Saturday, 30 November 2024

حضرت زینب رضی اللہ عنہا

حضرت ابوالعاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بعثت سے پہلے پہنچے اور عرض کیا: "میں آپ کی بڑی بیٹی زینب سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔"
     (ادب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں ایسا نہیں کروں گا جب تک اس سے اجازت نہ لے لوں۔"
     (شرع)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمایا: "تمہارے خالہ زاد بھائی تم سے نکاح کا  کہتے ہیں، کیا تم اسے اپنے لئے پسند کرتی ہو؟"
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا چہرہ سرخ ہوگیا اور وہ مسکرا دیں۔
   (حیا)

حضرت زینب کی ابوالعاص بن ربیع سے شادی ہوئی، جس سے ایک محبت بھری کہانی کا آغاز ہوا، اور انہوں نے علی اور امامہ کو جنم دیا۔
   (خوشی)

پھر ایک بڑی دشواری پیدا ہوئی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی، اور ابوالعاص سفر پر تھے۔ جب وہ واپس آئے تو معلوم ہوا کہ ان کی بیوی مسلمان ہوچکی ہیں۔
   (عقیدہ)

زینب نے انہیں اپنے اسلام کی خوشخبری سنائی، توابوالعاص ان سے دور ہٹ گئے۔
   (احترام)

زینب حیران ہوئیں اور ان کے پیچھے گئیں۔ انہوں نے کہا: "میرے والد نبی بن گئے ہیں، اور میں مسلمان ہوگئی ہوں۔"
ابوالعاص نے کہا: "کیا آپ نے مجھے پہلے بتایا یا مجھ سے اجازت لی؟"
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: "میں اپنے والد کو جھوٹا نہیں کہہ سکتی، وہ صادق اور امین ہیں۔ اور میں اکیلی نہیں ہوں؛ میری ماں، میرے بھائی، میرے چچازاد بھائی علی بن ابی طالب، تمہارے چچا زاد بھائی عثمان بن عفان، اور تمہارے دوست ابوبکر صدیق (رضوان اللہ علیہم اجمعین) بھی مسلمان ہوچکے ہیں۔"
ابوالعاص نے کہا: "میں نہیں چاہتا کہ لوگ کہیں کہ اس نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور اپنے آباؤ اجداد سے بے وفائی کی صرف اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لئے۔ اور تمہارے والد پر الزام لگانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا تم میری بات سمجھ سکتی ہو؟"
    (تعمیری مکالمہ)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: "اگر میں  نہ سمجھوں گی، تو کون سمجھے گا؟ لیکن میں تمہاری بیوی ہوں، اور تمہیں حق پر آنے میں مدد دوں گی جب تک تم اس کے لئے تیار نہ ہوجاؤ۔"
  (سمجھداری اور برداشت)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے وعدے کو بیس سال نبھایا۔
    (اللہ کے لئے صبر)

ابوالعاص اپنی کفر کی حالت پر قائم رہے، پھر ہجرت کا وقت آیا۔
 حضرت زینب رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور پوچھا: "کیا آپ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دیتے ہیں؟"
   (محبت)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔
   (رحمت)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا مکہ میں رہیں، یہاں تک کہ غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ ابوالعاص قریش کے لشکر کے ساتھ جنگ کے لئے نکلے، اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا دعا کرتی رہیں:
"یا اللہ! میں ڈرتی ہوں کہ ایسا دن نہ آئے جس میں میرے بچے یتیم ہوجائیں یا میں اپنے والد کو کھو دوں۔"
   (حیرت اور دعا)

ابوالعاص غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور قید ہوگئے۔ جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو انہوں نے پوچھا: "میرے والد نے کیا کیا؟"
انہیں بتایا گیا: "مسلمان جیت گئے۔"
انہوں نے شکرانے کے طور پر سجدہ کیا۔

پھر انہوں نے پوچھا: "میرے شوہر کا کیا ہوا؟"
جواب ملا: "انہیں قیدی بنالیا گیا۔"
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: "میں اپنے شوہر کی رہائی کے لئے فدیہ بھیجوں گی۔"
   (عقل مندی)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس قیمتی چیز کچھ نہ تھی، 
 تو انہوں نے اپنی ماں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وہ ہار نکالا جو وہ ہمیشہ پہنتی تھیں، اور اسے ابوالعاص کے بھائی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ وصول کرتے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہار دیکھا تو رو پڑے اور پوچھا: "یہ ہار کس کا فدیہ ہے؟"
جواب دیا گیا: "یہ ابوالعاص بن ربیع کا ہے۔"
     (وفا)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ شخص دامادی کے رشتے میں کبھی برا نہیں نکلا۔ کیا تم اسے آزاد  کردوگے بلافدیہ؟ اور زینب کو ان کا ہار واپس کردو۔"
  (انصاف اور تواضع)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا: "ہاں، یا رسول اللہ۔"
   (صحابہ کا ادب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالعاص کو ہار لوٹا دیا اور فرمایا: "اپنی بیوی کو کہنا، خدیجہ کے ہار کی حفاظت کرے۔"
   (اعتماد ان کے اخلاق پر باوجود کے وہ حالت کفر میں ہیں)

