Wednesday 3 January 2024

پیسے بچانے کے وہ 3 مشورے جو آپ کے بچوں کا مستقبل کر سکتے ہیں تابناک

 پیسے بچانے کے وہ 3 مشورے جو آپ کے بچوں کا مستقبل کر سکتے ہیں تابناک

دنیا بھر میں مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے شاید ہی کوئی طبقہ یا فرد ایسا ہو جسے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا رہا ہو۔ اس سب کے بیچ اکثر والدین خاص طور پر اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کی وجہ سے ذہنی تناو کا شکار رہتے ہیں۔دل و دماغ میں یہی چل رہا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنے بچوں کو باشعور اور مثبت شہری بنانے کیلئے بہتر تعلیم دے پائیں گے؟ کیا ان کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کیلئے انھیں کسی اچھے تعلی ادارے میں داخل کروا سکیں۔اب یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر ایک ایسی چیز ہے جس میں تمام والدین شریک ہیں۔پہلی تشویش عام طور پر اچھی صحت کو برقرار رکھنے یا زندگی میں اپنے انتخاب سے خوش رہنے کے بارے میں ہوتی ہے۔لیکن جیسے جیسے وہ انھیں بڑے ہوتے دیکھتے ہیں، ایک تشویش جو اکثر پیدا ہوتی ہے وہ ان کی معاشی خوشحالی کے گرد گھومتی ہے۔برطانیہ میں سٹینڈرڈ لائف کی جانب سے کروائے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر 10 میں سے سات والدین اپنے بچوں کے مالی مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔اس تشویش کے عام طور پر دو پہلو ہوتے ہیں، ایک یہ کہ اپنے مستقبل کیلئے بچت کیسے کریں، دوسرا یہ ہے کہ کیا وہ اس بچت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔مطالعات سے پتا چلا ہے کہ کم عمری سے بچت کرنے کی عادت سے بچے مستقبل میں اپنے معاشی معاملات بہتر انداز میں چلا پاتے ہیں۔لیکن یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ بچت کرنا اتنا آسان نہیں ہے، جیسا کہ امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے معاشی ماہر اور مصنف ڈین ایریلی کہتے ہیں: ’پیسے کی خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے بارے میں کبھی بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب تک کسی کے پاس رہے گا، اسی وجہ سے ہمارے لیے یہ سوچنا بہت مشکل ہے کہ طویل مدت میں اس کا اصل مطلب کیا ہے۔‘بی بی سی کے پوڈ کاسٹ ’منی بوکس‘ میں ان کا کہنا تھا کہ ’جو چیز واقعی اہم ہے وہ یہ ہے کہ انھیں (بچوں کو) کچھ کنٹرول رکھنے اور پیسے کے بارے میں اپنے کچھ فیصلے کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ شاید وہ کچھ غلطیاں کر سکیں۔‘معاشی ماہر سٹیفنی فٹزجیرالڈ کا کہنا ہے کہ ’اوہ، کاش میں نے کچھ پیسے بچا لیے ہوتے یا میں نے انھیں کسی ایسی چیز پر خرچ کیا ہوتا جو طویل عرصے تک میرے پاس رہتی۔‘

1۔ طویل مدتی سیونگ اکاوٹس:

چونکہ ہمارے بچوں کو فوری طور پر پیسے کی ضرورت نہیں ہے اور طویل مدتی بچت کی مصنوعات ہمیشہ اعلیٰ فوائد پیش کرتی ہیں، لہذا بینکوں کی طرف سے پیش کردہ اکاونٹس اور ہر ایک پر سود کی شرح کا موازنہ کرنا بہتر ہے۔سٹیفنی کہتی ہیں کہ ’بچوں کے سادہ سے اکاونٹس ہیں اور یہ بچوں کو پیسے کی آمد اور اخراج کے بارے میں سمجھانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔بینک میں اکثر دو قسم کے اکاونٹس ہوتے ہیں، فوری رسائی والے کرنٹ اکاونٹس کے ساتھ آپ کسی بھی وقت رقم نکال سکتے ہیں یا جمع کرواسکتے ہیں لیکن ان میں سود کی شرح محدود یا طویل مدتی سیونگ اکاونٹس سے کم ہوتی ہے۔اس بارے میں سمجھنے کیلئے کہ کون سا بینک بچوں کیلئے اچھے سیونگ اکاونٹ آفر کر رہا ہے، کچھ ’کمپیریزن سائٹس‘ موجود ہیں جہاں آپ مختلف سکیمز کا موازنہ کر سکتے ہیں۔آپ بہت سے بینکس میں ایسے اکاونٹ بھی منتخب کر سکتے ہیں جن تک صرف وہ بچے رہی رسائی حاصل کرسکتے ہوں جن کے نام پر وہ بینک اکاونٹ حاصل کیا گیا ہے، مگر اس میں مزید ایک اچھی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ بچے اس اکاونٹ میں جمع ہونے والی رقم کو تب استعمال کر سکتے ہیں جب وہ 18 سال کے ہو جائیں۔سٹیفنی فٹزجیرالڈ کے مطابق ’اس سے کسی کے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے یا کسی ایسی چیز کو کوور کرنے کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں جس کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘لیکن سب سے بڑھ کر، آپ کو انھیں اس لمحے کیلئے تیار کرنا ہوگا اور یہ بات بھی ان کے ساتھ کرنی ہوگی کہ آپ کی ان سے توقعات کیا ہیں کہ آپ کی نظر میں انھیں یہ رقم کب، کہاں اور کس وقت استعمال کرنی ہے۔ جیسے یونیورسٹی میں داخلے کے وقت، مستقبل میں کسی بھی ہنگامی صورتحال کے وقت، یا پھر شاید اپنی پہلی گاڑی کی خریداری کے وقت۔ایک اور مثبت نکتہ یہ کہ جب آپ ان کیلئے بچت کرتے ہیں تو ان سے بات کرنا ضروری ہے کہ غیر متوقع واقعات کیلئے مختص رقم کس طرح انھیں یہ احساس دلائے کے ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ بس اگر انھیں کسی چیز پر توجہ دینی ہیں تو وہ ان کی تعلیم ہے۔

