Monday 20 March 2017

وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى

ایس اے ساگر 
ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ایک پوسٹ گردش کررہی ہے کہ:
ایک بار جبرائیل علیہ السلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام کچھ پریشان ہیں.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپ کو غمزدہ دیکھ رہا ہوں؟
جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی،
اے محبوب کل میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکے آیا ہوں، اس کو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوئے ہیں.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاؤ. جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی،
جہنم کے کل سات درجے ہیں.
1. ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا
2. اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈالیں گے.
3. اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے.
4. چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے.
5. تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے.
6. دوسرے درجے میں اللہ تعالی عیسائیوں کو ڈالیں گے.
یہ کہہ کر جبرائیل علیہ السلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا،
جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاؤ کہ پہلے درجے میں کون ہوگا؟ 
جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا،
اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پہلے درجے میں اللہ پاک آپ کے امت کے گنہگاروں کو ڈالیں گے.
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد غمگین ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کیں. تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لاتے، نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکے اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حیران تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے، مسجد سے حجرے جاتے ہیں،
گھر بھی تشریف لیکر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے رہا نہیں گیا، وہ دروازے پہ آئے،  دستک دی اور سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہیں آیا۔ آپ رضی اللہ عنہ روتے ہوئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا، لہذا آپ جائیں آپ کو ہوسکتا ہے سلام کا جواب مل جائے.
آپ رضی اللہ عنہ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا. حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی سے کیا، انھوں نے سوچا کہ جب اتنی عظیم شحصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود بھی جانا نہیں چاہئے. بلکہ مجھے ان کی نور نظر بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اندر بھیجنی چاہئے۔ لہذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی کو سب احوال بتا دیا. آپ رضی اللہ عنہا حجرے کے دروازے پہ آئیں.
" ابا جان، السلام علیکم."
بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا.
ابا جان آپ پر کیا کیفیت ہے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہیں؟ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جائے گی، فاطمہ بیٹی مجھے اپنے امت کے گنہگاروں کا غم کھائے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ ان کو معاف کردے اور جہنم سے بری کردے،
یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا،
یا اللہ میری امت، یا اللہ میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر، ان کو جہنم سے آزاد کر کہ اتنے میں حکم آگیا؛
"وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى"
اے میرے محبوب غم نہ کر، میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا،
لوگوں اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کریں گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جائے. 
.....
اس مضمون کے اخیر میں عربی حوالوں میں یہ بات مذکور ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں، ضعیف ترین، بلکہ موضوع ہے، تاہم اس کو آپ نشر بھی نہ فرمائیں، عربی سے ناواقف لوگ صرف اردو پر اکتفا کریں گے اور اس طرح جھوٹی حدیث "تشہیر پذیر" ہوجائے گی-
مات : 3

اسم المفتي : لجنة الإفتاء
الموضوع : سؤال حول صحة حديث طويل عن يزيد الرِّقَاشي عن أنس
رقم الفتوى : 948
التاريخ : 08-11-2010
التصنيف : أحكام على الأحاديث
نوع الفتوى : بحثية
السؤال :
هل يجوز نشر هذا الحديث: روى يزيد الرقاشي عن أنس بن مالك قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ساعة ما كان يأتيه فيها، متغير اللون، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: مالي أراك متغير اللون؟ فقال: يا محمد! جئتك في الساعة التي أمر الله بمنافخ النار أن تنفخ فيها، ولا ينبغي لمن يعلم أن جهنم حق، وأن النار حق، وأن عذاب الله أكبر، أن تقر عينه حتى يأمنها. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا جبريل! صف لي جهنم.. إلى آخر الحديث الطويل المروي والمنتشر عبر الجوالات والمنتديات؟
الجواب :
الحمد لله، والصلاة والسلام على سيدنا رسول الله
هذا الحديث لا أصل له، ولا يعرف من رواية أحدٍ من العلماء، ولم يأت مسندًا في شيء من كتب السنة، وإنما ورد ذكره في كتاب: "تنبيه الغافلين" (ص/264) لأبي الليث السمرقندي (المتوفى سنة 375هـ)، وكتابه هذا مليء بالموضوعات التي اقتضت من أهل العلم التنبيه على ما فيه.
قال الإمام الذهبي رحمه الله: "صاحب كتاب "تنبيه الغافلين"... تروج عليه الأحاديث الموضوعة" انتهى. "سير أعلام النبلاء" (16/323)، أي أنه لا يفرِّق بين الموضوع وغيره، لا أنه يفتري على رسول الله صلى الله عليه وسلم.
والراوي (يزيد الرقاشي) الذي نسب إليه الحديث ضعيف أيضًا. انظر ترجمته في كتاب الحافظ ابن حجر "تهذيب التهذيب" (11/311).
كما جاء ما يشبه متنه من حديث عمر بن الخطاب رضي الله عنه بسياق مختصر، أخرجه ابن أبي الدنيا في "صفة النار" (رقم/158)، والطبراني في "المعجم الأوسط" (3/89)، إلا أنه حديث مكذوب أيضًا، فيه بعض المتَّهمين والوضَّاعين من الرواة.
وفي متن الحديث العديد من النكارات التي تخالف الأحاديث الصحيحة، مما يؤكد وضع الحديث ونكارته. والله تعالى أعلم.

No comments:

Post a Comment