Tuesday, 18 November 2025

ایک بھولا ہوا سبق

ایک بھولا ہوا سبق 
(رازہائے سربستہ اور طریقہائے زن جفتہ)
چہل سال عمر عزیزت گزشت 
(چالیس سال سے کم عمر حضرات اس تحریر سے دور رہیں)
مشورے میں خیر ہے۔ پڑھ کر میں شادی سے پہلے، ایک خیرخواہ سے آداب معاشرت و مباشرت معلوم کرنے گیا۔ صاحب نے کہا کہ بیٹا، وہ دیکھو چڑا اور چڑی، وہ دونوں اوپر نیچے تھے، کہا کہ بیٹا ان کو کس نے سکھلایا؟ میں سمجھ گیا کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ سیکھے بغیر سب کچھ آجاتا ہے لیکن انھوں نے اس لائن کی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیا  پوشیدہ راز سے سربستہ راز تک، پنڈتوں کی مترجم کتابوں سے لے کر ڈاکٹر اور مولانا تک کہ کتابیں چھان ڈالیں لیکن وہ کہتے ہیں ناکہ بعض علوم سر انجام دے کر ہی حاصل ہوتے ہیں۔ ایک من گھڑت واقعہ بھی سن رکھا تھا۔ ایک محقق نے حج پر ایک کتاب لکھی۔ پہنچ کر خود ہی الٹا طواف کرنے لگے۔ کتاب پڑھ کر بھی اطمینان نہیں تھا، بے تکلف یار تمثیل دیتے ہوئے سمجھایا: بھائی ہاتھ پکڑ کر کچھ دیر باتیں کرنا، تھوڑا گردن پر ہاتھ پھرانا۔  یہ سب سیکھنا نہیں ہے (میں نے دل میں کہا)۔ اس نے کہا کہ: پھر چھلی ہوئی مرغی دیکھی ہے مرغی کے قصائی کی دکان پر، بس تھوڑا کمر کے نیچے تکیہ رکھ دینا، میں فون پر اچھل پڑا گیا۔ تمثیل سے تصویر کافی حد تک واضح تھی۔
           ہمارے لوگ سیکس ایجوکیشن کے خلاف ہیں، اور ہونا بھی چاہئے، لیکن جماع صرف فراغت حاصل کرلینے کا نام نہیں ہے، اس کا دوسرا نام استمتاع اور استلذاذ ہے، ایک حد تک اس کو سیکھنا برا نہیں ہے، مجھے یاد ہمارے ایک بہت ہی موقر استاذ، جو بہت ہی نپا تلا مزاح فرمایا کرتے تھے، انھوں اصول الشاشی کے سبق میں کافی حد تک لذت دینے اور لذت حاصل کرنے اور اجڈ لوگوں کی روش سے بچنا سکھلایا تھا اور آخر میں کہا تھا کہ میں یہ بھی سکھلایا کرتا ہوں۔
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کنواری عورت سے بھی زیادہ حیاء رکھتے تھے، آپ نے ہرطرح کی تعلیم دی لیکن جو باتیں آپ کے شایان شان موافق حیاء نہیں تھیں، کبھی قرآن نے کبھی ازواج مطہرات نے تو کبھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کو بیان فرمایا۔
ظریقہائے جماع ایک ایسا فن ہدایت کی کتاب اس کے جزئیات سے تو بحث نہیں کرسکتی، البتہ اصول بیان کرسکتی ہے اور بیان کرنا ضروری بھی ہے۔ آپ صرف اس آیت کی فصاحت و بلاغت، گہرائی و گیرائی اعجاز و جامعیت پر غور کریں،
