شیطان کا اصلی نام کیا تھا اور ان کے بیوی بچوں کے نام کیا ہے؟
====================================
رحمت الہٰی سے ملعون ہونے سے پہلے شیطان کا نام عزازیل تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے اور حکم الہٰی کی خلاف ورزی کی پاداش میں اس کا نام ابلیس تجویز کردیا گیا۔ شیطان بھی اسی ابلیس کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے آگ کے شعلوں سے ایک جن کو پیدا کیا تھا ۔ اس کے بعد اس کے لئے ایک بیوی پیدا کی، اسی جوڑے سے تمام جنات کی نسل دنیا میں پھیلی ۔
حدیث میں ہے کہ جب اللہ نے ابلیس کی نسل اور اس کی زوجہ پیدا کرنا چاہی تو شیطان پر غصہ کا القا کیا ۔ غصہ کی وجہ سے آگ کی ایک چنگاری پیدا کی، اس چنگاری سے حق تعالٰی نے ابلیس کی بیوی پیدا کردی۔
جتنے انسان پیدا ہوتے ہیں اتنے ہی جنات بھی پیدا ہوتے ہیں
===============
روایت ہے کہ حق تعالٰی نے ابلیس سے فرمایا تھا کہ جتنی اولاد آدم کی پیدا کروں گا، اتنی ہی اولاد تیری بھی پیدا کروں گا ۔ چنانچہ دوسری حدیث میں مذکور ہے کہ ہر انسان کے ساتھ حق تعالٰی جن بھی پیدا کرتا ہے جو اس کو بُرائی پر اُکساتا رہتا ہے۔
جنات مذکر بھی ہوتے ہیں اور موءنث بھی
=============
جنات کی ایک قسم انسان جیسی ہے ۔ وہ انسانوں کی طرح مذکر اور موءنث ہوتے ہیں ۔ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں ۔ اور ان کے اولاد بھی پیدا ہوتی ہے۔
شیطان ہر روز دس انڈے دیتا ہے
============
حیٰوۃ الحیوان میں شیطان کی افزائش نسل کے بارے میں مذکور ہے:
"اللہ تعالٰی نے ابلیس کی داہنی ران میں مرد کی شرمگاہ اور بائیں میں عورت کی شرمگاہ پیدا کی ہے جس سے ہر روز دس انڈے نکلتے ہیں اور ہر انڈے سے شیطان اور شیطانیاں پیدا ہوتی ہیں ۔
شیطان کی بیوی اور بچوں کے نام
====================
شیطان نے اپنی بعض اولاد کو بعض مخصوص کاموں پرلگا رکھا ہے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق ان کے نام اور کام یہ ہیں:__
طرطبہ__: شیطان کی بیوی کا نام طرطبہ ہے۔
لاقیس و لہان__: یہ دونوں وضو اور نماز پر مامور ہیں، لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں۔
ہفاف__: یہ لڑکا صحرا پر مامور ہے، صحرا میں شیطینیت پھیلاتا ہے۔
زلنبور__: یہ بازاروں پر مامور ہے، جھوٹی تعریف اور جھوٹی قَسموں پر لوگوں کو اُکساتا ہے۔ ناپ تول میں کمی اور دوسری بُرائیوں میں لوگوں کو مبتلا کرتا ہے۔
بثر__: مصیبت زدہ لوگوں کو جہالت کے کام نوحہ، ماتم، گریبان چاک کرنا، چہرے کو نوچنے، منہ پر چانٹے مارنے کی ترغیب دیتا ہے۔
ابیض__: یہ انبیاء علیھم السلام کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے پر مامور ہے۔
اعور__: یہ شیطان زنا پر مامور ہے۔ زنا کے وقت مرد و عورت کی شرم گاہوں پر سوار رہتا ہے۔ لوگوں کو زنا کی ترغیب دے کر زنا میں مبتلا کرتا ہے۔
واسم__: اس شیطان کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں بغیر سلام کئے یا بغیر اللہ کا نام لئے داخل ہوتا ہے، تو وہ گھر والوں میں فساد کرانے کا سبب بنتا ہے۔ گھر والوں میں پھوٹ ڈلواکر ایک کو دوسرے کا دشمن بنادے ۔
مطوس__: یہ شیطان غلط اور بے بنیاد افواہیں لوگوں میں پھیلاتا ہے۔
