Monday, 1 September 2025

شمائلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، جلوہ ہائے حسن و کمال: قسط (4)

شمائلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، جلوہ ہائے حسن و کمال: قسط (4)
-------------------------------
-------------------------------
9: چہرۂ نبویؐ — جس کے نور و دلکشی سے چاند بھی شرما جائے:
چہرۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام خصوصیات میں نور و جمال کا کامل نمونہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی خوبصورتی، چمک دمک، نورانیت اور صفائی سورج اور چاند کی مانند تھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین کوئی چیز نہیں دیکھی، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سورج آپ کے چہرے میں چمک رہا ہو۔" (ترمذی 3648)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاندنی رات میں ایک سرخ جوڑا زیبِ تن کئے ہوئے دیکھا۔ میں آپ کے چہرۂ انور اور چاند کو دیکھنے لگا، تو میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے بھی زیادہ حسین تھے۔" (ترمذی 2811)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین چہرے والے اور بہترین اخلاق والے تھے۔" (بخاری 3356، مسلم 2337)
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "جب آپ خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ اس قدر روشن ہوجاتا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہو۔" (بخاری 3363، مسلم 2769)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: "کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چہرہ تلوار کی مانند تھا؟"
تو انہوں نے فرمایا: "نہیں، بلکہ وہ سورج اور چاند کی مانند تھا اور گول تھا۔" (مسلم 2344)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "حضور ایک روز اس حال میں آئے کہ آپ کے چہرۂ مبارک کے نقوش سے نور پھوٹ رہا تھا۔" (بخاری 3362)
10: پیشانیِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی درخشانی:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اپنے جمال اور نورانیت میں بے مثال تھی، جس کی سفیدی اور چمک نے اسے ایک خاص شان عطا کی۔ روایت میں ہے: "گویا سورج آپ کی پیشانی میں چمک رہا ہو۔" (مسند احمد 8604)
یہ مقدس پیشانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد فی سبیل اللہ کے دوران بھی زخمی ہوئی، جیسا کہ ترمذی کی روایت میں ذکر ہے: "آپ کے چہرے پر زخم آیا اور پیشانی پر چوٹ لگی۔" (ترمذی 3002)
یہی نور سے مزین پیشانی تھی، جب وحی کے نزول کا وقت آتا تو پسینے سے بھرجاتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "سردیوں کی شدت میں بھی جب وحی نازل ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پسینے سے تر ہوجاتی۔" (بخاری 2، مسلم 2333)
11: چشمائے مقدسہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آنکھیں نہایت حسین، سیاہ، کشادہ، بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں۔ جب کبھی سرمہ استعمال فرماتے تو یہ حسن مزید دوبالا ہوجاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پلکیں گھنی اور دراز اور بھنویں باریک اور گتھی ہوئی تھیں۔
آنکھوں میں سرخ رنگ کے ڈورے بھی تھے جو آنکھوں کی انتہائی خوبصورتی کی علامت ہوتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ یک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے، دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔ (زرقانی، شرح المواهب 5/642، مسلم 2339، دلائل النبوہ بیہقی 1/212، مسند احمد 684)
📖 کتابِ جاناں ﷺ، صفحہ 231 … جاری
پیر، 8 ربیع الاوّل 1447ھ، یکم ستمبر 2025ء ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/09/4.html


