امیر شریعت: ہمہ جہت خدمات کے چند نقوش
بقلم: محمد منصور عالم رحمانی جامعہ فیضان ولی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ الہنڈا بارسوئی گھاٹ ضلع کٹیہار بہار
حضرت امیرشریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نوراللہ مرقدہ ایسے وقت میں اس دنیا سے گئے جب کہ ملک و ملت کو آپ کی ہمہ جہت شخصیت کی شدید ضرورت تھی۔ آپ کی وفات سے دنیا ایک ولی صفت زندہ دل انسان، دور رس، دوربین، اہل زبان، اہل قلم، قول فیصل، بیان فیصل، بے باک قائد، بے لوث خادم، ماہرمعلم، قانون داں، پیغام محبت کے داعی، ملک و ملت کے دلوں کی دھڑکن، آس اور امید سے محروم ہوگئی. ملت یتیم ہوگئی، إنا لله و إنا إليه راجعون
حضرت امیرشریعت یقیناً ایک خدا رسیدہ انسان اور سچے عاشق رسول تھے، آپ کی اصل منزل اللہ تک رسائی اور رضائے الٰہی تھی. آپ کی بے پناہ خداداد صلاحتیں، کاموں کو بحسن وخوبی انجام دینے کے سلیقے، ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے آپ کی جانب سے خدمات جلیلہ آپ کی للہیت اور نبوی عشق کے مظاہر ہیں. آپ ایک جید عالم دین تھے، جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، دارالعلوم دیوبند اور تلکامانجھی یونیورسٹی بھاگلپور بہار جیسے اداروں سے آپ نے علوم وفنون حاصل کئے.
آپ جامعہ رحمانی مونگیر کے تاحیات مدرس رہے.
جیتے جی آپ نے اپنے لئے کچھ نہیں کیا یہاں تک کہ ملت کے لئے آپ نے پٹنہ میں اپنا ذاتی مکان فروخت کرکے رحمانی 30 کو قائم کیا.
آپ جامعہ رحمانی کے تاحیات سرپرست رہے، آپ کی سرپرستی کے عہد میں جامعہ رحمانی نے تعلیمی اور تعمیری دونوں میدان میں ترقیات کی منزلیں طے کیا. وہاں سے ایسے قابل اور ہونہار فارغین کو تیار کیا جو ملکی ہی نہیں بلکہ عالمی پیمانے پر ملت کی ترجمانی کررہے ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک فقیہ، محدث اور قاضی پیدا ہوئے۔
جامعہ رحمانی کی تعلیم و تربیت میں حالات اور وقت کا لحاظ کرتے ہوئے ہر دور میں اس کی ضرورتوں اور تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے نئے نئے اقدامات کئے، مختلف قسم کے نئے انداز میں مقابلاجات منعقد کرواکے فارغین کو میدان عمل میں ہرممکن کامیاب بنانے کی کوشش میں تسلسل رہا اور اس میں سو فیصد کامیابی بھی ملتی رہی.
ترجمہ و تفسیر کے ساتھ حفظ قرآن مجید کا نیا نظام قائم کرکے کامیاب تجربہ پیش کیا، جامعہ ازہر مصر کے طرز پر عربی زبان میں درس و تدریس کا سلسلہ قائم کیا.
في البديه کسی بھی موضوع پر کامیابی کے ساتھ بولنا سکھانے کے لئے ارتجالی مسابقہ کا نظام جاری کیا۔
جامعہ رحمانی کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیری ترقی بھی کی، تعلیم گاہ، دانش گاہ کی بلند وعظیم عمارتیں، شاندار مطبخ، اساتذہ کی قیام گاہیں اس کی گواہ ہیں۔
سجادہ نشینی کے عہد میں آپ نے بیعت و ارادت کے حلقے وسیع تر کیا۔ خانقاہ کے پلیٹ فارم سے پیغام محبت کو عام کیا، اختلاف سے کوسوں دور رہے، امت کو ہر ممکن جوڑے رکھنا آپ کا تاحیات مشن رہا، مسلکی، آپ کے والد ماجد حضرت امیرشریعت رابع مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کے ذریعے تحفظ شریعت اور وحدت امت کی غرض سے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام اسی خانقاہ رحمانی کا فیض ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اسٹیج پر کلمہ توحید کی بنیاد پر امت کا اتحاد خانقاہ رحمانی کے پیغام محبت اور وحدت امت کا مظہر ہے۔
ہزاروں مصروفیات کے باوجود خانقاہ رحمانی کی مسجد میں ہر ماہ پابندی کے ساتھ تاحیات مجلس دورود شریف منعقد کرتے رہے، جس میں ہزاروں اللہ کے بندے پابندی کے ساتھ شریک مجلس ہوتے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت توبہ و استغفار کرتے تھے، لاکھوں اللہ کے بچھڑے بندوں نے آپ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر توبہ و استغفار کیا اور اللہ سے لو لگانے کے قابل ہوگئے.