بھوت پریت کیڑے مکوڑے جنات شیطان کے انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک بار شیطان نے 30 انڈے دیئے تھے ۔ دس مشرق میں، دس مغرب میں اور دس وسط ارض میں ۔ ان انڈوں سے دنیا میں شیاطین کی مختلف قسمیں بھوت پریت کیڑے مکوڑے وغیرہ پیدا ہوکر دنیا میں پھیل گئے۔
محمد بن کعب القرظی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جن اور شیاطین اصل کے اعتبار سے ایک ہیں، مگر ایماندار 'جن' کے نام سے اور کفار شیاطین کے نام سے موسوم ہیں ۔
جنات سانپ کی شکل میں گھروں میں بھی رہتے ہیں
================
بخاری مسلم اور ابوداود میں ابو لبابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے، مگر جس سانپ کی پشت پر دو سفید خط ہوں، یا وہ سانپ جس کی دُم بہت چھوٹی ہو، اس کو فورََا مار ڈالنا چاہیئے ۔ یہ دونوں قسم کے سانپ بہت ہی خطرناک ہیں۔
دل میں داخل ہونے کے چور دروازے، جن سے شیطان کے لشکر اولاد آدم پر حملہ آور ہوتا ہے۔
==============
شیطان کے لشکر چونکہ 24 گھنٹے انسان کو گمراہ اور اغوا کرنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں ۔ اس لئے شیاطین کی مدافعت سے ایک آن بھی غفلت انتہائی مضر ہے ۔ پھر چونکہ شیطان کا حملہ انسان پر ظاہری دشمن کی طرح کھلم کھلا نہیں ہوتا، اس لئے سب سے پہلے ان دروازوں اور راستوں سے واقفیت ضروری ہے جہاں سے وہ حملہ اور ہوکر کائنات قلب کو تاخت وتاراج کردیتا ہے۔
یوں تو انسان کے دل میں شیطان کے لئے بہت سے دروازے ہیں، پھر بھی ان میں چند بڑوں بڑوں کا ذکر حسب ذیل ہے۔
حسد اور حرص
=========
حسد اور حرص میں انسان اندھا اور بہرا ہوجاتا ہے ۔ شیطان جب ان دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں کا احساس کسی قلب میں پاتا ہے تو اس کو دل کو تباہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے - اور وہ انسان کے دل کو گناہوں کے میدان میں لڑھکاتا پھرتا ہے۔ جس وقت نوح علیہ السلام کشتی میں سوار ہوئے تو شیطان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دنیا میں لوگ پانچ باتوں سے ہلاک ہوئے ہیں میں تین باتیں اپ کو بتائے دیتا ہوں ۔ فورََا وحی آئی کہ شیطان سے دو باتیں تو پوچھ لو، باقی تین باتیں آپ سے غیر متعلق ہیں ۔ شیطان نے کہا ان میں سے ایک تو حسد ہے ، حسد کی وجہ سے میں بارگاہ الہٰی سے مردود و ملعون ہوا، اور دوسری چیز حرص ہے، اگر آدم [علیہ السلام] جنت میں ہمیشہ رہنے کی حرص نہ کرتے تو ان کو جنت سے نہ نکالا جاتا۔
غضب اور شہوت
==========
یہ دونوں چیزیں بھی قلب بنی آدم سے شیطان کے داخلے کے اہم دروازے ہیں ۔ غضب اور غصہ کی وجہ سے انسان کی عقل کمزور ہوجاتی ہے ۔ شیطان نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہا کہ جب انسان غصہ ہوتا ہے تو میں اس کے جسم میں دوڑا دوڑا پھرتا ہوں۔
بسیار خوری
=======
شکم سیر ہوکر کھانا بھی شیطانی آفتوں میں سے ایک آفت ہے۔ کیونکہ شکم سیری سے شہوت پہدا ہوتی ہے، شہوت شیطان کا ایک خاص ہتھیار ہے۔ ابلیس یحیٰی علیہ السلام کے پاس متشکل ہوکر آیا اور اس نے بیان کیا، کہ میں شہوت کے ذریعہ سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کیا کرتا ہوں ۔
علماء باطن نے بسیار خوری کے نقصانات تحریر کئے ہیں [1]دل سے خدا کا خوف نکل جاتا ہے [2]دل میں مخلوق پر رحمت نہیں رہتی کیونکہ وہ دوسروں کو اپنی طرح شکم سیر سمجھنے لگتا ہے [3]شکم سیری سے نماز و عبادت گراں محسوس ہوتی ہے [4]حکمت کا کلام سُن کر دل پر رقّت طاری نہیں ہوتی [5]ایسی حالت میں اگر وہ کسی کو نصیحت کرتا ہے تو لوگوں کے دلوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا [6]بسیار خوری سے جسمانی امراض پیدا ہوتے ہیں۔
