Thursday 26 January 2023

نفسانی خواہشات سے نجات کے ذرائع کیا ہیں؟

نفسانی خواہشات  سے نجات کے ذرائع کیا ہیں؟
(تألیف: امام ابن القیم رحمہ)
نفسانی خواہشات کی پیروی دنیا وآخرت کی بہت ساری بلاؤں کا سبب ہے اور اس کی مخالفت بہت ساری بھلائیوں کا ضامن۔ ایسے لوگ جو نفسانی خواہشات کے جال میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس سے آزادی بڑی مشکل ہوتی ہے لیکن اللہ کی توفیق پھر بندہ کی ہمت وعزیمت سے ہرکام آسان ہوجاتا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے افادات علمیہ میں سے ایک کاوش خواہشات کے دام فریب میں گرفتار لوگوں کے لئے علامہ کا نام لے لینا ہی کسی تحریر کی قیمت وافادیت بتلانے کے لئے کافی ہے۔ (ترجمہ: عبدالہادی عبدالخالق مدنی)
 خواہش کا مفہوم:
            اپنی طبیعت اور مزاج کے موافق کسی چیزکی طرف میلان کا نام خواہش ہے۔ انسانی بقا کے پیش نظر انسان کے اندر اس میلان اورخواہش کی تخلیق کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر انسان کے اندر کھانے پینے اور نکاح کرنے کامیلان نہ ہو تو کھانے پینے اور نکاح سے رک جانے کی وجہ سے ہلاک ہوجائے۔
            خواہش انسان کو اپنا مقصد ومراد حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہے جیسا کہ غصہ وغضب انسان سے اذیت رساں چیزوں کو دفع کرتا ہےلہذا خواہش نہ ہی مطلقاً قابل مذمت ہے اور نہ ہی مطلقاً قابل تعریف۔ جیسا کہ غضب ہے کہ نہ وہ مطلقاً مذموم ہے اور نہ ہی مطلقاً محمود۔بلکہ خواہش یا غضب دونوں کیبرائی میں قدرے تفصیل ہے۔ وقت، حالات اور مواقع کے لحاظ سے کبھی یہ بہتر ہوتے ہیں اور کبھی بدتر۔
خواہش کی مذمت کیوں؟
            چونکہ بیشتر خواہشات کے پیچھے چلنےوالے، شہوات کا اتباع کرنے والے، غضب پرست لوگ نفع بخش حد پر نہیں رکتے، اس لئےعمومی غلبۂ ضرر کو دیکھتے ہوئے خواہش، شہوت اور غضب کی مذمت مطلقاً کردی جاتی ہےکیونکہ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان قوتوں میں عدل کرسکتے ہوں اور حدود پر ٹھہرجاتےہوں۔ جیسا کہ مزاجوں میں ہوتا ہے کہ ہر طرح سے معتدل مزاج انسان کم یاب ہوتے ہیں،کسی نہ کسی خلط اور کیفیت کا غلبہ ضرور ہوتا ہے۔لہذا ایک ناصح کو شہوت وغضب کی قوتوں کو اعتدال پر لانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔
             چونکہ خواہش میں اعتدال افراد عالم کی اکثریت کےلئے نہایت ہی دشوار ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جب جب خواہش کا ذکرکیا تو اس کی مذمت فرمائی اور حدیث نبوی میں بھی اس کی مذمت ہی آئی ہے البتہ جب کوئی قید اور تخصیص ہو تو معاملہ مختلف ہوجاتاہے جیسا کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
 ''تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں''۔  (شرح السنة)
 یہ مقولہ مشہور ہے کہ خواہش غیرمحفوظ جائے پناہ ہے۔ 
            امام شعبی فرماتے ہیں کہ خواہش، خواہش پرست کو پستی میں گرادیتی ہے۔ انجام کی فکر کے بغیر وقتی لذت کی طرف بلاتی اورفوری طور پر شہوت پوری کرنے کے لئے آمادہ کرتی ہے خواہ اس کی بنا پر دنیا وآخرت میں عظیم آلام ومصائب کا سامنا کرنا پڑے۔ 
            واضح رہے کہ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی ہر عمل کا ایک انجام ہوتا ہے لیکن خواہش انسان کی عاقبت اندیشی ختم کرکے اسے انجام کے دیکھنے سے اندھا کردیتی ہے۔ جبکہ عقل اور دین ومروت انسان کو ہر ایسی لذت وشہوت سے روکتے ہیں جن کا انجام ندامت وشرمندگی اور درد والم ہو۔ نفس جب ان لذتوں اور شہوتوں کی طرف بڑھتا ہے تو دین وعقل ومروت میں سے ہر ایک اس سے مخاطب ہوکےکہتے ہیں کہ ایسا نہ کر۔ لیکن اطاعت اسی کی ہوتی ہے جو غالب ہو۔ 
            آپ دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے. خواہ اس کے نتیجے میں بربادی ہاتھ آئے کیونکہ وہ عقل کا کچا ہوتاہے۔ایک بے دین آدمی اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کا نتیجہ آخرت کی تباہی ہو کیونکہ وہ دین کا کچا ہوتا ہے اور ایک بے مروت انسان اپنی خواہش کو ترجیح دیتاہے خواہ اس کی مروت داغدار یا ختم ہوجائے کیونکہ وہ مروت کا کچا ہوتا ہے۔ 
            امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول سنہرےحروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ٹھنڈا پانی پینے سے میری مروت میں خلل پڑے گا تو میں اسے نہیں پی سکتا!!
خواہشات آزمائش ہیں:
            چونکہ انسان کا امتحان خواہشات کےذریعے رکھا گیا ہے اور وہ ہروقت کسی نہ کسی حادثہ سے دوچار ہوتا رہتا ہے، اس لئےاس کے وجود میں دوحاکم بنا دئیے گئے، ایک عقل اور دوسرا دین۔ پھرانسان کو حکم دیاگیا کہ خواہشات کے حوادث کو ہمیشہ ان دونوں حاکموں کے پاس لے جائے اور ان کےفیصلوں پر سر تسلیم خم کرے۔ انسان کو چاہئے کہ ایسی خواہشات کو بھی دبانے کی عادت ڈالے جن کا انجام مامون ومحفوظ ہو، تاکہ اس میں اذیت ناک انجام والی خواہشات کےچھوڑ دینے کی قوت پیدا ہو۔ 
خواہش کی غلامی سے نجات کیسے؟
            اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس شخص کے نجات کی کیا صورت ہے جو خواہشات کا غلام بن چکا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ الله  کی توفیق اور مدد سے آئندہ سطور میں ذکر کئےگئے چند امور کے اپنانے سے اس کی نجات ممکن ہے۔
آزادانہ عزیمت:
            ١۔ ایسی آزادانہ عزیمت جس میں اپنےنفس کے موافق ومخالف غیرت موجود ہو۔
صبرکا تلخ گھونٹ:
            ٢۔ صبر کا تلخ گھونٹ جس کی تلخی گوارہ کرنے پر اس گھڑی اپنے نفس کو آمادہ کرسکے۔
نفسانی قوت:
            ٣۔ وہ نفسانی قوت جو اس تلخ گھونٹ کےپینے پر حوصلہ افزائی کرے۔ درحقیقت شجاعت ایک گھڑی کی صبر ہی کا نام ہے۔ اور وہ زندگی کتنی پرکیف زندگی ہے جسے بندہ نے اپنے صبر سے پایا ہو۔
عاقبت اندیشی:
            ٤۔ حسن عاقبت اور خوش انجامی کو پیش نظر رکھنا اور اس کو تلخی کا علاج سمجھنا۔
لذت والم کا موازنہ:
            ٥۔ اس بات کو مدنظر رکھنا کہ خواہشات کی لذت سے وہ تکلیف اور سزا کہیں زیادہ ہے جو اس کے نتیجہ میں آتی ہے۔ 
اپنےمقام ومرتبہ کا خیال:
            ٦۔ الله کے نزدیک اور اس کے بندوں کے دلوں میں موجود اپنے مقام ومرتبہ کو بچانے کی کوشش کرنا کیونکہ یہ چیز خواہشات کی لذت سے بہت بہتر اور زیادہ سودمند ہے۔ 
پاکدامنی کی مٹھاس کو ترجیح:
            ٧۔ عفت وپاکدامنی کی لذت ومٹھاس کوگناہ ومعصیت کی لذت پر ترجیح دینا۔
شیطان کی عداوت:
            ٨۔ اس بات پر خوش ہونا کہ اپنے دشمن(شیطان )پر غلبہ حاصل کرلیا اور اسے غیظ وغضب اور فکر وغم کے ساتھ ناکام ونامرادواپس کردیا اور اس کی امید وآرزو پوری نہ ہوسکی۔
            معلوم ہونا چاہئے کہ الله  تعالیٰ کو اپنے بندے سے متعلق یہ بات بہت پسندہے کہ وہ اپنے دشمن کی ناک مٹی میں ملائے اور اسے غصہ دلائے جیسا کہ قرآن مجید میںارشاد باری ہے :
(وَلَا یَطَئُوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّنَّیْلاً اِلَّا کُتِبَ لَہُمْ بِہِ عَمَل صَالِح) 
التوبة ١٢٠ 
(اورجو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کی جوکچھ خبر لی ان سب پر ان کے نام ] ایک ایک [ نیک کام لکھا گیا۔) 
نیزفرمایا: 
(لِیَغِیْظَبِہِمُ الْکُفَّارَ) 
الفتح/ ٢٩ 
(تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے) 
نیزفرمایا: 
(وَمَنْیُّ ہَاجِرْ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِيْ الارْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراًوَّسَعَةً) 
النساء /١٠٠ 
(جوکوئی الله کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائےگا اور کشادگی بھی۔) 
            قیام کی جگہوں سے مراد وہ جگہیں ہیںجن کے ذریعے الله کے دشمنوں کی ناک مٹی میں ملا سکے۔  
            سچی محبت کی علامت یہ ہے کہ محبوب کےدشمنوں کو مبتلائے غیظ کیا جائے اور ان کی ناک خاک آلود کی جائے۔
مقصد تخلیق پر غور:
            ٩۔ اس بات پر غور کرنا کہ اس کی تخلیق خواہشات کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں ہوئی بلکہ ایسے عظیم کام کے لئے اسے وجود بخشاگیا ہے جس کا پانا خواہشات سے دوری کے بغیر ناممکن ہے۔
تمیز نفع وضرر:
            ١٠۔ اپنے نفس کو ایسی چیزوں کا خوگر نہ بنائے جس کی بنا پر ایک بے عقل چوپایہ اس سے بہتر قرار پائے کیونکہ حیوان طبعی طورپر اپنے نفع وضرر کی تمیز کرلیتا ہے اور نقصان پر فائدہ کو ترجیح دیتا ہے۔ انسان کو اسی مقصد کی خاطر عقل سے نوازا گیا،اگر وہ نفع وضرر میں تمیز نہ کرسکے یا تمیزومعرفت کے باوجود ضرر کو ترجیح دے تو ظاہر ہے کہ ایک بے خرد چوپائے کی حالت اس سے بہتر قرار پائے گی۔
برے انجام پر غور:
            ١١۔ اپنے دل میں خواہشات کے انجام پرغور کرے اور دیکھے کہ گناہوں اور نافرمانیوں کی بنا پر کتنی فضیلتیں فوت ہوگئیں اور کتنی ذلتوں سے ہمکنار ہونا پڑا۔ ایک لقمہ نے کتنے لقموں سے محروم کردیا۔ ایکلذت نے کتنی لذتوں سے دور کردیا۔ 
            کتنی ہی خواہشات اور شہوتیں ایسی ہیںجو انسان کی شان وشوکت کو مٹی میں ملادیتی ہیں۔ اس کا سر جھکادیتی اور اس کی نیک نامی کو بدنامی سے بدل دیتی ہیں۔ اس کی رسوائی کا سامان فراہم کرتی اور اس کے وجود کو ایسی ذلت وعار سے لت پت کردیتی ہیں جسے پانی سے دھوکر صاف نہیں کیا جاسکتا مگر کیا کیا جائے کہ خواہش پرست کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔
کیا کھویا کیا پایا؟
            ١٢۔ جس سے اس کی خواہش متعلق ہے اس سے مقصد کی تکمیل کے بعد کا تصور کرے اور ضرورت پوری ہونے کے بعد اپنی حالت کا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔
اپنی ذات شریف:
            ١٣۔ دوسروں کے بارے میں اس بات کا کماحقہ تصور کرے پھر اپنے آپ کو اس مقام پر لے جائے اور دیکھے: کیا دونوں معاملے میں اس کی عقل کا فیصلہ ایک ہی ہے؟؟
عقل ودین کا فیصلہ:
            ١٤۔ اپنے نفس کے مطالبہ پر غور کرےاور اپنی عقل اور اپنے دین سے اس کے متعلق دریافت کرے، یہ دونوں اسے بتائیں گے کہ یہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔
             عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه  فرماتے ہیں: جب تم میں سے کسی شخص کو کوئی عورت اچھی لگے تو اس کی گندی اور بدبودار جگہوں کا خیال کرے (وہ بری لگنے لگے گی)۔
ذلت سے برتری:
            ١٥۔ خواہش کی غلامی کی ذلت سے اپنے آپ کو بلند تصور کرے۔ جو شخص ایک بار بھی اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے لازمی طور پراپنے آپ میں ذلت محسوس کرتا ہے۔ بندگانِ خواہشات کے اکڑفوں اور کبر وغرور سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ وہ اندرونی طور پر کافی ذلیل اور پست ہوتے ہیں لیکن عجب انداز سے ذلت وغرور (احساس کمتری وبرتری) دونوں ان میں یکجا ہوتا ہے۔ 
خیروشر کا موازنہ:
            ١٦۔ دین وآبرو اور مال وجاہ کی سلامتی ایک طرف اور مطلوبہ لذت کا حصول ایک طرف، دونوں میں موازنہ کرے۔ان دونوں کے درمیان قطعی کوئی نسبت نہیں۔ اس سے بڑا نادان کون ہوگا جو ایک کے بدلہ میں دوسرے کو فروخت کرے۔!