آپ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ میں اس کی تاسیس کے وقت ہی سے شریک رہے، امیرشریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی کی وفات کے بعد سکریٹری منتخب ہوئے اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب کے انتقال کے بعد باتفاق رائے بورڈ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اپنی جرأت و استقامت اور صلاحیتوں سے بورڈ کی خدمات کو وسیع کیا. سلگتے حالات میں ملی مسائل کو حل کیا اور پرسنل لا کے تحفظ میں کوئی کسر نہیں چھوڑا.
ایک عظیم اور باوقار ادارہ رحمانی فاؤنڈیشن قائم کرکے پورے ملک میں معیاری عصری اداروں کے قیام کا ایک بے مثال نمونہ پیش کیا، آئی آئی ٹی کی تعلیم کے لئے رحمانی 30 کا قیام رحمانی فاؤنڈیشن کی خدمات کا روشن باب ہے۔
آپ امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے جب امیرشریعت نہیں تھے اس وقت بھی امارت کو آپ نے ٹوٹنے اور تقسیم ہونے سے بچایا تھا۔ جب امیرشریعت منتخب ہوئے تو آپ نے امارت شرعیہ کے دائرہ کار اور اصول و ضوابط پر کاربند رہتے ہوئے امارت سے متعلق ملت کے مفادات کو عام کیا، تعلیم و تربیت، قیام دارالقضاء، عصری اداروں کے قیام، بینادی دینی تعلیم کے فروغ اور اردو زبان کے تحفظ میں بھرپور توجہ دی، موثر اقدامات کئے، اداروں کا جال بچھایا.
حکومت کی غلط پالیسیوں کے آگے ہندوستانی عوام میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔ حکومت وقت کے خلاف ایک زبان بولنا بھی جرم عظیم تھا. ایسے نازک وقت میں آپ نے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے 'دین بچاؤ دیش بچاؤ' آندولن کے بینر تلے گاندھی میدان پٹنہ میں ایک کروڑ سے زائد مجمع اکٹھا کرکے حکومت کو جو پیغام دینا تھا وہ دیا ساتھ میں ہندوستانی عوام کو یہ سبق دیا کہ زبان کے تالے توڑو، اگر حقوق کا تحفظ چاہتے ہو اور دین تمہیں عزیز ہے تو تمہیں سڑکوں پر اترنا ہوگا، پھر اس کے بعد ملک کے اندر آندولن کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔
ہندوستان کی آزادی میں ہمارے اکابر و اسلاف اور مسلم حکمرانوں نے جو کارنامے، کردار اور رول ادا کیا ہے اور جان، مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دی ہیں تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے ہوئے ہیں، اگر ہندوستانی مسلمانوں نے قربانیاں نہیں دی ہوتی تو ہندوستان آزاد نہ ہوتا؛ لیکن حکومت وقت نے ہندوستانی مسلمانوں کی عظیم قربانیوں پر پردہ ڈالنے کی ناپاک سعی کی، نصابی کتب میں تبدیلیاں شروع کیں، اور آزادی کی تاریخ کا آغاز 1857 سے کیا، یہاں تک کہ تاریخ کا استاذ بھی آزادی کی تاریخ کو اٹھارہ سو ستاون سے پڑھانا شروع کیا، اور اس مہم کو مکمل پلاننگ کے ساتھ سرکاری اور غیرسرکاری دونوں سطح پر چلایا جانے لگا.
حضرت امیرشریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نے بحیثیت تاریخ کا ایک طالب علم تاریخ کے ساتھ چھیڑچھاڑ اور مسلمانوں کی عظیم قربانیوں پردہ ڈالنے کی کی سعی و کوشش کو ناکام بنانے اور صحیح تاریخ کو سامنے لانے کے لئے تحریکی انداز میں لکھنا اور بولنا شروع کیا، سب سے پہلے "کیا ۱۸۵۷/ کی جدوجہد 'پہلی' جنگ آزادی تھی؟" نام سے ایک چھوٹا رسالہ تحریر کیا، رحمانی فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے اہل قلم اساتذہ تاریخ کو مختلف عنوانات اور موضوعات دے کر ادھر متوجہ کیا، اسکول، کالج اور مدرسوں کے طلبہ کو آزادی کی تاریخ کے مطالعے کی ترغیب دی مختلف ریاستوں کے دینی و عصری طلبہ کے درمیان اس موضوع پر تحریری مسابقے کروائے اور بھاری اور قیمتی انعامات دے کر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی، رحمانی فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے اس موضوع پر مختلف سیمینار بھی کروائے، ان سیمیناروں میں ملکی سطح پر تاریخ کے لکچرر بھی مدعو ہوئے، لمبی لمبی بحثیں ہوئیں بالآخر حضرت نوراللہ مرقدہ نے تاریخ کے ساتھ چھیڑچھاڑ اور اس پر پردہ ڈالنے کی مہم کے لکھنے اور بولنے کا ایک ماحول بنایا اور آزادی کی تاریخ کو 1731 سے شروع کرکے امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نور اللہ مرقدہ کی تحریک سے جوڑا جس کی بنیاد پر تاریخ کے طلبہ و اساتذہ دونوں طبقوں میں یہ بات تسلیم کی جانے لگی اور لوگوں نے آزادی کی جد وجہد کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے جوڑ کر بیان کرنا شروع کیا.
