Monday, 15 December 2025

علامہ شبیر احمد عثمانی کی ذات نبوت اور روضہ اطہر کی حفاظت

علامہ شبیر احمد عثمانی کی ذات نبوت اور روضہ اطہر کی حفاظت
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمت الله عليه کی پیدائش 11 اکتوبر 1887ء کو بھارت کی ریاست اتر پردیش کے بجنور شہر میں ہوئی۔
علامہ عثمانی مولنا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے۔ 1325ھ بمطابق 1908ء میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دورہ حدیث کے تمام طلبہ میں اول آئے۔
فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند میں فی سبیل اللہ پڑھاتے رہے۔ متوسط کتابوں سے لے کر مسلم شریف اور بخاری شریف کی تعلیم دی۔ مدرسہ فتح پور دلی تشریف لے گئے اور وہاں صدر مدرس مقرر ہوئے۔
1348ھ بمطابق 1930ء میں آپ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل تشریف لے گئے اور وہاں تفسیر و حدیث پڑھاتے رہے۔
1354ھ بمطابق 1936ء میں دار العلوم دیوبند میں صدر مہتمم کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔‘‘
علامہ شبیر احمد عثمانی کی سنہری خدمات میں سے صرف دوخدمتیں ایک تحفظ ذات رسول یعنی تحفظ ختم نبوت اور تحفظ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی حوالےسے خدمات کا تذکرہ کروں گا،
۱۳۴۳ھ میں سعودی فرماں روا عبدالعزیز بن سعود کی حکومت نے مذہبی حوالے سے جو متنازع اقدامات کئے، ان میں سے جنت المعلّٰی اور جنت البقیع کے مزاراتِ مقدسہ پر بنے ہوئے قُبّوں کی مسماری کا معاملہ بھی تھا۔ اہلِ سعود کا یہ اقدام یہیں تک محدود نہیں تھا، بلکہ اگلے مرحلے میں گبندِ خضراء کی مسماری بھی ان کا ہدف تھا، اس دوران اُمتِ مسلمہ میں سعودی حکومت کے بارے میں بڑے ناپسندیدہ جذبات پیدا ہوگئے اور دنیا بھر کے علماء اور مذہبی پیشواؤں نے ان کی فہمائش کی کوشش کی، جس کے نتیجہ میں شاہ عبدالعزیز بن سعود نے اسی سال حج کے موقع پر اسی موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں علماء ہند میں سے حضرت مفتی اعظم ہند مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اور چند دیگر علماء کو بطور خاص مدعو کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں سلطان عبدالعزیز بن سعود نے اپنے موقف کو توحید پرستی پر مبنی قراردیتے ہوئے کسی کی پرواہ نہ کرنے کا عزم ظاہر فرمایا، تو جوابی تقریر کے طور پر حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے شاہ ابنِ سعود کے نقطۂ نظر کی جو علمی تنقیح ، تردید اور تصحیح فرمائی، اس سے نہ صرف یہ کہ سعودی فرماں روا لاجواب ہوگئے، بلکہ مزید اقدامات جن میں گنبدِ خضراء کی توہین آمیز مسماری بھی شامل تھی، اس سے باز آگئے، اس طرح گنبدِ خضراء کا مہبطِ انوار منظر‘ علماء دیوبند کے سرخیل، بانیِ پاکستان علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ ہے,
خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے متوسلین میں سے حضرت مولنا قاضی شمس الدین درویش رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ غلغلہ برزلزلہ المعروف بہ جوہر تحقیق میں لکھتے ہیں کہ
کہ۱۳۴۳ھجری
 میں سلطان ابن سعود نے حجازِ مقدس کی سرزمین پر قبضہ کرلیا اور حرمین شریفین کے جنتِ معلی اور جنتِ بقیع کے مزاروں کے قُبّے گرادیئے، جس کی وجہ سے عام طور پر عالمِ اسلام کے مسلمانوں میں سخت ناراضگی پیدا ہوگئی تو سلطان نے ۱۳۴۳ ہجری کے موقع حج پر ایک مؤتمر منعقد کی، جس میں ہندستان کے علماء کی طرف سے حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ (صدر جمعیت علماء ہند دہلی)، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی (رحمہم اللہ) اور کچھ دیگر علماء بھی شامل ہوئے۔
سلطان ابنِ سعود کی تقریر
اس موقع پر سلطان ابنِ سعود نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
(الف) ’’چار اماموں کے فروعی اختلافات میں ہم تشدُّد نہیں کرتے، لیکن اصل توحید اور قرآن وحدیث کی اتباع سے کوئی طاقت ہمیں الگ نہیں کرسکتی، خواہ دُنیا راضی ہو یا ناراض۔‘‘
(ب) ’’یہود ونصاریٰ کو ہم کیوں کافر کہتے ہیں؟ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ غیراللہ کی پرستش کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا إِلَی اللہِ زُلْفٰی‘‘ (یعنی ہم ان کی پوجا وعبادت اللہ تعالیٰ کے تقرُّب ورضا حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں) تو جو لوگ بزرگانِ دین کی قبروں کی پرستش اور ان کے سامنے سجدے کرتے ہیں، وہ بت پرستوں ہی کی طرح کافر ومشرک ہیں۔
(ج) ’’جب حضرت عمرؓ کو پتہ چلا کہ کچھ لوگ وادیِ حدیبیہ میں شجرۃ الرضوان کے پاس جاکر نمازیں پڑھتے ہیں تو حضرت عمرؓ نے اس درخت کو ہی کٹوادیا تھا کہ آئندہ خدانخواستہ لوگ اس درخت کی پوجا نہ شروع کردیں۔‘‘سلطان کا مطلب یہ تھا کہ قُبّے گرانا بھی درختِ رضوان کو کٹوانے کی طرح ہی ہے۔
ہندوستان کے تمام علماء نے یہ طے کیا کہ ہماری طرف سے شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندیؒ سلطان ابن سعود کی تقریر کا جواب دیںگے۔
مولانا عثمانیؒ کی ایمان افروز تقریر
مولانا عثمانیؒ نے پہلے تو اپنی شاندار پذیرائی اور مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا، اس کے بعد فرمایا:
(الف):- ’’ہندوستان کے اہلِ سنت علماء پوری بصیرت کے ساتھ تصریح کرکے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر پورا زور صرف کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل اتباع میں ہی ہر کامیابی ہے، لیکن کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مواقعِ استعمال کو سمجھنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے صائب رائے اور صحیح اجتہاد کی اشد ضرورت ہے:
۱:- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ سے نکاح فرمایا اور اس بات کا بالکل خیال نہ رکھاکہ دنیا کیا کہے گی؟ دوسری طرف خانہ کعبہ کو گرا کر بنائے ابراہیمی پر تعمیر کرنے سے نئے نئے مسلمانوں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے، تاکہ دنیا والے یہ نہ کہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خانہ کعبہ ڈھادیا۔ دونوں موقعوں کا فرق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادِ مبارک پر موقوف ہے۔
۲:- اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: ’’جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ‘‘ (یعنی کفار ومنافقین سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو) ایک طرف تو اس حکمِ خداوندی کا تقاضا ہے کہ کفار ومنافقین کے ساتھ سختی کی جائے اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھا دی، پھر صحابہؓ نے عرض کیا کہ: منافقین کو قتل کردیا جائے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات منظور نہ فرمائی ’’خشیۃَ أن یقول الناسُ إن محمدًا یقتل أصحابَہ‘‘ (یعنی اس اندیشہ کے پیشِ نظر کہ لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوںکو قتل کرتے ہیں) حالانکہ یہ دونوں باتیں ’’وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ‘‘ سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتیں تو اس فرق کو سمجھنے کے لیے بھی مجتہدانہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہما وشما کے بس کی بات نہیں اور ایسے مواقع پر فیصلہ کرنے کے لیے بڑے تفقُّہ اور مجتہدانہ بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے کہ نص کے تقاضے پر کہاں عمل کیا جائے گا اور کس طرح عمل کیا جائے گا؟ یہ تفقُّہ اور اجتہاد کی بات ہے۔
(ب):- سجدۂ عبادت اور سجدۂ تعظیم کا فرق بیان کرتے ہوئے مولانا عثمانی ؒ نے فرمایا:
’’اگر کوئی شخص کسی قبر کو یا غیر اللہ کو سجدۂ عبادت کرے تو وہ قطعی طور پر کافر ہوجاتاہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر سجدہ سجدۂ عبادت ہی ہو-جو شرکِ حقیقی اور شرکِ جلی ہے- بلکہ وہ سجدۂ تحیت بھی ہوسکتا ہے، جس کا مقصد دوسرے کی تعظیم کرنا ہوتا ہے اور یہ سجدۂ تعظیمی شرکِ جلی کے حکم میں نہیں ہے۔ ہاں! ہماری شریعت میں قطعاً ناجائز ہے اور اس کے مرتکب کو سزا دی جاسکتی ہے، لیکن اس شخص کو مشرک قطعی کہنا اور اس کے قتل اور مال ضبط کرنے کو جائز قرار نہیں دیاجاسکتا۔ خود قرآن پاک میں حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے سجدہ کرنے اور حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں اور والدین کے سجدہ کرنے کا ذکر موجود ہے اور مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سجدہ سے معروف سجدہ (زمین پر ماتھا رکھنا) ہی مراد لیاہے اور پھر اس کو سجدہ ٔ تعظیمی ہی قرار دیا ہے۔ بہرحال اگر کوئی شخص کسی غیر اللہ کو سجدۂ تعظیمی کرے تو وہ ہماری شریعت کے مطابق گنہگار تو ہوگا، لیکن اسے مشرک، کافر اور مباح الدم والمال قرار نہیں دیاجاسکتا اور اس بیان سے میرا مقصد سجدۂ تعظیمی کو جائز سمجھنے والوں کی وکالت کرنا نہیں، بلکہ سجدۂ عبادت اور سجدۂ تعظیمی کے فرق کو بیان کرنا ہے۔ رہا مسئلہ قُبّوں کے گرانے کا، اگر ان کا بنانا صحیح نہ بھی ہو تو ہم قُبّوں کو گرادینا بھی صحیح نہیں سمجھتے۔ امیر المؤمنین ولید بن عبد الملک عبشمی (اُموی) نے حاکمِ مدینہ حضرت عمر بن عبد العزیز عبشمی کو حکم بھیجا کہ امہات المؤمنین کے حجراتِ مبارکہ کو گرا کر مسجدِ نبوی کی توسیع کی جائے اور حضرت عمر بن عبد العزیز عبشمی نے دوسرے حجرات کو گراتے ہوئے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ بھی گرادیا، جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کی قبریں ظاہر ہوگئیں تو اس وقت حضرت عمر بن العزیزؒ اتنے روئے کہ ایسے روتے کبھی نہ دیکھے گئے تھے، حالانکہ حجرات کو گرانے کا حکم بھی خودہی دیا تھا۔ پھر سیدہ عائشہؓ کے حجرے کو دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیا اور وہ حجرۂ مبارکہ دوبارہ تعمیر ہوا۔
اس بیان سے میرا مقصد قبروں پر گنبد بنانے کی ترغیب دینا نہیں، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ قبورِ اعاظم کے معاملے کو قلوب الناس میں تاثیر اور دخل ہے جو اُس وقت حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے بے تحاشا رونے اور اس وقت عالمِ اسلام کی آپ سے ناراضگی سے ظاہر ہے۔
(ج) :- حضرت عمرؓ نے درخت کو اس خطرہ سے کٹوادیا تھا کہ جاہل لوگ آئندہ چل کر اس درخت کی پوجا نہ شروع کردیں۔ بیعتِ رضوان ۶ ہجری میں ہوئی تھی اور حضور علیہ السلام کا وصال پُر ملال ۱۱ ؍ہجری میں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفۂ اول کے عہدِ خلافت کے اڑھائی سال بھی گزرے، لیکن اس درخت کو کٹوانے کا نہ حضور علیہ السلام کو خیال آیا، نہ صدیق اکبرؓ کو۔ ان کے بعد حضرت عمرؓ کی خلافت راشدہ قائم ہوئی، لیکن یہ بھی متعین نہیں ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی دس سالہ خلافت کے کون سے سال میں اس درخت کے کٹوانے کا ارادہ کیا۔ گو حضرت عمرؓ کی صوابدید بالکل صحیح تھی، لیکن یہ گنبد تو صدیوں سے بنے چلے آرہے تھے اور اس چودھویں صدی میں بھی کوئی آدمی ان کی پرستش کرتاہوا نہیں دیکھا گیا۔
(ہ):- رہا وہاں نماز پڑھنا، تو حدیثِ معراج میں آتاہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے حضور علیہ السلام کو چار جگہ براق سے اُترکر نماز پڑھوائی، پہلے مدینہ میں اور بتایا کہ یہ جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی ہے ، دوسرے جبل طور پر کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا، پھر مسکنِ حضرت شعیب ؑپر، چوتھے بیت اللحم پر جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ (نسائی شریف، کتاب الصلوٰۃ، ص:۸۰، مطبع نظامی، کانپور، ۱۲۹۶ھ)
۱:- پس اگر جبلِ طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھوائی گئی کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام کیاتھا، تو جبلِ نور پر ہم کو نماز سے کیوں روکا جائے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی پہلی وحی حضور علیہ السلام پر آئی تھی؟
۲:-مسکنِ شعیبؑ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھوائی گئی تو کیا غضب ہوجائے گا جو ہم مسکنِ خدیجۃ الکبریٰؓ پر دو نفل پڑھ لیں؟ جہاں حضور علیہ السلام نے اپنی مبارک زندگی کے اٹھائیس نورانی سال گزارے تھے۔
۳:- جب بیت اللحم مولدِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضور علیہ السلام سے دو رکعت پڑھوائی جائیں تو اُمتِ محمدیہ کیوں مولدِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دو رکعت پڑھنے سے روکی جائے؟ جبکہ طبرانی نے مقام مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’أنفس البُقاع بعد المسجد الحرام في مکۃ‘‘ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے بعد مقام مولدِ نبی کریم علیہ التسلیم کو کائناتِ ارضی کا نفیس ترین ٹکڑا قرار دیا ہے۔
۴:- مسکنِ شعیبؑ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پناہ لی تھی، تو اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو نفل پڑھوائے گئے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی جو ہم لوگ غارِ ثور -جہاں حضور علیہ السلام نے تین دن پناہ لی تھی- دو نفل پڑھ لیں؟
سلطان ابنِ سعود کا جواب
مولانا عثمانی ؒ کے اس مفصل جواب سے شاہی دربار پر سناٹا چھا گیا۔ آخر سلطان ابنِ سعود نے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ:
’’میں آپ کا بہت ممنون ہوں اور آپ کے بیان اور خیالات میں بہت رِفعت اورعلمی بلندی ہے، لہٰذا میں ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتا۔ ان تفاصیل کا بہتر جواب ہمارے علماء ہی دے سکیں گے، ان سے ہی یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔‘
مولناامیرالزماں کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کےرسالہ،، فتنہ مرزائیت،،کی تقریظ میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں   
علمائے دیوبند اور فتنہ قادیانیت
 حضرات علمائے دیوبند ایک ٹھوس تعلیمی کام میں مشغول ہنگاموں اور پلیٹ فارموں سے دور رہنے کے عادی تھے۔ لیکن اس وقت فتنہ قادیانیت کا شیوع مسلمانوں کو ہزار طرح کے حیلوں سے مرتد بنانے کی اسکیم ناقابل تحمل ہوگئی تو دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور دوسرے اکابر علماء اس پر مجبور ہوئے کہ اس فتنہ کو مسلمانوں میں آگے نہ بڑھنے دیں۔ اس وقت ان اکابر کی ایک جماعت نے دیوبند سے صوبہ سرحد تک ایک تبلیغی دورہ کر کے جابجا اپنی تقریروں سے ان کے مکائد کی قلعی کھولی اور مسلمانوں کو ان کے شر سے آگاہ کیا۔
 قادیانیوں نے اپنے مکرو دجل اور مرزاقادیانی کے ذاتی حالات پر پردہ ڈالنے کے لئے چند علمی مسائل حیات عیسیٰ علیہ السلام، مسئلہ ختم نبوت وغیرہ میں مسلمانوں کو الجھا دیا تھا۔ جن سے درحقیقت مرزاقادیانی کی نبوت اور قادیانی مذہب کا کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر طویل الذیل علمی مسائل میں ہر شخص کو کچھ نہ کچھ بولنے کا موقع مل جاتا ہے اور اسی وجہ سے یہ بحثیں مسلمانوں میں چل پڑھیں۔ حضرات علمائے دیوبند نے تحریری طور پر بھی بیسیوں رسائل ان کے ہر مسئلہ اور ہر موضوع پر تصنیف فرمائے۔ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے قادیانیوں کی تکفیر پر رسالہ اکفار الملحدین، حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں عقیدۃ الاسلام عربی زبان میں اور مسئلہ ختم نبوت (پر خاتم النبیین) فارسی زبان میں تصنیف فرمائے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اسی زمانے میں رسالہ ’’الشہاب‘‘ لکھا۔ حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن چان پوریؒ ناظم تعلیم دارالعلوم نے ایک درجن سے زائد رسالے ہر موضوع پر لکھے۔(
بحوالہ احتساب قادیانیت جلد نمبر 34ص118)
اسی طرح شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نائب امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اپنے خطاب میں فرماتے ہیں کہ
کہ اللہ تبارک و تعالٰی مرتدوں کے مقابلے میں ایک قوم کو کھڑا کرے گا:
ارشاد باری تعالی ہے :
يا ايها الذين امنو من يرتد منكم عن دينه فسوف حياتي الله بقوم يحبهم ويحبونه اذلة على المومنين اعزة على الكافرين يجاهدون فى سبيل الله و لا يخافون لومة لائم ذالك فضل الله يوتيه من يشاء والله واسع عليم
(سوره مائده : آیت نمبر ۵۴) ترجمہ : اے ایمان والو! تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے گا ( مرتد ہو جائے گا، پس جلدی اللہ تعالیٰ اس کے مقابلے میں ایک قوم کو کھڑا کرے گا جسے اللہ محبوب رکھے گا اور وہ اللہ کو محبوب رکھیں گے مومنوں کے حضور پست ہو کر رہیں گے (سرنگوں رہیں گے) کافروں کے مقابلے میں عزت والے ہوں گے (دبدبے والے ہوں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں: یہ
اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے"۔ چنانچه قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کے مطابق واقعہ پیش آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد عرب کے قبائل مرتد ہو گئے اور کچھ نے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کی نبوت کو تسلیم کر لیا ۔ یہ پیشین گوئی کا پہلا حصہ تھا کہ تم میں سے کچھ لوگ مرتد ہوں گے۔ دوسرے حصے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مرتدوں کے مقابلے میں ایک قوم کو کھڑا کرنے کا
اعلان فرمایا اور اس کی چھ صفات بھی بیان فرمائیں۔ ذکورہ چھ صفات سے متصف ایک جماعت حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کی قیادت میں کھڑی ہوئی اور ان مرتدین کا قلع قمع کیا۔ بلاشبہ مندرجہ بالا چھ صفات پر حضرت ابو بکر صدیق
اور ان کی جماعت ہی پورا اتر سکتی تھی کہ یہ بڑے نصیب کی بات ہے: لاہور موچی دروازہ میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا جلسہ تھا اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کی تقریر تھی۔ آپ نے کہیں آیات تلاوت فرمائیں اور کہا آج کے دور میں ان آیات کا مصداق سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور ان کی جماعت ہے۔" (خطاب حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی "، "ختم نبوت کانفرنس ۷ / مئی ۱۹۹۲ء، ایبٹ آباد) (محمد ساجد منکیرہ
مبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت میانوالی خوشاب) (وفات: 13 دسمبر 1949ء) ( #ایس_اے_ساگر )

قرطاس وقلم کا سفر

قرطاس وقلم کا سفر
(مختصر علمی سرگزشت)
از: شکیل منصور القاسمی 
https://muftishakeelqasmi.com/
مادرعلمی دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے معاً بعد، سنہ ۲۰۰۰ء / ۱۴۲۰ھ میں ناچیز تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگیا تھا، میرا پہلا تدریسی مرکز دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد تھا۔ بانی وناظم کی طلب اور حضرت الاستاذ مولانا و مفتی محمد ظفیرالدین صاحب مفتاحی قدس سرہ (مرتب فتاویٰ دارالعلوم دیوبند) کے امرِ عالی پر یہاں حاضری نصیب ہوئی تھی۔ اسی ادارے میں مشہور ادیب، درجنوں علمی و ادبی کتب کے مؤلف، نامور نستعلیقی عالمِ دین حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب رحمہ اللہ (بانی و ناظم) کی خاص علمی وتربیتی قربت ومعیت ورہنمائی حاصل ہوئی، جس نے میرے اندر مطالعہ و تحریر کے ذوق کو نئی جِلا عطا کی، یہ سلسلہ بحمدللہ تقریباً چار سال تک مسلسل چلتا رہا۔
مادرِ وطن کے مدارس میں تدریس کے وہ ایّام، جو عسرت و مشقت سے بھرپور تھے، وہاں بھی قلم سے رشتہ منقطع نہ ہوسکا تھا، بلکہ طالبِ علمی کے زمانے ہی سے کچھ نہ کچھ لکھتے رہنے کا  ایک مستقل روگ مجھے لاحق تھا، جس سے میرے رفقائے کار بخوبی واقف ہیں۔
بعد ازاں بیرونی دنیا میں آمد کے بعد جب قدرے فراغِ بالی میسر آئی تو اپنی حقیر سی تدریسی و علمی مصروفیات کیساتھ ساتھ "تحریر" کی رفتار دوچند ہوگئی، اسی دوران سوشل میڈیا کا عہد شباب بھی آگیا، جس کے نتیجے میں اس طالب علم کی سطحی تحریریں بتدریج حلقۂ علماء تک پہنچنے لگیں اور ایک وسیع تر علمی حلقے سے ربط قائم ہوا۔
کئی برس ایسے گزرے کہ شبانہ روز کی مصروفیات میں نیند محض چند گھنٹوں تک محدود رہی، اہلِ خانہ کی عدم موجودگی، اگرچہ اس کے بے شمار نقصانات تھے، کا ایک مفید پہلو یہ بھی رہا کہ راحت و آرام کا زیادہ تر وقت مطالعہ و تحریر کی نذر ہوگیا، ابتدا میں فقہی سوالات کے جوابات تحریر کرنے پر توجہ مرکوز رہی، پھر دل کے داعیے اور فکری تقاضوں کے تحت بیشتر توجہ تشنۂِ تحقیق موضوعات ومضامین لکھنے کی طرف منتقل ہوگئی، یوں اس عرصے میں بحمد اللہ مضامین و مقالات کا ایک طویل سلسلہ وجود میں آگیا، اور سوال و جواب نوعیت کی تحریریں کم ہوگئیں، اور ان دونوں درمیانی عرصے میں سینکڑوں تحریریں قلمبند ہوئیں۔
حالیہ چند برسوں سے اپنی بے ہنگم  علمی سرگرمیوں کے ساتھ، اکابر ورفقاء کی ہدایت پر باضابطہ "تالیف و تصنیف" کو ترجیحی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار کیا ہے۔خارجیات و سیاسیات کے میدان میں حالاتِ حاضرہ؛ بالخصوص عالمِ اسلام کی زبوں حالی پر آگاہی اور طالب علمانہ خامہ فرسائی میرا پسندیدہ موضوع رہا ہے، زمانے کے حالات وتقاضوں کے مطابق بعض اوقات تیکھے اور چبھتے سیاسی موضوعات پر بھی طبع آزمائی ناگزیر ہوجاتی ہے، اور اسی آہنگ کی بعض تحریریں بھی سامنے آگئی ہیں۔ 
اسی دوران بعض مخلص رفقاء اور اکابر کے نجی علمی و تحقیقی سوالات بھی فوری توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں، جن کی جانب حسبِ ضرورت التفات ناگزیر رہا ہے۔
یوں قریب ڈھائی دہائیوں سے لکھنا پڑھنا (برائے نام ہی سہی) مگر ایک مستقل مشغلہ بنا رہا۔ افسوس کہ اپنی کوتاہی اور غفلت کے باعث اس طویل عرصے میں تحریروں کو محفوظ کرنے کا کوئی منظم اہتمام نہ کرسکا، جس کے نتیجے میں بہت سا قیمتی علمی سرمایہ ضائع ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ مشہور صحافی اور صاحبِ قلم، کرم فرمائے من جناب ایس اے ساگر صاحب مدظلہ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے اپنے بلاگ پر ازخود اس ناچیز کی تحریروں کو نہ صرف شائع کیا بلکہ نہایت حسن واہتمام اور عمدہ ترتیب وتزئین کے ساتھ محفوظ بھی کیا، جس کے باعث بہت سی تحریریں ضائع ہونے سے بچ گئیں، ورنہ اندیشہ تھا کہ وہ سب وقت کی نذر ہوجاتیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنی شایان اجر جزیل سے نوازے، آمین۔
چند برسوں سے بعض مخلص احباب مسلسل اس امر پر اصرار کرتے رہے کہ تحریروں کی موضوعاتی ترتیب و تدوین کا باقاعدہ آغاز کیا جائے۔ میں یہ سوچ کر ٹالتا رہا کہ بے وقعت اور منتشر وبے ہنگم تحریروں کو یکجا کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ لیکن بالآخر برسوں کی پیہم کاوش اور خلوص بھرے اصرار کے بعد میرے محب و مخلص، مفتی توصیف قاسمی صاحب زید مجدہ نے مجھے اس پر آمادہ ہی نہیں بلکہ عملاً مجبور کردیا۔
انہی کی مسلسل محنت، شبانہ روز جدوجہد اور  للہ فی اللہ مخلصانہ قدرد دانیِ  علم کے نتیجے میں آج بحمدللہ ایک مستقل ویب سائٹ قائم ہوچکی ہے، جس پر دہائیوں میں لکھی گئی منتشر تحریروں کو موضوعاتی اور کتابی ترتیب کے ساتھ جمع کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ اس ویب سائٹ کا مقصد محض ویوز کی کثرت یا اشتہارات کے ذریعے مالی منفعت حاصل کرنا ہرگز نہیں؛ کہ یہ میرا مزاج نہیں ہے۔
الحمدللہ یہ ایک خالص علمی و تحقیقی پلیٹ فارم ہے، جہاں ہر تحریر کو اس کے موضوع اور باب کے تحت مرتب کیا جارہا ہے۔ یہ نہایت محنت طلب کام ہے، جسے مفتی توصیف صاحب قاسمی اپنی علمی دیانت، تحقیقی بصیرت اور بے لوث جذبے کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ (جزاه الله عنا أحسن الجزاء وأدام بيننا الحب والوفاء).
خالص اشاعت دین وتبلیغی و دعوتی نقطۂ نظر سے اس ویب سائٹ کا قیام میرے لئے باعثِ مسرت و شادمانی ہے، اسی لئے اپنی علمی کنبے (مرکز البحوث) کے روبرو اس کا تذکرہ مناسب سمجھا۔ آپ حضرات سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ ویب سائٹ ملاحظہ فرمائیں۔ فی الحال چند ہی تحریریں شائع ہوئی ہیں؛ کیونکہ سائٹ کی ولادت گزشتہ روز ہی ہوئی ہے۔ کام مسلسل جاری ہے، ترتیب و تزئین کے مراحل بھی حسبِ فرصت طے کئے جارہے ہیں، اور ان شآءاللہ ہر آنے والے دن کیساتھ اس میں بہتری کی کوشش جاری رہے گی۔
ویب سائٹ کا لنک اوپر درج ہے۔
اس میدان سے واقف احباب کرام اگر اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیں تو یہ ویب سائٹ مزید مؤثر، دور رس اور نافع ثابت ہوسکتی ہے۔ ویب سائٹ کے ایڈمن مفتی توصیف صاحب قاسمی ہیں؛ نشر و اشاعت، ترتیب و تزئین اور تکنیکی نگہداشت کا تمام کام وہی پوری جانفشانی سے انجام دے رہے ہیں، بہتر مشورے آپ براہِ راست انہیں بھی عنایت فرماسکتے ہیں۔
مزید تحریریں اپ لوڈ ہونے کے بعد ارادہ ہے کہ ایک آن لائن پروگرام منعقد کیا جائے، جس میں اکابر اور معاصر اہلِ علم کی نصیحت آموز گفتگو سے استفادہ کا عمومی موقع فراہم کیا جائے، ان شآءاللہ۔
آخر میں آپ سب حضرات سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔
یہ چند سطور ایک ناکارہ فرد کی مختصر علمی سرگزشت ہیں؛ اس سے بظاہر آپ کا کوئی فائدہ وابستہ نہیں؛ تاہم امید ہے کہ اہلِ ذوق کے لئے ان میں فکری اشارے، تجرباتی نقوش اور آئندہ نسلوں کے لئے کچھ نہ کچھ رہنمائی موجود ہوگی۔ علمی روایت میں یہی تسلسل ماضی کو حال سے اور حال کو مستقبل سے جوڑتا ہے، اور اسی سے فکری تاریخ کی تشکیل ہوتی ہے۔ والسلام
شکیل منصور القاسمی
مرکز البحوث الاسلامیہ العالمی 
(پیر 23 جمادی الثانی 1447ھ 15؍ دسمبر 2025ء)

Friday, 12 December 2025

علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے متنوع علمی جہات اور حجۃ الاسلام اکیڈمی کی لائق تحسین خدمت

 علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے متنوع علمی جہات اور حجۃ الاسلام اکیڈمی کی لائق تحسین خدمت

-------------------------------
-------------------------------

امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کا نام آسمانِ علم و فضل پر اس درخشندہ کہکشاں کی مانند ہے جس کے ستارے ہر سمت روشنی بانٹتے ہیں، ان کی علمی عظمت کتب و دفاتر کے اوراق تک ہی محدود نہ تھی؛ ان کی متنوّع الجہات شخصیت علوم و معارف کا ایسا زندہ و تابندہ انسائیکلوپیڈیا تھی جس کے سینے میں حدیثِ نبوی کے اسرار بھی محفوظ تھے، تفسیر کے لطائف بھی، فقہ کے دقائق بھی اور کلام و منطق کے نکتہ آفرین مباحث بھی، غیر معمولی قوتِ حافظہ، حدّتِ ذہن، فقاہتِ نظر، حدیث فہمی میں اصابت رائے، اسرارِ شریعت پر گہری نگاہ اور علومِ متعدّدہ پر قابلِ رشک دسترس ، نے حضرت العلامہ کو معاصرین ہی نہیں؛ متقدمین کے قافلے میں بھی نمایاں اور ممتاز بنا دیا تھا۔

آپ کی علمی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ مسائلِ فقہیہ میں آپ کی رائے معیار سمجھی جاتی، مباحثِ حدیثیہ میں آپ کی توضیحات حجت مانی جاتیں، اور معارفِ قرآنیہ میں آپ کے  اشاراتِ محضہ بھی تشریح و تأویل کے نئے دروازے کھول دیتے تھے، ایسی ہمہ گیر اور آفاقی شخصیت، اور ان کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں کو اُجاگر کرنا تحقیق  کے ساتھ علمی امانت کی ادائیگی اور تراثِ ملت کو زندہ رکھنے کی سعی محمود بھی ہے۔

اسی پس منظر میں حجۃ الاسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف دیوبند کا امام العصر علامہ کشمیریؒ کے علوم و خدمات پر سیمینار منعقد کرنا ’’کار‘‘ نہیں؛ ایک عظیم ’’کارنامہ‘‘ اور خدمتِ تراث کا درخشندہ مینار ہے۔ اکیڈمی نے جس حسن ترتیب، نفاست فکر، وقار علمی اور تحقیق جدید کے دلکش معیار کے ساتھ اس علمی وفکری ذخیرے کو پیش کرنے کا  انتظام؛ بلکہ اہتمام کیا ہے ، وہ اس کے بلند پایہ علمی شعور، پاکیزہ مقصد اور اپنے اکابر کے ساتھ قلبی و روحانی نسبت کی روشن علامت ہے۔

اکیڈمی نے حضرت العلامہ کی شخصیت کے تقریباً ہر پہلو: حدیث و فقہ، تفسیر و کلام، اصول و تاریخ، شعرو ادب، منطق و علمِ کلام، سوانحی نقوش، درسگاہی خدمات اور دیگر جملہ علمی اثرات، کو تحقیقی دائرے میں سمو کر نئی نسل کے سامنے نہایت واضح، مربوط اور دقیق انداز میں پیش کرنے کا جو اہتمام کیا ہے، وہ دراصل ماضی کی علمی عظمت سے تجدیدِ رابطہ، روحانی نسبتوں کی تجدیدِ وفا، اور فکرِ دیوبند کی اصل روح سے ازسرِنو آشنائی کی کامیاب کوشش ہے۔

یہ اقدام، فضلاء جدید کے لئے فکری سمت، فنی پختگی اور تحقیقی روش کا سنگِ میل بھی مہیا کرتا ہے، بالخصوص نو فاضلین ترجیحی بنیادوں پر اس سیمینار کی علمی فضاؤں سے بھرپور استفادہ کریں، اس میں پیش کردہ مباحث و مضامین کو غور و تدبر سے پڑھیں، اور علامہ کشمیریؒ کی فکری عظمت و تحقیقی منهج سے اپنی علمی زندگی کو وابستہ کریں!

