Thursday 11 August 2016

کیسا ہے سرخ اور زرد رنگ کے کپڑے کا استعمال؟

سرخ اور زرد رنگ کے کپڑے کا استعمال شرعا کیسا ہے؟

شریعت نے ہر قسم کے رنگ کے کپڑوں کے استعمال کی اجازت دی ہے ۔کسی بھی خاص قسم کے رنگ کی تعیین وتحدید نہیں کی گئ ۔لوگوں کے مزاج ومذاق پہ رنگ کا اختیار چھوڑ دیا گیا۔علامہ حصکفی لکھتے ہیں "ولا باس بسائر الالوان" درمختار علی الرد 5/228۔
لیکن سفید رنگ آپ صلعم کو زیادہ محبوب تھا اور آپ کا معمول مبارک بھی زیادہ تر سفید ہی استعمال کرنے کا تھا دیکھئے بخاری باب الثیاب البیض حدیث نمبر 5826۔کتاب اللباس باب نمبر 24۔۔۔اور اسی رنگ کے کپڑے میں مردوں کے کفنانے کا حکم بھی آپ نے دیا۔دیکھئے ابودائود۔وترمذی۔مجمع الزوائد باب فی البیاض 5/128۔۔۔فقہاء بھی یہی لکھتے ہیں " ویستحب الابیض" شامی 5/223۔فصل فی اللبس۔

سفید کے بعد آپ صلعم کا پسندیدہ رنگ سیاہ تھا۔فتح مکہ کے روز سیاہ عمامہ زیب تن فرما کر مکہ داخل ہوئے تھے۔دیکھئے ترمذی ۔کتاب اللباس باب ماجاء فی العمامہ السوداء ۔
آپ نے ام خالد کو ایک سیاہ چادر بطور تحفہ عطا فرمایا تھا دیکھئے بخاری باب الخمیصہ السوداء حدیث نمبر 5823۔۔اگر روافض کا علاقہ نہ ہو اور ماتم کے لئے استعمال مقصود نہ ہو تو سیاہ رنگ بھی پسندیدہ ہے دیکھئے فتح الباری حدیث نمبر 5823۔۔۔وھندیہ 5/330۔الباب التاسع فیما یکرہ۔
اس کے بعد سبز رنگ بھی پسندیدہ ہے ۔حضرت رمثہ نے حضور کے جسد اطہر پہ دو سبز چادریں دیکھیں۔فتح الباری رقم 5825۔۔اسی لئے سبز رنگ بھی مسنون ہے۔دیکھئے شامی 5/223۔
سرخ لباس کے بارے میں احادیث مختلف ہیں۔عدم جواز والی روایات سند کے اعتبار سے کمزور ہیں۔امام بخاری نے سرخ لباس کے استعمال کے جواز پہ مستقلا باب قائم فرمایا ہے۔باب الثوب الاحمر ۔کتاب اللباس باب نمبر 35۔اس باب کے تحت براء بن عازب کی حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے آپ صلعم کو سرخ لباس میں ملبوس دیکھا۔ رایتہ فی حلہ حمرآء ما رایتہ شیئا احسن منہ۔بخاری حدیث نمبر 5848۔
علامہ ابن حجر نے اس سلسلہ میں علماء کے سات اقوال نقل فرما کر آخر میں فیصلہ فرمائے ہیں۔اور امام مالک کے حوالہ سے شاندار تطبیق دیئے ہیں۔مالکیہ اور شافعیہ سے سرخ رنگ کےاستعمال کا جواز منقول ہے۔ ۔۔احناف کے یہاں مکروہ تحریمی اور تنزیہی دونوں قول ملتا ہے۔صاحب مذھب امام ابو حنیفہ سے جواز واباحت منقول ہے۔۔۔علامہ شامی کی تطبیق یہ ہے کہ حرمت اس وقت ہے جبکہ کفار و مشرکین یا عجمیوں سے تشبہ مقصود ہو یا ازراہ تکبر استعمال کیا ہو۔ورنہ بلا کراہت جائز ہے۔شامی 5/228۔
آپ نے زعفرانی رنگ کی حرمت کا جو بخاری کا حوالہ دیا ہے ۔وہ بالکل فراڈ ہے ۔صحیح بخاری کی کل حدیث 7563۔ہے جبکہ حوالہ میں حدیث نمبر 7763 مرقوم ہے۔جو قطعا غلط ہے۔
ہاں صحیح بخاری میں زعفرانی رنگ کے استعمال کی حرمت آئ ہے۔جسکا نمبر ہے 5847۔عن ابن عمر قال نھی النبی ان یلبس المحرم ثوبا مصبوغا بورس او بزعفران ۔۔
حافظ خود لکھتے ہیں کہ یہ ممانعت صرف محرم کے لئے ہے۔حلال شخص کے لئے زعفرانی رنگ کا استعمال جائز ہے۔۔امام مالک کا یہی مسلک ہے۔دیکھئے فتح الباری 13/335۔
زعفرانی رنگ کے جواز پہ طبرانی کی یہ روایت صحیح وصریح ہے۔عن ام سلمہ ان رسول اللہ صبغ ازارہ ورداءہ بزعفران۔فتح الباری 13/335۔
لیمونی رنگ کے جواز کی دلیل ابن عمر کی نعال سبتیہ والی یہ روایت ہے :واما الصفرہ فانی رایت رسول اللہ یصبغ بہا فانا احب ان البسھا۔دیکھئے بخاری ۔حدیث 5851۔
خلاصہ یہ کہ زعفرانی ،زرد اور معصفر کلر تشبہ بالنساء  کی وجہ سے مکروہ ہے۔(تنزیہی ) اور شہرت وتفاخر کے طور پہ ہو تو مکروہ تحریمی ہے۔یہی مطلب ہے فقہاء کے اس قول کا :وکرہ المعصفر والمزعفر الاحمر والاصفر للرجال ۔شامی 5/228۔
ان رنگوں کو مطلقا ناجائز کہنا جہالت اور حدیث سےناواقفیت کی دلیل ہے۔واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

1 comment: