مادہ پرستانہ سائنسی نظریات میں سے سب سے اہم نظریہ ارتقاء ہے جو علمی حقیقت سے زیادہ محض ایک مفروضہ ہے اور اس کو علمی حقیقت ثابت کرنے کی تمام کوششیں اب تک ناکام ہوچکی ہیں اور برابر ہوتی جا رہی ہیں یہ دور جدید کا سب سے اہم اور معرکۃ الآراء مسئلہ ہے جس پر علمی اعتبار سے اتنا کام ہو چکا ہے کہ شاید ہی کسی دوسرے مسئلہ پر ہوا ہو۔ اس مسئلہ کو بنیاد بنا کر کھیتوں اور باغیچوں میں تجربات کئے جارہے ہیں اور لیبارٹریوں میں مسلسل جانچ پڑتال کی جارہی ہے چمپانزی بندروں کو برابر ٹریننگ دی جارہی ہے تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ سدہائے جانے پر وہ بھی انسان بن سکتے ہیں؟ اسی طرح دنیا بھر کے مختلف حیاتاتی نمونوں کو اکٹھا کیا جارہا ہے اور اس مقصد کے لیے کرّہ ارض کا گوشہ گوشہ چھانا جا رہا ہے سمندروں کو کھنگالا جا رہا ہے اور زمین کے اندر گڑے ہوئے اُحفوری آثار و باقیات تک کو کھود کر نکالا جارہا ہے لیکن اس تمام کدو کاوش کے باوجود کوئی ایسی حقیقت دریافت نہیں ہو سکی جس کو قانون فطرت کا نام دیا جاسکے، اور اس سلسلے میں اب تک جتنے دعوئے کیے گئے ہیں وہ بلا دلیل اور بلا ثبوت ہیں جن کی حیثیت قیاسات و مفروضات سے زیادہ نہیں اسی بناء پر اب خود دنیائے سائنس میں یہ خیال زور پکڑتا جا رہا ہے کہ نظریہ ارتقاء محض ایک قیاس ومفروضہ ہے جو سائنسی نقطۂ نظر سے ثابت نہیں۔

چنانچہ حال ہی میں آکسفورڈ سے ایک قابل قدر کتاب ’’قاموس جہالت‘‘

(The Encyclopedia Ignorance) کے نام سے شائع ہوئی ہے جس میں ساٹھ مستند ماہرین سائنس کے مختلف موضوعات پر فکر انگیز مقالات موجود ہیں ان میں سے ایک مضمون کا عنوان ہی ’’نظریہ ارتقاء کے مغالطے‘‘ (The Fallacices of Enolutaion Theory) اور اس مضمون کا حاصل یہ ہے کہ انسان نام نہاد ارتقائی قوانین کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، اور ان کو حقائق کا نام دینا ایک مغالطہ ہے۔

(دیکھئے کتاب تخلیق آدم اور نظریہ ارتقائ/ ص:۳۹)

اس سے سائنس دانوں کے ان تمام تجربات اور بلند وبانگ دعاوی کی حقیقت بھی واضح ہو گئی جو آج تک نظریہ ارتقاء کو سائنسی اور تجرباتی نوعیت کا مسئلہ ثابت کرنے کے لیے پیش کئے جاتے رہے وہ یہ نہ معلوم کر سکے کہ وہ اس نظریہ کے تسلیم کرنے میں تحقیق و تجربہ سے زیادہ تقلید و جمود کی راہ پر گامزن ہیں۔

اب زیرنظر مسئلہ کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا ہے اولاً طبی اور سائنسی تحقیقات اور فلسفیانہ اندازِ فکر سے اس پر گفتگو کی جاتی ہے اس کے بعد انشاء اللہ فلسفۂ اسلامی کے نقطۂ نظر سے اس کی وضاحت کی جائے گی۔

علم وادراک احساس وشعور کے حوالے سے متقدمین سائنس دانوں کے کلام میں اس قدر اضطراب اور اختلاف نظریات نہیں جس قدر دورِجدید کے سائنس دانوں کا کلام پراگندہ اور منتشر ہے اور طبی اصطلاحات بھی تقریباً مسئلہ شعور و احساس میں متوافق اور یکجہتی کی جانب مائل نظر آتی ہیں۔

چنانچہ علم طب میں احساس و شعور کے مراکز کی تعیین کچھ یوں ہے کہ دماغ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے بطن اول کے مقدم میں حسّ مشترک کا مقام ہے اور اس کے ساتھ ہی بطن اول کے مؤخر حصہ میں خیال کا محل ہے اور بطن مؤخر کے ابتدائی حصہ میں قوت وہمیہ جاگزین ہے اور بطن مؤخر کے پچھلے حصہ میں قوہ حافظہ محصور ہے اور بطن وسط قوت متخیلہ کا محل ہے (ان قوی کے ادراکات اور ان میں اختلافات کی تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو نفیسی۔ نفیس بن عوض / ص:۷۱ وما بعدہ، اور قانونچہ فی الطلب / ص:۱۹ وما بعدہ اور اطلس تشریح الانسان)

اطباء تمام حواس کا مبدأ دماغ کو قرار دیتے ہیں اور دماغ سے آگے کسی اور محل و مقام کی طرف ان کا رجوع تسلیم نہیں کرتے اور اس بارے میں چند تجربات اور دلائل سے سہارا لیتے ہیں (جن کی تفصیل عنقریب معلوم ہو گی)۔

علم کا مرکز شیخ ارسطو کے نزدیک:

لیکن شیخ ارسطو اور ان کے متبعین حواس کا مبدأ دماغ سے آگے دل کو قرار دیتے ہیں اور اپنے دلائل اور تجربات سے اس مسئلہ کو مبرھن کرتے ہوئے اطباء سے جدا نظریہ رکھتے ہیں بلکہ دل کو مبدأ حواس قرار دینے میں تو ارسطو تجربات سے ایک قدم آگے معاینہ تک کا دعویٰ کرتے ہیں۔

(دیکھئے ارسطو کی کتاب، اجزاء الحیوان/ ص:۷۰-۱۰۰، ۱۳۲)

بوعلی سینا:

فلسفہ ارسطو سے دنیا کو روشناس کرانے والے ان کے علم کے جانشین شیخ بو علی سینا اپنی کتاب ’’الشفائ‘‘ میں بڑے شدو مد سے اطباء کی رائے اور ارسطو کے فلسفے کا اختلاف ذکر کرتے ہوئے یوں محاکمہ کرتے ہیں کہ ظاہری طور پر اطباء کی رائے درست معلوم ہوتی ہے لیکن نظرِ دقیق اور تحقیق عمیق کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ارسطو کا مؤقف ہی صحیح ہے کہ تمام حواس کا مبدأ دماغ سے بھی آگے دل ہے۔

(دیکھئے، الشفاء (طبعیات) ج:۳، ص:۱۳، ۴۰، ۴۶، ۲۵۴)

اور فلسفہ ارسطو کے دوسرے ترجمان ابونصر فارابی تو ایک ہی موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ تمام قویٰ اور حواس کا مبدأ و منبع قلب ہے اور دماغ آلہ احساس و ادارک ہے۔

ابونصر فارابی:

چنانچہ ابو نصر فارابی کی کتاب’’آراء اہل المدنیۃ الفاضلۃ‘‘ کے اقتباس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:

قوۃ حاسہ میں ایک رئیس ہے اور باقی اس کے خدام اور توابع کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور یہ خدام اور توابع مشہور حواس خمسہ ہیں جو آنکھوں کانوں اور باقی جگہوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان حواس میں سے ہر ایک ایک مخصوص حس کا ادراک کرتا ہے اور قوت رئیسیہ وہ ہے جہاں یہ پانچوں جا کر مجتمع ہو جاتے ہیںاور اس کا مقام قلب ہے ان خدام توابع اور رئیس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک صدر مملکت ملک کے مختلف مقامات پر اپنے مخصوص آدمیوں کو بھیجتا ہے تاکہ ہر جگہ کے حالات کا صحیح علم اس تک پہنچائیں اس طرح یہ حواس دل کے ہاں مختلف اشیاء کے علوم و ادراکات بہم پہنچاتے ہیں اور تابع اور علوم کی حیثیت سے اس کے لیے کام کرتے ہیں۔ (ص: ۴۵، ۴۶)