اللہ تعالیٰ حجۃ الاسلام اکیڈمی کی اس سعی مشکور کو دوام بخشے، اس کے چراغِ علم و تحقیق کو تازگی اور تابندگی عطا فرمائے، اور ہمیں علامہ کشمیریؒ کی علمی و روحانی میراث سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔ آمین۔

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_18.html



صحت نکاح کے لئے گواہوں کی موجودگی ضروری ہے؛ ولی کی نہیں

صحت نکاح کے لئے گواہوں کی موجودگی ضروری ہے؛ ولی کی نہیں

-------------------------------
-------------------------------
سوال یہ ہے کہ باپ کے ہوتے ہوئے نکاح میں گواہ کا ہونا ضروری ہے؟ ہاں یا نہیں

اگر نہیں تو لا نكاح الا بولي و شاهدين أم كما قال کا معنی و مطلب کیا ہوگا؟ امید ہے مفتیان کرام توجہ فرمائیں گے. ان شاء اللہ تعالیٰ

الجواب وباللہ التوفیق: 

صحتِ نکاح کے لئے گواہ شرعی کا ہونا ضروری ہے. حنفیہ کے یہاں عاقلہ بالغہ اپنا نکاح خود بھی کر سکتی ہے، ولی کی موجودگی ضروری نہیں؛ بہتر ہے۔

حدیث ولا نكاح إلا بولي، وشاهدي عدل 

کو محدثین (یحيیٰ بن معین، احمد بن حنبل، اسحاق وغیرھم) نے ضعیف کہا ہے، لہٰذا حنفی مذہب کے نزدیک اس سے استدلال مضبوط نہیں ہے۔ عورت اپنی ذات کے حقوق کی مالک ہے؛ جس طرح اپنے مال میں تصرف کرسکتی ہے، اسی طرح نکاح میں بھی خود تصرف کرسکتی ہے، بشرطیکہ کفو (ہمسری) اور مہرِمثل کا لحاظ رکھا گیا ہو؛ البتہ کفو کا حق اولیاء کا ہے، اس لئے وہ اس حق کو ختم نہیں کرسکتی. اس بابت تفصیلی واقفیت کے لئے ناچیز کے مضمون "ولی کے بغیر عاقلہ بالغہ کا نکاح" 1756) کی طرف مراجعت کی جاسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب 

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_12.html


Thursday, 11 December 2025

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

     اگر ایک مرد کو کئی شادیوں کی اجازت نہ دی جائے تو یہ فاضل عورتیں ہیں بالکل معطل اور بیکار رہیں گی کون ان کی معاش کا کفیل اور ذمہ دار بنے گا اور کس طرح یہ عورتیں اپنے کو زنا سے محفوظ رکھیں۔ بس تعددِ ازدواج کا حکم کسی عورتوں کا سہارا ہے اور ان کی عصمت اور ناموس کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے اور ان کی جان اور آبرو کا نگہبان اور پاسبان ہے عورتوں پر اسلام کے اس احسان کا شکر واجب ہے۔ {حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی رحمت اللہ علیہ}

    اگر آپ کے شوہر کو اپنے اوپر یہ اعتماد ہے کہ دوسری شادی کرنے کے بعد آپ کے درمیان اور نئی بیوی کے درمیان عدل (برابری) کرلیں گے تو ان کے لیے آپ کو بتائے بغیر بھی شرعاً نکاح کرنا صحیح ہے، ایسی صورت میں آپ کو بھی اعتراض نہ کرنا چاہیے: ”في البزازیة: لہ امرأة أو جاریة فأراد أن یتزوج أخری، فقالت اقتل نفسي، لہ أن یأخذ ولا یمتنع؛ لأنہ مشروع قال اللہ تعالیٰ: لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاةَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ“ (الفتاوی البزازیة علی الہندیة)

ترجمہ: اگر کسی شخص کی بیوی یا باندی ہو، پھر وہ دوسری عورت سے نکاح کرنا چاہے، تو اس کی بیوی یہ کہے کہ اگر تم نے دوسری شادی کی تو میں خود کو قتل کر لوں گی، تو مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ دوسری شادی کرے اور اس کی دھمکی کی وجہ سے رکنا اس پر لازم نہیں؛ کیونکہ نکاح کرنا شرعاً جائز عمل ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اے نبی! آپ کیوں حرام کرتے ہیں اس چیز کو جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے، اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں؟ اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“ (التحریم: ۱)

     البتہ حتی الامکان مرد کو چاہیے کہ ایک سے زائد نکاح سے پرہیز کرے خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں تعدد ازدواج کا زیادہ رواج نہیں ہے؛ اس لیے ایک سے زیادہ نکاح کرنے میں بسا اوقات زندگی کا سکون چھن جاتا ہے، دو سوکنوں کے ساتھ گھر بسانا اور ان کے ساتھ نباہ کرنا بہت مشکل کام ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”موجودہ حالات میں بغیر سخت مجبوری کے دوسرا نکاح ہرگز نہ کرنا چاہیے“ (اسلامی شادی، ص: ۲۵۵) ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ”دو بیویوں میں نباہ حکومت کرنے سے زیادہ مشکل ہے“ (حوالہ سابق، ص:۲۵۳) {دارالافتاء دار العلوم دیوبند}

{شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ}:

     جن عورتوں سے نکاح جائز نہیں ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا : وان تجمعوا بين الاختين اور یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرلو، ذرا سوچئے کہ قرآن کریم نے یہاں دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنے سے کیوں منع فرمایا ؟ اور اگر دو باہم اجنبی عورتوں سے بیک وقت نکاح کا عام رواج عہد رسالت میں نہ ہوتا تو اس تنبیہ کی کیا ضرورت تھی کہ دیکھو دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں نہ رکھ لینا ؟ اس تنبیہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عہد رسالت میں تعدد ازدواج کا عام رواج تھا جس کی بناء پر یہ اندیشہ تھا کہ کوئی شخص دو بہنوں سے نکاح نہ کرے، اس لئے اللہ تعالٰی نے اس فعل کو صراحۃً ممنوع قرار دے دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود مغرب میں یک زوجی کا یہ اصول مرد کے لئے کتنے ہی سامان تعیش پیدا کر رہا ہو، عورت کے لئے ایک ایسا عذابِ جان بن چکا ہے کہ اُن کی مظلومیت آج اس مظلومیت سے بدرجہا زیادہ ہے جس کا بڑے سے بڑا تصور تعدد ازواج کی صورت میں کیا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ وہاں کے منصف مزاج مفکرین عورت کی اس المناک مظلومیت کو محسوس کر کے یک زوجی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام حقائق کو کھلی آنکھوں دیکھنے کے باوجو بھی اگر ہم اپنے یہاں تعددِ ازواج کو نا جائز قرار دینا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ اقدام کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اگر ہم نے بھی یہاں " یک زوجی " کا قانون بنا دیا تو ہمارے معاشرے کے طول و عرض میں بھی فحاشی اور جنسی جرائم کی وہی داستانیں دہرائی جائیں گی جو یورپ اور امریکہ میں قدم قدم پر عام ہو چکی ہیں، تعددِ ازواج کو ممنوع قرار دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم بھی اپنے یہاں کی عورت پر وہی ظلم کرنا چاہتے ہیں جس کا مظاہرہ دو صدیوں سے یورپ اور امریکہ میں ہو رہا.

(حکومت نے تعدد ازدواج پر بہت سی شرطیں لگاکر ناقابل عمل بنا دیا تھا اس کے رد میں حضرت نے ایک مقالہ لکھا تھا۔ جس کے یہ اقتباسات ہیں)

------

قسط دوم:

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

{حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ}: 

      حضرت حاجی نے آخر عمر میں نکاح (ثانی) کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت کی پیرانی صاحبہ ( پہلی بیوی ) نا بینا ہوگئی تھیں یہ بی بی حضرت کی بھی خدمت کرتی تھی اور پیرانی صاحبہ کی بھی۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ عورت محض شہوت کے لیے تھوڑی کی جاتی ہے اور بھی مصلحتیں اور حکمتیں ہیں۔

     خود عورتوں کو بعض وقت ایسی مجبوریاں آپڑتی ہیں کہ اگر ان کے لیے یہ راہ کھلی نہ رکھی جائے کہ وہ ایسے مردوں سے نکاح کر لیں جن کے گھروں میں پہلے سے عورتیں موجود ہیں تو اس کا نتیجہ بدکاری ہوگا کیونکہ ہر سال دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں لاکھوں مردوں کی جانیں لڑائیوں میں تلف ہو جاتی ہیں اور عورتیں بالکل محفوظ رہتی ہیں اور ایسے واقعات ہمیشہ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور جب تک دنیا میں مختلف قومیں آباد ہیں ایسے واقعات ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے اور ہمیشہ مردوں کی تعداد میں کمی ہو کر عورتوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔

     اس کی اجازت بلا کراہت کے منصوص قطعی ( قرآن سے ثابت) ہے اور سلف میں بلا نکیر رائج تھا اس میں کراہت یا حرمت کا اعتقاد یا دعویٰ اور اس کی بناء پر آیات قرآنیہ ہیں تحریف کرنا سراسر الحاد و بد دینی ہے۔

عدل پر قدرت کے باوجود بغیر ضرورت کے دوسری بیوی کرنے کی مذمت:

    اور عدل کرنے کی صورت میں مرد پر یہ الزام تو نہیں لیکن پریشانی میں تو پڑگیا جس کے بڑھ جانے سے بعض اوقات دین میں خلل پڑنے لگتا ہے اور بعض اوقات صحت و عافیت میں خلل پڑنے لگتا ہے ) اور اس کے واسطے ہے کبھی دین میں بھی خرابی آجاتی ہے جہاں اس کا ظن غالب ہو (یعنی کئی بیویاں کرنے اور ان میں انصاف کرنے کی وجہ سے خود اس کے پریشانی میں پڑ جانے اور دین میں خرابی آجانے کا ظن غالب ہو) ایسی پریشانی سے بچنا ضروری ہے اور پریشانی کے اسباب سے بھی بچنا ہوگا اور وہ تعدد ازواج (کئی بیویاں کرنا ) ہے۔ اگر یہ بچنے کا لزوم واجب شرعی نہ بھی ہوتا تاہم عقل کا مقتضی تو ضرور ہے کیونکہ بلاوجہ پریشانی مول لینا عقل کے خلاف ہے۔ 

    مجھ کو (حضرت تھانوی رحمہ الله) اس قدر دشواریاں اس میں پیش آئیں ہیں کہ اگر علمِ دین اور حسنِ تدبیر حق تعالٰی نہ عطا فرماتے تو ظلم سے بچنا مشکل تھا سو ظاہر ہے کہ اس مقدار میں علم اور اس قدر اہتمام کا عام ہونا بہت مشکل ہے نیز ہر شخص کو نفس کا مقابلہ کرنا بھی مشکل کام ہے (ایسے حالات میں ) اب تعدد ازواج ( کئی بیویاں رکھنا ) بجز اس کے حق ضائع کرکے گنہگار ہوں کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔

یہ (مذکورہ بالا) حقوق تو واجب تھے بعض حقوق مروت کے ہوتے ہیں گو واجب نہیں ہوتے مگر ان کی رعایت نہ کرنے سے دل شکنی ہوتی ہے جو رفاقت کے حقوق کے خلاف ہیں ان کی رعایت اور بھی دقیق ہے غرض کوئی شخص واقعات و معاملات کے احکام علم سے پوچھے اور پھر عمل کرے تو نانی یاد آ جائے گی اور تعدد ازواج سے توبہ کرلے گا۔ (۱ اصلاح انقلاب صفحہ ۸۴)

بغیر سخت مجبوری کے دوسری شادی کرنے کا انجام:

     موجودہ حالات میں بغیر سخت مجبوری کے دوسرا نکاح ہرگز نہ کرنا چاہیے اور مجبوری کا فیصلہ نفس سے نہ کرانا چاہیے بلکہ عقل سے کرانا چاہیے بلکہ عقلاء کے مشورہ سے کرنا چاہیے۔ اور پختگی سن ( عمر ڈھل جانے کے بعد ) دوسرا نکاح کرنا پہلی منکوحہ کو بے فکر ہو جانے کے بعد اس کو فکر میں ڈالنا ہے اور جہالت تو اس کا لازمی حال ہے وہ اپنا رنگ لائے گا اور اس رنگ کے چھینٹے سے نہ ناکح (نکاح کرنے والا مرد ) بچے گا نہ منکوحہ ثانیہ ( دوسری بیوی ) بچے گی خواہ مخواہ علم کے دریا بلکہ کے خون کے دریا میں سب غوطے لگا ئیں گے۔ خصوصاً جب کہ مرد عالم دین اور متحمل بھی نہ ہو علم نہ ہونے سے تو وہ عدل کی حد کو نہ تھے اور قل برداشت کا مادہ نہ ہونے کی وجہ سے ان حدود کی حفاظت نہ کر سکے گا اس وجہ سے وہ ضرور قلم میں مبتلا ہوگا چنانچہ عموماً کئی بیویوں والے لوگ ظلم و ستم کے معاصی (گناہ) میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ (۲) ایضاً صفحہ ۲۸۳)

       دو شادی کرنا پل صراط پر قدم رکھنا اور اپنے کو خطرہ میں ڈالنا ہے مجھے دوسری بیوی کرنے میں بہت ساری مصلحتیں ظاہر ہوئیں مگر یہ مصلحتیں ایسی ہیں جیسے جنت کے راستہ میں پل صراط کو بال سے زیادہ باریک تلوار سے زیادہ تیز جس کو طے کرنا سہل کام نہیں اور جو طے نہ کر سکا وہ سیدھا جہنم میں پہنچا اس لیے ایسے پل پر خود چڑھنے کا ارادہ ہی نہ کرے۔

ان خطرات اور ہلاکت کے موقعوں کو پار کرنے کے لیے جن اسباب کی ضرورت ہے وہ ارزاں (سستے ) نہیں ہیں دین کامل عقل کامل نور باطن ریاضت سے نفس کی اصلاح کر چکنا (یہ سب اس کے لیے ضروری ہیں)۔

چونکہ ان سب کا جمع ہونا شاذ ہے اس لیے تعدد ازواج ( کئی بیویوں کے چکر میں پڑتا ) اپنی دنیا کو تلخ اور برباد کرنا ہے یا آخرت اور دین کو تباہ کرتا ہے۔

 (۱اصلاح انقلاب: بحوالہ اسلامی شادی)

......

قسط سوم:

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

     آج سے سو سال پہلے نہ اس قدر مدارس تھے نہ خانقاہیں اور نہ ہی جماعتوں کی زیادہ آمد و رفت تھی، لیکن بے حیائی کم تھی۔ اب مدارس کی فراوانی ہے، خانقاہیں بھی کم نہیں اور جماعتیں بھی بے حد و حساب نکل رہی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ بے حیائی افزوں تر ہوتی جارہی ہے، فحاشی کے اڈے کھلے ہوئے ہیں، سنیما گھر بھرے ہوئے ہیں، زنا کا عموم ہے۔ میری سمجھ میں یہ آتا ہے بچوں(مولانا نے زور دیتے ہوئے کہا اور سلسلہ کلام روانی سے چلتا ہے، ہم پر بھی سکوت طاری تھا گویا سروں پر پرندے بیٹھے ہوں) فرمایا: تعددِ ازدواج کو رواج دینا چاہیے۔جب لوگ کئی کئی نکاح کریں گے تو فحاشیت دم توڑ دے گی،قَحبہ خانے ویران ہو جائیں گے، زنا کا دروازہ بند ہو جائے گا، شیطان کی کوششیں ماند پڑ جائیں گیں۔ سب اپنی اپنی مشغولیوں میں، متعدد بیویوں کی ذمہ داریوں میں لگے ہوں گے تو سنیما گھر  سونے سونے معاشرہ سہانہ سہانہ اور بیویاں شونا شونا لگے گیں۔"  {حضرت مولانا رشید احمد صاحب سلوڑی رحمۃ اللہ علیہ}

    ہمارے دیار میں ہنود کے ہاں جہیز  اور بے فائدہ نقصان دہ رسومات کی وجہ سے بیٹیوں کی شرح پیدائش کم ہے اور مسلم معاشرہ میں بکثرت اور فزوں تر۔ جس کا نتیجہ یہ کہ ان کے لڑکوں کو ان کے معاشرہ میں رشتۂ ازدواج مل نہیں پاتا۔ اس لئے وہ ہمارے معاشرہ کا رخ کرتے ہیں. اس لیے ہمارے معاشرہ میں تعدد ضروری اور لابدی امر ہے. اور تعدد ازدواج کے جو مفاسدِ موھمہ ذکر کئے جاتے ہے وہ ترکِ ایمان کے مقابلہ میں اخف ہیں لہذا اخف الضررین کو اختیار کیا جانا ہی اصل الاصول ہے. رہی بات ہماری اکابر کی تو وہ حالت گھروں کے عمومی ماحول کے زیرِ اثر ہے۔ {حضرت مولانا قاضی مفتی حفظ الرحمن صاحب دامت برکاتہ}

    فرمایا: "کہ میں ذاتی طور پر ایسے واقعات جانتا ہوں کہ عورتیں اپنے تئیں جانتی ہیں کہ وہ اب بعض عوارض کی وجہ سے شوہر کے لائق نہیں رہیں۔ وہ اپنے شوہروں کو گناہ (زنا) کے مواقع فراہم کر کے دیتی ہیں لیکن دوسرا نکاح نہیں کرواتیں۔" {حضرت مولانا مفتی محمود صاحب بارڈولی}

----

قسط چہارم :

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

    میں کسی کو دوسری شادی کا مشورہ نہیں دیتا۔ حد شریعت اور ہے مزاج شریعت اور ہے لوگ حدود کی رعایت کرتے ہیں تو مزاج شریعت کی رعایت نہیں کرتے۔

     عموماً کوئی اپنی بچی بحیثیت دوسری بیوی کے تین وجہوں سے دیتا ہے: 

۱) یا تو آپ کے پاس مالی فراوانی ہے لڑکی والے سوچتے ہیں کہ ہم غریب ہیں ہمیں بھی کچھ پیسے مل جائیں  گے۔ 

۲) یا آپ مشہور شخصیت با کمال انسان ہیں کہ آپ سے نسبت جڑ جانا اچھی بات ہے 

۳) یا اس وجہ سے کہ لڑکی کا معاشقہ ہوگیا ہے اب وہ بیٹی کے ہاتھوں مجبور ہیں۔

میں (گھمن صاحب) عرض کرتا ہوں: دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت شرط نہیں ہے لیکن اس کو اعتماد میں لینا چاہیے کہ میرا شوہر مجھ پر ظلم نہیں کرے گا۔ {حضرت مولانا الیاس گھمن صاحب مدظلہ}

     حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں جہاں کہیں قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایک سے زیادہ نکاح کی ممانعت کی گئی ہے وہاں غیر قانونی تعددِ ازواج کا ایسا طوفان اٹھا ہے کہ شاید شیطان بھی ان کو دیکھ کر شرماتا ہوگا، موجودہ دور کا مغربی سماج اس کی کھلی ہوئی مثال ہے؛ اس لئے اسلام نے مردانہ فطرت کی رعایت کرتے ہوئے اس کی گنجائش رکھی ہے ؛ لیکن اس کو نہ واجب و ضروری قرار دیا ہے، نہ مستحب و مرغوب ، اور اس میں بھی یہ شرط عائد کی ہے کہ ایک سے زیادہ نکاح سنجیدہ جذبہ کے تحت کیا جائے، پہلی بیوی کو ضرر پہنچانا مقصود نہ ہو۔ (مولانا مفتی خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم)

{مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم}:

     ہم دوسری شادی کی مخالفت نہیں کرتے کر ہی نہیں سکتے ہیں جب اللہ تعالی نے اجازت دی ہے تو کیسے کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم آگاہ کرتے ہیں کہ اگر دوسری شادی کرو گے تو عدل و انصاف کرنا مشکل ہو جائے گا تو جو بندہ آخرت کی ذلت سے ڈرتا ہے وہ بچے۔

     کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دوسری شادی کرنے کے بعد ایک بیوی بن کے رہتی ہے دوسری بیوہ بن کے رہتی ہے۔دوسری شادی کے جو فرائض ہیں اس سے ڈرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس چکر میں مت پڑو جہاں تک ضرورت کا معاملہ ہے تو بیوی صحت مند ہیں تو ضرورت پوری ہو سکتی ہے اور جہاں تک چاہت کا اور شہوت کا معاملہ ہے، یہ نہیں پوری ہوتی جتنی مرضی ہو جائے۔ (انتھی کلامہ)

     ایک صاحب بیوہ سے نکاح کرنا چاہتے تھے، جس کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، اس بیوہ کا بیان یہ تھا کہ اگر یہ مجھ سے نکاح نہ کرتا تو میں لازماً زنا میں مبتلا ہوجاتی۔ 

میں نے شادی کا مشورہ دیا تو مرد نے کہا کہ میری بیوی مرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ تو میں (مفتی طارق مسعود صاحب) نے کہا مرنے دو۔ آپ کو گناہ نہیں ہوگا۔ اس کے حقوق میں کوتاہی نہ کرو۔ لیکن ایک شریعت کا حکم ہے بیوہ کا کہیں سے رشتہ نہیں آرہا بات طے ہوگئی ہے، حقوق بھی دونوں کے ادا کرسکتے ہو، پھر بھی اگر کوئی خود کشی کر کے مرتا ہے تو یہ اس کی کوتاہی ہے۔

{مفتی طارق مسعود صاحب مدظلہ}

    لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ تعددِ ازدواج کی اجازت ایک معاشرتی ضرورت ہے اور بہت سی دفعہ اس سے نہ صرف شوہر کی ضرورت پوری ہوتی ہے، بلکہ پہلی بیوی کے حق میں بھی یہ مفید ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس سماج میں تعددِ ازدواج کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی اجازت نہیں دی جاتی، وہاں قانونی طور پر تو ایک ہی بیوی ہوتی ہے، لیکن غیر قانونی تعلقات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، مغربی ممالک آج اس کی واضح مثال ہیں۔

`(حضرت سید نظام الدین جنرل سیکرٹری مسلم برسنل لا بورڈ)`

     سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں جب عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو تو اس مشکل اور پیچیدگی کا کیا حل ہے؟ اگر عورتوں کی اس کثیر تعداد کو غیر شادی شدہ مرد نکاح کے لئے نہ ملے تو آخر وہ کیا کریں؟ زندگی بھر اپنی فطری خواہشات کو قربان کریں، شادی، شوہر، ازدواجی حقوق اور ماں بنے کی نعمت سے محروم رہیں، یا اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے اپنی عفت و عصمت کو پامال کریں اور بدکاری و بے حیائی کی راہ پر چل کر ملک و معاشرہ میں اخلاقی گندگی اور صنفی انارکی پھیلائیں یا اس کا ایسا حل پیش کیا جائے جس سے عورت کی عزت و شرافت بھی محفوظ رہے اور خاندان وسماج کی پاکیزگی بھی برقرار رہے اور جنسی برائی سر نہ اٹھائے، ظاہر ہے کہ یہ دوسرا حل جو اسلام نے پیش کیا ہے وہ پہلے کے مقابلے میں ہر لحاظ سے بہتر ہے۔

  احادیث سے مرد کے نکاح میں چند بیویوں کا ہونا تو تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ عہد رسالت میں صحابہ کرام میں سے بہت سے حضرات نے متعدد شادیاں کیں لیکن انہوں نے عدل کو ملحوظ رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔ خلیفه دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کےدورِ خلافت میں ایک بیوہ خاتون ام ابان کو حضرت عمرؓ، حضرت عؓلی بن ابی طالب ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے پیغام نکاح پیش کیا، انہوں نے حضرت طلحہؓ کے پیغام کو قبول کر کے باقی کو مسترد کر دیا، ان چاروں کے نکاح میں پہلے سے بیویاں موجود تھیں۔۔۔۔۔۔۔اسلام شخصی اور اجتماعی ضرورتوں کی تکمیل، اخلاقی اقدار کی حفاظت اور فحش کاریوں کے سدِ باب کے لئے تعددِ ازدواج کو قانونی جواز عطا کرتا ہے، تا کہ اگر ایک شخص اپنی ذاتی یا سماجی اور ملکی مصالح کے پیش نظر ایک سے زیادہ عورتوں سے تعلق کی ضرورت محسوس کرے تو وہ شرعی، اخلاقی اور قانونی حدود میں رہ کر نکاح کے ذریعہ اسے اپنی حرم میں داخل کرے، اور ازدواجی رشتہ کی بنیاد پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو قبول کرے۔

{مولانا نورالحق صاحب رحمانی}

.....

قسط پنجم : 

تعددِ ازدواج اکابر علماء کے اقوال کی روشنی میں

     مشہور انگریز صاحب قلم جارج برناڈ شاہ اسلام کے اس الٰہی قانون کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    "اس میں کوئی بڑی حکمت ہے کہ مرد عورتوں کے مقابلہ میں زیادہ خطرات کا نشانہ بنتے ہیں، اگر عالم انسانیت پر کوئی بڑا حادثہ ٹوٹ پڑے جس کی وجہ سے تین چوتھائی مرد ہلاک ہو جائیں اور اس وقت اگر شریعت محمّدی پر عمل کر کے ہر مرد کے لئے چار بیویاں ہوں تو تھوڑی ہی مدت میں مردوں کی تلافی ہو جائے گی، جرمنی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد عورتوں نے تعدد ازدواج کا پر زور مطالبہ کیا۔"  (مسئلہ تعدد ازدواج مؤلفه شیخ عبدالعزيز العلی القناعی ص ۱۹)

    أظهرت جمعية النساء العزل تحرجها من فقدان البعولة وسألت الحكومة أن يسمح لهن بسنة تعدد الزوجات الاسلامية حتى يتزوج من شاء من الرجال بأزيد من واحدة و يرتفع بذالك غائلة الحرمان، غير أن الحكومة لم تجبهن في ذلك و امتنعت الكنيسة من قبوله و رضيت بفشو الزنا و شيوعه و فساد النسل (الميزان في تفسير القرآن (۱۹۴/۴)

افریقی مشنریوں کے ذریعہ تعددِ ازدواج کے خاتمہ کا نتیجہ یہ نکلا ہے عصمت فروشی و محبہ گری میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے، اس حد تک کہ تنہا یوگنڈا کو بیس ہزار پونڈ سالا نہ امراض خبیثہ کی روک تھام پر صرف کرنا پڑ رہا ہے، رہے اخلاقی عواقب و نتائج تو وہ بدترین اور نا قابل بیان ہیں۔  (تعدد ازدواج مؤلفہ سید حامد علی )

    شیخ عبداللہ مراغی اپنی کتاب "الزواج والطلاق في جميع الأديان“ میں فرانس کے بارے میں لکھتے ہیں: حکومتِ فرانس کے ایک سرکاری افسر نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ کیمپوں میں حرامی بچوں کی تعداد ایک کثیر حد تک پہونچ گئی ہے جو ملک کے لئے پریشان کن مسئلہ ہے اور یہ محض تعددِ ازدواج سے ممانعت کا نتیجہ ہے۔ یک زوجگی کی مشکلات بعض معاشروں کے لئے بہت پریشان کن ہے اور فوری حل تلاش کرتی ہے۔  (ص۱۶۰ بحوالہ المقارنات والمقابلات)

    اگر قانونی تعدد کو اختیار نہیں کرتے تو غیر قانونی تعدد کو لازماً گوارہ کرنا ہوگا جس کے نقصانات قانونی تعدد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ترکی جو مسلم اکثریت کا ملک ہے اس نے ۱۹۲۶ء میں اسلام کے اس قانون کے خلاف ایک شہری قانون نافذ کیا جس کی رو سے تعددِ ازدواج نا جائز قرار پایا لیکن آٹھ سال ہی گذر پائے تھے کہ ناجائز ولادتوں ، خفیہ غیر قانونی داشتاؤں و خفیہ طور پر قتل کئے گئے بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے حکومت کے اربابِ حل و عقد کو اس قانون پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کردیا. ( ماذا عن المرأة ص: ۱۵۱)

      خلاصۂ کلام یہ کہ تعددِ ازدواج انسانی معاشرہ کی ایک ناگزیر اور فطری ضرورت ہے، اسی بنا پر ہر زمانے، ہر معاشرے اور ہر مذہب و ملت میں اس کا رواج رہا ہے اور موجودہ حالات نے عالمی سطح پر اس کی ضرورت پیدا کر دی ہے، لہذا فرد اور سماج کو پاکیزہ رکھنے اور اخلاقی گندگی و جنسی آلودگی سے بچانے کے لئے اسے قانونی جواز عطا کرنا ضروری ہے۔ {مولانا نورالحق صاحب رحمانی}

{فتوى سماحة الشيخ عبد العزيز بن عبدالله بن باز (حفظه الله) في تعدد الزوجات}

س - هل الأصل في الزواج التعدد أم الواحدة؟

ج - الأصل في ذلك شرعية التعدد لمن استطاع ذلك ولم يخف الجور لما في ذلك من المصالح الكثيرة في عفة فرجه وعفة من يتزوجهن والإحسان إليهن وتكثير النسل الذي به تكثر الأمة ويكثر من يعبد الله وحده ويدل على ذلك قوله تعالى : ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ الْنِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا ... ولأنه تزوج أكثر من واحدة، وقد قال الله سبحانه وتعالى: ﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ . . وقال ﷺ لما قال بعض الصحابة : أما أنا فلا آكل اللحم وقال آخر أما أنا فأصلي ولا أنام وقال آخر أما أنا فأصوم ولا أفطر، وقال آخر أما أنا فلا أتزوج النساء، فلما بلغ خطب الناس فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : «إنه بلغني كذا وكذا ولكني أصوم وأفطر وأصلي وأنام وآكل اللحم وأتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني وهذا اللفظ العظيم منه الله يعم الواحدة والعدد والله ولي التوفيق ۔

س ـ هل تعدد الزوجات مباح في الإسلام أو مسنون؟

ج - تعدد الزوجات مسنون مع القدرة لقوله تعالى :

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا ولفعله عليه الصلاة والسلام فإنه قد جمع تسع نسوة ونفع الله بهن الأمة وهذا من خصائصه عليه الصلاة والسلام أما غيره فليس له أن يجمع أكثر من أربع ولما في تعدد الزوجات من المصالح العظيمة للرجال والنساء وللأمة الإسلامية جمعاء فإن تعدد الزوجات يحصل به للجميع غض الأبصار وحفظ الفروج وكثرة النسل وقيام الرجال على العدد الكثير من النساء بما يصلحهن ويحميهن من أسباب الشر والانحراف أما من عجز عن ذلك وخاف ألا يعدل فإنه يكتفي بواحدة لقوله سبحانه : ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةٌ .

