Saturday 29 April 2017

شب برات کی فضیلت اور اس کی حقیقت کیا ہے؟

ایس اے ساگر
برصغیر ہند، پاک میں نہ صرف شعبان المعظم کا چاند نظر آگیا ہے بلکہ  گیارہ مئی کو شب برأت کا اعلان بھی کردیا گیا ہے. شب برأت کے سلسلے میں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر منفی اور مثبت  تبصرے شروع ہوگئے ہیں. غنیمت ہے کہ مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم ماہنامہ البلاغ اگست 2010 کے صفحات پر واضح کرچکے ہیں کہ شب ِبرات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان  فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماء نے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔
شب برات میں عبادت:
امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔
عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں:
البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے ، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
شبِ برات میں قبرستان جانا:
اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف  لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں ، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ  شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی ، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔
15 شعبان کا روزہ:
ایک مسئلہ شب برات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کاہے، اسکو بھی سمجھ لینا چاہئے، وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزہ کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھولیکن یہ روایت ضعیف ہے لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماءکے نزدیک درست نہیں البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28 اور 29 شعبان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے  روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کےلئے انسان نشاط کے ساتھ تیا ر رہے۔

اکابرین امت کے اقوال:

علامہ ابن الحاج مالکی رحمہ اللہ (المتوفى: 737هـ) فرماتے ہیں کہ،
”اس رات کے بڑے فضائل ہیں اور بڑی خیر والی رات ہے، اورہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس رات کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے."
(المدخل لابن الحاج:1/299)
 
*علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگرد ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ” شام کے مشہور تابعی خالد بن لقمان رحمہ اللہ وغیرہ اس رات کی بڑی تعظیم کرتے،اوراس رات میں خوب عبادت کرتے.“
۔(لطائف المعارف:۱۴۴)
*علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شعبان کی پندرہویں رات کو بیداررہنا مستحب ہے.“
(البحر الرائق:۲/۵۲)
  
*علامہ حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شعبان کی پندرہویں رات کو عبادت کرنا مستحب ہے.“
(الدر مع الرد:۲/۲۴،۲۵)
  
*علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ”بیشک یہ رات شب براء ت ہے اور اس رات کی فضیلت کے سلسلے میں روایات صحیح ہیں.“
(العرف الشذی،ص:۱۵۶)
   
*شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس رات بیداررہنا مستحب ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے ،یہی امام اوزاعی کا قول ہے“۔
(ما ثبت بالسنة،ص:۳۶۰)
  
*حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ”شب براء ت کی اتنی اصل ہے کہ پندرہویں رات اور پندرہواں دن اس مہینے کا بزرگی اور برکت والا ہے“۔
(بہشتی زیور،چھٹا حصہ،ص:۶۰)
*کفایت المفتی میں ہے کہ
”شعبان کی پندرہویں شب ایک افضل رات ہے.“(۱/۲۲۵،۲۲۶)
 
*فتاوی محمودیہ میں ہے کہ”شب قدر وشبِ براءت کے لیے شریعت نے عبادت، نوافل، تلاوت، ذکر، تسبیح، دعاء و استغفار کی ترغیب دی ہے.“
*مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ”واقعہ یہ ہے کہ شبِ براءت کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں، جن میں اس رات کی فضیلت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے، ان میں بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کچھ کمزور ہیں؛ لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبارسے کمزور ہو، لیکن اس کی تائید میں بہت سی احادیث ہوجائیں تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے.“
(اصلاحی خطبات:۴/۲۶۳ تا۲۶۵، ملخصاً)

پندرہ شعبان کی عبادت:

حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتھم العالیہ، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند کے خطاب کو عادل سعیدی دیوبندی نقل فرماتے ہیں کہ؛ 
پندرہ شعبان کے سلسلے میں چار باتیں صحیح ہیں: 

❶ اس رات میں اللہ سبحانہ وتعاليٰ جتنی توفيق دیں، اتنی گھر میں انفرادي عبادتیں کرنا، مگر ہم نے اس رات کو ہنگاموں کی رات بنا دیا ہے، مسجدوں اور قبرستانوں میں جمع ہوتے ہیں، کھاتے پیتے اور شور کرتے ہیں، یہ سب غلط ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں، اس رات میں نفلیں پڑھنی چاہئیں، اور پوری رات پڑھنی ضروری نہیں، جتنی اللہ تعالیٰ توفيق دیں گھر میں پڑھے، یہ انفرادي عمل ہے، اجتماعی عمل نہیں۔ 

❷ اگلے دن روزہ رکھے، یہ روزہ مستحب ہے۔ 

❸ اس رات میں اپنے لئے، آپنے مرحومین کےلئے، اور پوری امت کے لئے مغفرت کی دعا کرے،  اس کے لئے قبرستان جانا ضروری نہیں، اس رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان ضرور گئے ہیں، مگر چپکے سے گئے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اتفاقاً پتہ چل گیا تھا، نیز حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےاس رات میں قبرستان جانے کا کوئی حکم بھی نہیں دیا، اس لئے ہمارے یہاں جو تماشے ہوتے ہیں، وہ سب غلط ہیں۔ 

❹ جن دو شخصوں کے درمیان لڑائی جھگڑا اور اختلاف ہو، وہ اس رات میں صلح صفائی کر لیں، اگر صلح صفائی نہیں کریں گے، تو بخشش نہیں ہوگی۔ 

یہ چار کام اس رات میں ضعیف حدیث سے ثابت ہیں، اور ضعیف کا لحاظ اس وقت نہیں ہوتا جب سامنے صحیح حدیث ہو، صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف حدیث کو نہیں لیا جاتا، لیکن اگر کسی مسئلہ میں ضعیف حدیث ہی ہو، اس کے مقابلے میں صحیح حدیث نہ ہو، تو ضعیف حدیث لی جاتی ہے، اور ایسا یہی ایک مسئلہ نہیں ہے، بہت سے مسائل ہیں، جن میں ضعیف حدیثیں ہیں، اور ضعیف احادیث سے مسائل ثابت ہوئے ہیں، جیسے صلوۃ التسبیح کی گیارہ روایتیں ہیں، اور سب ضعیف ہیں، مگر سلف کے زمانے سے صلوۃ التسبیح کا رواج ہے۔ 

البتہ ضعیف حدیث سے واجب اور سنت کے درجہ کا عمل ثابت نہیں ہو گا، استحباب کے درجے کا حکم ثابت ہوگا، پس صلوۃ التسبیح پڑھنا مستحب ہے، ایسے ہی پندرہ شعبان کے بارے میں، جو روایات ہیں وہ بھی ضعیف ہیں، مگر ان سے استحباب کے درجہ کا عمل ثابت ہو سکتا ہے، پس احادیث میں بیان کئے گئے چاروں کام مستحب ہوں گے، شب برأت، اس کے اعمال اور اسکے اعمال کو بالکل بے اصل کہنا درست نہیں، البتہ سورہ دخان کی تیسری آیت: انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ کا مصداق شب برأت نہیں، اس کا مصداق شب قدر ہے، کیونکہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا ہے۔ 
علمی خطبات
جلد: 2
صفحہ نمبر: 247
واللہ اعلم بالصواب


No comments:

Post a Comment