اسی کتاب میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

قلب عضو رئیس ہے، جس کے اوپر بدن کے کسی دوسرے عضو کی حکومت نہیں پھر دوسرے نمبر پر رئاست و حکومت دماغ کا عمل ہے اس میں بھی کسی قدر اقامت کا پہلو پایا جاتا ہے لیکن اس کی حکومت اور رئاست اولی نہیں بلکہ ثانوی درجہ کی رئاست ہے کیونکہ دماغ ہی کے سہارے باقی اعضاء پر حکومت کرتا ہے کیونکہ دماغ دل کا خادم ہے اس لیے جو امر دل کا مقصود طبعی ہو اس میں باقی اعضاء دماغ کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ (ص: ۴۸،۴۹)

اطباء کے دلائل:

لیکن اطباء درج ذیل تجربات کی روشنی میں حواس کا مبدأ و محل دماغ کو قرار دیتے ہیں:

-1 اگر دماغ پر کوئی چوٹ لگ جائے یا دماغ کو کوئی آفت پہنچ جائے تو تمام حواس معطل ہو کر رہ جاتے ہیں اور اپنا کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ تمام حواس کا محل دماغ ہے نہ کہ دل۔

-2 جب دماغی اعصاب کو نیچے سے مضبوطی سے باندھ دیا جائے یا کاٹ دیا جائے تو اس بندھے ہوئے یا کٹے ہوئے عضو کی حس و حرکت ختم ہو جاتی ہے۔

-3 جب انسان کوئی نشہ آور چیز استعمال کرے تو اس کے اثرات دماغ تک پہنچ جانے کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔

-4 حواس (جو آلاتِ ادراک ہیں) کا نفوذ دماغ کی طرف ہے قلب کی طرف نہیں نیز اعصاب جو حرکات اختیاریہ کیلئے ذریعہ بنتے ہیں وہ بھی دماغ کی طرف پہنچتے ہیں قلب کی طرف نہیں پہنچتے۔

مندرجہ بالا تجربات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دماغ ہی حواس کا مرکزی مقام ہے اوریہیں سے حواس کی ابتداء ہوتی ہے جو آگے جا کر جسم کے مختلف اعضاء میں پھیل جاتے ہیں۔

(دیکھئے نفیسی/ ص:۷۱، تہافت الفلاسفہ للغزالیؒ/ ص:۳۵۶، تفسیر کبیر للرازیؒ/ ج:۲۳ ص:۱۶۸)

شیخ ارسطو کی طرف سے

مگر دل کو مرکز و مبدأ احساسات قرار دینے ولے حضرات کی طر ف سے ان تجربات کا یہ جواب دیا گیا کہ ان تمام تر تجربات سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ دماغ کے ساتھ بھی حواس کا تعلق ہے لیکن دل کے مبدأ و منبع احساس ہونے کی نفی پھر بھی نہیں ہوتی کیونکہ دماغ دل کے لیے آلہ اور وسیلہ کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور مؤثر(قلب) کی تاثیر کے مقصود تک پہنچنے کیلئے آلہ (دماغ) کی سلامتی اور آفات سے حفاظت شرط ہے اگر آلہ (دماغ) میں کوئی خامی اور نقص پیدا ہو جائے تو قلب ا س کے بغیرادراک و احساس کے منازل طے نہیں کر سکتا اور نہ قویٰ حسیہ اپنے احساسات کو اس تک پہنچا سکتی ہیں تو دماغ قلب کیلئے آلۂ قریبہ ہے اور حواس قلب کیلئے آلہ بعیدہ ہیں تو جیسے جسم کے باقی اعضاء کو مبداء احساسات قرار دینا درست نہیں اسی طرح احساسات کی دماغ تک محدودیت کا نظریہ بھی صحیح نہیں بلکہ تمام حواس کا مبداء قلب ہے۔

(دیکھئے۔ تفسیر کبیر للرازی / ج۲۳۔ ص:۱۶۸، شرح المواقف/ ج۲، ص:۶۳، ہدیہ سعیدیہ/ ص:۲۱۰)

شیخ ارسطو کے دلائل:

ان حضرات نے اپنے مؤقف پر دلائل قائم کرتے ہوئے کہا۔

-1 یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ جب کوئی آدمی کسی مسئلہ میں بہت زیادہ غور فکر کرتا ہے اور اس کو حل کرنے میں بہت زیادہ سوچ و بچار سے کام لیتا ہے تو بسا اوقات اسے دل کے اندر اکتاہٹ سی محسوس ہونے لگتی ہے اور اس معاملہ میں زیادہ غور وفکر کرنے کیلئے دل کو مشقت میں ڈالنا پڑتا ہے اگر دل غو و فکر ، تحقیق و جستجو پر راضی ہو تو انسان پورے نشاط سے مسئلہ کی تحقیق کر سکتا ہے اور دل میں ملال اور اکتاہٹ ہونے کی صورت میں تحقیق کماحقہ انجام نہیں پاتی۔

-2 نیز یہ امر بھی تجربہ شدہ ہے کہ بعض آدمی فطری طور پر یا مشکل اور کھٹن مراحل سے گذرنے کی وجہ سے سخت دل ہوتے ہیں اور ان کے برعکس بعض لوگ نہایت نرم دل اور حساس طبع واقع ہوئے ہیں اور ان دونوں طرح کے لوگوں کے افکارو تصورات اور خیالات و جذبات میں نمایا ں فرق نظر آئے گا یہ اختلاف اسی وجہ سے ہے کہ ایک کے دل میں سختی اور شجاعت کا وصف زیادہ ہے لہٰذا اس کے دل نے مناسب سوچ دے کر جوارح سے کام سرزد کرائے جبکہ دوسرے کے دل میں نرمی ہے اور شجاعت کا مادہ قلیل ہے اس لیے اس کا دل مناسب سوچ پیدا کر کے جوارح سے افعال سرزد کرواتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ فکر، سوچ اور تدبیر نیز افعال جوارح کا مرکز و منبع قلب ہے باقی تمام اعضاء اسی کے تابع ہو کر مصروف کار ہیں۔

-3 انسان کا دل عام حالات میں جبکہ کسی قسم کا خوف و ہراس نہ ہو اعتدال کے ساتھ اپنی مقررہ حرکات و سکنات کی انجام دہی میں مصروف رہتا ہے لیکن اچانک جب کوئی خطرناک معاملہ یا خوف و ہراس کی صورت پیش آجائے تو دل کی دھڑکنوں کے اعتدال میں نمایاں تبدیلی محسوس ہونے لگتی ہے اور دل میں خوف و ہراس سے نکلنے ا ور نفس کو بچانے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے جس کیلئے تمام اعضا ء دل کی ماتحتی میں کام کرنے لگ جاتے ہیں تو دل کی ضربات میں اس واضح تبدیلی سے معلوم ہو ا کہ خارجی امور سے دل متاثر ہو کر جلد ہی مستقبل کیلئے فیصلہ کرتا ہے اور جوارح اس کے مطابق کام کرنے لگ جاتے ہیں ۔

(دیکھئے: تفسیر کبیر للرازی /ج۔ ۲۲ ص، ۱۶۶- ۱۶۸، موت القلب او موت الدماغ)

اس کے علاوہ شیخ ارسطو اور ان کے متبعین بو علی سینا اور فارابی وغیرہ دل ہی کو مبدأ و منبع احساس قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک احساسات و ادراکات کیلئے دماغ کی حیثیت ایک آلہ کی ہے۔

حکماء فلاسفہ اور متکلمین:

قرون وسطیٰ کے حکماء، فلاسفہ اور متکلمین کے ہاں بھی یہ مسئلہ معرکۃ الآراء رہا ہے چنانچہ بعض حضرات نے تو حواس باطنہ کی بالکلیہ نفی کرتے ہوئے یہ رائے قائم کی کہ تمام امور جزئیہ و کلیہ کا ارتسام نفس ناطقہ میں ہوتا ہے ان لوگوں نے حواس باطنہ کے فلسفے کو بمع تمام تر تفصیلات کے مسترد کر دیا اور دماغ کیلئے کسی نوع کا علم و ادراک بھی ثابت نہیں مانا کیونکہ دماغ میں گوشت پوست اور مغز و استخوان میں بذاتہ ایسی کوئی چیز نہیں جس میں علم نقش ہوتا نظر آتا ہو اور اشیاء کی صور اور تمثیلات وہاں دیکھی جا سکتی ہوں اور علم و ادراک بھی کوئی محسوس اور مرئی چیز نہیں لہٰذا اس کا محل و مرکز نفس ناطقہ ہے جو مادہ کی تلویث اور آلائش سے یکسر پاک اور منزہ ہے۔