بی جے پی کے اقتدار میں مدارس پر دہشت گردی کا الزام زوروشور سے لگایا جارہا تھا، مدارس پر تالے لگوانے کی تیاریاں چل رہی تھیں. ایسے نازک موڑ پر پورے ملک میں سناٹا چھایا ہوا تھا. 2002 میں حضرت امیرشریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب نے ملک کی مختلف ریاستوں سے مدارس اسلامیہ کنونشن کے عنوان کے بینر تلے تمام اہل مدارس اور مکاتب کو مدعو کیا. حکومت وقت کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا ان تمام لوگوں کی موجودگی میں دو ٹوک انداز میں ارباب اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مدارس پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزام اور جھوٹ کو بے نقاب کیا ،اہل مدارس کو مضبوط حوصلہ دیا، حوصلہ ،ہمت اور جرأت کے ساتھ مدارس کے وقار کو بلند کیا اور دہشت گردی کے الزام سے مدارس کو بری کیا،یہاں تک کہ صدرجمہوریہ ہند عظیم سائنسدان ڈاکٹر ابوالفاخر زین العابدین عبدالکلام نے خانقاہ رحمانی پہنچ کر آپ کی آواز کو یہ کہہ کر کہ میں نے بھی مدرسے میں پڑھا ہے مزید مضبوطی دی، خود سورہ پڑھ فاتحہ کر سنائی اور طلبہ کو بھی پڑھایا ساتھ ہی سورہ فاتحہ کا ترجمہ بھی کروایا۔ اس کے بعد ارباب اقتدار نے مدارس کے تئیں اپنے ناپاک قدموں کو پیچھے کیا۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے پورے ملک کے اندر دارالقضاء کا جال بچھایا، تفہیم شریعت کی تحریک شروع کی، گلی گلی اور چپے چپے میں پرسنل لا کی تفہیم و تشریح کا ماحول بنایا، علماء اور دانشوروں کو اس جانب راغب کیا.
آخر عمر میں کورونا مہاماری کی وجہ سے جب مدارس کا تعلیمی نظام متأثر ہوا، عصری اداروں میں بھی دینی تعلیم و تربیت کے فقدان کو محسوس کیا اور حکومت وقت نے اردو جیسی عالمی زبان کے ساتھ سوتیلہ پن کا رویہ اختیار کیا، اس کی لزومیت کو منسوخ کیا؛ تو آپ نے امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے بنیادی دینی تعلیم، معیاری عصری اداروں کا قیام اور اردو زبان کا تحفظ اور فروغ کے عنوان پر مختلف ریاستوں میں ایک تحریک چلائی۔
اپنے تو اپنے ہی ہیں معاندین اور مخالفین بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ: حضرت امیر کی وفات سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، ایک صدی کا خاتمہ ہوگیا، پورا ہندوستان یتیم ہوگیا، ایک بے باک لیڈر، قائداور جرأت مند فرشتہ صفت انسان اس دنیا سے رخصت ہوگیا.
حضرت سے میرا استاذ حدیث اور شیخ ومرشد کا رشتہ بھی رہا، زبان و قلم اور ظاہر و باطن کی جو بھی نعمتیں اللہ نے دی ہیں یہ سب حضرت ہی کی توجہات ہیں، اللہ نے مجھے اپنے فضل و احسان سے دینی و عصری تعلیم و تربیت کیلئے ایک ادارہ قائم کرنے کی توفیق دی، اسی مضبوط رشتے کی بنیاد پر ہم نے حضرت کی جانب نسبت کرتے ہوئے اپنے ادارے کا نام جامعہ فیضان ولی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ رکھا۔
3 اپریل بروز ہفتہ امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے حضرت کے حکم کے مطابق بنیادی دینی تعلیم، معیاری عصری اداروں کا قیام اور اردو زبان کا تحفظ اور فروغ کے عنوان پر حلقہ بارسوئی انومنڈل ضلع کٹیہار کے علماء اور دانشوران اپنی اپنی کارگزاری دینے کے لئے جمع ہوئے تھے، یہاں حضرت کی صحت کے لئے دعائیں ہوئیں، اختتام کے بعد اچانک خبر ملی کہ اب ہم سب یتیم ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون
بڑا گہرا صدمہ پہنچا، دل تھامے نہیں تھم رہا تھا، آنکھیں پرنم تھیں، جنازے میں شرکت کیلئے حاضری ہوئی اور بعد تدفین اپنا مقام لوٹا۔
اللہ سے دعاء ہے کہ امت مسلمہ ہندیہ کو حضرت کا نعم البدل عطاء فرمائے، حضرت کی صفات عالیہ ہم سبھوں میں منتقل فرمائے۔ حضرت کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے آمین
بقلم: محمد منصور عالم رحمانی
http://saagartimes.blogspot.com/2021/04/blog-post.html?m=1
No comments:
Post a Comment