حافظ
شیرازی رحمۃ اللہ علیہ جن کی تدفین پر تنازع ہوا مگر ان کے کلام سے آج بھی فال نکالی جاتی ہے
انڈیا کی معروف فلم ’مغل اعظم‘ کی قوالی ’تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے‘ سے پہلے کا منظر شاید آپ کو یاد نہ ہو جس میں اداکارہ مدھو بالا یعنی انار کلی اپنی بہن کے ساتھ ایک کتاب سے فال نکالتی نظر آتی ہیں۔
اُن کے فال کے طور پر کتاب میں یہ شعر سامنے آتا ہے:
دل می رود ز دستم صاحب دلاں خدارا
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا
اس شعر سے پوشیدہ راز کے آشکار ہونے کی جانب اشارہ ملتا ہے اور پھر پوری فلم گویا سلیم اور انار کلی کی محبت کے راز کھلنے کی تعبیر ہے۔
یہ شعر 14ویں صدی کے معروف فارسی شاعر شمس الدین محمد حافظ شیرازی (1315-1390) کا ہے جنھیں ایمرسن جیسے انگریزی کے معروف شاعر نے ’شاعروں کا شاعر‘ قرار دیا تو جرمنی زبان کے شاعر اور فلسفی گوئٹے نے ’لاثانی‘ کہہ کر پکارا۔ گوئٹے تو حافظ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے 200 غزلیں کہہ ڈالیں جسے ’ویسٹ ایسٹرن دیوان‘ کہا جاتا ہے۔ مغرب میں شاید یہ حافظ کا سب سے بڑا تعارف تھا۔
اسی طرح فارسی ادب کو انگریزی میں مقبول بنانے والے ایڈورڈ فٹزجیرالڈ نے حافظ کو ’الفاظ کا بہترین موسیقار‘ کہا ہے۔
ان کے کلام کو پسند کرنے والوں میں اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے والوں میں جہاں ایک جانب مغل سلاطین، ملکہ وکٹوریا اور ملکہ الزبتھ وغیرہ کا ایک سلسلہ ہے وہیں معروف فلسفی نطشے اور شرلاک ہومز کا کردار تخلیق کرنے والے جاسوسی ناول نگار سر آرتھر کانن ڈائل بھی اُن کے معترف نظر آتے ہیں۔
خود فارسی زبان میں ایک قطعہ ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہرچند کہ اب پیغمبر نہیں آئیں گے لیکن شاعری کے تین پیغمبر ہیں، ابیات کے فردوسی ہیں، قصیدے کے انوری ہیں اور غزل کے سعدی ہیں تو کسی نے پوچھا کہ تو پھر حافظ کو کہاں رکھیں گے تو جواب دینے والے نے کہا وہ تو ’خدائے سخن‘ ہیں۔
حالات زندگی
حافظ کے حالات زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، یہاں تک کہ قطیعت کے ساتھ اُن کی پیدائش کا سال بھی نہیں بتایا جا سکتا لیکن جو کوائف ملتے ہیں ان سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ شیراز میں پیدا ہوئے تھے اور کمسنی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔
وہ اپنی والدہ کے ساتھ شیراز میں ہی رہے جبکہ ان کے بھائیوں نے دوسرے مقامات کی راہ لی۔
فارسی شاعری کی تاریخ کی کتاب ’صنادید عجم‘ میں مذکور ہے کہ حافظ کے گھر میں جب فاقے کی نوبت آئی تو وہ خمیر گیری کا کام کرنے لگے اور اِسی افلاس کے عالم میں انھوں قرآن مجید حفظ کیا جس کی وجہ سے وہ ’حافظ‘ کہلوائے۔
ایک جگہ ذکر ہے کہ وہ انتہائی خوش الحان یعنی خوش آواز تھے اور قرآن کی تلاوت مختلف انداز (13 طرح سے) میں کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے لوگ ان کے بہت گرویدہ بھی تھے۔
چنانچہ اُن کے شاعری میں بھی اچھے انداز میں پڑھنے کی بات آئی ہے۔ ایک غزل کے مقطع میں وہ کہتے ہیں۔
غزل گفتی و در سفتی، بیا و خوش بخواں حافظ
کہ بر نظم تو افشاند فلک عقد ثریا را