بلند ہمتی:
            ١٧۔ اپنے دشمن کے زیر اقتدار اور اس کے قابو میں رہنے سے اپنے آپ کو بلند تصور کرے کیونکہ شیطان جب بندہ میں ہمت وعزیمت کی کمزوری اور خواہشات کی طرف جھکاؤ اور میلان دیکھتا ہے تو اس کو زیر کرنےکی لالچ کرتا ہے اور موقع پاتے ہی اسے چت کردیتا اور خواہشات کی لگام پہناکر جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ لیکن شیطان جب بندہ میں قوت وعزیمت، شرف نفس اور علو ہمتدیکھتا ہے تو اس کی اسیری کا حریص نہیں ہوتا البتہ چوری، چپکے اور دھوکے سے اسےضرور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ 
خواہش کے نقصانات:
            ١٨۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ خواہش جس چیز میں مل جاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔
             اگر علم میں خواہش نفس کی ملاوٹ ہوجائے تو بدعت وضلالت جنم لیتی ہے اور ایسا عالم خواہش پرستوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔
             اگر زہد میں اس کی آمیزش ہوجائے تو ریاکاری اور سنت رسول سے روگردانی پیدا ہوجاتی ہے۔
            اگر فیصلہ کرنے میں اس کی ملاوٹ ہوجائے تو حق تلفی پر اکساتی ہے اور انسان کو ظالم بنادیتی ہے۔
            اگر تقسیم میں اس کی ملاوٹ ہوجائے تو عادلانہ کے بجائے اسے ظالمانہ بنادیتی ہے۔ 
            اگر مناصب کی تولیت ومعزولی میں اس کی ملاوٹ ہوجائے تو انسان الله تعالیٰ اور مسلمانوں کی خیانت میں مبتلا ہوجاتا ہے پھر وہ اپنی خواہش سے اہلیت وصلاحیت کو دیکھے بغیر جسے چاہتا ہے عہدہ ومنصب سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے معزول کرتا ہے۔
            اگر عبادت میں خواہش کی ملاوٹ ہوجائے تو وہ اطاعت اور تقرب کا ذریعہ باقی نہیں رہ جاتی۔
             غرضیکہ جس چیز میں بھی خواہش نفس کی ملاوٹ ہوجاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔
شیطان کا چور دروازہ:
            ١٩۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ نفسانی خواہشات ہی کے چور دروازے سے شیطان انسان پر داخل ہوتا ہے۔ انسان کے دل ودماغ، فکرونظر، اور اعمال وکردار میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنے کے لئے شیطان دروازے کی تلاش میں ہوتا ہے پھر جب خواہشات کا دروازہ پاجاتا ہے تو اس کے ذریعہ داخل ہوکر تمام اعضاء میں زہر کی طرح پھیل جاتا ہے۔
شریعت کی خلاف ورزی:
            ٢٠۔ الله سبحانہ وتعالیٰ نے خواہشات کو اپنے رسول پر نازل کردہ شریعت کے منافی بنایا ہے اور خواہشات کی اتباع کو رسول کی اتباع کے مقابل قرار دیا ہے نیز لوگوں کی دو قسمیں بتائی ہیں: 
ایک وہ جو وحی کا اتباع کرتے ہیں، دوسرے وہ جو خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر بکثرت ہوا ہے۔ فرمان باری ہے: 
(فَاِنْلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ أَہْوَائَہُمْ)
قصص/٥٠
(پھر اگر یہ آپ کی بات نہ مانیں تو آپ یقین کرلیں کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کررہے ہیں)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
(وَلَئِنِاتَّبَعْتَ أَہْوَائَہُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَآء کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَاللّٰہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ) 
البقرة١٢٠
(اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو الله کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار) 
اس طرح کی اور بھی دیگر آیات ہیں۔
حیوانات کی مشابہت:
            ٢١۔ الله تعالیٰ نے خواہش پرستوں کی تشبیہ ان حیوانات سے دی ہے جو صورت ومعنی دونوں لحاظ سے سب سے حقیر اور خسیس مانےجاتے ہیں۔ کبھی کتے سے تشبیہ دی اور فرمایا:
(وَلٰکِنَّ ہُأَخْلَدَ اِلَیٰ الارْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْب)ِ    
أعراف/١٧٦ 
(لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی)
اور کبھی گدھے سے تشبیہ دی اور فرمایا: 
(کَأَنَّہُمْ حُمُر مُّسْتَنْفِرَة فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ)
مدثر٥٠ـ٥١
(گویا کہ وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں جو شیر سے بھاگے ہوں)۔
اور کبھی الله تعالیٰ نے ان کی صورتیں بندروں اور سوروں کی شکل میں تبدیل فرمادی۔
نااہلی ونالائقی:
            ٢٢۔ خواہش کا پیروکار قیادت وسیادتاور امامت وپیشوائی کا اہل نہیں ہوتااور نہ ہی اس لائق ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کیجائے اور بات مانی جائے. اسی ناطے الله تعالیٰ نے ایسے شخص کو امامت سے معزول فرمایا ہے اور اس کی بات ماننے سے روکا ہے۔ الله تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہالسلام کو مخاطب کرکے فرمایا: 
(ِانِّيْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماًقَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتيِْ قَالَ لَایَنَالُ عَہْدِيْ الظَّالِمِیْنَ)    
البقرة ١٢٤
(میں تمھیں لوگوں کا امام بنادوں گا، عرض کرنے لگے اور میری اولادکو، فرمایا: میرا وعدہ ظالموں سے نہیں)
            یعنی خواہش کے پیروکار سب کے سب ظالم ہیں لہذا اس وعدہ کے مستحق نہیں ہیں جیسا کہ الله تعالیٰ نے مزید فرمایا: 
(بَلِاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَہْوَآء ہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ) 
روم/٢٩
(بلکہ بات یہ ہے کہ ظالم تو بغیر علم کے خواہش کے پیچھے چل رہے ہیں) 
            ایک اور مقام پر الله تعالیٰ نے ایسےلوگوں کی اطاعت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: 
(وَلَاتُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَأَمْرُہُ فُرُطاً)    
الکہف/ ٢٨
(دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گذر چکا ہے)
بت پرستی:
            ٢٣۔ الله تعالیٰ نے خواہش پرست کو بت پرست کے درجہ میں رکھا ہے۔ فرمایا:
(أَرَأَیْتَمَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ہَوَاہُ) 
فرقان ٤٣ 
(کیاآپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے)۔
 الله تعالیٰ نے یہ بات دو مقامات پر ارشادفرمائی۔
            امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
اس سے وہ منافق مراد ہے کہ جس چیز کی بھی خواہش کرتا ہے کربیٹھتا ہے۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ منافق اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے، اس کا نفس جس بات کی خواہش کرتا ہے وہ کرتا جاتا ہے۔
جہنم کا باڑھ:
            ٢٤۔ نفسانی خواہشات ہی جہنم کا باڑھ ہیں، اسی سے جہنم گھری ہوئی ہے لہذا جو نفسانی خواہشات کا شکار ہوگا جہنم سے دوچار ہوگا۔ جیسا کہ صحیحین میں نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: 
''جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے اور جہنم کو نفسانی خواہشات سے گھیردیا گیا ہے.''
ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه سے مرفوعاً روایت ہے کہ:
''جب الله تعالیٰ نے جنت کی تخلیق فرمائی، جبریل علیہ السلام کو  یہ حکم دے کر بھیجا کہ جنت کو اور اہل جنت کے لئے جو کچھ میں نے اس میں تیار کر رکھا ہے اس کو دیکھ کر آؤ۔ چنانچہ جب وہ جنت دیکھ کر واپس ہوئے تو کہا: تیری عزت کی قسم! تیرا جو بندہ اس کے بارے میں سنے گا وہ ضرور اس میں داخل ہوگا۔ پھر الله تعالیٰ کے حکم سے جنت کو ناگوار چیزوں سے گھیردیا گیا۔ الله تعالیٰ نے جبریل کو دوبارہ جاکر دیکھنے کا حکم دیا جب کہ اسے ناپسندیدہ چیزوں سے گھیرا جاچکا تھا. جبریل علیہ السلام نے واپس آکر کہا: تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی نہ داخل ہوسکے گا۔ پھر الله تعالیٰ نےفرمایا: جہنم اور اہل جہنم کے لئے میں نے جو کچھ تیار کر رکھا ہے اس کو جاکر دیکھو، جبریل آئے اور دیکھا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ پر چڑھا جاتا ہے۔ لوٹ کر آئے اور باری تعالیٰ سے عرض کیا: تیری عزت کی قسم! اس کا حال جو سنے گا اس میں نہیں داخل ہوگا۔ پھر الله کے حکم سے اس کو نفسانی خواہشات سے گھیر دیا گیا۔ الله تعالیٰ نےفرمایا پھر جاکر دیکھو۔ اب دیکھا تو اسے شہوات سے گھیرا جاچکا تھا۔ لوٹ کرآئے اور کہا: تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے کوئی نجات نہ پاسکے گا۔ ''    
(امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے)۔
اندیشۂ کفر:
            ٢٥۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے کے بارے میں اسلام سے لاشعوری طور پر نکل جانے کا اندیشہ ہے۔ نبی صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے: ''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہوجائے۔'' 
اور صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
''مجھے تمھارے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ تمھارے پیٹ اور شرمگاہ کی بہکادینے والی شہوتیں اور نفسانی خواہشات کی گمراہ کن باتیں ہیں۔''
موجبِ ہلاکت:
             ٢٦۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنا موجب ہلاکت ہے۔
 نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: 
''تین چیزیں باعث ِنجات اور تین چیزیں باعث ہلاکت ہیں: 
1: نجات دینے والی پہلی چیز کھلے اور چھپے الله  کا تقوی ہے۔ 
2: دوسری چیز خوشی اور ناراضی ہرحال میں حق گوئی، 
3: تیسری چیز فقیری اور امیری ہر حال میں میانہ روی ہے۔ 
اور ہلاک کرنے والی 
1: پہلی چیز وہ نفسانی خواہش ہے جس کی اتباع کی جائے۔ 
2: دوسری چیز وہ بخل ہے جس کی بات مانی جائے اور تیسری چیز آدمی کی خود پسندی ہے''۔ 
باعث فتح وظفر:
            ٢٧۔ نفسانی خواہش کی مخالفت کرنے سے بندہ اپنے جسم اور دل وزبان میں قوت پاتا ہے۔ 
            بعض سلف کا قول ہے کہ اپنی خواہش پر غلبہ حاصل کرنے والا اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے جو تنہا کسی ملک کو فتح کرتا ہے۔ صحیح حدیث میں نبی صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے: 
''پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔'' 
            آدمی جب جب اپنی خواہش کی مخالفت کرتا ہے اپنی قوت میں برابر اضافہ کرتا جاتا ہے۔
اخلاق ومروت:
