Tuesday 12 September 2017

مسافر اگر اتمام کرلے تو؟ ؟

مسافر اگر اتمام کرلے تو؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی صاحب اگر کسی نے سفر میں دو رکعت کی جگہ چار رکعت مکمل نماز پڑھی تو اس پر سجدہ سہو ھوگا ؟؟؟؟؟
یانہیں؟
نماز ہوجائے گی یا لوٹانا پڑے گی؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
مسافر کے لئے قصر واجب اور اتمام ممنوع ہے
اتمام کرنے والا گنہگار ہوگا
نماز مکروہ ہوگی
لیکن ساقط ہوجائے گی
اعادہ واجب نہیں
قال العلامۃ حصکفی: صلی الفرض الرباعی رکعتین وجوبا لقول ابن عباس ان اللہ فرض علی لسان نبیکم صلاۃ المقیم اربعا والمسافر رکعتین ، قال ابن عابدین ( قولہ وجوباً) فیکرہ الاتمام عندناحتی روی عن ابی حنیفۃ انہ قال من اتم الصلاۃ فقد اساء وخالف السنۃ۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار ص۵۸۰ جلد۱ باب صلاۃ المسافر)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
.............
مسافر کی نماز کا بیان
مسافر و سفر شرعی کی تعریف

١. شرعیت میں مسافر اس کو کہتے ہیں جو تین منزل تک جانے کا ارادہ کر کے گھر سے نکلے اس بارے میں عوام کی آسانی کے لئے ہمارے فقہائے کرام نے اڑتالیس میل انگریزی کی مسافت متعین کر دی ہے اور اکثر علمائے کرام کا اِسی پر فتویٰ ہے
٢. سمندری سفر اور پہاڑی راستوں میں وہاں کی رفتار کے مطابق کم و بیش مسافت مقرر کرنی پڑے گی
٣. اس مسافت کا اعتبار اس راستے سے ہو گا جس سے وہ جا رہا ہے پس اگر کسی جگہ کے لئے دو راستے ہیں ایک راستہ تین منزل کا ہے اور دوسرا راستہ تین منزل سے کم تو اگر وہ بعید کے راستہ سے جائے گا تو مسافر ہو گا اور تین منزل سے کم والے راستہ سے جائے گا تو مسافر نہیں ہو گا
٤. اگر کوئی جگہ عام عادت کو مطابق پیدل آدمی کے لئے تین منزل ہے اور کوئی شخص اس کو ریل گاڑی یا موٹر یا گھوڑا گاڑی وغیرہ پر جلدی طے کر لیتا ہے تب بھی وہ مسافر ہے خواہ کتنی ہی جلدی طے کر لیتا ہے تب بھی وہ مسافر ہے خواہ کتنی ہو جلدی پہچ جائے
http://majzoob.com/1/13/133/1331730.htm
.....
مسافر و سفر شرعی کی تعریف
١. شرعیت میں مسافر اس کو کہتے ہیں جو تین منزل تک جانے کا ارادہ کر کے گھر سے نکلے اس بارے میں عوام کی آسانی کے لئے ہمارے فقہائے کرام نے اڑتالیس میل انگریزی کی مسافت متعین کر دی ہے اور اکثر علمائے کرام کا اِسی پر فتویٰ ہے
٢. سمندری سفر اور پہاڑی راستوں میں وہاں کی رفتار کے مطابق کم و بیش مسافت مقرر کرنی پڑے گی
٣. اس مسافت کا اعتبار اس راستے سے ہو گا جس سے وہ جا رہا ہے پس اگر کسی جگہ کے لئے دو راستے ہیں ایک راستہ تین منزل کا ہے اور دوسرا راستہ تین منزل سے کم تو اگر وہ بعید کے راستہ سے جائے گا تو مسافر ہو گا اور تین منزل سے کم والے راستہ سے جائے گا تو مسافر نہیں ہو گا
٤. اگر کوئی جگہ عام عادت کو مطابق پیدل آدمی کے لئے تین منزل ہے اور کوئی شخص اس کو ریل گاڑی یا موٹر یا گھوڑا گاڑی وغیرہ پر جلدی طے کر لیتا ہے تب بھی وہ مسافر ہے خواہ کتنی ہی جلدی طے کر لیتا ہے تب بھی وہ مسافر ہے خواہ کتنی ہو جلدی پہچ جائے
احکام سفر
١. وہ احکام جو سفر سے بدل جاتے ہیں یہ ہیں
١. نماز قصر ہونا،
٢. روزہ نہ رکھنے کی اجازت، ٣. مسح موزوں کی مدت کا تین دن رات ہو جانا،
٤. مسافر پر جمعہ و عیدین و قربانی واجب نہ ہونا،
٥. آزاد عورت کو محرم کے بغیر سفر پر جانا حرام ہونا،
اس بیان میں نماز قصر ہونے کی تفصیل بیان کی جاتی ہے،
٢. نماز قصر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شرعی مسافر پر چار رکعتوں والی فرض نماز یعنی ظہر و عصر و عشا دو رکعتیں فرض ہیں اور فجر و مغرب اور وتر کی نماز میں کوئی کمی نہیں ہوتی
٣. مسافر کو قصر کرنا واجب ہے اور پوری رکعتیں پڑھنا گناہ ہے
٤. اگر مسافر نے قصر نماز میں چار رکعتیں پڑھ لیں اور دوسری رکعت پر بقدر تشہد قعدہ کیا تو اخیر میں سجدہِ سہو کر لینے سے نماز جائز ہو جائے گی اس کی پہلی دو رکعتیں فرض اور آخری دو رکعتیں نفل ہو جائیں گی لیکن قصداً ایسا کرنے سے گناہگار ہو گا یعنی وہ مکروہ تحریمی کا مرتکب ہو گا اگر بھولے سے ایسا ہو گیا تو گناہ نہیں اور اگر دوسری رکعت پر بقدر تشہد قعدہ نہ کیا تو اس کی فرض نماز باطل ہو گئی اس لئے نئے سرے سے پڑھے اور یہ نماز نفل ہو جائے گی
٥. سنتوں میں قصر نہیں ہے پس جہاں چار سنتیں پڑھی جاتی ہیں مسافر بھی چار ہی پڑھے اور مختار یہ ہے کہ سفر میں خوف اور جلدی کی حالت ہو تو سنتیں نہ پڑھے اگر امن و بے خوفی ہو مثلاً منزل پر ٹھہرا ہوا ہو تو پڑھ لے، فجر کی سنتیں خاص طور پر پڑھے بعض کے نزدیک مغرب کے بعد کی دو رکعت سنتِ مئوکدہ کا بھی یہی حکم ہے
٦. جب سفر شرعی کی نیت کر کے اپنے شہر یا بستی کی آبادی سے باہر نکل جائے اس وقت سے نماز قصر کرنے لگے، شہر سے متصل شہر کی ضروریات مثلاً قبرستان و گھوڑ دوڑ کا میدان، مٹی کوڑا ڈالنے کی جگہ وغیرہ بھی آبادی کے حکم میں ہیں ان سے بھی باہر نکل کر قصر کرنے لگے، جس طرف سے شہر سے نکلتا ہے اسی طرف کی آبادی سے باہر نکلنے کا اعتبار ہے
٧. اس طرح جب اپنے شہر کو واپس آئے تو جب تک آبادی کے اندر داخل نہ ہو جائے تب تک وہ مسافر ہے اور قصر نماز پڑھے گا اور جب اس آبادی میں داخل ہو جائے گا جس سے باہر نکنے پر قصر شروع ہوتی ہے مقیم ہو جائے گا اور اس پر پوری نماز پڑھنا لازم ہو جائے گی
٨. مسافر جب تک تین منزل پوری نہ ہو جائے صرف نیت سے مقیم ہو جاتا ہے پس اگر تین منزل کا ارادہ کر کے چلا پھر کچھ دور جا کر ارادہ بدل گیا اور واپس ہو گیا تو جب سے لوٹنے کا ارادہ ہوا تب ہی سے مسافر نہیں رہا اگرچہ وہ جنگل میں ہو اور اگر تین منزل طے کرنے کے بعد واپسی کی نیت کرے تو اب اپنے شہر میں داخل ہونے سے پہلے تک نماز قصر کرتا رہے