لیکن حکماء کے دوسرے طبقہ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اگرچہ تمام امورِ جزئیہ وکلیہ کا مدرک نفس ناطقہ ہی ہے مگر نفس مجرد عن المادۃ اور بسیط ہونے کی وجہ سے براۂ راست جزئیات مادیہ کا ادراک نہیں کرتا ، بلک جزئیات مادیہ کی صور کا ارستام حواس میں ہی ہوتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہے کہ علم کے مقام اور محل میں اختلاف کے پیش نظرحواس خمسہ باطنہ کے اثبات اور عدم اثبات میں نظریات مختلف ہیں بعض حضرات ان کو ثابت مانتے ہیں اور بعض حضرات ان کی تردید کرتے ہیں ۔ (دیکھئے ۔ حاشیہ سیالکوٹی علی الخیالی/ ص:۳۳، ص:۳۷- وکشاف اصطلاحات الفنون/ج:۱ ص:۳۰۳ وشرح المواقف/ ج : ۶ ص: ۶۳)

قرون وسطی سے لے کر آج تک حواس اور ذہن کے بارے میںسائنس دان متعدد نظریات کے حامل رہے ہیں جن میں جے بی پراٹ، ٹی ایچ ہسکلے، مارگن، الکزنڈر، ہولٹ ڈبلیو آرکلفرڈ وغیرہ کے اساسی اور نظریاتی اختلافات سر فہرست ہیں۔ (دیکھئے ۔ ڈاکٹر ڈی یس رابنس کی کتاب مقدمہ فلفسہ حاضرہ اردو ترجمہ از ڈاکٹر میر ولی الدین / ص:۱۲۲)

سائنس دانوں کاعمومی دعویٰ یہ ہے کہ علم کے ذرائع حواس میں منحصر ہیں لیکن کانٹ اور ان کے متبعین انگریزی مذہب کے فلاسفہ پر زبردست تنقید کرتے ہوئے حوا س میں علم کی محصوریت کی نفی کرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ ہے کہ حواس کے علاوہ اور بھی ذرائع علم ہیں۔

(دیکھئے حکایات فلسفہ مصنفہ ول ڈران اردو ترجمہ از احسان احمد صاحب /ص: ۳۲۶)

ڈیوڈ ہیوم اور انکے ہم نواؤں نے تو ذہن کے تصور کو بالکل ہی ختم کردیا (دیکھئے حکایات فلسفہ/ ص: ۳۲۸، ۳۳۰) اور مونٹین، شاردن وغیرہ نے حواس اور عقل کے ذریعے سے حاصل شدہ علم کو ناقابل یقین قرار دے کر شک کی راہیں ہموار کیں۔

(دیکھئے تاریخ فلسفہ جدید ، مصنفہ ہیر لڈہونڈنگ اردو ترجمہ از ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب/ ج: ۱ ص:۳۴)

سائنس دانوں کا اضطراب:

خلاصہ یہ ہے کہ سائنس دان اس مسئلہ کے صحیح حل میں اضطراب و تحیر میں مبتلا ہیں اور ان کی باتوں میں زبردست انتشار ہے جس کی وجہ سے کئی ارتیابی اورثبوتی فرقوں نے جنم لیا اور کئی نتیجیت اور ہمہ روحیت کی طرف مائل ہے۔

چنانچہ ڈاکٹر ڈی یس رابنسن اس مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں:

سائنس کی رو سے بدن و ذہن کا مسئلہ اب تک لاینحل ہے جیسا کہ باخبر لوگ جانتے ہیں ہمیں اب بھی کسی ما بعد الطبیعاتی نظرئیے یا طریقاتی مفروضے کو اختیار کرنا پڑتا ہے گو بعض علماء نفسیات اس کیخلاف ہمیں متاثر کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں۔ (مقدمہ فلسفۂ حاضرہ/ ص: ۱۲۴)

نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ سائنسی تحقیقات ہر دور میں بدلتی رہی ہیں ایک زمانہ میں ایک مفروضہ قائم کیا گیا لیکن آنے ولاے وقت نے جلد ہی ان سائنسی تجربات کی حقیقت عیاں کر دی اور سائنس دانوں کو اس کی بجائے دوسرا نظریہ اپنانا پڑا۔

نئی دریافتیں اتنی زیادہ تعداد میں ہورہی ہیں اور نظریات اتنی تیزی سے بدلتے رہتے ہیں کہ سائنس دان ہر وقت ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں بلکہ شاید یہ بحرانی کیفیت جدید سائنس کے مخصوص اندازِ فکرہی سے پیدا ہوتی ہے ۔ (دیکھئے ژاک ماری تن کا مضمون تشریح و تلخیص از حسن عسکری صاحب ، ماہنامہ البلاغ جلد ۲ شمارنمبر۱۰ / ص:۳۸)

لہٰذا سائنسی مفروضات کو حتمی قرار دے کر اس سے ماوراء ہر نظریہ کی تردید کو لازم سمجھنا اور ان بدلتے ہوئے سائنسی تجربات کو آخری اور فیصلہ کن قرار دینا غیر محسوس تقلید کا نتیجہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ علم کے مقام اور مرکز کی تعیین کا مسئلہ جدید سائنس کی روشنی میں سائنس کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ اس کو سائنس کا مسئلہ قرار دینا اور سائنسی تجربات کی رو سے اس میں گفتگو کرنا ایک مغالطے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ سائنس دان کی نظر میں بحیثیت سائنس دان صرف مندرجہ ذیل چیزیں معنویت رکھتی ہیں۔

(۱)۔ جس چیز کا مشاہدہ کیا جا سکے اور جسے ناپا جا سکے۔

(۲)۔ وہ طریقہ کار جس کی مدد سے مشاہدے اور پیمائش کا کام تکمیل پائے ۔

(۳) مشاہدے اور پیمائش کے ذریعے حاصل ہونے والے حقائق کی از سر نو تشکیل جو ریاضی کی مدد سے انجام پاتی ہے اور جس میں کم و بیش وحدیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

(ماہنامہ البلاغ، جلد ۲ شمارہ نمبر ۱۰/ ص:۲۹)

اسی لیے جدید سائنس کے تحت جو علوم آتے ہیں انہیں ’’علم مظاہر‘‘ (Science Of Phenomenor) کہا جاتا ہے۔

پروفیسر ژاک ماری تن لکھتے ہیں:

سائنس حقیقت تک پہنچتا تو ہے لیکن اس حقیقت کے صرف مظاہری پہلو کو دیکھتا ہے یعنی ا س پہلو کو جس کی تعریف مشاہدے اور پیمائش کے ذریعے متعین ہوتی ہے (البلاغ، جلد ۲ شمار نمبر ۱۰/ ص:۱۰)

ایک اور مقام پر پروفیسر موصوف، سائنس اور فلسفے کے بنیادی فرق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

سائنس مظاہر کا علم ہے اس کے ثمرات تو عجیب و غریب ہوتے ہیں لیکن ان کی قیمت انقلابی تبدیلیوں کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے سائنس کا کام یہ ہے کہ مادے اور فطرت میں عمل اور رد عمل کے جو بہت سے قابل مشاہدہ اور قابل پیمائش سلسلے چلتے رہتے ہیں ان کے رموزی نقشے ہمارے لیے تیار کر دے اس بیان سے چار نتائج بیان برآمد ہوتے ہیں۔

(۱)۔ سائنس کا موضوع مظاہر ہیں، روح اور خدانہیں دوسرے الفاظ میں سائنس کا موضوع کثرت ہے وحدت نہیں۔

(۲)۔ سائنس کا طریق کار مشاہدہ اور پیمائش ہے جوان حقائق کا علم حاصل کرنے میں مفید نہیں ہو سکتا جہاں مشاہدہ اور پیمائش ممکن نہیں۔

(۳)۔ مادے کے سلسلے میں بھی سائنس صرف اس کے عوامل کا مطالعہ کرتا ہے۔

(۴)۔ اگر مادے اور فطرت کی حقیقت سمجھنے کا سوال ہو تو سائنس عوامل سے آگے نہیں جاسکتا۔

(البلاغ، جلد ۲ شمار نمبر ۱۲/ ص: ۲۸)

زیربحث مسئلہ سائنسی تجربات اور مشاہدات کے دائرے سے خارج ہے کیونکہ جدید سائنس میں کسی چیز کے مظاہری پہلو سے بحث کی جاتی ہے اور علم و ادراک اور ان کے مقام و محل کی تعیین کا مسئلہ مشاہدہ و حس کی دسترس سے خارج ہے البتہ اگر اسے فلسفے کا مسئلہ قرار دیا جائے تو بجا ہے کیونکہ فلسفی کی نظر اشیاء کے مظاہری پہلو سے آگے ما بعد الطبیعات تک سے بحث کرتی ہے (اور اس بارے میں فلاسفہ کے مختلف نظریات اور اختلافی اقوال گذشتہ صفحات میں قلمبند کئے جاچکے ہیں)۔