Saturday, 30 August 2025

کیا اسلام میں تعدد ازدواج مستحسن نہیں ہے؟

کیا اسلام میں تعدد ازدواج مستحسن نہیں ہے؟
-------------------------------
-------------------------------
قرآن کریم نے جس سیاق میں 
(وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً: سورہ النساء آیت ۳) 
دو تا چار خواتین سے نکاح کو مباح کہا ہے وہ ترغیب وتحریض کا اصولی اسلوب نہیں ہے بلکہ عرب کے اس ماحول میں یتیم بچیوں کے سر پرستان یتیموں کے اموال  پر خزانے پہ بیٹھے از دہا کی طرح قبضہ جمائے رکھنے کے لئے معمولی مہر دین کے بدلے ان ہی یتیموں سے نکاح کرلیتے تھے جبکہ وہ اگر دوسری خواتین سے نکاح کرتے تو اتنے معمولی مہر میں نکاح ممکن نہ ہوتا ، یوں زیر پرورش یتیموں کے ساتھ معمولی مہر کے بدلے نکاح کرنا در اصل ان کا مالی استحصال کرنا تھا۔ قرآن کریم نے اس ظالمانہ طریقہ کار کی تردید کی اور جو مسلمان  یتیموں سے شادی کرنا چاہتے ہیں انہیں دو چیزوں کا مکلف بنایا:
اول: یتیموں کو پوری طرح مہر دے کر ان کے ساتھ انصاف کیا جائے، جیسا کہ دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے میں ان کے خاندانی رتبے کا اعتبار کرکے مہر دیا جاتا ہے، یتیموں کی پرورش اور ان کی دیکھ بھال کے دوران  ان پر خرچ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہوں اور انہیں اونے پونے مہروں میں نکاح کرلو۔ 
دوم: اگر یتیم بچیوں کے ساتھ مہر مستحق دے کر انصاف نہیں کرسکتے تو تم ان سے شادی نہ کرو، بلکہ کسی دوسری عورت کے پاس جاؤ جو تمہیں پسند ہو ! تب لگ پتہ جائے گا کہ مہر میں عدل کیا ہوتا ہے؟
صحیح بخاری کی ایک روایت (حدیث نمبر 4574) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک سوال کے جواب میں آیت تعدد کی یہ تفسیر فرمائی ہے کہ :یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی (محافظ رشتہ دار جیسے چچیرا بھائی، پھوپھی زاد یا ماموں زاد بھائی) کی پرورش میں ہو اور ترکے کے مال میں اس کی ساجھی ہو اور وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی پر فریفتہ ہوکر اس سے نکاح کرلینا چاہے لیکن پورا مہر انصاف سے جتنا اس کو اور جگہ ملتا وہ نہ دے، تو اسے اس سے منع کردیاگیا کہ ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ان کے ولی انصاف کرسکیں اور ان کی حسب حیثیت بہتر سے بہتر طرز عمل مہر کے بارے میں اختیار کریں (تو اس صورت میں نکاح کرنے کی اجازت ہے) اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے سوا جو بھی عورت انہیں پسند ہو، ان سے وہ نکاح کرسکتے ہیں۔"
يا ابْنَ أُخْتِي، هذِه اليَتِيمَةُ تَكُونُ في حَجْرِ ولِيِّهَا، تَشْرَكُهُ في مَالِهِ، ويُعْجِبُهُ مَالُهَا وجَمَالُهَا، فيُرِيدُ ولِيُّهَا أنْ يَتَزَوَّجَهَا بغيرِ أنْ يُقْسِطَ في صَدَاقِهَا، فيُعْطِيَهَا مِثْلَ ما يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا عن أنْ يَنْكِحُوهُنَّ إلَّا أنْ يُقْسِطُوا لهنَّ، ويَبْلُغُوا لهنَّ أعْلَى سُنَّتِهِنَّ في الصَّدَاقِ، فَأُمِرُوا أنْ يَنْكِحُوا ما طَابَ لهمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ۔   
اس پس منظر کو سامنے رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ تعدد ازواج والی آیت اصلاً ترغیب تعدد ازواج کے لئے نہیں آئی ہے؛ بلکہ یتیم بچیوں کے مہر کے حوالے سے ناانصافی کے خوف کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے آئی ہے۔
جس آیت سے تعدد ازواج پہ استدلال کیا جاتا ہے، اس کا اصل محمل یہ ہے، ہاں یہ دوسری بات ہے کہ آیت مبارکہ کا عموم تعدد ازواج کے جواز کو ثابت کررہا ہے لیکن یہ اصلاً نہیں؛ تبعاً ہے، اسی لئے علماء کے نقطہائے نظر اس بابت مختلف ہیں کہ جوازِ تعدد سے قطع نظر (کہ بہ نص قرآنی تعدد ازواج ثابت ہے) افضل وبہتر کونسا عمل ہے؟ ایک پہ اکتفا کرنا یا بلاضرورت بیک وقت متعدد نکاح کرنا؟ 
اسی آیت کے بعد والے ٹکڑے 
{وإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} 
میں ترک تعدد کا اشارہ بھی موجود ہے اور اس کی علت بھی بتادی گئی ہے، کہ جہاں متعدد ازواج کے ساتھ مآلاً عدل وانصاف قائم رکھنے کا امکان موجود نہ ہو تو تعدد ازواج کا مباح عمل مرغوب ومستحسن نہیں؛ بلکہ ناپسندیدہ عمل ہوگا اور اگر مرد کو پتہ ہو کہ واقعۃً وہ تعدد زوجات کی صورت میں عدل ومساوات قائم نہیں کرسکے گا تو باتفاق فقہاء تعدد ازواج ناجائز ہے۔ آیت کے اسی ٹکڑے کی بناء پر فقہاء شوافع وحنابلہ ؛بالخصوص امام شافعی رحمہ اللہ نے باضابطہ تصریح فرمادی ہے کہ ایک پر اکتفاء کرنا تعدد کے بالمقابل پسندیدہ عمل ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أُحب له أن يقتصر على واحدة وإن أبيح له أكثر؛ لقوله تعالى: ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾ [النساء: 3] (مختصرالمزني ٣١٨/٢)
خطيب شربيني شافعي رحمه الله فرماتے ہیں:
وَيُسَنُّ أَنْ لَا يَزِيدَ عَلَى امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ ظَاهِرَةٍ. (مغني المحتاج ٢٠٧/٤)
شیخ مرداوی حنبلی فرماتے ہیں: 
ويُسْتَحَبُّ أيضًا أنْ لا يزيدَ على واحِدَةٍ إنْ حصَل بها الإعْفافُ، على الصَّحيحِ مِنَ المذهبِ. (كتاب الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف - ت التركي [المرداوي] ٢٥/٢٠)
شیخ عبدالرحمن بن قاسم حنبلی فرماتے ہیں:
ويسن نكاح واحدة) لأَن الزيادة عليها تعريض للمحرم (حاشية الروض المربع لابن قاسم ٢٢٩/٦)
علامہ ابن قدامة مقدسي فرماتے ہیں:
الأولى أن لا يزيد على امرأة واحدة؛ لقول الله تعالى: ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ﴾ [النساء: 3]، ولقوله سبحانه: ﴿وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ﴾ [النساء: 129] (الشرح الكبير ٢٤/٢٠)
حنفیہ میں علامہ سراج الدین ابن نُجيم مصری رحمه الله فرماتے ہیں: 
لو لم يزد على واحدة كي لا يدخل الغم على ضعيف القلب ورَقَّ عليها فهو مأجور، وتركُ إدخال الغم عليها يُعد من الطاعة، والأفضل الاكتفاء بواحدة [ابن نجيم، النهر الفائق شرح كنزالدقائق، تحقيق: أحمد عزو عناية، طبعة: دارالكتب العلمية- بيروت، ط1، 1422هـ، 2002م، (2/ 197).
فتاوى هنديہ میں ہے:
 إذا كانت للرجل امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى، وخاف أن لا يعدل بينهما لم يجز له ذلك، وإن كان لا يخاف جاز له، والامتناعُ أولى، ويُؤجر بترك إدخال الغم عليها[ الفتاوى الهندية، (1/ 341].
علامہ خرشی مالکی مختصر خلیل کی شرح میں بلا ضرورت نکاح کرنے کو مکروہ اور بیوی کے حقوق ادانہ کرنے کی صورت میں نکاح کرنے کو حرام فرماتے ہوئے لکھتے ہہیں:
وَقَدْ يُكْرَهُ فِي حَقِّ مَنْ لَمْ يَحْتَجْ إلَيْهِ وَيَقْطَعْهُ عَنْ الْعِبَادَةِ وَيَحْرُمُ فِي حَقِّ مَنْ لَمْ يَخْشَ الْعَنَتَ وَيَضُرُّ بِالْمَرْأَةِ لِعَدَمِ قُدْرَتِهِ عَلَى النَّفَقَةِ (شرح الخرشي على مختصر خليل - ومعه حاشية العدوي ١٦٥/٣)
جب بلا ضرورت نفس نکاح مکروہ ہے تو بلا ضرورت ان کے یہاں تعدد ازواج مستحسن وافضل کیسے ہوسکتا ہے؟ ان تمام تصریحات سے واضح ہے کہ جس طرح نکاح کرنے کے کئی حالات ہیں، مثلاً جو  شخص جسمانی اعتبار سے تندرست ہو، مہر اور نان نفقہ ادا کرنے پر قادر ہو، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ اور معصیت  میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو، اور نکاح کی صورت میں بیوی پر ظلم  و زیادتی کا اندیشہ نہ ہو، تو ایسے شخص پر نکاح کرنا واجب ہے۔ اور اگر نکاح نہ کرنے کی صورت میں برائی میں پڑنے کا اندیشہ نہیں ، اور مالی و جسمانی اعتبار سے نکاح کرنے پر قادر ہو تو ایسے شخص پر نکاح کر لینا سنتِ مؤکدہ ہے۔ اگر نکاح کے بعد اندیشہ ہو کہ بیوی کے حقوق ادا نہیں کرپائے گا ، اور ظلم کا مرتکب ہوگا تو نکاح مکروہِ تحریمی ہے، اور اگر اس کا صرف اندیشہ نہ ہو بلکہ اپنی عادات یا نفسیاتی میلانات کی وجہ سے اسے یہ یقین ہو کہ نکاح کے بعد بیوی کے ساتھ جور و ظلم کا معاملہ رکھے گا تو ایسے شخص کے لئے  نکاح  کرنا حرام ہے۔ اسی طرح تعدد ازدواج کے حالات بھی مختلف ہیں، جسمانی قویٰ یا دیگر وجوہ سے جنہیں واقعی اس کی ضرورت ہو تو معاشرتی عدل کی شرط کے ساتھ اس کے لئے تعدد ازدواج کی اجازت ہے. جنہیں اس کی ضرورت نہ ہو یا تعدد ازدواج کی صورت میں عدل کا قیام مشکوک ہو تو ایسوں کے لئے تعدد ازدواج بہتر نہیں ہے! شریعت اسلامیہ میں تعدد ازدواج کی کہیں فضیلت نہیں آئی ہے. تکثیر امت والی روایات کا مقصد تجرد وتبتل کے بالمقابل محض ترغیب نکاح ہے ترغیب تعدد ازدواج نہیں۔ سورہ نساء کی جس آیت میں تعدد ازدواج کی اباحت کا ذکر ہے اس کا مبنی یتیموں کے ساتھ ہورہے جبر کا خاتمہ اور ان سے نکاح کرنے کی صورت میں معتدل مہر کی ادائی کو یقینی بنانا ہے، ترغیب تعدد اس آیت کا مفاد نہیں ہے۔ اسی لئے مذاہب اربعہ متَبعہ میں بوقت ضرورت تعدد ازدواج کی عدل کی شرط کے ساتھ رخصت واباحت تو بیشک ہے، لیکن مذاہب اربعہ میں سے کسی نے بھی مطلقاً تعدد ازدواج کو افضل وبہتر نہیں کہا ہے کہ یہ عموماً بیویوں کے ساتھ جور و ظلم یا حقوق تلفی کا موجب بنتا ہے، چونکہ شارع علیہ السلام کے حق میں یہ علت غیر متصور تھی؛ اس لئے ان کے حق میں استثناءً تعدد افضل وبہتر تھا، عام امتیوں کے حق میں عمومی احوال میں مطلقاً یہ حکم نہیں! مذاہب اربعہ میں سے شافعیہ اورحنابلہ نے تو دو ٹوک انداز میں ترک تعدد کو افضل ومستحسن کہا ہے جبکہ احناف نے باب نکاح کے ضمن میں قسم وعدل کی بحث کے ذیل میں اور مالکیہ نے نکاح کے احوال مختلف کے ضمن میں اشارۃً اسے غیر مستحسن مانا ہے، لیکن مطلقاً افضلیتِ تعدد کے قائل یہ (احناف وموالک) بھی نہیں ہیں۔
 خلاصۂِ بحث
————— 
جیساکہ اوپر کی سطروں میں قدرے تفصیل سے عرض کیا  کہ جس طرح نفس نکاح وزواج کے احوال مختلف ہیں، کسی کے لئے سنت، کسی کے لئے مکروہ وحرام اور کسی کے لئے واجب! ہر ایک کے لئے ہر حالت میں نکاح مسنون، واجب یا مستحب نہیں ہے. ورنہ شیخ عبدالفتاح ابو غدہ کی کتاب مستطاب "العلماء العزاب" میں درج اکابر امت: شیخ بشرحافي، هناد سري، طبري، زمخشري، نووي، ابن تيمية اور بعد کے زمانے میں ہمارے حضرت شیخ یونس جونپوری رحمہم اللہ اجمعین کا پھر کیا بنے گا؟ جنہوں نے اشتغال بالحدیث اور خدمت واشاعت دین کو "خانہ آبادی" اور سنت نکاح پر ترجیح دی، کیا ان حضرات کو تارکین سنت قرار دینے کی مجال کسی میں ہے؟  
اسی طرح تعدد نکاح کے تئیں بھی ہر شخص کے لئے ہر حال میں علی الاطلاق کوئی حکم متعین کردینا مشکل ہے۔ نکاح کی مشروعیت ہمہ جہت ان گنت وبے شمار اغراض ومقاصد کے تحت ہوئی ہے، تعدد ازواج کا حال بھی یہی کچھ ہے ۔ہر شخص کی انفرادی حالت اور معاشرتی مجبوری، ضرورت اور تقاضہ ایک دوسرے سے جداگانہ ہے. جس کے ساتھ ہی تعدد ازواج کی افضلیت یا عدم افضلیت دائر ہوگی۔ اختلاف احوال کے تحت اس کا حکم بھی مختلف ہوگا۔ تاہم اتنا متیقن ہے کہ شرعی نصوص میں تعدد ازواج کی باضابطہ واصالۃً ترغیب کہیں نہیں آئی ہے، اقتضاء واشارات ہیں۔ اگر اس کی ترغیب منصوص ہوتی تو ذرا سوچئے! شوافع وحنابلہ (احناف کے بعض فقہاء بھی) ایک پر اکتفا کرنے کو مستحب ومسنون کیوں کہتے؟ 
چاروں فقہی مذاہب کا فی الجملہ اکتفاء بالواحدہ کو اصل اور تعدد ازواج کو استثنائی اور رخصت قرار دینا واضح دلیل ہے کہ تعدد ازواج کا مسئلہ اپنے اصل کے اعتبار سے عام افراد امت کے لئے مطلقاً مطلوب ومرغوبِ شرع نہیں ہے. ہاں! بعض اشخاص وافراد کے احوال مخصوصہ کے باعث ان کے لئے مستحسن ہوجائے تو مضائقہ نہیں۔
(اتوار 24 ربیع الاول 1446ھ 29 ستمبر 2024ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_91.html