نیت اقامت کے مسائل
١. جب تک سفر کرتا رہے اور جب تک تین منزل طے کرنے کے بعد کسی شہر یا قصبہ یا گائوں (آبادی) میں ایک ساتھ پندرہ دن ٹھرنے کی نیت نہ کرے تب تک برابر سفر کا حکم رہے گا اور نماز قصر کرتا رہے گا اور جب کسی آبادی میں پندرہ دن یا زیادہ ٹھرنے کی نیت کر لے گا تو نیت کرتے ہی پوری نماز پڑھنی لازم ہو گی اور اگر تین منزل چلنے سے پہلے واپسی کا ارادہ کیا یا اقامت کی نیت کی تو جنگل میں ہی مقیم ہو جائے گا اور نیت کرتے ہی اس کو پوری نماز پڑھنی ہو گی
٢. مسافر کے مقیم ہونے اور پوری نماز پڑھنے کے لئے چھ شرطیں ہیں ١. اقامت کی نیت کرنا،
٢. ایک ہی جگہ پندرہ دن یا زیادہ ٹھرنے کی نیت کرنا،
٣. اپنا ارادہ مستقل رکھتا ہو یعنی کسی کا تابع نہ ہو،
٤. چلنا موقوف کرنا،
٥. وہ جگہ اقامت کے لائق ہو یعنی بستی ہو جنگل یا دریا وغیرہ نہ ہو،
٦. ایک ہی جگہ پندرہ دن ٹھرنے کی نیت کرے،
٣. کشتی و جہاز میں اقامت کی نیت معتبر نہیں جب تک کہ اس کے کھڑے ہونے کی جگہ آبادی سے متصل نہ ہو، جہاز اور کشتی کے ملازمین ملاح وغیرہ مسافر ہی ہیں خواہ ان کے اہل و عیال اور مال و متاع ہمراہ ہو، اگر کشتی یا جہاز کی بندرگاہ آبادی کے ساتھ متصل ہو اور کشتی یا جہاز بندرگاہ سے روانہ نہ ہوئی ہو تو اس میں سوار مسافر ابھی تک اپنے اصلی وطن میں ہونے کی وجہ سے مقیم ہوں گے اور پوری نماز پڑھیں گے اسی طرح اگر کشتی یا جہاز سفر کے دوران کسی شہر یا بستی سے متصل کنارے پر لنگر انداز ہو جائیں اور پندرہ دن یا زیادہ ٹھرنے کا ارادہ ہو تو اقامت کی نیت کرنے سے وہ لوگ مقیم ہو جائیں گے اور پوری نماز پڑھیں گے
٤. اگر ایک ساتھ پندرہ دن ٹھرنے کی نیت نہ کرے تو نمازِ قصر پڑھے خواہ اس حالت میں پندرہ دن سے زیادہ گزر جائیں مثلاً یہ نیت ہے کہ دو چار دن میں کام ہو جائے گا تو چلا جائے گا لیکن کام پورا نہ ہوا اور پھر دو چار دن میں کام ہو جائے گا لیکن کام پورا نہ ہوا پھر دو چار دن کی نیت کر لی پھر بھی کام پورا نہ ہوا اور ارادہ بدلتا رہا اس طرح خواہ پندرہ دن یا اس سے بھی زیادہ کتنے ہی دن گزر جائیں خواہ برسوں اسی ارادہ پر رہے اس کو نماز قصر ہی پڑھنا چاہئے
٥. نیتِ اقامت کے لئے شرط ہے کہ ایک ہی جگہ پندرہ دن ٹھرنے کی نیت کرے جیسا کہ اوپر بیان ہوا پس اگر کوئی شخص دو مستقل جدا جدا مقامات میں پندرہ دن ٹھرنے کی نیت کرے تو وہ مقیم نہیں ہو گا بلکہ مسافر ہی رہے گا اور نماز قصر پڑھے گا اور اگر ایک مقام دوسرے مقام کے تابع ہو تو دونوں مقامات میں مجموعی طور پر پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت سے مقیم ہو جائے گا
٦. اور اگر دو جدا جدا بستیوں میں پندرہ دن ٹھرنے کی نیت اس طرح کرے کہ دن میں ایک بستی میں رہوں گا اور رات کو دوسری بستی میں تو یہ نیت اقامت درست ہے پس جہاں رات کو رہنے کا قصد ہے وہاں کے حساب سے پندرہ دن کی نیت سے مقیم ہو جائے گا اور دونوں جگہ پوری نماز پڑھے گا
٧. اگر حج کو جانے والے لوگ ایسے دن مکہ معظمہ میں داخل ہوں کہ منیٰ میں جانے تک ان کو مکہ معظمہ میں پندرہ دن یا زیادہ مل جائیں تو وہ مکہ میں مقیم ہو جائیں گے اور پوری نماز پڑھیں گے اور اگر ایسے وقت پہچِے کہ پندرہ دن پورے ہونے سے پہلے ہی منیٰ کو جانا پڑے گا تو اب وہ نیتِ اقامت سے مقیم نہیں ہوں گے، ان کی نیتِ اقامت معتبر نہیں ہے