وفق الله المسلمين جميعاً لما فيه صلاحهم ونجاتهم في الدنيا والآخرة۔

......

قسط : ٦

تعدد ازدواج - سوال ان کے جواب ہمارے 

سوال: 

(۱) دیکھا؟ میں نے کہا تھا نا ۔۔۔۔ اکابر سے تعددِ ازدواج پر۔۔۔۔ تشجیع اور برانگیختہ کرنا منقول نہیں ہے۔۔۔۔ بلکہ عام حالات میں تکفف اور رکے رہنے کی تلقین ثابت ہے۔۔۔۔ کہ تعددِ ازدواج اڑتی ہوئی مصیبت کو گلے میں لینا ہے۔۔۔۔اکثر حضرات نے تعددِ ازدواج کو اجازت و اباحت ہی تک محدود کیا ہے۔۔۔۔ سنت کہنے والے بعض معاصرین علمائے عرب ہیں۔۔۔۔اور جن اکابر نے تعدد کے حق میں بات کی ہے۔۔۔۔ انھوں نے حکمتیں گنوائی ہیں ۔۔۔۔ حکمتوں کا بھی اگرچہ منقبت و مزیت میں دخل ہے۔۔۔ لیکن یہ حکمتیں ان لوگوں کے خلاف شمار کرائی ہیں۔۔۔ جو تعدد کو شجرِ ممنوعہ قرار دیتے ہیں۔۔۔۔ خلاف از قیاس اور غیر معقول قرار دیتے ہیں۔۔۔۔ اور ان پر قانونی پابندی لگانا چاہتے ہیں۔۔۔۔ یہ اسرار و رموز ایک پر اکتفاء کو پسند کرنے والے ۔۔۔ اور معاشرے کو یک زوجی پر ابھارنے والے کی طرف نظر کرتے  ہوئے نہیں ہے۔ افضل اور بہتر یک زوجی ہی ہے۔ یک گیر محکم بگیر۔

     اگر تعدد اور کثرتِ زوجات افضل اور مطلوبِ الہی اور مرغوب عند الشرع ہے تو میرے چند سوالوں کے جوابات دیجیے۔

(۲) حضرت آدم علیہ السلام کو جب دنیا میں بھیجا گیا تو ان کو ایک ہی زوجہ محترمہ دی گئی۔ پتا چلا کہ تعدد ضرورتِ انسانی میں داخل نہیں۔ قرآن میں ہے و جعل منھا زوجھا ۔۔۔ زوجاتھا نہیں ہے۔

(۳) ایک حدیث اپ بتا دیجیے جس میں تعدد کی فضیلت آئی ہو؟

(۴) آپ ﷺ نے کبھی کسی صحابی کو دوسرے نکاح پر نہیں ابھارا نہ کسی عورت کو کہا کہ آپ دوسری بیوی بن جائیں۔

(۵) خود حضرت نبیِ کریم ﷺ نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں فرمایا جب تک آپ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ الکبری رضی الله تعالی عنہا حیات تھیں۔ 

(۶) اور آپ کے دامادوں نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں کیا جب تک ان کی پہلی بیوی یعنی نبیِ کریم ﷺ کی پاک بیٹیاں حیات تھیں۔

(۷) بلکہ حضرت علی رضی الله تعالی عنہ کو تو روکنا ثابت ہے۔

جواب:

    حضرات علماء نے یہ بات لکھی ہے کہ سنت کہا جاتا ہے "ما اضیف الی النبی ﷺ من قول او فعل او تقریر" 

پھر فرمایا "و اما افعالہ من حیث العبادت فھو السنن الھدی و من حیث العادت السنن الزوائد"۔

یعنی نبیِ کریم ﷺ کے قول و فعل اور تقریر کو سنت کہتے ہیں (الا یہ کہ وہ نبیِ کریم ﷺ کے ساتھ خاص نہ ہو اور منسوخ نہ ہو)۔ اور جو کام آپ نے از راہِ عبادت کیے ہیں وہ سنت ِ مؤکدہ اور سننِ ھدی ہیں اور جو کام آپ نے از راہِ عادت کیے ہیں وہ بھی سنت ہیں لیکن سننِ زوائد ہیں۔  اور آپ کے طریقہ اور سنت کی تأسی (اسوہ اختیار کرنا) مطلوب عند الشرع اور مرغوبِ الہی ہے۔ لقد کان لکم فی رسول الله اسوۃ حسنۃ۔

      پھر آپ کے اوصاف کو بھی بعض علماء نے سنت کی تعریف میں شامل کیا ہے۔ یعنی اوصاف خلقی (بفتح الخاء) یعنی آپ کا ظاہری حلیہ اور خد و خال۔ یعنی کوشش اس بات کی کریں کہ پیٹ اور سینہ ایک سطح پر رہے۔ چلنے میں رفتار بطریق تکفی رہے (یعنی قدم مضبوطی سے اٹھاتے ہوئے آہستہ رکھتے ہوئے ہلکی تیز رفتار لیے ہوئے خمیدگی سے چلنا گویا ڈھلان سے اتر رہے ہو) جب بعض ان اوصاف میں بھی تأسی محبوب ہے جس میں اختیار نہیں ہوتا تو جو آپ نے با اختیار کیے ہیں وہ کیوں کر محبوب عند اللہ نہیں ہوں گے۔

     ذرا مجھے بتائیں کسی کام کے دو پہلو ہیں دونوں جائز ہیں۔ کیا الله تعالی اپنے محبوب کو  کسی ایسے پہلو پر علی سبیل الدوام باقی رکھیں گے جو غیر افضل ہے۔ جس نبی کریم ﷺ کی اطاعت اختیار کرنے کا حکم الله تعالی کو جگہ جگہ دینا ہو۔ کیا دنیا کا کوئی بادشاہ جو بہت سی چیزوں پر قابو یافتہ ہو اپنے محبوب کو دو چیزوں میں سے کم اہم چیز دے کر کریم اور سخی کہلا سکتا ہے۔ تو مالک الملوک کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

     ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ تعددِ ازدواج کا ثبوت جواز و اباحت تک ہے لیکن مباح ہونے اور سننِ زوائد ہونے میں تباعد و استحالہ نہیں ہے۔ یہ ایسا مباح نہیں ہے جیسا آئس کریم کھانا مباح ہے۔

یہ ایسا ہے مباح جس میں بہت سی شرعی و ملکی و ذاتی مصلحتیں پنہا ہیں۔ 

     میں بغیر تشبیہ دیے کہہ سکتا ہوں جیسے مدرسہ میں رہ کر تعلیم حاصل کرنا وغیرہ مباح ہیں. لیکن اس میں بہت دینی و شرعی منصوص مصلحتیں ہیں، اس وقت نفسِ عمل (تعدد ازدواج وغیرہ) کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ ان مصلحتوں میں غور کیا جاتا ہے جن کا حصول متوقع یا متیقن ہو۔ ان نصوص کے ذریعہ سے تعلیم دی جاتی ہے۔ مدرسہ میں داخلہ لینے والے کو فضائلِ علم سنا کر راغب کیا جاتا ہے اور بیعت کرنے والے سالکین کو فضائلِ تزکیہ سنا کر آمادہ کیا جاتا ہے۔

     پھر ایک کام جس کی اصلیت فرض یا واجب ہو تو اس کا تکثر عام حالت میں مطلوب ہوتا ہے جب کہ کوئی وجہ قباحت کی نہ ہو۔ جیسے نماز روزہ وغیرہ ہیں جس کی اصلیت فرض ہے لہذا اس میں تکثر مطلوب و مقصود ہے۔ ال٘ا یہ کہ مکروہ وقت نہ ہو اور ایام تشریق نہ ہو۔

     آج ہمارے دیار میں تعددِ ازدواج کو مباح بلکہ غیر مطلوب سمجھ کر اس قدر ترک کردیا ہے اور یک زوجی کو اتنا عموم دے دیا ہے کہ جیسے ہم مصری علماء کو بے ریش دیکھ کر تعجب کرتے ہیں کہ اتنے اہم حکم کو مباح سمجھ کر کس طرح چھوڑ دیا گیا ہے! تعجب ہے ۔ عرب علماء ہم پر از راہِ حیرت و استعجاب سے صرف سر نہیں پکڑتے بلکہ ٹھٹھا کرتے ہوئے اپنی ہنسی روکنے کے لیے منہ پر بھی ہاتھ رکھتے ہیں۔ کہ "ھذا ھندی فقط واحدۃ! علامتھم اثنین الطنبورۃ (بے ڈھنگا ، بڑا پیٹ) و الزوجۃ الواحدۃ۔ ولیس یکون المرأۃ تحت الھندی بل یکون ھو تحتھا."

.......

قسط :۷

تعدد ازدواج - سوال ان کے جواب ہمارے

بہر حال جب اس عمل (تعددِ ازدواج) میں کئی اہم مصلحتیں ہیں اور وہ مصلحت منصوص ہیں جن پر فضیلت وارد ہوئی ہیں تو یہ اس عمل کی فضیلت کوئی کم نہیں ہے۔

     ہم کو یہ بات بھی تسلیم ہے کہ بسا اوقات مرد اس عملِ تعدد کے سر انجام دینے کے باوجود - پہلی بیوی کی سرکشی و ہنگامہ آرائی یا اپنی بعض نا حسن تدبیر کی وجہ سے- حکمتوں اور ذکر کردہ اغراض و فوائد کے حصول میں ناکام ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ مأجور ہے۔

اس نے بے شمار شرعی و دینی اور ملکی و شخصی فوائد کے خاطر نکاح کیا تھا لیکن نامناسب زمانے اور پہلی بیوی کو مضبوط کرتے قوانین کی وجہ سے وہ ناکام رہا۔

     بھلا بتائیے! عہد خیر القرون ہوتا اور دوسرا نکاح کرنے پر کوئی عورت تعنت و تعلی کا مظاہرہ کرتی، اس پر بس نہ کرتے ہوئے وہ تعدد کے جواز ہی کو موضع سخن بناتی تو دربارِ رسالت سے کس طرح کی جواب کی امید کی جائے گی، اور نزول وحی میں کیا اس طرح فرمان الٰہی نہیں ہوسکتا تھا 

﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا﴾

[الأحزاب: 36]

     یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب دوسرے احکام کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے العطایا علی متن البلایا اور اجرک بقدر نصبک۔ لیکن جب تعددِ ازدواج کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے اس راہ میں رکاوٹیں کثیر، مصائب و الم الم ناک، ہم و غم حیران کن اور فکروں کا نہ تھمنے والا تسلسل ہے۔ اس لیے مفت میں ان مصائب و آلام کو اور بے فائدہ ہموم و غموں کو گلے نہ لگاؤ۔

    میں نہیں سمجھتا کہ تعددِ ازدواج کی راہ میں پہچنے والے مصائب بے فائدہ ہیں، اور ان پر ثواب کا ترتب نہیں ہوگا، اور قیامت کے دن مسلسل ملنے والے  نصب و الم کے نتیجہ میں اجر غیر ممنون سے سرخرو نہیں ہوگا۔

پھر ذرا بتائیے آج کل تعدد کے فوائد کا حصول جوئے شیر لانے کے مرادف کیوں ہوگیا ہے؟ کیا زمانے کا ناموافق ہونا، عورت کے حق میں غیر منصفانہ قانون بننا، پہلی بیوی کا جبر کرنا اور بچوں کے سامنے ہنگامہ بپا کرنا- یہ اعذار ایسے ہیں کہ ان کے علاج کے بجائے مرد ہی کو تعدد سے روک کر اس کے فوائد سے ناآشنا رہیں۔

     کیا ہمارے سامنے ہمارا پڑوسی ملک نہیں ہے؟ وہاں بھی تعدد کے فوائد کا حصول دشوار تھا، وہاں بھی یک زوجی کو ہی فروغ تھا بنظر استحسان دیکھا جاتا تھا بلکہ اس مبارک عمل کو ناقابلِ عمل اور ناکارہ بنانے کے لیے قانون پاس کرا دیے گئے تھے لیکن چند سرفروش علماء یدان عمل میں آئے کسی نے مقالے لکھ کر کسی نے عمل پیرا ہو کر اور کسی نے عمومی ماحول بنانے کی سعی کی، چناں چہ بہت سے علماء، دانشور اور مشہور شخصیات نے دوسرے نکاح کا اقدام کیا فوائد کا حصول آسان ہورہا ہے۔ 

     مزید بر آں وہاں بہت سی عورتوں نے ناموافق حالات اور احسان کے بدلے ملنے والی نا انصافیوں کے باوجود پہلے شوہر کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ بالقصد باقاعدہ اس عمل کی مشتہرہ اور مروجہ بن گئیں۔ جب اس تعددِ ازدواج کو جس کو عورت پر ظلم ہونے کی وجہ سے بدنام کیا گیا  عورتوں کی آواز میسر آئی  پھر نصیب سے وہ سعی مشکور و مقبول بھی ہوئی تو حکمِ تعدد نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا۔

     بعض عرب ممالک بھی ہمارے سامنے ہیں جہاں چند زوجی کو عورتوں کے لیے عیب سمجھا جانے لگا، مرد یک زوجی پر اکتفاء کربیٹھے، شادیوں کو کئی کئی دن کی تقریبات سے مہنگا کردیا گیا، عورتوں کی ڈیمانڈ اور نہایت گراں مہر سے بے برکتی کو بڑھایا گیا تو نتیجہ ہمارے سامنے ہے وہاں بھی ہمارے دیار کی طرح دوسرا نکاح عملاً دشوار، اغراض کا حصول مشکل ہوگیا ہے عورتیں دوسری بیوی بننے کو عیب سمجھنے لگی ہیں، جس کے نتیجہ میں بے نکاحی خواتین کا تناسب بڑھ گیا ہے اور جنسی بے راہ روی نے جگہ پکڑ لی ہے۔

ذکر کردہ دونوں ممالک میں نتائج جو برآمد ہوئے ہیں وہ تعددِ ازدواج پر عمل کرنے اور نہ کرنے کی وجہ سے۔

     اور کچھ بعید نہیں ہے اگر تعددِ ازدواج پر یہی سرد مہری رہی تو حکومت دینِ اسلام کے بنیادی حکم نہ ہونے کا ٹھپا لگا کر آیتِ نسا کو خیر القرون کی ضرورت بتلا کر اس مبارک عمل کے خلاف قانون نہ پاس کردے۔

     عبد ضعیف کہتا ہے مان لیں دوسرا نکاح کرنے کی وجہ سے خود کے بچوں کی پرورش نہ ہوسکی، دینی خدمات متاثر ہوگئی، سماج میں ذلتی کا سامنا ہوا بلکہ مصائب و آلام نے کمر توڑ دی۔ کیا الله اپنے اس بندے کو تاابد ایسے ہی چھوڑ دیں گے؟ جس نے خیر القرون میں رائج ایک عمل کا احیاء چاہا، جس نے کسی کی ضرورت مرد کی چاہت پوری کر کے احسان کرنا چاہا اور جس نے زنا کے مقابلے میں جو آسان تھا دشوار گزار حلال راہ کو اختیار کیا۔

    کیا اگر وقتی طور پر جو ایک دروازہ بند ہوا ہے مالکِ دو جہاں اس کے لیے کئی دروازے وا نہیں فرمائے گا، اس کی ایک آد اولاد کی پرورش میں خلل آیا ـ جس کا گناہ بھی اس پر نہیں ہے- کیا فعال لما یرید ذات اس کے لیے ہزارہا روحانی اولاد عطا نہیں فرمائے گا جو اس کے لیے حقیقی اولاد سے بھی زیادہ دینی و دنیوی امور میں کار آمد و مفید ہوگی۔؟ ؟

.....

قسط :۸

تعدد ازدواج - سوال ان کے جواب ہمارے

دوسری شادی کے سلسلے میں یہ بات بڑی شد و مد سے بیان کی جاتی ہے کہ دو بیویوں میں عدل نہیں ہوسکے گا۔ قرآن میں بھی ہے

ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء و لو حرصتم (اور تمہارا کتنا ہی جی چاہے تم بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرسکتے)

     اعتراض کرنے والے تصور یہ دیتے ہیں کہ مراد اس آیت میں عدل سے  وہی عدل ہے جو فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة میں مراد ہے، جب کہ اس آیت میں عدل فی النفقۃ و القسم یعنی رات گزارنے اور نفقہ میں عدل مراد ہے اور پہلی آیت میں عدل فی المحبۃ یعنی محبت میں برابری مراد ہے جیسا کہ صاحب تفسیر الجلالین نے اس بات کی تصریح کی ہے۔ یعنی تم چاہنے کے باوجود بیویوں میں محبت یکساں نہیں رکھ سکتے کیوں کہ دل انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔

ہاں دلی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایسا قدم نہ اٹھانا کہ کسی ایک کی طرف پورے طور پر مائل ہوگئے اور دوسری کو معلق یعنی ادھر لٹکی چھوڑ دیا۔

    اسی وجہ سے نبیِ کریم ﷺ برابری فرماتے اور یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے الله یہ میری برابری کرنا ہے اس میں جس میں، میں اختیار رکھتا ہوں (یعنی رات گزارنے اور نفقہ میں) آپ میری پکڑ نہ فرما اس میں جس میں، میں اختیار نہیں رکھتا (یعنی دلی محبت میں) 


    احناف کے نزدیک برابری کرنا تین چیزوں میں ضروری ہے۔

(۱) نان نفقہ

(۲) شب باشی یعنی رات گزارنا 

(۳) تبرعات یعنی زائد لین دین،ہدیے، تحفے جوڑے وغیرہ جو لازمی نہیں ہیں ان میں بھی عدل برابری واجب ہے۔

اسلامی شادی میں ہے: 

    حنفیہ کے یہاں زوجین (میاں بیوی) میں تبرعات ( کسی کے ساتھ احسان کرنے میں) عدل واجب ہے اور دوسرے علماء کے نزدیک صرف واجبات (نفقہ واجب وغیرہ میں) عدل واجب ہے، حنفیہ کے یہاں اس میں تنگی ہے۔

     مکان میں جو برابری واجب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کو الگ گھر دینا چاہیے جبراً دونوں کو ایک گھر میں رکھنا جائز نہیں البتہ اگر دونوں رضا مند ہوں تو ان کی رضا مندی تک جائز ہے۔

     ان سب میں برابری کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی عورت اپنا حق خود ساقط کردے تو وہ کرسکتی ہے۔جیسا کہ قرآنِ کریم میں کہا گیا ہے اگر عورت کو اپنے شوہر سے زیادتی یا بے رُخی کا اندیشہ ہو تو ان دونوں کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آپس میں کچھ صلح کرلیں (بایں طور کہ اپنا حق چھوڑ دے؛ مہر معاف کردے، باری ساقط کردے، نفقہ سے دست بردار ہو جائے) اور صلح ( بہر حال ) بہتر ہے، (جس طرح یہ پہلی بیوی کے لیے ہے دوسری بیوی بھی مصالحت کے ساتھ آنا چاہے تو یہ بھی روا ہے، اور آج کل بے نکاح خواتین کے اضافے اور شریف نیک باشرع مردوں کی کمی کی وجہ سے بہت سی خواتین اپنے یہ سب حقوق معاف کرا کے صرف حلال تعلقات کا استوار چاہتی ہیں، اسی وجہ سے عربوں میں نکاح مسیار(یعنی بعض حقوق معاف کرکے نکاح کرنا) کا رواج بڑھا ہے اور علماء نے اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیا ہے۔

     اور حرص تو دلوں میں بسادی گئی ہے. مرد جب یہ دیکھے گا کہ دوسری ہونے والی بیوی نے مجھے بہت سے حقوق کے بارِ گراں سے سبک دوش رکھا ہے تو وہ بھی نکاح کرنے پر آمادہ ہو جائے گا۔

     لہذا اگر کسی کے ساتھ ایسی صورت مہیا ہو جائے تو عدل و انصاف اس کے لیے آسان ہوگیا۔ البتہ یہ عورت جس نے اپنے حقوق معاف کیے ہیں اگر دوبارہ مطالبہ کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔

ناچیز جیسے غیر معروف شخص کے پاس تین رشتے ایسے موجود ہیں کہ خاتون برسر روز گار ہیں، اور انھیں اپنے لیے صرف شوہر اور رشتۂ پاک کی تلاش ہے۔ سوچتی ہیں کہ الله کا دیا سب کچھ ہے ہمارے پاس لیکن اپنے پھر بھی ہمیں غیر کی نظر سے دیکھتے ہیں، عمر دراز ہونے کی وجہ سے والد کا گھر پرایا ہونے لگا ہے ، کسی اپنے کی تلاش ہے جو اسے اپنی الگ شناخت دے، معاشرے میں عزت دے بدلے میں ، میں اور میری وفاداریاں ان کی ہوں گی اور میں اپنی ہی ذمہ داری رہوں گی۔

بیویوں کے درمیان عدل کرنا نہایت ضروری ہے لیکن ہمارے دیار میں اس کو اتنا مشکل کرکے بتایا گیا ہے کہ لوگ اس کو محال اور ناممکن سمجھنے لگے ہیں، اور اتنا ڈرتے ہیں جیسے كخشية الله أو أشد خشية۔

صحابہ بھی کچھ چیزوں سے ڈرتے تھے جیسے وہ کذب علی النبی ﷺ (نبیﷺ کی جھوٹی بات منسوب کرنا)  سے ڈرتے تھے، چنانچہ روایتوں میں اتا ہے کہ بعض صحابی جب قال رسول الله ﷺ کہتے تو بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی، رنگ فق ہو جاتا، انکھیں انسوؤں سے بھر جاتی۔ بعض صحابہ اپ کا فرمان نقل کرنے کے بعد او کما قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے۔ بعض صحابہ نے حدیث نقل کرنا ہی کم کر دیا تھا۔

       ہم نے کسی صحابی کے بارے میں یہ تو سنا ہے کہ وہ باری کا بہت اہتمام کرتے، برابری کا لحاظ کرتے حتی کہ بوسوں کو بھی گنتے لیکن اس طرح ڈرتے ہوئے خوف کھا کر تعدد ازدواج کو چھوڑتے ہوئے نہیں دیکھا جس طرح ہمارے دیار میں ہے۔ یہاں گنگا الٹی بہ رہی ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی باتوں کو بے دھڑک بغیر تحقیق کے نقل کیا جاتا ہے سوشل میڈیا پر ہی ارسال کیا جاتا ہے، اس میں خوف نہیں اتا لیکن جہاں تعدد ازدواج کی بات اتی ہے تو عدل اور برابری کے سلسلے میں ایسا خوف پایا جاتا ہے جیسے برابری اور عدل ناقابل عمل کوئی شے ہو۔

....

قسط :۹

تعدد ازدواج - سوال ان کے جواب ہمارے

دیگر  سوالات کا جوابات: 

(۲) حضرت آدم علیہ السلام کو جب دنیا میں بھیجا گیا تو ان کو ایک ہی زوجہ محترمہ دی گئی۔ پتا چلا کہ تعدد ضرورتِ انسانی میں داخل نہیں۔ قرآن میں ہے و جعل منھا زوجھا ۔۔۔ زوجاتھا نہیں ہے۔

جواب: تعددِ ازدواج کو انسانی ماہیت یا انسانی وجود میں تو دخل نہیں ہے۔ ایسا کسی کا دعویٰ بھی نہیں ہے کہ دھوکا دینے کے لیے یہ بات یا اعتراض ذکر کیا جائے۔

ہاں بہت سی ضرورتیں، مصلحتیں، اغراض و احکام اس سے وابستہ ہیں، اور ضروریات ہر زمانے کی جدا جدا ہونا مستبعد نہیں ہے۔

     ممکن ہے حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں اس کی ضرورت نہ ہو اور بعد کے ادوار میں جب آدم علیہ السلام سے نسل آگے بڑھی، عورتوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تو بعد کے انبیاء نے اس ضرورت کو محسوس کیا لہذا تعدد فرمایا۔

سوال میں جو دلیل پیش کی گئی وہ ہمارے مدعی ہی سے خارج ہے۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ تعدد میں کئی حکمتیں و مصلحتیں ہیں لہذا اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اور آپ کی دلیل ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے ایک ہی بیوی بنائی گئی دونوں میں کوئی جوڑ نہیں ببین تفاوت راہ از کجاست تا بہ کجا۔ 

(۳) ایک حدیث آپ بتا دیجیے جس میں تعدد کی فضیلت آئی ہو؟

جواب: حدیث نبی کریم ﷺ کے قول و فعل و تقریر کو کہا جاتا ہے۔ کیا تعددِ ازدواج آپ کا فعل نہیں ہے؟؟ 

اور  تأسی رسول کی فضیلت سے ثابت ہے۔ نیز کسی چیز میں فضیلت آتی ہے اس میں موجود فوائد و حِكَم کی وجہ سے تعددِ ازدواج کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه، إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد عريض.(مشکاۃ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تمہارے پاس ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو تو اس کا نکاح کر دو، اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پیدا ہو جائے گا۔

     اس حدیث سے واضح طور پر یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ اگر ایک بیوی والا بھی تم کو پیغام نکاح دے لیکن اس کے دینداری اور اخلاق سے تم راضی ہو تو منع کرنا عمومِ فساد کا سبب بن سکتا ہے۔ کیوں کہ اس حدیث میں فتنہ اور فساد کی تفسیر علماء نے زنا اور عورتوں کا بغیر شوہر کے رہ جانے سے کی ہے جو ترکِ تعدد کی صورت میں ظاہر ہے۔

ابن ماجہ شریف میں ایک روایت ہے :

عن أنس بن مالكؓ يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من أراد أن يلقى الله طاهرا مطهرا، فليتزوج الحرائر۔

رسول الله ﷺ کا فرمان ہے : “جو شخص یہ چاہتا ہو کہ وہ اللہ سے پاک اور پاکیزہ حالت میں ملاقات کرے، تو اسے چاہیے کہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے۔”

اس حدیث کے ضمن میں بعض علماء نے فرمایا کہ "الامر راجع الى التعدد اذ كثيرا لا تقنع النفس بالواحدة فتطمع في غيرها"

یعنی امر تعدد کی طرف راجع ہے کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نفس ایک ہی بیوی پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ دوسری کی طرف بھی رغبت اور طمع رکھتا ہے۔

     لیکن اس میں دو کمیاں ہیں ایک تو یہ کہ یہ حدیث سلام بن سوار اور کثیر بن سلیم کی وجہ سے ضعیف ہے اور علامہ سندھی نے ان بعض علماء کے قول کی یہ کہتے ہوئے تردید کی ہے کہ "الحرائر" کا الف لام جنس کی طرف راجع ہے چناں چہ تعدد کو لازم ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ یہ حدیث موقوف تو بخآری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله تعالی عنہ سے ثابت ہے ؛ "نکاح کرو اس لیے کہ ہم میں بہتر وہ ہے جو ہم میں زیادہ بیویوں والا ہو۔"

    حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا اس کا یہ معنی بعض علماء نے بیان کیا ہے :  کہ امتِ محمد ﷺ میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے پاس دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بیویاں ہوں، بشرطیکہ دیگر تمام فضائل میں وہ اس کے برابر ہوں۔”

    علماء ایسی احادیث موقوفہ - جو ما لا یدرک بالقیاس ہو یعنی اس میں عقل کا دخل نہ ہو- اس کو مرفوعِ حکمی کا درجہ دیتے ہیں۔ اب یہ موقوف حدیث اس درجہ کی ہے یا نہیں کبار علماء فیصلہ کریں گے۔

...........

