Wednesday, 1 January 2025

سنا ہے سال بد لے گا!

سنا ہے سال بد لے گا! 

‎ -------------------------------

‎ ‎عیسوی سال 2024ء کا آخری سورج ڈھلنے کو ہے، ایشیائی ممالک میں ڈھل بھی چکا ہے؛ لیکن سال 2024ء میں عالمی افق پہ نسل پرستانہ برتری، قابو کی حکمرانی، مذہبی منافرت، نسل و قوم پرستی کے جنون وتعصب  کا جو سورج طلوع ہوچکا ہے وہ شاید دہائیوں تک نہ ڈھل سکے۔ ‎نئے عیسوی سال 2025ء کے آغاز پہ امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں کے ساتھ دنیا بھر میں جشن کا سماں ہے- 

‎آسمان پہ رنگ ونور کی برسات ہے۔آتش بازی کی جارہی ہے،منچلے سڑکوں پہ نکل کے رقص کناں ہیں،مرد وخواتین کاروں ،موٹر سائیکلوں اور  پیادہ پائوں سڑکوں پہ نکل آئے ہیں، جشن کا ماحول ہے۔سالِ نو کی آمد پہ شہر کا شہر پٹاخوں اور ہوائی فائرنگ کی آواز سے دہل رہا ہے۔

‎لیکن آہ! فلسطین کے نہتھے عوام میں جراحتوں، ہلاکتوں ،پامالیوں، غموں اور مصیبتوں کی کیسی قیامت خیزیاں ہیں؟ ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی سفاکیت کا طوفان بلاخیز بھی کبھی تھمے گا؟ 

‎سال 2024 کا سب سے تکلیف دہ واقعہ غزہ پر اسرائیلی درندگی کا تسلسل ہے جو اب تک 45 ہزار سے زائد فلسطینی کی معصوم جانیں نگل چکا ہے، لیکن حقوق انسانی کے ٹھیکیدار امریکا اور مغربی ممالک کے کانوں پر جوئیں تک نہ رینگیں، بلکہ سفاک اسرائیل کو جنگی ساز وسامان کی فراہمی کے وعدے کئے جارہے ہیں۔

‎ امریکا کے صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی بطور صدر کامیابی بھی سال 2024 کے منظر نامے کا حیران کن باب ہے۔

سولہ سال تک قوت واقتدار کا اکلوتی سرچشمہ سمجھے جانے والی خاتون آہن حسینہ واجد کا فرار اور اس کے اقتدار کا خاتمہ سال 2024 کی امید افزا خبر تھی۔

‎حماس سربراہان شیخ اسماعیل ہنیہ ،یحییٰ سنوار اور حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت نسل پرستانہ برتری کے مظالم اور درندگی کے دلدوز مظاہر ہیں۔

سال 2024 کی دل خراش سوغاتوں کے بیچ ایک اچھی اور امید افزا خبر یہ آئی کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتین یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور انہیں جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا؛ لیکن المیہ کہئے کہ وہ پابند سلاسل نہ ہوسکا ۔اسی طرح 2024ء میں اسپین، ناروے اور آئرلینڈ کی طرف سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا جو 2024 کے عالمی سیاسی منظر نامے میں غیرمعمولی اقدام ہے، کاش مسلم ممالک بھی یہ جرات کرپاتے! 

میرے نزدیک سال 2024 کی سب سے اچھی اور دھماکہ خیز خبر یہ تھی کہ تاریخ انسانی کا سفاک ترین درندہ بشار الاسد - جس کے خونی پنجوں نے بلا شبہ لاکھوں انسانوں کی جانیں لیں -کے 24 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا اور وہ دم دبا کر روس فرار ہوا ۔فتح دمشق سال رواں کا امید افزا واقعہ ہے۔

‎نسل پرستانہ برتری کے اسی نازی طرز حکومت کا تجربہ ہمارے مادر وطن ہندوستان میں ہورہا ہے، 2024 کے من جملہ سانحات کا سیاہ ترین باب یہ بھی ہے کہ “ مغل اعظم “ کی حکومت یہاں پھر قائم ہو گئی ہے ۔جمہوری روایات اور مذہبی امن ورواداری کا جنازہ نکل رہا ہے۔ اوقاف مسلمین کو ہتھیانے کی سازشیں ہورہی ہیں، مسجدوں کے نیچے منادر تلاش کئے جارہے ہیں، مسلم اقلیت کو سر راہ ہراساں کئے جانے کا ہر حربہ استعمال ہورہا ہے۔