(یعنی تو نے غزل کیا کہی، تو نے تو موتی پرو دیے، اے حافظ آ اور اچھی آواز میں پڑھ کہ تیری نظم پر فلک ثریا کا ہار نچھاور ہے)
حافظ کے شاعر بننے کی کہانی
یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ حافظ کے بعد ایران اور جہاں جہاں فارسی زبان کے اثرات تھے وہاں حافظ کے اثرات سب سے زیادہ نظر آنے لگے۔ لیکن حافظ کے شاعر بننے کے حوالے سے مختلف کہانیاں گردش کرتی ہیں۔
مہدی حسین ناصری نے اپنی تصنیف ’صنادید عجم‘ میں لکھا ہے کہ ’محلے میں ایک بزاز رہتا تھا۔ وہاں شاعری کا چرچا تھا۔ حافظ کو بھی یہ صحبت پسند آئی اور خود بھی نظم کرنے لگے مگر بے تکے اشعار۔۔۔ جن کی وجہ سے خوب بنائے جاتے تھے۔ ایک دن اتنا بنائے گئے کہ دل ٹوٹ گیا۔‘
’بابا کوہی (ایک شاعر) کے مزار پر رات بھر رویا کیے کہ یا تو شعر کہنا آ جائے یا موت آ جائے۔ آخر آنکھ لگ گئی۔ خواب میں امیرالمومنین (حضرت علی) کی زیارت ہوئی جنھوں نے بشارت دی کہ مایوس نہ ہو تجھ پر علوم کے دروازے کھل گئے۔ صبح اٹھے تو جو غزل کہی اسے جب مجمعے میں پڑھا تو لوگ حیرت میں پڑ گئے اور سمجھے کہ کسی سے کہلوائی ہے۔ لیکن امتحاناً جو طرح دی گئی اس میں بھی عمدہ شعر کہے تو اُن کا شہرہ ہو گیا اور سلاطین وقت کا تقرب نصیب ہوا۔‘
ایک اور جگہ لکھا ہے کہ انھوں نے ایک بزرگ کے مزار پر چلہ کشی کی جس کے نتیجے میں ان کے اشعار میں گہرائی پیدا ہوئی یہاں تک کہ انھیں ’لسان الغیب‘ یعنی غیبی زبان جس میں غیب کا علم پوشیدہ ہو کہا جانے لگا۔ کسی نے لکھا ہے کہ انھیں چالیس سال کی عمر میں عرفان حاصل ہوا اس کے بعد ہی ان کی شاعری میں وہ بات پیدا ہوئی جس کے لیے وہ آج جانے جاتے ہیں۔
حافظ اور امیر تیمور
کئی روایتوں میں آیا ہے کہ جہاں حافظ کو ان کے اشعار کی وجہ سے مذہبی حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا تھا وہیں انھیں ان کے مشہور ترین اشعار میں سے ایک کے لیے بادشاہ وقت امیر تیمور کے سامنے حاضر ہونا پڑا۔
ان کا یہ شعر شاید آپ نے سنا ہو؟
اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را
یعنی اگر وہ شیرازی ترک میرے دل کو اپنے ہاتھ میں لیتی ہے یعنی میری محبت کو قبول کرتی ہے تو اس کے گال کے کالے تل پر میں سمرقند اور بخارا کو نچھاور کر دوں۔
اس وقت سمرقند سلطنت تیموریہ کا دارالحکومت تھا اور بخارا ایک بہت ہی پھلتا پھولتا شہر تھا جو سلطنت تیمور کے زیر نگیں تھا۔
کے این پنڈت نے ’حافظ شیرازی کی شاعری‘ نامی اپنی کتاب میں درج کیا ہے کہ ’دولت شاہ سمرقندی نے لکھا ہے کہ 795 ہجری میں تیمور نے شیراز کو فتح کر کے شاہ منصور کا خاتمہ کیا اور پھر حافظ کو بلا کر پوچھا کہ میں نے ہزاروں شہروں کو ویران کیا تاکہ اپنی زادگاہ اور اپنے وطن سمرقند و بخارا کو آباد کروں اور تم ایک خال سیاہ کے عوض انھیں بخش دو گے؟‘
اس کے جواب میں حافظ نے کورنش بجا لا کر کہا: ’بادشاہ سلامت انھی بخششوں کا نتیجہ ہے کہ اس حال میں پڑا ہوں۔‘
تیمور ان کے اس لطیفے سے خوش ہوا اور انھیں انعام و اکرام سے نوازا۔ بہرحال بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے درمیان کوئی ملاقات نہ ہوئی تھی اور اگر ہوئی تھی تو یہ سال کوئی اور رہا ہو.