سامان زیب و زینت
===========
اگر شیطان کسی کے دل میں مکان لباس اور گھر کے سازوسامان کی محبت دیکھتا ہے تو وہ انسان کے دل میں ان چیزوں کی محبت کے انڈے دے دیتا ہے، ان انڈوں سے جب بچے نکل آتے ہیں تو مکان کی تعمیر کرنے مکان کی آرائش کی دھن میں لگ جاتا ہے، یہاں تک کہ اس حالت میں اسے موت آکر پکڑ لیتی ہے ۔
شیطان کا دل پر تسلط اور اس کا دفعیہ
وسوسہ اور الہام کا فرق
========
انسان سے نیک یا بد اعمال کی صدور نوعیت یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے دل میں ایک خیال پیدا ہوتا ہے ۔ خیال کے بعد اس کام کی رغبت پیدا ہوتی ہے ۔ رغبت عزم اور ہمت کو کام میں لاتی ہے ۔ آخر نیت اعضاء کو حرکت میں لا کر اس فعل کا وقوع عمل میں لاتی ہے ۔ پھر جس طرح اعمال خیر اور شر کی نوعیت مختلف ہے، اسی طرح انسان کے دل میں کسی کام کا خیال جو اولََا پیدا ہوتا ہے، وہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہے ۔ اگر وہ خیال کسی اچھے کام کا ہے تو اصطلاح شرح میں اس کا نام ""الہام"" ہے ۔ اور اگر وہ بُرے کام سے متعلق ہے، تو اس کو ""وسوسہ"" کہا جاتا ہے۔
الہام یا وسوسہ کا باعث کیا ہے؟
===========
انسان کے دل میں شروع شروع میں جو خطرات یا خیالات پیدا ہوتے ہیں، ان کے محرک قدرت نے جدا جدا پیدا کئے ہیں، حدیث شریف میں ہے__:
"دل میں دو قسم کے وسوسہ پائے جاتے ہیں فرشتوں کی طرف سے بھی اور شیطان کی طرف سے بھی ۔ فرشتے کے وسوسہ سے خیر کی رغبت ہوتی ہے اور شیطان کے وسوسہ سے بُرائی کی ۔ پس جس وقت شیطانی وسوسہ محسوس ہو تو اعوذ با اللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا چاہیئے"۔
چونکہ دونوں قوتیں مساوی حیثیت سے قلب انسانی پر اثرانداز رہتی ہیں، اس لئے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کی انسان قدرتی طور پر اسی کھینچاتانی میں مبتلا ہے ۔ حدیث شریف میں اسی کھینچاتانی کی طرف اشارہ ہے__:
"موءمن کا دل اللہ تعالٰی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان رہتا ہے"۔
پیدائشی طور پر چونکہ قلب انسانی میں آثار روحانی و شیطانی قبول کرنے کی صلاحیت و استعداد مساوی طور پر ہے، کسی ایک جانب کو دوسرے پر ترجیح نہیں ۔ اس لئے اتباع شہوات یا مخالفت کے اعتبار سے ہی ایک جہت کو غالب یا مغلوب کہا جاسکتا ہے ۔ پس اگر کوئی غضب و شہوت کے اقتضا سے کسی کام کا مرتکب ہوگا، تو شیطان خواہش نفسانی کی راہ سے انسان پر غالب آجائے گا ۔ اس صورت میں قلب شیطان کا ملجا و مسکن بن جائے گا ۔ اور اگر شہوت کو مغلوب کرکے فرشتوں کے اخلاق اختیار کرےگا، تو اس صورت میں انسان کا دل فرشتوں کی منزل اور مستقر ہوگا ۔ مگر قلب میں چونکہ صفات بشریہ [یعنی شہوت، غضب، حرص، طمع وغیرہ جو خواہش نفسانی کی فروعات میں سے ہیں] موجود ہیں اس لئے ضروری اور لازمی طور پر قلب شیطانی وسوسہ کی گزرگاہ ضرور بنے گا ۔ حضور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے__:
"ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے" ۔ عرض کیا گیا، حضور کے ساتھ بھی ہے؟ فرمایا، "ہاں لیکن وہ خدا کی مدد سے مقہور ہے وہ ہمیشہ اچھی بات کی ترغیب دیتا ہے"۔