قسط :۱۰

تعدد ازدواج - سوال ان کے جواب ہمارے

(۴) آپ صلی الله تعالی علیہ و آلہ وسلم نے کبھی کسی صحابی کو دوسرے نکاح پر نہیں ابھارانہ کسی عورت کو کہا کہ آپ دوسری بیوی بن جائیں۔

(۵) خود حضرت نبیِ کریم ﷺ نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں فرمایا جب تک آپ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ الکبری رضی الله تعالی عنہا حیات تھیں۔

(۶) اور نہ ہی آپ کے دامادوں نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں کیا جب تک ان کی پہلی بیوی یعنی نبی کریم ﷺ کی پاک بیٹیاں حیات تھیں۔

جواب :

     تعددِ ازدواج حکمتوں سے بھرا ایک مباح کام ہے۔ آپ کے عمل کے ساتھ اگر فضائلِ قولیہ بھی ثابت ہوتے یعنی آپ زبان سے بھی دوسروں کو ترغیب دیتے مبادا یہ حکم سنت یا سنت مؤکدہ اشد تاکیدا گردانا جاتا، جس سے بعد والی امت کو بالخصوص عاشقان رسول کو سخت کوفت ہوتی کہ ہم - ہمارے دیار میں رواج نہ ہونے کے باعث- عمل سے محروم ہیں۔

     علاوہ ازیں ترغیب کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب لوگوں میں اس کی طرف پیش قدمی نہ ہو۔ ہم کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ خیر القرون میں تعدد کوئی ایسا مباح کام نہیں تھا کہ جس پر ابھارنے کی ضرورت پیش آئے۔ لوگ بڑھ بڑھ کر زوجات میں اکثار کرتے۔ حتی کہ قرآن نے پابندی عائد کردی جو تعدد کا چلن ہے یہ اس وقت  تک جاری رکھو جب کہ چار سے پار نہ ہو، دو بہنیں ایک ساتھ نکاح میں نہ ہو اور عدل کرسکتے ہو۔

      ہم دیکھتے ہیں کہ عورتیں دوسری بیوی بننے میں ذرا عار نہیں کیا کرتی تھی حتی کہ اپنی بہن کی سوتن بن جاتیں، یا پانچویں بیوی بن جاتیں حتی کہ دسواں نمبر بھی ان کو قبول ہوتا، حدیث کی کتابیں ان کی شاہد ہیں حتی کہ قرآن نے آکر حدوں کو مقرر کردیا۔

    لیکن تعدد کو باقی رکھا، جب تعدد کی طرف ایسی پیش رفت تھی تو ترغیب نفسِ عمل کی نہیں دی جاتی بلکہ اس میں موجود شرائط و احکام کینڈی جاتی ہے، اس حساب سے آپ احادیث کا جائزہ لیں کس قدر تعدد کی احادیث احکام موجود ہیں، کسی عمل کے احادیث احکام کی کثرت اس کے فضائل کے لیے کافی ہیں۔

     چلیں تسلیم کرلیں نبی کریم ﷺ نے کسی صحابی کو دوسرا نکاح کرنے کی یا کسی صحابیہ کو دوسری بیوی بننے کی ترغیب نہیں دی۔ کیا آپ نے کسی مرد کو دوسرا نکاح کرنے سے (سوائے حضرت علی رضی الله تعالی عنہ کے جس کی وجہ ممانعت کچھ اور ہے) یا کسی عورت کو دوسری بیوی بننے سے روکا ہے؟؟ 

آپ نے یہاں تک کہا کہ فلاں بیوی کو بہت مارنے والا ہے، اپنی چھڑی گردن سے رکھتا نہیں ہے۔ فلاں کنگال شخص ہے اس سے نکاح کا مشورہ نہیں ہے۔ فلاں عورت کو ذرا دیکھ لینا کیوں ان میں آنکھوں میں کچھ (عیب) ہے۔ لیکن آپ نے کسی کو یہ کہہ کر منع نہیں کیا ہے کہ اس کی تو پہلے ہی سے بیوی ہے اس سے نکاح مت کرو ، یا کسی کو کہا ہو کہ آپ کی ضرورت تین بیویوں سے بحسن وخوبی انجام پارہی ہیں آپ چوتھا نکاح مت کرو۔

یقیناً آپ نے حضرت خدیجہ الکبری رضی الله تعالی عنہا کی موجودگی میں کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا یہ حضرت خدیجہ الکبری رضی الله تعالی کے آپ صلی الله تعالی علیہ وسلم کے نزدیک عظیم المرتبت ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے حضرت خدیجہ الکبری رضی الله تعالی عنہا نے آپ کو دوسری بیوی سے بے نیاز کردیا تھا۔


علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں: 

قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: "وَهَذَا مِمَّا لَا اِخْتِلَاف فِيهِ بَيْن أَهْل الْعِلْم بِالْأَخْبَارِ , وَفِيهِ دَلِيلٗ عَلَى عِظَمِ قَدْرهَا عِنْده وَعَلَى مَزِيد فَضْلهَا ، لِأَنَّهَا أَغْنَتْهُ عَنْ غَيْرهَا ، وَاخْتَصَّتْ بِهِ بِقَدْرِ مَا اِشْتَرَكَ فِيهِ غَيْرهَا مَرَّتَيْنِ , لِأَنَّهُ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاشَ بَعْد أَنْ تَزَوَّجَهَا ثَمَانِيَة وَثَلَاثِينَ عَامًا ، اِنْفَرَدَتْ خَدِيجَة مِنْهَا بِخَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ عَامًا وَهِيَ نَحْو الثُّلُثَيْنِ مِنْ الْمَجْمُوع , وَمَعَ طُول الْمُدَّة فَصَانَ قَلْبهَا فِيهَا مِنْ الْغَيْرَة وَمِنْ نَكَد الضَّرَائِر الَّذِي رُبَّمَا حَصَلَ لَهُ هُوَ مِنْهُ مَا يُشَوِّش عَلَيْهِ بِذَلِكَ , وَهِيَ فَضِيلَة لَمْ يُشَارِكهَا فِيهَا غَيْرهَا" انتهى. ("فتح الباري" (7/137) .

وقال الحافظ ابن كثير رحمه الله: "و لم يتزوج في حياتها بسواها، لجلالها و عظم محلها عنده" ("الفصول في سيرة الرسول" ، 104) .

وقال أيضا 

".. وكونه لم يتزوج عليها حتى ماتت، إكراما لها، وتقديرا لإسلامِها " انتهى . "البداية والنهاية" (3/159) .

ممکن ہے ان ہی وجوہات کی بنا پر نبیِ کریم ﷺ کے دامادوں نے آپ کی بیٹیوں کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا اور نہ ہی ان کو ضرورت پیش آئی ہو۔

نسائی شریف کی روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے اور حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہما نے بھی رسول الله ﷺ کو حضرت فاطمہ رضی الله تعالی عنہا کے بارے میں نکاح کا پیغام بھیجا اور آپ نے یہ کہتے ہوئے منع فرمادیا: انھا صغیرۃ (کہ وہ چھوٹی ہیں عمر کا تفاوت کافی برس کا ہے)

حالاں شیخین شادی شدہ تھے اگر دوسری بیوی ہونے کی حیثیت سے سیدۂ جنت حضرت فاطمہ رضی الله تعالی عنہا کا ہاتھ مانگنا آپ کے نزدیک برا ہوتا تو شیخین جو آپ کی مزاج کی سب سے سے زیادہ واقف کار ہیں کبھی پیغام نہ بھیجتے۔ اور نبیِ کریم ﷺ نے بھی جو منع فرمایا اس کی وجہ یہ نہیں فرمائی کہ تم پہلے سے بیویوں والے ہو۔

     بہر حال کثرتِ زوجات کا اس قدر رواج تھا کہ نبی آقائے دوجہاں کی بیٹی کو ادھیڑ عمر اشخاص پیغامِ نکاح دینے میں عار محسوس نہ کرتے اور نہ یہ محسوس کرتے کہ نبی کو گراں بار خاطر نہ ہوں۔

کوئی یہ نہ کہے کہ اس زمانے میں رواج تھا اس دنیا میں اس کا چلن نہیں ہے اس لیے کہ رواج بنتا ہے اپنانے سے عمل میں لانے سے اس زمانے کے افراد سے کیا ہم نہیں دیکھتے کہ پاک میں افراد رواج دیتے جارہے ہیں اور دبی و کویت میں افراد چلن ختم کرتے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں وہاں کا عائلی معاشرہ پورپ و امریکہ کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔

(۷) بلکہ حضرت علی رضی الله تعالی عنہ کو تو روکنا ثابت ہے۔

جواب: حضرت علی کو سیدۂ جنت حضرت فاطمہ پر نکاح سے منع فرمایا اس کی کئی وجوہات علماء نے تحریر کیے ہیں:

۱) نبی کریم ﷺ تمام امت کے روحانی والد ہیں اور نبی کریم ﷺ کی نسبت کی وجہ سے حضرت فاطمہؓ  امت کی تمام عورتوں کے لیے قابلِ تعظیم ہیں جبکہ سوکن کے ساتھ عام طور پر عورتوں کی فطری خلقت کے اعتبار سے سوکنوں کا آپس میں حسد  یا رشک اور شوہر کو خود سے قریب کرنے اور سوکن سے دور کرنے کا معاملہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں سوکنوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے  بغض یا میل آجاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت فاطمہ ؓ ، سوکن کی وجہ سےدینی اعتبار سے  آزمائش میں مبتلا ہوں (شوہر کے حقوق ادا کرنے کے معاملے میں مثلاً)

حضرت فاطمہؓ کو سوکن سے ایذاء پہنچنے کے خدشہ تھا اور حضرت فاطمہ ؓ کو ایذاء پہنچنے سے نبی کریم ﷺ کو ایذاء پہنچتی جو کہ ممنوع ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے لکھا ہے کہ سوکنوں کے بغض کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کی بیٹی کے نکاح میں ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت  سے شادی کرنا ممنوع ہے اس لیے کہ پھر دوسری بیوی نبی کریم ﷺ کی بیٹی اور ان کے واسطے سے نبی کریم ﷺ کے گھرانے سے بغض میں مبتلا ہوجائے گی اورنبی کریم ﷺ کا بغض چاہے معاشی امور کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو، کفر تک لے جاتا ہے! (دارالافتاء بنوریہ)

۲) رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کا جمع ہونا نامناسب ہونا

نبی ﷺ نے فرمایا: "اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں کبھی جمع نہ ہوں گی۔"

امام ابن القیم کہتے ہیں: یہ ایک عظیم حکمت ہے، کہ فاطمہ کا مقام اتنا بلند تھا کہ ان کے برابر ابوجہل کی بیٹی کو رکھنا شرعاً و قدراً مناسب نہ تھا۔

 ۳) فاطمہ رضی اللہ عنہا کی  عظمت و مقام کا اظہار کی وجہ سے منع فرمایا۔

ابن حبان کہتے ہیں: یہ نکاح حضرت علی کے لیے اصلًا جائز تھا، مگر نبی ﷺ نے فاطمہ کی تعظیم کے لیے اسے ناپسند فرمایا، نہ کہ نکاح کو حرام قرار دیا۔

اسی لیے نبی ﷺ نے صراحتاً فرما دیا: "میں کسی حلال چیز کو حرام نہیں کرتا اور نہ کسی حرام کو حلال کرتا ہوں۔" (بخاری، مسلم)

٤) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں: "السياق يشعر بأن ذلك مباحٌ لعلي ، لكنه منعه النبي صلى الله عليه وسلم رعاية لخاطر فاطمة ، وقَبِلَ هو ذلك امتثالاً لأمر النبي صلى الله عليه وسلم .

والذي يظهر لي أنه لا يبعد أن يُعدَّ في خصائص النبي صلى الله عليه وسلم أن لا يتزوج على بناته ، ويحتمل أن يكون ذلك خاصاً بفاطمة رضي الله عنها" انتهى من "فتح الباري" (9/329)

ترجمہ : سیاق اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ (کام) علی رضی الله تعالی عنہ کے لیے مباح تھا، لیکن نبی ﷺ نے فاطمہ کی خاطر داری (اور دل کا خیال رکھنے) کی وجہ سے اسے منع فرمایا، اور انہوں (یعنی علی رضی اللہ عنہ) نے نبی ﷺ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسے قبول کرلیا۔ اور میرے نزدیک ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ بات بعید نہیں کہ نبی ﷺ کے خصائص (خصوصی احکام) میں شمار کی جائے کہ آپ کی کسی بھی بیٹی پر (کسی اور عورت سے) نکاح نہ کیا جائے گا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ خصوصیت صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خاص ہو۔"

دوسری جگہ فرماتے ہیں: اور یہ واقعہ فتحِ مکّہ کے بعد کا تھا، اور اس وقت نبی ﷺ کی بیٹیوں میں سے اس کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہ گئی تھی، اور وہ اپنی ماں کے بعد اپنی بہنوں (کی وفات) سے مصیبت زدہ ہو چکی تھی، تو اس پر غیرت داخل کرنا  اس کے غم کو بڑھانے والا ہوتا۔" (اس لیے منع فرمایا) (فتح الباری)