حافظ اور ہندوستان
انڈیا کے عظیم شاعر امیر خسرو کی طرح حافظ نے بھی کئی سلاطین کا دور دیکھا۔ ان کا زمانہ بہت پُرسکون زمانہ نہیں تھا۔
تاریخ میں آتا ہے کہ جب منصور تیمور کے ہاتھوں مارا گیا تو بغداد سے سلطان احمد بن اویس نے حافظ کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا جانے کا ارادہ بھی تھا لیکن نہ جا سکے اور ان کے لیے ایک غزل کہہ کر بھیج دی۔
اس کے بعد انھیں دکن (ہندوستان کی بہمنی سلطنت) سے محمود شاہ بہمنی نے طلب کیا اور زاد راہ بھی بھیجا۔ حافظ شیرازی سفر کے ارادے سے نکل بھی پڑے۔ لیکن راہ میں لٹ گئے یہاں تک کہ دو تاجروں نے ان کی کفالت کی اور ہرمز کے ساحل تک لا کر جہاز میں بٹھا دیا لیکن طوفان آ گیا اور ان کا دل بیٹھ گیا۔
چنانچہ انھوں نے میر فضل اللہ کو، جس کے توسط سے شاہ محمود نے انھیں دعوت دی تھی، انھیں ایک غزل حوالے کر کے شیراز کو واپسی کی۔
ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو روانہ کیا جو دکن پہنچا اور برہان پور میں ان کا مزار بھی ہے۔ ان کا انتقال حافظ کے زندہ رہتے ہی ہو گیا تھا جس کا ذکر ان کے ایک شعر میں ملتا ہے۔
اسی طرح حاکم بنگال سلطان غیاث الدین نے بھی انھیں بلا بھیجا لیکن وہاں نہ گئے۔ ایک قصہ یہ بھی مشہور ہے کہ سلطان غیاث کی تین کنیزیں تھیں سرو، گل اور لالہ۔ بادشاہ بیمار ہوئے تو تینوں ان کی خدمت کرتی رہیں لیکن جب غسل صحت کا وقت آیا تو تینوں میں تکرار ہونے لگی کہ کون غسل صحت دے اور پھر طے ہوا کہ تینوں ہی مل کر غسل دیں۔
اس وقت بادشاہ نے ایک مصرعہ کہا
ساقی حدیث سرو و گل و لالہ می رود
اور حافظ کے پاس بھیجا کہ اس پر غزل کہہ کر بھیج دیں۔ اس پر انھوں نے جو غزل کہی اس میں انھوں نے اپنے شعر کو قند پارسی کہا اور اسے بنگال روانہ کیے جانے کی بات کہی ہے۔ اور اس کا دوسرا مصرعہ اس طرح کہا ہے:
دی بحث با ثلاثۂ غسالہ می رود
کئی ناقدین کا کہنا ہے حافظ نے امیر خسرو کو طوطی ہند کے لقب سے یاد کیا ہے اور اس کے لیے حافظ کی اس غزل کا ایک شعر نقل کرتے ہیں۔
حافظ کی شاعری میں شراب
حافظ کی شاعری میں شراب اور رندی و مستی کا جس طرح تذکرہ ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے زمانے میں انھیں اس کی وجہ سے لعنت و ملامت کا بھی سامنا رہا لیکن بعد میں لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ ان کے تصوف کی شان ہے جس میں سارا زور عشق حقیقی کی طرف جاتا ہے اور یہ شراب کی مستی در اصل روحانی ہے۔
ممبئی یونیورسٹی کی سابق پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب تک دنیا میں عشق کا جذبہ قائم ہے حافظ کی شاعری لوگوں کے لیے حسب حال رہے گی۔