محققین فلاسفہ اور حکماء زیربحث مسئلہ میں تنگ نظری اور محدودیت کے حصار میں محبوس نہیں رہتے بلکہ تمام تر اختلافات کے باوجود اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ دماغی عصبات اور حسی مشاعر تک علم و ادراک کی تحصیر نہیں بلکہ اصل مدرک اور عالم نفسِ ناطقہ مجرد عن المادہ ہے۔

علم طب، جسم اور اس کی صحت و مرض تندرستی و بیماری کے دائرہ سے خاج امور سے بحث نہیں کرتا، اس کا موضوع جسم اور عوارض جسم من حیث الصحۃ والمرض میں منحصر ہے لہٰذا اطباء کی دماغی مشاعر کی تشریحات اور حواس کی تحصیران کا موضوع بحث اور ان کے علم کا دائرہ کار ہے علم طب میں نفسِ ناطقہ اور روحانی امور سے بحث کرنا جہاں خروج عن المبحث ہوگا وہاں یہ طبی نقطہ نظر میں لا یعنی بحث ہوگی۔

سائنسی اور طبی تجربات اپنے اپنے موضوع علم کے اندر رہتے ہوئے زیر بحث مسئلہ میں کافی و شافی رہنمائی سے قاصر ہیں جہاں تک طبی تجربات یا سائنسی حقائق کی رسائی ہو سکی ہے تو صرف وہاں تک تحقیقات کے بعد اس کو مسئلے کا کلی حل سمجھ کر کے بیٹھ جانا تنگ نظری ہے۔

محض سائنسی تجربات کی عدم رسائی کو ان دینی مذہبی تصورات کے خلاف ہر گز نہیں کہا جائے گا کیونکہ عالم غیب اورعالم امر کے مشاہدات اور تجربات سے سائنسی آلات بے بس اور عاجز ہیں اور بے بسی و درماندگی میں تقابل اور تصاد م کی بجائے تسلیم وقبولیت کا رنگ ہونا چاہیے۔

قلب کے معانی:

سائل کو سب سے بڑا اشتباہ یہ ہوا کہ قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ کی نصوص میں جہاں کہیں ’’قلب‘‘ کا لفظ آیا ہے تو اس سے ایک ہی معنیٰ(قلب جسمانی) مراد لیا گیا اور اس کے بعد کی تمامتر تفریعات اسی پر مبنی ہین جن سے شکوک و شبہات نے جنم لیا، جبکہ ’’قلب‘‘ کا لفظ مندرجہ ذیل متعد د معانی کیلئے استعمال ہوا ہے۔

(۱) گوشت کا ٹکڑا جو سینہ کے بائیں جانب موضوع ہے۔ (۲) عقل (۳) جوہر نورانی (۴) کسی چیز کا وسط (۵) کسی چیز کا خلاصہ اور مغز (۶) رائے اور تدبیر (۷) معرفۃ (۸) ادارک وتعقل۔

(دیکھئے۔ مختار صحاح المعجم الوسیط، لسان العرب، بحوالہ، مجلہ مجمع الفقہ الاسلامی، العدد الثالث الجزء الثانی/ ص: ۶۱۱، کشاف اصطلاحات الفنون/ ج:۳ ص:۱۱۷۰، حاشیہ شرح المقاصد للدکتورر عبدالرحمن عمیرہ / ج:۲ ص:۳۳۰ ، بیضاوی مع شیخ زادہ / ج: ۱ ص: ۱۲۳ و حاشیۃ القنوی علی البیضاوی / ج: ۱ ص: ۲۷۵)

قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں بیشتر مقامات پر لفظ ’’قلب‘‘ سے یہ جسمانی قلب (گوشت کا ٹکڑا) مراد نہیں کیونکہ ’’قلب‘‘ اس معنی کے اعتبار سے گوشت کا ایک حصہ ہے جو عالم محسوسات ظاہر ی میں ہے اور بہائم بلکہ مردہ میں موجود ہے جس سے کوئی دینی غرض متعلق نہیں (البتہ یہ اطباء کا موضوع بحث ہے) بلکہ قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اکثرو بیشتر مقامات پر ’’قلب‘‘ سے مراد جوہر نورانی اور لطیفہ ربانی ہے جس کو قلب جسمانی سے خاص تعلق ہے مگر اس تعلق کے ادراک میں انسانی عقول متحیر و مضطرب ہیں اس تعلق کے بارے میں تمثیلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیسے اعراض کا اجسام سے یا صفات کا موصوف سے یا کاریگر کا آلہ سے یا مکین کا مکان سے تعلق ہوتا ہے کچھ اسی طرح قلب روحانی اور قلب جسمانی کا تعلق سمجھ لیا جائے۔

قلب (بمعنی جوہر نورانی) کو کبھی ’’عقل‘‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور کبھی اس پر ’’روح‘‘ کا اطلاق بھی کیا جاتا ہے اور کبھی لفظ ’’نفس‘‘ بولا جاتا ہے۔

یہی جوہر اور لطیفہ انسان کی حقیقت اور مدرک، عالم، مخاطب، معاتب مکلف اور معدن اخلاق وملکات ہے قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں اسی کی اصلاح کا ذکر ہے کیونکہ قلب جسمانی کی اصلاح اور صحت سے بحث طبی مسائل کا نقطہ نظر ہے اور قرآن پاک کا ہدف نہ ہی طبی دقائق اور باریکیاں بیان کرنا ہے اور نہ سائنسی پیچیدگیوں کا حل تلاش کرنا ہے بلکہ یہ اصلاحِ خلق کیلئے اللہ تعالیٰ کا نازل فرمودہ کلام ہے جو اللہ نے بنی نوعِ انسان کی رشد و ہدایت اور صلاح وفلاح کیلئے عام فہم اور سادہ اندا ز میں نازل فرمایا ہے۔

(ماخذہ۔ احیاء العلوم للغزالی/ ج: ۳ ص: ومجموعہ رسائل للغزالی / ج: ۳ ص:۳۱۔۳۲، ومجلہ مجمع الفقہ الاسلامی، العدد الثالث، الجزء الثانی / ص: ۵۹۴ وما بعدہ وص:۶۱۱ وما بعدہ )

ڈاکٹر محمد علی البار لکھتے ہیں:

قلب (بمعنی لطیفۂ ربانیہ، مدرکہ، عالمہ ) کے ادنیٰ سر تک بھی علوم تجربیہ (سائنس) اور طب کی رسائی نہیں تو اس کی حقیقت کی معرفت بڑی دور کی بات ہے (موت القلب او موت الدماغ/ ص:۱۴)

آخری گذارش:

ہر آدمی کا اپنے مطالعہ اور اپنی تحقیق پہ اعتماد کرتے ہوئے علوم نقلیہ و عقلیہ کے مسائل کے مابین موازنہ کرنا بڑی خطرناک بات ہے اس کیلئے درج ذیل علوم و فنون (جیسے منطق، فلسفہ، صرف، نحو، ادب، بلاغۃ، علم کلام، فقہ و اصول فقہ، تفسیر و اصول تفسیر، حدیث و اصول حدیث وغیرہ) میں کمال مہارت شرط ہے اس کے بغیر جا بجا بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کا قوی احتمال ہے اس لیے ہمدردانہ گذارش ہے کہ قرآن پاک اور احادیث ِ مبارکہ کے صحیح فہم کیلئے خود انحصاری اور خوداعتمادی کی بجائے کسی مستند اور ماہرعالم دین سے رجوع کرنا چاہیے اور وقت کے چلتے ہوئے نعروں سے متأثر ہوکر خالق کائنات اللہ جل شانہ کے کلام ازلی میں بیان کردہ اصولی اور سرمدی حقائق میں شکوک و شبہات پیدا کرنے یا انہیں رد کرنے سے ہر قیمت پر پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اگر خیال نہ رکھا جائے تو شیطانی وساوس انسان کو صراط مستقیم سے گمراہ کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس گمراہی سے محفوظ رکھیں۔ (ماخذ: دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور: فتوی نمبر:681)