محمد یحیی بن عبدالحفیظ قاسمی

( #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_42.html



آداب مباشرت

آداب مباشرت 
شب زفاف قدم بقدم (مختصر)
ہمارے ایک بزرگ ساتھی کہتے تھے کہ میرے چار سال ضائع ہوگئے۔ پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ پندرہ/۱۵ سال کی عمر میں شادی ہوجانا چاہئے، میری شادی انیس /۱۹ سال کی عمر میں ہوئی تھی۔
بات در حقیقت ایسی ہی ہے کہ الله تعالی نے مرد کے اندر عورت کی طرف کھچاؤ اور میلان رکھ دیا، دونوں کو ایک دوسرے کا جائے ضرور اور محتاج بنادیا ہے، بالغ ہونے کے بعد بے کلی بڑھ جاتی ہے، میلان افزوں تر ہوجاتا ہے، بلکہ ضرورت کا درجہ اختیار کرلیتی ہے۔
شریعت نے بھی اس ضرورت کی تکمیل کا خاص خیال رکھا ہے اور بعض ناپسندیدہ چیزوں سے روکتے ہوئے دونوں کو ایک دوسرے کے لیے مکمل طور پر قابل استمتاع اور لطف اندوزی کا ذریعہ و سیلہ بنایا ہے۔
بلکہ اولاد کا حصول جو ایک شدید ضرورت اور شدید تر چاہت انسانی ہے اس کو بھی اس عمل سے جوڑ دیا ہے۔
ہمارے ایک ساتھی کھانے کی طرف اپنے اصحاب کو بلاتے تو مجلس میں پکارتے "تعالوا الی عمل الجنۃ"۔ (جنت کے عمل کی طرف چلو)
میرے دل میں خیال آیا کہ جس طرح جنت میں جنتی بھوک کی ٹرپ نہ ہونے کے باوجود بھی کھائے گا صرف حاصول لذت کے لیے اسی طرح اولاد کی  طلب نہ ہونے کے باوجود بھی جنتی عمل جماع میں مشغول ہوگا۔ 
طعام اور زنان کا خاص جوڑ ہے، دونوں انسان کی ضرورت ہے۔ اور دونوں میں مرد تعدد و تفنن چاہتا ہے۔ دونوں گرم اور تر پسند کی جاتی ہے، دونوں منہ زبانی کھائی جاتی ہے اور دونوں سے مرد ایک وقت تک کے لیے ہی سیراب ہوتا ہے۔
بہر حال جماع ایک ایسی ضرورت ہے جس کی جائز تکمیل کے لیے اسلام نے نکاح کو رکھا ہے ، نکاح کو آسان کردیا، جلد نکاح کرنے کی ترغیب دی۔
ہمارے دیار میں مختلف غیر مقبول وجوہات کی بنا پر نکاح میں تاخیر کردی جاتی جس کی وجہ سے ایک لمبی مدت خواہش، ضرورت، تقاضا ہونے کے باوجود مرد و عورت اپنی ضرورت کی تکمیل نہیں کر پاتے جس سے دونوں میں کئی طرح کی نفسانی و جسمانی بیماریاں جڑ پکڑ لیتی ہیں۔ اور ان کا بدن بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ ڈہریشن، چڑچڑاپن، کثرت احتلام، سستی، طبیعت پر تقل وغیرہ بہت سے امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر آفتاب عالم لکھتے ہیں: 
۔۔۔اور اس سے انحراف اور بغاوت بے کیف و بے مزا زندگی اور مختلف قسم کے امراض کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔۔۔ منی کا روکاؤ نہ صرف طبیعت کو بوجھل رکھتا ہے بلکہ بعض اوقات بڑا فساد پیدا کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو گرم مزاج نو جوان مرد اپنی طبیعت پر جبر کر کے شادی نہیں کرتے وہ اکثر امراض جنون اور فساد خون میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
  بدن کو صحت مند اور اعضاء جسمانی کو مستعد و فعال (ACTIVE) رکھنے کے لئے غذا اور لباس کی طرح جماع کرنا بھی ضروریات بدن میں شامل ہے۔ 
جماع کے ذریعہ بدن کے فضلات (غیر ضروری اجزاء ) دفع ہو جانے سے بدن سبک اور ہلکا ہو جاتا ہے۔ طبیعت میں خوشی ، نشاط اور جولانیت پیدا ہو جاتی ہے، جو بدن کو غذا کی خواہش و قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ جس سے خوب بھوک لگتی ہے۔
جماع غضب و غصہ کو ساکن کرتا ہے۔ برے خیالات اور وسوسوں کو دور کرتا ہے، روشن خیال پیدا کرتا ہے۔ جماع کے وقت اخراج منی پر جو بے پایاں کیف و سرور حاصل ہوتا ہے اُس کو الفاظ کے ذریعہ سمجھانا اور بتانا ممکن ہی نہیں ۔ کسی پھل کا مزا تو کھانے پر ہی معلوم ہوسکتا ہے۔ کسی نابالغ کو انزال کی لذت الفاظ کے ذریعہ نہیں سمجھائی جاسکتی ہے۔ یہی انزال یا اخراج منی اگر جلق (مشت زنی) یا کسی اور غیر فطری طریقہ سے ہو تو یہ بات حاصل نہیں ہوتی۔ غیر فطری طریقوں سے مختلف قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جماع سے اعضاء رئیسہ کمزور اور جسم نحیف و لاغر ہوجاتا ہے۔ چہرہ کی چمک دمک اور رونق ختم ہو جاتی ہے اور آدمی جلد بوڑھا ہو جاتا ہے ایسا خیال بالکل غلط ہے جو محض جہالت اور کم علمی پر بنی اور موقوف ہے یہ صورت اُس وقت ضرور لاحق ہوسکتی ہے جب کہ اس فعل جماع کو حد اعتدال اور ضرورت سے کہیں زیادہ نیز غلط اور بے ڈھنگے پن سے انجام دیا جائے۔
صحبت کے وقت عورت و مرد کے جسموں کا لمس دونوں کے جسموں میں ایک برقی قوت اور لطیف و پرکیف انداز میں بے پایاں جوش و خروش فراہم کرتا ہے۔ جو حرارت غریزی کو قوت اور روح کو جولانیت بخشتا ہے اس حالت کی چند گھڑیاں بے پایاں خوشی کے ذریعہ دل کو وہ سکون و روح کو وہ سرور عطا کرتی ہیں جوکسی بھی قیمتی سے قیتی ٹانک اور سونے و جواہرات کے کشتہ جات کے استعمال سے بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہر محل جماع سے مزاج میں شگفتگی طبیعت میں جولانی اور دل میں قوت پیدا ہوتی ہے اور ساری سستی دور ہو جاتی ہے طبیعت سے غضب و غصہ کا ازالہ ہوتا ہے اور عقل سلیم پیدا ہوتی ہے۔ حواس خمسہ بیدار ہوجاتے ہیں۔ جس سے صلاحیتیوں میں اضافہ ہوتا ہے ہر کام کرنے میں اُس کا دل لگتا ہے، حوصلہ برقرار رہتا ہے۔ عورت بھی جسمانی اور ذہنی طور پر مستعد و خوش نظر آتی ہے۔
ایک ماہر لیڈی ڈاکٹر نے اپنے تجربہ کی بنا پر لکھا ہے کہ جنسی خواہش پیدا ہونے کے بعد اگر اس کو دفع نہ کیا جائے تو انسان کو نیند نہیں آتی اور وہ بے چین سا رہتا ہے ایسی حالت میں عبادت میں شہوانی و شیطانی خیالات کی بھر مار سے نہ تو نماز ہی پورے کے دھیان اور توجہ سے پڑھی جاتی ہے اور نہ دوسری عبادتوں میں ہی جی لگتا ہے۔
جماع سے امراض گردہ و مثانہ کا ازالہ ہوتا ہے۔ ورم خصیتین دور ہوتا ہے۔ مرض مالیخولیا (MANIA) ایک قسم کا جنون و پاگل پن کا سد باب ہوتا ہے۔ میں نے کئی ایسے نوجوانوں کو دیکھا ہے جن کو یہ عارضہ تھا اور اطبا نے اس کا علاج شادی کر دینا بتایا تھا چنانچہ شادی کے بعد اُن کا یہ مرض ختم یا کم ہو گیا۔ مرض کا اصل سبب جو ذہنی الجھنیں تھیں وہ جماع سے دور ہوگئیں۔
جسم میں قوت جماع کی موجودگی میں خواہش جماع کی تکمیل سے انحراف و گریز اور جبرا خواہش جماع کر دہانے سے بجائے فائدہ کے شدید نقصان ہوتا ہے کثرت احتلام کا مرض کی لاحق ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ مختلف قسم کی ذہنی الجھنوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اکثر بدن میں دردو چکر طبیعت میں کرب و بے چینی۔ مزاج میں ترشی و چڑ چڑاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ نگاہ کمزور۔ آنکھیں اندر کو دھنس جاتی ہیں۔ دماغ کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے۔ بار بار عضو میں انتشار ہونے سے مجبور ہو کر جو لوگ جلق، اغلام یا کسی اور غیرفطری طریقہ پر اخراج منی کے ذریعہ سکون حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے عادی ہوجاتے ہیں، وہ آگے چل کر جریان منی کے مریض بن جاتے ہیں۔ مادہ تولید پتلا اور عضو کی نسوں میں ڈھیلا پن آجاتا ہے جس سے ذرا سی شہوانی تحریک و خیال پر یا کسی حسین عورت پر نگاہ پڑتے ہی انزال ہو جاتا ہے پھر ایسے لوگ جب کبھی شادی کا ارادہ کرتے ہیں تو اپنے آپ کو ناکارہ محسوس کرنے لگتے ہیں اس وقت ان کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔
(آداب مباشرت)
۔۔۔۔۔۔۔
قسط دوم :
(شب زفاف قدم بقدم)
مرد ہو یا عورت ہو پہلی ملاقات یعنی پہلی مرتبہ بستر پر غیر جنس کے ساتھ جمع ہونا یعنی ہم بستری کا پہلا موقع دونوں کے لئے نہایت اہم ہوتا ہے۔ برسوں سے اس کا انتظار رہتا ہے اور برسوں تک یاد رہتا ہے۔ خوشی اور تشویش، یاس و رجا، خوف و جذبے کی ملی جلی کیفیت سے دونوں دوچار ہوتے ہیں۔
بعض مردوں پر عمدہ کارکردگی کی فکر سوار رہتی ہے، کہ آج تو گل حسن جاناں کی پنکھڑیاں اڑانی ہی ہے۔ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو ایسا مظاہرہ کرنا کہ بس الله ہی خیر کرے۔
مدتوں بعد ہم کسی سے ملے
یوں لگا جیسے زندگی سے ملے
وہ سوچتا ہے مدتوں کی پیاس میں یاس کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا۔ آج ہمارا جلوہ ہی الگ ہوگا۔ حد سے زیادہ پرامید اور یقینی طور پر کچھ کر گزرنے کی چاہت اس کو جلد باز کردیتی ہے اور بسا اوقات وہ اپنی شریک حیات کو کوفت و بے چینی اور الجھن اور نفرین میں مبتلا کردیتا ہے۔
بعض مرد احساس کمتری اور شرما شرمی کے شکار ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں آج مہندی رنگ لائے گی یا نہیں، کہیں کارہائے ناگفتہ کی سزا رفیق حیات کے حضور پشیمانی کی شکل میں نہ دے دی جائے۔ وہ راستے کے بارے ہی میں بے چین رہتا ہے کہ صحیح گزرگاہ ہی سے گزر ہوگا یا نہیں، جائے قرار کہاں ہے؟ مخرج کی تو تعلیم حاصل کرلی اب مدخل کیسے معلوم ہو۔
ایسے مرد شدید گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں، ان کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑجاتے ہیں۔ خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے بیوی کے سامنے ناکام ہونے کا ڈر پریشان کرتا ہے۔ بعض لوگ اس قدر شرمیلے ہوتے ہیں کہ بے حقیقت خوف کا شکار ہوتے ہیں، ایسے لوگ شدید ذہنی الجھن محسوس کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں یہ ایک غیرمعمولی کام ہے۔ اگر بیوی سمجھدار ہو یا شوہر دیدہ ہو تو وہ ایسے مرد کو آسانی سے کارآمد بنا دیتی ہے۔ لیکن عموما لڑکی کنواری ہوتی ہے جس میں شرم و خوف مرد سے زیادہ ہوتا ہے، مرد اگر پوری رات گھونگھٹ نہ ہٹائے تو یہ پوری رات گھونگھٹ میں ہی بیٹھی رہے۔
وہ بھی ڈر رہی ہوتی ہے کہ میں اچھی بیوی ثابت ہوسکوں گی یا نہیں، مجھے تکلیف تو نہیں ہوگی؟ میری چیخ نکل گئی تو؟ اگر میں قابو نہ پاسکی تو شوہر ناراض ہوجائے گا۔ اے الله تو ہی آج لاج رکھنا۔
دونوں کی حالت ان دو مقابل کی طرح ہوتی ہے جو لڑنے پر آمادہ ہیں لیکن ایک دوسرے سے ڈر بھی رہے ہیں۔ لہذا راہ الفت میں قدم رکھنے والوں کو ان چند باتوں کا خیال رکھنا چاہئے جن کو ہم ترتیب وار قدم بقدم ذکر کئے دیتے ہیں۔
(۱) شب زفاف کے لئے مناسب جگہ کا انتخاب:
جس کمرہ میں رات گزارنے کا ارادہ ہو وہ گھر کے افراد کی آمد و رفت سے محفوظ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ وہاں مشترکہ بیت الخلاء یا کچن ہے جس میں لوگوں کا ضرورت کے وقت آنا متوقع ہو۔
وہ جگہ ایسی بھی نہ ہو کہ اندر کی باتیں یا آوازیں باہر سنائی دیتی ہوں، یا گزرنے والے کی نگاہ پڑجانے کا خوف ہو۔ پرسکوں کمرہ ہو،جس میں خوب صفائی یا کچھ سجاوٹ کردی گئی ہو۔
 پلنگ ہوجو آواز نہ کرتا ہو اور مرد کے نصف اول کے بقدر اونچا ہو یا گدے دار بستر کا انتظام ہو جس کو دیوار سے لگا کر زمین پر ڈال رکھا ہو۔ گدا بہت زیادہ اسپنج والا نہ ہو کہ اندر دھنستا ہو اور پوزیشن نہ لی جاسکتی ہو۔
 کمرے میں (ڈیم بلب کے ذریعہ) ہلکی روشنی ہو، اگر دولہا یا دلہن کو شرم کا زیادہ احساس ہورہا ہو تو عین جماع کے وقت مکمل اندھیرا کیا جاسکتا ہے۔
 بخور جلاکر فضا کو معطر کردیا ہو تو نور علی نور۔
کمرہ غسل خانے سے متصل ہو، بہتر ہے کہ بیت الخلا کے لئے بھی کمرے سے باہر جانے کی نوبت نہ آئے۔ جماع کے بعد کھائی جانے والی مقوی غذا جیسے دودھ، مٹھائی، حلوہ یا مرغوب غذا جیسے فالودہ، چاکلیٹ وغیرہ کا نظم کمرہ میں ہو، بہتر یہ ہے کہ کچن بھی کمرہ سے متصل ہو۔ جماع کے بعد مرغن غذا کھانے سے کمزوری نہیں ہوتی ہے اور مرد دوبارہ جماع کرنے کے لئے جلد تیار ہوجاتا ہے۔ ٹھنڈ کا موسم ہو تو گرم چادر ورنہ عام چادر مہیا کرلی جائے۔ مرد کے لئے سوتی لنگی اور لڑکی کے لئے آرام دہ ملائم شب خوابی لباس جو ایک مرتبہ عروسی پوشاک اتارے جانے کے بعد زیب تن کیا جاسکے۔ حجرۂ عروسی میں داخل ہونے سے پہلے یہ چند کام اہتمام سے کرلیں:
دلہن تو بن ٹھن کر بناؤ سنگھار کرکے آتی ہی ہے، مرد بعض کاموں کی وجہ سے پسینہ والا ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے جوڑ بند میں بو محسوس ہونے لگتی ہے۔ لہذا وہ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرلے، بدن پر لگائی جانے والے خوشبودار لوشن یا عطر مل لے، موئے زیر ناف، بگل کے بال اگر نہ نکالے ہوں تو صاف کرلے، مونچھوں کو بھی اچھی طرح کتر لے کہ کہیں دلہن کو الجھن ہو کیوں وہ ابھی بال چبھتے ہوئے بوسوں کی عادی نہیں ہے۔ کپڑے پر ایسی عمدہ خوشبو لگائے جو عورتوں کو بھی پسند آتی ہو۔ عمدہ خوشبو شہوت فزوں تر کرتی ہے، میلان بڑھاتی ہے۔
عورتیں یہ سب کرتی ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر کرتی ہیں لہذا مرد کو بھی اہتمام کرنا چاہئے ۔ 
ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف.
مرد کے منہ سے اگر بدبو اتی ہو یا وہ سگریٹ گٹکا یا پان وغیرہ کھانے کا عادی ہو تو اس کو منہ اچھے سے صاف کرلینا چاہئے اور کوئی خوشبودار چیزیں جو میڈیکل پر ملتی ہیں کھا لینا چاہیے تاکہ منہ کی بدبو سے بیوی کو ایذا نہ پہنچے۔
جماع سےتین گھنٹے پہلے کھانے والی ایک مقوی نسخہ:
"آدھا کپ دیسی گھی لیا جائے اس میں آدھا کپ اصلی شہد ملائیں اور دیسی انڈا ڈال کر پھینٹ دیں۔ اور کھالیں اگرچہ ناگوار لگے۔" ( بواسیر والے احتیاط کریں)
جماع کے بعد کھائی جانے والا لذیذ، مرغن اور طاقتور لڈو اور مشروب:
کھجور کے لڈو:
آدھا کلو کھجور پاؤ کلو مکس ڈرائی فروٹ جس میں بادام، پستہ، اخروٹ، کاجو، تھوڑی سی کشمش، اور بالکل تھوڑے سے خشخاش۔۔۔ ان میں بادام کی مقدار زیادہ ہو۔۔ اس کے علاوہ جو بھی ڈرائی فروٹس اچھے لگے وہ بھی پاؤ کلو ڈرائی فروٹس کے حساب سے شامل کر سکتے ہیں۔۔۔۔ ڈرائے فروٹس کو چاقو سے کاٹ لیں اس طرح کے نہ زیادہ باریک ہو نہ بہت موٹے۔ کشمش کو بھی ۲-۳ تکڑے میں کاٹ لیں۔
کھجور کو دھوکر چھلنی میں پانی نکل جانے کے لئے رکھ دیں۔ جب پانی اچھے سے نکل جائے، پھر ساری گٹھلیاں نکال کر ایک کھجور کو تین چار تکڑے کرکے کاٹ لیں۔۔۔ اس کے بعد ساری کھجوریں مکسچر گرائنڈر میں پیس لیں۔
اس کے بعد ایک فرائی پین میں ایک ڈیڑھ چمچ گھی دال کر کشمش اور خشخاش کے علاوہ سارے ڈرائی فروٹس کو دھیمی آنچ پر فرائی کرلیں۔ بالکل آخر میں ڈرائی فروٹس فرائی ہونے لگے تب ان میں خشخاش بھی شامل کرکے فرائی کرلیں۔ آنچ دھیمی ہی رہے۔ اور پھر اسی میں پسی ہوئی کھجور ڈال کر کھجور اور ڈرائے فروٹس کو مکس کر لیں آہستہ آہستہ جب دونوں یک جان ہو جائے تب گیس کو بند کر دیں اور اب اس میں کشمش بھی ڈال کر ملالیں۔ اور اب اسے تھنڈا ہونے رکھ دیں۔۔۔۔ جب تھوڑا تھنڈا ہوجائے تو چھوٹے چھوٹے لڈو بنا لیں۔ ایک آد لڈو جماع کے بعد تناول فرمائیں اس کے بعد مندرجہ ذیل مشروب نوش فرمائیں؛
کھجور کا شربت؛
دو گلاس جوس کی ترکیب:
 چھوٹی سات کھجوریں یا بڑی پانچ کھجوریں دھو کر گٹھلی نکال کر بڑے ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔ پھر ایک کپ دودھ گرم کرکے گیس بند کردیں اور اس میں کھجور، سات کاجو، تھوڑا سا زعفران، چند قطرے وینیلا ایسینس اگر میسر ہو اور حسب ذائقہ شکر ڈال کر رکھ دیں۔ 
ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد کھجور، کاجو اور جس دودھ میں کھجور بھگائی تھی وہ بھی آدھا کپ ڈال کر مکسر میں باریک پیس لیں۔ یہاں تک کہ بالکل باریک پیسٹ بن جائے اور رنگ بدل جائے۔ اس کے بعد اس میں باقی بچا ہوا دودھ اور اس کے علاوہ ایک گلاس ٹھنڈا دودھ اور دو تین چمچ فریش کریم/دودھ کا پاؤڈر ڈال کر اچھے سے دو منٹ تک مکسر کو چالو رکھیں۔ اس کے بعد جوس کو تھنڈا کر کے پی لیں۔
شادی کے شروع ایام میں صبح اور شام کا ناشتہ:
صبح سویرے: 
ابلے ہوئے دیسی انڈے جس قدر ہاضمہ بآسانی گنجائش دے۔ اور رات سے کھجور یا چھوارے ڈلا ہوا دودھ۔
شام میں: 
کھجوروں کو دیسی گھی کے ڈبے میں ڈال کر رکھیں، حسب ضرورت نکالیں اور ہلکی آنچ پر توے پر گرم کرکے کھائیں۔ اور اپنی نئی نویلی بیوی کو بھی کھلائیں، لیکن زیادہ نہیں، یاد رکھیں کھجور وزن بڑھاتا ہے ، اور عورت شادی کے بعد پھولنا اور پھیلنا شروع ہوتی ہے اس کو ایسی چیزوں سے احتراز چاہیے جو اسے فربہ کرکے بدنما کردے، اور اس کے خوش نما فگر کو دل و جگر سے اتار دے۔
اطباء کہتے ہیں: ایام سرور شہر (شادی کے بعد کے ابتدائی ایام خوشی) میں چائے اور منشیات سے خوب دوری بنائے رکھے۔
۔۔۔۔۔
قسط سوم
حساس اعضاء:
حجرۂ عروسی میں جاکر دلہن کے رو بہ رو ہونے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ مرد اور عورت ہر دو کے حساس اعضاء کون سے ہیں کہ جس پر مساس کرنے یعنی ہاتھ اور ہونٹ کے ذریعہ پیار کرنے سے شہوت برانگیختہ ہوتی ہے۔
ملاعبت یعنی بیوی سے جماع سے قبل کھیلتے وقت ان ہی حساس اعضاء سے شوہر یا بیوی کو آمادۂ جماع کیا جاتا یا شدید اشتیاق بلکہ ضرورت یا احتیاج پیدا کی جاتی ہے۔
ملاعبت ہی کے ذریعہ سے جماع در حقیقت جماع اور لذت سے بھر پور بنتا ہے۔ بسا اوقات عورت کو جماع سے اس قدر لذت محسوس نہیں ہوتی جتنا ملاعبت اور کھیلنے (for play) میں حاصل ہوتی ہے۔
ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ مرد عموما جلد تیار اور آمادۂ جماع ہوجاتا ہے اور انزال منی کے بعد جلد مطمئن بھی ہوجاتا ہے اور سست بھی پڑ جاتا ہے اس کے بر خلاف عورت ہے جس کی جائے شہوت (فرج) اندر ہے، نہ وہاں تحریک ہوتی ہے اور نہ ہی ہاتھ لگتا رہتا ہے۔ 
لہذا نہوض شہوت اور جماع کی طلب پیدا کرنے کے لیے اس کے ساتھ ملاعبت کرنا اور اس کے حساس اعضاء پر مس و جس (مساس) کرنا ضروری ہوتا، وہ دیر سے آمادۂ جماع ہوتی ہے اور انزال کے بعد بھی وہ کچھ دیر تک غیرمطمئن اور تشنہ رہتی ہے۔ اس لیے جماع کے بعد بھی اس کے حساس اعضاء میں شغل رکھنا اس کو سیراب کرنے میں معین و مددگار ہوتا ہے۔
مردانہ حساس اعضاء:
مردوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے عموما اس کے حساس حصوں کو سہلانا نہیں پڑی۔ اس مقصد کے لئے بیوی کی جسمانی قربت ہی کافی ہوتی ہے لیکن اگر شوہر تھکاماندہ اور کمزور ہو اور جنسی فعل پر آمادہ نہ ہو تو اس کے حساس حصوں کو سہلانے سے وہ جنسی طور پر بیدار ہوسکتا ہے۔ بعض مرد اس قسم کی پیش قدمی کو پسند کرتے ہیں اور انہیں اپنے اعضاء پر عورت کی انگلیوں اور لبوں کے لمس سے آہستہ آہستہ کاٹنے سے بے حد لطف آتا ہے۔ اس طرح سے ان کے ذہن میں زبردست ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ بعض مرد اس قسم کی حرکت پسند نہ کریں۔ اس بات کا انحصار شوہر کی پسند اور ناپسند پر ہے۔ بعض مرد مساس میں خود تو بڑی گرم جوشی سے حصہ لیتے ہیں لیکن اگر عورت اس طرح کی حرکت کرے یا ان کے اعضاء کو چھوئے تو ان کو یہ بات غیر شائستہ اور فحش محسوس ہوتی ہے۔ عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کے مزاج کے مطابق اس سلسلے میں خود فیصلہ کرے۔
جنسی اعضاء (شرم گاہ) کے علاوہ مردوں میں کئی اور مقامات بھی جنسی اعتبار سے حساس ہوتے ہیں، مثلاً کانوں کی لویں، نپلز اور رانوں کا اندرونی حصہ ، پہلو کا حصہ، گردن اور ہونٹوں پر ہلکے بوسے۔ بعض مردوں کی کمر پر ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ اگر انگلیوں یا ہونٹوں سے چھوا جائے تو انہیں بہت لطف آتا ہے۔ یہ حرکت ریڑھ کی ہڈی کے نچلے سرے سے شروع کرتے ہوئے ایک ایک انچ کر کے اوپر بڑھنا چاہیے اور ہر مرتبہ تھوڑا سا دباؤ ڈالنا چاہئے۔ جب انگلیاں اس مقام پر پہنچیں گی جو بہت حساس ہے تو مرد اپنے بدن کو ہلکے سے جھٹکے سے اوپر اٹھائے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر مرد پر یہ تجربہ کامیاب ہو لیکن پھر بھی اکثر مرد کمر پر انگلیوں کے لمس سے لذت محسوس کرتے ہیں۔
اور مرد کے آلۂ تناسل کر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرکر اور مٹھی میں لے کر ہلکا ہلکا دبا کر بھی مرد کو جلد آمادہ کیا جاسکتا ہے۔
ہاں اگر مرد سریع الانزال ہو تو دخول سے پہلے ہاتھ لگانے سے پرہیز کرنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ مرد ہاتھ ہی میں انزال کردے۔ بالخصوص اول شب میں مرد کا آلۂ تناسل اس طرح کے تلاعب اور تصرف سے ناآشنا ہوتا ہے لہذا ایسا کرنے سے وہ بعجلت مستعد ہوکر جلد پانی بہانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
حساس نسوانی مقامات:
مساس کے بارے مثل مرد کے عورتوں کی الگ الگ پسند ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی عورت کو ایک مخصوص مقام پر مساس سے زیادہ لطف اتا ہو جبکہ دوسری عورت کو ایسا کرنے سے کوفت ہوتی ہو۔ جیسے بعض عورتوں کو کان کی لووں پر اور کان کے شغاف میں زبان پھیرنے سے بے حد اشتعال محسوس ہوتا ہے جبکہ دوسری عورتوں کو اس سے الجھن ہوتی ہے۔ اور جیسے ہی اکثر عورتوں کو کولہوں پر مساس سے کوئی خاص لطف محسوس نہیں ہوتا جبکہ بعض عورتوں کے جذبات کولہے کو معمولی سا سہلانے سے بھڑک اٹھتے ہیں۔
فریق مخالف کے حساس حصے خود تلاش کرنے پڑتے ہیں یہ صرف تجربے سے ہی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان میاں بیوی کے جسم میں کون سے حصے زیادہ حساس ہیں۔
بعض مشترکہ حساس (Sensitive) اعضاء٫ جو عموما عورتوں میں مشترک ہوتے ہیں:
 نپلز یعنی سر پستان جب کہ زبان یا ہونٹوں سے کھیلا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ پستانوں کو چوسنا عورتوں کا مین سویچ ہے۔ چھاتیوں کو آہستہ آہستہ سہلانا اور بعض عورتوں کو زور سے دبانا پسند ہوتا ہے۔
سینے کا بالائی حصہ اور گردن اس کے اطراف کے میت، یہی پر عورتوں کو ایسا بوسہ پسند ہوتا ہے جو نشان چھوڑ دے۔
بند آنکھوں پر ہلکے بوسے اور نچلے ہونٹ کا مص (چوسنا) بھی عورت کا حارۃ (گرم) بنادیتا ہے۔
ہونٹوں کو لبوں پر بوسہ اس طرح لیا جائے کہ عورت کے نچلے ہونٹ کو مرد چوسے اور مرد کے اوپری ہونٹ کو عورت۔  عورت اگر خوش دہان اور شیریں لعاب ہے اور مرد رغبت بھی رکھتا ہے تو عورت کی زبان بھی چوسے، اس دوران آپ دیکھو گے کہ عورت کی آنکھوں کی پتلیاں اوپر کو چڑھ رہی ہیں اور اس کے سر پستان پھول رہے ہیں اور چھاتیاں تن رہی ہے تو سمجھ جائیں کہ تحریک عمل کررہی ہے۔
عورت کے پہلو کا اسی طرح پشت کا حصہ سنسنی خیز طور پر حساس ہوتا آپ وہاں پر لمس و مس (ہاتھ، لب و لسان سے) کریں گے تو عورت کے مچلنے کو اپنی نگاہوں سے دیکھوگے۔ بعض اوقات عورت اتنی بے چین ہوجاتی ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مرد کے لبوں کو ہٹا دیتی ہے اور مضبوطی سے مرد کو چمٹ کر بوسوں کی بارش کردیتی ہے اور ایسے جگہوں پر ہاتھ پھیرتی ہے جہاں وہ اپنے ہوش میں نہیں پھیرتی تھی۔
دونوں رانیں اور بظر اندام نہانی: 
بظر اندام نہانی کی کہانی بڑی سہانی ہے، عورت کا سب سے حساس حصہ ہے، جسے چھونے سے زبر دست جنسی اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ اس کو سہلانے سے عورت کو جسم میں مارے شہوت کے جھنجھناہٹ اور سنسناہٹ طاری ہوجاتی ہے، بعض عورتوں کو بدن میں شدید جھٹکا محسوس ہوتا ہے۔
بے تکلف عورتیں کھل کے اپنی بے کلی کا اظہار کرتی ہیں اور جو خاتون تکلف کرتی ہیں اور اپنی بے قراری شوہر پر ظاہر نہیں کرنا چاہتیں یا پہلی رات کی شرم و حیا مانع ہے تو وہ بناوٹی حالت طمانیت بنائے رکھتی ہیں۔
اندام کے معنی بدن / جسم اور نہانی بمعنی پوشیدہ یہ دونوں فارسی لفظ ہیں اور بظر (بفتح الباء) عربی لفظ ہے وہ اس دانے اور مٹر جتنے گوشت کے ٹکڑے کو کہا جاتا ہے جو عورت کی شرم گاہ کے دونوں ہونٹوں کے درمیان  اوپر کی طرف ہوتا ہے، وہی قلفہ (پوش جلد) ہے جسے ختنہ میں کاٹا جاتا ہے۔
بعض عورتوں کے جذبات بھڑکانے کے لیے اسے سہلانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر بعض عورتیں اپنے طور پر بیدار نہیں ہوتیں ، شادی کے ابتدائی دنوں میں مختلف عورتوں میں بظر کا سائز مختلف ہوتا ہے۔ کبھی ہاتھ لگانے سے محسوس نہیں ہوتا نوآموز اس کو ٹٹولنے اور تلاش کرنے میں وقت ضائع کرتے ہیں۔
بظر کو انگلیوں کی پوروں سے بہت آہستہ آہستہ سہلانا چاہئے۔ بظر کے ارد گرد کا حصہ عموما خشک ہوتا ہے اور عورت کو رگڑنے سے ہلکی سی تکلیف ہوسکتی ہے۔ اس لیے جیسے ہی عورت کے جذبات بھڑکنے لگے ۔ اندام نہانی میں رطوبت پیدا ہونے لگتی ہے۔ یہ رطوبت بظر کو سہلانے کے لیے چکناہٹ کے طور پہ استعمال کی جاسکتی ہے ورنہ اس مقصد کے لئے کوئی کریم وغیرہ بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔
اگر سہلاتے سہلاتے اس کے دوسرے حساس اعضاء کو بھی ہاتھوں سے یا لبوں سے مص و لمس کرتے رہیں تو یہ عمل عورت کے جنسی ہیجان کو آسمان پر لے جائے گا، جیسے بائیں ہاتھ کو بظر سہلانے میں، دائیں ہاتھ کو پستان پر پھرانے میں اور ہونٹوں کو لبوں کو چومنے یا گردن پر بوسے لینے میں مشغول رکھا جائے، 
آپ کچھ ہی دیر میں دیکھو گے کہ اس کی چھاتیاں تن گئیں، سر پستان کھڑے ہوگئے، اس کی سانسیں تیز تیز چلنے لگیں، آنکھوں میں سرخ ڈوریاں اتر آئیں۔
تو سمجھ جاؤ کہ دل میں اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا پڑھنے کا موقع آگیا۔
بعض بے تکلف خاتون ہاتھ یا بزبان حال کہہ دیتے ہیں کہ "اوپر آئیے" اور نہ بھی کہیں تو آپ سمجھ دار ہیں سمجھ ہی گئے ہیں کہ اب اوپر چھاجانے کا وقت آگیا ہے۔
لیکن آپ رکئے، ابھی حجرۂ عروسی میں داخل ہونا اور ابتدائی باتیں کرنا باقی ہے۔ یہاں تک تو آپ نے حساس اعضاء بخوبی جان لیجئے۔
۔۔۔۔۔
قسط چہارم
شب زفاف قدم بقدم
شب زفاف کیسے منائیں؟
شب وصل کی کیا کہوں داستاں
زباں تھک گئی گفتگو رہ گئی
شادی کی تقریبات میں دولہا اور دلہن دونوں تھکن سے چور ہوجاتے ہیں، ایسے موقع پر دونوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ دن میں کسی وقت سوکر نیند پوری ہوجائے۔ 
ورنہ ایسا ہوگا کہ تقریبات جو ضمنی ہیں وہ دھوم دھام سے ہو جائیں گی اور شب زفاف جو ہر کنوارے کا برسوں پرانا خواب ہوتا ہے ڈھیر ہو جائے گا۔
اور اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ رخصتی اول شب میں ہو جائے تاکہ پہلی رات کا کافی وقت ان کو مل سکے اور لڑکا 
يا ليل طل يا نوم زل 
 يا صبح قف لا تطلع
(اے رات دراز ہوجا اے نیند زائل ہوجا اور اے صبح تو بھی ٹھہر جا طلوع مت ہو)
کی دہائی دینے پر مجبور نہ ہوجائے۔
ایسے موقع پر عورتیں منہ دکھائی کے نام پر دلہن کو گھیرے رہتی ہیں، جو پوشاک نکاح زیب تن کرکے درمیان میں بیٹھی رہتی ہے اور ان خواتین خاندان کے وجود سے گرانی اور کوفت محسوس کرتی ہے، لیکن کچھ بول نہیں سکتی۔ ہاں اس کے دل کی یہ آواز ہوتی ہے۔
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی
ایسے موقع پر دولہے سے اس کے دوست احباب کچھ ناشائستہ مذاق کرتے ہیں، جس وہ زچ پچ ہوکر رہ جاتا ہے، لیکن کچھ کہہ نہیں پاتا، اور بہت ممکن ہے اس بیہودہ مذاق کا اثر اس کی پہلی رات پر بھی پڑے۔ اس کے دوست مذاق کے موڑ میں ہوتے ہیں کہ پریشان کرنے کے ایسے حساس مواقع کم میسر ہوتے ہیں جب کہ دولہے کی دلی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی ہے؛
کچھ بدن کے تھے تقاضے کچھ شرارت دل کی تھی
آج لیکن عشق اپنا جاوداں ہونے کو ہے
بہر حال مرد کا دل الله تعالی کے حضور سجدۂ شکر میں لگا رہے، زبان سے الله تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ آج اس نے نکاح جیسی اہم عبادت کو انجام دینے کی توفیق عنایت فرمائی اور اب ایک دوسری چیز - جس میں عبادت کا پہلو واضح ہے - کا موقع آیا چاہتا ہے۔
الله کا نام لے کر مرد عشاء بعد جلد کمرے میں داخل ہو، اگر وہاں عورتیں موجود ہیں تو تخلیہ کا حکم کرے، ممکن ہے اس موقع پر کچھ خواتین خانہ کہہ دیں کہ "بڑی جلدی ہے دولہے میاں کو" تو متانت اور سنجیدگی سے کہہ دے کہ صبح جلد فجر کے لیے اٹھنا ہے۔
اس سے گھونگھٹ ڈالے سہمی بیٹھی ہوئی دلہن پر بھی اچھا اثر پڑنے کا امکان ہے۔
جب عورتیں تخلیہ کردیں تو سلام سے اپنے قریب بیٹھنے کا احساس دلائیں۔ گویا اب دنیا میں کوئی نہیں ہے، بس میں اور وہ ہیں۔
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا
اب بس گھونگھٹ اٹھانے کی دیر ہے پھر ایک ایسا کھیل شروع ہونے والا جو زندگی بھر چلتا رہے گا۔
گھونگھٹ شب عروس اٹھانے کی دیر تھی
پھر چادر حجاب سنبھالی نہیں گئی
یہاں اتنی بات یاد رکھئے کہ آپ (مرد) تو ہاتھ دھوکر آئیں ہیں بلکہ نہا دھوکر اس وقت کے منتظر تھی لیکن دلہن اگرچہ وہ بھی منتظر ہوتی ہے لیکن وہ اپنے اعزا و احباب کو والد کے آسرے اور ماں کی ممتا کو بھائی کی فکر اور بہن کی تکرار کو چھوڑکر آئی ہے، اس کی آنکھوں کے آنسو -جنھوں نے اس کا سنگھار بگاڑ رکھا ہے- ابھی تک خشک نہیں ہوئے ہیں۔
یار دو جمع ہوئے رات کی خاموشی میں
کوئی رو کر تو کوئی بال بنا کر آیا
وہ اجنبی آواز اور نامانوس گرفت کی عادی نہیں ہے لہذا ایسے موقع پر دلجوئی، دل لگی اور دلبری ضروری ہے۔
 سب سے پہلے تیز جلنے والی لائٹ کو بند کردیں اور ڈیم لائٹ جلا دیں تاکہ لڑکی کی حیاء کو تاریکی کا سہارا ہوجائے۔
شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
یہ ذوق ذوق کی بات ہے ہوسکتا ہے بعض طبائع اتنی جلدی بتی بجھا دینا پسند نہ کرتی ہوں اور انھیں رَوْنَقِ حسنِ یار اجالوں میں دیکھنا ہو۔
سلام کرکے تو آپ بیٹھے ہی ہیں، بسم الله پڑھ کر گھونگھٹ بھی اٹھائیے اور اس موقع کی دعا پڑھئے۔ اطمینان سے مسکرائیے ، اگر آپ کو بھی گھبراہٹ ہورہی ہو تو اس کو ظاہر نہ کیجئے۔ 
کچھ لمحے (۳۰/٤٠ سکینڈ) اطمینان سے دیکھئے، وہ نظریں نیچی کرکے گردن جھکائے ہوئے ہوگی ڈری سہمی ـ خوف کھاتی شرماتی معصوم سی دوشیزہ -(اس منظر کو ہمیشہ کے لیے ذہن نشین کرلیں، یہ آپ کی بیوی کی وہ حالت اور کیفیت ہے جو آپ کو زندگی میں پھر کبھی دیکھنا میسر نہیں ہوگا)
اس کی گردن اور نگاہوں کو اپنی انگشت سبابہ سے اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کو آہستہ سے بلند کریں۔
جس طرح آپ کے سامنے ایک نئی دنیا ہوگی اس کو بھی نئی دنیا نظر آرہی ہوگی، آپ تو صرف اسے دیکھ رہے ہوں گے۔ اور مست ہورہے ہوں گے۔
لے اڑی گھونگھٹ کے اندر سے نگاہ مست ہوش
آج ساقی نے پلائی ہے ہمیں چھانی ہوئی
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
آپ کے دل کی یہ صدا ہوگی؛
آج ناگاہ ہم کسی سے ملے
بعد مدت کے زندگی سے ملے
اور وہ نظریں آپ ٹھہرائے نگاہ فراست سے - جو عورت کو دی گئی ہےـ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ کہ میں کس طرح کے گھر میں ہوں؟ پلنگ کیسا ہے؟ سجاوٹ کیسی ہے؟ کچن کہاں ہے؟ اب کیا ہوگا؟ پہلی مرتبہ کسی مرد کی سانسیں محسوس کررہی ہوں! خدا خیر کرے۔ 
غرض اس کے دماغ میں بہت سی باتیں گردش کررہی ہوتی ہیں۔
مرد اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اور باتوں سے دلجوئی کی ابتداء کرے۔ زندگی بھر کی رام کہانی سنانے کے بجائے خیر خیریت دریافت کرے لیکن بھول سے بھی یہ مت کہہ دینا کہ تھک گئی ہوں گی سو جاؤ،(ہوسکتا ہے کہ وہ سچ مچ سوجائے اور آپ پوری رات بے چینی میں رہیں) بلکہ ابتدائی علیک سلیک کے بعد دلہن کے لیے لایا ہوا تحفہ (gift) یا مہر معجل ہو تو وہ ادا کرین۔ تاکہ اس میں انسیت پیدا ہو اور رغبت بڑھے۔
اس کے ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان میں لے کر سہلاتا رہیں، اور اس کی خوب صورتی کی تعریف کریں، اس کے ہاتھوں کے گداز پنے کی تعریف کرے کہ آپ کے ہاتھ کتنے ملائم ہیں، سچ کہتا ہوں ریشم بھی پھیکا پڑ جائے۔
پھر اس کے ہونٹوں کی تعریف کرے کہ آپ کے ہونٹ جیسے گلاب کی پنکھڑی اور یہ کہتے ہوئے رخسار پر ہتھیلی رکھ کو انگوٹھے سے لبوں کو مس کرے۔
آنکھوں کی تعریف کرے کہ آپ آنکھیں ، سبحان اللہ کیسی نشیلی ہیں۔
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
بلکہ آپ کی آنکھیں تو چور ہیں چور 
آنکھ رہزن نہیں تو پھر کیا ہے
لوٹ لیتی ہے قافلہ دل کا
یہ کہتے ہوئے آپ ان کی آنکھوں کو چوم لیں۔
اشعار گرچہ یاد نہ ہوں لیکن تعریف کرنے میں مہارت ہونی چاہئے حدیث ام زرع میں گیارہویں عورت (ام زرع) کہتی ہے اس نے مجھے خوش رکھا (کھلا پلاکر تعریفات کرکے) پس میں اپنے آپ کو بھلی لگنے لگی۔۔۔۔ میں اس کے پاس کچھ کہتی ہو تو مجھے برا نہیں کہا جاتا۔ (شمائل)
ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ عورت کو تعریفات وغیرہ سے خوش کرکے جو جماع کیا جاتا ہے اس سے چھاپ (استقرار) بہت صحت مند ٹھہرتی ہے۔
بہرحال آنکھوں کو چومتے وقت وہ شرمائے گی مسکرائے گی، جھجھکے گی۔ آپ کچھ دیر کے لئے رک جائیں اب ہاتھ میں ہاتھ لئے رہیں اور کچھ ان سے کہلوانے کی کوشش کریں، پوچھیں کہ آپ کو کیا چیز پسند ہے؟ کون سا کھانا آپ خوب بناتی ہو؟
 آپ (مرد) پر گھبراہٹ ظاہر نہیں ہونی چاہئے۔ یہاں شرم و حیا نہیں ہے بلکہ بے باکی و بے حجابی حیا ہے، یہی وقت کا تقاضا ہے۔
وصل میں منہ چھپانے والے
یہ بھی کوئی وقت ہے حیا کا
جب وہ کچھ بولیں تو آپ ہاں میں ہاں ملاتے رہیے ، بات نہ کاٹیے ، ہنسی نہ آئے تو بھی بتکلف ہلکا سا مسکرا کر داد دیجئے۔ 
باتوں ہی باتوں میں گھونگھٹ جو چہرے سے ہٹا کر سر پر رکھ دیا تھا اس کو سر سے سرکا دیں اور سرکاتے ہوئے یہ کہیں کہ بال کیا ہی سِلکی ہیں گردن اور گدی تو اس وقت تک نظر آہی گئی ہوگی ، اس کی گدی پر زور دے کر اس کی طرف آگے کو بڑھیں گردن پر رخسار پر ہونٹوں پر وقفے وقفے سے بوسہ لیں۔
یقینا اس کے زیورات آپ کے لیے بھی آڑ بن رہے ہوں گے اور ان کو بھی پریشان کررہے ہوں گے.
زیورات اتارنے میں بھی آپ ہی کو ابتداء کرنا ہے، زیورات اتارتے وقت زیورات کی تعریف نہ کیجیے بلکہ اس طرح اتار کر یک طرف کیجیے جیسے یہ وصال یار میں بڑی آڑ ہو۔ 
ان (دلہن) کی تعریف کیجئے اطمینان دلایئے؛ 
نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے
جب ریورات اتر جائیں تو اپنے اوپر کی زائد چیزیں اتار پھینکیں کہ خاتون سمجھ جائے اب واقعتا کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنی باتوں کو لگام دیں اور ہاتھوں کو بے قابوں کردیں۔ جن عزت مآب چھاتیوں کو کسی نے چھوا نہیں تھا آپ کپڑے کے اوپر سے ان پر ہاتھ رکھ کر سہلائیں ان کے زیریں لب شریں کو اپنے دونوں لبوں کے درمیان میں لے کر چوسیں ، گردن پر بال کی جڑوں میں ہاتھ پھرائیں ، جنگاسوں (، ران کے اوپر کا جوڑ) پر ہاتھ پھیریں۔
            بتی نہ بجھائی ہو تو اب گل کردیں، کیوں کہ اب عالم نسواں کے دیدار کا وقت آیا چاہتا ہے۔ لباس عروسی کی بناوٹ یقینا آپ کو چبھ رہی ہوگی، جس طرح ان کو یہ لباس پیاس بجھانے اور سیرابی پانے کے لیے بوجھ لگ رہا ہوگا۔ان کے ناتواں دوش بھی اب اس گراں بوجھ سے سبک دوشی چاہتے ہوں گے۔
لباس سے بے لباس بھی آپ ہی کو کرنا ہوگا، پہلے ہی سے دیکھ بھال لیں کہ یہ عجوبہ کھلے گا کہاں سے ؟ پیچھے سے چین کھولنی پڑے گی یا آگے سے بٹن؟ یا پھر ہاتھ اوپر کرواکر اوپر سے اتارنا پڑے گا؟ یا کندھوں سے سر کا پیروں تلے سے۔
اس طرح آپ اتارنے میں مدد کریں اور عالم نسواں کا مظاہرہ کریں۔
زیریں لباس ابھی باقی ہے جلدی نہ کریں۔
 رات ابھی باقی ہے بات بھی باقی ہے، 
یہ وقت کچھ دیر طرف اعلی سے لطف اندوز ہونے کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
قسط: پنجم 
شب زفاف قدم بقدم
اغلب تو یہی ہے کہ فریق مخالف (دلہن) کی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں ہورہی ہوگی، وہ مردہ بدست زندہ کی مثال بنی ہوگی۔
اس وقت آپ اس کے طرف اعلی (شرمگاہ کے اوپر سے سر تک کا حصہ) سے خوب کھیل کر اس کو مستان اور مخمور بنادیں، ملاعبت (کھیلنے) کا طریقہ "حساس اعضاء" کے ضمن میں گزرچکا ہے۔ 
الغرض خوب اچھی طرح سے ملاعبت کرکے آپ زیریں جامہ کھولیں، ذرا دیکھ لیں کہ وہ کس طرح کھلے گا، اس کے بعد بہتر اور عمدہ یہ ہے کہ آپ اپنے اوپر چادر لے لیں، بالکل برہنہ ہوکر کھیلنا اور جماع کرنا پسندیدہ نہیں ہے، اگر کسی وجہ سے چادر نہیں لی گئی تو یہ معصیت نہیں ہے۔
اس کے بعد کے مراحل نہایت اہم ہیں، آپ ناف کی سیدھ میں انگلیاں آہستہ آہستہ نیچے کے طرف لائیں گے تو آپ کو احساس ہوگا یہاں سے بال صاف کئے گئے ہیں، اس درمیان آپ دیکھیں گے آپ کے ساتھی کی بیچینی بڑھ گئی ہے، مزید ہاتھ نیچے لے جاؤ گے تو شگاف ہاتھ پر محسوس ہورہا ہوگا، اسی شگاف سے تقریبا آدھا انچ نیچے بظر اندام نہانی ہے، نا نا دیکھنے مت جائیے کہ مٹر جیسا دانہ کہاں ہے؟ آپ کے ساتھی کا ذہن منتشر ہوجائے گا کہ میاں صاحب کیا تلاش کررہے ہیں، آپ وہاں بنصر اور وسطی انگلیوں سے حرکت کریں گے تو گویا وہاں ہی مساس کریں گی، ممکن ہے ابتداء میں محسوس نہ ہو لیکن عنقریب محسوس جائے گی۔ 
اغلب یہی ہے ابھی وہاں تک تری (عورت کی مذی) پہنچ چکی ہوگی، اگر نہ پہنچی ہو تو آپ سرچشمۂ تری کے لئے انگلیاں مزید دو ڈھائی انچ نیچے لے جائیں آپ محسوس کریں گے کہ یہ معاملہ (راستہ) گہرائی کی طرف جارہا ہے اور یہ حصہ گرم تر ہے۔
اس کی قربت کا نشہ کیا چیز ہے
ہاتھ پھر جلتے توے پر رکھ دیا
پھر آپ محسوس کریں گے کہ آگے معاملہ بند ہے وہاں پردۂ بکارت حائل ہے۔ آپ سوچیں گے کہ پردۂ بکارت حائل ہے تو پیشاب کہاں سے ہوتا ہے ؟ اس کے لیے باریک سوراخ فرج سے بالکل اوپر ہے وہ پیشاب کی نالی ہے۔
بہر حال یہاں سے تری لے کر بظر کو بائیں ہاتھ سے مسلیں، دایاں ہاتھ حسب ذوق پشت، پستان وغیرہ پر پھیریں، اور لبوں سے لبوں کا شکار برقرار رکھیں۔
بایاں ہاتھ جو ناپاک ہوچکا ہوگا اس لیے اس کو ٹیشو پیپر یا ردی کپڑے سے صاف کرلیں، بدن کے دوسرے حصہ کو ناپاک نہ کریں جہاں آپ کو مزید پیار کرنا ہے۔
اب چوں کہ وقت آگیا کہ آپ اس پیار کے بحر بے کراں میں غوطہ زن ہوں، اس تشنگی کو جو برسوں سے ستارہی تھی سیرابی حاصل ہو، تجربہ کرنے کی اس عادت کو- جو ہر جولان گاہ میں قسمت آزمائی کی خوگر تھی - اس کی لگام کو ڈھیلا چھوڑا جائے، آس جو برسوں سے قائم تھی، اس کی پیاس آج بجھائی جائے, اور خواب جو راتوں کو رنگین کئے رہتے تھے، آج شرمندہ تعبیر ہوں۔
آپ بڑے بے چین ہوں گے اس بات کو لے کر کیسا لگتا ہے کوئی عضو کسی عضو میں پرویش کرے، جب کوئی یک جان دو قالب ہوجائے، ایک دوسرے میں سما جائے:
روحُهُ روحي وَروحي روحُهُ
مَن رَأى روحَينِ حَلَّت بَدَنا
اس کی روح میری روح ہے اور میری روح اس کی روح،
بھلا کس نے دو روحوں کو ایک جسم میں اترتے دیکھا ہے!
اس موقع پر آپ کو جلد بازی نہیں کرنا ہے، عورت کو ابھی تک لذت آرہی ہوگی سوچ رہی ہوگی کہ کیا لطف زندگی ہے! لیٹے رہو اور مزہ حاصل کرتے رہو لیکن جیسے ہی آپ اندام نہائی کے اردگرد کا ارادہ رکھیں گے ان پر ڈر اور فکر غالب ہو جائے گا کہ زیادہ درد تو نہیں ہوگا؟ آواز نہ نکل جائے؟ خون نکل گیا تو؟ وہ گھبرا رہی ہوگی، ایسے میں اس کے ہونٹوں پر بوسہ دیتے ہوئے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہیں کہ کچھ نہیں ہوگا جان! فکر مت کریں٫ سب بہت آسانی سے ہو جائے ، ٹھیک ہے؟ اس کی طرف سے انکار یا شدید انکار نہ ملے تو دل میں بسم الله پڑھیے اور پوزیشن لے لیں۔
اس موقع پر ایک واقعہ یاد آیا کہ ایک عمر رسیدہ شخص نے ایک کم عمر لڑکی سے نکاح کیا، کئی شب گزر گئیں لیکن وہ آمادۂ جماع نہیں ہوتی تھی، وہ صاحب زور جبر سے کام لینا نہیں چاہتے تھے، لہذا وہ اپنے محلہ کے ایک دانا بینا حکیم صاحب کے پاس لے گئے، حکیم صاحب نے اس لڑکی کو کہا کہ بیٹا آپ کے شوہر جو کام کرنا چاہتے ہیں اس سے ایک کافر کو مارنے کا ثواب ملتا ہے۔
نبض شناس حکیم کا علاج کام کرگیا اور وہ کافر کے مارنے کے ثواب پر آمادہ ہوگئی، شروع میں اس کو تکلیف ہوئی لیکن آہستہ آہستہ تکلیف پر لذت غالب آنے لگی، پھر تو کیا تھا وہ لڑکی بار بار اپنے عمر رسیدہ شخص سے کافر مارنے کے ثواب کا موقع چاہتی۔ لیکن یہ صاحب کے پیر جواب دے گئے تھے ، اس کے بار بار کافر مارنے کے مطالبہ پر کہنے لگے کہ کیا ہم ہی سب کافر مار ڈالیں گے؟ 
بہر حال شروع شروع میں عورت کو درد کا احساس زیادہ اور لذت کم ہوتی ہے بالخصوص جب عورت کم عمر ہو، پھر آہستہ آہستہ لذت غالب ہوتی رہتی ہے اور درد کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔
کم و بیش ایک ہفتہ اگر مسلسل جماع کریں تو درد کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ اس کے بعد عورت دخول سے بالکل بے خوف ہوجاتی ہے۔
شریعت میں بھی کسی وجہ سے اگر نکاح پر نکاح کسی کنواری لڑکی سے کیا جائے تو اس کنواری لڑکی کو سات مسلسل راتوں کا حق دیا ہے.
روى البخاري (٥٢١٤) ومسلم (١٤٦١) عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: (مِنَ السُّنَّةِ إِذَا تَزَوَّجَ الرَّجُلُ البِكْرَ عَلَى الثَّيِّبِ أَقَامَ عِنْدَهَا سَبْعًا وَقَسَمَ، وَإِذَا تَزَوَّجَ الثَّيِّبَ عَلَى البِكْرِ أَقَامَ عِنْدَهَا ثَلاَثًا ثُمَّ قَسَمَ.
الغرض مرد کو اس سلسلے میں جلد بازی نہیں کرنا چاہئے، یہ ضروری نہیں کہ پہلے دن ہی جماع ہو جائے اور یہ بھی لازم نہیں کہ پہلے دن ہی پورے ذکر کا دخول کیا جائے۔
پہلے دن نصف ذکر داخل کرکے ہردۂ بکارت زائل کردی جائے، اور دُخولِ کُلّی کسی دوسرے موقع پر کرلیا جائے۔ 
اگر عورت کو مکمل دخول پر آمادہ دیکھے تو رحم کرنے کی ضرورت نہیں ہے آہستہ آہستہ پورا ذکر داخل کردینا چاہئے۔
جھٹکے سے زور لگا کر داخل کرنا عورت کی درد کی شدت کو بڑھادے گا جس سے اس کی لذت برباد اور جذبات ماند ہوجائیں گے۔
دخول کے لیے پوزیشن کس طرح لے وہ طریقے آگے آرہے ہیں۔
دخول (مکمل یا ادھورا) کرنے کے بعد اندر باہر اند باہر کرنے کے بجائے ایک ہی حالت میں رک کر بوس کنار کرتے رہیں، پھر کچھ وقفہ بعد آہستہ آہستہ اندر باہر کریں اور دیکھیں کہ اس کو لذت داخل کیے رہنے میں آرہی ہے یا اندر باہر کرنے میں۔ جس میں اس کو سکون زیادہ مل رہا ہو وہ کریں، اگر اندر باہر کرنے میں مزہ و سکون زیادہ مل رہا ہے تو آپ مشین تھوڑی تیز کردیں لیکن خیال رہے کہ آپ کا انزال نہ ہوجائے۔
اور اگر آپ کا انزال اتنے ہی میں ہو جائے جیسا کہ اغلب یہی ہے کہ مرد پہلی مرتبہ میں یہاں تک ہی پہنچ پاتا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ ابھی نوجوان ہیں بہت جلد افاقہ و اعادہ ہوجائے گا، استنجا وضو کرکے آئیں آپ دوسرے راؤنڈ کے لیے تیار ہوچکے ہوں گے۔
یہاں یہ بھی سمجھ لیجیے پہلی رات کو عورت کو بھی انزال ہونا نادر ہے جب کہ وہ کنواری ہو۔ اس لیے آپ عورت کے انزال و اطمینان کی فکر کرنا کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھیے۔ ابھی پوری توجہ اس پر رہے کہ آپ اس کو آمادۂ جماع کرکے ہردۂ بکارت زائل کرتے ہوئے دخول کرسکیں۔
دخول کرنے میں آسانی کے لئے آپ تیل یا لبریکینگ جیلی استعمال کرسکتے ہیں۔ جب کہ عورت کی مذی نے راہ گیلی نہ کی ہو۔
پہلی رات میں دخول کا آسان طریقہ: 
ایک تو یہی ہے جو پیچھے مختصرا گزر گیا جو مباشرت کا آسان اور مقبول آسن اور طریقہ ہے۔ یہ قدرتی طریقہ ہے جو ہر مرد و زن کا پسندیدہ ہے۔
وہ طریقہ یہ ہے کہ مرد اوپر رہے اور عورت نیچے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ عورت چت لیٹ جائے ہاتھ اوپر کرکے فی الحال بستر پر رکھ دے، پیر اٹھا کر گھٹنے سے موڑ کر ہوا میں معلق کردے، بہتر یہ ہے ریڑھ کی ہڈی کے نیچے ایک اونچا تکیہ رکھ دے۔
مرد اس کے اوپر کچھ مرد کے جسم(طرف اعلی) کا ہر عضو عورت کے عضو کے مقابل آجائے۔ پھر وہ ذکر کو ہاتھ سے پکڑ کر آہستہ آہستہ عورت کی شرم گاہ اور بظر اندام نہانی ہر رگڑے تاکہ عورت کی تشنگی بڑھے اور دخول کی چاہت شدید تر ہو جائے پھر حسب ضرورت مکمل یا ادھورا دخول کرے۔
اس آسن کی خصوصیت یہ ہے کہ مرد و زن آمنے سامنے ہونے کی وجہ ایک دوسرے کی حالت کو دیکھ سکتے ہیں مرد عورت کو درد کی وجہ سے منہ کی تغیر کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتا ہے کہ ندام نہانی پر کس قدر زور دینا ہے اور حرکت کتنی تیز یا آہستہ کرنا ہے اور عورت مرد کی باہوں کے حلقے میں کسی قدر سکون و طمانینت محسوس کرتی ہے، اور ایک دوسرے کے انزال ہونے کے وقت کی کیفیت و پرسکونی عیانا و روبہ تو مشاہدہ کرکے محظوظ ہوتے ہیں۔ 
نیز مرد اس حالت میں بہت آسانی سے عضو تناسل کو داخل کر سکتا ہے۔ وہ عورت کے ہونٹوں اور رخساروں کو چوم سکتا ہے۔ پستانوں کو سہلا سکتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے جسم کو اپنی بازوؤں کے گھیرے میں لے سکتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس ان کے ذریعہ مباشرت کرنے میں مرد زیادہ سرگرم رہ سکتا ہے۔ اس طرح مرد بہت کھل کر مباشرت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی انا کو مطمئن بھی کر سکتا ہے۔ تمام آسنوں میں شاید میں آسن ہے جس میں عورت اور مرد جسمانی طور پر سب سے زیادہ ایک دوسرے کے نزدیک آسکتے ہیں۔ مباشرت کے وقت گہرا جسمانی ملاپ زیادہ پر لطف ہو سکتا ہے۔ چونکہ عام حالتوں میں مرد مباشرت کرتا ہے اور عورت مباشرت کرواتی ہے۔ اس لیے اس آسن میں مرد کھلے طور پر سرگرمی سے مباشرت کر سکتا ہے۔ نئے شادی شدہ جوڑے اسی آسن میں مباشرت کرنا پسند کرتے ہیں۔ مچلتی جوانی کی یہ عمر جنسی شدت سے بھری ہوتی ہے۔ سیکس کی چاہت، جنسی تحریک اور تناؤ میں اضافہ کرتی ہے۔ اس لئے اس آسن کے ذریعے مرد مکمل طور پر سرگرم ہو کر مباشرت کرنے میں زیادہ لطف اور اطمینان محسوس کرتے ہیں۔
جنسی ملاپ کی کہانی پرانی ہو جائے تو اس کو اس طرز پر بھی کرسکتے ہیں کہ عورت پلنگ کے اس حصہ پر لے آئیں جہاں پلنگ کے دو کنارے ملتے ہیں، عورت کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھ تحلیل نفسی (دخول) کا عمل شروع کریں، اس طریقہ دخول اندر تک ہوگا اور اندام نہانی پر دباؤ خوب محسوس ہوگا۔
سب عورتیں جنسی مزاج کے اعتبار سے ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ اس لیے بعض عورتیں اس آسن سے مباشرت کراتے وقت اپنے مرد کے گہرے اور بھر پور دباؤ کو پسند کرتی ہیں۔ جنسی شدت کی حالت میں وہ چاہتی ہیں کہ مرد اپنے دباؤ سے ان کے جسم میں سما جائے۔ لیکن کچھ عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو اپنے مرد کے کم یا درمیانی دباؤ کو ہی پسند کرتی ہیں۔ اس آسن کی یہ خاصیت یہ ہے کہ الگ الگ جنسی مزاج کی دونوں طرح کی عورتیں خواہش کے مطابق دباؤ حاصل کر سکتی ہیں۔ 
عورت کے اوپر لیٹ کر مباشرت کرتے وقت اپنے کندھوں اور کہنیوں کے سہارے مرد عورت پر کم دباؤ ڈال سکتا ہے اور اس طرح کے سہارے کے بغیر اپنی اور عورت کی خواہش کے مطابق زیادہ دباؤ بھی ڈال سکتا ہے۔ اس آسن کی دوسری خصوصیت اس سے حاصل ہونے والی گہری جسمانی قربت ہے، مرد جب عورت کے جسم پر لیٹ کر اسے جسمانی طور پر اپنے نزدیک تر لے آتا ہے . اور ساتھ ہی عضو تناسل داخل کرنے کے بعد اسے حرکت دیتا ہے تو عورت کے عضو مخصوصہ کے تمام حصے مرد کے جسمانی دباؤ میں آجاتے ہیں۔ مرد اگر اس حالت میں عورت کو اپنے بازووں میں بھرتا ہے تو اس کے پستانوں کا مکمل ابھار بھی گہرے دباؤ میں آتا ہے۔ عورت اگر سرگرم تعاون دیتی ہے تو وہ بھی مرد کو اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہے۔ وہ مرد کے اوپر کندھے سے ذرا نیچے بانہوں کو گھیرا ڈال کر اپنی چھاتی کو مرد کے سینے مں سمو سکتی ہے۔ اسی طرح مرد کی پیٹھ پر بانہوں کا گھیرا ڈالنے سے عورت جب دباؤ حاصل کرتی ہے تو اس سے ناف کے نیچے پیٹ کے حصے پر بھی دباؤ پڑتا ہے اور اسے ایک عجیب سے لطف کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کے تمام اندام نہانی میں عضو تناسل کو قبول کرنے کے بعد وہ اپنی دونوں ٹانگوں کو گولائی میں اٹھا کر مرد کو بھی سمیٹ سکتی ہے۔ اس طرح یہ آسن سب سے زیادہ آسان اور پر لطف سمجھا جاتا ہے اور زیادہ تر مرد اسی آسن سے مباشرت کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
قسط ششم 
شب زفاف قدم بہ قدم
پہلی رات میں دخول کرنے کا دوسرا آسان طریقہ:
اس طریقہ میں عورت کو منہ در منہ دلاسہ دیا جانا بھی آسان ہوتا ہے، یہ آسن خودبخود مرد کی رفتار کو کم کرتا ہےاور اگر آپ جوش میں آگئے تو مکمل ذکر داخل ہونے میں بھی مانع ہوتا ہے۔ وہ طریقہ ہے "بیٹھ کر جماع کرنا"
اس پوزیشن میں میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے بستر یا فرش پر بیٹھتے ہیں، مرد اپنے پاؤں کو سامنے کی طرف پھیلاکر کسی چیز سے ٹیک لگاتا ہے، عورت مرد کی گود میں بیٹھی ہوتی ہے۔ اور ٹانگوں سے مرد کے کولہوں کا گھیراؤ کرتی ہے، مرد سامنے سے داخل ہوتا ہے۔ جذبات بڑھانے کے لئے مرد عورت کے جسم کو چوم بھی سکتا ہے اور پیار بھی کرسکتا ہے۔
مرد ایک طرح سے عورت کی جکڑ میں رہتا ہے، اس لئے اس کو اطمینان رہتا ہے کہ وہ پر زور جماع نہیں کر پائے گا اور ذکر کا بھی بقدر ضرورت دخول ہوپائے گا، اس وجہ سے عورت پہلی رات اس طریقہ سے برضا دخول پر آمادہ ہوجائے گی۔ اس طریقہ میں بھی مرد عورت سے قریب تر رہتا ہے، عورت کی خوشبو، گرماہٹ، تراوٹ سب محسوس کرتا ہے۔ اور جب عورت درد کی وجہ سے سسکیاں بھرے تو اس کے منہ میں منہ بھی دے سکتا ہے، زبان بھی چوس سکتا ہے۔ شادی کے شروع میں یہ طریقہ نہایت سرور آور ہوتا ہے۔ گویا محبوب محبوب سے بغلگیر ہے۔ یک جان دو قالب ہیں، ایک کی طرف اشارہ ان دونوں کی طرف اشارہ ہے:
أَنا مَن أَهوى وَمَن أَهوى أَنا
نَحنُ روحانِ حَلَلنا بَدَنا
فَإِذا أَبصَرتَني أَبصَرتَهُ
وَإِذا أَبصَرتَهُ أَبصَرتَنا
میں وہی ہوں جسے میں چاہتا ہوں، اور جسے میں چاہتا ہوں وہ میں ہوں۔
ہم دو روحیں ہیں جو ایک ہی جسم میں اتر آئی ہیں۔
پس جب تم مجھے دیکھتے ہو تو اسے دیکھتے ہو،
اور جب تم اسے دیکھتے ہو تو ہم دونوں کو دیکھتے ہو۔
ایک اور آسان طریقہ:
عورت و مرد پہلو بہ پہلو حالت میں؛
مباشرت کا یہ آسن بھی پہلے دو آسن کے بعد کافی مقبول ہے۔ اس آسن میں عورت اور مرد پہلو بہ پہلو لیٹے ہوتے ہیں۔ پہلے آسن کے مقابلے میں اس آسن میں فرق یہ ہے کہ عورت اور مرد اوپر اور نیچے کی حالت میں لیٹے نہیں ہوتے بلکہ آمنے سامنے سیدھی حالت میں ہوتے ہیں۔ یعنی عورت اپنے دائیں کروٹ سے مرد کی طرف منہ کر کے لیٹتی ہے اور مرد بائیں کروٹ سے عورت کی طرف منہ کرکے لیثتا ہے۔ عضو تناسل کے داخل کرنے کے وقت عورت اپنی نچلی (دائیں) ٹانگ مرد کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ڈال دیتی ہے اور اوپری (بائیں) ٹانگ کو گھماکر مرد کی دائیں طرف کی ران کے اوپر ٹکا دیتی ہے۔ اسی طرح اندام نہانی ایسی حالت میں آجاتی ہے کہ مرد بہت آسانی سے عضو تناسل داخل کر سکتا ہے۔ اس آسن میں، جہاں عورت اپنا سرگرم تعاون دے سکتی ہے۔ وہاں مرد عضو شہوت (بظر اندام نہانی) کو سہلانے کے ساتھ عموما جنسی حرکات بھی جاری رکھ سکتا ہے۔
 پہلو بہ پہلو جماع کے طریقہ کا ایک روپ وہ ہوتا ہے جب عورت بائیں کروٹ سے لیٹی ہو اور مرد اس کی دائیں ران کو ذرا سا اوپر اٹھا کر پیچھے کی طرف سے اندام نہانی میں اپنا عضو تناسل داخل کردیتا ہے۔ اس حالت میں مرد زیادہ سرگرم ہوتا ہے اور عورت کی پشت، گدھی اور گردن کے حصہ کو مشق ستم بناسکتا ہے۔
  اس حالت میں پہلو بہ پہلو لیٹ کر پیچھے سے وہ میاں بیوی مباشرت کرنا پسند کرتے ہیں جن کا پیٹ بڑا ہوتا ہے۔ لیٹ کر آمنے سامنے کی حالت میں فربہ بطن ہونے کے باعث عضو تناسل داخل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
نیز بہت سے مرد عورت جن کی شادی ہوئے کچھ سال گزر چکے ہوتے ہیں اس آسن کے ذریعہ مباشرت کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان میں شروع شروع جیسا سیکس کا جوش بھی نہیں ہوتا بلکہ آپس کے جنسی تعلقات میں زیادہ مٹھاس زیادہ ٹھہراؤ پیدا ہوچکا ہوتا ہے۔ لہذا اس آسن سے مباشرت کرنے میں وہ زیادہ لطف و تسکین حاصل کرتے ہیں۔
 ان طریقوں اور آسنوں میں سے کوئی بھی ایک طریقہ استعمال کرکے آپ اپنی گزشتہ زندگی کی پہلی حسین رات گزار سکتے ہیں، معاملہ سب درست رہا تو یہ شب وصل کہاں گزر جائے گی اور کب فجر کی نماز ہوجائے گی آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا، گویا پل بھر میں رات گزرگئی ہو۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
وصل کا دن اور اتنا مختصر 
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے 
عموما نوجوان شب زفاف کے بعد فجر کی نماز میں سستی کرتے ہیں، لیکن یہ بڑی ناسپاسی ہے کہ الله تعالی نے ایک انعام دیا اور کوئی فرض نماز قضا کرکے شکر گزاری کرے! 
البتہ فجر بعد دوستوںں سے کم ملیں فورا حجرۂ عروسی میں چلے آئیں کیوں دوست و احباب آنکھوں کو پڑھ لیتے ہیں۔
آنکھیں بتا رہی ہیں کہ جاگے ہو رات کو
ان ساغروں میں بوئے شراب وصال ہے
پھر آپ کو نیند کا بھی تقاضا ہوگا، آج کی تقریب اور آنے والی رات کی تازگی کے لیے دن میں سونا ضروری ہوتا ہے۔
وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ
جاگنا رات بھر مصیبت ہے
شب اول کے انتظار میں فقط شدت ہوتی ہے، شب اول میں چوں کہ ایک مرتبہ گاجر کا حلوہ چکھا چکا ہے لہذا شب ثانی کا انتظار شدید تر ہوگا، تقریبات بوجھ لگے گی، اعزہ واقارب سے ملاقات گراں بار خاطر ہوگی، بس انتظار ہوگا رات کے وقت سریرائے سریر عروسی ہونے کا، کہ جو کھیل کل ادھورا چھوڑا ہے آج اسے مکمل کیا جائے۔ کل تو نزول شبنمی تھا آج تو آب شار بن جانا ہے۔
عورت کی بھی آہستہ آہستہ پسند بدلنے لگتی ہے، پہلے اسے دخول سے خوف تھا اب ذوق ہے، بلکہ دھیرے دھیرے چسکا لگ جاتا ہے، پہلے مرد کی رانوں کو گہرے دخول سے روکنے لئے پکڑ لیتی تھی ،اب وہ کولہے سے پکڑتی ہے تاکہ دخول عمیق تر ہو۔ پہلے ملاعبت سے لے کر جماع سے فراغت تک ہر کام میں آہستگی پسند تھی اور اب عمل دخول تیز تر کی خواہاں ہے جو پسینہ پسینہ کردے تر بہ تر کردے۔
وہ اپنی زبان حال سے کہتی ہے: 
اوس سے پیاس کہاں بجھتی ہے
موسلا دھار برس میری جان
عورت چاہتی ہے اس کا شوہر اس سے کبھی جدا نہ ہو، اسی سے لگا رہے، ملازمت یا کاروبار کی لالمبی چھٹی لے کر کہیں ایسی جگہ چلے جائیں جہاں تیسرا کوئی دور تک نہ ہو۔
رات میں بھی وہ اس طرح سونا پسند کرتی ہے جیسے شوہر اس کا لباس ہو، 
وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں
چمٹ کر سوتے ہیں۔ جب ضرورت پڑتی ہے جماع کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ مرد کا عورت کو چھونا عورت کے حسن کو نکھار دیتا ہے، مرد کے ہاتھ لگنے سے ہی اس کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے اور بار بار جماع کرنے سے دو آتشہ.
ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
ایک عمومی غلطی بعض لوگوں میں رائج ہے کہ رخصتی کے پہلے یا دوسرے دن لڑکی کو لڑکی کے والدین اپنے گھر لے جاتے ہیں پھر ایک آد دن کے بعد اسے بھیجتے ہیں یہ ان پر بڑا ظلم ہے، ابھی تو انھیں قریب آنا ہے ایک دوسرے سے مانوس ہونا ہے، بے تکلفی آنے سے پہلے ہی دوری بڑی کھلتی ہے۔ مرد یہاں سرد آہیں بھر رہا ہوتا ہے اور عورت وہاں سسکیاں لیتی ہے، دونوں فون پر ایک دوسرے سے غم دل بیان کرکے دوائےدل کے طالب ہوتے ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتے اگر ایسے میں موسم برسات کا ہوتو مصیبت بالائے مصبت۔
دونوں کی بے چارگی ایک دوسرے سے گویا ہوتی ہے:
سرد جھونکوں سے بھڑکتے ہیں بدن میں شعلے
جان لے لے گی یہ برسات قریب آجاؤ
بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ ابھی ہمارے قدم بڑھے نہ ابھی تمہاری جھجک گئی
اے خرد مند، ذہین و فطین، دانش مند خوش قسمت شخص شب زفاف ختم ہوئی۔ اب سرور شہر (لذت لینے کے ابتدائی ایام) کا زمانہ ہے۔
جاری۔۔۔۔
محمد یحیی بن عبدالحفیظ قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جماع کے چالیس آداب و مسائل
قرآن و حدیث کی روشنی میں
(۱) نیت:
کسی بھی چیز میں نیت کی بہت اہمیت ہوتی ہے"نیۃ المؤمن خیر من عملہ" بلکہ اعمال کی اعتباریت کا مدار ہی نیت پر ہے، اس لیے جماع کی نیت بھی بڑی  ہونی چاہیے۔
استمتاع کی نیت:
جماع نام ہی استمتاع کا ہے، صرف استمتاع کی نیت بھی اچھی ہے کہ عورت "خیر متاع الدنیا" ہے اور "استمتعتم" میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے۔
علماء فرماتے ہیں یہ نیت ہو؛ قضاء الوطر بنیل اللذۃ و التمتع بالنعمۃ؛ یعنی حاجت طبعیہ کا پورا کرنا حصول لذت کے ساتھ اور شہوت و عورت جو الله تعالی کی نعمت ہیں، ان سے جائز اور مناسب طریقہ سے متمتع ہونا ۔
 الدرالمنضود میں ہے: منافع نکاح میں سے یہی ایک منفعت ایسی ہے جو جنت میں پائی جائے گی، اس لیے کہ جنت میں گو نکاح ہوگا لیکن توالد و تناسل وہاں نہیں ہوگا بلکہ جماع صرف حصول لذت و راحت کے لیے ہوگا میں (صاحب الدر) کہتا ہوں نکاح کے اس فائدہ کا حصول اول تو محسوس و مشاہد ہے دوسرے احادیث میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے۔
پاک دامنی کی نیت:
اپنی اور اپنی بیویوں کی شرمگاہوں کی حفاظت، عفت و پاک دامنی کے حصول کی نیت کرنا.
فانه اغض للبصر و احصن للفرج۔
ایک حکیم فرماتے ہیں: یہ الله تعالی کی بڑی نعمت ہے، دین و دنیا دونوں کام اس سے درست ہوجاتے ہیں، اس میں بہت فائدے اور مصلحتیں ہیں، آدمی گناہوں سے بچتا ہے اور دل ٹھکانے لگتا کے، نیت خراب اور ڈانواں ڈول نہیں ہونے پاتی اور بڑی بات یہ ہے کہ فائدے(لذت) کا فائدہ اور ثواب کا ثواب (ہم خورما و ہم ثواب)۔
تحصیل نسل کی نیت:
اولاد حاصل کرنے کی نیت کرے جو اس کے لئے ذخیرۂ آخرت ہو اور مرنے کے بعد صدقۂ جاریہ ہو اور اس کے لئے دعائے خیر کرے۔
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله تعالی عنھما نے ارادہ کیا کہ وہ نکاح نہیں کریں گے تو ان کی بہن حضرت حفصہ رضی الله تعالی عنھا نے ان کو کہا: نکاح کرلو، اس لئے کہ اگر الله تعالی نے آپ کو ولد کی نعمت عطا فرمائی اور وہ ولد آپ کے بعد ژندہ رہا تو آپ کے لئے دعا کرے گا۔ [سنن کبری :۱۳۴۶۱]
ان کے والد حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں اپنے آپ کو جماع پر مجبور کرتا ہوں، اس امید سے کہ الله تعالی اس جماع کے نتیجے میں ایک جان نکالیں گے جو الله کی پاکی بیان کرے گا۔ [سنن کبری]
تکثیر الاسلام و المسلمین کی نیت:
*تکثیر امت پر حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کا فخر و مباہات متحقق ہوجائے اس کی نیت
کثرت تعداد ، کثرت افراد (مسلمین) کی اہمیت و فائدہ کا اندازہ ہر ایک کو ہے۔
عرب جن جن علاقوں کو زیر کرتے رہے وہاں انھوں نے اپنے افراد کو بسا، کثرت نساء سے اولاد بھی کثرت سے کیں اور دعوت الی الله کے ذریعہ سے بھی تکثر ملت کی، اس لیے جہاں جہاں عرب قابض ہوئے آج وہ مسلم اکثریتی ملک ہیں اور تعدد ازدواج وہاں معیوب نہیں ہے۔
لیکن جہاں عجمی مسلمانوں نے فتح کے جھنڈے گاڑھے عموما وہاں مسلمان اقلیت میں رہ گئے۔
حالاں کہ کثرت امت مطلوب ہے 
آپ نے فرمایا: زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جنم دینے والی خواتین سے نکاح کیا کرو کہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر دوسری امتوں پر فخر کروں گا. (الحدیث) 
کسی کے ماننے والے، اتباع کرنے والے زیادہ ہوں تو یہ خوشی و فخر کی بات ہوتی ہے ، لیکن اس میں متبعین (مسلمین) کا بھی فائدہ ہے۔ اکثریت ہونے کی وجہ سے ان کا رعب و دبدبہ ہوگا، اقلیت میں ہونے کی وجہ سے وہ مقہور نہیں ہوں گے۔
بہرحال ایک عبادت میں جتنی نیت ہو بہتر ہے، اور جماع کا عبادت ہونا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے: نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے کسی کا اپنی (بیوی ، باندی) سے جماع کرنے میں صدقہ کا ثواب ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اے الله کے رسول ہم میں سے کوئی اپنی شہوت پوری کرتا ہے کیا اس میں بھی اجر ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا : ذرا بتاؤ اگر وہ حرام کاری کرتا تو اس پر گناہ نہ ملتا؟ (مسلم شریف)
طبرانی میں ہے کہ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ایک شخص سے دریافت فرمایا: آج کسی کی عیادت کی ہے؟ کہا نہیں. دریافت فرمایا کوئی صدقہ کیا ہے ؟ کہا کہ نہیں۔ دریافت فرمایا کہ اپنی بیوی سے ہم بستری کی ہے؟ کہا کہ نہیں ۔ فرمایا ہم بستری کرلو ، اس لیے کہ آپ کی طرف سے ان پر یہ صدقہ ہے۔
راوی کہتے ہیں یہ جمعہ کا دن تھا، اس لئے بعض حضرات نے جمعہ کے دن / جمعہ کی رات کو جماع کرنا مستحب قرار دیا ہے۔
(۲) شب زفاف میں پہلی ملاقات کے وقت یہ دعا پڑھنا
اللهم إني اسألك من خيرها وخير ما جبلت عليه واعوذ بك من شرها وشر ما جبلت عليه 
اے پردگار! بے شک میں آپ سے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کی خلقت کی بھلائی و خیر کا سائل ہوں۔ اور آپ کی مانگتا ہوں اس کی پناہ مانگتا ہوں اس کی بُرائی سے اور اس کی خلقت و طبیعت کی بُرائی سے۔ (سنن ابن ماجہ : ۱۹۹۰)
(۳) جماع کے وقت انزال سے پہلے دل میں یہ دعا پڑھے
اللهم جنبنى الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنی: اے میرے پروردگار! شیطان سے مجھ کو بچایئے اور اس چیز کو شیطان سے بچایئے جو آپ مجھے عطا فرمائیں (یعنی اولاد).
آپ نے فرمایا:  پھر اگر اس صحبت سے حمل قرار پا جائے تو اللہ تعالی اس بچے پر شیطان کو مسلط نہیں کرے گا۔ یا شیطان اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۹۹۱)
(۴) جماع سے پہلے دل لگی کی باتیں کرنا، بیوی کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنا (ملاعبت کرنا)
جماع سے پہلے عورت سے پیار محبت کی باتیں کرنا اور اس کے بدن سے کھیلنا چاہئے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں: میاں بیوی کا پاس بیٹھ کر محبت پیار کی باتیں ہنسی دل لگی میں دل بہلانا نفل نمازوں سے بہتر ہے۔ (بہشتی زیور)
ہر تماشہ (دل لگی) جو انسان کرتا ہے وہ باطل ہے الا یہ کہ وہ تیر اندازی کرے، اپنے گھڑے کو سدھائے اور اپنی بیوی سے کھیلے اس لیے کہ یہ سب حق میں سے ہیں۔ [سنن الترمذی بحوالہ مشکاۃ ۲/۱۱۹]
(۵) جماع کے وقت مکمل برہنہ ہونا جائز ہے البتہ چادر لے لینا سلیقہ مندی ہے۔
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: ننگے ہونے سے بچو، اس لئے کہ تمہارے ساتھ وہ (فرشتے) ہیں جو تم سے جدا نہیں ہوتے ، مگر بڑے استنجے کے وقت، اور جب آدمی اپنی بیوی سے صحبت کرتا ہے، (اس وقت ستر کھولنا جائز ہے)پس ان سے شرم کرو اور ان کا اکرام کرو۔ (ترمذی: ۲۸۰۰)
ایک روایت میں ہے 
حضرت معاویہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اے اللہ کے نبی! ہم کہاں ستر کھول سکتے ہیں اور کہاں چھپانا ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے ستر کی حفاظت کرو، مگر اپنی بیوی سے یا اپنی باندی سے، انھوں نے دریافت فرمایا: جب لوگ ایک جگہ اکٹھا ہوں؟ آپ نے فرمایا: اگر تیرے بس میں ہو کہ ستر کو کوئی نہ دیکھے تو ہرگز ستر نہ دکھلا، انھوں نے: جب کوئی شخص تنہائی میں ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس اللہ تعالیٰ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان سے شرم کی جائے، یعنی تنہائی میں بھی بے ضرورت ستر نہیں کھولنا چاہئے۔ (ترمذی : ۲۷۹۳)
 ابن ماجہ شریف کی ایک متکلم فیہ روایت میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے تو ستر کرلے، اور جنگلی گدھوں کی طرح برہنہ نہ ہو(ابن ماجہ : ۱۹۲۱)
یہ نہی ارشادی ہے اور حکم سلیقہ مندی پر محمول ہے۔
میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے اور لباس کے سامنے ہر ایک کا وجود بے لباس ہوجاتا ہے۔
بعض حضرات اس سلسلے میں بہت تکلف کرتے ہیں، اور تجرد کی نہی کو تحریم یا کراہت کا درجہ دیتے ہیں اور حکم تستر کو موکد گردانتے ہیں۔
امام بیہقی رحمہ الله تعالی اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں:
نفرد به مندل بن علي ، وليس بالقوي، وهو وإن لم يكن ثابتاً فمحمود في الأخلاق۔(کتاب النکاح ، ص ۳۱۳)
(۶) شوہر اور بیوی ایک دوسرے کا ستر دیکھ سکتے ہیں، لیکن آداب زندگی اورشرم وحیاء کاانتہائی درجہ یہی ہے کہ شوہراوربیوی بھی آپس میں ایک دوسرے کا سترنہ دیکھیں۔
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت منقول ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ: نہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شرم کبھی دیکھی اور نہ کبھی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم گاہ دیکھی. (ابن ماجہ: ۱۹۲۲, اس حدیث پر ہلکے درجہ کی جرح کی گئی ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنھا سے روایت کرنے والے راوی مجہول ہیں)
علامہ سیوطی فرماتے ہیں: نہ تو یہ تمام بیویوں میں عام ہے اور نہ ہی ان پاک بیویوں پر یہ ممنوع تھا، بلکہ طبرانی کی روایت میں ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی الله تعالی عنہ نے نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم سے فرمایا کہ اے الله کے رسول میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ میری بیوی میرا ستر دیکھے۔
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالی نے اس کو آپ کے لئے اور آپ کو اس کے لئے لباس بنایا ہے۔ 
اور میری بیوی میرا ستر دیکھتی ہیں اور میں ان کا۔ (حاشیہ سیوطی) 
لیکن علامہ سندھی نے ان پر یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ رویت ستر سے رویت فرج لازم نہیں آتا۔ فتامل (حاشیہ سندھی)
 ابن قدامہ فرماتے ہیں: جب فرج میں ایلاج جائز ہے تو اس کو دیکھنا اور چھونا بھی جائز ہوگا۔
اس سلسلے میں بھی فتویٰ اور عمل میں تشدد برتنا اچھا نہیں ہے، لوگوں کو حرام سے بچانے کی ضرورت زیادہ ہے بنسبت غیر اولی سے اجتناب کی تاکید کے۔
بالخصوص ان نوجوانوں کے لیے جن کو شرم گاہ کو دیکھے بغیر طبیعت کو قرار نہ آتا ہو، اور وطی الذ اور اطمنان بخش باقی نہ رہے۔
قال الكاساني: من أحكام النكاح الصحيح حل النظر والمس من رأسها إلى قدميها حالة الحياة؛ لأن الوطء فوق النظر والمس، فكان إحلاله إحلالا للمس والنظر من طريق الأولى
(۷) کھلے میں پردہ کئے بغیر یا آسمان کے نیچے جماع کرنا:
اوپر ذکر کردہ حدیثوں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ انسان کو اپنا ستر اپنی بیوی اور باندی کے علاوہ ظاہر کرنا جائز نہیں ہے، لہذا گھر کے صحن میں یا باغ باغیچے میں یا آسمان کے نیچے آڑ کئے بغیر جماع کرنا جائز نہیں ہے۔
(۸) دوسری بیوی کے سامنے جماع کرنا:
امام شافعی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں: اس حالت میں اپنی بیوی سے وطی کرنا مکروہ ہے کہ دوسری بیوی اسے دیکھ رہی ہو۔
اس لیے کہ نہ تو یہ تستر (ستر پوشی) ہے نہ پسندیدہ اخلاق (طریقہ) ہے اور نہ ہی حسن معاشرت ہے حالاں کہ ہمیں حسن معاشرت کا حکم دیا گیا ہے. (سنن کبری: ۱۴۰۹۵)
البتہ اگر کوئی شخص دو بیویوں کے درمیان بیٹھے یا لیٹے یا سوئے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ترجمان القرآن حضرت عبدالله بن عباس رضی الله تعالی عنہ دو باندیوں کے درمیان سوتے تھے۔ (سنن کبری: ۱۵۰۹۶)
(۹) ناسمجھ (غیر ممیز) بچے کے سامنے جماع کرنا ہے لیکن ناشائستہ عمل ہے۔
حضرت بن عمر رضی الله تعالی عنہ جب جماع کا اردہ کرتے تو گہوارے میں سے بچے کو بھی باہر کردیتے۔
لہذا جس کے گھر میں وسعت ہے اس کو ایسا کرنا چاہئے, ورنہ وہ اس وقت جماع کرے جب بچہ (جو ناسمجھ ہے) سو رہا ہو، اور ایسے بچے کے سامنے اس کے بیداری کے وقت بھی جماع کرنا جائز ہے، کیوں کہ اس سے یہ امن حاصل ہے کہ وہ اس کو باہر بیان نہیں کرے گا، لیکن شائستگی اس میں ہے کہ اس کے سامنے نہ کریں، کیوں کہ اگرچہ وہ ناسمجھ ہے لیکن اس کی یادداشت ان چیزوں کو بھی محفوظ کرلیتی ہے اور بسا اوقات اس کا اثر بچہ کے مزاج پر پڑتا ہے۔
(۱۰) جماع کے وقت غیر اختیاری طور پر نکلنے والی آواز، سرسراہٹ کسی دوسرے کے کان تک نہ جائے۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سلف اس بات کو مکروہ سمجھتے تھے کہ ایک مرد ایک بیوی سے جماع کرے اور اس کی آواز دوسری بیوی کو پہنچ رہی ہو۔
غالب نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ اسلاف "وجس" (مراد جماع کے وقت نکلنے والی بدنی سرسراہٹ، یا منہ سے نکلنے والی آہ آہ سیہ سیہ کی آواز)
یعنی یہ آوازیں نہ نکالی جائیں اور اگر غیر اختیاری طور پر نکل گئی تو دوسروں کے کان تک نہ پہنچے۔
(۱۱) جماع کرتے وقت باتیں کرنا:
جماع سے پہلے رفث اور ایسی باتیں جو پیار محبت کی ہوں اور ان سے شہوت برانگیختہ ہو کرنا بہتر ہے ، عین جماع کے وقت وقت بھی بات کرنا جائز ہے لیکن زیادہ بات کرنا اور بدکلامی کرنا درست نہیں ہے۔
وأن يبدأ بالملاعبة والضم والتقبيل. وإذا قضى وطره، فليتمهل لتقضي وطرها، فإن إنزالها ربما تأخر. ويكره ‌الإكثار ‌من ‌الكلام حال الجماع۔الحظر والاباحۃ، (الفقہ الاسلامی وادلتہآداب الجماع، ج۴، ص ۲۶۴۵)
قال في المدخل في فضل آداب الجماع وينبغي للزوج أن يتجنب ما يفعله بعض الناس، ‏وهو النخير والكلام السقط. وقد سئل مالك رحمه الله عنه فأنكره وعابه، قال ابن رشد ‏وإنما أنكر مالك رحمه الله ذلك لأنه لم يكن من عمل السلف .
(۱۲) جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن جماع کرنا:
حدیث میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ہر جمعہ اپنی بیوی سے جماع کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں، غسل کرنے کا اور اپنی بیوی کو غسل کروانے کا۔ (أخرجه البيهقي في شعب الإيمان من حديث أبي هريرة.)
۔۔۔۔۔
(۱۳) ہم بستری کرنے کا طریقہ:
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کنواری عورت سے بھی زیادہ حیاء رکھتے تھے ، آپ نے ہرطرح کی تعلیم دی لیکن جو باتیں آپ کے شایان شان موافق حیاء نہیں تھیں ، کبھی قرآن نے کبھی ازواج مطہرات نے تو کبھی صحابہ نے ان کو بیان فرمایا اور کبھی آپ ہی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔إن الله لا يستحيي من الحق لا تأتوا النساء في أدبارهن (ابن ماجہ)
ظریقہائے جماع ایک ایسا فن ہے کہ ہدایت کی کتاب اس کی جزئیات سے تو بحث نہیں کرسکتی البتہ اصول بیان کرسکتی ہے اور بیان کرنا ضروری بھی ہے ۔
آپ صرف اس آیت کی فصاحت و بلاغت ، گہرائی و گیرائی اعجاز و جامعیت پر غور کریں ،
"نساءکم حرث لکم فآتوا حرثکم انی شئتم "تشبیہ پر غور کیجیے ۔۔۔ عورت کو کھیتی سے تشبیہ دی ۔۔۔ کھیتی وہ ہوتی ہے جس میں بیج ڈالنے سے پیداوار ہو۔۔۔ جائے حرث قبل ہے دبر تو موضع فرث(گندگی) ہے۔۔۔ جماع استلذاذ اور استمتاع تو ہے ۔۔۔ لیک ہم بستری نرے مزے کا نام نہیں ۔۔۔ اس سے مقصود ابقائے نسل انسانی بھی ہے ۔
کہا گیا "انى شئتم" صماخ(سوراخ) ایک رکھنے کے بعد کتنا عموم رکھا ۔۔۔ ذرا دیکھو تو صحیح۔۔۔ صاحب جلالین ۔۔۔ جو خود بہت کم لکھنے کے عادی ہیں ۔۔۔۔ لکھنے پر مجبور ہوگئے ۔۔۔ من قيام وقعود واضطجاع وإقبال وإدبار۔۔۔ کھڑے ہوکر بھی ہم بستری کرسکتے ہو۔۔۔ بیٹھ کر بھی ۔۔۔ پہلو کے بل لیٹ کر بھی ، سامنے سے اتر کر بھی اور پیچھے سے آکر بھی۔۔۔
یعنی اس آیت میں جو رخصت اور چھوٹ دی گئی اندازہ لگانا مشکل ہے ، لیکن شرط یہی ہے کہ آنا اپنی کھیتی میں ہے بازو میں جائے محظور ہے اس سے دور رہنا ۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے :
عن أبي صالح : ﴿ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ) قال : إن شئت فأتها مستلقية وإن شئت فمتحركة وإن شئت فبارکۃ(۳/۳۴۸)
ابو صالح اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں اگر آپ چاہیں تو بیوی کو چت لٹا کر جماع کرو ، چاہے تیز تیز ہلتے ہوئے کرو چاہے گھٹنے کے بل بٹھا کر کرو۔