            ٢٨۔ اپنی خواہش کے خلاف چلنے والا سب سے زیادہ بامروت انسان ہوتا ہے۔ معاویہ رضى الله عنه فرماتے ہیں: خواہشات کو چھوڑدینا اور ہوائے نفس کی بات نہ ماننا یہی مروت ہے۔ خواہشات کے پیچھے چلنا مروت کو بیمار کردیتا ہے۔ اور اس کی مخالفت، مروت کو افاقہ عطا کرتی اور شفاء دیتی ہے۔
عقل اور خواہش کی جنگ:
            ٢٩۔ ہر دن خواہش اور عقل باہم دست وگریباں ہوتے ہیں جو جیت جاتا ہے شکست خوردہ کو بھگادیتا ہے اور خود حکومت و تصرف کرتا ہے۔ حضرت ابودرداء رضى الله عنه فرماتے ہیں: آدمی جب صبح کرتا ہے اس کی عقل اور خواہش اکٹھا ہوتی ہے۔ اگر اس کی عقل خواہش کے تابع ہوئی تو وہ ایک برا دن ہوتا ہے اور اگر خواہش عقل کے تابع ہوئی تو وہ ایک اچھا دن ہوتا ہے۔
غلطی کا امکان:
            ٣٠۔ الله تعالیٰ نے خطا اور اتباع ہوا (غلطی اور خواہش کی پیروی) کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے۔ اسی طرح درستی اور خواہش کی مخالفت کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے جیسا کہ بعض سلف کا قول ہے: جب تمھیں دو باتوں میں شبہ ہوجائے کہ زیادہ سخت کون ہے تو جو تمھاری خواہش کے قریب ہو اس کی مخالفت کرو کیونکہ خواہش کے پیچھے چلنے ہی میں غلطی کا زیادہ امکان ہے۔
بیماری اور علاج:
            ٣١۔ خواہش بیماری ہے اور اس کا علاجاس کی مخالفت ہے۔ کسی عارف کا قول ہے: اگر تم چاہو تو تم کو تمھارا مرض بتادوں اور اگر چاہو تو اس کی دوا بھی بتادوں؟ نفسانی خواہش تمھارا مرض ہے، اس کو چھوڑ دینا اور اس کی مخالفت کرنا اس کی دوا ہے۔ بشرحافی فرماتے ہیں: ساری بلائیں نفسانی خواہشات کی بنا پر ہیں اور سارا علاج اس کی مخالفت میں ہے۔
جہاد:
            ٣٢۔ خواہشات سے جہاد اگر جہادِ کفار سے بڑھ کر نہیں تو اس سے کم تر بھی نہیں ہے۔
            ایک شخص نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: اے ابوسعید! کون سا جہاد افضل ہے؟ فرمایا: خواہشات نفسانی سے جہاد کرنا۔
             شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نفس اور خواہش سے جہاد، کفار ومنافقین سے جہاد کی بنیاد ہے کیونکہ ان سے اسوقت تک کوئی جہاد نہیں کرسکتا جب تک کہ ان کی طرف نکلنے کے لئے اپنے نفس اور خواہش سے جہاد نہ کرے۔
مرض بڑھتا گیا:
            ٣٣۔ خواہش بیماری کو بڑھادینے والی چیز ہے اور اس کی مخالفت پرہیز ہے۔ ایسا شخص جو مرض بڑھانے والی چیز کا استعمال کرے اور پرہیز سے دور رہے اس کے انجام کے بارے میں خطرہ یہی ہے کہ بیماری اسے دبوچ لے گی۔
محرومی وبے توفیقی:
            ٣٤۔ خواہشات کی اتباع سے توفیق کےدروازے بند ہوجاتے اور محرومی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ایسے لوگ اپنی زبان سے کہتے رہتے ہیں کہ اگر الله توفیق دے تو ایسا اور ایسا کرگذریں مگر خواہشات کی اتباع کرکے انھوں نے اپنے لئے توفیق کے راستے مسدود کرلئے ہیں۔
            فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: جس شخص پر شہوت اور خواہش  غالب آجاتی ہے توفیق اس سے منقطع ہوجاتی ہے۔
            کسی عالم کا قول ہے کہ کفر چار چیزوں میں ہے: غضب اور شہوت میں، لالچ اور خوف میں۔ پھر فرمایا کہ دو کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا: 
ایک شخص غصہ میں آیا اور اس نے اپنی ماں کو قتل کرڈالا، 
دوسرا.شخص مبتلائے عشق ہوکر نصرانی ہوگیا۔
فساد عقل وخرد:
            ٣٥۔ جو آدمی اپنی خواہشات کو ترجیح دیتا ہے اس کی عقل فاسد اور رائے بگڑجاتی ہے۔ اس لئے کہ اپنی عقل کے معاملے میں اس نے الله کی خیانت کی تو الله نے اس کی عقل کو فاسد کردیا۔ تمام امور میں الله کی سنت یہی ہے کہ جو کوئی اس میں خیانت کرتا ہے الله تعالیٰ اسے فاسد کردیتا اور بگاڑدیتا ہے۔
قبروآخرت کی تنگی:
            ٣٦۔ جو اپنی خواہشات کی تکمیل میںاپنے نفس پر کشادگی کرتا ہے تو اس پر قبر اور آخرت میں تنگی ہوگی۔اس کے برخلاف جو نفس کی مخالفت کرکے اس پر تنگی کرتا ہے اس کی قبر اور آخرت میں اس پرفراخی ہوگی۔ الله تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں اسی طرف اشارہ کیا ہے:
(وَجَزَاہُمْبِمَاصَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِیْراً)      
الدہر١٢
(اور انہیں ان کے صبر کے بدلہ جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے۔) 
            چونکہ صبر جوکہ خواہشات سے نفس کو روکنے کا نام ہے اس میں کھردرا پن اور تنگی ہے اس لئے بدلے میں نرم وگداز ریشم اور جنت کی وسعت عطاء فرمائی۔ ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: شہوتوں سے صبر کرنے پر یہ بدلہ عطا فرمایا۔
رکاوٹ:
            ٣٧۔ نفسانی خواہشات قیامت کے دن نجات یافتہ بندوں کے ساتھ اٹھ کر دوڑنے سے رکاوٹ بن جائیں گے، جس طرح دنیا میں ان کا ساتھ دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ 
            محمد بن ابی الورد کا قول ہے کہ الله تعالیٰ نے ایک دن ایسا بنایا ہے جس کی مصیبت سے خواہشات کے پیچھے چلنے والا نجات نہیں پاسکتا۔ قیامت کے دن جو شخص سب سے دیر سے اٹھے گا وہ شہوتوں کا پٹخا ہوا ہوگا۔ عقلیں جب طلب کے میدان میں دوڑتی ہیں تو سب سے زیادہ حصہ کی مستحق وہ ہوتی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ صبر ہو۔ عقل معدن ہے اور فکر اس معدن سے خزانے نکالنے کا آلہ ہے۔