انھوں نے کہا کہ حافظ کا اردو شاعروں پر جتنا اثر نظر آتا ہے کسی اور شاعر کا نہیں ہے۔ انھوں نے حال ہی حافظ کی بہت سی غزلوں کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔
ان کے خیال سے حافظ کے ہاں جو شراب کا ذکر ہے وہ روحانی شراب ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے اشعار کی کئی جہتیں اور پرتیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بادہ مستوں کے ذوق کی بھی آبیاری ہوتی ہے اور روحانی سرمستی کے متلاشیوں کی پیاس بجھتی ہے۔
قاضی سجاد حسین کے ترجمہ والے دیوان حافظ کے دیباچے میں کوثر چاندپوری لکھتے ہیں حافظ پر بہت ساری کتابیں جن میں سارا زور اس بات پر صرف کیا گیا ہے کہ حافظ لسان الغیب ہیں، ان کے اشعار میں ایک ایسا خدائی جذبہ موجود ہے جو آئندہ واقعات کی خبر دیتا ہے۔ ان کی شراب معرفت کی شراب ہے، اسی طرح ان کا محبوب بھی اس دنیا کا باشندہ نہیں ہے۔
انھوں نے علامہ شبلی نعمانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’حافظ پر رندی و سرمستی کا جذبہ غالب تھا جس کو وہ نہایت جوش و خروش سے ظاہر کرتے تھے لیکن ان کے شاہد و شراب کے متعلق وہ بھی کوئی واضح فیصلہ صادر نہیں کرتے۔ وہ ان کی مستی پر ہی اظہار خیال کی بنیاد رکھتے ہیں جو شراب معرفت اور شراب انگور دونوں سے پیدا ہو سکتی ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’یہ ماننا پڑے گا کہ حافظ کے ان اشعار میں جو عہد شباب کی یادگار ہیں ایسی سرخوشی اور سرشاری ملتی ہے جو اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب شاعر عملی طور پر ان کیفیات سے گزر رہا ہو۔‘
حافظ کے محبوب کے بارے میں وہ لکتھے ہیں کہ ’حسن کی جو خصوصیات ان کے یہاں ملتی ہے وہ ماورائی حسن سے زیادہ اس جہان آب و گل کے جمال و رعنائی کی تصویر کشی کرتی ہے۔‘
حافظ پر کئی کتابوں کے مصنف اور شاعر ڈینیل لیڈنسکی لکھتے ہیں: ’مجھے لگتا ہے کہ حافظ ’روشنی کی افادیت‘ یا ’سورج‘ کو بیان کرنے والے ایک نادر ماہر ہے۔ وہ ’فن کی افادیت‘ کے بھی ماہر ہیں۔ ان کی شاعری ضرورت مندوں کو راحت بخشنے، جلا بخشنے اور مالا مال کرنے صلاحیتوں سے معمور ہے۔ فن کو عاشق ہونا چاہیے۔ اسے شعاع ریز ہونا چاہیے اور جب آپ سردی محسوس کریں تو یہ آپ کے قلب کو گرما دے۔‘
’فن اندرونی پیاس اور بھوک کو بجھا سکتا ہے۔ اور رومی، مائیکل اینجلو، سینٹ فرانسس، کبیر، میرا اور حافظ اور کئی دوسرے عظیم شاعر مشرق اور مغرب کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اور ان کی شاعری پر کام کرتے ہوئے، میں نے سیکھا کہ ان میں ایک شاندار قدر مشترک ہے۔‘
حافظ کے کلام سے فال نکالنا
حافظ کے کلام کو ہر دور میں رہنمائی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی ایسے لوگ ہیں جو کسی مسئلے کے حل کے لیے اس سے رجوع کرتے ہیں۔