تشبیہ پر غور کیجئے ۔۔۔ عورت کو کھیتی سے تشبیہ دی، کھیتی وہ ہوتی ہے جس میں بیج ڈالنے سے پیداوار ہو، جائے حرث قبل ہے دبر تو موضع فرث (گندگی) ہے۔ جماع استلذاذ اور استمتاع تو ہے لیکن ہمبستری نرے مزے کا نام نہیں، اس سے مقصود ابقائے نسل انسانی بھی ہے۔ کہا گیا: "اَنَّی شِئْتُمْ" سوراخ ایک رکھنے کے بعد کتنا عموم رکھا، ذرا دیکھو تو سہی، صاحب جلالین، جو خود بہت کم لکھنے کے عادی ہیں، لکھنے پر مجبور ہوگئے: "من قيام وقعود واضطجاع وإقبال وإدبار"، کھڑے ہوکر بھی ہمبستری کرسکتے ہو، بیٹھ کر بھی، پہلو کے بل لیٹ کر بھی، سامنے سے اترکر بھی اور پیچھے سے آکر بھی۔ یعنی اس آیت میں جو رخصت اور چھوٹ دی گئی اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن شرط یہی ہے کہ آنا اپنی کھیتی میں ہے، بازو میں سنڈاس کی پائپ لائن ہے اس سے دور رہنا۔
(نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنَّی شِئْتُمْ: یعنی تمہاری عورتیں تمہارے لئے بمنزلہ کھیت کے ہیں۔ جس میں نطفہ بجائے تخم کے ہے اور بچہ بجائے پیداوار کے ہے۔ بس اپنے کھیت میں آوٴ جس طرف سے چاہو کروٹ سے ہو، پیچھے سے ہو آگے بیٹھ کر ہو اوپر یا نیچے لیٹ کر ہو یعنی جس ہیئت سے بھی چاہو لیکن ہر حال میں کھیت ہی میں آنا ہے، کھیت سے مراد قُبُل ہے کیونکہ قُبُل موضعِ حَرْث ہے دُبر مراد نہیں ہے کیونکہ وہ موضعِ فرث ہے یعنی پاخانہ کی جگہ ہے۔ دُبر میں نطفہ ڈالنے سے پیداوار یعنی اولاد نہ ہوگی، نطفہ ضائع جائے گا۔ اور قُبُل میں نطفہ ڈالنے سے اولاد کی تخم ریزی ہوگی۔ تو اصل کھیت قُبُل ہوا نہ کہ دُبر۔ وہ گندگی کی جگہ ہے۔ اسی لئے جماع فی الدبر حرام قرار دیا گیا ہے :معارف القرآن: ۱/۵۴۳)
ہمارے ساتھی عموما چالیس پار ہوچکے ہیں، گیند بلے کا کھیل ان کے لئے پرانا ہوگیا ہے، ایک ہی طریقے سے گلی ڈنڈا کھیلتے کھیلتے وہ بور ہوگئے ہیں۔ گلی اڑانا اور ڈنڈا مارنا کچھ نیا نہیں، کھانے کا شوق ہے، پینے میں بھی ذوق رکھتے ہیں لیکن چائے ایک ہی طرح کی پینے کا مذاق رکھتے ہیں۔ بڑے بزرگ کہتے ہیں، عورت کو اگر خوش مزاجی اور سیرابی حاصل ہو، بہت سی نصیحتوں کی ضرورت نہیں پڑتی، بہت سی مخاصمتیں دم توڑ دیتی ہیں، بہت سی نااتفاقیاں، شکوے شکایات جنم نہیں لیتیں، اور اس موقع پر جو چھاپ پڑتی ہے، وہ تندرست، صحتمند، ہوشمند اولاد ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں وطی کے معنی کیا ہیں: "روندنا، قدموں کے نیچےمسلنا"۔۔۔ روندنے کے بعد حالت کس کی بری ہوتی ہے؟ بدحال کون ہوتا ہے؟ مجھے پتہ ہے، جواب آپ یہی دیں کہ فراش، صاحب فراش پہلے بھی تندمند تھا اب بھی لیکن سوچو اگر صاحب فراش ہی لڑکھڑانے لگے، بدحال ہی نہیں بلکہ پریشان حال ہوجائے، تو چہ باید کرد، اس لئے فدوی اپنے چالیس پار ساتھیوں کے سامنے چار طریقے جن کی طرف اشارہ قرآن و حدیث دیکھا، رکھنا چاہتا ہے۔۔
ہم بستری کا مقصد:
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ایسی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے جو زیادہ محبت کرنے والی ہو اور زیادہ بچے جننے والی ہو۔
محبت کی اہمیت اس معنی کر بھی زیادہ کہ محبت زیادہ ہوگی تو ہم بستری بھی زیادہ ہوگی جس اولاد کی کثرت ہوگی۔ حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ: "میں اپنے نفس کو جماع پر مجبور کرتا ہوں تاکہ الله اس کے ذریعہ سے ایسی جان کو وجود دے جو الله تعالی کی پاکی بیان کرے۔ [السنن الکبری للبیہقی: ۱۳۴۶۰]
۔۔۔۔۔
(قسط دوم)
زن چشیدہ ہو یا زن گزیدہ ہو
یا زن کشیدہ ہو یا زن ہذیرفتہ
زنان کی احتیاج ہر کسی کو ہے، خواہش دلوں میں ہر ایک کے جوان ہے ارمان اور تمنائیں ہیں کہ فراش میں کما و کیفا اضافہ ہو، کم و عدد کی بحث فی الحال یہاں نہیں ہے لیکن ضرورت بستر کی زندگی کو کیفا مضبوط کرنے کی ہے۔ ایک کامیاب مرد وہ سمجھا جاتا ہے کہ نفس (بسکون الفاء) بھی اس کے قابو میں ہو اور نفس (بفتح الفاء)، اول پر قدرت یافتہ ہوگا انسان خود پر قابو پاسکے گا ثانی پر کنٹرول ہوگا تو وہ اپنی گھر والی ہر قابو پاسکے گا۔ ایک اچھی جفتی کا اندازہ آپ ان دو واقعوں سے لگا سکتے ہو ۔۔ امام اصمعی کہتے ہیں کہ امرءالقیس نے ایک عورت سے نکاح کیا جس کا نام جندب تھا، پہلی رات میں رات کا ابھی پہلا ہی حصہ گزرا تھا، اس نئی نویلی دلہن نے اپنے شوہر امرءالقیس کو یہ کہہ کر اٹھایا کہ اٹھو اے بہترین کڑیل جوان! صبح ہوگئی۔ جب اس نے دیکھا کہ ابھی تو رات ہی ہے تو اس نے پوچھا: کیوں بیگم آپ نے ایسا کیا؟ بیگم ٹال رہی تھی لیکن یہ بضد تھا تو، تو بیگم نے کہا:
"لأنك ثقيل الصدر، خفيف العجز، سريع الإراقة، بطيء الإفاقة"
چار صفات گنوائیں:
(۱) اس لئے کہ تو سینے پر بھاری ہے یعنی جماع کرتے وقت سینے پر پڑجاتا ہے، (عورت کو جماع کے تھوڑا کھلا کھلا اچھا لگتا ہے تاکہ وہ بھی برابر لذت حاصل کرے، اگر مرد عورت پر اپنا پورا وزن ڈال دے تو عورت کا مزہ ختم ہوجاتا، ایسا وہ شخص کرتا ہے جس کے بازو کمزور ہوں)
(۲) اور تو ہلکی سرین والا ہے (عورت کو مرد کی بھاری سرین پسند آتی ہیں. تاکہ اس کو اس کی چار شاخوں کے درمیان بوجھ محسوس ہوسکے، اور جس کا پیٹ آگے کو نکل گیا ہو وہ کما حقہ اس جگہ پر زور ڈال ہی نہیں سکتا، وہ زور ڈالنے کی کوشش کرے لیکن اس کا پیٹ پیٹ سے اڑ جائے گا، یہ بات سمجھنے جیسی ہے کہ جب پیٹ ڈھنگ معانقہ نہیں کرنے دیتا تو معالجہ کیسے کرنے دے گا،  
نیز ہلکی سرین والے کا نصف اسفل کی تمام چیزیں ہلکی ہی ہوتی ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا جس کے انگلیوں کے پوروے لمبے ہوتے ہیں اس کی کلائیاں اور بازو بھی لمبے ہوتے ہیں، عورت بہت سمجھدار تھی، امرءالقیس کو اسی کی زبان میں سمجھا رہی تھی۔
(۳) تیسری بات یہ کہی کہ "تو پانی بہت جلدی بہانے والا ہے۔" (میں پک کر گرم توا ہوچکی ہو تم لگے کمربند باندھنے، ابھی تو مجھے لذت آنا شروع ہوئی تھی! میری پراگندگی کو سمیٹے گا کون؟)