2۔ آہستہ آہستہ، پیسے جمع کرنے کیلئے بچت کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا:

آج ایک بچے کیلئے بچت اس کے مستقبل کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے۔ نہ صرف وہ کچھ رقم کے ساتھ اپنی بالغ زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں بلکہ اس عمل میں بچوں کو شامل کرنے سے انھیں پیسے کے بارے میں اہم سبق سیکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔لیکن اگر آپ کچھ عرصے کیلئے خاندانی صورتحال کی وجہ سے ان کیلئے بچت نہیں کرسکتے ہیں تو، معاملات مشکل میں تو پڑ سکتے ہیں مگر کوشش سے پھر بھی آپ کچھ نہ کچھ کر ہی سکتے ہیں۔ضروری بات یہ ہے کہ قرض نہ لیا جائے یا اس طرح کی کسی چیز کیلئے کریڈٹ کارڈ کا استعمال نہ کیا جائے۔’والدین کیلئے یہ بہت فطری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو بہترین مستقبل ملے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم افراط زر کی وجہ سے زندگی گزارنے کے اخراجات کے بحران سے دوچار ہیں اور لوگوں کی بچت کرنے کی صلاحیت اس وقت واضح طور پر کافی تناو کا شکار ہے۔‘

فنانشل پلانر کرسٹی سٹون کے بھی ایسا ہی خیالات ہیں۔فٹزجیرالڈ کہتے ہیں کہ ’میں واقعی لوگوں کی حوصلہ افزائی کروں گی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے بچت کی امید میں قرض میں نہ جائیں یا اپنے قرضوں میں ڈیفالٹ نہ ہوں۔’آپ کے بچوں کو تکلیف نہیں ہوگی اور اہم بات یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ خاندان اس وقت مالی طور پر محفوظ ہے۔ امید ہے، جیسے جیسے چیزیں بہتر ہوں گی، وہ مستقبل میں مزید بچت کرنے کے قابل ہوں گے۔‘

3۔ کمپاونڈ انٹرسٹ کے جادو کو نظر انداز نہ کریں:

کچھ لوگ اسے ’کمپاونڈ انٹرسٹ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں، کچھ اسے دنیا کے آٹھویں عجائب کے طور پر اور کچھ ایک برف کے گولے کے طور پر بیان کرتے ہیں جو آپ کی توجہ کے بغیر آپ پر بوجھ کو بڑھا دیتا ہے۔یہ سب ایک بچت اکاو¿نٹ سے شروع ہوتا ہے جس میں انٹرسٹ کی شرح ہوتی ہے۔ فرض کریں کہ آپ کے پاس 100 ڈالر یا اس کے مساوی کو ایک اکاونٹ میں ڈالتے ہیں جو آپ کو 5 فیصد سود کی شرح پیش کرتا ہے۔اب اس معاملے کو سمجھنے اور پڑھتے وقت آپ کو تھوڑی توجہ مرکوز کرنا ہو گی، اعداد و شمار پر ایک اچھی اور گہری نظر ڈالیں۔اب معاملے کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔اس اکاو¿نٹ کے ساتھ، پہلے سال کے اختتام پر، آپ کے پاس 105 ڈالر ہوں گے۔100 ڈالر آپ نے اپنی جیب سے نکالے۔اور بینک نے آپ کو ایک اچھا گاہک ہونے اور ایک سال میں اس ڈیپازٹ کو نہ چھونے کیلئے انعام کے طور پر 5 ڈالر دیے۔کلیدی تصور یہ ہے، کہ کمپاونڈ انٹرسٹ کا جادو اس وقت تک ہوتا ہے، یا تب تک سب ک±چھ اچھا لگتا ہے کہ جب تک آپ پیسے منتقل نہیں کرتے۔ نہ تو ابتدائی، نہ ہی وہ جو بینک آپ کو دیتا ہے۔فٹزجیرالڈ کا کہنا ہے کہ ’آپ صرف اکاونٹ میں ایکویٹی رکھ کر مفت پیسہ کما سکتے ہیں۔‘