عقل کا استعمال کیا ہے؟؟؟

ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چند صدیوں سے دنیائے انسانیت سائنس اور ٹکنالوجی کی بے پناہ ترقیوں کے ثمرات سے خوب استفادہ کررہی ہے۔ ان ترقیوں کے درمیان دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ دنیا کی بعض قومیں اُبھررہی ہیں اور بعض دوسری قوموں کی سیادت و قیادت اور عظمت و رفعت کا سورج ڈوب رہا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گذرا جب دنیا کے اسٹیج پر کچھ تہذیبیں ابھریں اور کچھ کا زوال شروع ہوا۔ تحقیقی نظر رکھنے والے ایک انصاف پسند اور ایک آزاد انسان کے ذہن میں یہ سوالات ابھرتے رہتے ہیں کہ آخر دنیا کا خالق اور مالک کن وجوہات کی بنا پر کسی قوم کو اٹھاتا ہے اور کسی قوم کو پیوندِ خاک کردیتا ہے! ظاہر ہے کہ اس کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اس دست بستہ راز کی عقدہ کشائی اُس وقت ہوتی ہے، جب کوئی صاحب فکر انسان قرآن حکیم کی اکیسویں سورة الانبیاء کی دسویں آیت پر رک کر سوچنے لگتا ہے:

”انسانو! بیشک ہم نے نازل کی ہے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب، جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، کیا اب بھی تم عقل کا استعمال نہیں کروگے؟“

آیت کا آخری حصہ پڑھ کر ایک صاحب فکر انسان دفعتاً چونک جاتا ہے کہ عقل کے استعمال پر خالق کائنات نے کس قدر زور دیا ہے۔! دنیا کی کسی اور کتاب میں عقل کے استعمال کی ایسی کسی ترغیب کی نظیر نہیں ملتی۔ کبھی کبھی میں خود بھی سوچتا رہ جاتا ہوں کہ آخر کیا بات ہے کہ جس کتاب پر میں ایمان رکھتا ہوں، انسانی عقل کو دعوت دینے والی یہ اور ایسی تمام آیتوں کی تلاوت کرتا ہوں، ان سے اب تک کیسے لاپرواہ رہا۔! کہیں ایسا تو نہیں کہ جس طرح کا برتاؤ میں نے اس کتاب مقدس کے ساتھ اب تک روا رکھا، شاید اُسی کے یہ نتائج ہوں کہ آج تک میں نے عقل کا استعمال کیا، نہ دنیا کو کچھ دینے کے قابل بنا۔ عصر حاضر کے تیز رفتار گھومتے پہیہ میں میری کوئی وقعت نظر نہیں آتی۔! اجتماعی زندگی میں کوئی مجھ سے کسی Policy Making کے سلسلے میں پوچھتا تک نہیں کہ کسی معاملے میں تمہاری تجویز کیا ہے اور تم کس رائے کے حامل ہو۔! کبھی کبھی تو یہ احساس کچوکے لگانے لگتا ہے کہ کہیں مجھے اس زمین کا بوجھ تو تصور نہیں کیا جارہا ہے۔! بڑا کرب ہوتاہے یہ سوچ کر کہ میری حیثیت اس دنیا میں ایک عضوے ناکارہ کی سی ہوکر رہ گئی ہے کہ جسے ساری دنیا مل کر کاٹ دینا چاہتی ہے تاکہ یہ دنیا میرے وجود سے خالی ہوجائے۔

حیرت انگیز مگر خوشگوار سوال ایک اور بھی ابھرکر سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ مجھے مٹائے جانے کے سارے جتن کامیابی سے ہمکنار کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ یہ سوال ایسا ہے کہ یہ مجھے غور وفکر یا دوسرے الفاظ میں عقل کے استعمال پر آمادہ کرتا ہے کہ اب تو کم از کم مجھے اپنی عقل کو زحمت دینی ہوگی۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی وجہ ایسی ضرور ہے جس کی بنیاد پر روئے زمین سے ابھی تک ہم نہیں مٹائے جاسکے ہیں اوریہ کہ اب تک ہمارا وجود باقی ہے۔ قدرت کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ ولن تجد لسنة اللّٰہ تبدیلا۔

عقل کے استعمال پر غور وفکر کا سلسلہ چلا تو تیرویں سورة الرعد کی ستراویں آیت کا مضمون یاد آیا جسے بطور یاد دہانی یہاں ہم درج کرتے ہیں: ”نازل کیا اللہ نے آسمان کی بلندیوں سے بارش، سو بہہ نکلے ندی نالے اپنی اپنی مقدار میں اور اٹھالایا بہاؤ جھاگ یا کچرا پھولاہوا اور معدنیات سے زیورات اور قیمتی کار آمد اشیاء بنانے کیلئے جب آگ میں تپایا جائے تو اُس میں بھی اسی طرح جھاگ ابھرتا ہے۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللہ حق اور باطل کو۔ تو جو جھاگ یا کچرا ہوتا ہے وہ چلاجاتا ہے سوکھ کر اور جو نفع بخش ہوتا ہے انسانوں کے لئے، ٹھہراؤ دیتا ہے، establish کرتا ہے اسے زمین میں، اس طرح بیان کرتا ہے اللہ مثالیں۔“

بڑی آسانی سے سمجھ میں آنے والی یہ بات ہے کہ اللہ دنیا میں ان لوگوں کو ہی دوام اور بقا عطا کرتا ہے جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہوں۔ تھوڑی سی ذہنی مشقت کے بعد یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ دنیا کو دینے کے لیے گوکہ میرے پاس بظاہر کچھ نہیں رہ گیا ہے، مگر ایک چیز بہرحال ایسی ہے جو صرف میرے ہی پاس ہے اور دنیا کی قومیں اپنی تمام تر ترقیوں کے علی الرغم اس گرانقدر نعمت سے محروم ہیں اور وہ ہے کتاب اللہ اور وحی الٰہی کی نعمت جو آیاتِ قرآن مجید کی شکل میں آج بھی پوری حفاظت کے ساتھ زندہ و تابندہ، ہماری تحویل میں ہیں۔ شاید ہم صفحہ ہستی سے اسی لیے نہیں مٹ رہے ہیں کہ اتفاقاً ایک امانت ایسی ہے جو ہمارے پاس رہ گئی ہے جسے دنیا کے اُن انسانوں تک ہمیں پہنچانا ہے جو اس سے محروم رہ گئے ہیں۔

پہاڑوں نے جسے ڈھونے سے معذوری جتائی تھی

ابھی تک سرپہ اپنے بوجھ وہ ڈھویا کہاں ہوں میں             

(عزیز بلگامی)

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جو نعمت ہمارے پاس موجود ہے، اُس کے فہم وادراک کے لیے عقل ہی کی ضرورت تھی، جسے شاید ہم نے استعمال نہیں کیا۔ یہی مجرمانہ کوتاہی تھی جو دنیا کی موجودہ بے راہ روی کی ذمہ دار بن گئی۔ اب تو کم از کم ہمیں عقل کے موجودہ تعطل کو توڑنا چاہیے، تاکہ ہم اُس منطقی نتیجے پر پہنچ سکیں جہاں کتاب اللہ ہمیں پہنچانا چاہتی ہے۔ زیر نظر مضمون اسی مقصد کے لیے لکھا گیا ہے کہ ہم اپنی عقل کے استعمال کی اہمیت کو پہچانیں، کہ فی الواقع ہمیں اپنی عقل کو کیسے، کس کے لیے اور کیوں استعمال کرنا ہے۔ خصوصاً آیات قرآنی کے مطالعے کے دوران عقل کا استعمال ناگزیر ہے۔ مذکورہ آیت شریفہ میں رب تعالیٰ نے انسانوں سے فرمایا کہ ہم نے ایسی کتاب نازل کی، جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے۔ پھر انسانوں کو دعوت دی کہ وہ اپنی عقل اور ذہانت کا استعمال کریں۔

یہ کہنا کہ اس کتابِ برحق میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، دراصل اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ جس دور میں بھی کتاب نازل کی گئی اُس کا موضوع صرف ”انسان“ اور ”اس کی ہدایت“ رہا ہے۔ رب تعالیٰ کی مخاطبت بھی ایک انسان ہی سے رہی ہے اور اسی کے ذکر سے مالکِ کائنات نے اپنی اس کتاب کو معمور فرمایا۔ رب کائنات کا انسانوں سے یہ کہنا کہ میری کتاب میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، ایک ایسا بیان ہے کہ انسانوں کو چونک جانا چاہئے۔ اس لئے کہ اپنے تذکرے کی طرف متوجہ ہونا انسانی فطرت کا خاصہ ہے۔ فرض کیجیے کہ کوئی دوڑتے ہوئے آئے اور ہمیں یہ اطلاع دے کہ آج کے اخبار میں آپ کے بارے میں کوئی خبر شائع ہوئی ہے یا پھر خود اخبار کا مدیر یہ اطلاع دے کہ ہمارے اخبار میں آپ کا تذکرہ موجود ہے تو ہم تصور کی آنکھ سے اپنی اُس کیفیت کو دیکھ سکتے ہیں جو اس خبر کے ردّ عمل میں ہم پر طاری ہوسکتی ہے۔ ہم بے چین ہو اُٹھیں گے کہ دیکھیں، آخر ہمارے بارے میں کیا لکھا گیا ہے! اب یہی بات کتابِ ہدایت میں ہو تو نہ جانے کیوں اسی نوعیت کی بے چینی ہم میں پیدا نہیں ہوتی کہ معلوم کریں کہ ہمارے خالق نے اپنی کتاب میں ہمارا کیا تذکرہ فرمایا ہے۔

