Tuesday 8 December 2020

اسلام میں فعل خلاف فطرت کا کیا حکم ہے؟

اسلام میں فعل خلاف فطرت کا کیا حکم ہے؟
جنسی بے اعتدالی کی اس سے بھی بدترین شکل لواطت اور استلذاذ بالمثل ہے۔ یہ نہایت خلاف فطرت اور اسلام کی نگاہ میں مبغوض اور قبیح فعل ہے۔ قرآن کے بیان کے مطابق حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر محض اسی وجہ سے سخت بھیانک اور عبرت ناک عذاب نازل ہوا، زمین پر پتھر کی سخت بارش ہوئی اور اس کی سطح پلٹ کررکھ دی گئی۔ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ چار اشخاص کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی صبح وشام اللہ کی غضب اور ناخوشنودی کی حالت میں ہوتی ہے، ان میں ایک اس فعل کا مرتکب بھی ہے۔
اس جرم کی شناعت کی وجہ سے فقہاء مضطرب ہیں کہ آخر ایسے مجرم کو کیا سزادی جائے؟ بعض کہتے ہیں کہ پہاڑ سے گراکرہلاک کردیا جائے، بعض زانی کی سزا جاری کرنے کے قائل ہیں، بعض قتل کے اور بعض قاضی کی صوابدید پررکھتے ہیں۔
 حضرت علیؓ کی ایماء پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے غیرشادی شدہ لوطی پر زانی کی سزا سو کوڑے جاری کرائی ہے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردینے کی ہدایت فرمائی ہے اور اکثر فقہاء کا رجحان اسی طرف ہے کہ ایسے مجرم کو قتل کردیا جائے۔ البتہ یہ ’’تعزیر‘‘ کے قبیل سے ہے اور تعزیر میں عدالت کو حالات وواقعات کے اعتبار سے کم وزیادتی کا حق حاصل ہوتا ہے۔
جن اقوام میں یہ برائی عام ہے ان کو خود قدرت جان لیوا اور عبرت ناک امراض کی صورت میں جیتے جی بھیانک سزادے رہی ہے اور آخرت کی پکڑ اس سے سوا ہے کہ ’’ان بطش ربک لشدید‘‘
جانوروں سے تکمیل ہوس:
ایسے ہی قبیح افعال میں جانوروں کے ذریعہ جنسی خواہش کی تکمیل و تسکین ہے اور واقعہ ہے کہ یہ ایسا عمل ہے کہ اس پر حیوانیت اور بہمیت کی جبین حیا بھی عرق آلود ہے… آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شدید مذمت فرمائی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والے شخص اور خود جانوردونوں کو قتل کردو۔ فقہاء نے گواس فرمان کو شدت وتوبیخ پر محمول کیا اور ازراہ تعزیر عادی مجرم کے لئے قتل کی گنجائش رکھی ہے تاہم ایسا شخص قابل سرزنش ہے اس پر اتفاق ہے۔جانور بھی ذبح کردیا جائے گا اور زندہ ومردہ اس سے کوئی نفع نہیں اُٹھایا جائے گا۔ بعض روایات میں جانور ذبح کے بعد جلادینے کا بھی ذکر ہے لیکن ایسا کرنا واجب نہیں۔ کیونکہ اصل مقصود یہ ہے کہ برائی کے نشان کو باقی نہ رہنے دیاجائے کہ ایسا نہ کیا جائے تو انگشت نمائی ہوگی، برائی کا ذکر پھیلے گا اور اس سے خود ایک برائی کی طرف ذہن انسانی منتقل ہوگا۔
جنسی بے راہ روی کا سدباب:
 شریعت نے ناجائز چیزکو روکنے اور عفت وعصمت کی حفاظت کے لئے اور شرم وحیا کی بقا کے لئے مختلف تدبیر یں کی ہیں۔ جن میں سب سے اول تو نکاح ہے لیکن اس کے علاوہ بعض اور احتیاطی تدبیریں بھی کی گئی ہیں، ان میں بدنگاہی کی ممانعت اور استیذان خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بدنگاہی آنکھوں کا زنا ہے۔ ارشاد ہوا کہ شرم گاہ کے ذریعہ تو آخری درجہ کی تصدیق ہوتی ہے ورنہ آنکھیں، ہاتھ، پائوں اور زبان یہ سب زنا کرتے ہیں، یعنی اس فعل زنا میں معاون ہیں۔ اس لئے کہ برائی کااولین خیال یہی نگاہ دل میں پیداکرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم فرمایا کہ اپنی نگاہوں کو پست رکھیں’’قل للمومنین یغضوامن ابصارھم‘‘ یہی حکم مسلمان عورتوں کو بھی دیا گیا کہ نگاہیں پست رکھیں اور اپنی زیبائش اور آرائش کا اظہار نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہ کو شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر قراردیا ہے۔