عزائم کی پستی:
            ٣٨۔ خواہشات کی غلامی عزائم کی پستی اور کمزوری کا سبب ہے اور اس کی مخالفت عزائم کو مضبوطی اور طاقت عطا کرتی ہے۔ عزم وہ سواری ہے جس کے ذریعہ بندہ الله اور آخرت کی طرف سفر کرتا ہے، اگر سواری خراب ہوجائے تو مسافر کی منزل بہت دور ہوجاتی ہے۔ یحییٰ بن معاذ سے دریافت کیا گیا: عزم کے اعتبار سے صحیح ترین انسان کون ہے؟ فرمایا: وہ جو اپنی خواہشات پر غالب آجائے۔ 
بدترین سواری:
            ٣٩۔ خواہش پرست کی مثال اس گھڑسوار جیسی ہے جس کا گھوڑا نہایت تیز رفتار، بے قابو، سرکش اور بے لگام ہو، دوڑنے کے دوران اپنے سوار کو پٹخ دے یا کسی ہلاکت کے مقام پر پہنچادے۔
            ایک عارف کا کلام ہے: جنت کو پہنچانے والی سب سے تیز رفتار سواری دنیا سے بے رغبتی ہے اور جہنم تک پہنچانے والی سب سے تیز رفتار سواری خواہشات کی محبت ہے۔ خواہشات کا سوار ہلاکتوں کی وادی میں نہایت تیزی کے ساتھ پہنچ جائے گا۔ ایک دوسرے عارف کا کلام ہے کہ سب سے زیادہ صاحب شرف وہ عالم ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لئے دنیا سے بھاگے اور خواہشات کے پیچھے چلنا اس کے لئے دشوار ہو۔ عطا فرماتے ہیں: جس کی خواہش اس کی عقل پر اور بے قراری اس کے صبر پر غالب آجائے وہ رسوا ہوجائے گا۔
توحید کی ضد:
            ٤٠۔ توحید اور نفسانی خواہش کا اتباع ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نفسانی خواہش ایک بت ہے اور ہر خواہش پرست کے دل میں اس کی خواہش کے مطابق بت موجود ہیں۔ الله تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اسی لئے بھیجا کہ وہ بتوں کو توڑیں اور ایک الله وحدہ' لاشریک کی عبادت کا غلغلہ بلند کریں۔ الله تعالیٰ کا یہ مقصود ہرگز نہیں کہ جسمانی اور ظاہری بتوں کو توڑ دیا جائے اور دلوں کے بتوں کو چھوڑ دیا جائے بلکہ دلوں کا بت ہی سب سے پہلے توڑنا ہے۔ 
            حسن بن علی مطوعی کا قول ہے: ہر انسان کا بت اس کی نفسانی خواہش ہے، جس نے خواہشات کی مخالفت کرکے اس بت کو توڑ دیا وہی جوان کہلانے کا مستحق ہے۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے جو بات کہی تھی ذرا اس پر غور کرو، فرمایا:
(مَاہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِيْ أَنْتُمْ لَہَا عَاکِفُوْنَ) 
انبیاء/٥٢
(یہمورتیاں کیا ہیں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ؟)
            ان کی بات ان بتوں پر کس قدر فٹ آتی ہے جنھیں خواہشات کی شکل میں انسان دل میں بٹھائے ہوتا ہے، ان میں منہمک رہتا اور الله کو چھوڑکر ان کی پرستش کرتا ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(أَرَأَیْتَمَنِ اتَّخَذَ ِالٰہَہُ ہَوَاہُ أَفَأَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً أَمْتَحْسَبُ أَنَّ أَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ أَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلاَّکَالانْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ سَبِیْلاً) 
فرقان/ ٤٣ـ٤٤
(کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے، کیا آپاس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟ کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں، وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے)۔
بیماریوں کی جڑ:
            ٤١۔ خواہش کی مخالفت سے دل اور بدن کی بیماریاں ختم ہوتی ہیں۔ جہاں تک دل کی بیماریوں کا معاملہ ہے تو وہ ساری کی ساریخواہش پرستی ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور اگر آپ تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ بیشترجل جسمانی بیماریوں کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ کسی چیز کے چھوڑ دینے کے عقلی فیصلہ پرخواہش نفس کو ترجیح دی جاتی ہے۔ 
عداوتوں کی بنیاد:
            ٤٢۔ لوگوں کی آپسی عداوت اور شروحسد کی بنیاد خواہش پرستی ہے۔ جو شخص خواہش پرستی سے دور ہوتا ہے وہ اپنے قلب وجگر اورجسم واعضاء کو راحت پہنچاتا ہے۔ خود بھی آرام میں ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سےآرام ہوتا ہے۔ 
            ابوبکر وراق کا قول ہے: جب خواہش غالب آتی ہے دل کو تاریک کردیتی ہے۔ جب دل تاریک ہوتا ہے سینہ تنگ ہوجاتا ہے۔ جب سینہ تنگ ہوجاتا ہے اخلاق برے ہوجاتے ہیں۔ جب اخلاق برے ہوجاتے ہیں تو مخلوق اسے ناپسند کرنے لگتی ہے اور وہ بھی دوسروں کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور جب نوبت اس باہمی بغض وعداوت تک پہنچ جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں انتہائی شروفساد اور ترک حقوق وغیرہ پیدا ہوتا ہے۔ 
ایک ہی فاتح:
            ٤٣۔ الله تعالیٰ نے انسان میں دوقوتیں پیدا فرمائی ہیں۔ ایک خواہش اور دوسری عقل۔ان دونوں میں سے جب ایک قوتنمایاں ہوتی ہے تو دوسری قوت چھپ جاتی ہے۔ 
            ابوعلی ثقفی کا قول ہے: جس پر خواہشکا غلبہ ہوتا ہے اس کی عقل چھپ جاتی ہے۔ بھلا اس کا انجام کیا ہوگا جس کی عقل غائبہو اور  بے عقلی ظاہر ہو۔ !!