سوشلستان کا علم فروش عہد

سوشلستان کا علم فروش عہد
(قسط دوم)
-------------------------------
-------------------------------
علم ایک بحرِ بے کنار ہے، جس میں غوطہ زنی کے لئے یکسوئی کی کشتی اور استقامت کا بادبان ناگزیر ہے۔ اگر دل کی توجہ منتشر ہو اور فکر کی سوئیاں ادھر اُدھر بھٹکیں، تو نہ علم کا نور دل میں اترتا ہے اور نہ ذہن کی زمین پر اس کے پھول کھلتے ہیں۔ بحر علم کے شناور بہت پہلے کہہ چکے ہیں:
"لَا يُعْطِيكَ الْعِلْمُ بَعْضَهُ حَتَّى تُعْطِيَهُ كُلَّكَ"
یعنی علم اپنا کوئی ذرّہ بھی نہیں بخشتا جب تک کہ طالب اپنی کل متاع اس پر قربان نہ کردے۔ ہمارے اسلاف کی زندگیاں اس حقیقت کی زندہ تفسیر ہیں۔ امام مسلمؒ ایک حدیث کی تلاش میں اتنے محو ہوئے کہ کھجوروں کا ٹوکرا کھاگئے اور احساس تک نہ ہوا۔ علامہ عبدالحی فرنگی محلؒی مطالعہ میں ایسے منہمک ہوئے کہ چراغ کا تیل پی گئے اور خبر تک نہ ہوئی۔ شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے ایامِ تعلیم میں گھر کے خطوط گھڑے میں ڈال دیئے، عشقِ مطالعہ نے انہیں خط خوانی کا بھی وقت نہ دیا۔ مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ صاحب دیوبندی اگرچہ دیوبند کے رہائشی تھے، مگر شہر کی گلیوں سے ناواقف؛ ان کی کائنات بس "احاطۂ مولسری" اور "آستانۂ شیخ الہند" تھی۔ یہ وہ یکسوئی تھی جس نے انہیں بلند قامت محقق، جلیل القدر محدث، جلیل الشان مفسر اور امت کے رہنما بنا دیا مگر صد افسوس! کہ آج کا طالبِ علم اسی یکسوئی سے محروم ہے۔ جہاں کل کے طلبہ کتابوں کی شمع کے گرد پروانہ وار جلتے تھے، آج کے طلبہ اسمارٹ فون کے اسکرین کے پردوں میں ضائع رہے ہیں، اور سوشلستان کی اسیری پر خود نازاں و فرحاں ہیں۔ جہاں کبھی امتیازی نمبرات اور علمی کمال کا شوق دلوں کو تڑپاتا تھا، وہاں آج "فیس بک کی شہرت" اور "ٹوئیٹر کے ٹرینڈ" نے دلوں کو جکڑلیا ہے۔ درسی پختگی اور مطالعہ کی گہرائی کے بجائے، تبصرے اور چٹخارے والی تحریریں زبان و قلم کا سرمایہ بن گئی ہیں۔
یہ طرزِعمل معمولی خطرہ نہیں، بلکہ طلبۂ دین کے مستقبل پر ایک تیشہ ہے۔ اہلِ مدارس پر فرض ہے کہ اس فتنہ کو محض "نوجوانی کا شوق" سمجھ کر نظر انداز نہ کریں، بلکہ اس کے سد باب کے لئے سنجیدہ اور ٹھوس حکمتِ عملی مرتب کریں۔ یہاں میں اپنے طلبہ عزیز سے بھی یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میرے پیارے بھائیو! ایک لمحہ کے لئے ذرا سوچو، تمہارے اسلاف نے اپنی آنکھوں کی نیند، اپنی خواہشوں کا قرار اور اپنی زندگی کی راحت علم پر قربان کی تھی۔ اگر تم نے اپنی توانائیاں "سوشلستان" کی رنگینیوں میں ضائع کردیں تو یاد رکھو، نہ "اعلاء السنن" جیسے ذخیرے وجود میں آئیں گے، نہ "بذل المجہود" اوجز، الأبواب والتراجم جیسے علمی شاہکار سامنے آئیں گے۔ اپنی راہ پہچانو، اپنی قیمت جانو، اور اپنے اسلاف کے وارث بنو۔ علم کے چراغ کو اپنی یکسوئی کے تیل سے روشن کرو اور سوشل میڈیا کے طوفانوں سے اپنی کشتی بچا کر منزل کی طرف بڑھو۔
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
ہفتہ 6 ربیع الاوّل 1447ھ 30 اگست 2025ء ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_30.html

Thursday, 28 August 2025

سوشلستان کا علم فروش عہد

سوشلستان کا علم فروش عہد
-------------------------------
-------------------------------
زمانہ عجب تماشوں سے پُر ہوگیا ہے، وہ دور کہاں گیا جب علمی رسوخ کو طرۂ امتیاز سمجھا جاتا تھا؟ مطالعہ کو زندگی کا سرمایہ اور غور و فکر کو حیاتِ عقل کا حسن قرار دیا جاتا تھا؟ آج تو کتاب کی خوشبو، ورق گردانی کی سرمستی اور مطالعہ کی روحانی لذت، سب کچھ ماضی کے دریچوں میں گم ہوکر رہ گئے ہیں، ذوقِ مطالعہ جو کبھی روح کو بالیدگی اور فکر کو رفعت بخشتا تھا، آج محض داستانِ پارینہ بن چکا ہے۔
بڑوں کا احترام، اسلاف کی تعظیم اور اہلِ علم کے سامنے ادب و انکسار کی نگاہیں جھکانا کبھی تہذیب و شرافت کی پہچان تھا۔ کبھی اساتذہ و معلمین کے گھروں کے سمت پاؤں پھیلانا بھی بے ادبی تصور کیا جاتا تھا، مگر آج یہ اوصاف عنقا ہوگئے، اب تو اساتذہ کے مد مقابل آنا کمال فکر وفن سمجھا جارہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”لَيْسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ لَمْ يُجِلَّ كَبِيرَنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ“ (مسند احمد 23197، 23198)
وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے، چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے)۔
افسوس! آج سوشل میڈیا کے سیلاب و بہاؤ نے یہی تعلیم فراموش کروادی ہے۔ ہر نوآموز خود کو علامہ باور کرتا ہے اور بڑوں سے الجھنا گویا کمالِ دانش بن گیا ہے۔ چند سطور گھسیٹ لینے کو علم سمجھا جانے لگا ہے؛ حالانکہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے:
”العلم نورٌ يجعله الله في القلب، وليس بكثرة الرواية“
(ابن أبي حاتم 17981–علم وہ نور ہے جو اللہ دل میں رکھ دیتا ہے، یہ محض روایتوں کی کثرت کا نام نہیں)۔
غور و تدبر، تحریر و انشاء اور فکری استقلال کی جو رہی سہی رمق باقی تھی، مصنوعی ذہانت اور سہولت پسندی نے اس پر بھی پردہ ڈال دیا ہے۔ اب ذاتی کمالات کے بجائے نقل و تلخیص کا بازار گرم ہے۔ بجائے اس کے کہ کوئی اپنے چراغِ فکر کو روشن کرے، دوسروں کی پگڑیاں اچھالنا اور اہلِ علم کی تنقیص کرنا ہی گویا علم و فن کا معیار بن گیا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرزِ عمل پر تنبیہ فرمائی ہے:
”من طلب العلم ليباهي به العلماء أو ليماري به السفهاء أو ليصرف وجوه الناس إليه أدخله الله النار“ (سنن ابن ماجہ 253)
جو شخص علم اس لیے حاصل کرے کہ علما پر فخر کرے، جاہلوں سے بحث کرے یا لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرے، اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا)۔
یوٹیوب چینلز کی ارزانی وفراوانی اور ان کے ذریعے کمائی کی دوڑ نے اچھے اچھوں کو اپنے تدریسی انہماک سے ہٹاکر ویڈیوز کے جنگل میں لا کھڑا کیا ہے۔ ویوز کی کثرت کا جنون سچائی اور صداقت اور ذرائع ابلاغ کے اسلامی اقدار ومنشور کو پسِ پشت ڈال چکا ہے۔ نہ کسی کے محاسن و کمالات کے اعتراف کا حوصلہ رہا اور نہ ہی بزرگوں کے سامنے ادب و انکسار کا شعور باقی رہا۔
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:
”من تهاون بالعلماء ذهبت آخرته، ومن تهاون بالأمراء ذهبت دنياه، ومن تهاون بالإخوان ذهبت مروءته (سیر أعلام النبلاء 8/408)
جو علما کی بے قدری کرے اس کی آخرت برباد، جو حکمرانوں کی بے ادبی کرے اس کی دنیا تباہ، اور جو بھائیوں کی تحقیر کرے اس کی مروّت ختم ہوجاتی ہے۔
آج وہ دور ہے جہاں شہرت کی ہوس نے اسلامی اقدار اور تہذیبی روایات کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ اب کم فہمی کو رائے، بدزبانی کو جرأت اور تنقیص وتحقیر کو بصیرت سمجھا جانے لگا ہے۔ اگر اہلِ فکر و دانش بیدار نہ ہوئے تو اندیشہ ہے کہ آنے والی نسلیں روشنی کے "سراب" کو ہی علم کی حقیقت جان بیٹھیں گی۔
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
(جمعہ 5 ربیع الاوّل 1447ھ 29 اگست 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_28.html