فتاوی دار الافتاء بنوریہ میں سے کچھ باتیں نقل کی جاتی کچھ اضافہ کے ساتھ اضافہ بین القوسین ہوگا۔
شریعتِ مطہرہ نے بیوی کے پورے بدن سے نفع اٹھانے کی اجازت دی ہے، البتہ پچھلے مقام میں صحبت کرنا بیوی سے بھی حرام ہے کہ وہ جماع کرنے کا محل اور مقام ہی نہیں، اس لیے صحبت اگلے حصے ہی میں جائز ہے اور اس کے لیے جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے شریعت میں اس کی ممانعت نہیں، البتہ اشارتاً دو طریقے بہترمعلوم ہوتے ہیں۔ (دو طریقے اشارۃ اور ہیں جو ذکر کیے جائیں گے)
پہلا طریقہ : جو ہر جان دار میں فطری طریقہ ہے کہ مرد اوپر رہے اور عورت نیچے ہو، اس میں جانبین سے لذت کا حصول زیادہ ہے، 
قرآن کریم میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔چناںچہ ارشاد ہے:
﴿ فَلَمَّا تَغَّشَاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا﴾ (الأعراف:۱۸۸ )
ترجمہ: "جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا تو اسے ہلکا سا حمل رہ گیا۔"
[(یہاں قرآن کریم میں ایک تمثیل بیان کرتے ہوئے فرمایا (بعض حضرات نے اس واقعہ سے مراد حضرت آدم و حضرت حواء علیہا السلام مراد لیا ہے وہ صحیح نہیں ہے)
فرمایا جب ڈھانک لیا مرد نے عورت کو ( اس سے وطی کرنے سے کنایہ کیا گیا ہے) یہ ایک عام اور رائج طریقہ ہے وطی کرنے ، اس کو سب سے زیادہ آسان اور لذت بخش کہا جاتا ہے کہ عورت بستر پر چت لیٹی ہو اور مرد اس کو کچھ اس طرح ڈھانک لے کہ اس کے ہر ہر عضو کے مقابلے میں عورت کا ہر ہر عضو ہو، سینہ کے مقابل میں سینہ اور رخ کے مقابل میں رخ . مذکورہ طریقہ پر مرد جماع کرتے ہوئے عورت کے بالائی سینے ، لب و رخسار اور گردن سے بآسانی استمتاع کرسکتا ہے۔]
دوسرا طریقہ: جس کاذکر حدیث مبارک میں ہے:
" إِذَا قَعَدَ بَیْنَ شُعَبِهَا الْأَرْبَعِ ثُمَّ جَهَدَهَا "
ترجمہ: "مرد جب فرج کے چاروں جانب کے درمیان بیٹھ جائے، پھر مشقت میں ڈالے عورت کو"۔