اگر ایسی بے چینی کسی انسان میں پیدا ہوتی تو وہ دیکھتا کہ اُس کی اپنی زندگی کی حقیقت کیا ہے، کس مقصد حیات کو اُسے اپنانا ہے اور اُس کے اپنے انجام کے بارے میں کیا خبر ہے جو پیشگی طور پر اُسے دی جارہی ہے۔ پھر اس کے معاً بعد یہ سوال کہ جب تمہارا ذکر اس میں موجود ہے تو پھر تم عقل کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟ اگر نعمتِ عقل کا تم استعمال کرتے تو تم دیکھتے کہ قرآن شریف کی نورانی روشنی تمہاری شخصیت کے ایک ایک پہلو کو منور کرتی جارہی ہے۔ تم پر یہ عقدہ کھلتا کہ تم اس زمین کے مستقل باشندے نہیں ہو، بلکہ تم کہیں سے آئے ہو اور ایک دن اس مقامِ عارضی سے، جسے تم کرہٴ ارض کہتے ہو، چھوڑ کر نقل مکانی کرنی ہے۔ تمہارا یہ کوچ یکے بعد دیگرے اور فرداً فرداً ہوگا۔ گویا تم میں سے ہر انسان اپنی پیدائش کے ساتھ اپنی واپسی کا ٹکٹ Return Ticket اپنے ساتھ لایا ہے، جس میں اس کی واپسی کی تاریخ، روانگی کا وقت اور مقام درج ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ نہیں جانتا کہ کب، کہاں اور کس وقت وہ یہاں سے کوچ کرے گا، گویا اُس کے اندراجات پر ایک پٹی چپکی ہوئی ہے، جسے وقت آنے پر اسکریچ کردیا جائے گا۔ اس حقیقت کو کتاب اللہ کی دسویں سورة کی چھپنویں آیت میں رب تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: ”وہی رب ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے اور اُسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔“

اس آیت میں بھی انسان ہی موضوعِ تذکرہ ہے۔ زمین پر ہر انسان کو یہ آزادیٴ اختیار حاصل ہے کہ اُس کا من چاہے تو وہ قدرت کے قانون کی پابندی کرے اور نہ چاہے تو من چاہی زندگی گذارے، لیکن اُس پر یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ بہرحال ایک مقررہ مدت کے بعد اسے لازماً اپنے مالک کی بارگاہ میں جواب دہی کرنی ہے۔ وفاشعاری اُس سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اس آزادیٴ اختیار کا بے جا استعمال نہ ہو۔ قانون اور قاعدے کے تحت زندگی گزرنی چاہیے۔ اس لیے کہ تسلیم و رضا کا تقاضہ یہی ہے کہ جس نے زندگی دی، اُسی کے قانون کا اتباع انسان کا فریضہ بن جائے اور اسی کا یہ استحقاق بھی ہو کہ موت کی راہ سے وہ اپنی مخلوق کو جس لمحہ واپس طلب کرنا چاہے، کرے۔

عقل سے جب بھی پوچھا جائے گا کہ کس کا قانون زمین پر جاری وساری ہوتو یہی جواب ملے گا کہ جس نے اس دنیا کو پیدا کیا، بس اُسی ہستی کا قانون چلنا چاہیے۔ عقل خود یہ دلیل فراہم کرے گی کہ چونکہ کائنات کی ساری قوتیں اُسی کے نظام اور اُسی کے احکام کی بجا آواری میں مصروف ہیں جو ساری کائنات کے جملہ اسباب و متاع کا مالک ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں سارے انسانوں کی جان ہے۔ جو مالک ہے حیات کا بھی اور موت کا بھی۔ پھر یہی عقل اس ضرورت کا احساس دلائے گی کہ خالق کے قانون کو دیکھا جائے، اسے پڑھا جائے اور سمجھا جائے، اس پر غور و فکر کیا جائے اور اس پر عمل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ رہی بات عملی مظاہرہ کے لیے کسی نمونہ کی تو آخری رسول صلى الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ اور مثالی کردار ہمارے سامنے ہے۔ تینتیسویں سورة کی اکیسویں آیت میں رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”بیشک تمہارے لئے زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے رسول صلى الله علیہ وسلم میں ایک مثالی کردار اور اسوہٴ حسنہ موجود ہے۔“ نیز اڑسٹھویں سورة کی چوتھی آیت میں آپ صلى الله علیہ وسلم کے تعلق سے ارشاد فرمایاگیا: ”بلاشبہ آپ صلى الله علیہ وسلم اخلاق کے عظیم معیار پر (متمکن) ہیں۔“

آنحضرت صلى الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ، اُن کا کردار وگفتار، ان کی نشست و برخاست، ان کی خاموشی وگفتگو، اُن کی ذات وصفات، اُن کی معاشی وکاروباری زندگی، اُن کی ذاتی و اجتماعی زندگی، غرض کہ اُن کی شخصیت کے ہر پہلو کا معروضی مطالعہ Objective Study کی جائے تو یہ معلوم کرنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اخلاق وعمل، کردار و گفتار کے کسی بھی معیار پر آپ صلى الله علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک مینارہٴ نور کی طرح ہے۔ ایک ایسی بلند قامت شخصیت کے جسے چشم فلک نے کرہٴ ارض پر کبھی نہیں دیکھا۔ بیک وقت آپ صلى الله علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک بہترین مقرر، ایک عظیم فلسفی و قانون ساز، ایک بلند حوصلہ فوجی کمانڈر، ایک بہترین منتظم، ایک مشفق والد، ایک مثالی شوہر، ایک عظیم عوامی رہنما، ایک عظیم سیاسی منتظم وغیرہ کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ دل و دماغ کو فتح کرنے والی ایک ایسی شخصیت جو عقل کے دروازوں کو مسلسل وا کرتی چلی جاتی ہے۔ خیالاتِ خام اور فرسودگیوں کی قاطع بن کر اُبھرتی دکھائی دیتی ہے، انسانیت کو توہمات پر مبنی نظریات سے نجات دلاتی نظر آتی ہے۔ جس نے تصویروں اور بتوں کے آگے سر جھکانے کی رسم کو بیخ وبن سے اُکھاڑدے اُس کا لازمی تقاضہ یہی تھا کہ وہ بالآخر دنیا کی اکثریت کے دل و دماغ پر حکومت کرے۔ ایک سدا بہار ایمانی سلطنت کے بانی کی طرح۔ انسانوں کی معلوم تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔

کردار کی ان ساری جہتوں میں ایک قدر مشترک یہ نظر آتی ہے کہ یہ ایک پیکرِ رحمت کا کردار ہے، جس کی رحمت انسانوں پر چھائی ہوئی ہے۔ اس مرحلے پر ہمیں جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ اپنے نبی صلى الله علیہ وسلم کی طرح، جن کی اتباع کا ہم دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، کیا ہم بھی ساری انسانیت کے لئے رحمت بنے ہوئے ہیں؟ یا دنیا ہمارے وجود کو ایک زحمت سمجھنے لگی ہے؟ اکیسویں سورة کی ایک سو ساتویں آیت میں رب تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: ”ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔“ اسی طرح اخلاق کے اعلیٰ معیار کو قائم کرنے والے رول ماڈل کی پیروی اور اسوہٴ حسنہ کی اتباع کرنے کے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے تیسری سورة کی ایک سو بتیسویں آیت میں یہ حکم ارشاد فرمایا کہ: ”اور اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول صلى الله علیہ وسلم کی، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے پاس رب العالمین کی کتاب اور رسول اکرم صلى الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کی شکل میں منبع ہائے ہدایت موجود ہیں۔ ایک طرف زندگی گزارنے کا ایک پورا پیکیج ہے تو دوسری طرف اس کا Practical Application بھی موجود ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو پر ہدایت کے اس پیکیج کو منطبق کریں گے توبلاشبہ ہماری عقل و شعور کے لیے ہر زمانے میں فکر ونظر کے نئے نئے اسباق ملتے چلے جائیں گے۔