Wednesday, 27 August 2025

زبان: خوں آشام درندہ

زبان: خوں آشام درندہ
-------------------------------
-------------------------------
انسان کے وجود میں زبان ایک نہایت مختصر اور حقیر عضو ہے، مگر اس کی قوت اور اثرِ کار میں وہ طاقت پوشیدہ ہے جو پہاڑوں کو ہلادے اور دلوں کی سلطنتوں کو مسخر کرلے۔
یہی زبان ہے جو محبت و نرمی کے ایک جملے سے سخت دلوں کو پگھلا دیتی ہے، اور ہاتھی جیسی قوی و لحیم شحیم مخلوق کو بھی انسان کے قدموں میں لا بٹھاتی ہے۔ اور یہی زبان ہے جو شدت و حدّت، تلخی اور درشتی کے ایک لفظ سے انسان کو ہاتھی کے قدموں تلے روندوا بھی دیتی ہے۔
اسی لئے شریعتِ اسلامیہ نے زبان کو نہایت حساس امانت قرار دیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سب سے زیادہ لوگ اپنی زبانوں اور شرم گاہوں کے سبب جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔
(فإنّ أكثر ما يُدخلُ الناسُ النارَ الأجوفان: الفرجُ والفمُ: ترمذی 2004)۔
پس اگر زبان خیر ومحبت کا ذریعہ ہو تو یہی زبان جنت کے دروازے کھول دیتی ہے، اور اگر شر کی پیامبر ہو تو یہی زبان جہنم کا دہانہ ثابت ہوتی ہے۔
حکمت کہتی ہے:
“كلمةٌ تأتي إليك بفيل، وتأتي بك إلى فيل”
(زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ تمہارے پاس ہاتھی جیسی طاقت لا سکتا ہے، اور اسی زبان کی درشتی تمہیں ہاتھی کے تلے کچلوا بھی سکتی ہے)۔
اور اہلِ دانش فرماتے ہیں:
اللسانُ سبعٌ إن أُطلق أكل
(زبان ایک درندہ ہے، اگر اسے آزاد چھوڑ دیا جائے تو یہ اپنے مالک ہی کو کھا جاتی ہے)۔
لہٰذا انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنی زبان کو لگام دے، ہر لفظ سے پہلے اس کے نتائج و عواقب پر غور کرے، اور ضبط و حکمت کے بغیر اسے کبھی نہ کھولے۔ زبان اگر قابو میں ہو تو عزت، شرف اور جنت کی ضمانت ہے، اور اگر بے قابو ہو جائے تو ذلت، ہلاکت اور جہنم کا درندہ بن جاتی ہے۔
انجنئیر محمد علی مرزا کے موجودہ انجام کار میں سب سے بڑا کردار خود ان کی بے قابو زبان کا ہے۔ یہی زبان تھی جس نے انہیں آج قفس مکیں بنادیا، اور یہی زبان تھی جس نے آخرکار انہیں اپنے ہی ہتھیار سے پھاڑ کر تہہ و بالا کیا۔
ہمیں خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ انسان کا سب سے طاقتور اور خطرناک ہتھیار اس کی اپنی زبان  ہے۔ اگر اسے حکمت اور ضبط کے ساتھ استعمال کیا جائے تو عزت و نجات کا سبب بنتی ہے، اور اگر بے قابو چھوڑ دیا جائے تو ہلاکت اور رسوائی کی ضمانت بن جاتی ہے:
نرمی سے دل جیت لو، تلخی سے دشمن پال لو
یہ چھوٹا عضو بڑا کام کرجائے، بس سنبھال لو!
(بدھ 2؍ربیع الاوّل 1447ھ 27؍اگست 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_27.html

Monday, 25 August 2025

نجومِ ہدایت حضرات صحابہ کرام کا تقدس

نجومِ ہدایت حضرات صحابہ کرام کا تقدس
-------------------------------
------------------------------- 
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آسمانِ ہدایت کے بلا تفریق روشن ستارے ہیں۔ ان کے ہر ایک فرد کا اجتماعی وانفرادی کردار و وعمل فرزندانِ توحید کے لئے تا قیامت مشعل راہ ہے۔ ان کے عقائد و ایمان  دیانت وتقوی ،صدق واخلاص کی سند خود رب العالمین نے قرآن پاک میں دی ہے، وہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی طرح اگرچہ معصوم تو نہیں تھے؛ 
لیکن  بر بنائے بشریت اجتہادی واضطراری جو غلطیاں ان سے ہوئیں، رب کریم نے سب پہ معافی کا قلم پھیرکر علی الاطلاق سب کو اپنی رضا کا پروانہ "رضى الله عنهم" عطاء کردیا۔
برگزیدہ، پاکباز ،پاک طینت، وفا شعار وجان نثار یہی وہ جماعت ہے جن کے ذریعہ ہم تک قرآن وسنت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پہنچی، انہی کے ذریعہ اسلام کا تعارف ہوا، انہی  کے سینوں میں کلام الہی محفوظ ہوکر ہم تک  پہنچا۔ اگر تنقید وتنقیص اور حرف گیری کے ذریعہ انہیں غیر معتبر قرار دیدیا گیا تو پھر تو اسلام کی عمارت ہی منہدم ہوجائے گی۔ نہ قرآن معتبر رہے گا نہ سنت طیبہ پہ اعتبار ووثوق باقی رہے گا!
اللہ نے ان کے ایمان کی پختگی، اعمال کے صلاح، اتباع سنت، تقوی وطہارت کی سند دی ہے، پھر نبی کریم کی زبانی انہیں چراغِ راہ اور نجومِ ہدایت قرار دے کر ان کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ 
اسی لئے امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سب کے سب ثقہ، عادل، قابل اعتبار و استناد ہیں۔ ان کی ثقاہت و عدالت پہ نصوص قطعیہ موجود ہیں، بلا چوں وچرا ان کی ثقاہت کو ماننا ضروری ہے۔ کوئی ایک صحابی بھی فسق سے متصف نہیں ہوسکتا۔ ان کے آپسی اختلافات اور بشری خطاؤں پہ کفّ لسان کرنا بہ اجماع امت واجب و ضروری ہے۔ 
روایتِ حدیث ہی کی طرح عام معاملاتِ زندگی میں بھی ان کی عدالت کی تفتیش یا ان کی کسی خبر پہ گرفت جائز نہیں ہے۔
ابتدا سے ہی روافض، شیعہ امامیہ اور سبائیوں نے بعض اصحاب رسول کے خلاف اپنے دل کی کالک  سے صفحاتِ تاریخ سیاہ کئے ہیں۔ غضب تو یہ ہوا کہ پچھلے  چند سال کے دوران لکھنؤ کے ایک مشہور حسینی نام نہاد عالم دین  نے بھی متواتر اصحاب رسول کی تنقیص تجریح وتفسیق کو اپنا شیوہ بناکر یاوہ گوئی شروع کردی ہے اور وہی سب گھسی پٹی بے بنیاد اور  پھس پھسی باتیں دہرائی  ہیں جو شیعہ صدیوں سے کہتے چلے آئے ہیں۔
ملک عزیز میں یہ ایک نیا فتنہ سر ابھارا ہے۔ اس کی سنگینی کا ہمیں بروقت ادراک کرنا ہوگا۔ یہ فتنہ محض ایک شخص یا ایک فرد کا نہیں، بلکہ یہ پوری امت کے فکری قلعے پر حملہ ہے۔ لہٰذا اس کا مقابلہ بھی اجتماعی سطح پر ہونا چاہئے۔ یہ وقت خاموشی یا غفلت کا نہیں، بلکہ اقدام اور بیداری کا ہے۔ گمراہی کا سیلاب بڑھنے سے پہلے بند باندھنا، اہلِ ایمان کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ 'ادارہ جاتی خول' سے باہر نکل کر تمام اہلِ سنت کو اتفاق ویکجہتی اور جرأت وقوت کے ساتھ اس فتنے کا مقابلہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالی ہمیں بلاامتیاز وتفریق اس کی توفیق مرحمت فرمائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تقدس و مقام کو قیامت تک محفوظ و مامون رکھے۔
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
۲ ربیع الاول ١٤٤٧ ہجری 
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_25.html
( #ایس_اے_ساگر ) 

Friday, 22 August 2025

علم تجوید میں حروف کی صفات کا بیان

علم تجوید میں حروف کی صفات کا بیان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفات کی اہمیت:
جس طرح بغیر مخرج کے حرف ادا نہیں ہوسکتا، اسی طرح بغیر صفات کے حرف کامل ادا نہیں ہوسکتا۔ جس طرح حُرُوف کے مخارج الگ الگ ہیں، اسی طرح ہر حرف میں پائی جانے والی صفات بھی جُدا جُدا ہیں۔ صفات کے ساتھ حرف کو ادا کرنے سے ایک ہی مخرج کے کئی حُرُوف آپس میں جُدا اور مُمتاز ہوجاتے ہیں۔ صفات، صفت کی جمع ہے۔
صفت کا لغوی معنی: صفت کا لغوی معنی ٰ ہے ’’مَا قَا مَ بِشَیْ ئٍ‘‘ جو کسی شے کے ساتھ قائم ہو۔
 صفت کا اصطلاحی معنی: 
اصطلاح تجوید میں ’’صفت‘‘ حرف کی اس حالت یا کیفیّت کو کہتے ہیں جس سے ایک ہی مخرج کے کئی حُروف آپس میں جُدا اور ممتاز ہوجاتے ہیں۔ مثلاً حرف کا پُر یا باریک ہونا آواز کا بلند یا پست ہونا، قوی یا ضعیف ہونا، نرم یا سخت ہونا وغیرہ جیسے ’’ص‘‘ اور ’’س‘‘ اِن کا مخرج تو ایک ہے مگر ’’ص‘‘ صفتِ استعلاء اور اطباق کی وجہ سے پُر اور ’’س‘‘ صفتِ استفال اور انفتاح کی وجہ سے باریک پڑھا جاتا ہے۔