یہ ایک ایسا مسئلہ بہت سے نیم حکیموں کی دوکان رواں دواں ہے، منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی بہت سے مرد منزل (بضم المیم) ہوجاتے ہیں، ظاہر عورت کو اس کو کوئی فکر نہیں ہوتا کہ اس کے انزل سے پہلے بھی راستہ واں تھا اور انزال کے بعد بھی راستہ واں ہے، وہ برابر لائق جفتن باقی رہتی ہے لیکن مرد منزل (بالضم) ہونے بعد کسی کام کا نہیں رہتا، ایسے اشخاص کو نفس شناس طبیب مشورہ دیتے ہیں کہ روٹی توے پر رکھنے سے پہلے ہی خوب گرم کرلیا کرو، جیسے ہی روٹی توے پر رکھی جائے روٹی پک جائے، یعنی جم کر ملاعبت کیا کرو، ملاعبت کا مطلب ہوتا ہے ایک دوسرے سے کھیلنا یہ ایک مفید مبارک عمل ہے، اس میں مرد بعض بیہودگیوں سے  بچتے عورت کو کافی حد تک آمادہ کرسکتا ہے، عورت کے جسم کے بعض حصہ ایسے ہوتے جو کافی حساس ہوتے ہیں، ذرا سے لمس سے وہ مچل جاتی ہے۔ اس کے بدن میں جھنجھناہٹ سی چھا جاتی ہے کہہ لیجئے کہ ہلکا کرنٹ سا دوڑ جاتا ہے، کچھ جگہ تو مشترک ہوتی ہیں، جیسے پشت، بالائی سینہ، گردن، کانوں کی لو اور پہلو یعنی جس حصہ پر وہ کروٹ لیتی ہے بطور خاص سر پستان اور بظر اندام نہانی۔
ان حصوں سے ہونٹ سے زبان سے، انگلیوں کے سرے سے کھیل کر عورت کو بے قابو کیا جاسکتا ہے۔ ایسا وہ مرد خوب کرسکتے ہیں جن پر کاروبار کا بار نہ ہو، ذہن پر کسی قسم کا دباؤ اور ہاتھ پاؤں شل کردینے والا محنتی کام کا بوجھ نہ ہو۔
(۴) چوتھی بات اس عورت نے کہی: اس لئے کہ تو افاقہ میں بڑا سست ہے یعنی ایک مرتبہ جماع سے فارغ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ تیار ہونے میں بہت دیر لگاتا ہے، جو کڑیل صحت مند جوان ہوتے ہیں، ان میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ ایک مرتبہ فراغت کے بعد بہت جلد دوسری مرتبہ کے لئے مستعد تیار۔ اب یہ صاحب ایسے ہیں کہ اس سنڈے کے بعد اب اگلے سنڈے تک انتظار کرو، نہ کوئی حرکت ہے نہ سنسناہٹ۔
یہ خوبی اسی وقت آسکتی ہے جب غذا مقوی روغن دار ہو مرد وڑا پاؤ، سموسہ، چائے اور جلیبی کے بجائے صحت بخش طاقتور غذا کھائے۔ خاص طور پر جماع سے فارغ ہوکر کوئی مرغن مقوی غذا کھائے، 
ہمارے ایک مشفق بزرگ کا بتایا ہوا نسخہ پیش خدمت ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ: بیٹا، آدھا کپ دیسی گھی لینا، اس میں آدھا کپ اصلی شہد ملانا اور دیسی انڈا ڈال کر پھینٹ دینا اور شام 7 بجے اگر مکمل کھاسکو تو کھالینا اور جماع بعد کوئی مرغن غذا ضرور لینا اور ناشتہ ابلے ہوئے دیسی انڈا اور دودھ سے کرنا۔" (بواسیر والے احتیاط کریں)
دوسرا واقعہ:
یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں گیارہ عورتوں نے اکٹھا ہوکر عہد کیا کہ ہم اپنے شوہروں کے بارے میں سچ کہیں سچ کے سوا کچھ نہ کہیں گے: ان میں سے ساتویں عورت نے کہا کہ میرا شوہر، بہن میرا شوہر! بالکل نکما، اس میں حد سے زیادہ درماندگی اور سستی ہے، کسی مرض کی دوا نہیں، ہر کام اس پر بوجھ ہوجاتا ہے اور وہ بیوی پر بوجھ ڈالنے والا ہے، (یعنی جماع کے وقت اپنی بیوی پر پڑجاتا ہے، جلد فارغ ہوکر اپنا ڈھیلا ٹھنڈا جسم بیوی پر ڈال دیتا ہے۔