شیطان اسی وقت دل میں وسوسہ ڈالتا ہے، جب وہ ذکر الٰہی سے غافل ہو ۔ اگر قلب ذکر اللہ کی طرف راغب ہے، تو شیطان کو وسوسہ ڈالنے کا موقع نہیں ملتا وہاں سے چل دیتا ہے۔ اس وقت فرشتہ مداخلت کرتا ہے ۔ غرض شیاطین اور فرشتوں کے لشکروں میں ہر وقت کش مکش رہتی ہے ۔ قلب بہرصورت کسی نہ کسی ایک کا مطیع و منقاد ہوجاتا ہے ۔ یا تو فرشتے ہی اس کو مفتوح و مسخّر کر لیتے ہیں، یا شیاطین ہی اس کے مالک بن بیٹھتے ہیں ۔ جن لوگوں کے دلوں کا مالک شیطان بن جاتا ہے، ایسے لوگوں کے دل ہر وقت وسوسوں سے پُر رہتے ہیں، اس قسم کے لوگ ہمیشہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں ۔ ایسی حالت میں جب تک شیطان کے زور کو گھٹایا نہ جائے، قلب کی اصلاح دُشوار ہے ۔ البتہ جو لوگ شہوات کو اپنے اُوپر غالب نہیں آنے دیتے بلکہ اس کو مغلوب کرکے رکھتے ہیں، ان لوگوں پر شیطان کا داو چلنا دُشوار ہے ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ایسے ہی بندوں کے متعلق ہے__:
"جو میرے بندے ہیں، ان پر تیرا کوئی زور نہیں"
وسوسہ دور کرنے کا طریقہ
=========
ظاہر ہے کہ دل میں شیطانی وسوسہ ہر وقت آتا رہتا ہے ۔ جب اس وسوسہ کے سوا دل میں کوئی دوسری بات نہ ہو، کیونکہ جب ایک بات کا گزر دل میں ہوتا ہے، تو اس سے پہلے کی بات دل سے نکل جایا کرتی ہے، اسی لئے شیطانی وسوسہ دور کرنے کی ایک تدبیر یہ ہے کہ جب کسی شخص کے دل میں کسی بُری بات کا گزر ہو، تو وہ دل کو کسی دوسری طرف متوجہ کرے، یہ ترکیب اگرچہ دفعیہ وسوسہ کے لئے سہل ہے مگر بھر بھی یہ اندیشہ ہے کہ اس دوسری بات کا بھی وہی انجام نہ ہو جو پہلی بات کا ہوا ہے ۔ اس لئے یہ صورت دفعیہ وسوسہ کے لئے سو فیصد کامیاب نہیں، البتہ ذکر الہٰی ایک چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے شیطان کی مجال نہیں کہ دل کے قریب قدم رکھ سکے ۔ خدا تعالٰی نے بھی دفعیہ وسوسہ کی یہی تدبیر بتائی ہے__:
"خدا سے ڈرنے والے لوگوں کو اگر شیطان مس کرلیتا ہے تو وہ خدا کا ذکر کرتے ہی صاحب بصیرت بن جاتے ہیں"۔
شیطان انسان کے دل پر چاروں طرف سے چھایا رہتا ہے ، جب قلب ذکر الہٰی کرتا ہے تو شیطان سکڑ کر دبک جاتا ہے ۔ ذکر اللہ اور وسوسہ میں دن اور رات یا روشنی اور اندھیرے کا سا تضاد ہے ۔ ذکر الہٰی کے سامنے شیطان ٹک نہیں سکتا ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضرت عمرو بن العاص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ شیطان نماز اور قراءت قران میں وسوسہ ڈالتا ہے مجھ میں اور میری نماز میں حائل ہوجاتا ہے، توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شیطان کو خنزب کہتے ہیں جب وہ تجھے معلوم ہو، تو اعوذ با اللہ من الشیطان الرجیم پڑھ، اور اپنی بائیں طرف 3 دفعہ تھوک دے ۔ حضرت عمر بن عاص کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ ہدایت پر عمل کیا تو وہ بات جاتی رہی ۔
حدیث میں وارد ہے "وضو میں بہکانے والا بھی ایک شیطان ہے، اس کا نام ولہان ہے، اس سے خدا تعالٰی کی پناہ چاہو"٫
خطرات قلب
======
انسان کے قلب پر جو خطرات گزر چکے ہیں وہ 3 قسم کے ہوتے ہیں
[1] ایک وہ جو انسان کو نیکی پر آمادہ کرے۔ ایسے خطرات یقینََا الہام من جانب الہٰی ہوتے ہیں۔
[2]دوسرے وہ جو انسان کو بُرائی پر اُکسائیں، ایسے خطرات یقینََا وساوس شیطانی ہوتے ہیں ۔