 صفات کی اقسام
صفات کی دوقسمیں ہیں: 
{۱} صفاتِ لازمہ 
{۲} صفاتِ عارضہ 
صفاتِ لازمہ کی تعریف: 
حرف کی وہ صفات جو حرف کے لئے ہر وقت ضروری ہوں اور ان کے بغیر حرف ادا نہ ہوسکے یا حرف ناقص ادا ہو۔ مثلاً ’’ظ‘‘ میں صفتِ استعلاء اور اطباق ادانہ کی جائے توحرف ’’ظ‘‘ ادا ہی نہیں ہوگا۔ حرف کو صفات لازمہ کے ساتھ ادا نہ کرنے سے لحن جلی واقع ہوتی ہے۔ (لمعاتِ شمسیہ حاشیہ فوائد مکیہ، ص۲۱، بتصرف)
 صفاتِ عارضہ کی تعریف: 
حرف کی وہ صفات جو حرف کے لئے کبھی ہوں اور کبھی نہ ہوں ان کے ادانہ کرنے سے حرف ادا ہوجاتا ہے لیکن حرف کی تحسین باقی نہیں رہتی۔ مثلاً 'را' مفتوحہ کو باریک پڑھنا وغیرہ۔ یہ صفات آٹھ حُرُوف میں پائی جاتی ہیں جن کا مجموعہ ’’اَوْ یَرْ مُلَانِ‘‘ ہے۔ صفاتِ عارضہ کی غلطی کو ’’لحنِ خفی‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن لحنِ خفی کو چھوٹی اور معمولی غلطی سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کرنا بڑی غلطی ہے۔
صفاتِ لازمہ کی اقسام: 
صفاتِ لازمہ کی دو قسمیں ہیں:
(1) صفاتِ لازمہ متضادہ     
(2) صفاتِ لاز مہ غیرِ مُتَضادہ   
صفاتِ لازمہ مُتَضادہ کی تعریف:
صفاتِ لازمہ متضادہ وہ صفات ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہوں جیسے ’’ہمس‘‘ کی ضد ’’جہر‘‘ اور ’’شدّت‘‘ کی ضد ’’رخاوت‘‘ ہے۔

صفاتِ لازمہ مُتضادہ:
صفاتِ لازمہ مُتَضادہ دس۱۰  ہیں۔ جن میں سے پانچ، پانچ کی ضد ہیں۔
 {1}… ہمس                        {2} … جہر
{3}…شدّت                    {4} … رخاوت
{5}… استعلاء                   {6} … استفال
{7}… اطباق                    {8} … انفتاح
{9}… اذلاق                   {10}… اصمات
 
تفصیل
(1)…ہمس:
          لغوی معنی: ’’پستی‘‘ ۔ 
اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’ضعف کی وجہ سے آواز کے پست ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مہموسہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ دس ۱۰ ہیں جن کا مجموعہ ’’فَحَثَّہ شَخْصٌ سَکَتْ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: 
حُروفِ مہموسہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اس قدر ضعف یعنی کمزوری سے ٹھہرتی ہے کہ سانس جاری رہتا ہے اور آواز پست ہوجاتی ہے۔
(2)…جہر:
         یہ صفت ہمس کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’بلندی‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’قُوّت کی وجہ سے آواز کے بلند ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے، انہیں ’’حُرُوفِ مجہورہ‘‘ کہتے ہیں۔ حروف مہموسہ کے علاوہ باقی انیس ۱۹ حروف مجہورہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: 
حُرُوفِ مجہورہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اس قدر قُوّت سے ٹھہرتی ہے کہ اس کے اثر سے سانس کا جاری ہونا موقوف ہوجاتا ہے اور آواز بلند ہوجاتی ہے۔
 
(3)…شدّت:
        لغوی معنی: ’’سختی‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’قُوّت کی وجہ سے آواز کے سخت ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ شدیدہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ آٹھ۸ ہیں جن کا مجموعہ ’’أَجِدُ قَطٍ بَکَتْ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ شدیدہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اتنی قُوّت سے ٹھہرتی ہے کہ فوراً بند ہوجاتی ہے اورسخت ہوجاتی ہے۔
(4)…رخاوت:
        یہ صفت ’’شدّت‘‘ کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’نرمی‘‘، اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’ضعف کی وجہ سے آواز کے نرم ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ رخوہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ سولہ ۱۶ ہیں۔ جو حُرُوفِ شدیدہ اور حُرُوفِ مُتَوسّطہ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: 
حُرُوفِ رخوہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اتنے ضعف سے ٹھہرتی ہے جس کی وجہ سے آواز جاری رہتی ہے اور نرم ہوجاتی ہے۔
٭…(توسط): لغوی معنی: ’’درمیان‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’شدّت اور رخاوت کی درمیانی حالت کے ساتھ پڑھنے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے، انہیں ’’حُرُوفِ مُتَوَسّطِہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ پانچ ہیں جن کا مجموعہ ’’لِنْ عُمَرْ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ متوسطہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں نہ تو مکمل بند ہوتی ہے کہ شدّت پیدا ہوجائے اور نہ ہی مکمل جاری رہتی ہے کہ رخاوت پیدا ہوجائے بلکہ اس کی درمیانی حالت رہتی ہے۔
(5)…استعلاء :
           لغوی معنی: ’’بلندی چاہنا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجویدمیں ’’زبا ن کی جڑ کے تالو کی جانب بلند ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُسْتَعْلِیَہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ سات ۷ ہیں جن کا مجموعہ ’’خُصَّ ضَغْطٍ قِظْ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مستعلیہ کو ادا کرتے وقت زبان کی جڑ تالو کی جانب بلند ہوتی ہے جس کی وجہ سے حُرُوف پُر پڑھے جاتے ہیں ۔
(6)…استفال:
        یہ صفت ’’استعلاء ‘‘ کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’نیچائی چاہنا‘‘
اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’زبان کی جڑ کے تالو کی جانب بلند نہ ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے، انہیں ’’حُرُوفِ مُسْتَفِلَہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ بائیس ۲۲ ہیں جو ’’حُرُوفِ مستعلیہ‘‘ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُروفِ مستفلہ کو ادا کرتے وقت زبان کی جڑ تالو کی جانب بلند نہیں ہوتی بلکہ نیچے رہتی ہے اس لئے یہ حُرُوف باریک پڑھے جاتے ہیں۔
(7)… اطباق:
          لغوی معنی: ’’مل جانا یا ڈھانپ لینا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں  ’’زبان کے پھیل کر تالو سے مل جانے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُطْبَقہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ چار ۴ ہیں جن کا مجموعہ ’’صطظض‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُروفِ مطبقہ کو ادا کرتے وقت زبان تالو سے مل جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ حُرُوف بَہُت ہی پُر پڑھے جاتے ہیں۔
(8)…انفتاح:
        یہ صفت ’’اِطباق‘‘ کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’جُدا رہنا یا کھلا رہنا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’زبان کے تالو سے جُدا رہنے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُنفَتِحَہْ‘‘ کہتے ہیں اور یہ پچیس ۲۵  ہیں جو حُروفِ مطبقہ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ منفتحہ کو ادا کرتے وقت زبان تالو سے جُدا رہتی ہے۔
(9)…اذلاق:
          لغوی معنی: ’’کنارہ‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’حُرُوف کے ہونٹوں، دانتوں اور زبان کے کناروں سے پِھسل کربسہولت ادا ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوفِ مُذلَقَہ‘‘ کہتے ہیں اوریہ چھ ۶ ہیں جن کا مجموعہ ’’فَرَّ مِنْ لُّبٍّ‘‘ ہے۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مذلقہ اپنے مخارج سے پِھسل کر بسہولت ادا ہوتے ہیں۔
(10)…اِصمات:
            یہ صفت ’’اِذلاق‘‘ کی ضد ہے۔ لغوی معنی: ’’روکنا‘‘ اصطلاحی معنی: اصطلاحِ تجوید میں ’’حُرُوف کے مضبوطی اور جماؤ کے ساتھ ادا ہونے‘‘ کو کہتے ہیں۔ جن حُرُوف میں یہ صفت پائی جاتی ہے انہیں ’’حُرُوف مُصْمَتَہ‘‘ کہتے ہیں اور یہ تیئس ۲۳ ہیں جو کہ حُرُوفِ مذلقہ کے علاوہ ہیں۔
طریقۂ ادائیگی: حُرُوفِ مصمتہ اپنے مخارج سے مضبوطی کے ساتھ جم کر ادا ہوتے ہیں ۔
صفاتِ لازمہ مُتضادہ کے حامل حروف کامجموعہ
نمبر شمار            حُروف                            تعداد                        مجموعہ
 ۱                  حُرُوفِ مہموسہ                     10                         فَحَثَّہ‘ شَخْصٌ سَکَتْ
۲                  حُرُوفِ مجہورہ                       19                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۳                  حُرُوفِ شدیدہ                      8                           أَجِدُ قَطٍ بَکَتْ
۴                  حُرُوفِ رخوہ                       16                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
- -                حُرُوفِ مُتَوَسّطِہ                    5                           لِنْ عُمَر
۵                  حُرُوفِ مُسْتَعْلِیَہ                    7                           خُصَّ ضَغْطٍ قِظْ
۶                  حُرُوفِ مُسْتَفِلَہ                     22                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۷                  حُرُوفِ مُطْبَقَہ                      4                           صطظض
۸                  حُرُوفِ مُنْفَتِحَہْ                     25                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۹                  حُرُوفِ مُذْلَقَہْ                       6                           فَرَّ مِنْ لُّب
۱۰                 حُرُوفِْ مُصْمَتَہْ                     23                         ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
(منقول) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_22.html
سوال نمبر 1: صفات کے لغوی معنی کیا ہیں؟
جواب: صفت کا لغوی معنی ٰ ہے ’’مَا قَا مَ بِشَیْ ئٍ‘‘ جو کسی شے کے ساتھ قائم ہو۔