تابع و متبوع کی نیت کے مسائل
١. جو شخص کسی کے تابع ہو وہ اُسی کی نیتِ اقامت سے مقیم ہو گا اور اسی کی نیت سفر سے سفر پر روانہ ہونے سے مسافر ہو گا
٢. عورت اپنے شوہر کے ساتھ، غلام اپنے مالک کے ساتھ شاگرد اپنے استاد کے ساتھ، نوکر اپنے آقا کے ساتھ، سپاہی اپنے امیر کے ساتھ سفر کرے تو وہ اپنی نیت سے مقیم نہیں ہو گا بلکہ یہ اپنے متبوع کی نیت سے مقیم ہوں گے لیکن عورت اپنے شوہر کے تابع اس وقت ہوتی ہے جب وہ اس کا مہر معجل ادا کر دے، اگر ادا نہ کرے تو وہ اپنی شوہر کی تابع نہیں ہو گی اور مہر معجل والی عورت ہر حال میں اپنی خاوند کے تابع ہے
٣. نابالغ بیٹا اگر باپ کی خدمت کرتا جاتا ہو تو وہ باپ کے تابع ہے
٤. قیدی کی اپنی نیت معتبر نہیں بلکہ وہ قید کرنے والے کے تابع ہے اور جو شخص قرض کے بدلے قرض خواہوں کی قید میں ہو وہ قرض خواہ کے تابع ہے
٥. تابع کو اپنے متبوع کی نیت کا جاننا ضروری ہے اس لئے ہر تابع کو اپنی متبوع سے پوچھ لینا چاہئے اور اس کے کہنے کے مطابق عمل کرنا چاہئے اگر وہ کچھ نہ بتائے تو اس کے عمل سے معلوم کر لیں

