صدقہ سے کیا کیا مصیبتیں ٹلتی ہیں؟
فقیہ ابواللیث سمرقندی
فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بستی پر سے گزرے۔ وہاں پر ایک دھوبی رہتا تھا۔ بستی والوں نے آپ کے پاس اس کی شکایت کی کہ یہ ہمارے کپڑے پھاڑ دیتا ہے اور اپنے پاس روک بھی رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ یہ اپنی کپڑوں والی گانٹھ سمیت واپس نہ آسکے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ دعاء کردی، اگلے دن دھوبی حسب معمول کپڑے دھونے کے لئے چلاگیا، تین روٹیاں ساتھ تھیں۔ قریب ہی پہاڑوں میں ایک عابد رہتا تھا۔ وہ دھوبی کے پاس آیا اور پوچھا: کیا تیرے پاس کھانے کو روٹی ہے؟ اگر ہے تو ذرا اسے سامنے کردے تاکہ میں اسے دیکھ سکوں یا اس کی بو ہی سونگھ لوں کیوں کہ ایک عرصہ سے کھانا نہیں کھایا۔ دھوبی نے اسے ایک روٹی کھانے کو دے دی۔ عابد نے دعاء دیتے ہوئے کہا کہ: اللہ تیرے گناہ معاف فرمائے اور دل کو پاک کرے۔ دھوبی نے دوسری روٹی بھی دے دی. وہ کہنے لگا: اللہ تعالیٰ تیرے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردے۔ دھوبی نے تیسری روٹی بھی پیش کردی۔ عابد بولا: اے دھوبی! اللہ تعالیٰ تیرے لئے جنت میں محل بنائے۔ القصہ شام ہوئی تو دھوبی صحیح وسالم واپس آگیا۔ بستی والوں نے حیران ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ دھوبی تو واپس آگیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے دھوبی کو طلب فرمایا اور پوچھا کہ سچ بتا آج تو نے کیا عمل کیا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ ان پہاڑوں میں سے ایک عابد میرے پاس آیا، اس کے مانگنے پر میں نے تین روٹیاں اسے دیں اور ہر روٹی کے بدلے اس نے مجھے دعائیں دیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ذرا اپنی کپڑوں والی گانٹھ تو کھول کر دکھا، اسے کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سیاہ سانپ بیٹھا ہے، منہ میں لوہے کی لگام ہے۔ آپ علیہ السلام نے سانپ کو پکارا تو اس نے لبیک (اے اللہ کے نبی میں حاضر ہوں) یا نبی اللہ کہہ کر جواب دیا۔ فرمایا: کیا تجھے اس شخص کی طرف نہیں بھیجا گیا تھا؟ وہ بولا: بے شک! لیکن اس کے پاس ان پہاڑوں میں سے ایک عابد آیا اور اس سے روٹی مانگی۔ اور ہر روٹی کے بدلے اس کو دعائیں دیتا رہا۔ اور ایک فرشتہ پاس کھڑا آمین کہتا رہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجا، جس نے مجھے یہ لوہے کی لگام پہنادی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دھوبی سے فرمایا: اس عابد پر صدقہ کرنے کی بدولت تیرے پچھلے گناہ معاف ہوگئے ہیں، اب نئے سرے سے اعمال شروع کردے۔
سالم بن ابی الجعد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک عورت باہر نکلی، گود میں چھوٹا سا بچہ تھا، ایک بھیڑیا آیا اور عورت سے بچہ اُچک کر لے گیا۔ عورت پیچھے ہوئی، راستہ میں ایک سائل ملا، عورت کے پاس ایک روٹی تھی، وہ سائل کو دے دی۔ اتنے میں بھیڑیا ازخود بچے کو واپس لے آیا اور ایک پکارنے والے کی آواز سنائی دی کہ یہ لقمہ اس سائل والے لقمہ کے بدلہ میں واپس ہے۔
جناب معتب بن سمعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک راہب نے ساٹھ سال تک اپنے معبد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی، ایک دن جنگل کی طرف نظر دوڑائی، زمین خوش نما معلوم ہوئی۔ جی میں آیا کہ اترکر زمین کے مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہئے۔ چلنا پھرنا چاہئے اتر آیا، ایک روٹی بھی ساتھ تھی۔ ایک عورت سامنے آئی بے قابو ہوکر گناہ میں مبتلا ہوگیا۔اس اثنا میں موت کے حالات طاری ہوگئے، ایک سائل نے آواز دی، راہب نے روٹی اسے دے دی اور خود مرگیا۔ ادھر اس کے ساٹھ سال کے اعمال ترازو کے ایک طرف اور اس کا یہ گناہ دوسری طرف رکھا گیا۔ ساٹھ سال کی عبادت پر یہ گناہ بھاری ثابت ہوا، پھر اس کی وہ روٹی اعمال والے پلڑے میں رکھی گئی، جس سے گناہ کے مقابلہ میں وہ پلڑا بھاری ہوگیا۔
مشہور ہے کہ صدقہ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمین میں جب بھی کوئی صدقہ کیا جاتا ہے تو ستر شیطان اس سے دور کیے جاتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اس کے لیے رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ صدقہ گناہ کو یوں ختم کرتا ہے جیسے پانی آگ کو۔
صدقہ کو ناپسند کرنے کا نتیجہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک عورت آئی، اس نے ہاتھ آستین میں چھپا رکھا تھا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا ہاتھ باہر کیوں نہیں نکالتی؟ اس نے جواب سے گریز کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ضرور بتانا ہوگا۔ تو کہنے لگی: ام الموٴمنین! قصہ یہ ہے کہ میرے والد صاحب صدقہ کا شوق رکھتے تھے اور والدہ اتنا ہی ناپسند سمجھتی تھی اور کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا کہ اس نے چربی کے ٹکڑے کسی پرانے کپڑے کے سوا کچھ صدقہ کیا ہو۔ قضائے الہٰی سے دونوں فوت ہوگئے، میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت قائم ہے۔ اور میری ماں بھری خلقت میں یوں کھڑی ہے کہ پرانے کپڑے سے پردہ کا بدن چھپایا ہوا ہے۔ اور چرپی کا ٹکڑا ہاتھ میں لیے چاٹ رہی ہے اور ہائے پیاس پکار رہی ہے۔ ادھر میرا والد ایک حوض کے کنارے بیٹھا لوگوں کو پانی پلارہا ہے اور یہی عمل میرے والد کو دنیا میں بھی بہت محبوب تھا۔ میں نے ایک پیالہ پانی کا لے کر اپنی والدہ کو پلایا، اتنے میں اوپر سے آواز آئی، جس نے اسے پانی پلایا ہے اس کا ہاتھ شل ہوجائے۔ چناں چہ میں بیدار ہوئی تو ہاتھ شل تھا۔
مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی کا قصہ:
کہتے ہیں کہ ایک دن مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہوئے تھے، ایک سائل نے آکر کچھ مانگا، گھر میں کجھوروں کی ٹوکری پڑی تھی۔ بیوی سے منگواکر نصف سائل کو دے دی اور نصف واپس کردی۔ بیوی کہنے لگی: سبحان اللہ! تیرے جیسے بھی زاہد کہلاتے ہیں؟ کیا ایسا شخص بھی دیکھا ہے جو بادشا ہ کے حضور ناقص ہدیہ بھیجے؟ مالک رحمۃ اللہ علیہ نے سائل کو واپس بلالیا اور بقیہ کھجوریں بھی اس کو دے دیں، پھر بیوی کی طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے: اری! محنت کیاکر اور خوب ہمت سے کام لے، اللہ پاک کا ارشاد ہے:
﴿خُذُوہُ فَغُلُّوہُ ،ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوہُ،ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُہَا سَبْعُونَ ذِرَاعاً فَاسْلُکُوہُ ﴾․ (سورہ الحاقہ، آیت: 32-30)
ترجمہ: اس شخص کو پکڑو اور اس کے طوق پہنادو پھر دوزخ میں اس کو داخل کرو، پھر ایک ایسی زنجیر میں، جس کی پیمائش ستر گز ہو، اس کو جکڑ دو۔
سوال ہوگا یہ سختی کس وجہ سے ہے؟ تو جواب ملے گا۔
﴿إِنَّہُ کَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللَّہِ الْعَظِیْمِ،وَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ﴾․ (سورہ الحاقہ، آیت: 34-33)
ترجمہ: یہ شخص خدائے بزرگ برتر پر ایمان نہ رکھتا تھا اور غریب آدمیوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔
اے اللہ کی بندی! خوب جان لے کہ ہم نے اس وبال کا ایک حصہ تو ایما ن لاکر اپنی گردن سے اتار دیا ہے اور دوسرا حصہ صدقہ خیرات کے ذریعہ اتارنا چاہئے۔
ایک بدوی کا قصہ:
محمد بن افضل رحمۃ اللہ علیہ یہ روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی کے پاس بکریاں تھیں، مگر وہ صدقہ وغیرہ بہت کم کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے ایک بکری کا لاغر بچہ صدقہ میں دیا۔ خواب میں دیکھتا ہے کہ اس کی تمام بکریاں جمع ہیں اور اسے سینگ ماررہی ہیں اور وہ لاغر بچہ اس کی مدافعت کررہا ہے۔ یہ بیدار ہوا تو کہنے لگا: بخدا! ہمت ہوئی تو تیرے ساتھی بڑھاؤں گا۔ پھر اس کے بعد خوب صدقہ خیرات کرنے لگا۔
حضرت عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص کی اپنے رب سے گفتگو ہوگی۔ اور وہ اپنی دائیں بائیں اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال کو دیکھے گا اور سامنے نظر کرے گا تو دوزخ دکھائی دے گی۔ لہٰذا آگ سے بچو، اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ سے ہی سہی۔
دس اچھی خصلتیں:
فقیہ فرماتے ہیں کہ دس خصلتیں ایسی ہیں جن سے آدمی اچھے لوگوں میں شامل ہوتا ہے اور درجے پاتا ہے۔
1: پہلی صفت صدقہ کی کثرت ہے۔
2: دوسری تلاوتِ قرآن کی کثرت،
3: تیسری ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنا جو آخرت کی یاد دلائیں اور دنیا سے بے رغبتی سکھائیں۔
4: چوتھی صلہ رحمی کرنا،
5: پانچویں بیمار کی مزاج پرسی کرنا،
6: چھٹی ایسے اغنیا سے میل جول نہ رکھنا جو آخرت سے غافل ہوں۔
7: ساتویں آنے والے دن کی فکر میں لگے رہنا۔
8: آٹھویں امیدوں میں کمی اور موت کو بکثرت یاد کرنا۔
9: نویں خاموشی اختیار کرنا اور کلام میں کمی رکھنا اور
10: دسویں خصلت تواضع ہے اور گھٹیا لباس پہننا۔ فقراء سے محبت کرنا، ان کے ساتھ مل جل کر رہنا، مساکین اور یتیموں کے قریب رہنا اور ان کے سروں پر ہاتھ رکھنا۔
صدقہ کو بڑھانے والی خصلتیں:
کہتے ہیں کہ سات خصلتیں صدقہ کو بڑھاتی ہیں اور اس میں کمال پیدا کرتی ہیں۔
1: پہلی یہ کہ حلال مال سے صدقہ کرنا، اللہ کا ارشاد ہے:
﴿أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ﴾ (سورہ بقرہ، آیت: 267)
ترجمہ: خرچ کرو عمدہ چیز کو اپنی کمائی میں سے۔
2: دوسری یہ کہ قلیل مال سے بھی بقدر ہمت دینا چاہئے۔
3: تیسری جلدی دینا کہ کہیں موقع نہ جاتا رہے۔
4: چوتھی یہ کہ بہترین اور عمدہ مال سے دینا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِیْہِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِیْہِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ﴾ ․(سورہ بقرہ، آیت: 267) ترجمہ: اور ردی چیز کی طرف نیت مت لے جایا کروکہ اس میں سے خرچ کرو، حالاں کہ تم خود کبھی اس کے لینے والے نہیں، ہاں! مگر چشم پوشی کرجاؤ اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کے محتاج نہیں، وہ تعریف کے لائق ہیں۔ یعنی جس طرح تم نے کسی سے قرض لینا ہو تو ردّی مال نہیں لیتے سوائے اس کے کہ چشم پوشی اور درگزر کرجاؤ۔
5: پانچویں یہ کہ ریا سے بچتے ہوئے چھپاکر صدقہ کرو۔
6: چھٹی یہ کہ اس پر احسان بھی نہ جتاؤ کہ اجر باطل ہوجائے۔
7: ساتویں یہ کہ اس کے بعد تکلیف نہ پہنچاؤ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لاَتُبْطِلُواْ صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالأذَی﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:264) ترجمہ: تم احسان جتا کر یا ایذا پہنچاکر اپنی خیرات کو برباد مت کرو۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/02/blog-post_11.html
No comments:
Post a Comment