سوال نمبر 2: صفت کے اصطلاحی معنی کیا ہیں؟
جواب: اصطلاح تجوید میں ’’صفت‘‘ حرف کی اس حالت یا کیفیّت کو کہتے ہیں جس سے ایک ہی مخرج کے کئی حُروف آپس میں جُدا اور ممتاز ہوجاتے ہیں۔ مثلاً حرف کا پُر یا باریک ہونا آواز کا بلند یا پست ہونا ، قوی یا ضعیف ہونا، نرم یا سخت ہونا وغیرہ جیسے ’’ص‘‘ اور’’س‘‘ اِن کا مخرج توایک ہے مگر ’’ص‘‘ صفتِ استعلاء اور اطباق کی وجہ سے پُر اور ’’س‘‘ صفتِ استفال اور انفتاح کی وجہ سے باریک پڑھا جاتا ہے۔

سوال نمبر 3: صفات کی اہمیت کیا ہے؟
جواب: جس طرح بغیر مخرج کے حرف ادا نہیں ہوسکتا اسی طرح بغیرصفات کے حرف کامل ادا نہیں ہوسکتا۔ جس طرح حُرُوف کے مخارج الگ الگ ہیں، اسی طرح ہر حرف میں پائی جانے والی صفات بھی جُدا جُدا ہیں۔ صفات کے ساتھ حرف کو ادا کرنے سے ایک ہی مخرج کے کئی حُرُوف آپس میں جُدا اور مُمتاز ہوجاتے ہیں۔ صفات، صفت کی جمع ہے۔

سوال نمبر 4: صفات کے کتنے اقسام ہیں؟
صفات کی دوقسمیں ہیں: 
{۱} صفاتِ لازمہ 
{۲} صفاتِ عارضہ 
 صفاتِ لازمہ کی تعریف: حرف کی وہ صفات جو حرف کے لئے ہروقت ضروری ہوں اور ان کے بغیر حرف ادا نہ ہوسکے یا حرف ناقص ادا ہو۔ مثلاً ’’ظ‘‘ میں صفتِ استعلاء اور اطباق ادانہ کی جائے توحرف ’’ظ‘‘ ادا ہی نہیں ہوگا ۔ حرف کو صفات لازمہ کے ساتھ ادا نہ کرنے سے لحن جلی واقع ہوتی ہے۔ (لمعاتِ شمسیہ حاشیہ فوائد مکیہ، ص۲۱، بتصرف)
--------------
"قوی صفات" کا اصطلاحی مفہوم " صفاتِ لازمہ" سے وابستہ ہے، جو حروف کی وہ خصوصیات ہیں جو ان کے ساتھ مستقل رہتی ہیں اور انہیں حروف کی صحیح ادائیگی کے لیے ضروری قرار دیا جاتا ہےیہ وہ خصوصیات ہیں جو کسی حرف کو دوسرے حروف سے ممتاز کرتی ہیں، جیسے جہر کی ضد ہمس ہونا.

قوی اور ضعیف صفات: قوی صفات ۔ جہر - شدت - استعلاء - اطباق - اصمات - صفیر - قلقلہ - تکریر - تفشی - استطالت - غنہ

قوی اور ضعیف حروف:
1⃣ ط 2⃣ ظ
3⃣ ض 4⃣ ق ۔

قوی حروف: ج د ص غ ء متوسط حروف💓 : ا🌷 ب ر ز ع 🌷 💜ضعیف حروف :💜 ا 🌱ت 🌻 خ 🌻 ذ س 🌻 ش 🌻 ک ل 🌻 م 🌻ن 🌻 و ی 🌻 🎀اضعف حروف🎀 : 🍄یعنی بہت ضعیف حروف🍄 : ث🍀 ح🍀 ہ 🍀 ف 🍀 ⭐صفات عارضہ کی تعریف⭐ صفات عارضہ ان صفات کو کہتے ھیں جو حروف میں کبھی پائی جاۓ کبھی نہ پائی جاۓ اگر یہ صفات ادا نہ ھوں تو حرف وہ ھی رھے مگر اس کا حسن باقی نہ رھے۔
----
سوال نمبر 5:صفات لازمہ کسے کہتے ہیں؟

صفاتِ لازمہ حرف کی وہ صفات جو حرف کے لئے ہروقت ضروری ہوں اور ان کے بغیر حرف ادا نہ ہوسکے یا حرف ناقص ادا ہو۔ مثلاً ’’ظ‘‘ میں صفتِ استعلاء اور اطباق ادانہ کی جائے توحرف ’’ظ‘‘ ادا ہی نہیں ہوگا ۔ حرف کو صفات لازمہ کے ساتھ ادا نہ کرنے سے لحن جلی واقع ہوتی ہے۔ (لمعاتِ شمسیہ حاشیہ فوائد مکیہ، ص۲۱، بتصرف) سوال نمبر 6:صفات لازمہ کے کتنے اقسام ہیں؟
صفاتِ لازمہ کی دو اقسام ہیں:
(1) صفاتِ لازمہ متضادہ     
(2) صفاتِ لاز مہ غیرِ مُتَضادہ 
سوال نمبر 7:صفات عارضہ کسے کہتے ہیں؟ صفاتِ عارضہ حرف کی وہ صفات جو حرف کے لئے کبھی ہوں اور کبھی نہ ہوں ان کے ادانہ کرنے سے حرف اد اہوجاتاہے لیکن حرف کی تحسین باقی نہیں رہتی۔ مثلاًرا مفتوحہ کو باریک پڑھنا وغیرہ۔ 

سوال نمبر 8:صفات عارضہ کے کتنے حروف ہیں اور اس کا مجموعہ کیا ہے؟
صفات عارضہ کے آٹھ حُرُوف ہیں جن کا مجموعہ ’’اَوْ یَرْ مُلَانِ‘‘ ہے۔ صفاتِ عارضہ کی غلطی کو ’’لحنِ خفی‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن لحنِ خفی کو چھوٹی اور معمولی غلطی سمجھ کر اس سے بچنے کی کوشش نہ کرنا بڑی غلطی ہے۔
سوال نمبر 8:صفات متضادہ کے ضد کتنے ہیں؟
صفاتِ لازمہ مُتَضادہ دس۱۰  ہیں۔ جن میں سے پانچ، پانچ کی ضد ہیں۔
 {1}… ہمس                        {2} … جہر
{3}…شدّت                    {4} … رخاوت
{5}… استعلاء                   {6} … استفال
{7}… اطباق                    {8} … انفتاح
{9}… اذلاق                   {10}… اصمات
-------------------------
سوال:ہمس کا لغوی معنی کیا ہے؟ جواب:ہمس کا لغوی معنی ہے: ’’پستی.‘‘ 
سوال:ہمس کے کتنے حروف ہیں اور ان کا مجموعہ کیا ہے؟ جواب:ہمس کے دس۱۰ حُرُوف ہیں جن کا مجموعہ ’’فَحَثَّہ شَخْصٌ سَکَتْ‘‘ ہے.
سوال:ہمس کے حروف کو کیا کہتے ہیں؟ جواب:ہمس کے حُرُوف کو ’’حُرُوفِ مہموسہ‘‘ کہتے ہیں
سوال:ہمس کو کس طرح ادا کیا جاتا ہے؟ جواب:حُروفِ مہموسہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اس قدر ضعف یعنی کمزوری سے ٹھہرتی ہے کہ سانس جاری رہتا ہے اور آواز پست ہوجاتی ہے۔ سوال:جہر کے حروف کتنے ہیں؟ جواب:جہر کے انیس ۱۹ حروف ہیں.
سوال:جہر کے حروف کو کیا ہیں؟ جواب:جہر کے حروف کو’’حُرُوفِ مجہورہ‘‘ کہتے ہیں.
سوال:جہر کو کس طرح ادا کیا جاتا ہے؟ جواب:حُرُوفِ مجہورہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اس قدر قُوّت سے ٹھہرتی ہے کہ اس کے اثر سے سانس کا جاری ہونا موقوف ہوجاتاہے اور آواز بلند ہوجاتی ہے۔ سوال:ہمس اور جہر میں کیا فرق ہے؟
جواب:حُروفِ مہموسہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اس قدر ضعف یعنی کمزوری سے ٹھہرتی ہے کہ سانس جاری رہتا ہے اور آواز پست ہوجاتی ہے جبکہ حُرُوفِ مجہورہ کو ادا کرتے وقت آواز اُن کے مخرج میں اس قدر قُوّت سے ٹھہرتی ہے کہ اس کے اثر سے سانس کا جاری ہونا موقوف ہوجاتا ہے اور آواز بلند ہوجاتی ہے۔
سوال:ہمس کی ضدکیا ہے؟ جواب:ہمس کی ضد جہر ہے.