مسافر و مقیم کی امامت و اقتدا کے مسائل
١. مسافر کی اقتدا مقیم کے پیچھے وقت کے اندر درست ہے اور مقیم کی اقتدا کی وجہ سے مقتدی مسافر پر بھی چاروں رکعتیں فرض ہو جاتی ہیں
٢. مقیم کی اقتدا مسافر کے پیچھے ادا و قضا دونوں صورتوں میں درست ہے جب کہ دونوں ایک ہے نماز قضا کریں پس اگر مسافر امام ہے اور مقتدی مقیم ہے تو جب مسافر امام اپنی دو رکعتیں پوری کر کے سلام پھیر دے تو جو مقتدی ہو وہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے بلکہ اپنی نماز پوری کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں اور انفرادی طور پر اپنی اپنی دو رکعتیں پوری کر کے قعدہ کریں اور سلام پھیر دیں لیکن یہ ان دو رکعتوں میں فاتحہ و سورة نہ پڑھیں کیونکہ وہ لاحق کی مثل ہیں پس وہ سورة الحمد کی مقدار اندازاً چپ کھڑے ہونے کے بعد رکوع و سجود کریں ہر شخص اپنے اپنے اندازے کے مطابق قیام کرے اگر ان دو رکعتوں میں کوئی سہو ہو جائے تو سجدہِ سہو بھی نہ کرے
٣. مسافر امام کے لئے یہ مستحب ہے کہ دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد فوراً اپنے مقتدیوں کو کہہ دے" میں مسافر ہوں آپ اپنی نماز پوری کر لیں" زیادہ بہتر یہ ہے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے کہہ دیں ورنہ سلام پھیرنے کے بعد فوراً کہہ دیں اگر شروع میں کہہ دیا ہے تب بھی بعد میں کہہ دینا بہتر ہے تاکہ بعد میں شامل ہونے والوں کو بھی معلوم ہو جائے

نماز کے اندر نیت بدلنے کے مسائل
١. اگر مسافر وقتی نماز پڑھنے کی حالت میں اقامت کی نیت کر لے خواہ اول میں یا درمیان میں یا اخیر میں تو وہ پوری نماز پڑھے مثلاً اگر کسی مسافر نے ظہر کی نماز شروع کی اور ایک رکعت پڑھنے کے بعد اقامت کی نیت کر لی تو وہ چار رکعت پوری کرے لیکن اگر وقت گزر جانے کے بعد یا مسافر لاحق نے مسافر امام کے فارغ ہونے کے بعد لاحق ہونے کی حالت میں اقامت کی نیت کی تو اس نیت کا اثر اس نماز میں ظاہر نہ ہو گا مثلاً کسی مسافر نے ایسے وقت ظہر کی نماز شروع کی کہ ایک رکعت پڑھنے کے بعد ظہر کا وقت ختم ہو گیا اس کے بعد اس نے اقامت کی نیت کی تو یہ نیت اس نماز میں اثر نہ کرے گی اس لئے اس کو یہ نماز قصر کی پڑھنی ہو گی لیکن اگر ایک رکعت پڑھنے کے بعد وقت کے اندر اقامت کی نیت کر لی اور نیت کر لینے کے بعد ظہر کا وقت نکل گیا تو اس کو پوری نماز یعنی چار رکعت پڑھنی ہو گی اسی طرح اگر کوئی مسافر ظہر کی نماز میں کسی مسافر کا مقتدی ہوا اور پھر لاحق ہو گیا اور اپنی لاحقانہ نماز ادا کرنے لگا اور مسافر امام کے فارغ ہونے کے بعد اس لاحق مقتدی نے اقامت کی نیت کر لی تو اس نیت کا اثر اس کی نماز پر نہیں پڑے گا اور اس کو نماز قصر ہی پڑھنی ہو گی اور اگر امام کے فارغ ہونے سے پہلے اقامت کی نیت کرلی تو پوری نماز یعنی چار رکعتیں پڑھے
٢. اگر کسی نماز کے اول وقت میں کوئی شخص مسافر تھا وہ نماز اس نے قصر پڑھ لی پھر اُسی وقت میں اقامت کی نیت کر لی یا اپنے وطن واپس آ گیا تو اس کا اثر اس نماز میں ظاہر نہیں ہوا اور وہ قصر پڑھی ہوئی نماز کافی ہو گی اور اگر ابھی نماز نہیں پڑھی کہ وقت کے اندر اقامت کی نیت کر لی یا اپنے وطن واپس آ گیا تو اب پوری نماز پڑھے گا اس طرح اگر کسی مقیم نے وقتی نماز نہیں پڑھی تھی کہ اس وقت میں وہ مسافر ہو گیا تو اب قصر نماز پڑھے گا اور اگر پوری نماز پڑھنے کے بعد اس وقت میں سفر ہو گیا تو وہی پڑھی ہوئی نماز کافی ہے غرض کہ وقتی فرض ادا کر چکنے کے بعد نیت و حالت بدلنے سے اس وقتی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ اس کا اثر اگلے وقتوں پر پڑے گا
٣. اگر وقتی نماز نہیں پڑھی اور اس کا وقت نکل گیا اور اس کے بعد مسافر نے اقامت کی نیت کی تو وہ قصر نماز قضا پڑھے گا اور اگر مقیم نے وقتی نماز نہیں پڑھی اور وقت نکل جانے کے بعد سفر شروع کر دیا تو وہ پوری قضا کرے گا خلاصہ یہ ہے کہ اگر سفر میں قصر نماز قضا ہو گئی تو اس کو قصر ہی پڑھے خواہ سفر کی حالت میں قضا کرے یا اقامت کی حالت میں، اور اگر اقامت کی حالت میں کوئی نماز قضا ہوئی ہو تو اس کو پوری یعنی چار رکعتیں ہی قضا کرے خواہ سفر میں قضا کرے یا حالت اقامت میں