        قابل شرم بات ہوتی کہ مرد کو جہاں فاعل بنایا گیا تھا وہ وہاں مفعول بن جاتا ہے، جہاں اس کو لذت دینے والا بنایا گیا تھا، وہ وہاں فقط لذت حاصل کرنے والا بن جاتا ہے، ہم نے اپنے ایک باذوق ساتھی سے چٹکلہ سنا ہے کہ کسی نے سوال کیا کہ جماع، مجامعت مفاعلہ کا مصدر ہے اس میں فعل کا صدور جانبین سے ہوتا ہے، لیکن مزہ کس کو زیادہ آتا ہے؟ تو جواب میں کہا گیا کہ آپ نے کبھی انگلی سے کان میں کھجایا ہے؟ کہا کہ: ہاں، فرمایا کہ مزہ کس کو زیادہ آتا ہے کان کو یا انگلی کو؟ 
اسی وجہ سے امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر میاں بیوی نے رمضان کے دن میں مجامعت کرکے روزہ فاسد کردیا تو عورت پر کفارہ نہیں آئے گا، اس لئے کہ جماع تو مرد کا فعل ہے، عورت تو متعلقۂ جماع ہے، صاحب ہدایہ نے اس دلیل کی تردید بھی نہیں کی۔ تو ذرا سوچو جو صاحب جماع اس کا کیا ہوکر رہ جائے گا جب وہ متعلق جماع ہوجائے؟ آدمی اپنی کہی ہوئی بات پہلا مخاطب ہوتا ہے تو مناسب سمجھا کہ وہ چار طریقہ ذکر کئے جائے جن کے بیان میں تاخیر ہوگئی ہے۔
۔۔۔۔
قسط: سوم
جو زمان طالب علمی میں یا بعد فراغت فورا نکاح کرتے ہیں وہ عموما شعبان میں کرتے ہیں، اور ان کا سرور شہر رمضان میں آجاتا ہے، معلموں کو بھی قدرے فرصت رمضان ہی میں میسر آتی ہے۔ یہ ان کی تعطیل کلاں ہوتی ہے یہی ان کے لئے کلیاں چٹخانے کا وقت ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ رمضان میں "شد مئزر" اور "احیاء الیل" ہو لیکن ہمیں نو آموز اور نو وارد کو معذور سمجھنا چاہئے۔ پھر شریعت نے "لکل امرئ مانوی" کہہ بہت سے مباحات کو بھی عبادت کا درجہ دے دیا ہے۔ اور جماع تو درحقیقت عبادت ہے۔
جماع کا عبادت ہونا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے: نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "تم میں سے کسی کا اپنی (بیوی، باندی) سے جماع کرنے میں صدقہ کا ثواب ہے۔ لوگوں نے کہا کہ: اے الله کے رسول، ہم میں سے کوئی اپنی شہوت پوری کرتا ہے، کیا اس میں بھی اجر ملتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا بتاؤ، اگر وہ حرامکاری کرتا تو اس پر گناہ نہ ملتا؟ (مسلم شریف)
(عن أبي ذر أن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، ذهب أهل الدثور بالأجور يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون بفضول أموالهم، قال: "أوليس قد جعل الله لكم ما تصدقون؟ إن بكل تسبيحة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن منكر صدقة، وفي بضع أحدكم صدقة، قالوا: يا رسول الله، أيأتي أحدنا شهوته ويكون له فيها أجر؟ قال: «أرأيتم لو وضعها في حرام أكان عليه فيها وزر؟ فكذلك إذا وضعها في الحلال كان له أجر»." (صحیح مسلم/جلد:2/صفحہ:697، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف،ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)