عورتیں اگر بضرورت گھر سے باہرنکلیں تب بھی ان کے لئے یہ ہدایت فرمائی کہ تبرج اور آرائش کا اظہار نہ کریں، عام گزرگاہ سے بچ کر کنارے چلاکریں، مسجد میں آئیں تو ان کی صف سب سے آخری ہو، گفتگو ایسی نہ کریں جس میں لوچ ہو۔آواز میں شیرینی اور جاذبیت نہ ہو جس سے اجنبی مردوں کا دل ان کی طرف کھنچے۔اجنبی مرد وعورت کا تخلیہ نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اس میں تیسرا شیطان ہوتا ہے ’’لایخلون رجل بامرأۃ الاکان ثالثھما الشیطان‘‘ اصل میں یہ ساری قدغنیں اسی لئے ہیں کہ آخری درجہ کی برائی بیک خیال نہیں آتی، یہ زہر بتدریج پروان چڑھتاہے، پہلے نگاہیں ملتی ہیں ،پھر نگاہ کا تیردل میں اترتا ہے اور دل میں آگ سلگتی ہے پھر اول زبان دامن حیا کو تار تار کرتی ہے اور اپنا مدعائے ہوس رکھتی ہیں، پھر تنہائی اور ماحول کا اختلاط اس فتنہ کی آنچ کو اور تیز کرتا ہے، زیبائش و آرائش کا اظہار، جاہلانہ تبرج اور زبان کی حلاوت اس آتش فتنہ کو اور سلگاتی اور بڑھاتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ نوبت یہاں تک آپہنچتی ہے کہ انسان آخری درجہ کی برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے، جب انسان بالخصوص عورت کے جسم سے ایک بار حیا کی چادراترتی ہے تو پھر اس کا آشفتہ ہوس اور وارفتۂ نفس بدن کبھی اس چادر کو اوڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ کل جس کی نگاہ اٹھتے ہوئے شرماتی تھی اور جس کو زبان کھولنے میں بھی حجاب آتا تھا۔ آج اسے رقص گاہوں میں تھرکنے اور ناچنے اور محفلوں میں اپنے مدح سرائوں کے سازدل کو چھیڑنے اور تارنفس کو بجانے میں لطف آنے لگتا ہے۔ اسی لئے شریعت اسلامی اس فتنہ کے آغاز ہی پر روک لگاتی ہے اور اس فتنہ چنگاری کو سلگنے اور شعلہ و آتش بننے کی اجازت نہیں دیتی۔
جنسی بے راہ روی ہی کی ایک صورت جلق اور استمناء بالید کی ہے، اسلام کی نگاہ میں انسان کا پوراوجود اور اس کی تمام ترصلاحیتیں اللہ کی امانت ہیں، قدرت نے ان کو ایک خاص مقصد کے تحت جنم دیا ہے جو شخص جسم کے کسی حصہ کا غلط استعمال کرتا ہے وہ دراصل خدا کی امانت میں خیانت اور خلق اللہ میں من چاہے تغیر کا مرتکب ہوتا ہے۔ انسان کے اندر جو جنسی قوت اور مادئہ منویہ رکھا گیا ہے وہ بھی بے مقصد اور بلاوجہ نہیں ہے بلکہ اس سے نسل انسانی کی افزائش اور بڑھوتری مقصود ہے اور اس قسم کا عمل چاہے جلق و استمناء بالید ہو یا اغلام بازی یا خود اپنی بیوی سے لواطت، اس مقصد کے عین مغائر اور اس سے متصادم ہے۔
اس لئے یہ عمل بھی ممنوع اور حرام ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسے شخص کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن توجہ نہیں فرمائیں گے۔ ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے ایسے شخص پر اللہ اور اس کے فرشتوں کی لعنت بھیجی ہے۔ اس کی حرمت پر سورۃ المومنون کی آیت ۵ تا ۷ سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جس میں جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے دوہی راستوں کی تحدید کردی گئی ہے، ایک بیوی، دوسرے لونڈی، اور ظاہر ہے کہ یہ ایک تیسری صورت ہے، فقہاء احناف نے اسے قابل تعزیر جرم قراردیا ہے۔  
 قضاء شہوت کی نیت سے ایسا کرنا قطعاً جائز نہیں، ہاں اگر شہوت کا غلبہ ہو، زنا سے بچنے اور شہوت میں سکون اور ٹھہرائو پیدا کرنے کے لئے ایسا عمل کیا جائے تو لکھتے ہیں کہ امید ہے کہ اس پر وبال اور عذاب نہ ہوگا، چنانچہ ایسے حالات میں حضرت ابن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، مجاہدؒ، حسن بصریؒ وغیرہ سے اس کا جواز نقل کیا گیا ہے۔ اسی ضرورت کے ذیل میں علاج اور میڈیکل جانچ کی غرض سے مادئہ منویہ کا نکالنا بھی ہے، تاہم ان سب کا تعلق اتفاق سے ہے۔ عادتاً تو کسی بھی طرح اجازت نہ دی جائے گی کہ یہ نہ صرف اخلاق کو متأثر کرتا ہے اور فطرت سے بغاوت کے مترادف ہے بلکہ صحت انسانی کے لئے بھی سخت مضر ہے۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ (شمارہ 479) 
---------------------------------