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالعاص سے کہا: "کیا تم زینب کو میرے پاس واپس بھیج سکتے ہو؟"
ابو العاص نے کہا: "ہاں۔"
    (مردانگی)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا ابوالعاص کو مکہ کے دروازے پر خوش آمدید  کرنے آئیں، جہاں انہوں نے کہا: "میں جارہا ہوں، لیکن تمہیں اپنے والد کے پاس جانا ہوگا۔"
   (وعدہ نبھانا)

حضرے زینب رضی اللہ عنہا نے کہا کیا آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں گے؟
کہا: "نہیں۔"
سو وہ خاموشی سے بیٹے اور بیٹی کو لے کر مدینۃ منورہ آگئیں
(فرمانبرداری)

چھ سال تک حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے رشتے آتے رہے لیکن انہوں  نے ہر رشتے کے لئے انکار کیا، ابوالعاص کے لوٹنے کی امید پر۔
    (وفاداری)

چھ سال بعد ابوالعاص قافلے کے ساتھ شام جارہے تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قافلہ قبضے میں لے لیا، لیکن ابوالعاص نکلنے میں کامیاب ہوگئے، اور ابوالعاص رات کے وقت زینب کے دروازے پر پہنچے۔ دروازے بجایا:
    (اعتماد)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے پوچھا: "کیا تم مسلمان ہوگئے؟"
    (امید)

انہوں نے کہا: "نہیں، میں بھاگ کر آیا ہوں۔"
حثرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: "کیا تم اسلام قبول کرلوگے؟"
(اصرار اور وعدہ)

ابوالعاص نے جواب دیا: "نہیں۔"
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: "فکر نہ کرو، خالہ زاد بھائی کے بیٹے، اور علی و امامہ کے والد، خوش آمدید۔"
    (فضل اور عدل)

فجر کی نماز کے بعد، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا  کہ مسجد کے آخر سے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی آواز آرہی ہے: "میں نے ابوالعاص بن ربیع کو پناہ دی ہے۔"
   (شجاعت)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: "کیا تم نے وہ سنا جو میں نے سنا؟"
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا: "جی، یا رسول اللہ۔"

حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: "یا رسول اللہ، اگر ابوالعاص سے دور کا رشتہ شمار کروں تو وہ خالہ زاد ہیں، اور اگر قریبی رشتہ ہو تو میرے بچوں کے والد ہیں۔ میں نے انہیں پناہ دی ہے۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "یہ شخص سسرالی رشتے میں برا نہیں نکلا، وعدہ کرتا تھا تو پورا کرتا تھا، اور بات کرتا تھا تو سچ کہتا تھا۔ اگر تم اس کے مال کو واپس کردو اور اسے چھوڑدو تو یہ مجھے پسند ہے، لیکن فیصلہ تمہارا ہے، اور تمہارے حق میں ہے۔"
(مشورہ)

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا: "ہم اس کا مال واپس کریں گے، یا رسول اللہ۔"
    (صحابہ کا ادب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب سے کہا: "اپنے خالہ زاد بھائی کی مہمان نوازی کرنا، لیکن یاد رکھو، ان کی قربت تمہارے لئے حلال نہیں۔"
   (رحمت اور شریعت)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: "جی، یا رسول اللہ۔"
  (اطاعت)

زینب نے ابوالعاص کو خوش آمدید کہا اور کہا: "کیا تمہارے لئے  ہم سے جدا رہنا آسان ہے؟ کیا تم اسلام قبول کرکے ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے؟"
   (محبت اور امید)

ابوالعاص نے جواب دیا: "نہیں۔"
انہوں نے اپنا مال لیا اور مکہ واپس چلے گئے۔
مکہ پہنچ کر، ابوالعاص نے لوگوں سے کہا: "یہ لو اپنا مال، کیا کسی کا کچھ باقی رہ گیا ہے؟"
     (امانت داری)

لوگوں نے کہا: "نہیں، تم نے بہترین وفا کی ہے۔ تمہیں اس کا بہترین بدلہ ملے!"
   (فطرت)

پھر ابوالعاص نے کہا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔"
      (ہدایت اور نعمت)

حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ فوراً مدینہ روانہ ہوئے اور فجر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا: "یا رسول اللہ، آپ نے مجھے کل پناہ دی تھی، آج میں ایمان لے کر آیا ہوں۔"
(خوبصورتی سے ہدایت دینا)

پھر حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں زینب کے پاس جاؤں؟
(محبت اور ازدواجی تعلقات)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی العاص کو ساتھ لیا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا دروازه کھٹکھٹایا، اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا باہر آئیں تو ان سے کہا: تمہارے خالہ زاد بھائی تمہاری طرف لوٹنا چاہتے ہیں، کیا تم انہیں قبول کرتی ہو؟
(والد اور کفیل)

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا چہرہ سرخ ہوگیا اور وہ مسکرادیں۔
(رضامندی)

اس واقعے کے سال بعد زینب کا انتقال ہوگیا، حضرت ابوالعاص بہت شدت سے روئے یہاں تک کہ لوگوں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے آنسو صاف کررہے ہیں اور تسلی دے رہے ہیں۔
حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ زینب کے بعد میرے لئے اس دنیا میں کوئی رغبت نہیں۔
(رفیقہ حیات کی محبت )

اس حادثہ کے سال بعد حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ بھی انتقال کرگئے.
(پاکیزہ روحوں کا ملن)
اگر آپ یہ قصہ مکمل کرچکے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل و اصحاب پر درود و سلام بھیجیں۔ (منقول) ( #ایس_اے_ساگر )

No comments:

Post a Comment