بسم اللہ الرحمن الرحیم
معاشرہ کو سنوارنے اور نئی نسل کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں خواتین کا نمایاں کردار
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور جامعہ عائشہ نسواں کے اشتراک سے تین روزہ ورکشاپ اختتام پذیر
--------------------------------
معاشرہ کو سنوارنے اور نئی نسل کو تعلیم سے آراستہ کرنے میں خواتین کا نمایاں حصہ ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عورتوں کی خصوصیت بیان فرمائی کہ بعض کمزوریوں کے باوجود اُن کے اندر قوی الارادہ مردوں کی سوچ پر حاوی ہو جانے کی صلاحیت ہے، خواتین کی خصوصیت شب وروز سامنے آتی رہتی ہے؛ اس لئے لڑکیوں کی دینی تعلیم وتربیت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان کو مستقبل میں امت کی ضرورت کے مطابق مختلف میدانوں میں کام کے لئے تیار کیا جائے، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے لڑکیوں کے مدارس کے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا، یہ سہ روزہ ورکشاپ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا (دہلی) اور جامعہ عائشہ نسوان (حیدرآباد) کے اشتراک سے جامعہ عائشہ کے احاطہ میں منعقد ہوا، جس میں تقریباََ ایک سو معلمات نے شرکت کی، ورکشاپ کے افتتاحی اجلاس میں پروفیسر عبدالمجید نظامی نے کہا کہ تعلیم کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کے نام وصفات سے اس کا رشتہ قائم ہو، تب ہی وہ علم انسانیت کے لئے مفید ہو سکتا ہے، حیدرآباد کے مشہور عالم مولانا عبدالقوی صاحب نے اس طرح کے ورکشاپ کو وقت کی ضرورت قرار دیا، اور اس قدم کو بہت سراہا، مولانا حافظ خواجہ نذیر الدین سبیلی ناظم جامعہ عائشہ نسوان نے جامعہ عائشہ کے لئے اس کو نہایت مبارک شروعات قرار دیا، مولانا محمد انس سبیلی نے مہمانوں کا استقبال کیا، اکیڈمی کے شعبۂ علمی کے رفیق اور رابطہ عامہ کے انچارج مفتی امتیاز احمد قاسمی نے کہا کہ اب تک اکیڈمی نے ۱۰۰؍ فکری وتربیتی ورکشاپ اور سمپوزیم رکھے ہیں، ۲۴؍سیمیناروں اور تربیتی پروگراموں میں خواتین کے مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے، جن میں سے بعض سیمینار تو پورے خواتین کے مسائل سے متعلق تھے، انھوں نے اس موقع سے اکیڈمی اور حیدرآباد کے خصوصی ربط پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اکیڈمی کے چار سالانہ فقہی سمینار اور ان کے علاوہ ۱۷؍تربیتی پروگرام اور محاضرات حیدرآباد میں رکھے جا چکے ہیں، مؤرخہ: ۱۵؍ اگست ۲۰۲۳ء کو بعد نماز مغرب اکیڈمی کی علمی نشستیں شروع ہوئیں، مولانا عبید الرحمن اطہر ندوی نے پہلی نشست کی صدارت کی، اس میں لڑکیوں کے لئے طریقۂ تدریس کے موضوع پر ، مولانا محمد عمر عابدین قاسمی مدنی (نائب ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد) نے تفصیلی اور پُر اثر محاضرہ دیا،
مولانا سید احمد ومیض ندوی استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد نے خواتین اور عوامی درس قرآن کا طریقہ اور مفتی تجمل حسین قاسمی نے خواتین اور عوامی درس قرآن پر تجزیاتی خطبہ پیش کیا، اور اس کے لئے مفید معاون کتابوں کی رہنمائی کی، صفا بیت المال کے صدر اور بانی مولانا غیاث احمد رشادی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ خدمت خلق اور سماجی کاموں میں شرعی حدود میں رہتے ہوئے خواتین کس طرح کام کر سکتی ہیں۔
۱۶؍ اگست کی صبح ورکشاپ کی تیسری نہایت اہم نشست منعقد ہوئیں، تیسری نشست کی صدارت پروفیسر قدوسہ سلطانہ صاحبہ نے کی، اس نشست میں حفصہ عابدین نے لڑکیوں کے مدرسہ میں انگریزی زبان کی تعلیم وضرورت اور طریقۂ کار پر روشنی ڈالی، جلیسہ سلطانہ ایڈوکیٹ نے مسلم پرسنل لا سے متعلق اعتراضات پر تفصیل سے گفتگو کی،محترمہ ذکیہ کوثر صاحبہ نے فارغات مدارس اور شرعی مسائل میں رہنمائی کے موضوع پر اپنا محاضرہ پیش کیا، محترمہ رحیم النساء صاحبہ نے مدارس بنات میں حساب، جغرافیہ، تاریخ اور جنرل سائنس کی تعلیم سے متعلق گفتگو کی اور محترمہ ڈاکٹر نائلہ سعید صاحبہ نے فرسٹ اور نسوانی مسائل پر اپنا محاضرہ پیش کیا۔
ورکشاپ کی چوتھی نشست بعد نماز مغرب پروفیسر راشد نسیم ندوی کے زیر صدارت منعقد ہوئی، جس میں انھوں نے تعلیم نسواں کے معیار کو بلند کرنے اور خواتین اساتذہ کی تدریسی تربیت پر زور دیا، اس نشست میں مولانا احمد نور عینی نے مدارس بنات میں نحو، صرف، انشاء اور بلاغت کی تعلیم کے موضوع پر ، مفتی جمال الدین قاسمی نے مدارس بنات کا نصاب تعلیم اور اسلام علوم -- ایک جائزہ، مفتی شوکت ثنا قاسمی نے مدارس بنات میں مدت تعلیم-- تعلیم اور جائزہ، مفتی عارف باللہ قاسمی نے مدارس بنات میں تخصصات کے شعبے-- جائزہ اور تجاویز مولانا انصار اللہ قاسمی نے مدارس بنات اور ارتدادی فتنوں کا مقابلہ کے عنوان سے اور مفتی محمد ابو بکر جابر قاسمی نے طالبات کی فکری، اخلاقی، دعوتی اور معاشرتی تربیت پر اپنے اپنے محاضرات پیش کئے۔
مؤرخہ ۱۷؍ اگست کو صبح دس بجے ورکشاپ کی آخری نشست ناظم جامعہ عائشہ مولانا حافظ خواجہ نذیر الدین سبیلی کے زیر صدارت منعقد ہوا، جس سے مفتی عبدالودود مظاہری اور مولانا ڈاکٹر فہیم اختر ندوی نے خطاب کیا، مولانا حافظ خواجہ نذیر الدین نے اپنے صدارتی کلمات میں اکیڈمی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا ، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ اس و قت اسلاموفوبیا کا سب سے بڑا نشانہ عورتوں کو اسلام سے بدظن کرنا اور عورتوں کا نام لے کر اسلام کو بدنام کرنا ہے، ان حالات میں عالمات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بھر پور سعی کریں اور اپنے آپ کو اس اہم کام کے لئے تیار کریں، آپ نے کہا کہ اکیڈمی جس طرح لڑکے کے مدارس کے لئے تربیتی پروگرام رکھتی ہے، ان شاء اللہ مستقبل میں لڑکیوں کے مدارس کے طالبات اور وہاں کی فارغات کے لئے بھی اسی طرح کے مفید اور مؤثر پروگرام رکھے گی، آخر میں مفتی عبدالودود صاحب مظاہری کی دعاء پر ورکشاپ کا اختتام عمل میں آیا۔