Thursday, 21 August 2025

حینِ حیات ہی محبت اور قدر کا چراغ جلائیں

حینِ حیات ہی محبت اور قدر کا چراغ جلائیں!
-------------------------------
-------------------------------
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
"إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ، فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ" 
(سنن ابی داؤد، حدیث: 5124)
یعنی جب کوئی شخص اپنے بھائی سے محبت کرے تو لازم ہے کہ وہ اسے اس محبت کی خبر دے۔
یہ چراغِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ روشنی عطا کرتا ہے کہ  کسی کی محبت اور قدر کا اعتراف واظہار ہمیشہ اُس کی زندگی میں ہی کرنا چاہیے، افسوس کہ ہم اکثر اس نور کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور موت کے بعد اس کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔ مرحوم کے محاسن بیان کرنا یقیناً ایک نیک عمل ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ پس مرگ الفاظ کی ستائش صرف گنبد کی بازگشت بن کر رہ جاتی ہے، نہ کانوں تک پہنچتے ہیں، نہ دلوں تک رسائی نصیب ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں یہ ایک عام رجحان ہے کہ اہلِ کمال کی خوبیوں اور نیک سیرت کا اعتراف زندگی میں کم ہی کیا جاتا ہے۔ غفلت وبے اعتنائی، حسد و رقابت و معاصرت، اور سماجی رسم و رواج کا جمود ان چراغوں کو موہوم کردیتا ہے، اور نتیجۃً انسان کی عظمت وکمالات کا تذکرہ اُس وقت کیا جاتا ہے جب وہ خاک کی آغوش میں جاچکا ہو اور سننے کی طاقت سے محروم ہو۔
حالانکہ عقل و دانش یہی بتاتی ہے کہ سب سے بیش بہا وقت اعتراف و تعریف کا وہ ہے جب انسان زندہ ہو۔ اس وقت محبت کے الفاظ نہ صرف کانوں تک پہنچتے ہیں بلکہ دل میں اتر کر روح کو تازگی بخشتے ہیں۔ یہ اعتراف کسی کو مایوسی سے نکال کر حوصلہ عطا کرتا ہے اور نیکی و بھلائی کے سفر میں اس کے قدموں کو مزید استقامت بخشتا ہے۔ لوگوں کو ان کی شخصیت سے قریب کرتا ہے اور ان سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
بعد از مرگ کی گئی تعریف محض یادوں کے سائے رہ جاتے ہیں، جو لواحقین کے لیے تسلی کا سبب تو بن سکتی ہے مگر مرحوم کے لیے بے اثر ہے۔ لیکن زندگی میں کی جانے والی تعریف اور محبت ایک زندہ حقیقت ہے؛ یہ الفاظ زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، دلوں کو جوڑتے ہیں، رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں اور انسانیت کے چراغ کو منور کرتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اہلِ علم ہوں یا اہلِ فضل، دوست ہوں یا رشتہ دار، ہم ان کی نیکیوں اور خوبیوں کو پہچانیں، ان کی عظمت اور محاسن وکمالات کا اعتراف کریں اور وقت پر خراجِ تحسین پیش کریں۔ یہی حقیقی خیرخواہی ہے، اور یہی وہ نور ہے جو قلوب کو گرماتا اور معاشرے کو خوشبوؤں سے معمور کرتا ہے۔
(جمعرات 26 صفرالمظفر 1447ھ 21 اگست 2025ء
21 اگست، 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_21.html

Wednesday, 20 August 2025

مختلف قہوہ جات اور ان کے طبی فوائد کیا ہیں؟

مختلف قہوہ جات اور ان کے طبی فوائد کیا ہیں؟
آج کل چائے کا استعمال حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ چائے صحت کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے، خاص طور پر جب اس میں ملاوٹ شدہ پتی، چینی اور ناقص دودھ استعمال کیا جائے۔ اس کے برعکس قہوہ جات قدرتی جڑی بوٹیوں سے تیار ہوتے ہیں اور صحت کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں چند مفید قہوہ جات اور ان کے طبی فوائد:
☕ لونگ، دارچینی قہوہ:
اینٹی سیپٹک، بلغم ختم کرے، بھوک بڑھائے، جگر کو طاقت دے، جسم کی فالتو چربی کم کرے، پتھری میں مفید۔
☕ ادرک قہوہ:
ہاضمہ بہتر، بھوک میں اضافہ، ریاح خارج کرے، رنگت نکھارے۔
☕ تیز پات قہوہ:
دل، دماغ اور معدے کے لئے طاقتور، سردرد میں مفید۔
☕ اجوائن قہوہ:
ریاح کا خاتمہ، بخار میں فائدہ مند، گرمی کے امراض میں مفید۔
☕ گل بنفشہ قہوہ:
کھانسی، نزلہ، گلے کی خراش، سانس کی بندش میں شفاء۔
☕ گورکھ پان قہوہ:
خون کی صفائی، خارش کا خاتمہ، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول میں کمی۔
☕ ادرک + شہد قہوہ:
سردی، کھانسی، بند ناک اور موسمی اثرات سے تحفظ۔
☕ انجبار قہوہ:
دست بند کرے، آنتوں کو مضبوط بنائے، ٹانگوں کے درد میں مفید۔
☕ ڈاڑھی بوڑھ قہوہ:
فالج، لقوہ اور مردانہ/زنانہ کمزوریوں میں مفید۔
☕ گل سرخ قہوہ:
بلغم ختم، قبض دور، جسم کو نرم اور ہلکا رکھے۔
☕ کالی پتی قہوہ:
کمزوری ختم، پسینہ لائے، خون کی روانی تیز، سردی میں طاقتور۔
☕ لیمن گراس قہوہ:
بلغم، نزلہ، اسہال، لو بلڈ پریشر میں مفید۔
☕ زیرہ سفید + الائچی قہوہ:
معدے کی تیزابیت، بواسیر، بھوک بڑھانے اور ہاضمے کے لئے بہترین۔
☕ سونف قہوہ:
ریاح، کھانسی، معدے کی جلن، ہاضمے اور بھوک کے لئے مفید۔
☕ بادیان خطائی + دارچینی + الائچی قہوہ:
قوت ہاضمہ اور بھوک میں اضافہ، چائے کی عادت سے نجات۔
☕ بنفشہ + ملیٹھی قہوہ:
سینے کی جلن، کھانسی، قبض اور گلے کی خراش کا مؤثر علاج۔
☕ بہی دانہ + بنفشہ قہوہ:
نزلہ، دل اور گردے کے درد، پیشاب کی جلن، قبض میں فائدہ مند۔
☕ بنفشی قہوہ:
دائمی کھانسی، کیرا، ریشہ، نزلہ اور ہر موسم کے لئے مؤثر۔
🍵 مختصر یہ کہ چائے کی جگہ قہوہ اپنائیں، صحتمند زندگی پائیں! (منقول)
نوٹ: مزاجوں میں اختلاف کے سبب کسی بھی نسخے پر عمل پیرا ہونے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ ضرور کرلیں۔ ( #ایس_اے_ساگر ) 
https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_20.html
#fypシ゚viralシfyp #LifeCare #like #share #comment #followme

Tuesday, 19 August 2025

علومِ شرعیہ کے حصول میں محنت و مشقت کی حقیقت

علومِ شرعیہ کے حصول میں محنت و مشقت کی حقیقت

-------------------------------
-------------------------------
سوال: حضرت مفتی صاحب، ویڈیو میں سختی سے متعلق‌ وحی سے جو استدلال کررہے‌ ہیں اس کے بارے میں آپ کی قیمتی آراء واطمینان بخش استدلال کا انتظار ہے۔
اعجاز احمد القاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
علومِ شرعیہ کا حصول پھولوں کی سیج نہیں، بلکہ صبر و ثبات،ریاضت، محنت و مشقت اور جہدِ مسلسل کا متقاضی ہے۔ علم کا نور اسی وقت میسر آتا ہے جب طالبِ علم اپنی راحت قربان کرے، اپنے نفس کو تھکائے اور مشقت کو گلے لگائے۔ جس طرح شمع اپنی روشنی کے لیے خود کو پگھلا دیتی ہے، اسی طرح علم کے متلاشی کو بھی اپنی ذات کو محنت کی بھٹی میں ڈالنا پڑتا ہے۔

ابتدائے وحی کے واقعے میں بھی یہی حقیقت جھلکتی ہے۔ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو سیدِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے ثقل اور شدت کو برداشت کرنا پڑا۔ حدیثِ پاک کے الفاظ "حَتّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ" اس بات کی شہادت ہیں کہ وحی کا تحمل آسان نہ تھا۔ یہ کیفیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے کے لیے قطعی نہ تھی، بلکہ اس امر کی علامت تھی کہ وحی کا بار گراں ہے اور اسے اٹھانے کے لیے غیر معمولی صبر، حوصلے اور استقامت کی ضرورت ہے۔

میری رائے میں اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے خطیبِ محترم سے تعبیر میں کچھ لغزش ہوئی ہے۔ اہلِ علم کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ حدیث بدءِ وحی کا تعلق تعلیم و تربیتِ اطفال سے نہیں ہے۔ یہ تو جبریل امین اور حضور سید انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے۔ نہ جبریل انسانی معلم تھے اور نہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچے تھے۔اس بنیاد پر اگر کوئی بچوں کو مارنے، تکلیف دینے یا ان کی تادیب پر اس حدیث سے استدلال کرے تو یہ علمی اصول استدلال کے خلاف ہے۔ اس باب میں استدلال اُن صحیح نصوص سے کیا جائے گا جو براہِ راست تربیتِ اطفال پر وارد ہوئی ہیں، جیسے نماز کی تعلیم اور دس برس کی عمر میں تادیب سے متعلق احادیث۔ یہی طرز علمی دیانت اور اصولِ استنباط کے مطابق ہے۔

باب بدء الوحي - باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله 

…..عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا، قَالَتْ: "أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ، فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي لْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ: "اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2 } اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3} " سورة العلق آية 1-3، فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ …الحديث (صحيح البخاري 3,4) 