[3]تیسری قسم وہ خطرات ہیں جن کے متعلق یہ معلوم نہ ہو سکے کہ وہ فرشتہ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے۔ ایسے خطرات میں انسان کو بڑا دھوکہ ہوتا ہے ۔ ان خطرات میں نیک و بد کی تمیز دشوار ہے، اس لئے کہ نیک بندوں کو تو صاف طور پر شیطان ورغلا نہیں سکتا البتہ شر کو خیر کی صورت میں لاکر ان کے سامنے کردیتا ہے ۔ اور یہ شیطان کا بہت بڑا فریب ہے جس سے اکثر لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں ۔
مثلََا شیطان کسی عالم کو عوام کی غفلت و جہالت کا حال سُنا کر وعظ گوئی پر آمادہ کرتا ہے پھر اس کے دل میں ڈالتا ہے کہ اگر عمدہ کپڑے پہن کر اور خاص لب و لہجہ بنا کر تقریر نہ کروگے تو عوام تمہاری تقریر سے متاثر نہ ہوں گے ۔ چنانچہ عالم انہی باتوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ ان باتوں میں مبتلا ہونے کے بعد اس کو اپنی تعظیم کا شوق، خدام اور معتقدین کی کثرت اور اپنے علم و مرتبہ پر غرور، اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا مرض پیدا ہوجاتا ہے ۔ عالم صاحب کی تمام کری کرائی محنت ریا و نمود و تکبر کی نذر ہوجاتی ہے ۔ غرض علماء عباد زہاد کو فریب میں مبتلا کرنے کے شیطان کے دھنگ اور ہی ہیں ۔
شیطان کے دفعیہ کی تدبیر کیا ہے؟
==========
شیطان کے شر سے دل کو بچانے کی ترکیب یہی ہے کہ دل میں شیطان کے داخلہ کے تمام دروازے بند کردیئے جائیں ۔ اور دل کو تمام مذموم صفات سے پاک کرلیا جائے ، اس مختصر میں اتنی گنجائش نہیں کہ ان کا تذکرہ پیش کیا جائے ، بہرحال اس موقع پر اتنا جاننا ضروری ہے کہ جب دل ان تمام مذموم صفات سے پاک و صاف ہو جائے گا تو پھر شیطان دل میں جم کر نہیں بیٹھ سکے گا ۔ چونکہ اللہ کا ذکر شیطان کو قریب آنے سے روکتا ہے، اس لئے شیطان ہیرا پھیری کرتا ہی نظر آئے گا ۔
بہرحال جہاں شیطان کا دفعیہ لاحول ولا قوۃ الا با اللہ العلی العظیم - یا- اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم سے ہوجاتا ہے وہاں اور بھی دعائیں اس بارے میں مذکور ہیں ۔ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ ایک شیطان حضور سرورعالم کے سامنے نماز کی حالت میں آگ کی مشعل لے کر کھڑا ہوا کرتا تھا ، اور قراءت و استغفار سے نہ جاتا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا، آپ یہ دعا پڑہیئے __:
اعوذ بکلمات اللہ التامات التی لا یجاوز ھن یرو لا فا جو من من شر ما یلج فی الارض وما یخرج منھا وما ینزل من السماء وما یعرج فیھا و من فتن الیل و النھار و من طروق الیل والنھار الا طارق یطرق بخیر یا رحمٰن ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دُعا کو پڑھا ، اس مردُود کی شمع گُل ہوگئی اور وہ اوندھے منہ گِر پڑا۔
شیطان کے مکرو فریب کے جال
========
قرآن پاک میں اللہ تعالٰی نے ابلیس کا قول نقل کیا ہے__:
فبما اغویتنی لا قعدون لهم صراطك المستقيم ثم لا تلينهم من بين ايديهم و من خلفهم وعن شمائلهم ولا تجدو اكثرهم شاكرين ۔
"تو جیسا تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں بیٹھوں گا ان کی ناک میں تیری سیدھی راہ پر، پھر ان پر آوں گا آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اور نہ پائے گا تو ان میں سے اکثر کو شکرگزار"۔
اس آیت میں "من بین ایدھم" کی تفسیر میں مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ اس سے عرض یہ ہے کہ، میں ایسی طرف سے آوں گا جہاں سے لوگ اسے دیکھ نہ سکیں ۔
اور "من خلفھم" سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی کی تفسیر کے مطابق شیطان کی غرض یہ ہے کہ، میں دنیا کو آراستہ پیراستہ کرکے ان کے سامنے پیش کرکے ان کو رغبت دلاوں گا ۔ مزید فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ، میں آخرت کے بارے میں ان کے دلوں میں شک ڈالوں گا اور ان کو آخرت سے دُور کردوں گا ۔
اور "عن ایمانھم" کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ، شیطان کی غرض یہ ہے کہ، ان پر ان کا دین مشتبہ کردوں گا، اور ابو صالح کے قول کے مطابق حق بات میں ان کو شک میں ڈالوں گا ۔
اور "عن شمائلھم" کے معنی یہ ہیں کہ باطل کی ترغیب دے کر ان میں باطل کو رائج کردوں گا ۔ زمخشری کہتے ہیں کہ شیطان کی غرض یہ ہے کہ، میں سب طرف سے آکر تم کو فریب دوں گا۔
[] شیطان کا ایک مکر یہ ہے کہ وہ انسان کو ایسی جگہ لا کھڑا کردیتا ہے جن میں انہیں سمجھا دیتا ہے کہ تیرا نفع انہی میں ہے، پھر انجام کار ایسے ٹھکانوں پر پہنچا دیتا ہے، جہاں اس کی تباہی ہو، اور آپ اس سے کنارہ کش ہوجاتا ہے اور اس کو پھنسا کر کھڑا ان کے رنج سے خوش ہوتا ہے ۔ اور ان سے تمسخر کرتا ہے، مثلََا ان کو چوری ، زنا ، قتل کا حکم دیتا ہے ، پھر ان کو رُسوا کرتا ہے ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے__:
"اور جس وقت سنوارنے لگا شیطان ان کی نظر میں ان کے کام، اور بولا کوئی غالب نہ ہوگا تم پر آج کے دن، اور میں رفیق ہوں تمہارا، پھر جب سامنے ہوئیں تو دونوں جماعتیں الٹا پھرا اپنی ایڑیوں پر، اور بولا میں تمہارے ساتھ نہیں، میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں ڈرتا ہوں اللہ سے، اور اللہ کا عذاب سخت ہے"۔
[] شیطان کا مکر یہ ہے کہ وہ انسان پر اس قسم کا جادو کردیتا ہے کہ اس کو سب سے بڑی مضر چیز نافع ترین نظر آنے لگتی ہے ۔ شیطان امر باطل کو اس طرح چکنا چپڑا کرکے خوبصورت شکل میں پیدا کرتا ہے کہ، حق بات خلاف واقعہ نظر آنے لگتی ہے ۔ عقلوں کو اس درجہ مسخ کردیتا ہے کہ، حق بات سمجھائی نہیں دیتی ہے ۔
اسی ابلیس نے آدم وحوا کو جنت سے نکلوایا، اور قابیل کے ہاتھوں ہابیل کو قتل کروایا، حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو غرق کرایا، قوم عاد کو تیز آندھی سے تباہ کرایا، حضرت صالح علیہ السلام کی قوم چیخ سے ہلاک ہوئی، حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو زمین میں دھنسادیا، اور ان پر سنگباری کرائی، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرادیا ۔ یہی ملعون سب کا ساتھی تھا اور غزوہ بدر میں مشرکین کا یار تھا۔
[] ایک مکر شیطان کا یہ ہے، کہ وہ انسان کے خون میں داخل ہوکر نفس کے ساتھ مل جاتا ہے اور جس چیز کی رغبت اور محبت نفس میں پاتا ہے اس کو معلوم کرکے اسی راہ سے داخل ہوتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ آدم و حوا علیھم السلام کی یہ خواہش تو نہ تھی کہ جنت میں فرشتہ بن کر رہیں، لیکن یہ خواہش ضرور تھی کی ان کو بادشاہی عطا ہوجائے، شیطان ان دونوں کے پاس اسی راستہ سے اکر ان کو جنت سے نکلوانے میں کامیاب ہوا تھا ۔ شیطان نے ان سے کہا تھا، "کیا میں تم کو بتادوں درخت ہمیشہ زندہ رہنے کا، اور بادشاہی کا جو پرانی نہ ہو"۔ شیطان کے اس فعل سے اس کے پیرو کاروں نے یہ سیکھا ہے کہ انہوں نے بعض حرام چیزوں کے ایسے نام تجویز کئے ہیں جن کے معانی نفس کو بہت ہی خوشنما معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلََا شراب کا نام ""ام الافراح"" [خوشیوں کی جڑ]، سُود کا نام ""معاملہ""، محصول کا نام ""حقوق شاہی""، فسق کی مجلسوں کانام ""مجلس نشاط"" وغیرہ ۔
