Tuesday 2 August 2016

جنگ آزادی میں دارالعلوم دیوبند کا کردار

جنگ آزادی میں اکابردیوبند (حاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله ،مولاناقاسم نانوتوی رحمه الله ، مولانارشیداحمد گنگوہی رحمه الله) اور فرزندان دارالعلوم دیوبند(شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله ، مولاناحسین احمدمدنی  رحمه الله ، مولاناعبیدالله سندھی رحمه الله ، مولانا عزیز گل پیشاوری رحمه الله ، مولانا منصورانصاری رحمه الله ، مولانا فضل ربی رحمه الله ، مولانا محمداکبر رحمه الله ، مولانا احمدچکوالی رحمه الله ، مولانا احمدالله پانی پتی رحمه الله ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمه الله وغیرہم) کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ 1912ء میں ریشمی رومال تحریک کی ابتداء ہوئی،جس کے بانی فرزندِ اول دارالعلوم دیوبند تھے، جن کودنیاشیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله کے نام سے جانتی ہے، بقول مفکراسلام حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی رحمه الله :”آپ(شیخ الہند)انگریزی حکومت اور اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے،سلطان ٹیپو کے بعدانگریزوں کاایسادشمن اورمخالف دیکھنے میں نہیں آیا“۔اس تحریک میں اہم رول آپ کے شاگردمولاناعبیدالله سندھی رحمه الله نے ادا کیا، افغانستان کی حکومت کومدد کے لیے تیارکرنااورانگریزوں کے خلاف رائے عامہ بنانا مولانا عبیدالله سندھی رحمه الله  کامشن تھا۔ شیخ الہند رحمه الله کے نمائندے ملک کے اندر اور ملک کے باہرسرگرم اورفعال تھے، افغانستان، پاکستان، صوبہ سرحداورحجازکے اندرقاصدکاکام کررہے تھے،خلافتِ عثمانیہ کے ذمہ داروں سے مثلاًانورپاشاہ وغیرہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،اورترکی جانے کاشیخ الہند نے خودعزم مصمم کرلیا تھا، اس مقصدکے لیے پہلے وہ حجازتشریف لے گئے اوروہاں تقریباًدوسال قیام رہا،اس اثنا میں دوحج کیے،مکہ مکرمہ پہنچ کرحجازمیں مقیم ترک گورنرغالب پاشاسے ملاقاتیں کیں، اورترکی کے وزیر جنگ انورپاشاسے بھی ملاقات کی، جوان دنوں مدینہ آئے ہوئے تھے،انھیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیااوراپنے منصوبہ سے واقف کرایا،ان دونوں نے شیخ الہند رحمه الله  کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے، ان کے منصوبے کی تائیدکی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنے اوراپنی حکومت کے تعاون کایقین دلایا، مولانا عبیدالله سندھی رحمه الله نے کابل سے ریشمی رومال پرجوراز دارانہ خطوط شیخ الہند مولانامحمودحسن  رحمه الله کومکہ مکرمہ روانہ کیے تھے، ان کوحکومت برطانیہ کے لوگوں نے پکڑلیا، یہی شیخ الہند رحمه الله  کی گرفتاری کاسبب بنی اورپورے منصوبے پر پانی پھیردیا۔1916 ء میں شریف حسین کی حکومت نے ان کومدینہ منورہ میں گرفتار کرکے انگریزی حکومت کے حوالہ کردیا۔شریف حسین نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت اور غداری کی تھی، وہ برطانوی حکومت کاوفاداردوست تھا اورخلافت عثمانیہ اورمسلمانوں کی تحریک آزادی کاشدید مخالف تھا۔1917ء میں شیخ الہند رحمه الله  اور ساتھوں کوبحیرئہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلاوطن کیاگیا۔ مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله ،مولاناعزیزگل پیشاوری رحمه الله ،مولاناحکیم نصرت حسین رحمه الله ،مولاناوحیداحمد رحمه الله وغیرہم نے مدتوں اپنے استاذشیخ الہند رحمه الله کے ساتھ مالٹا کے قیدخانہ میں سختیاں برداشت کیں،مالٹاکے قیدخانہ میں انگریزوں نے شیخ الہند رحمه الله کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا، سخت سے سخت سزائیں دی گئیں؛چنانچہ مولانا حسین احمدمدنی رحمه الله  فرماتے ہیں کہ جب شیخ الہند رحمه الله  کو مالٹا جیل میں نظربندکیاگیاتو انگریزمیرے استادکوایک تہہ خانہ میں لے گئے اور لوہے کی گرم تپتی ہوئی سلاخیں لے کرکمرپرلگاتے رہے اور ساتھ میں یہ فرماتے رہے کہ ”اے محمودحسن! انگریزکے حق میں فتوی دے“جب شیخ الہند رحمه الله ہوش میں آتے توصرف یہی فرماتے تھے کہ ”اے انگریز!میرا جسم پگھل سکتاہے، میں بلال کاوارث ہوں، میری جلدادھیڑسکتی ہے؛ لیکن میں ہرگز ہرگز تمہارے حق میں فتوی نہیں دے سکتا۔“شیخ الہندکی تحریک میں مولانامنصورانصاری رحمه الله ، مولانا فضل ربی رحمه الله ، مولانافضل محمود رحمه الله ،مولانامحمداکبر رحمه الله کاشماراہم ارکان میں تھا۔مولانا عبدالرحیم رائے پوری رحمه الله ، مولانا محمداحمدچکوالی رحمه الله ، مولانامحمدصادق کراچوی رحمه الله ، شیخ عبدالرحیم سندھی، مولانا احمدالله پانی پتی، ڈاکٹراحمدانصاری وغیرہ سب مخلصین بھی مخلصانہ تعلق رکھتے تھے،ان کے علاوہ مولانا محمدعلی جوہر رحمه الله ، مولاناابواکلام آزاد رحمه الله ،مولانااحمدعلی لاہوری رحمه الله ،حکیم اجمل خان وغیرہ بھی آپ کے مشیر ومعاون تھے ۔

                1919ء میں جمعیة علماء ہندکاقیام عمل میں آیا،جس کے بنیادی ارکان میں شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمه الله ،مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله ، مولاناعطاء الله شاہ بخاری، مولانا ثناء الله امرستری رحمه الله ، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله ، مولانامحمدعلی جوہر،مولاناشوکت علی،مولانا ابوالمحاسن سجاد، مولانا احمدعلی لاہوری رحمه الله ، مولاناابوالکلام آزاد، مولاناحفظ الرحمن سیورہاروی رحمه الله ، مولانا احمدسعید دہلوی رحمه الله ، مولانا سیدمحمدمیاں دیوبندی رحمه الله  جیسے دانشوران قوم تھے۔شیخ الہند رحمه الله  کی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29جولائی 1920ء کوترکِ موالات کافتوی شائع کیاگیا۔

                آپ کی وفات کے بعدآپ کے جاں نثارشاگردمولاناحسین احمدمدنی رحمه الله نے آپ کے اس مشن کو جاری رکھا، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله کی وفات کے بعد1940ء سے تادم آخیرجمعیة علماء ہند کے صدررہے،کئی باربرطانوی عدالتوں میں پھانسی کی سزاسے بچے،آپ انگریزوں کی حکومت سے سخت نفرت رکھتے تھے،آپ دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث کے منصب پربھی فائز تھے۔ آزادی کے بعداصلاحی کاموں میں مصروف ہوگئے،دینی خدمت وتزکیہ نفوس کے مقدس مشن میں لگے رہے،5ڈسمبر1957ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودہ خواب ہیں۔

No comments:

Post a Comment