‎امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں (آس ورجاء) کے ساتھ جس عیسوی سال 2024 کا آغاز لوگوں نے کیا تھا ۔آج ہم اپنے دل میں ہزاروں غم چھپائے اس سال کے آخری دن کی دہلیز پہ" یاس وناامیدی" کے ساتھ کھڑے ہیں۔اسلامی سال کا آغاز ہوئے چھ ماہ سے زائد ہوچکے ہیں۔آج شب بارہ بجے کے بعد دنیا بھر کے عیسائی  لوگ اور اسلامی "اقدار وروایات " سے ناواقف '  مغرب زدہ مسلمان ' عیسوی نئے سال کا زور دار  استقبال کریں گے۔

لیکن مجھے  نہیں معلوم کہ جگمگاتی روشنیوں ،قمقموں اور فلک شگاف پٹاخوں کے ذریعہ "بہشت احمقاں" میں رہنے والے یہ لوگ اپنے غموں پہ ہستے ہیں یا اپنی کامیابیوں اور حصولیابیوں پہ خوشیاں مناتے ہیں ؟؟؟ 

 کیونکہ نئے سال  کی نئی صبح میں خوشیاں منانے والے اور خوشحالیوں کے خواب دیکھنے والے کا خواب دسمبر کی آخری تاریخ تک بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا!۔ 

آخر لوگ اس کا ادراک کیوں نہیں کرتے؟ کہ  رات ودن کے بدلنے سے،ستاروں اور سیاروں کے اپنے محور کے گرد چکر لگانے سے، ماہ وسال کے بدلنے ، کسی کے گذرنے یا کسی کے آنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔

فرق پڑتا ہے تو اس سے پڑتا ہے کہ گذرنے والا سال ہمیں کیا دے جارہا ہے ؟ اور آنے والا سال ہمارے لئے کیا لارہا ہے ؟؟؟ ۔۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گذرنے والے سال میں انسانوں کی سوچ اور اپروج میں کیا تبدیلی آئی؟  اور آنے والے سال میں ان کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی کے کیا اور کتنے امکانات ہیں؟؟      

سال 2024 میں ملت اسلامیہ کے چہرے پہ بیشمار غم' سیاہ کالک کی طرح  مل دیئے گئے ہیں۔

اس سال سے ملنے والی سوغاتوں میں ہمیں واضح طور پہ نظر آتا ہے کہ اس سال میں دنیا پہلے سے کہیں بڑھکر بدامنی کا شکار ہوئی۔بالخصوص عالم اسلام پہلے سے کہیں بڑھ کر قتل، غارت، انتشار وخلفشار کی آماجگاہ بن گیا۔

اس کے ساتھ ہی  پورے عالم میں چاروں طرف پہیلی بداعمالیاں، بے ایمانیاں، وحشتناک بدامنی، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک مڑی، ناپ تول میں کمی، احکام خداوندی سے کھلی بغاوت ،دین وشریعت سے دوری، والدین اور شوہروں کی نافرمانی جیسے ناسور ہمارے معاشرے میں ہنوز باقی ہی نہیں، بلکہ ان خرابیوں کا شرح نمو روز افزوں ہے۔ ان کا مداوی کرنے والا کوئی دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ اتنے سارے زخموں کے ہوتے ہوئے ہمیں خوشیاں منانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ اب دیکھنا ہے کہ 2025 کا  نیا منظر نامہ کتنا مہیب اور بھیانک ہوتا ہے! 

اگر  آنے والا سال امن کا پیامبر ہوتا! 

اگر آنے والے سال میں مسلمانان عالم اپنی اساس کو پہچان کر، باہمی گلے شکوے بھول کر، احکام شریعت کے نام پہ بھائی بھائی بن کر، انسانیت اور آدمیت کے نام پہ اتحاد کرلیں، اور آنے والے سال کو ظلم وبربریت اور کفر وطغیان کے خاتمے اور دعوت اسلامی کے فروغ کا سال ہونے کا عہد کریں تو پہر میں بھی آپ کو اس کے آغاز پہ دعائیں دے سکتا ہوں ۔لیکن یہاں حال یہ ہے کہ :

نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے سال بدلے گا 

پرندے پھر وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا 

بدلنا ہے تو دن بدلو بدلتے کیوں ہو ہندسے کو 

مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلے گا 

وہی حاکم وہی غربت وہی قاتل وہی ظالم 

بتائو کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا ؟؟؟ 

‎کیلنڈر کا سورج ڈوب گیا تو کیا؟ انقلاب کا سورج طلوع ہوکر رہے گا، جبر واستبداد کی گھٹائیں چھٹ کے رہیں گی. ان شاء اللہ.

شکیل منصور القاسمی 

‎بیگوسرائے

31/12/2024

‎روز منگل، ساڑھے چھ بجے شام 

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com

https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/2024-2024-2025-2024-45-2024-2024-2024.html
( #ایس_اے_ساگر)



کرسمس کے کیک کا حکم

کرسمس کے کیک کا حکم

-------------------------------

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ بعض عیسائی حضرات جو اس موقع پر کیک بطور تحفہ مسلمان دوستوں کو دیتے ہیں جس کا تعلق بظاہر کرسمس سے ہی معلوم ھوتا ہے کیا اسےقبول کرنے کی گنجایش ہے اورکیا اسےکرسمس سے ہی متعلق ماناجائے گا؟

الجواب وباللہ التوفیق:

کرسمس کے کیک یا اس موقع کے دیگر تحائف قبول کرنے کے بارے میں علماء کے درمیان دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں، علماء کے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ غیر مسلمین کے مذہبی تہواروں کے موقعوں پر ان کے  تحائف قبول کرنا جائز نہیں ہے، کرسمس ایک معروف مذہبی تہوار ہے جس کا تعلق عیسائی باطل ومشرکانہ عقائد سے ہے، اس کا منانا، اس میں شرکت کرنا یا اس موقع سے پیش کے گئے مخصوص تحائف قبول کرنا مشرکانہ عقائد و شعائر کی تعظیم و توثیق کے مشابہ ہونے کے باعث ناجائز ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق غیرمسلموں کی "مذہبی رسومات" اور ان کے تہواروں کی تعظیم سے بچنا ضروری ہے تاکہ کسی قسم کا "تشبہ" پیدا نہ ہو۔اسلام مستقل دین، کامل واکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے، ہر مسلمان کو اپنے مذہب کے عقائد واعمال اور احکام و تعلیمات کی صداقت وحقانیت پر دل ودماغ سے مطمئن ہونا اور اعضاء وجوارح سے اس کا عملی ثبوت پیش کرنا ضروری ہے. کسی دوسری قوم کی عادات و اطوار اور تہذیب و تمدن سے استفادہ وخوشہ چینی (شرکیہ و کفریہ طور طریق کو پسند کرنے) کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کفر پسندی یا اس پہ رضا واقرار یا اس کی حمایت ونصرت بندہ مومن کو دین سے خارج کردیتی ہے:

"يَا أيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ". (الممتحنة: 1).

’’من کثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضي عمل قوم کان شریکا في عمله.‘‘ (كنزالعمال: الرقم: 24730، نصب الرایۃ للزیلعي: 102/5. کتاب الجنایات، باب ما یوجب القصاص وما لا یوجبہ، الحدیث التاسع)

جبکہ علماء کے دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ اپنے مذہبی حدود وشعار پہ انشراح واستقامت کی شرط کے ساتھ دیگر اہل مذاہب ہم وطنوں و ہم پیشہ افراد و اشخاص کے ساتھ معاشرتی حسن سلوک و احسان کے تحت ان کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر ان کے ہدایا قبول کرنا چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے:

 کیک، مٹھائی یا کھانے کی چیزیں انہوں نے اپنے باطل معبودوں کے نام پر نہ چڑھایا ہو اور نہ ہی اس میں کسی حرام و ناپاک چیز کی آمیزش کی گئی ہو، دینے والوں کا اکثر ذریعہ آمدن حلال ہو، قبول کرنے کا مقصد صرف حسن اخلاق ہو، نہ کہ کرسمس کی مذہبی تعظیم، ہدیہ قبول کرنے کے بعد کسی دینی معاملے میں اس غیر مسلم کے اثر انداز ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو ان شرطوں کے تحقق کے ساتھ کیک یا مٹھائی وغیرہ کا استعمال کرنا جائز ہے؛ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے غیرمسلموں کے تحائف قبول کیے ہیں، جیسا کہ یہودیوں سے کھانے کی دعوت قبول کرنا ثابت ہے (صحیح البخاري (2617)، ومسلم (2190) .