[] شیطان کا ایک عجیب مکر یہ ہے کہ وہ نفس کی قوتوں میں پیش قدمی اور بلند ہمتی غالب دیکھتا ہے، تو جس چیز کا حکم الہٰی ہوتا ہے،اس کو اس کی اہمیت کے سامنے حقیر اور قلیل کردیتا ہے، اور آدمی کو یہ وہم دلاتا ہے کہ اس قدر کافی نہیں ہے ، اس میں کچھ زیادتی ہونی چاہیئے ۔ اور اگر نفس پر سرکشی غالب دیکھتا ہے، تو ہمت کو مقدور مامور سے کاہل اور سست کردیتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ اس کو بالکل ہی چھوڑ بیٹھتا ہے، یا اس میں کوتاہی کرنے لگتا ہے۔
یعنی کبھی شیطان کسی قوم کو اس درجہ تسفل میں گرادیتا ہے کہ وہ پیغمبر کو قتل کردینا معمولی بات خیال کرتے ہیں اور کبھی اس قدر اونچا کردیتا ہے کہ وہ خدا تعالٰی کے بجائے انبیاء کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔
یہودیوں کو ابلیس نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں اس درجہ گرایا کہ انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو جھٹلایا اور ان کی والدہ پر تہمت لگائی ۔ اور نصاریٰ کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں اس درجہ بڑھایا کہ انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو [نعوذباللہ] خدا کا درجہ دے دیا ہے۔
[] کبھی شیطان ایسا کرتا ہے کہ لوگون کے دلوں میں نکمے خیالات ڈال دیتا ہے ۔ وہ خدا کی باتوں کو تو یقین کا درجہ نہیں دیتے، خدا کے احکام کے مقابلہ میں امور عقلی اور حکمت کو زیادہ یقینی سمجھتے ہیں ۔ "فانوسِ قرآن" سے روشنی حاصل کرنے کی بجائے منطق و فلسفہ یونانی کی روشنی حاصل کرنے کی طرف لوگوں کو لگادیتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ، وہ دین و ایمان سے اس طرح عاری ہوجاتے ہیں جس طرح گندھے ہوئے آٹے میں بال صاف نکل اتا ہے۔
[] ایک مکر شیطان کا یہ بھی ہے کہ، شیطان آدمی کو ایسے لوگوں سے خوش خلقی، خندہ روئی، اور خوش گفتاری کو کہتا ہے جن کی بدی سے بچنا بجز ترش روئی اور روگردانی کے ممکن نہیں ۔ اس خوش خلقی اور خندہ روئی کے بعد آدمی کو ان کی بدی سے بچنا مشکل ہوجاتا ہے ۔
[] ایک مکر شیطان کا یہ بھی ہے کہ شیطان انسان کو اپنے نفس کی عزت و حفاظت کا حکم دیتا ہے، جہاں پروردگار کی خوشی نفس کی ذلت و اہانت میں ہے ۔ مثلََا کفار یا منافقوں سے جنگ، یا بدکاروں اور ظالموں کو امربالمعروف و نہی عن المنکر ہیں، شیطان یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ ان باتوں سے تو اپنے نفس کو ذلت میں ڈال کر دشمنوں کو اپنے اوپر غالب کرنا چاہتاہے، ان کے طعنے اپنے اوپر لینا چاہتا ہے، اس کا انجام یہ ہوگا کہ تیری عزت جاتی رہے گی، اس کے بعد نہ کوئی تیری بات مانے گا نہ تیری سُنے گا۔
اور جس جگہ نفس کی بہتری عزت و حفاظت میں ہوتی ہے، وہاں اپنے نفس کو ذلیل و خوار کرنے کو کہتا ہے۔ مثلََا آدمی کو کہتا ہےکہ رئیسوں کے سامنے ذلیل بنا رہ، اور دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ اس امر کے اختیار کرنے سے تیرے نفس کی عزت ہوگی۔