قرآن پا ک میں ہے وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَo اِلاَّ عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اس آیت کے تحت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تفسیر مظہر ی میں لکھا ہے کہ آیت خود دلیل ہے مشت زنی کے حرام ہونے پر۔ پھر ابن جریج کا قول نقل کیا کہ انھوں نے حضرت عطاء سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مکروہ بتایا اور پھر فرمایا میں نے سنا ہے کہ کچھ لوگ قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے جائیں گے کہ ان کے ہاتھ حاملہ ہوں گے۔ اور میرا خیال ہے کہ اس سے مراد یہی لوگ ہیں۔ اورحضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عذاب دیں گے جو اپنے ذَکر کے ساتھ کھیل کرتے تھے۔ ارو ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ناکح الید ملعون یعنی مشت زنی کرنے والا ملعون ہے۔ ہاں اگر کوئی زنا میں مبتلا ہوجانے کا قوی اندیشہ رکھتا ہے تو زنا سے بچنے کے لیے مشت زنی کرلے تو امید ہے کہ اس پر کوئی وبال نہ ہوگا۔ (ملاحظہ فرمائیں تفسیر مظہری، ج: 5، ص:۳6۵) اور در مختار)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
---------------------------------
کتاب و سنت کے دلائل کے مطابق مشت زنی اور خود لذتی حرام ہے۔
اول: قرآن مجید سے دلائل:
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: امام شافعی  اور ان کی موافقت کرنے والے علمائے کرام نے ہاتھ سے منی خارج کرنے کے عمل کو اس آیت سے حرام قرار دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ اور وہ لوگ جو اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں [5] ما سوائے اپنی بیویوں  کے یا لونڈیوں کے جن کے وہ مالک ہیں۔ [المؤمنون: 5، 6]
امام شافعی کتاب النکاح میں لکھتے ہیں: "جب  مومنوں کی صفت یہ بیان کر دی گئی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سوا کہیں  استعمال نہیں کرتے، اس سے ان کے علاوہ کہیں بھی شرمگاہ کا استعمال حرام ہوگا۔۔۔ پھر اللہ تعالی نے اسی بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ چنانچہ جو شخص ان کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کرے تو وہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ [المؤمنون: 7] اس لیے مردانہ عضوِ خاص کو صرف بیوی اور لونڈی  میں ہی استعمال کیا جاسکتا ہے، اس لیے مشت زنی حلال نہیں ہے، واللہ اعلم" ماخوذ: امام شافعی کی "کتاب الام"
کچھ اہل علم نے اللہ تعالی کے اس فرمان سے بھی خود لذتی کو حرام قرار دیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ اور جو لوگ نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ اس وقت تک عفت اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کردے[النور: 33] لہذا عفت اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شادی کے علاوہ ہر قسم کی جنسی تسکین سے صبر کریں۔
دوم: احادیث نبویہ سے خودلذتی کے دلائل:
علمائے کرام نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کی روایت کو دلیل بنایا کہ جس میں ہے کہ: "ہم نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  تھے اور ہمارے پلے کچھ نہیں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے شادی  کی ضروریات [شادی کے اخراجات اور جماع کی قوت] رکھتا ہے وہ شادی کرلے؛ کیونکہ یہ نظروں کو جھکانے والی ہے اور شرمگاہ کو تحفظ دینے والی ہے، اور جس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ روزے لازمی رکھے، یہ اس کیلیے توڑ ہے [یعنی حرام میں واقع ہونے سے رکاوٹ بن جائے گا])" بخاری: (5066)
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی استطاعت نہ رکھنے کی صورت میں  روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی حالانکہ روزہ رکھنا مشکل کام ہے، لیکن آپ نے خود لذتی کی اجازت نہیں دی، حالانکہ خود لذتی روزے کی بہ نسبت ممکنہ آسان حل ہے اور ایسی صورت میں فوری حل بھی ہے، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔ :: نقلہ: #ایس_اے_ساگر
https://saagartimes.blogspot.com/2020/12/blog-post.html

No comments:

Post a Comment