Wednesday 4 November 2020

تنبیہات سلسلہ نمبر 145: پچھلی صدی کے کتے بھی ہم سے زیادہ غیرت مند تھے

تنبیہات سلسلہ نمبر 145: پچھلی صدی کے کتے بھی ہم سے زیادہ غیرت مند تھے
● سوال:
مندرجہ ذیل واقعے کی تحقیق مطلوب ہے:
حافظ ابن حجر العسقلانی نے ایک کتے کا ذکر کیا ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کو کاٹ کھایا.
ایک دن نصاریٰ کے بڑے پادریوں کی ایک جماعت منگولوں کی ایک تقریب میں شرکت کے لئے روانہ ہوئی جو ایک منگول شہزادے کی نصرانیت قبول کرنے پر منعقد کی گئی تھی۔ اس تقریب میں ایک عیسائی مبلّغ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی بکی، قریب ہی ایک شکاری کتا بندھا ہوا تھا جو اس صلیبی کی طرف سے گالی بکنے پر چھلانگیں مارنے لگا اور زوردار جھٹکے سے رسی نکال کر اس بدبخت صلیبی پر ٹوٹ پڑا اور اس کو کاٹ لیا. لوگوں نے آگے بڑھ کر اس کتے کو قابو کیا اور پیچھے ہٹایا۔ تقریب میں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف تمہاری گفتگو کی وجہ سے ہوا ہے، اس صلیبی نے کہا: بالکل نہیں، بلکہ یہ خوددار کتا ہے. جب اس نے بات چیت کے دوران مجھے دیکھا کہ میں بار بار ہاتھ اٹھا رہا ہوں تو اس نے سمجھا کہ میں اس کو مارنے کے لئے ہاتھ اٹھا رہا ہوں اسلئے اس نے مجھ پر حملہ کردیا، یہ کہہ کر اس بد بخت نے ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر گالی بکی، اس بار کتے نے رسی کاٹ دی اور سیدھا اس صلیبی پر چھلانگ لگا کر اس کی منحوس گردن کو دبوچ لیا اور وہ فورا ہلاک ہوگیا، اس کو دیکھ کر چالیس ہزار (40,000) منگولوں نے اسلام قبول کیا۔ (الدرر الکامنة: 3/203)
اور امام الذھبی نے اس قصے کو صحیح اسناد کے ساتھ "معجم الشیوخ" (صفحہ: 387) میں نقل کیا ہے، اس واقعے کے عینی شاہد جمال الدین نے کہا ہے کہ: اللہ کی قسم کتے نے میری آنکھوں کے سامنے اس ملعون صلیبی کو کاٹا اور اس کی گردن کو دبوچا جس سے وہ ہلاک ہوگیا...
      کیا یہ واقعہ درست ہے؟
      ▪ الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ چھٹی ہجری میں پیش آیا ہے اور اس واقعے کو ابن حجر اور ذہبی رحمهما اللہ  نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور اس کی سند کو درست قرار دیا ہے.
ابن حجر فرماتے ہیں کہ عیسائیوں نے اپنے داعی مغل قبیلوں میں پھیلا دیئے تھے تاکہ لوگوں کو عیسائی بناسکیں، ایک مرتبہ ہلاکو خان نے اپنی عیسائی بیوی ظفر خاتون کے کہنے پر ان عیسائیوں کو دعوت کی اجازت دے رکھی تھی .... إلی آخرہ
□ قال الإمام ابن حجر العسقلاني في كتابه "الدرر الكامنة": كان النصارى ينشرون دعاتهم بين قبائل المغول طمعا في تنصيرهم وقد مهد لهم الطاغية هولاكو سبيل الدعوة بسبب زوجته الصليبية ظفر خاتون، وذات مرة توجه جماعة من كبار النصارى لحضور حفل مغولي كبير عقد بسبب تنصر أحد أمراء المغول، فأخذ واحد من دعاة النصارى في شتم النبي صلى الله عليه وسلم، وكان هناك كلب صيد مربوط، فلما بدأ هذا الصليبي الحاقد في سبّ النبي صلى الله عليه وسلم زمجر الكلب وهاج ثم وثب على الصليبي وخمشه بشدة، فخلصوه منه بعد جهد...
فقال بعض الحاضرين: هذا بكلامك في حق محمد عليه الصلاة والسلام، فقال الصليبي: كلا! بل هذا الكلب عزيز النفس رآني أشير بيدي فظن أني أريد ضربه، ثم عاد لسب النبي وأقذع في السب، عندها قطع الكلب رباطه ووثب على عنق الصليبي وقلع زوره في الحال فمات الصليبي من فوره، فعندها أسلم نحو أربعين ألفا من المغول. (الدرر الكامنة، جزء: 3، صفحة 202)
امام ذہبی نے بھی اسی واقعے کو نقل کیا ہے.
□ قال الحافظ الذهبي في
"معجم الشيوخ" (ص: 387، ط: دار الكتب العلمية):
حدثنا الزين علي بن مرزوق بحضرة شيخنا تقي الدين المنصاتي: سمعت الشيخ جمال الدين إبراهيم بن محمد الطيبي بن السواملي يقول في ملإ من الناس: حضرت عند سونجق (خزندار هولاكو وأبغا) وكان ممن تنصر من المغل، وذلك في دولة أبغا في أولها، وكنا في مخيمه وعنده جماعة من أمراء المغل وجماعة من كبراء النصارى في يوم ثلج، فقال نصراني كبير لعين: أي شيء كان محمد (يعني نبينا صلى الله عليه وسلم)؟ كان داعيا وقام في ناس عرب جياع، فبقي يعطيهم المال ويزهد فيه فيربطهم. وأخذ يبالغ في تنقص الرسول صلى الله عليه وسلم، وهناك كلب صيد عزيز على سونجق في سلسلة ذهب، فنهض الكلب وقلع السلسلة ووثب على ذاك النصراني فخمشه وأدماه، فقاموا إليه وكفوه عنه وسلسلوه، فقال بعض الحاضرين: هذا لكلامك في محمد صلى الله عليه وسلم. فقال: أتظنون أن هذا من أجل كلامي في محمد؟ لا! لكن هذا الكلب عزيز النفس؛ رآني أشير بيدي فظن أني أريد ضربه فوثب. ثم أخذ أيضا يتنقص النبي صلى الله عليه وسلم ويزيد في ذلك. فوثب إليه الكلب ثانيا وقطع السلسلة وافترسه (والله العظيم) وأنا أنظر! ثم عض على زردمته فاقتلعها فمات الملعون، وأسلم بسبب هذه الواقعة العظيمة من المغل نحو من أربعين ألفا، واشتهرت الواقعة.
                 ▪ خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ چونکہ ان دونوں محدثین کے قریبی زمانے میں پیش آیا تھا لہذا ان دونوں حضرات کا اس واقعے کو اپنی سند سے نقل کرنا ہی اس کی صحت کی دلیل ہے. چونکہ مغل قوم سے اللہ تعالی نے اسلام کی خدمت کا کام لینا تھا تو اس طرح کے معجزات کا پیش آنا اس قوم کے اسلام میں دخول کا پیش خیمہ ثابت ہوا.
    《واللہ اعلم بالصواب》
0333-8129000
٣ نومبر ٢٠١٨ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2020/11/50.html

No comments:

Post a Comment