وطنِ اصلی و وطنِ اقامت کی تشریح
١. وطن دو قسم کا ہوتا ہو اول وطن اصلی اور وہ اس کو پیدا ہونے کی جگہ ہے جبکہ وہ وہاں رہتا ہو یا وہ جگہ جہاں اس کو اہل و عیال رہتے ہوں اور اس نے اس کو گھر بنا لیا ہو
٢. دوم وطنِ اصلی وطنِ اصلی سے باطل ہو جاتا ہے خواہ اس کے درمیان مسافتِ سفر ہو یا نہ ہو، پس اگر کسی شخص نے اپنا شہر بلکل چھوڑ دیا اور کسی دوسری جگہ اپنا گھر بنا لیا اور اپنے بیوی بچوں سمیت وہاں رہنے لگا، پہلے شہر اور پہلے گھر سے کچھ مطلب نہیں رکھا تو اب یہ دوسرا شہر اس کا وطنِ اصلی بن گیا اور پہلا شہر اس کے لئے پردیس ہو گیا
٣. وطنِ اصلی سفر کرنے سے باطل نہیں ہوتا اور وطن اقامت سے بھی باطل نہیں ہوتا، اس لئے جب بھی اپنے وطنِ اصلی میں آ جائے گا پوری نماز پڑھے گا اگرچہ ایک ہی نماز کے وقت کے لئے آیا ہو اور خواہ اپنے اختیار سے آیا ہو یا اثنائے سفر میں کسی ضرورت کے لئے یا وہاں سے گزرنے کی نیت سے اس میں داخل ہوا ہو اور خواہ اقامت کی نیت کرے یا نہ کرے ہر حال میں پوری نماز پڑھے
٤. ایک وطنِ اقامت دوسرے وطنِ اقامت سے باطل ہو جاتا ہے نیز شرعی سفر کرنے یا وطنِ اصلی میں پہچ جانے سے بھی باطل ہو جاتا ہو پس اگر ایک وطنِ اقامت کو ترک کر کے دوسری جگہ وطن اقامت بنا لیا یعنی دوسری جگہ پندرہ دن یا زیادہ قیام ٹھرنے کی نیت کر لی تو پہلا وطنِ اقامت ختم ہو گیا خواہ ان دونوں جگہوں کے درمیاں مسافت سفر ہو یا نہ ہو، اسی طرح اگر وطنِ اقامت سے سفر شرعی یعنی تین منزل پر روانہ ہو جائے تو اقامت باطل ہو جائے گی اور دوبارہ اس جگہ پر آنے پر قصر نماز ادا کرے گا اور اگر وطنِ اقامت سے سفر شرعی سے کم مقدار پر روانہ ہو گا تو وطنِ اقامت باطن نہیں ہو گا اور دوبارہ یہاں آنے پر پوری نماز پڑھے گا اسی طرح اگر اپنے وطنِ اصلی میں داخل ہو گیا تب بھی وطنِ اقامت باطل ہو جائے گا اور دوبارہ یہاں آنے پر قصر کرے گا لیکن اگر ان صورتوں میں دوبارہ اس مقام پر آ کر پندرہ دن یا زیادہ ٹھرنے کی نیت کر لے گا تو اب دوبارہ وطنِ اقامت ہو جائے گا