اب ہم بڑھنے لگے ہیں دوسرے سال کی جانب۔۔۔

آپ کے بچے کے اکاونٹ میں اب 105 ڈالر ہیں، لیکن اس سال آپ کی مالی حالت آپ کو اس میں مزید ڈیپازٹ کرنے کی اجازت نہیں دے رہی، مگر ہو گا کیا؟ ہوگا یہ کہ آپ کے پیسے میں اس کے باوجود اضافہ ہوتا رہے گا۔

لیکن یہاں دماغ چکرا گیا کہ میاں وہ کیسے؟

ہوگا یہ کہ آپ اس سال 5 ڈالر نہیں کمائیں گے۔ مگر پھر بھی اس سال کے آخر تک آپ کے پاس مزید پیسے ہوں گے۔ 5 فیصد کی اسی شرح سود کے ساتھ بینک اب آپ کو زیادہ معاوضہ دینے جارہا ہے۔ اب آپ جو 5 فیصد کماتے ہیں وہ 100 ڈالر کے بارے میں نہیں ہے جو آپ نے شروع میں رکھا تھا۔ انٹرسٹ اب دوسرے سال کیلئے آپ کے اکاونٹ کے کل پر لاگو ہوتا ہے، یعنی 105 ڈالر پر۔دوسرے سال کیلئے سود 5 کی بجائے 5 اعشاریہ 25 امریکی ڈالر ہے۔لیں جناب اب آپ کا بچہ 110.25 ڈالر کے ساتھ تیسرے سال کا آغاز کرتا ہے اور 115.76 ڈالر کے ساتھ اس کا تیسرا مالی سال ختم ہوتا ہے۔اب اسی طرح چوتھا سال 121.55 زالر کے ساتھ۔پانچواں سال 127.63 ڈالر کے ساتھ۔اور جب وہ 18 سال کا ہو جائے گا، تو اس کمپاونڈ انٹرسٹ کی بدولت، اسے 240.66 ڈالر ملیں گے۔چلیں اب تصور کریں کہ شروع میں 100 ڈالر کے بجائے، آپ 1000 ڈالر لگاتے ہیں، جب آپ کا بچہ 18 سال کا ہوجائے گا، تو اس کے پاس 2,406.62 ڈالر ہوں گے۔ ایک وقت میں تھوڑا سا بچائیں اور ریاضی کو باقی کام کرنے دیں اب یہاں یہ بات اہم ہے کہ جو پیسے آپ کے بچے کے اکاوٹ میں بینک ہر سال اپنی جانب سے ڈال رہا ہے وہ اس بات کا انعام ہے کہ آپ نے اس دوران اس اکاونٹ سے کوئی رقم نہیں نکلوائی۔اور اگر آپ اپنے بچے کو مالیات کے بارے میں سکھانا چاہتے ہیں تو انھیں ایک پیگی بینک دیں یعنی غلہ، منی ہیلپر۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بہت چھوٹے بچوں کیلئے ایک اچھا خیال ہے، جنھیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ پیسہ کھلونا نہیں ہے اور اسے محفوظ جگہ پر رکھنا چاہئے۔ایک پیگی بینک انھیں مختلف سکوں اور بلوں کی قیمت کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے، اور یہ کہ بڑے سکے ضروری طور پر زیادہ قیمتی نہیں ہیں۔یہ اپنے بچے کو جیب خرچ دینا شروع کرنے کا بھی ایک اچھا موقع ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا سکہ ضرور ہوتا ہے مگر اس کی مدد سے بچے کو ایک بڑا اور زندگی کا اہم سبق ملتا ہے۔کیونکہ ہم خود ان کیلئے بچت کرنے کا انتظام کرتے ہیں اس کے علاوہ، یہ ضروری ہے کہ ہمارے بچے میں اس بات کی سمجھ اور فہم پیدا ہو کہ پیسہ کس طرح کام کرتا ہے۔ایک ایسا ہنر یا سبق جو ان کی باقی زندگی کیلئے ان کے ساتھ رہے گا۔






No comments:

Post a Comment