Saturday, 30 August 2025

سوشلستان کا علم فروش عہد

سوشلستان کا علم فروش عہد
(قسط دوم)
-------------------------------
-------------------------------
علم ایک بحرِ بے کنار ہے، جس میں غوطہ زنی کے لئے یکسوئی کی کشتی اور استقامت کا بادبان ناگزیر ہے۔ اگر دل کی توجہ منتشر ہو اور فکر کی سوئیاں ادھر اُدھر بھٹکیں، تو نہ علم کا نور دل میں اترتا ہے اور نہ ذہن کی زمین پر اس کے پھول کھلتے ہیں۔ بحر علم کے شناور بہت پہلے کہہ چکے ہیں:
"لَا يُعْطِيكَ الْعِلْمُ بَعْضَهُ حَتَّى تُعْطِيَهُ كُلَّكَ"
یعنی علم اپنا کوئی ذرّہ بھی نہیں بخشتا جب تک کہ طالب اپنی کل متاع اس پر قربان نہ کردے۔ ہمارے اسلاف کی زندگیاں اس حقیقت کی زندہ تفسیر ہیں۔ امام مسلمؒ ایک حدیث کی تلاش میں اتنے محو ہوئے کہ کھجوروں کا ٹوکرا کھاگئے اور احساس تک نہ ہوا۔ علامہ عبدالحی فرنگی محلؒی مطالعہ میں ایسے منہمک ہوئے کہ چراغ کا تیل پی گئے اور خبر تک نہ ہوئی۔ شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے ایامِ تعلیم میں گھر کے خطوط گھڑے میں ڈال دیئے، عشقِ مطالعہ نے انہیں خط خوانی کا بھی وقت نہ دیا۔ مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ صاحب دیوبندی اگرچہ دیوبند کے رہائشی تھے، مگر شہر کی گلیوں سے ناواقف؛ ان کی کائنات بس "احاطۂ مولسری" اور "آستانۂ شیخ الہند" تھی۔ یہ وہ یکسوئی تھی جس نے انہیں بلند قامت محقق، جلیل القدر محدث، جلیل الشان مفسر اور امت کے رہنما بنا دیا مگر صد افسوس! کہ آج کا طالبِ علم اسی یکسوئی سے محروم ہے۔ جہاں کل کے طلبہ کتابوں کی شمع کے گرد پروانہ وار جلتے تھے، آج کے طلبہ اسمارٹ فون کے اسکرین کے پردوں میں ضائع رہے ہیں، اور سوشلستان کی اسیری پر خود نازاں و فرحاں ہیں۔ جہاں کبھی امتیازی نمبرات اور علمی کمال کا شوق دلوں کو تڑپاتا تھا، وہاں آج "فیس بک کی شہرت" اور "ٹوئیٹر کے ٹرینڈ" نے دلوں کو جکڑلیا ہے۔ درسی پختگی اور مطالعہ کی گہرائی کے بجائے، تبصرے اور چٹخارے والی تحریریں زبان و قلم کا سرمایہ بن گئی ہیں۔
یہ طرزِعمل معمولی خطرہ نہیں، بلکہ طلبۂ دین کے مستقبل پر ایک تیشہ ہے۔ اہلِ مدارس پر فرض ہے کہ اس فتنہ کو محض "نوجوانی کا شوق" سمجھ کر نظر انداز نہ کریں، بلکہ اس کے سد باب کے لئے سنجیدہ اور ٹھوس حکمتِ عملی مرتب کریں۔ یہاں میں اپنے طلبہ عزیز سے بھی یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میرے پیارے بھائیو! ایک لمحہ کے لئے ذرا سوچو، تمہارے اسلاف نے اپنی آنکھوں کی نیند، اپنی خواہشوں کا قرار اور اپنی زندگی کی راحت علم پر قربان کی تھی۔ اگر تم نے اپنی توانائیاں "سوشلستان" کی رنگینیوں میں ضائع کردیں تو یاد رکھو، نہ "اعلاء السنن" جیسے ذخیرے وجود میں آئیں گے، نہ "بذل المجہود" اوجز، الأبواب والتراجم جیسے علمی شاہکار سامنے آئیں گے۔ اپنی راہ پہچانو، اپنی قیمت جانو، اور اپنے اسلاف کے وارث بنو۔ علم کے چراغ کو اپنی یکسوئی کے تیل سے روشن کرو اور سوشل میڈیا کے طوفانوں سے اپنی کشتی بچا کر منزل کی طرف بڑھو۔
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
ہفتہ 6 ربیع الاوّل 1447ھ 30 اگست 2025ء ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_30.html

No comments:

Post a Comment