متفرق مسائل
١. جمعہ کے روز زوال سے پہلے سفر کے واسطے گھر سے نکلنا مکروہ نہیں، اگرچہ ایسی جگہ جائے جہاں جمعہ فرض نہ ہو
٢. جمعہ کے روز زوال کے بعد جمعہ ادا کرنے سے پہلے نکلنا مکروہِ تحریمی ہے کیونکہ اس کو نماز جمعہ میں حاضر ہونا واجب ہے پس جمعہ ادا کر کے سفر کرے
٣. عورت شرعی سفر یعنی تین منزل یا اس سے زیادہ سفر بالغ محرم یعنی شوہر، بھائی، باپ وغیرہ کے بغیر نہ کرے اور محرم کے لئے بھی یہی شرط ہے کہ وہ فاسق بیباک اور غیر مامون نہ ہو پس جس کو اللّٰہ اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ڈر نہ ہو اور شرعیت کی پابندی نہ کرتا ہو ایسے محرم کے ساتھ بھی سفر کرنا درست نہیں ہے، ایک یا دو دن کا سفر بھی بغیر محرم کے کرنا بہتر نہیں ہے لیکن اگر قافلے کے ساتھ ہو تو تین دن سے کم کی راہ بغیر محرم کے جانا جائز ہے
٤. دو شنبہ ( پیر) اور پنجشنبہ ( جمعرات) کو سفر کرنا مستحب و بہتر ہے، سفر پر جانے سے پہلے دو رکعت نماز نفل گھر پر پڑھنا اور سفر سے واپسی پر محلہ کی مسجد میں دو رکعت نماز نفل پڑھنا مستحب ہے
٥. اگر مسافر کو چوروں، ڈاکوئوں یا کسی دشمن یا بلا کا خوف ہو یا قافلہ نماز پڑھنے کی مقدار نہ ٹھرے تو نماز کو موخر یا قضا کر سکتا ہے جبکہ نماز پڑھنے پر کسی طرح قادر نہ ہو مثلاً سواری پر نہیں ہے، پس قدرت ہوتے ہوئے قضا کر دینے سے گناہگار ہو گا اور اگر قادر نہ ہو تو گناہگار نہیں ہو گا

سواری پر اور کشتی میں نماز پڑھنے کے مسائل
١. شہر یا بستی سے باہر گھوڑے وغیرہ جانور پر سوار ہو کر نفل نماز پڑھنا جائز ہے، خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو، اور جدھر کو جانور جاتا ہو اُدھر ہی کو نماز پڑھے کیونکہ سواری پر نماز میں قبلے کی طرف منھ کرنا شرط نہیں ہے لیکن اگر شروع کرتے وقت ممکن ہو تو استقبالِ قبلہ مستحب ہے جانور کے رخ کے خلاف سمت کو نماز پڑھنا جائز نہیں ہے
٢. شہر (آبادی) کے اندر جانور پر سوار ہو کر نفل نماز پڑھنا امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز نہیں، امام ابو یوسف کے نزدیک بلا کراہت جائز ہے اور امام محمد کر نزدیک کراہت کے ساتھ جائز ہے
٣. شہر سے باہر نکلنے کے بعد مسافر اور غیر مسافر اس حکم میں برابر ہیں اس لئے اگر کوئی شخص اپنی کھیتوں وغیرہ کی طرف یا گرد و نواخ میں جاتا ہو اور سفر شرعی نہ ہو تب بھی سواری پر نفل نماز پڑھنا جائز ہے
٤. سنتُ مئوکدہ و غیر مئوکدہ سب نفل کے حکم میں ہیں لیکن سنتِ فجر امام ابو حنیفہ کے نزدیک بلا عذر سواری پر پڑھنا جائز نہیں
٥. سواری پر نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ اشاروں سے نماز پڑھے یعنی جس طرح سواری پر بیٹھا ہو نیت باندہ کر قرآت وغیرہ بدستور پڑھ کر رکوع و سجدہ اشارہ سے کرے اور سجدے کا اشارہ رکوع سے زیادہ جھکا ہوا ہو اور بدستور قعدے میں تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرے اور سجدہ میں کسی چیز پر اپنا سر نہ رکھے خواہ جانور چلتا ہو یا کھڑا ہو اس لئے کہ ایسا کرنا مکروہ ہے
٦. شہر سے باہر سواری پر نماز پڑھنے میں اگر جانور اپنے آپ چلتا ہو تو ہانکنا جائز نہیں اور اگر اپنے آپ نہ چلتا ہو تو عملِ قلیل سے ہانکنے میں نماز فاسد نہیں ہو گی اور عمل کثیر سے ہانکنے میں نماز فاسد ہو جائے گی
٧. اگر نفل نماز زمین پر شروع کی پھر جانور پر سوار ہو کر اس کو پورا کیا تو جائز نہیں اور اگر سواری پر شروع کی اور زمین پر اتر کر پورا کیا تو جائز ہے اور یہ حکم اس وقت ہے جبکہ عملِ قلیل سے اُترا ہو مثلاً پائوں ایک طرف کو لٹکا کر پھسل جائے
٨. اگر سواری کے جانور پر نجاست ہو تو وہ مانع نماز نہیں، خواہ قلیل ہو یا کثیر لیکن نمازی کے بدن یا لباس پر ناپاکی ہو گی تو نماز جائز نہ ہو گی
٩. ہر شخص کو اپنی اپنی سواری پر اکیلے اکیلے نماز پڑھنے چاہئے اگر وہ جماعت سے پڑھیں گے تو امام کی نماز جائز ہو گی جماعت کی جائز نہ ہو گی اور اگر مقتدی سب ایک ہی جانور پر سوار ہوں تو سب کی نماز جائز ہو جائے گی
١٠. جانور پر محمل (عمّاری) میں اور گاڑی میں نفل نماز پڑھنے کا وہی حکم ہے جو جانور پر پڑھنے کا بیان ہوا
١١. پیدل چلنے کی حالت میں بالاجماع نماز پڑھنا جائز نہیں ہے

فرض نماز سواری پر پڑھنے کے مسائل
١. جانور پر سواری کی حالت میں فرض نماز پڑھنا بلا عذر جائز نہیں اور عذر کے ساتھ جائز ہے نماز جنازہ، نماز وتر، و نذر اور وہ نفل و سنت نماز جس کو شروع کر کے توڑ دینے کی وجہ سے قضا کرنا واجب ہے اور سوار نہ ہونے کی حالت میں پڑھی ہوئی آیت سجدہ ان کا حکم بھی فرض نماز کی طرح ہے
٢. وہ عذرات جن سے فرض نماز سواری پر پڑھنا جائز ہے، یہ ہیں جانور سے اترنے میں اپنی جان و مال و اسباب یا جانور کی حق میں چور ڈاکو درندہ یا دشمن کا خوف ہو یا ساتھیوں کے چلے جانے کا خوف ہو یا جانور شریر ہو کہ اترنے کے بعد اس پر نہ چڑھ سکے گا یا بیماری یا ضعیفی کی وجہ سے دوبارہ نہ چڑھ سکے گا اور کوئی دوسرا آدمی چڑھانے والا بھی موجود نہ ہو یا عورت ہو جو بغیر مدد کے اتر چڑھ نہ سکتی ہو اور محرم موجود نہ ہو، یا عورت کو کسی فاسق سے خوف ہو، یا تمام زمین میں کیچڑ ہو کہیں خشک جگہ نماز کے لئے نہ ہو، عذر کی حالت میں سواری پر پڑھی ہوئی فرض و واجب نماز کا عذر دور ہونے کے بعد اعادہ لازم نہیں
٣. اگر سواری کو ٹھہرا کر قبلے کی طرف منھ کر کے نماز پڑھنا ممکن ہو تو فرض و واجب نماز کے لئے سواری کو ٹھہرانا اور قبلے کی طرف منہ کرنا لازمی ہے ورنہ نماز جائز نہیں ہو گی اور اگر ٹھہرانا ممکن ہے لیکن استقبال قبلہ ممکن نہیں تو ٹھہرانا لازمی ہو اور استقبال قبلہ معاف ہے اور اگر ٹھہرانا ممکن نہ ہو لیکن استقبال قبلہ ممکن ہو تو استقبال قبلہ لازمی ہے اور ٹھہرانا معاف ہے
٤. فرض و واجب نمازوں کے سواری پر ادا کرنے کے باقی مسائل وہی ہیں جو نوافل کے سواری پر ادا کرنے کے بیان ہوئے
٥. اگر محمل یا گاڑی ( بہلی یکہ وغیرہ) کا ایک سرا ( جوا) جانور کے اوپر رکھا ہو تو خواہ وہ گاڑی چلتی ہو یا ٹھہری ہوئی ہو اس میں نماز پڑھنے کا حکم وہی ہے جو جانور پر نماز پڑھنے کا ہے یعنی فرض و واجب بلا عذر جائز نہیں اور سنت و نفل بلا عذر جائز ہیں اور اگر گاڑی کا جوا جانور پر نہ ہو تو وہ زمین یا تخت کے حکم میں ہے پس اس میں نماز فرض بلا عذر بھی جائز ہے مگر قیام پر قدرت ہوتے ہوئے کھڑے ہو کر پڑھے اور اگر قیام پر قدرت نہ ہو اترنا بھی ممکن نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھے

کشتی و جہاز میں نماز پڑھنے کے مسائل
١. اگر کشتی یا جہاز پانی پر چل رہا ہو تو فرض و واجب نماز عذر کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنا بالاتفاق جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک بلا عذر جائز نہیں یہی مختار و معتبر ہے ، عذرات یہ ہیں سر چکرانا، گر پڑنا اور قدم نہ جمنا، کشتی سے باہر نکنے پر قادر نہ ہونا
٢. اگر کشتی پانی پر چل نہ رہی ہو بلکہ کنارے پر بندھی ہوئی ہو تو اس میں قیام پر قادر ہوتے ہوئے بیٹھ کر نماز پڑھنا بالاجماع جائز نہیں کیونکہ یہ زمین کی مثل ہے لیکن جس عذر کی وجہ سے زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے اسی عذر سے کشتی و جہاز میں بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے
٣. کشتی و جہاز میں نماز شروع کرتے وقت قبلے کی طرف منہ کرنا لازمی ہے خواہ وہ نماز فرض و واجب ہو یا سنت و نفل ہو اور جب کشتی گھومے تو نماز پڑھنے والا بھی اپنا منھ قبلے کی طرف پھیر لے اور ہر دفعہ کشتی کے گھومنے کے ساتھ قبلے کی طرف گھومتا جائے یہاں تک کہ تمام نماز قبلے کی طرف پوری کر لے، اگر قدرت کے باوجود قبلے کی طرف نہیں گھومے گا تو اس کی نماز بالاتفاق جائز نہ ہو گی
٤. کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں رکوع و سجود پر قادر ہوتے ہوئے اشاروں سے نماز پڑھنا بالاجماع جائز نہیں، اور اگر رکوع و سجود پر قادر نہ ہو تو اشارہ سے نماز پڑھنا جائز ہے
٥. ایک کشتی میں جماعت سے نماز پڑھنے کے وہی مسائل ہیں جو زمین پر جماعت کرنے کے ہیں، ایک کشتی میں سوار آدمی کی اقتدا دوسری کشتی میں سوار آدمی کے پیچھے جائز نہیں یعنی امام کی نماز ہو جائے گی مقتدی کی جائز نہیں ہو گی لیکن دونوں کشتیاں ملی ہوئی ہوں خواہ بندھی ہوں یا ویسے ہی قریب قریب ہوں تو اقتدا جائز ہے

ریل گاڑی میں نماز پڑھنے کے مسائل
١. ریل گاڑی میں نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ نماز فرض و واجب ہو یا سنت و نفل ہو اور خواہ کوئی عذر ہو یا نہ ہو اور خواہ وہ ریل گاڑی چل رہی ہو یا ٹھہری ہوئی ہو اس لئے کہ ریل گاڑی زمین پر رکھے ہوئے تخت کی مانند ہے اور جانور پر رکھی ہوئی گاڑی کی مانند بھی مان لیا جائے تب بھی عذر کی وجہ سے اترنے کی ضرورت نہیں کیونکہ چلتی ریل میں سے اترنا ممکن نہیں اور کھڑی ریل میں سے اترے گا تو اس کے چل دینے یا مال و اسباب کے جاتے رہنے کا اندیشہ ہے اور اگر یہ امید ہو کہ نماز کا وقت باقی رہنے تک اترنے کا موقع مل جائے گا تب بھی ریل گاڑی میں نماز پڑھنا جائز ہے کیونکہ نماز شروع کرتے وقت عذر کا ہونا معتبر ہے اگرچہ آخر وقت میں اس عذر کےدور ہو جانے کی امید ہو لیکن آخر وقت تک کا انتظار کرنا مستحب ہے
٢. ریل گاڑی میں نماز پڑھنے والے کے لئے استقبالِ قبلہ پر قادر ہوتے ہوئی قبلے کی طرف منھ کرنا ضروری ہے اور اگر ریل گاڑی گھومے تو نمازی بھی گھوم کر قبلے کی طرف منھ کر لے، اسی طرح قیام پر قدرت ہوتے ہوئے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ضروری ہے ورنہ نماز نہ ہو گی اور قیام پر قادر نہ ہو تو اخیر وقت تک انتظار کرے پھر بھی قادر نہ ہو تو جس طرف کو ہو سکے نماز پڑھ لے اگر ریل گاڑی اسقدر ہلتی ہو کہ چکر کھانے یا گر جانے کاخوف ہو تو یہ عذر ہے اس کو بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے اگر یہ ممکن ہے کہ ریل گاڑی کے ڈبہ کے فرش پر ایک تختہ پر کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور دوسرے تختہ پر سجدہ کرے تو اسی طرح کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری ہے اگرچہ اس صورت میں گھٹنے زمین پر نہیں لگتے پس ایسی صورت پر قدرت ہوتے ہوئے بیٹھ کر نماز پڑھے گا تو نماز نہ ہو گی اس طرح اگر اس شکل سے قبلے کی طرف منھ کرنے پر قادر ہو تو استقبالِ قبلہ ضروری ہے اس کے بغیر نماز نہ ہو گی

 

No comments:

Post a Comment