            علی بن سہل کا قول ہے : عقل اور خواہشباہم لڑتے ہیں۔ توفیق عقل کے ساتھ ہوتی ہے اور محرومی خواہش کے ساتھ۔ نفس ان دونوںکے بیچ ہوتی ہے۔ ان میں سے جس کی فتح ہوتی ہے نفس اسی کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ 
شیطان کا ہتھیار:
            ٤٤۔ الله تعالیٰ نے دل کو اعضاء کا بادشاہ بنایا ہے اور اپنی محبت ومعرفت اور عبودیت کا معدن قرار دیا ہے اور دو بادشاہوں، دو لشکروں، دو مددگاروں اور دو ہتھیاروں سے اس کی آزمائش فرمائی ہے۔ 
1: حق وہدایت اور 
2: زہد وتقوی 
ایک بادشاہ ہے، جس کے مددگار ملائکہ ہیں، جس کا لشکر وہتھیارصدق واخلاص اور خواہشات سے دوری ہے۔ باطل دوسرا بادشاہ ہے، شیاطین اس کے مددگارہیں، اس کا لشکر وہتھیار خواہشات کی اتباع ہے۔ نفس ان دونوں لشکروں کے درمیان کھڑاہوتا ہے۔ دل پر باطل کے لشکروں کا حملہ اسی کی جانب اور اسی کی سرحد سے ہوتا ہے۔نفس دل کو مدہوش کرکے اس کے خلاف اس کے دشمنوں سے مل جاتا ہے۔ نفس ہی دل کے دشمنوں کو ہتھیار اور سامان رسد پہنچاتا ہے اور قلعہ کا دروازہ ان کے لئے کھول دیتا ہے چنانچہ دل بے سہارا ہوجاتا ہے اور باطل کی فتح ہوجاتی ہے۔
سب سے بڑا دشمن:
            ٤٥۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا شیطان اورخود اس کی اپنی خواہش ہے اور اس کا سب سے بڑا دوست اس کی عقل اور اس کافرشتہ ہے۔ جب انسان اپنے خواہش کی پیروی کرتا ہے اور ہوائے نفس کا اسیر ہوجاتا ہےاور اپنے دشمن کو خوش ہونے کا موقع دیتا ہے تو اس کا دوست اور محبوب اس بات کو ناپسند کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے الله کے نبی صلى الله عليه وسلم پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ فرماتے: 
''اَللّٰہُمَّ اِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ جَہْدِ الْبَلاَءِ وَدَرَکِ الشَّقَآءِ وَسُوْءِ الْقَضَآءِوَشَمَاتَةِ الاعْدَآءِ''
]اےالله میں تیری پناہ چاہتا ہوں سخت بلا سے اور بد بختی آنے سے اور بری قضا سے اوردشمنوں کی خوشی سے۔[
آغازوانجام:
            ٤٦۔ ہر انسان کا ایک آغاز اور ایکانجام ہوتا ہے۔ جس کا آغاز خواہشات کی اتباع سے ہوگا اس کا انجام ذلت وحقارت،محرومی اور بلائیں ہوں گی۔ جس قدر وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلے گا اسی قدر دلی عذابمیں مبتلا رہے گا۔ کسی بھی بدحال شخص پر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کاآغاز یہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا رہا اور اپنی عقل پر اسے ترجیح دیتارہا۔ اس کے برخلاف جس شخص کی ابتدا اپنی خواہشات کی مخالفت اور اپنی سوجھ بوجھ کی اطاعت سے ہوگی اس کا انجام عزوشرف، جاہ واقتدار اور مال ودولت ہوگا۔ لوگوں کےنزدیک بھی اور الله کے نزدیک بھی ہرجگہ اس کا ایک مقام ہوگا۔
            ابو علی دقاق کا قول ہے کہ جو اپنیجوانی میں اپنی خواہشات پر قابو رکھتا ہے بڑھاپے میں الله تعالیٰ اسے عزت عطا فرماتا ہے۔ 
            مہلب بن ابی صفرة سے پوچھا گیا کہ آپاس مقام پر کس طرح پہنچے؟  فرمایا: ہوش و خرد کی اطاعت کرکے اور خواہشات کی نافرمانی کرکے۔
            یہ تو دنیا کا آغاز وانجام ہے۔ آخرت کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خواہش کی مخالفت کرنے والوں کے لئے الله تعالیٰ نے جنت بنائی ہے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کے لئے جہنم تیار کر رکھا ہے۔
پاؤں کی بیڑیاں:
            ٤٧۔ نفسانی خواہشات دل کی غلامی، گلےکا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں ہیں۔ خواہش پرست ہربدکردار کا غلام ہوتا ہے لیکن خواہش کی مخالفت کرتے ہی اس کی غلامی سے نکل کر آزاد ہوجاتا ہے۔ گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں نکال پھینکتا ہے۔
لید کے بدلے موتی:
            ٤٨۔ خواہش کی مخالفت بندہ کو اس مقامپر لا کھڑا کرتی ہے کہ اگر وہ الله کے نام کی قسم کھالے تو الله تعالیٰ اس کی قسمپوری فرماتا ہے۔ خواہشات کی جتنی لذت سے وہ محروم رہتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ اللهتعالیٰ اس کی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ اس کی مثال اس شخص جیسی ہوتی ہے جس نےجانور کی لید سے اعراض کیا تو اس کے بدلہ اسے موتی سے نوازا گیا۔ 
            خواہش پرست اپنی خواہشات سے جتنی لذتنہیں پاتا اس سے کہیں زیادہ دنیاوی اور اخروی مصلحتیں اور زندگی کی خوش گواریاںفوت کردیتا ہے۔ یوسف علیہ السلام نے جب اپنے آپ کو حرام سے بچایا تو قید سے نکلنےکے بعد ان کا دست وزبان اور نفس وقدم جس قدر آزاد تھا غور کرنے کی چیز ہے۔
            عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں: میںنے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا۔ میں نے ان سے کہا: الله نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ انھوں نے کہا: جوں ہی مجھے لحد میں رکھا گیا مجھے الله تبارک وتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا پڑا۔ الله تعالیٰ نے میرا ہلکا حساب لیا۔ پھر جنت کی طرف لے جانے کا حکم فرمایا۔ ایک دن جب کہ میں جنت کے درختوں اور نہروں کے درمیان گھوم رہا تھا، نہ کوئی آہٹ تھی نہ حرکت، اچانک میں نے ایک شخص کو سنا جو میرا نام لے کر پکار رہا تھا، سفیان بن سعید! تمھیں وہ دن یاد ہے جب تم نے اپنی خواہش کےخلاف الله تعالیٰ کے حکم کو ترجیح دی تھی۔ میں نے کہا: ہاں! الله کی قسم۔ پھر ہرطرف سے مجھ پر پھول برسنے لگے۔