جواز کی شرطوں کے تحقق کا ذریعہ چونکہ موہوم ہے، متیقن نہیں؛ اس لئے احوط یہ ہے کہ کرسمس کے کیک یا تحفہ قبول کرنے سے پرہیز کیا جائے، معاشرتی حسن سلوک اور اعلی انسانی اخلاق واقدار کا اظہار امر آخر ہے، مذہبی تہواروں کے موقع کی مخصوص ہدایا قبول کرنے سے ان کے عقائد کی تائید وتوثیق یا ان کے کلچر کی ترویج وتکثیر کا شائبہ ابھرتا ہے؛ اس لئے اجتناب برتنا بہتر ہے؛ تاکہ ہمارا عقیدہ اور اسلامی حدود محفوظ رہ سکیں۔

واللہ اعلم 

شکیل منصور القاسمی

مرکز البحوث الإسلامية العالمي 

٢٨ جمادی الثانیہ 1446ہجری

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_1.html
( #ایس_اے_ساگر)


سینئر صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال

سینئر صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال
سینئر صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ انا لله و انا اليه راجعون۔ صحافتی حلقوں میں سخت صدمہ ہے۔ شبّیر شاد صاحب کا اس دنیا سے رخصت ہونا اردو صحافت کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ سبحانہ تعالی متعلقین کو صبرجمیل عطا فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ نمازجنازہ بعد نماز عشاء جامع مسجد کلاں سہارنپور اور تدفین قبرستان حضرت قطب شیر، انبالہ روڑ میں ہوئی، سہارنپور کے مشہور تاجر اور مخیر، سابق ممبر پارلیمنٹ حاجی فضل الرحمان قریشی کے قریبی عزیز، روزنامہ انقلاب کے مشہور نمائندے اور بہترین صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث ہوا۔ مرحوم تقریبا 65 سال کے تھے۔ شبیر شاد صاحب سے میرا تعارف تو زمانہ طالب علمی سے ہی ہوگیا تھا۔ وہ سہارنپور کے بااثر، معتبر اور بڑے سنجیدہ صحافی تھے۔ ان کی پوری زندگی صحافت میں ہی گزری۔ سہارنپور کے مضافات میں میرے بعض سفر بھی مرحوم کے ساتھ ہوئے۔ وہ سلجھے ہوئے انسان تھے۔ سلجھی ہوئی گفتگو کرتے تھے۔ ایک زمانہ سے وہ روزنامہ انقلاب کے سہارنپور میں نمائندے تھے۔ ان کی خبریں بالکل نپی تلی ہوتی تھیں۔ وہ  لکھتے، مکمل لکھتے تھے۔ جوانی کے دنوں میں ان کے مضامین اور انٹرویو بہت پسند کئے جاتے تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ آپ اردو کے بہترین شاعر تھے آپ نے دوران سفر اپنے بہت سے اشعار مجھے سنائے اور ان اشعار سے ان کی ادبیت اور شعریت کا پایہ بلند محسوس ہوا۔ انھوں نے مظاہرعلوم وقف سہارنپور کی ڈیڑھ سو سالہ عظیم خدمات پر اپنے روزنامہ انقلاب کا ایک خوبصورت معیاری نمبر بھی شائع کروایا۔ یہ خصوصی شمارہ 'انقلاب' کے تمام ایڈیشنوں پر مشتمل تھا۔ ادھر چند سال سے ملاقات کا سلسلہ کافی کم ہوگیا تھا۔ ایک دن انھوں نے مجھے فون کیا کہ میں مکہ مکرمہ میں ہوں، حج کے لئے آیا ہوا ہوں۔ ابھی مکہ میں ہی ہوں۔ میں نے کہا کہ حج کا وقت تو بہت پہلے ختم ہوچکا ہے۔ اب آپ وہاں کس لئے رکے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتلایا کہ میری بیٹی اور میرا داماد یہیں ہیں۔ اور بڑی خوشی کے لہجہ میں بتلایا کہ میرا داماد ماشآءاللہ یہاں ایک بڑے اسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کرتا ہے۔ اسے حکومت کی طرف سے رہائش اور دیگر مراعات ملی ہوئی ہیں۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ افسوس کہ آج حاجی فضل الرحمان قریشی کی ایک تحریر سے انتقال کی خبر کلفت اثر پڑھنے کو ملی۔ میں مرحوم کے اہل خانہ اور حاجی فضل الرحمان قریشی سے اظہار تعزیت کرتا ہوں اور ان کے غم میں برابر کا شریک ہوں۔ قارئین کرام سے بھی دعاء مغفرت کی درخواست ہے۔ (ناصرالدین مظاہری) 
------------
(آہ شبیرشاد)