دیوان حافظ میں مولانا محمد میں قمر دہلوی نے لکھا ہے کہ حافظ کے تذکرہ نگاروں نے ایسے سینکڑوں واقعات نقل کیے ہیں جن سے فال نکالنے والوں کو حافظ کے کلام سے حیران کر دینے والے اشارے ملے ہیں۔ ایسے ہی چند حیرت انگیز واقعات کا انھوں نے ذکر بھی کیا ہے۔
اس ضمن میں انھوں نے مغل بادشاہ ہمایوں اور جہانگیر کے فال نکالنے کی حکایت بھی لکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’ہمایوں بادشاہ نے جب ایرانی فوج لے کر ہندوستان پر حملے کا ارادہ کیا تو دیوان حافظ سے فال نکالی جس میں وہ شعر سامنے آيا جس میں حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کا ذکر تھا۔ اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اس حملے کے بعد ہمایوں بھی اپنے تمام بھائیوں کو شکست دے کر ہندوستان کا بادشاہ بنا تھا۔‘
اسی طرح جہانگیر جب بنگال کی مہم پر جا رہا تھا تو اس نے دیوان حافظ سے فال نکالی تو جو شعر سامنے آیا اس میں پیشانی پر تیر لگنے کی بات تھی اور اس مہم میں ان کے مقابل عثمان کی پیشانی پر تیر لگا تھا اور اس کی موت واقع ہو گئی تھی اور جہانگیر کو بنگال پر فتح نصیب ہوئی۔
اسی طرح حافظ کی موت کے وقت ہونے والے ہنگامے کو بھی ان کے دیوان کے ایک شعر سے حل کیا گیا تھا۔
حافظ کے انتقال کے بعد ان کے مخالفین نے ان کی ظاہری حالت اور آزاد خیال ہونے کی وجہ سے شور و غوغا کیا اور نماز جنازہ اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفنائے جانے کی مخالفت کی چنانچہ اسلامی عقائد کے سلسلے میں ان کے کلام کا بھی ذکر آیا۔
جنھیں عذر تھا انھوں نے زور دیا کہ وہ حافظ کے دیوان سے اکثر ایسے شعر دکھا سکتے ہیں جو ملحدانہ ہیں اور اس کے ثبوت میں دیوان طلب کیا گیا اور کھولتے ہی جو شعر سب سے پہلے سامنے آيا اس نے تمام بحث کا خاتمہ کر دیا۔ وہ شعر یہ تھا:
قدم دریغ مدار از جنازۂ حافظ
کہ گرچہ غرق گناہست میرود ب بہشت
یعنی حافظ کے جنازے سے گریز مت کر کیونکہ اگرچہ وہ گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے لیکن وہ بہشت میں گیا ہے۔
اس کے بعد نماز جنازہ خاموشی سے ادا کی گئی اور جو حافظ چند منٹ قبل بے دین اور ملحد ثابت کیے جاتے تھے لسان الغیب قرار پائے۔
حافظ کے اشعار میں کئی جگہ خاک مصلی کا ذکر ہے جو ان کو بہت محبوب تھی اور وہ اسی خاک مصلی میں دفن ہوئے اور ان کی تاریخ وفات بھی اسی خاک مصلی سے نکلتی ہے۔ رجب کے مہینے میں ان کا انتقال ہوا اور اسی نسبت سے اس ماہ ان کی قبر پر عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا ہے۔
ابھی چند دن قبل ہی رجب ماہ کا چاند نظر آیا ہے اور ان کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
بدہ ساقی مئے باقی، کہ در جنت نہ خواہی یافت
No comments:
Post a Comment