 لہٰذا جبریلِ امین اور سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین وحی کی ابتدائی کیفیت کو بچوں کی تعلیم و تربیت یا انہیں اذیت پہنچانے پر منطبق کرنا محلِ نظر ہے، بلکہ علمی قواعد کے منافی ہے۔ اس واقعے کا من جملہ پیغام یہ ہے کہ دین کے علم کا حصول قربانی، صبر اور محنت کے بغیر ممکن نہیں۔

البتہ حصولِ علم کی راہ میں تحملِ مشقت کے لیے اس واقعے سے فی الجملہ استدلال کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اسے بچوں کو تکلیف دینے یا مارنے پر دلیل بنانا کسی طور درست نہیں۔

واللہ أعلم بالصواب

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com

مركز البحوث الإسلامية العالمي 

(منگل 24 صفرالمظفر 1447ھ 19 اگست 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2025/08/blog-post_17.html



 




دین کی مددگار جماعت

 دین کی مددگار جماعت 

ہمارے فضلاء تبلیغ پر برسنے کے لئے بہانے اچکتے ہیں، یہ رویہ اذیت ناک ہے، ہر کس وناکس جست لگاتا ہے، ہم تبلیغ کے رہین احسان ہیں، محسن کے تسامح اور تجاوز کی اصلاح مثبت رنگ میں کی جاتی ہے، ان کی عیب جوئی احسان فراموشی ہے، یہ حروف تبلیغی جماعت کے احسان مند ہیں، والد گرامی تاجر تھے، ان کو معاون درکار تھے، چچا جان امیر جماعت تھے، انھوں نے مدرسہ دکھایا، تبلیغیوں نے جان کی بازی لگا کر مسجدیں ہمارے لئے فتح کیں، میرے گردونواح میں چھ مساجد ہیں، ایک چھوٹی مسجد کے علاوہ سب دیوبندی ہیں، جماعتیوں نے مار کھائی اور یہ مسجدیں جیت کر دیوبند کو تفویض کیں، چھ مساجد کے علاوہ تین مصلے ہیں، سب تبلیغیوں نے قائم کیے ہیں۔
اسلام کے دامن میں مجددین کی کمی نہیں؛ مگر کام اور محنت کے رنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ مجدد کا نام مولانا الیاس علیہ الرحمہ ہے، ان کی تیار کردہ جماعت ایمان وعمل کی میزان میں صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی سب سے بڑی مثال ہے، ان دعوؤں کی تردید آسان نہیں، جہنم کی گرم بازاری کے دور میں حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کا نمود ہوا اور انھوں نے اپنی فنائیت اور فدائیت سے جنت کو گرم بازار اور جہنم کو کساد بازار بنا دیا۔
تبلیغیوں سے تصادم کا حل اپنائیت کے رنگ میں تلاش کریں، راقم نے محلہ بڑ ضیاء الحق دیوبند میں قیام کے دوران مسجد عالی شان میں دس سال تفسیر بیان کی، ابتدا میں عشا کے بعد والا وقت میری ترجیح تھی، تبلیغی بھائیوں نے مشورے وغیرہ کا عذر رکھا، ان کے نکات اہم نہیں تھے؛ مگر میں نے ان کی بات رکھ لی اور فجر بعد کا وقت منتخب کیا، دس سالہ میعاد میں پچیس پاروں کی تفسیر ہوئی، تبلیغ کے تمام احباب پابندی سے شریک رہتے، کبھی کوئی ناگواری پیش نہیں آئی، دارالمدرسین کی تعمیر کے بعد ادھر منتقل ہوا تو سلسلہ موقوف ہوا، فجر کی نماز میں وہاں پہنچنا مشکل تھا۔
تبلیغ ایک مستقل راہ ہے، خود مدارس با ہم شاکی ہیں؛ جب کہ مدارس کا طریق ایک ہے، میں یک مشربی مدارس کی مثال دے رہا ہوں، دوریاں غیر معمولی ہیں؛ لیکن ہم سکوت اختیار کرتے ہیں، صرف اس لیے کہ مخالف بھی منہ میں زبان رکھتا ہے، ہاں تبلیغی بے زبان ملے، اصلاح کا گرز ان پر بے رحمانہ چلتا ہے، یہ اپنے ہیں، ان کی گرفت دوستانہ ہو، دو مدرسے متفق نہیں، تبلیغ تو پھر جداگانہ منہج ہے۔
نظریاتی کام کی فطرت یہ ہے کہ وہ غلو اور مبالغے کے بغیر قائم نہیں ہوتا؛ حالاں کہ غلو ممنوع ہے، یہ اعتراض سب پر وارد ہے، قدیم محدثین پر بالخصوص، ان کے احوال محفوظ ہیں، جس سرگذشت کو ہم قربانی کہتے ہیں اس پر سنجیدہ شرعی اشکال ہیں، حقوق متاثر ہوے، جس حد تک وہ گئے وہ صریح تجاوز ہے؛ لیکن اسی مبالغے نے دین زندہ کیا، کام ایسے ہی ہوتا ہے، کوئی اہم مضمون پورا کرنا ہو تو رات کالی ہوتی ہے، یہ بھی شرعا منع ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ تو تبلیغ کے ماسوا گفتگو سننے کے متحمل نہیں رہ گئے تھے، بیمار ہو جاتے تھے۔
جس طرح دو مدرسوں کے تعصب اور تحزب سے فرقے نہیں بنتے؛ اسی طرح اہل حق کی جماعتوں کے جداگانہ رنگ وآہنگ سے فرقہ وجود میں نہیں آتا، ہاں وہ اپنے کام کی افضلیت پر مصر ہوتے ہیں اور یہ دعوی سب جگہ ہے، میں ایک تنظیم سے اگر وابستہ ہوں تو الگ سے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میرے نزدیک وہی تنظیم سب سے افضل ہے، فنائیت اور فدائیت کے بغیر کوئی نقش وجود میں نہیں آیا، وہ عمل میں آگے نکل گئے ہیں، آپ پیچھے رہیں گے تو الزام تو آئے گا، پھر آپ بے تکی باتیں کرتے ہیں، ایک تبلیغی بھائی نے بتایا کہ فلاں مسجد کے امام صاحب بر سر منبر کہہ رہے تھے کہ میرا سونا تمھاری رات بھر عبادت سے افضل ہے، تبلیغی کارکنان ہدف تھے۔
تبلیغی سادہ لوح ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ اعراب کہلاتے تھے، آپ ان کی سادگی کے قدردان تھے، لا ازید ولا انقص کو قبول کر لیتے تھے، جب کہ یہ واجب التاویل ہے، ان کی تعبیرات میں تحقیق وتنقیح ممکن نہیں، یہ علما کی شان ہے، بیشتر گرفت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی بات کہہ نہیں پاتے، یہ جواب دہی بھی اہل علم کی ہے، وہ اس تنقیح کے اہل نہیں کہ ہر میدان کی اہمیت ہے اور ہر میدان کے رجال کار ہیں، وہ مینڈک ہیں اور ماورا سے بے خبر اور بے نیاز ہیں؛ مگر آپ فرق کے اہل ہیں، آپ کی بے جا عیب جوئی لائق عذر نہیں۔
کل ہماری مسجد کی جماعت کمیٹی نے طلبہ یعنی عصری اداروں کے اسٹوڈنٹس کا جوڑ رکھا تھا، از عصر تا عشا مسجد میں ایمان کی باد بہار دیدنی تھی، رمضان کا سماں رہا، اس فرق کے ساتھ کہ رمضان میں ہر عمر کے نمازی ہوتے ہیں، کل بیشتر مجمع نو عمر تھا، تبلیغ کی کراؤڈ پلنگ طاقت منفرد ہے، ہمارے اشتہار بھی کم پڑ جاتے ہیں اور ان کا خفیہ نیٹ ورک اجتماع گاہ بھر دیتا ہے، حضرت مولانا الیاس صاحب علیہ الرحمہ کی کرامت دیکھی کہ ماڈرن ماحول کے نوجوان کرتے پائے جامے اور جبے میں تھے، ان کا دم گرم ہے کہ جدید طبقہ باریش ہوجاتا ہے، ڈاڑھی، نماز، لباس، پردہ، بچوں کی مذہبی تعلیم اور دین کے تمام مظاہر میں ان کی سبقت بانی تبلیغ کے اعمال نامے کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
میں 1997 اور 1998 میں دو مرتبہ چلے کی جماعت میں گیا تھا، یہ طلبۂ دارالعلوم کی تعطیل کلاں والی جماعت تھی، زندگی کا بہترین روحانی تجربہ ثابت ہوا، جماعت کی سرگرمیوں کے جلو میں انفرادی ترقی ہوئی تھی، تہجد کی پابندی عام تھی، یاد ہے کہ رونا بھی نصیب ہوتا تھا، میرے یہ دو چلے ازدواج میں کام آئے، سسرال کٹر تبلیغی ہے، نانا سسر سینئر ترین ذمے دار تھے، نوے سال کی عمر میں جماعت ہی میں اللہ کو پیارے ہوئے، جمعے کا دن تھا، عصر کی سنتوں کے بعد فرض کے منتظر تھے بے توازن ہوگئے، سسر صاحب فنا فی التبلیغ ہیں، اس نسبت سے براعظموں کے راہ نورد ہیں، میرے رشتے کے وقت ایک سال کی بحث اٹھی تھی؛ مگر میری خصوصیات کے پیش نظر دو چلے کافی مان لئے گئے، میری بچی تبلیغ میں چلنے کا مزہ دیکھ نظم چلا کر میرے قریب کردیتی ہے، یہ سب غلو ہے؛ مگر میں انجوائے کرتا ہوں، یہ اپنے ہیں اور اپنے کام کی دعوت دیتے ہیں۔
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری 
23 صفر 1447ھ 18 اگست 2025ء ( #ایس_اے_ساگر )