ندیم جہاں شبیرشاد آن واحد میں داغ مفارقت دے گئے، 'غم واندوہ کی وہ کیفیت کہ ہرلفظ اور بیانیہ خوں روتا ہے۔ شبیر شادؔ، سہارنپور کے اردو ادب اور صحافت کی دنیا کا ایک ایسا نام ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ نہ صرف ایک ممتاز صحافی تھے بلکہ ایک قادرالکلام شاعر بھی تھے۔ ان کی شخصیت سہارنپورکی مشترکہ تہذیب اور سماجی ہم آہنگی کی جیتی جاگتی مثال تھی، شبیر شادبزم دوستاں روح و آبرو تھے۔ سہارنپور کی دبستان اردو انکے دم سے شاداب تھی۔
شبیر شادؔ کا تعلق سہارنپور کے ایک معززومعروف خاندان سے تھا۔ ان کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں انسانی تہذیب اور رواداری کی قدریں مقدم تھیں۔ ان کے والد حاجی مقبول رحمتہ اللہ علیہ مشہور مجاہد آزادی اور شہر کے متمول انسان تھے'شبیر شاد نے نوجوانی سے اردو زبان سے محبت کی اور اسے اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ حالیہ شہر سہارنپور کے بام ودر پر دوست پروری اور اردو تہذیب کے نقش و نگار میں شبیر شاد کی مساعی جمیلہ نہایت ممتاز اور واضح ہے۔
شبیر شادؔ نے اردو صحافت کے میدان میں جو خدمات انجام دیں، وہ بے مثال ہیں۔ انہوں نے کئی دہائیوں تک مختلف اردو اخبارات و رسائل میں بطور نمائندہ اور کالم نگار کام کیا۔ ان کے مضامین اور تجزیے گہری بصیرت، غیرجانبداری اور تحقیق پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے سماجی مسائل کو اجاگر کرتے اور حل کے لئے تعمیری مشورے دیتے۔ ان کی صحافت نے سہارنپور میں اردو زبان کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
شبیر شادؔ ایک عمدہ شاعر تھے جن کی شاعری دلوں کو چھولینے والی ہوتی تھی۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں محبت، انسان دوستی اور مشترکہ تہذیب کی جھلک نمایاں تھی۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ ان کا کلام سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے، جہاں الفاظ آسان لیکن معانی گہرے ہوتے ہیں۔
شبیر شادؔ اپنی زندگی بھر ہندستان کی مشترکہ تہذیب کے نمائندہ رہے۔ وہ مختلف مذاہب اور برادریوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کے زبردست حامی تھے۔ ان کی شخصیت اور کام نے ہمیشہ لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ محبت اور رواداری ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہے۔شنیرکے حلقہ یاراں میں ہر مذہب و مشرب کی نمائدگی موجود ہے۔ شبیر حد درجہ شگفتہ مزاج' باغ و بہار' بزلہ سنج اور حاضر جواب تھے. ان کے متین وجود میں ایک شریر بچہ ہمیشہ زندہ رہا. تاہم گفتگو میں انسانی جذبات کے احترام کے قائل تھے۔
شبیر شادؔ کی وفات سے سہارنپور اورصحافت و اردو ادب کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، لیکن ان کی تحریریں، شاعری اور افکار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ نئی نسل کے لئے ایک مشعلِ راہ ہیں، جو اردو زبان اور مشترکہ تہذیب کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
شبیر شادؔ کا نام اردو ادب اور صحافت کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ ان کی شخصیت اور خدمات نے یہ ثابت کردیا کہ ایک فرد اپنی صلاحیتوں اور عزم کے ذریعے معاشرے پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ ان کی یاد ہمیشہ دلوں میں زندہ رہے گی۔ ان کا اس دنیا سے اچانک چلے جانا زمانے بھر کے ساتھ ساتھ میرا ذاتی ناقابل تلافی خسارہ بھی ہے۔
خوشبو دیار لالہ وگل سے خفانہ ہو۔۔۔۔۔
یارب کسی کا دوست کسی سے خفانہ ہو۔ 
(غم زدہ: اشرف عثمانی دیوبندی)( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post.html