Sunday 15 January 2017

حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ

ایس اے ساگر
اس وقت عالم اسلام ممتاز عالم دین، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدمدنی رحمہ اللہ کے شاگرد خاص، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب صدر وفاق المدارس العربیہ کے انتقال پر شدید صدمہ سے دوچار ہے. دو ہفتہ میں برصغیر کے تیسرے شیخ الحدیث دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کر گئے۔۔
١/شيخ ثاني شيخ عبد الحق اعظمی (دار العلوم ديوبند)
٢/شيخ يوسف کاوی من غجرات (جامعہ ڈابھیل)
اور اب ٣/ شیج الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمهم الله. حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب نے مولانا سلیم اللہ خان صاحب صدر وفاق المدارس العربیہ کے انتقال پر مدینہ سے اظہار تعزیت کیا ہے. رئیس المحدثین استاد محترم حضرت مولانا مفتی خورشید عالم عثمانی رحمتہ اللہ علیہ، سابق شیخ الحدیث و مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند وقف کے درسی ساتھیوں میں سے تھے. موصولہ تفصیلات کے مطابق آپ کا انتقال 96 برس کی عمر میں ہوا جبکہ آپ تین روز سے اسپتال میں زیر علاج تھے. آپ کا آبائی تعلق پاکستان کے آزاد قبایلی علاقے خیبر ایجنسی سے ہے جبکہ آباواجداد تقسیم وطن سے قبل ہندوستان منتقل ہوگئے تھے. حضرت شیخ نے دینی علوم حاصل کرنے کے لئے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا. پاکستان کے جس علاقے سے ہندوستان منتقل ہوئے. آج وہ علاقہ خیبر ایجنسی میں تیراہ کے قریب چورا کہلاتا ہے۔ آپ 25 دسمبر 1926ء کو ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے مشہور قصبہ حسن  پور لوہاری کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے، آپ کا تعلق آفریدی پٹھانوں کے ایک خاندان ملک دین خیل سے ہے۔ حسن پور لوہاری ہمیشہ اکابرین کا مسکن و مرجع رہا ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے شیخ میاں جی نور محمد صاحب ساری زندگی اسی گاؤں میں سکونت پذیر رہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم حضرت حکیم الامت کے مشہور خلیفہ مولانا مسیح اللہ خان صاحب کے مدرسہ مفتاح العلوم میں حاصل کی۔ 1942 میں آپ اپنے تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے لئے ازہر ہند، دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے، جہاں آپ نے فقہ، حدیث و تفسیر و دیگر علوم و فنون کی تکمیل کی اور1947 کے دوران آپ نے امتیازی نمبروں کے ساتھ سند فراغت حاصل کی۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے علاقے میں موجود اپنے استاد و مربی حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمة الله علیہ، خلیفہ خاص حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  کی زیر نگرانی مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں تدریسی وتنظیمی امور انجام دینے شروع کئے۔  آٹھ سال تک شب وروز کی انتہائی مخلصانہ محنت کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ مدرسہ حیرت انگیز طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا اور مدرسہ کے طلبا کا تعلیمی اور اخلاقی معیار اس درجہ بلندا ہوا کہ دارالعلوم دیوبند اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں یہاں کے طلبا کی خاص پذیرائی ہونے لگی۔ مدرسہ مفتاح العلوم میں آٹھ سال کی شبانہ روز محنتوں کے بعد حضرت شیخ الحدیث مدظلہ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله  علیہ کی قائم کردہ پاکستان کی مرکزی دینی درس گاہ دارالعلوم ٹنڈوالہ یار سندھ میں تدریسی خدمات انجام دینے کے لئے پاکستان تشریف لے آئے۔ تین سال یہاں پر کام کرنے کے بعد آپ معروف دینی ادارے دارالعلوم کراچی میں تشریف لائے اور پھر مسلسل دس سال  دارالعلوم کراچی میں حدیث، تفسیر، فقہ، تاریخ ، ریاضی، فلسفہ اور ادب عربی کی تدریس میں مشغول رہے. اسی دوران آپ ایک سال حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمة الله علیہ کے اصرار پر جامعة العلوم الإسلامیہ بنوری ٹاؤن میں دارالعلوم کی تدریس کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں مختلف اسباق پڑھانے کے لئے تشریف لاتے رہے۔ قدرت نے آپ کی فطرت میں عجیب دینی جذبہ ودیعت فرمایا تھا جس کے باعث آپ شب وروز کی مسلسل اور کامیاب خدمات کے باوجود مطمئن نہیں تھے اور علمی میدان میں ایک نئی دینی درس گاہ جو موجودہ عصری تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہو، کی تاسیس کو ضروری خیال فرماتے تھے۔ چناں چہ 23 جنوری1967ء مطابق شوال1387ھ میں آپ نے جامعہ فاروقیہ کراچی کی بنیاد رکھی۔ آپ کی  یہ مخلصانہ کوشش الله تبارک و تعالیٰ کے ہاں اتنی قبول ہوئی کہ تاسیس جامعہ کے بعد سے لے کر تادم تحریر تعلیمی وتعمیری میدان میں جو ترقی ہے وہ ہر خاص وعام کے لیے باعث حیرت ہے ۔ فللہ الحمد علی ذلک آج الحمدلله جامعہ فاروقیہ کراچی ایک عظیم دینی و علمی مرکزکی حیثیت  سے پاکستان اور بیرون پاکستان ہر جگہ معروف مشہور ہے اور یہ الله تبارک وتعالیٰ کے فضل واحسان اور حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب کی مخلصانہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔
وفاق المدارس سے لازوال تعلق:
حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے 1980ء میں آپ کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا آپ نے وفاق کی افادیت اور مدارس عربیہ کی تنظیم وترقی اور معیار تعلیم کے بلندی کے لیے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ وفاق کی تاریخ میں ایک قابل ذکر روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے وفاق المدارس العربیہ کے لئے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ درج ذیل ہیں:
آپ نے وفاق کے طریقہ امتحانات کو بہتر شکل دی ، بہت سی بے قاعدگیاں پہلے ان امتحانات میں ہوا کرتی تھیں انہیں ختم کیا۔ پہلے وفاق میں صرف ایک امتحان دورہ حدیث کا ہوا کرتا تھا۔ آپ نے وفاق میں دورہ حدیث کے علاوہ سادسہ(عالیہ)، رابعہ،ثالثہ (ثانویہ خاصہ) ثانیہ (ثانویہ عامہ) ، متوسطہ، دراسات دینیہ اور درجات تحفیظ القرآن الکریم کے امتحانات کو لازمی قرار دیا۔ نئے درجات کے امتحانات کے علاوہ آپ نے ان تمام مذکورہ درجات کے لئے نئی دیدہ ذیب عالمی معیار کی سندیں جاری کروائیں۔ وزارت تعلیم اسلام آباد سے طویل مذاکرات کیے جن کے  نتیجے میں بغیر کسی مزید امتحان میں شرکت کئے وفاق کی اسناد کو بالترتیب ایم اے، بی اے، انٹر، میٹرک، مڈل او رپرائمری کے مساوی قرار دیا گیا۔ فضلائے قدیم جو وفاق کی اسناد کے معادلے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائد سے محروم تھے ان کے لیے خصوصی امتحانات کا اہتمام کرایا تاکہ انہیں بھی وفاق کی سندیں فراہم کی جاسکیں۔ وفاق سے ملحق مدارس میں پہلے سے موجود قلیل تعداد کو جو چند سو پر مشتمل تھی اور جس میں ملک کے بہت سے قابل ذکر مدارس شامل نہیں تھے اپنی صلاحتیوں سے قابل تعریف تعداد تک پہنچایا۔ حتی کہ 2007ء میں یہ تعداد پندرہ ہزار مدارس و جامعات تک پہنچ گئی۔ جس کی بنا پر اب وفاق المدارس العربیہ کو ملک کی واحد نمائندہ تنظیم قرار دیا گیا۔ مدارس عربیہ میں موجود نظام کو بہتر کرنے کے لیے آپ نے نصاب درس اصلاحی کی مہم شروح کی چناں چہ اب پورے پاکستان میں یکساں نصاب پورے اہتمام سے پڑھایا جارہا ہے ۔جبکہ پہلے صورت حال نہایت ابتر تھی اور تقریباً ہر مدرسہ کا اپنا الگ الگ نصاب ہوا کرتا تھا۔ وفاق کے مالیاتی نظام کو بھی آپ نے بہتر کیا جب کہ پہلے کوئی مدرسہ اپنی فیس یا دیگر واجبات ادا کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتا تھا۔ اب آپ کی مسلسل توجہ کے نتیجے میں وفاق ایک مستحکم ادارہ بن چکا ہے۔ آپ نے وفاق کی مرکزی دفاتر کی طرف بھی توجہ فرمائی اور اس کے لیے بہتر و مستقل عمارت کا انتظام کروایا جب کہ اس معاملے میں پہلی عارضی بندوبست اختیار کیا جاتا تھا۔ آپ کی انہی گراں قدر خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو 1989 میں وفاق کا صدر منتخب کر لیا گیا، جب سے لے کر آج تک آپ بحیثیت صدر و فاق کی خدمات انجام دینے میں مصروف رہے۔ الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب مدظلہم کے بے بایاں فیوض کو صحت و سلامتی کے ساتھ ہمارے لئے اور سارے عالم کے لئے قائم ودائم رکھیں۔ آمین۔ الله تبارک وتعالیٰ نے حضرت کو تدریسی میدان میں جو کمال عطا ء فرمایا ہے وہ قدرت کی عنایات کا حصہ ہے آپ کی تدریسی تاریخ تقریباً نصف صدی پر محیط ہے، بے شمار لوگ آپ کے چشمہٴ فیض سے سیراب ہوئے ہیں، قدرت نے آپ کو فصاحت وبلاغت کا وافر حصہ عطا فرمایا، مشکل بحث کو مختصر اور واضح پیرائے میں بیان کرنا آپ ہی کی خصوصیت ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے آپ کے تقریری ودرسی ذخیرے کو مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور آپ کے صحیح البخاری کے دروس کشف الباری اور مشکوٰة المصابیح کے لیے آپ کی تقاریر نفحات التنقیح کے نام سے شائع ہو کر علماء وطلبا میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں، سن2007 تک کشف الباری کی 12 جلدیں اور نفحات التنقیح کی تین جلدیں منصہ شہود پر آچکی تھیں جب کہ بقیہ جلدوں پر کام جاری ہے۔ ‏اللہ غریق رحمت کرے.
حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب کا اظہار تعزیت سننے کے لئے مندرجہ ذیل لنک کا استعمال کریں؛
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1254284387962485&id=120477478009854

No comments:

Post a Comment