اس کی تفسیر میں راجح قول یہ ہے کہ عورت لیٹی ہو اور اس کی ٹانگ اٹھا کر جماع کرے، یہ طریقہ حمل ٹھہرانے کے لیے بھی مفید ہے۔
 اتحاف السادۃ المتقین میں ہے:
"وأما أشکاله: فأحسنها أن یعلو الرجل المرأة رافعاً فخذیها ..."الخ 
[ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ یہ بیٹھ کر جماع کا ایک شاندار طریقہ ہے کہ عورت کی پشت کے نیچے کچھ رکھ کر اونچا کر دیا جائے اور مرد اس کے پیروں کے درمیان دائیں بائیں جانب کرکے ، پیر کے پنجوں کو زمین کر رکھ کر ایڑیوں کے بل کچھ اس طرح بیٹھے جیسے مردانہ پیشاب خانہ میں جو عموما مسجدوں میں بنے ہوتے ہیں مرد بیٹھتا ہے ، اب چاہے وہ ان پیروں کو وہ اپنے دونوں کندھوں پر رکھ دے چاہے دائیں بائیں جانب ہی پھیلے رہنے دے۔کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں تیر نشانے پر واقع ہوتا ہے اور حمل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ پہلی صورت الذ اور زیادہ سرور آور ہے کیوں مرد و عورت کے جسم ایک دوسرے سے مس کیے ہوتے ہیں۔]
[حضرت ابن عباس رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں قریش عورتوں سے کئی طریقہ سے لطف اندوز ہوتے تھے آگے سے آکر ،چت لٹا کر ، گھما کر الٹا کرکے ، جب ہجرت کا عمل ہوا اور بعض مھاجرین نے انصاری خاتون سے نکاح کیا تو وہ بھی انصاریہ کے ساتھ ایسا ہی کرنے لگے ، انصاریہ نے منع کیا کہ ہم ایک ہی طریقہ استعمال کرتے ہیں ویسا ہی کریں ورنہ علیحدہ رہیں ، ان کی یہ بات نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کو بھی پہنچ گئی تو آپ نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی: نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم ۔ (مستدرک : 2845)
انصاریوں پر یہ اثر یہودیوں کا پڑا تھا وہ کہتے تھے کہ اگر گھما کر پیچھے سے جماع کروگے تو بچہ احول(بھینگا) پیدا ہوگا، لیکن یہودیوں کی اس بات کی تردید مشاہدہ بھی کر چکا ہے۔
                   اس میں ایک طریقہ جماع کا اشارہ ہے اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھا کر جماع کرنا ہے ، اس طرح کہ عورت کو گھما کر گھٹنوں کے بل کردیا جائے اور عورت اپنا چہرہ اور ہاتھ زمین پر رکھ دے ۔)
[ إنما الطلاق لمن أخذ بالساق.(سنن ابن ماجہ)
فرمایا کہ "طلاق کا حق اس کو ہے جو (بیوی کی) پنڈلی پکڑے" غلام کی بیوی کو آقا بیٹے کی بیوی کو والدین طلاق نہیں دے سکتے، بلکہ طلاق دینے اختیار صرف اس کو ہے جو پنڈلی پکڑے یعنی جو اس عورت سے جماع کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
                  اس میں جماع کرنے کے اس طریقہ کی طرف اشارہ جس میں جماع کرتے وقت شوہر پنڈلی پکڑے۔
سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کھڑے ہوکر جماع کرنے کا ایک عمدہ طریقہ ہے جس میں عورت مرد کے نصف اسفل کے مقابل کسی اونچی جگہ پر ہو۔]

*(۱۴) عزل کرنا*
کا مطلب ہے انزال کے وقت مرد اپنی شرمگاہ عورت کی شرمگاہ سے نکال کر منی باہر خارج کرے ہمارے زمانے میں کون دم اس کا متبادل ہے،
بلا عذر عزل کرنا ناپسندیدہ ہے، البتہ اگر عذر ہو تو (آزاد) بیوی کی اجازت سے عزل کرنا بلاکراہت جائز ہوگا، اور بعض حالات میں بیوی کی اجازت کے بغیر بھی اس کی گنجائش ہے۔

چند اعذار ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں "عزل" بلاکراہت جائز ہے:

1۔۔ عورت اتنی کمزور ہو کہ حمل کا بوجھ اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو یا بچہ کی ولادت کے بعد شدید کمزوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو "عزل" جائز ہے۔

2۔۔ دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے، اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے۔

3۔۔ ۔ عورت بد اخلاق اور سخت مزاج ہو اور خاوند اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہواور اندیشہ ہو کہ بچہ کی ولادت کے بعد اس کی بداخلاقی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، ایسی صورت میں بلاکراہت عزل جائز ہے۔

4۔۔ اسی طرح طویل سفر میں ہو، یا دارالحرب میں ہونے کی وجہ سے بچے کے جانی یا ایمانی نقصان کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں بھی عزل جائز ہے۔

مذکورہ صورتوں میں عزل کرنے کا ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے ،اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہو۔ باقی آپریشن کرکے بچہ دانی نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے ، شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔(دار الافتاء بنوری)
عزل کے سلسلے میں روایت مخلتف ہیں بعض روایت میں اسے وأد خفی (پوشیدہ طور پر درگور کرنا) قرار دیا گیا بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جائز ہے، تطبیق اسی طرح ہے کہ اگر یہ کسی غرض صحیح سے ہے تو جائز ہے اور اگر غرض فاسد ہو مثلا مفلسی کا اندیشہ یا لڑکی ہونے سے بدنامی تو ایسی صورت میں عزل ناجائز ہے(تفصیل کے لیے دیکھیے تحفۃ الالمعی ) 
*(۱۵) جماع کے وقت عورت پر اپنے بدن کا بوجھ نہ ڈالے*
زمانہ جاہلیت میں گیارہ عورتوں نے اکٹھا ہوکر عہد کیا کہ ہم اپنے شوہروں کے بارے میں سچ کہیں سچ کے سوا کچھ نہ کہیں گے: ان میں سے ساتویں عورت نے کہا کہ میرا شوہر بہن میرا شوہر! بلکل نکما ، اس میں حد سے زیادہ درماندگی اور سستی ہے کسی مرض کی دوا نہیں ، ہر کام اس پر بوجھ ہوجاتے ہیں اور وہ بیوی پر بوجھ ڈالنے والا ہے، ( یعنی جماع کے وقت اپنی بیوی پر پڑ جاتا ہے ، جلد فارغ ہوکر اپنا ڈھیلا ٹھنڈا جسم بیوی پر ڈال دیتا ہے۔ (شمائل ترمذی)
امام اصمعی کہتے ہیں کہ امرء القیس نے ایک عورت سے نکاح کیا جس کا نام جندب تھا، پہلی رات میں رات کا ابھی پہلا ہی حصہ گزرا تھا اس نویلی دلہن نے اپنے شوہر امرء القیس کو یہ کہہ کر اٹھایا کہ اٹھو اے بہترین کڑیل جوان ! صبح ہوگئی , جب اس نے دیکھا کہ ابھی تو رات ہی ہے تو اس نے پوچھا کیوں بیگم آپ نے ایسا کیا ؟ بیگم ٹال رہی تھی لیکن یہ بضد تھا تو، تو بیگم نے کہا:
لأنك ثقيل الصدر، خفيف العجز، سريع الإراقة، بطيء الإفاقة.
چار صفات گنوائیں:
(۱)اس لیے کہ تو سینے پر بھاری ہے یعنی جماع کرتے وقت سینے پر پڑ جاتا ہے ،( عورت کو جماع کے تھوڑا کھلا کھلا اچھا لگتا ہے تاکہ وہ بھی برابر لذت حاصل کرے اگر مرد عورت پر اپنا پورا وزن ڈال دے تو عورت کا مزہ ختم ہوجاتا۔(۲) اور تو ہلکی سرین والا ہے (۳)تیسری بات یہ کہی کہ " تو پانی بہت جلدی بہانے والا ہے" (۴) چوتھی بات اس عورت نے کہی : اس لیے کہ تو افاقہ میں بڑا سست ہے یعنی ایک مرتبہ جماع سے فارغ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ تیار ہونے میں بہت دیر لگاتا ہے۔ (زین المحافل)
۔۔۔۔۔
*(۱۶)رات کے آخری حصہ میں جماع کرنا*
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم شروع رات میں سوتے تھے، پھر قیام اللیل فرماتے اور جب رات کا اخری حصہ ہوتا تو وتر پڑھتے، پھر اپنے بچھونے پر اتے پس اگر اپ کو کوئی حاجت ہوتی تو اس کو پورا کرتے (یعنی جماع فرماتے) پھر جب اذان سنتے تو تیزی سے اٹھتے، اگر اپ جنوبی ہوتے تو اپنے اوپر پانی بہاتے ورنہ وضو کرتے اور نماز کے لیے نکل پڑتے۔ (سنن النسائی: ۱۶۸۰)
شروع رات میں مرد تھکا ہوتا ہے، اس وقت آرام کی ضرورت ہوتی ہے ، (ماہرین تکان کے وقت اسی طرح بدن درد ، سر درد بخار کے وقت ، بھوکے پیٹ اور بھرے پیٹ جماع نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں)
رات کے آخری حصہ تک اس کی تکان اتر جاتی ہے ، نشاط طاری ہوجاتا ہے، نہ پیٹ بھرا ہوتا ہے نہ بالکل خالی ہوتا ہے، اس وقت خود بخود انسان کو جماع کا خواہش ہوتی ہے۔
دن میں بھی جماع کرنا جائز ہے لیکن دن کے مقابلے میں رات میں الله تعالی نے نشاط رکھا ہے اسی لیے دن نمازیں گونگی اور رات کی جہری ہیں۔ اس لیے اس کام کے لیے رات موزوں ہے۔

*(۱۷)ایک مرتبہ جماع سے فارغ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ جماع کرنا چاہے تو پہلے وضو کرلے*
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے (یعنی جماع کرلے) پھر لوٹنے کا (دوبارہ جماع کرنے کا) ارادہ ہو تو وضو کرلے۔ اس لیے کہ یہ (وضو کرنا) لوٹنے میں زیادہ نشاط دے گا.(سنن کبری)
لہذا بہتر یہ ہے کہ وہ پیشاب بھی کرلے کہ جو منی کے قطرے ذکر کی نالی میں لگے رہ گئے ہوں وہ بھی نکل جائے، اور وضو میں بھی کرلینا چاہیے۔ اگر پیشاب نہ آئے تو صرف شرم گاہ دھولیں مرد بھی عورت بھی۔

*(۱۸)جماع کرکے غسل کیے بغیر سوجانا*
حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کو رات میں جنابت لاحق ہوگئی تو حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ذکر کو دھو دو وضو کرلو اور سو جاؤ(بخاری)
حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم جب جنابت کی حالت میں سونے کا ارادہ فرماتے تو شرم گاہ کو دھوتے ،وضو کرتے نماز جیسا وضو۔
اگر کوئی شخص وضو نہ کرے تو بھی گناہ نہیں ہے ، ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ آپ سوئے اس حالت میں کہ آپ جنابت سے تھے اور آپ نے پانی کو نہیں چھوا۔
البتہ غسل کرلینا بہتر ہے تاکہ پاک صاف فریش ہوکر سوئے اور فجر کی نماز بآسانی ہوسکے ۔
عبد اللہ بن قیس فرماتے ہیں: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: جنابت کی حالت میں کیا کرنا چاہیے ؟ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم غسل کرکے سوتے تھے یا سوکر غسل کرتے تھے؟ 
فرمایا: دونوں کیا کرتے تھے کبھی غسل کرکے سوتے کبھی وضو کرکے سوتے ۔
عبد اللہ کہتے ہیں میں نے کہا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے معاملہ میں وسعت رکھی۔(مسلم)

*(۱۹)جماع میں عورت کی فراغت بھی خیال رکھنا*
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی سے جماع کرے تو چاہیے کہ وہ اسے بھی مطمئن کردے، پھر اگر مرد کی خواہش پوری ہوگئی تو جلدی نہ کرے تا آں کہ عورت کی خواہش بھی پوری ہوجائے۔[مجمع الزوائد]
اس حدیث کی ضمن میں علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ اگر حاجت پوری ہو جائے تو بھی اس سے نہ ہٹے بلکہ مص الشفتین اور تحریک الثدیین میں لگا رہے جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو جائے کہ وہ بھی مطلوب تک پہنچ چکی ہے ، اس کہ یہ حسن مباشرت ہے اس کو پاک دامن رکھنا ہے خوش اخلاقی اور نرمی مزاجی ہے۔ (فیض القدیر)

المغنی لابن قدامہ میں ہے:
''ويستحب أن يلاعب امرأته قبل الجماع؛ لتنهض شهوتها، فتنال من لذة الجماع مثل ما ناله. وقد روى عن عمر بن عبد العزيز، عن النبى -صلى الله عليه وسلم-، أنه قال: "لا تواقعها إلا وقد أتاها من الشهوة مثل ما أتاك، لكيلا تسبقها بالفراغ."