آج ساری دنیا انگشت بدنداں ہے کہ حدود اربع کے اعتبار سے ایک وسیع و عریض ملک یعنی ارض العرب، جہاں کی شرح خواندگی تقریباً نہیں کے برابر تھی، کیوں کر محض تیئس سال کے عرصے میں سوفیصد ہوجاتی ہے! غور کیا جائے تویہ نبوی طریقہٴ کار ہمارے سامنے آتا ہے کہ پہلے تو آپ صلى الله علیہ وسلم نے ہر انسان کو مساوی درجہ عطا فرمایا، پھر کسب علم کو نہ صرف عوامی حیثیت بخشی بلکہ ساتھ ساتھ اسے ایک دینی فریضہ بھی بنایا پھر اس پر مستزاد یہ کہ ہر انسان کو آپ صلى الله علیہ وسلم نے عقل کے استعمال کی دعوت دی۔ یہی سبب تھا کہ انسانیت کے جوہر چمک اٹھے اس لیے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم کی نظر میں یہ کام اس قدر اہم تھا کہ آپ صلى الله علیہ وسلم نے اُسے اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان اپنی ذات میں اللہ کا ایک منفرد شاہکار ہے۔ اتنا منفرد کہ اس سانچے میں ابھی تک کوئی مخلوقِ خداوندی ڈھلی ہی نہیں اور نہ قیامت تک کسی کے ڈھلنے کا امکان ہے۔ پھر انسانوں میں بھی ان کے چہروں کی بناوٹ الگ، رنگ و روپ الگ، زبان اور اُن کی نسل الگ، اخلاق و آداب Etiquettes اور قدوکاٹھ اور استطاعت وصلاحیت الگ ، حتیٰ کہ انگلیوں کے نشان کے اعتبار سے بھی انسان ایک دوسرے سے الگ خلق کیے گئے ہیں۔ رب کی صناعی کی داد دیجیے کہ جسے جس سانچے میں چاہا ڈھال دیا، مگر کسی دوسرے کی تخلیق کے لیے اُسی سانچے یا پیمانے کی اُسے ضرورت ہی نہ رہی۔ بالکل اسی طرح ہر انسان کے لیے رب تعالیٰ نے مخصوص جوہر بھی متعین فرمائے۔ تاکہ اس کی شخصیت کو نکھرنے اور اس کے کردار کو سنورنے کا موقع ملے۔ اسے مساویانہ عزت و عظمت سے نوازا جائے۔ اس کی عزت نفس اور اس کے احساسِ حریت کو وہ رتبہ دیا جائے جس کا وہ حقدار ہے اور اس کی ذہنی صلاحیتوں کو اس کے اپنے تجربات کی روشنی میں پھلنے پھولنے کا موقع میسر آئے۔

رسول کریم صلى الله علیہ وسلم کے اسورہٴ حسنہ میں ہم یہ بھی پائیں گے کہ آپ صلى الله علیہ وسلم نے اپنے ہر رفیق کو اپنی ذات اقدس سے فیض اٹھانے کے بھرپور مواقع عنایت فرمائے، بلکہ بحران کے حالات میں بھی آپ صلى الله علیہ وسلم نے اس طرزِ عمل کو ترک نہیں کیا۔ مثلاً، جنگِ احزاب کے موقع پر جب حضرت سلمان فارسی رضی الله تعالى عنه نے اپنے تجربہ اور اپنی سوچ کی بنیاد پر جب کوئی مشورہ دینا چاہا تو آپ صلى الله علیہ وسلم نے اُسے بحران کے حالات کے درمیان قبول فرماکر فارس کے ایک غیر مقامی نیک نفس کو وہ شرف بخشا اور وہ عزت افزائی فرمائی کہ تاریخ مساویانہ سلوک کے ایسے گرانقدر واقعات سے اکثر خالی ہی نظر آتی ہے۔ اسی طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ جیسے ہزاروں صحابہ کرام رضوان الله تعالى علیہم اجمعین کو، اُس وقت کے معاشرے میں عزت وعظمت کا کوئی موقع میسر آنا، تاریخ کا ایک نادرِ روزگار واقعہ ہے۔ کیونکہ اُس وقت کے جاہلیت زدہ معاشرے میں ایسے انقلابِ فکر و نظر کا کوئی امکان تک موجود نہیں تھا۔ تاہم حضرتِ بلال رضی الله تعالى عنه کو عظمت و جلالت کا وہ مقام میسر آتا ہے کہ وہ قیامت تک شرفِ صحابیت کے ایک مسلّم مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے نورِ نظر بن جاتے ہیں۔

لفظ عقل جسے 'عام فہم' Common Sense یا انسانی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں، خود قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ لفظ جو کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ استعمال ہوا ہے اور رب العالمین نے تواتر کے ساتھ تمام انسانیت کو اپنی کتاب میں عقل کے استعمال کی دعوت بھی دی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ رب تعالیٰ کو اپنے وہ بندے مطلق پسند نہیں جو عقل کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ اسی لئے رب تعالیٰ نے پچیسویں سورة کی چوالیسویں آیت میں نہایت سختی کے ساتھ فرمایا: ”کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی اکثریت، سماعت کا یا عقل کا استعمال کرتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو محض جانور ہیں، یا ان سے بھی زیادہ بدتر۔“

کلام اللہ میں بار بار جو الفاظ آتے ہیں لعلکم تعقلون، افلا تعقلون، لقوم یعقلون، فہم لا یعقلون، اکثرہم لا یعقلون، ان الفاظ پر مشتمل آیتیں انسانی عقل کو بھی اور انسانی ذہانت Intellect کو بھی دعوت دیتی ہیں، تاکہ ہم میں سوچ کا عمل جاری و ساری ہوجائے۔ کامن سنس کے استعمال کی ہماری عادت بنے۔ اس طرح ہم انسانی عقل کی قدر و قیمت کے ساتھ اس کے استعمال کا سلیقہ بھی سیکھ لیں۔ انسانی سوچ کا یہ عمل دراصل اس کی ساری ترقیات کا ضامن ہے۔ دنیوی ترقی کا دارومدار بھی اسی پر ہے اور اپنی ہمیشہ کی زندگی کی ترقی کے رازہائے دست بستہ بھی اسی فکر و عمل کے ذریعے کھلنے شروع ہوں گے۔ شرط یہ ہے کہ عقل کو کتاب اللہ اوراسوة الرسول صلى الله علیہ وسلم کی روشنی میں استعمال کیا جائے، چاہے معاملاتِ دنیا ہوں کہ معاملاتِ دینی۔

کتاب اللہ میں ہے کہ بار بار کی یاددہانی کے بعد بھی جو انسانی ذہن، سوچنے، سمجھنے اور تجربہ و تجزیہ کرنے اور اپنی ذہانت اور عقل عام کو استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں تو ان کے حق میں رب تعالیٰ کی بڑی سخت وعیدیں ہمیں قرآن مجید میں ملتی ہیں مثلاً آٹھویں سورة کی بائیسویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بیشک اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق وہ لوگ ہیں، جو گونگے ہیں، بہرے ہیں، جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“ ایسے ہی سخت الفاظ مگر دوسرے انداز میں سورہٴ یونس کی سونمبر کی آیت کے آخر میں فرمائے کہ: ”اور اللہ گندگی میں پڑے رہنے دیتا ہے ان لوگوں کو جو عقل کا استعمال نہیں کرتے۔“

دیگرمخلوقات سے انسانوں کا امتیاز محض عقل کے استعمال کی بدولت ہے، اوراس وجہ سے ہے کہ انسان کو اس کے خالق نے ذہانت کا مالک بنایا ہے۔ کتاب اللہ میں بکثرت مقامات پر اس پر بڑا زوردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے انسان کے اوصاف یا اس کی کمیوں، اس کی نفسیات و کوائف سے اس کے پیدا کرنے والے سے زیادہ بہتر طور پر کون واقف ہوسکتا ہے! وہ نہ صرف انسان کی کمزوریوں کو جانتا ہے؛ بلکہ اس کے بہکنے اوراپنی راہ کھوٹی کرنے کے اسباب و علل اور Situation اور مواقع سے بھی وہ خوب واقف ہے۔ انسان کی ہوس ولالچ، تمنا وطمع، حرص و آرزو کو بھی اس کا رب خوب جانتا ہے۔ انسان کے من موجی چنچل دل کو بھی وہ خوب جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ پیش بندیاں کیا ہیں جن سے طمع و حرص کے دروازے بند کیے جاسکتے ہیں اوراس کی شخصیت میں نکھار اوراس کے کردار میں مضبوطی آسکتی ہے۔ اس کی حیات میں سدھار اوراس کی زندگی سے آشنا ہوسکتی ہے۔ یہ اور ایسی ساری چیزوں کا احاطہ ہمارے مالک نے اپنی کتاب میں بڑے احسن طریقے سے کررکھا ہے۔

