"كلتايديه يمين" اور "يطوي السماء بشماله" کے درمیان تطبیق
مفتی صاحب پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک حدیث میں ھے کلتا یدیہ یمین
اور مسلم باب صفت یوم القیمہ والجنت والنار میں ایک حدیث ھے
جس میں یہ ھے کہ یطوی السماء بشمالہ تو ان دونوں حدیثوں میں تعارض ھے
ممنون ومشکور فرمائے اور با حوالہ جواب چاھئے
اجرکم علی اللہ
الجواب وباللہ التوفیق:
ترمذی کی روایت میں اللہ تعالیٰ کے سلسلے میں یہ آیا ہے کہ ان کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں۔ اولا تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ متشابہات میں سے ہے۔ اور متشابہات میں کھود کرید درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما نے یہ لکھا ہے کہ اللہ کی صفات متشابہات میں صفات کا تو یقین کرنا ہے لیکن کیفیات کی چھان پھٹک نہیں کرنی ہے۔ اس سے بہت سی خرابیوں کے دروازے وا ہوجاتے ہیں۔
بہرحال حدیث پاک میں دونوں ہاتھ داہنے ہیں سے مراد یہ ہے کہ جس طرح عام انسانوں کے ہاتھ کی تعیین شریعت نے مختلف اعمال کے اعتبار سے کی ہے؛ کھانا کھانے کے لیے داہنے کا استعمال کیا جائے، استنجا وغیرہ کے لیے بائیں ہاتھ کا وغیرہ، یہ تعیین انسان کے ہاتھ کے بابرکت ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے ہے۔ یہی صورت حال ہر عمل میں ہے جس میں دائیں اور بائیں کی تعیین کی گئی ہے۔
حدیث شریف میں اسی تقسیم کی نفی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ بابرکت ہیں۔ اس میں تقسیم نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ مخلوقات کے بائیں ہاتھ قوت و طاقت کے اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں۔ جب کہ اللہ کے دونوں ہاتھ پرزور اور قوت میں برابر ہیں۔ اس اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ یمین ہوئے۔
تیسری تاویل یہ کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ عبارت سے اللہ تعالیٰ کے جود و سخا اور انعام و اکرام کی صفات کو زیادہ سے زیادہ ظاہر کرنا ہے۔ چناں چہ اہل عرب جب کسی کی دریا دلی کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں ملتا یدیہ یمین۔
جہاں تک مسلم شریف کا حوالہ دیا ہے تو وہ ہمیں شمال کے لفظ کے ساتھ نہیں ملا۔ بخاری میں بھی یمین کا لفظ ہے، اور مسلم میں بھی یمین ہی کا لفظ ہے۔ لہذا کوئی اشکال باقی نہیں رہنا چاہیے۔
2787 (23) حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ الْمُسَيَّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَقْبِضُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْأَرْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَيَطْوِي السَّمَاءَ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ؟".
اگر پھر بھی شمال کا لفظ کہیں پر ملتا ہے تو اس سے مراد صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ وہاں پر حکایت حال مقصود ہوگی اور کچھ نہیں۔
فقط واللہ اعلم باالصواب
سعد مذکر
——————————
بائیں ہاتھ والی ابن عمر کی روایت صحیح مسلم میں موجود ہے:
يَطْوِي اللَّهُ عزَّ وجلَّ السَّمَواتِ يَومَ القِيامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُهُنَّ بيَدِهِ اليُمْنَى، ثُمَّ يقولُ: أنا المَلِكُ، أيْنَ الجَبَّارُونَ؟ أيْنَ المُتَكَبِّرُونَ. ثُمَّ يَطْوِي الأرَضِينَ بشِمالِهِ، ثُمَّ يقولُ: أنا المَلِكُ أيْنَ الجَبَّارُونَ؟ أيْنَ المُتَكَبِّرُونَ؟ : عن عبدالله بن عمر. صحيح مسلم. 2788.
اس ذیل میں ایک پسندیدہ توجیہ یہ کی گئی ہے کہ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ناموں کے اعتبار سے یقیناً یمین و شمال ہیں جیساکہ صحیح و مرفوع روایت سے دونوں ثابت ہے البتہ معنی، مفہوم اور شرف وفضل کے لحاظ سے دونوں "یمین" ہیں۔ "كلتا يديه يمين" والی روایت کے یہی معنی ہیں ۔
تو نام کے لحاظ سے یمین و شمال کی تقسیم ہے اور شرف وفضل اور یمن وبرکت کے لحاظ سے دونوں "یمین" ہیں
فلا اشکال!
https://saagartimes.blogspot.com/2020/10/blog-post_10.html
No comments:
Post a Comment