[] شیطان کا ایک مکر یہ بھی ہے کہ اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے پانسے مقرر کئے ہیں ۔ شریعت اسلام کی رو سے پانسے پھینکنا حرام ہے ۔
[] شیطان کے مکرو فریب میں سے وہ حیلے اور فریب بھی ہیں جو خدا تعالٰی کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرنے یا فرضوں کو ساقط کرنے اور امرونہی کے خلاف کرنے پر شامل ہیں ۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو حیلے مسلمان کے حق کو باطل کرتے ہوں، ان میں سے کوئی بھی درست نہیں۔
[] قرآن مجید میں اصحاب سبت کا حال مذکور ہے۔ یہودیوں کو ہفتہ کے دن شکار کھیلنے کی ممانعت تھی۔ انہوں نے اللہ کے حرام کی ہوئی چیز کو حیلہ کی راہ سے مباح کرلیا ۔ وہ ہفتہ کے روز جال لگا کر چھوڑ دیتے تھے ۔ جو مچھلیاں جال میں پھنس جاتی تھیں ان کو اتوار کےدن صبح کو پکڑ لیتے ۔ اس جرم کی پاداش میں حق تعالٰی نے ان کو بندر بنا دیا ۔ اور کچھ عرصہ عذاب میں رہنے کے بعد سب کے سب مر گئے ۔
[] شیطان نے ہی آتش پرستی، بت پرستی کو رواج دیا ۔ اپنے مکر اور حیلوں بہانوں کے ذریعہ لوگوں کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیا ۔
[] ایک سبب بت پرستی کا یہ بھی ہے کہ شیطان بتوں کے پیٹ میں گھس کر لوگوں سے گفتگو کرتا ہے، غیب یا آئندہ کے حالات جھوٹی سچی اطلاع دیتا ہے ، عوام سمجھتے ہیں کہ بت بات چیت کرتے ہیں ۔ سمجھدار بت پرست اس قسم کی باتوں کو اجرام علویہ کی روحانیات بتاتے ہیں ۔ [اللہ داسی خبائث نه زمونگه حفاظت اُوفرمائیلے کی]
اسی طرح شیطٰن نے بعض مشرکین کو پانی پر پرستش پر لگا دیا ہے ۔ جبکہ بعض مشرکین کو گائے اور دوسرے جانورں کی پُوجا پر لگا رکھا ہے ۔ شیطان مشرکوں سے درختوں کی پُوجا کراتا ہے، جنات کی بھی پُوجا کراتا ہے ۔ طلوع و غروب اور استواء کے وقت آفتاب کو مشرکین سے سجدہ کرواتا ہے، چونکہ ان اوقات میں شیطان سورج سے ملا ہوا ہوتا ہے، اس لئے وہ سجدہ درحقیقت شیطان ہی کو ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حضور سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔
[] ایک مکر شیطان کا یہ ہے کہ وہ لوگوں کو عشق مجازی میں مبتلا کرکے خدا تعالٰی کے عشق حقیقی سے محروم کردیتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے دل معشوق مجازی کی محبت میں مبتلا ہوکر معشوق حقیقی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔
[حق تبارک و تعالٰی نےقرآن مجید میں فرمایا ہے__: "شیطان تمہارا دشمن ہے اس کو دشمن ہی سمجھو شیطان کی جماعت تمہیں اپنی طرف لا کر تم کو دوزخی بنانا چاہتی ہے".
شیطان کے مکرو فریب کے جال اتنے وسیع ہیں کہ اس مختصر سی جگہ میں ان کا بیان کردینا مشکل ہے، آگاہی کے لئے نمونہ کے طور پر مندرجہ بالا پوری تفصیل کا لب لباب آپ کی خدمت میں پیش کردیا ۔ اب تو آپ پر روشن ہوگیا ہوگا کہ ابلیس بنی نوع آدم کا بد ترین دشمن ہے. امید ہے آپ اپنی دعاوں میں ضرور یاد فرمائیں گے اور شیطان کی مضرتوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالٰی کے ہاں ہمارے لئے بھی پناہ مانگ لیجئے۔ شکریہ! بکھرے موتی] (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/10/blog-post_12.html?m=1
No comments:
Post a Comment