رب تعالیٰ نے الکتاب سے استفادہ کے لئے جن دو شرطوں کو مقدم کیا ہے، اُن میں سے ایک تو یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی سب سے بڑی نعمت یعنی اُسے بخشی گئی عقل یا ذہانت یا عقل عام کو استعمال میں لائے اور دوسرے یہ کہ رسول اکرم صلى الله علیہ وسلم کے پیش کردہ نظام اور اُن کے اخلاق و کردار کی پیروی اور ان کے اُسوہٴ حسنہ کی اتباع کرے۔ کتابِ ہدایت کا کمال یہ ہے کہ ایک ایک انسان کی فرداً فرداً تربیت کرتی ہے، تاکہ ایسے افراد پر مشتمل ایک ایسا گروہ تیار ہوجائے جو اپنی ذمہ داری کے احساس سے مزین ہو، اپنے فرائض سے اُسے واقفیت ہوجائے۔ اس میں دوسروں کے حقوق ادا کرنے کا سلیقہ آئے۔ اس لئے کہ کلام اللہ میں انسان کو بتادیا گیا ہے کہ کیا کیا کرنا ہے اور کیا کیا نہیں کرنا ہے۔ تسلسل کے ساتھ ذاتی تلاوت میں، نمازوں میں، خطبات میں، تراویح میں، عیدین میں، غرض کہ ہر لحظہ اور ہر مقام پر اس کے کانوں سے یہ یاد دہانی گذرتی ہی رہے۔ تاکہ ہر فرد اپنی ذات کی حد تک اپنی گمراہیوں کودفع بھی کرتا رہے اور اپنے سدھار کے سامان بھی وہ خود ہی کرتا رہے۔ اس لئے کہ انسان اپنا محتسب آپ ہے۔ وہ خود کو اچھی طرح پہچانتا ہے۔ سورہ القیامہ میں چودہ اور پندرہ نمبر کی آیت میں فرمایاگیا: ”انسان کو اپنے آپ پر پوری بصیرت حاصل ہے۔ یہ بات دیگر ہے کہ وہ عذر، تاویلات اور بہانے پیش کرتا رہتا ہے۔“

کوئی بیرونی قوت یا قانون کا کوئی شکنجہ انسان کو سدھارنے میں کبھی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوا۔ ایک ہی طریقہ ایسا ہے جس کے سبب اس میں کامیابی کا فیصد بڑھ سکتا ہے اور وہ ہے، انسان کا خود اپنی جانب سے اپنی ذات کا احتساب! اگر وہ خود چاہے تو اس کی اصلاح ممکن ہے۔ یہی ہے جسے کتاب اللہ میں ”تقویٰ“ کا نام دیاگیا ہے۔ اس کا عملی نمونہ بھی کتاب اللہ نے پیش کیا ہے۔ روزہ جیسی عبادت کو فرض کرتے ہوئے سورة البقرة میں فرمایا: ”روزے کے عمل سے تم میں تقویٰ کا سلیقہ آئے گا۔“ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو انسان خود ہی اپنے نفس اور اپنی خواہشات پر خود ہی پابندی لگاکر ہی پورا کرسکتا ہے۔ ایک انسان کو روزہ پورا کروانے پر دنیا کی کوئی طاقت، کوئی قانون اور کوئی پولیس قادر نہیں ہوسکتی۔

تقویٰ، احتساب اور اپنی ذات کے تجزیہ کا عمل، ایک عمل مسلسل ہے۔ احتساب کے مراحل کا آغاز اگر زندگی میں جاری نہیں ہوا ہے تو انہیں جاری کرنا ہوگا۔ از خود اپنی ذات پر پیش بندیاں و پابندیاں لگانی ہوں گی۔ اس طرح بصیرت اور عقل جیسی قدرتی نعمتوں کے استعمال کی ترغیب و تاکید کتاب اللہ میں ہمیں بار بار ملتی ہے اور ان کے صحیح استعمال کے سلسلے میں کی جانے والی لاپرواہی پر رب تعالیٰ کی ناراضی بھی ہمارے سامنے ہے۔ اپنی شخصیت کے نکھار کے لئے، اپنی ذات کی تعمیر کے لئے ایک نسخہ، ذہانت کی شکل میں سارے انسانوں کو دیاگیا ہے۔ ہر شخص اپنی عقل کی صلاحیت کا، عقل عام کا اور ذہانت کا بھرپور استعمال کرے۔ عقل کے استعمال کے ساتھ اللہ کی کتاب اور نبی کریم صلى الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ اور کردار سامنے ہوتو نہ صرف ہماری یہ دنیا کردار کے حسن وجمال سے آراستہ ہوجائے گی بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ، ہماری آخرت بھی سنور جائے گی۔ (از: عزیز بلگامی) 

عقل میں اضافہ کیسے کریں؟؟؟

حضرت امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ چارچیزیں جسم میں توانائی پیدا کرتی ہیں، حلال گوشت کھانا، خوشبو سونگھنا، غسل کرنا اور سوتی کپڑا پہننا-

٭ چارچیزیں بصارت تیز کرتی ہیں، خانۂ کعبہ کے سامنے بیٹھنا، سوتے وقت سُرمہ لگانا، سبزہ زار دیکھنا اور صاف ستھری جگہ پربیٹھنا- 

٭چارچیزیں عقل میں اضافے کا سبب ہیں، فضول گوئی سے پرہیز، دانت صاف رکھنا، صالحین کی مجلس میں بیٹھنا اور علمائے کرام کی صحبت اختیارکرنا-

٭چار چیزیں رزق کشادہ کرتی ہیں، تہجد کی نماز، کثرت سے استغفار، صدقہ دینا اور ذکرِالہٰی میں مشغول رہنا-

سوال: ہمیں پتہ ہے کہ دماغ پوری باڈی کو کنٹرول کرتا ہے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ دماغ کو خود کون کنٹرول کرتا ہے ؟

جواب: آپ اس کو اس طرح سے سمجھیں کے دماغ کوئی بادشاہ یا مطلق العنان نہیں ہے، جو کہ اپنا حکم کی چلائے گا، بلکہ دماغ جسم کے دو حصوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ دماغ جسم کے ایک حصے سے انفارمیشن لے گا، اس انفارمیشن کو پروسس کرے گا، اور پھر جسم کے کسی دوسرے حصے کو سگنل بھیجے گا  کہ اس انفارمیشن کے مطابق کوئی خاص کام انجام دے۔ سو دماغ اپنی مرضی سے کوئی حکم نہیں دیتا، بلکہ جسم کے حصوں کو اندر اور باہر سے ملنے والی انفارمیشن کے مطابق جسم کے مختلف اعضاء کے درمیان رابطہ بناتا ہے۔ فرض کریں کہ آپ ایک گرم جگہ پر ہیں، تو اپ کے جسم سے ہی دماغ کو درجہ حرارت بڑھنے کا سگنل جائے گا، اور دماغ "سویٹ گلینڈز" کو سگنل دے گا جو کہ پسینہ خارج کریں گے، سو دماغ کو جسم کے ایک عضو سے جیسا سگنل آیا اسی کے مطابق دماغ نے دوسرے حصے کو کام کرنے کا سگنل دیا۔ آپ کا بلڈ شوگر لیول نیچے جائے گا، یا آپ کا معدہ خالی ہوگا تب ہی آپ کے دماغ کو سگنل جائے گا اور تب ہی دماغ بھوک کی کیفیت پیدا کرے گا اور جب آپ کھانا کھالیں گے تو یہ کیفیت ختم ہوجائے گی۔ آپ کی آنکھیں کوئی خطرہ دیکھیں گی، آپکے کان کوئی خطرے والی آواز سنیں گے، تب پی آپ کا دماغ آپ کے دل کی دھڑکن کو بڑھنے کا سگنل دے گا۔ سو اس طرح دماغ حکم چلانے سے زیادہ جسم میں رابطہ کروانے کا کام کرتا ہے۔اسی طرح آپکے ہارمنونز بھی دماغ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، عصبی نظام/ نروس سسٹم اور ہارمونل نظام مل کر جسم میں رابطہ پیدا کرتے ہیں اور مختلف عوامل کرواتے ہیں، اور ساتھ ہی ایک دوسرے پر بھی اثر کرتے ہیں۔۔۔

S_A_Sagar#

https://saagartimes.blogspot.com/2022/05/blog-post.html



No comments:

Post a Comment