مقامِ عزت:
            ٤٩۔ خواہش کی مخالفت دنیا وآخرت کےشرف کا باعث اور ظاہر وباطن کی عزت کا موجب ہے اور اس کی موافقت دنیا وآخرت کیپستی اور ظاہر وباطن کی ذلت کا باعث ہے۔ جب قیامت کے دن الله تعالیٰ تمام انسانوں کو ایک ہموار زمین پر اکٹھا فرمائے گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا: آج محشروالوں کو معلوم ہوجائے گا کہ عزت والا کون ہے؟ متقی کھڑے ہوجائیں۔ چنانچہ وہ سب مقام عزت کی طرف چل پڑیں گے۔ خواہشات کی اتباع کرنے والے سروں کو جھکائے ہوئے خواہشات کی گرمی، اس کے پسینے اور اس کی تکلیفوں میں پریشان ہوں گے جب کہ متقی عرش کے سایہ میں ہوں گے۔ 
عرش الٰہی کا سایہ:
            ٥٠۔ اگر آپ ان سات لوگوں کے بارے میں غور کریں جنھیں الله تعالیٰ اس دن عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا جب اس کے سایہ کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کو عرش کا سایہ خواہشات کی مخالفت کی بنا پر حاصل ہوا ہے۔
            1: ایک حاکم جو مضبوط اقتدار اور مستحکم سلطنت کا مالک ہو اپنی خواہشات کی مخالفت کئے بغیر عدل نہیں کرسکتا۔ 
           2: ایک جوان خواہشات کی مخالفت کے بغیراپنی جوانی کے جذبات پر عبادت الٰہی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ 
           3: ایک مسلمان لذت گاہوں کی طرف جانے پرآمادہ کرنے والی خواہشات کی مخالفت کے بغیر اپنا دل مساجد میں معلق نہیں رکھ سکتا۔
            4: دو مسلمان خواہشات کی مخالفت کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں دوستی کے لئے جمع ہوئے اور اسی پر جدا نہیں ہوسکتے۔ 
            5: ایک صدقہ دہندہ اگر اپنی خواہشات پرغالب نہ ہو تو اپنا صدقہ بائیں ہاتھ سے نہیں چھپاسکتا۔
            6: ایک مرد اپنی خواہشات کی مخالفت کے بغیر کسی خوبصورت اور صاحب منصب عورت کے بلانے پر الله عزوجل سے ڈرکر اسے نہیں چھوڑسکتا۔  
            7: ایک مسلمان اپنی خواہشات کی مخالفتکرکے ہی تنہائی میں اﷲ کو یاد کرتا ہے اورﷲ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ 
            یہ سب کچھ خواہشات کی مخالفت کی بناپر ہی ہوسکتا ہے لہذا ایسے لوگوں پر قیامت کے دن کی گرمی، شدت اور پسینہ کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ اس کے برعکس خواہش پرست انتہائی گرمی اور پسینہ میں شرابور ہوں گے اور خواہشات کے قید خانہ میں داخل ہونے کا انتظار کررہے ہوں گے۔ 
            الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو اپنے نفس امارہ کی خواہشات سے اپنی پناہ میں رکھے اور ہماری خواہشات کو اپنی محبت ورضا کے تابع بنادے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہی دعائیں سنتا ہے۔
والحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی نبینا  وسلم 
7 آدمی کل قیامت کے دن عرش کے سائے میں ہونگے
”عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ اورعن ابی سعید رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال: سبعة یظلہم اللہ فی ظلہ یوم لاظل الا ظلہ: امام عادل‘ وشاب نش بعبادة اللہ‘ ورجل کان قلبہ معلقاً بالمسجد اذا خرج منہ حتی یعود الیہ‘ ورجلان تحاباّ فی اللہ فاجتمعا علی ذلک وتفرّقا‘ ورجل ذکر اللہ خالیاً ففاضت عیناہ‘ ورجل دعتہ امرة ذات حسب وجمال فقال: انی اخاف اللہ‘ ورجل تصدق بصدقة فاخفاہ حتی لاتعلم شمالہ ما تنفق یمینہ: ہذا حدیث حسن صحیح “۔ (ترمذی‘ ج: ۲‘ ص: ۶۲)
ترجمہ: ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اس میں راوی کو شک ہے‘ مگر دوسری روایت میں تعیین ہے کہ یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے) کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش کے) سائے میں {قیامت کے دن } جگہ دیں گے‘ جس دن کہ عرش ِ الٰہی کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا (یعنی قیامت کے دن اور وہ سات آدمی یہ ہیں): 
1: حاکم عادل۔ 
2: وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پھلا پھولا۔ 
3: وہ شخص جو مسجد سے نکلے تو اس کا دل مسجد میں اٹکا رہے‘ یہاں تک کہ دوبارہ مسجد میں چلا جائے۔ 
4: وہ دو آدمی جنہوں نے محض اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں دوستی کی‘ اس کے لئے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے۔ 
5: وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ 
6: وہ شخص جس کو کسی صاحبِ حسب ونسب اور صاحبِ حسن وجمال خاتون نے غلط دعوت [حرام کاری کرنے کی] دی‘ مگر اس نے یہ کہہ کر اس کی دعوت رد کردی کہ: میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ 
7: اوروہ شخص جس نے صدقہ کیا تو اس کو ایسا چھپایا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتا نہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا؟“
(S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2023/01/blog-post_26.html

No comments:

Post a Comment