*(۲۰) جماع کے بعد میاں بیوی کا ایک ساتھ غسل کرنا*
حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ میں اور حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے وہ بھی جلدی کرتے میں بھی جلدی کرتی حتی کہ وہ کہتے میرے لیے پانی بچانا ، میں بھی کہتی کہ آپ میرے لیے پانی بچانا ، ایک روایت میں ہے کہ صرف حضرت عائشہ کہتیں کہ میرے لیے پانی بچائیے میرے لیے چھوڑیے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ ملاطفت ،نرم مزاجی اور خوش اخلاقی سے رہتے۔

اگر آگے پیچھے غسل کرنا ہے تو بہتر یہ ہے کہ مرد پہلے غسل کرلے اور عورت نے پہلے غسل کرلے تو بھی کوئی حرج نہیں۔مرد و عورت دونوں کو چاہیے کہ وہ پاکی اور صفائی دونوں کا خیال رکھے۔

*(۲۱)غسل خانہ میں نہاتے ہوئے جماع کرنا*
جائز ہے ، لیکن خلاف ادب ہے.
بیوی رکھنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ مرد/عورت کو جب خواہش ہو تب حاجت پوری کرلی جائے، ممکن ہے مرد کو اس وقت خواہش کی شدت ہو جب اس نے اپنی بیوی کو نہاتا دیکھ لیا ہو۔
حضرت جابر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ایک خاتون نو دیکھا، آپ اپنی بیوی زینب (رضی الله تعالی عنھا) کے پاس آئے اس حال میں کہ وہ دباغت کے لیے چمڑے کو رگڑ رہی تھیں، آپ نے اپنی حاجت پوری کی۔ پھر آپ اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عورت شیطان کی صورت میں آتی ہے اور شیطان کی صورت میں جاتی ہے ،(یعنی اس کے آنے پر شیطان وسوسہ ڈالتا ہے اور فتنہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے) پس جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھ لے، تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور جماع کرلے اس لیے کہ ختم کر دیتا ہے اس کو جو اس کے نفس میں واقع ہوگیا ہے۔ (مسلم: ۱۴۰۴)

*(۲۲) مرد کی اگر کسی پرائی عورت پر نظر پڑ گئی، جو اس کو اچھی لگی، اور اس کی طبیعت میں میلان ہوا تو مرد کے لیے مستحب ہے کہ وہ گھر آکر جماع کرلے*
حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا جو آپ کو بھلی لگی٫ آپ سودہ (رضی الله تعالی عنھا) کے پاس تشریف لائے جو خوشبو بنا رہی تھیں، ان کے پاس عورتیں جمع تھیں ، ان عورتوں نے آپ کے لئے خلوت کر دی ، آپ اپنی ضرورت پوری فرمائی، پھر آپ نے فرمایا: کہ جس شخص کی نگاہ کسی ایسی عورت پر پڑے جو اس کو پسند آجائے تو اس کو اپنی بیوی کے پاس چلے جانا چاہئے، اس لئے کہ اس کی بیوی کے پاس بھی وہی ہے جو اس عورت کے پاس ہے ۔ ( دارمی , مشکات:۲۹۷۴)
شارح مسلم نووی فرماتے ہیں: ایک شخص نے کسی عورت کو دیکھا جس کی وجہ سے اس کو شہوت بھڑکی، اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنی بیوی یا باندی کے پاس آئے، اور ان سے جماع کرے تاکہ اس کو شہوت پوری ہو اور دل پر سکون ہو (شرح مسلم)

 *(۲۳)دن یا رات کے کسی وقت عورت کام میں مشغول ہو اور مرد جماع کا تقاضا کرے تو عورت کو اطاعت کرنا لازم ہے۔*
حضرت طلق بن علی سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو حاجت پوری کرنے کے لئے بلائے تو بیوی کو چاہئے کہ اس کے پاس جائے خواہ وہ تنور پر مصروف ہو۔ (ترمذی ، مشکات:۳۲۵۷)
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عورت الله کا حق جو اس پر ہے تمام کا تمام ادا نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ شوہر کا حق جو اس پر ہے تمام کا تمام ادا نہ کردے ، اگر وہ عورت کی ذات کو طلب کرے اس حال میں کہ وہ اونٹ پر سوار ہے، تو چاہیے کہ عورت اپنے آپ کو مرد کے سپرد کردے(یعنی اطاعت کرے) (ابن ماجہ )  
ان حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ دن میں جماع کرنا جائز ہے اگرچہ عورت ایسے کام میں مشغول ہو جس کا چھوڑنا مضر نہیں ہے۔ اس لیے کہ مرد پر کبھی اس قدر شہوت غالب آجاتی ہے جس میں تاخیر اس کے بدن ، دل یا نگاہ کے لیے نقصان دہ ہو ۔(شرح مسلم)

*(۲۴) عورت کس وقت جماع سے منع کرسکتی ہے*
عورت حیض یا نفاس سے ہو یا روزہ احرام اعتکاف ہو، یا بیمار ہو کہ جماع اس کو نقصان دہ ہو یا کثرت جریان یا کسی اور وجہ سے اتنی کمزور ہو کہ جماع کی طاقت نہیں رکھتی ،تو ایسی صورت میں اس کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اپنے شوہر کواپنی تکلیف بتلادے،اور اپنے ساتھ جماع نہ کرنے كا كہے ،اور شوہر کو بھی عورت کی صحت کا لحاظ رکھنا چاہیے،زبردستی نہیں کرنی چاہیے،تاہم بلاعذر شوہر کو روکنا جائز نہیں ہے۔
علامہ شامی فرماتے ہیں : اگر عورت ناتواں ہے کمزوری کی وجہ سے جماع برداشت نہیں کرسکتی ہے یا مرد کے آلہ کے طویل فربہ ہونے کی وجہ سے استطاعت نہیں رکھتی تو عورت کو شوہر کے سپرد کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔(۳/۲۰۳)
*(۲۵) مرداس طرح جماع نہ کرے کہ عورت کو نقصان ہو۔*
جذبۂ شہوت میں یا تسکین کے خاطر کبھی شوہر عورت کو یا عورت شوہر کو دانتوں کاٹتے ہیں،جو تکلیف دہ ہو لذت بخش نہ ہو یا مرد سختی سے اس قدر زور زور ہل کر جماع کرے کہ جس سے عورت کو نقصان پہنچے، اس طرح کرنا جائز نہیں ہے۔
شرنبلالی فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے اس طرح جماع کیا کہ وہ مر گئی یا اگلی اور پچھلی راہ کے درمیان کی ہڈی ٹوٹ گئی تو اگر بیوی چھوٹی ہو یا اس پر زبردستی کی گئی ہو یا جماع کی طاقت نہیں رکھتی تھی تو اس مرد پر بالاتفاق دیت آئے گی ۔ اس مسئلہ سے معلوم ہوا کہ اس طرح جماع کرنا جائز نہیں ہے کہ عورت کا نقصان ہوجائے، اور اگر کوئی لمبے ذکر والا ہے تو اس کے لیے اتنا دخول جائز ہوگا جو قابل برداشت ہو یا معتدل الخلقت مرد کے آلہ کے بقدر۔ (شامی : ۳/۲۰۴)

*(۲۶) عورت اگر جماع کا مطالبہ کرے*
حضرت ابن عباس رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس طرح مجھے یہ پسند ہے کہ میری بیوی میرے سامنے صاف ستھری زیب و زینت کے ساتھ رہے اسی طرح میں بھی کوشش کرتا ہوتا ہوں کہ اس کے سامنے بن سنور کر رہوں ،
الله تعالی قرآن میں فرماتے ہیں: اور جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ، ایسے ہی مردوں پر عورتوں کے حقوق بھی ہیں ۔(البقرۃ: ۲۲۸)
لہذا جس طرح مرد اپنی شہوت عورت سے پورا کرکے اپنی شرم گاہ اور نگاہوں کو محفوظ کرتا ہے اور دل و دماغ کو ٹھکانے لگاتا ہے اسی طرح عورت بھی ان چیزوں کی محتاج ہوتی ہے.
بعض اجڈ لوگ اس بات کو ناپسند سمجھتے ہیں کہ عورت از خود جماع کا مطالبہ کرے اور اس کو بے ادبی، و بے شرمی شمار کیا جاتا ہے، یا زیادتی کرتے ہوئے عورت کے ماضی کو مشکوک سمجھ لیا جاتا ہے ، یہ درست نہیں ہے نادانی اور جہالت ہے۔
علامہ کاسانی فرماتے ہیں: عورت کے لیے حق ہے کہ وہ جماع کا مطالبہ کرے ، اس لیے کا مرد کا اس سے ہم بستری کرنا اس کا حق ہے، جیسا کہ یہ عورت کا بھی حق ہے، اب اگر عورت ایک مرتبہ مطالبہ کرے تو شوہر کو ذمہ قضاء لازم ہے کہ اس سے جماع کرے، اور ایک مرتبہ کے علاوہ قضاء تو لازم نہیں ہے لیکن دیانتا لازم ہے، بعض نے کہا کہ قضاء بھی لازم ہے.(البدائع الصنائع)
علماء فرماتے ہیں کہ جب عورت جماع کا مطالبہ کرے تو مرد کے لیے بہتر ہے کہ وہ جماع کے ذریعہ اسے فارغ کرے، البتہ مرد کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا جائے گا۔
کیوں کہ جماع کا مدار نشاط پر ہے مرد کو نشاط ہوگا تو انتشار ہوگا اور وہ جماع ہر قادر ہوگا جبکہ عورت بغیر نشاط کے بھی جماع کرواسکتی ہے اس لیے مرد کے مطالبہ کے وقت اس پر اجابت لازم ہے۔
 
*(۲۷) کتنی مرتبہ جماع کرے*
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں ازدواجی تعلقات کے لیے کوئی میعاد مقرر نہیں کی گئی، بلکہ یہ بات میاں بیوی کی باہمی رضامندی اور طبیعت کے نشاط پر چھوڑ دی گئی ہے؛ لہذا شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی قوت اور طاقت کے مطابق حتی الامکان بیوی کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے، اِس میں کوتاہی نہ کرے، شوہر بیوی کی رعایت رکھے اور بیوی کو چاہیے کہ وہ شوہر کی رعایت رکھے ۔
حضرت حسن بن زیاد ، ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ سے نقل کرتے ہیں جس کو طحاوی نے اختیار کیا ہے کہ آزاد عورت سے چار دن میں ایک مرتبہ اور باندی سے سات دن میں ایک مرتبہ جماع کرلینا چاہیے۔ اگر یہ طاقت سے زیادہ ہو تو لازم نہیں ہوگا۔ لیکن ظاہری مذہب یہ ہے کہ وہ عورت کے ساتھ رات گزارے اور گاہے بگاہے ہم بستری کر لے۔ (شامی: ۳/۲۰۳)

*(۲۸)ایک بیوی سے جماع روک کر دوسری بیوی کے لیے جماع کی قوت محفوظ کرنا تاکہ لذت زیادہ محسوس ہو۔*
یہ درست نہیں ہے۔
مالکی فقہاء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ : ایک بیوی سے جماع نہ کرنا اس غرض سے کہ دوسری بیوی کے لیے طاقت وافر ہو اور لذت کامل ، یہ درست نہیں ہے(قالہ الخلیل فی مختصرہ)

*(۲۹)حاملہ اور مرضعہ بیوی سے جماع کرنا*
ایام حمل میں بیوی سے جماع کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ، جو طریقہ اس کے مناسب اور آسان ہو وہ طریقۂ جماع اختیار کرنا چاہیے۔
نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے جنین (پیٹ میں موجود بچہ) کو کھیتی (پیداوار) اور منی کو پانی سے تشبیہ دی ہے (سنن ابی داؤد) اور پانی تو پیداوار کو فائدہ ہی پہنچاتا ہے۔
حضرت امام احمد فرماتے ہیں: وطی (جنین کی) سماعت و بصارت کے اندر زیادتی کرتا ہے۔
علامہ شامی فرماتے ہیں :(جنین کے) بال اس سے بڑھتے ہیں۔(شامی: ۳/۴۹)
البتہ اگر بچہ دانی کمزور ہو یا عورت کو پیٹ کے نیچے کے حصہ میں تکلیف ہو یا اور کچھ ضرر کا اندیشہ ہو تو جماع سے رکنا چاہیے۔
اسی طرح رضاعت (دودھ پلانے) کی مدت میں بیوی سے ہم بستر ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے غیل (مدت رضاعت میں جماع کرنے سے) منع کرنے کا ارادہ فرمایا مگر جب آپ کو بتایا گیا کہ فارس و روم والے ایسا کرتے ہیں اور یہ ان اولاد کے لیے نقصاندہ نہیں ہوتا (تو آپ نے منع نہیں فرمایا۔) [مسلم]

*(۳۰) رمضان میں بیوی سے مقاربت کا حکم؟*

تمہارے لئے حلال کردیا گیا ہے کہ روزوں کی رات میں تم اپنی بیویوں سے بےتکلف صحبت کرو (البقرۃ:۱۸۷)
شروع شروع میں حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص روزہ افطار کرنے کے بعد ذرا سا بھی سو جائے تو اس کے لئے رات کے وقت بھی نہ کھانا جائز ہوتا تھا نہ جماع کرنا، بعض حضرات سے اس حکم کی خلاف ورزی سرزد ہوئی اور انہوں نے رات کے وقت اپنی بیویوں سے جماع کرلیا، ان کی معافی کا اعلان کرکے یہ پابندی اٹھا دی گئی۔ البتہ دن میں روزے کی حالت میں جماع کرنا جائز نہیں ہے لیکن اپنی بیوی سے کھیلنے اور بوس و کنار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اس شخص کے لیے جو اس بات سے مطمئن ہے کہ اس سے جماع کا صدور نہیں ہوگا۔
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی زوجہ محترمہ سے بوس و کنار فرماتے ، اور حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنھا فرماتی ہیں کہ آپ اپنی خواہش پر زیادہ قابو یافتہ تھے۔ (مسلم:۱۱۰۶)
روزے کی حالت میں بوس و کنار کی وجہ سے اگر منی خارج ہوجائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا، قضا لازم آئے گی۔ اگر اس دوران جماع ہو گیا تو قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم آئے گا۔
(فتاوی ہندیہ)
خود پر اعتماد نہ ہو یا جوان ہو تو روزے کے دوران بوس وکنار سے اجتناب کرنا چاہیے۔

*(۳۱)حیض یا نفاس کی حالت میں بیوی سے مقاربت کرنا؟*
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جب ہم میں سے کوئی بیوی حائضہ ہوتی اور رسول اللہ صلی الله تعالی علیہ وسلم اس کو ساتھ لٹانا چاہتے تو اس کو حکم دیتے کہ حیض کے شروع دنوں میں تہبند باندھ لے، پھر اس کو لٹاتے، حضرت عائشہ کہتی ہیں: اور تم میں سے کون اپنی خواہش پر ایسا کنٹرول کر سکتا ہے جتنا نبی صلی یکی اپنی خواہش پر کنٹرول رکھتے تھے؟ (بخاری:۳۰۲)
ایک شخص نے نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم سے سوال کیا: میری بیوی جب حیض کی حالت میں ہو تو میرے لیے کیا حلال ہے؟
آپ نے فرمایا: چاہیے کہ عورت ازار باندھے پھر آپ کا کام عورت کے اوپری حصہ پر ہے۔ (موطا: ۱۲۶)
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ حائضہ سب کچھ کر سکتے ہیں سوائے جماع کے۔
فقہائے احناف نے ازروئے احتیاط ناف کے نیچے سے استمتاع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حیض کی حالت میں بیوی سے جماع کرنا حرام و ناجائز ہے۔
اگر کسی سے جماع کا ارتکاب ہو جائے تو توبہ کرلے اور بہتر یہ ہے کہ اس کے بعد بطور کفارے کے کچھ صدقہ کریں؛ تاکہ نیکی سے گناہ دھل جائے۔ استطاعت ہو تو ایک دینار (4.374 گرام سونے کا سکہ) یا آدھا دینار یا اس کی قیمت کے بقدر پیسے صدقہ کردیے جائیں، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں ہم بستری کرے اسے چاہیے کہ ایک یا آدھا دینار صدقہ کردے۔ (ترمذی)

*(۳۲)مشت زنی کرنا اور مرد یا عورت کا جنسی کھلونے(آلات) استعمال کرنا*
قرآن میں ہے:
ہاں ، جو ( اپنی شہوت پوری کرنے کے لئے ) ان دو کے علاوہ کے طلب گار ہوں تو وہ حد سے گذر جانے والے ہیں (سورۃ المؤمنون:۷)
یعنی بیوی اور شرعی کنیز کے سوا کسی اور طریقہ سے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے۔(آسان ترجمہ قرآن)

کئی احادیث میں اس فعلِ بد پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے، اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ۔۔۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔(شعب الایمان:۷/۳۲۹)
                      یہی حکم ان جنسی کھلونوں کا ہے جو مرد کے لیے بنائے گئے ہیں کہ مرد اس میں دخول کرکے لذت حاصل کرے اور منی خارج کرے۔
عورت کا انگلی سے یا کسی اور چیز سے فرج کو سہلانا یا کوئی مصنوعی جنسی آلہ (مشین) فرج میں داخل کرکے لذت حاصل کرنا اور شہوت پوری کرنا جائز نہیں ہے۔

 البتہ اگر کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوگئی کہ زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہوجائے اور اس سے بچنے کے لیے کسی نے یہ عمل کرلیا تو یہ زنا جیسے کبیرہ گناہ سے کم درجہ کا ہے۔
ایک نوجوان نے حضرت ابن عباس رضی الله تعالی عنہ سے پوچھا : میں نوجوان لڑکا ہوں شدید شہوت محسوس کرتا ہوں، پس میں اپنے ذکر کو رگڑتا ہوں تاآں کہ انزال ہوجاتا ہے تو حضرت ابن عباس رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا: یہ زنا سے بہتر ہے اور باندی سے نکاح کرنا اس سے بہتر ہے۔(سنن کبری:۱۴۱۳۳)

*(۳۳)بیوی کے ہاتھ سے مشت زنی کروانے کا حکم؟*
جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
سوائے اپنی بیویوں اور باندیوں کے کہ ( اس میں ) ان پر کوئی ملامت نہیں (سورۂ مومنون:۵٫۶)
ابن حجر ہیثمی فرماتے ہیں: منی کا جماع کے بغیر نکالنا کبھی حرام ہوتا ہے جیسے اپنے ہاتھ سے نکالنا کبھی مباح ہوتا ہے جیسے اپنی بیوی کے ہاتھ سے نکالنا۔
شیخ الاسلام زکریا انصاری فرماتے ہیں: مرد عورت سے ہر طریقہ سے متمع ہوسکتا ہے حتی کہ عورت کے ہاتھ سے مشت زنی کے ذریعہ سے بھی۔
علامہ شامی فرماتے ہیں: بیوی کے جز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے جیسے دونوں کے درمیان ذکر رگڑ کر یا پیٹ پر رگڑ کر منی خارج کرنا۔(شامی: ۲/۳۹۹)

*(۳۴) بیوی کے دو پستانوں کے درمیان یا دو رانوں کے درمیان ذکر داخل کرکے منی خارج کرنا*
مذکورہ عمل کی آپسی رضامندی سے گنجائش ہے۔
جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
سوائے اپنی بیویوں اور باندیوں کے کہ ( اس میں ) ان پر کوئی ملامت نہیں (سورۂ مومنون:۵٫۶)
مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ عورت کے تمام بدن کو چھوئے اسی طرح اپنے ذکر کو تمام بدن میں لگا سکتا ہے۔ اسی طرح عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ مرد کے تمام بدن کو ہاتھ لگائے۔
 فتاوی شامی میں ہے:
"يجوز له أن يلمس بجميع بدنه حتى بذكره جميع بدنها إلا ما تحت الإزار فكذا هي لها أن تلمس بجميع بدنها إلا ما تحت الإزار جميع بدنه ‌حتى ‌ذكره."
(کتاب الحیض، ج:1، ص:293، ط:سعید)
مناسب یہ ہے کہ ہم بستری بھی بہتر طریقہ پر ہو، 
الله تعالی نے ہر چیز کو عمدہ طریقہ پر کرنا طے کردیا ہے(مسلم) 
لہذا بیوی سے کھیلتے وقت بھی اس کا لحاظ رکھیں ، بلند اخلاق کو یہاں بھی نہ بھولیں، کوئی ایسا طریقہ بھی نہ کیا جائے جس میں بیوی کو ہتک عزت محسوس ہو۔ اور ان لوگوں کی نقالی بھی نہ کیاجائے جن کی فطرت ہی پلٹ دی گئی ہے۔

*(۳۵)عورت کی شرم گاہ میں انگلی ڈالنا ، اس کی شرم گاہ کو ہاتھ سے سہلانا یا بظر سے کھیل کر عورت کو لذت دینا جائز ہے۔*
بالخصوص اس شخص کے لیے ایسا کرنا بہتر ہے جو سریع الانزال ہو،اور عورت کے انزال تک اس کا ٹھہرنا دشوار ہو۔
فتاوی میں ہے: بیوی کوشہوت دلانے اور اسے برانگیختہ کرنے کے لئے اس کی شرمگاہ میں انگلی داخل کرنے کی گنجائش ہے۔
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:
"‌‌‌لمس ‌فرج ‌الزوجة: اتفق الفقهاء على أنه يجوز للزوج مس فرج زوجته. قال ابن عابدين: سأل أبو يوسف أبا حنيفة عن الرجل يمس فرج امرأته و هي تمس فرجه ليتحرك عليها هل ترى بذلك بأسا؟ قال: لا، وأرجو أن يعظم الأجر .
وقال الحطاب: قد روي عن مالك أنه قال: لا بأس أن ينظر إلى الفرج في حال الجماع، وزاد في رواية: ويلحسه بلسانه، وهو مبالغة في الإباحة، وليس كذلك على ظاهره .
وقال الفناني من الشافعية: يجوز للزوج كل تمتع منها بما سوى حلقة دبرها، و لو بمص بظرها و صرح الحنابلة بجواز تقبيل الفرج قبل الجماع، و كراهته بعده."
(الاحکام المتعلقة بالفرج ج: 32 ص: 91 ط : وزارۃ الأوقاف و الشئون الإسلامیة)
۔۔۔۔۔۔۔
آخری قسط

*جماع کے آداب و مسائل*

*(۳۲)مشت زنی کرنا اور مرد یا عورت کا جنسی کھلونے(آلات) استعمال کرنا*
قرآن میں ہے:
ہاں ، جو ( اپنی شہوت پوری کرنے کے لئے ) ان دو کے علاوہ کے طلب گار ہوں تو وہ حد سے گذر جانے والے ہیں (سورۃ المؤمنون:۷)
یعنی بیوی اور شرعی کنیز کے سوا کسی اور طریقہ سے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے۔(آسان ترجمہ قرآن)

کئی احادیث میں اس فعلِ بد پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے، اور ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے ۔۔۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔(شعب الایمان:۷/۳۲۹)
                      یہی حکم ان جنسی کھلونوں کا ہے جو مرد کے لیے بنائے گئے ہیں کہ مرد اس میں دخول کرکے لذت حاصل کرے اور منی خارج کرے۔
عورت کا انگلی سے یا کسی اور چیز سے فرج کو سہلانا یا کوئی مصنوعی جنسی آلہ (مشین) فرج میں داخل کرکے لذت حاصل کرنا اور شہوت پوری کرنا جائز نہیں ہے۔

 البتہ اگر کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوگئی کہ زنا میں مبتلا ہونے کا یقین ہوجائے اور اس سے بچنے کے لیے کسی نے یہ عمل کرلیا تو یہ زنا جیسے کبیرہ گناہ سے کم درجہ کا ہے۔
ایک نوجوان نے حضرت ابن عباس رضی الله تعالی عنہ سے پوچھا : میں نوجوان لڑکا ہوں شدید شہوت محسوس کرتا ہوں، پس میں اپنے ذکر کو رگڑتا ہوں تاآں کہ انزال ہوجاتا ہے تو حضرت ابن عباس رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا: یہ زنا سے بہتر ہے اور باندی سے نکاح کرنا اس سے بہتر ہے۔(سنن کبری:۱۴۱۳۳)

*(۳۳)بیوی کے ہاتھ سے مشت زنی کروانے کا حکم؟*
جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
سوائے اپنی بیویوں اور باندیوں کے کہ ( اس میں ) ان پر کوئی ملامت نہیں (سورۂ مومنون:۵٫۶)
ابن حجر ہیثمی فرماتے ہیں: منی کا جماع کے بغیر نکالنا کبھی حرام ہوتا ہے جیسے اپنے ہاتھ سے نکالنا کبھی مباح ہوتا ہے جیسے اپنی بیوی کے ہاتھ سے نکالنا۔
شیخ الاسلام زکریا انصاری فرماتے ہیں: مرد عورت سے ہر طریقہ سے متمع ہوسکتا ہے حتی کہ عورت کے ہاتھ سے مشت زنی کے ذریعہ سے بھی۔
علامہ شامی فرماتے ہیں: بیوی کے جز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے جیسے دونوں کے درمیان ذکر رگڑ کر یا پیٹ پر رگڑ کر منی خارج کرنا۔(شامی: ۲/۳۹۹)

*(۳۴) بیوی کے دو پستانوں کے درمیان یا دو رانوں کے درمیان ذکر داخل کرکے منی خارج کرنا*
مذکورہ عمل کی آپسی رضامندی سے گنجائش ہے۔
جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
سوائے اپنی بیویوں اور باندیوں کے کہ ( اس میں ) ان پر کوئی ملامت نہیں (سورۂ مومنون:۵٫۶)
مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ عورت کے تمام بدن کو چھوئے اسی طرح اپنے ذکر کو تمام بدن میں لگا سکتا ہے۔ اسی طرح عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ مرد کے تمام بدن کو ہاتھ لگائے۔
 فتاوی شامی میں ہے:
"يجوز له أن يلمس بجميع بدنه حتى بذكره جميع بدنها إلا ما تحت الإزار فكذا هي لها أن تلمس بجميع بدنها إلا ما تحت الإزار جميع بدنه ‌حتى ‌ذكره."
(کتاب الحیض، ج:1، ص:293، ط:سعید)
مناسب یہ ہے کہ ہم بستری بھی بہتر طریقہ پر ہو، 
الله تعالی نے ہر چیز کو عمدہ طریقہ پر کرنا طے کردیا ہے(مسلم) 
لہذا بیوی سے کھیلتے وقت بھی اس کا لحاظ رکھیں ، بلند اخلاق کو یہاں بھی نہ بھولیں، کوئی ایسا طریقہ بھی نہ کیا جائے جس میں بیوی کو ہتک عزت محسوس ہو۔ اور ان لوگوں کی نقالی بھی نہ کیاجائے جن کی فطرت ہی پلٹ دی گئی ہے۔

*(۳۵)عورت کی شرم گاہ میں انگلی ڈالنا ، اس کی شرم گاہ کو ہاتھ سے سہلانا یا بظر سے کھیل کر عورت کو لذت دینا جائز ہے۔*
بالخصوص اس شخص کے لیے ایسا کرنا بہتر ہے جو سریع الانزال ہو،اور عورت کے انزال تک اس کا ٹھہرنا دشوار ہو۔
فتاوی میں ہے: بیوی کوشہوت دلانے اور اسے برانگیختہ کرنے کے لئے اس کی شرمگاہ میں انگلی داخل کرنے کی گنجائش ہے۔
اسی طرح اگر مرد انگلی کی جگہ کوئی جنسی کھلونا فرج خارج پر استعمال کرے تو اس کی بھی گنجائش ہوگی۔
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:
فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شوہر کا اپنی بیوی کی شرم گاہ کو چھونا جائز ہے: ایک مرتبہ حضرت امام ابویوسف نے ہمارے امام اعظم سے پوچھا :"کیا مرد عورت کی شرم گاہ کو اور عورت مرد کے عضو تناسل کو مس کرسکتی ہے ؟ تاکہ تحریک ہو، کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ تو امام صاحب نے جواب دیا : کوئی حرج نہیں ، میں امید کرتا ہوں کہ ان کو عظیم اجر دیا جائے گا۔"
امام مالک سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہمبستری کے وقت بیوی کی شرمگاہ کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں اور ایک روایت میں یہ زیادتی بھی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ زبان سے شرمگاہ کو چاٹے ۔ امام مالک کا یہ قول اباحت میں مبالغہ ہے جو کہ اپنے ظاہر پر نہیں۔
شافعیہ میں سے فنانی فرماتے ہیں: شوہر کیلئے بیوی سے ہر قسم کا تمتع جائز ہے سوائے اس کی دبر (موضع اجابت) سے ۔اگرچہ یہ تمتع عورت کی شرمگاہ کے چوسنے یا اس کے ہاتھ سے مشت زنی کرانے کی صورت میں ہو۔
(الاحکام المتعلقة بالفرج ج: 32 ص : 91 ط : وزارۃ الأوقاف و الشئون الإسلامیة )

*(۳۶)میاں بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو چومنا*
ويحرم عليهم الخبائث [الأعراف: ۱۵۷]
(وہ گندی چیزو ں کو حرام قرار دیں گے)
میاں بیوی کاایک دوسرے کی شرم گاہ کو منہ لگاناشرعی مزاج اور فطری حیا کے منافی اور ممنوع ہے۔
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
"بیشک شرم گاہ کاظاہری حصہ پاک ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرپاک چیزکومنہ لگایاجائے اورمنہ میں لیاجائے اورچاٹاجائے۔ناک کی رطوبت پاک ہے توکیاناک کے اندرونی حصے کوزبان لگانا،اس کی رطوبت کومنہ میں لیناپسندیدہ چیزہوسکتی ہے؟توکیااس کوچومنے کی اجازت ہوگی؟نہیں ہرگزنہیں،اسی طرح عورت کی شرمگاہ کوچومنے اورزبان لگانے کی اجازت نہیں،سخت مکروہ اورگناہ ہے،غورکیجئے!جس منہ سے پاک کلمہ پڑھاجاتاہے،قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے،درودشریف پڑھاجاتاہے اس کوایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کودل کیسے گواراکرسکتاہے؟"
[فتاویٰ رحیمیہ،10/178،ط:دارالاشاعت کراچی]
مرد کے لیے اپنے عضو مخصوص کو عورت کے منہ میں دینا اور عورت کا اپنے منہ میں لینا شرعاً مکروہ اور منع ہے، جس پاکیزہ زبان سے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے اسے ایسے کاموں میں استعمال کرنا مہذب انسان کا کام نہیں بلکہ یہ جانوروں کا فعل ہے، اس سے بچنا چاہئے، اور شرم گاہ سے نکلنے والی مذی یا ودی کو نگلنا ناپاک ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے۔
البتہ ہمبستری کے دوران اپنی بیوی کی ٹانگوں اور رانوں کو چوم اور چوس سکتے ہیں، نجاست کی جگہ سے منہ اور زبان کو پاکیزہ رکھا جائے گا۔
تاہم اگر کبھی جوش میں آکر کسی سے یہ فعل سرزد ہو جائے (اور منہ میں ناپاکی نہ جائے) تو امید ہے کہ گناہ نہیں ہوگا۔
المحیط البرہانی میں ہے:
"إذا أدخل الرجل ذكره فم أمرأته فقد قيل: يكره؛ لأنه موضع قراءة القرآن، فلا يليق به إدخال الذكر فيه، وقد قيل بخلافه"(۵/ص۴۸۰)
 [از دار الافتاء بنوری]
*(۳۷)دبر (پچھلی راہ میں دخول کرنا یا صرف ذکر رگرنا*
 اپنی بیوی کے دبر یعنی پچھلے حصہ میں دخول کرنے کے متعلق قرآن کریم میں اشارۃ اور احادیث میں صراحۃ ممانعت منقول ہے۔ قران کی آیت " نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ﴿البقرة: ٢٢٣﴾(تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ،سو جاؤ اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو)"، یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ بیوی کی اس جانب دخول کیا جائے جو مقام کھیتی کا مقام ہے اور وہ آگے کی جانب ہے نہ کہ پچھلی جانب ۔ اس آیت کی یہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ سےمنقول ہے، لہذا پچھلے راستہ سے دخول کرنے کی حرمت قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے، احادیثِ مبارکہ میں صراحت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی حق بیان کرنے سے نہیں شرماتا ، تم اپنی بیویوں کی پچھلی جانب میں دخول مت کرو (سنن الترمذی)۔

بیوی کی پچھلی راہ پر ذکر رگڑنا یا انگلی داخل کرنا بھی ایک بُری حرکت ہے،جان کر اس طرح کے غیر فطری عمل سے اجتناب کرنا چاہیے، غلبہ شہوت میں اس طرح کی حرکت سے لواطت جیسی بدفعلی کے گناہ کبیرہ کے سرزرد ہونے کا قوی اندیشہ ہے،اللہ تعالیٰ نےمیاں بیوی کو عقد نکاح کی وجہ سے ایک دوسرے سے استمتاع اور فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ہے،اس کے لیے فطری طریقہ کے مطابق ہی ہمبستر ہونا چاہیے،خلاف فطرت طریقہ سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔(دار الافتاء بنوریہ)
*(۳۸)جماعکےںذریعہ باہم فخر کرنا*
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جماع کے ذریعہ سے ایک دوسرے پر فخر کرنا حرام ہے۔(سنن کبری: ۱۴۰۹۹)

*(۳۹)مرد یا عورت کا ہم بستری کے باتیں دوستوں میں بیان کرنا*
بستر کی باتیں اپنے دوستوں میں فخر و مباہات کے لیے یا چٹکلوں کے طور پر بیان کرنا جائز نہیں ہے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: روزِ قیامت اللہ تعالی کے ہاں بد ترین مقام اس شخص کا ہو گا جو اپنی بیوی کے پاس خلوت اختیار کرے اور بیوی اپنے خاوند کے ساتھ خلوت اپنائے اور پھر وہ شخص بیوی کے راز افشا کر دے ۔ (مسلم :۱۴۳۷)

*(۴۰)جماع کرنے کا علم حاصل کرنا*
بھلے اور مہذب، جائز اور مباح طریقے سے سیکھنا چاہیے
مفاتیح شرح المصابیح میں ہے :
"وقال: "طلب العلم فريضة على كل مسلم"، رواه أنس رضي الله عنه.
قوله: "طلب العلم فريضة" واعلم أن المراد بالعلم الذي هو فريضة على كل مسلم: العلم الذي طلبه فرض عين لا فرض كفاية، وذلك مختلف باختلاف الأشخاص..... وكذلك من يعمل عملا يجب عليه تعلم علم ذلك العمل."
مرقاۃ المفاتیح میں ہے :
كتاب العلم ، 318/1، دار النوادر )
وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( «طلب العلم فريضة على كل مسلم،
وقيل: علم البيع والشراء والنكاح إذا أراد الدخول في شيء منها."
كتاب العلم ، 301/1 ، دارالفكر )
محمد یحیی بن عبدالحفیظ
( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/12/blog-post_11.html