طبرانی میں ہے کہ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ایک شخص سے دریافت فرمایا: آج کسی کی عیادت کی ہے؟ کہا: نہیں۔ دریافت فرمایا: کوئی صدقہ کیا ہے؟ کہا کہ: نہیں۔ دریافت فرمایا کہ: اپنی بیوی سے ہمبستری کی ہے؟ کہا کہ: نہیں۔ فرمایا: ہمبستری کرلو، اس لئے کہ آپ کی طرف سے ان پر یہ صدقہ ہے۔ راوی کہتے ہیں یہ جمعہ کا دن تھا، اس لئے بعض حضرات نے جمعہ کے دن / جمعہ کی رات کو جماع کرنا مستحب قرار دیا ہے۔
شب زفاف زوجین کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتوں میں سے ایک وصیت یہ ہے کہ وہ دونوں جمعہ کے روز جماع کرنا نہ بھولیں۔ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
"‏مَنْ غَسَّلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْتَسَلَ ثُمَّ بَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَمَشَى وَلَمْ يَرْكَبْ، وَدَنَا مِنَ الإِمَامِ وَأَنْصَتَ وَلَمْ يَلْغُ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ أَجْرُ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا‏"‏  (حدیث صحیح ہے) (ابو داود: 345)، (احمد: 4/104)، (نسائی: 3/97) و (ابن ماجہ: 1087)
" جس نے جمعہ کے روز غسل کیا اور کرایا، پھر اول وقت میں ہی مسجد گیا اور شروع سے ہی خطبہ میں رہا،  پیدل چل کر مسجد گیا، اور امام کے قریب بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ خطبہ سنا، کوئی لغو بات نہ کی، تو اس کو ہر قدم پر ایک سال صیام و قیام کے برابر ثواب ملے گا."
بعض علماء فرماتے ہیں: "غسّل" کا معنی یہ ہے کہ وہ نماز جمعہ سے پہلے بیوی کے ساتھ جماع کرے تاکہ وہ نفس پر قابو رکھے اور اپنی نگاہ کی حفاظت کرے، حضرت وکیع بن جراح سے بھی یہی معنی مروی ہے۔ حضرت خزیمہ فرماتے ہیں: دیث پاک میں جو "غسّل واغتسل" آیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ شوہر نے بیوی سے جماع کیا اور اس کے اوپر غسل واجب کیا، اور "ابتکر" کا معنی ہے خطبہ میں شروع ہی سے موجود رہنا، چنانچہ ملاحظہ ہو کہ جمعہ کا دن کتنا ہی افضل ہے۔
بہرحال جماع جو کہ عبادت ہے اس میں مندرجہ ذیل نیات کرکے راتوں کو رنگین کرنے کیساتھ ساتھ احیاء کا کچھ نہ کچھ ثواب بھی حاصل ہوسکتا؛
 حدیث میں مطلق ثواب کا ذکر ہے، چنانچہ غنیة الطالبین میں ایک حدیث ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ عورتوں کو تو بہت سا ثواب مل گیا، مَردوں کے بارے میں بھی ارشاد فرمائیے یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: مرد اپنی عورت کا ہاتھ پکڑ کر مانوس کرتا ہے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جاتی ہے، جو مرد پیار سے اپنی عورت کے گلے میں ہاتھ ڈالتا ہے اس کے حق میں دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، جب وہ عورت سے مباشرت کرتا ہے تو دنیا ومافیہا سے افضل ہوتا ہے، جب غسل کرتا ہے تو بدن کے جس بال پر سے پانی گذرتا ہے اس کے لیے ہربال کے بدلے میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ معاف ہوجاتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے او رغسل کرنے کے عوض میں جو چیز دی جاتی ہے وہ دنیا اور مافیہا سے بہتر ہوتی ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ اس پر فخر کرتا ہے اور فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کی طرف دیکھو کہ ایسی سرد رات میں غسل جنابت کے لیے اٹھا ہے اور وہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ میں اس کا رب ہوں تم اس بات پر گواہ رہو کہ میں نے اس کو بخش دیا (فتاویٰ رحیمیہ: ۵/۲۴۷/ نقلاً عن غنیة الطالبین: ۹۳-۹۴، فصل فی آداب النکاح)
استمتاع کی نیت:
جماع نام ہی استمتاع کا ہے، صرف استمتاع کی نیت بھی اچھی ہے کہ عورت "خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا" ہے اور "استمتعتم" میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے۔ علماء فرماتے ہیں یہ نیت ہو؛ 
قضاء الوطر بنیل اللذۃ و التمتع بالنعمۃ؛ 
یعنی حاجت طبعیہ کا پورا کرنا حصول لذت کے ساتھ اور شہوت و عورت جو الله تعالی کی نعمت ہیں، ان سے جائز اور مناسب طریقہ سے متمتع ہونا۔
الدرالمنضود میں ہے: منافع نکاح میں سے یہی ایک منفعت ایسی ہے جو جنت میں پائی جائے گی، اس لئے کہ جنت میں گو نکاح ہوگا لیکن توالد و تناسل وہاں نہیں ہوگا بلکہ جماع صرف حصول لذت و راحت کے لئے ہوگا میں (صاحب الدر) کہتا ہوں نکاح کے اس فائدہ کا حصول اول تو محسوس و مشاہد ہے دوسرے احادیث میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے۔
پاک دامنی کی نیت:
اپنی اور اپنی بیویوں کی شرمگاہوں کی حفاظت، عفت و پاکدامنی کے حصول کی نیت کرنا۔
"فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج"
ایک حکیم فرماتے ہیں: یہ الله تعالی کی بڑی نعمت ہے، دین و دنیا دونوں کام اس سے درست ہوجاتے ہیں، اس میں بہت فائدے اور مصلحتیں ہیں، آدمی گناہوں سے بچتا ہے اور دل ٹھکانے لگتا کے، نیت خراب اور ڈانواں ڈول نہیں ہونے پاتی اور بڑی بات یہ ہے کہ فائدے (لذت) کا فائدہ اور ثواب کا ثواب (ہم خورما و ہم ثواب)۔
تحصیل نسل کی نیت:
اولاد حاصل کرنے کی نیت کرے جو اس کے لئے ذخیرۂ آخرت ہو اور مرنے کے بعد صدقۂ جاریہ ہو اور اس کے لئے دعائے خیر کرے۔
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله تعالی عنہما نے ارادہ کیا کہ وہ نکاح نہیں کریں گے تو ان کی بہن حضرت حفصہ رضی الله تعالی عنہا نے ان کو کہا: نکاح کرلو، اس لئے کہ اگر الله تعالی نے آپ کو ولد کی نعمت عطا فرمائی اور وہ ولد آپ کے بعد زندہ رہا تو آپ کے لئے دعا کرے گا۔ [سنن کبری: ۱۳۴۶۱]
ان کے والد حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں اپنے آپ کو جماع پر مجبور کرتا ہوں اس امید سے کہ الله تعالی اس جماع کے نتیجے میں ایک جان نکالیں گے جو الله کی پاکی بیان کرے گا۔ [سنن کبری]
تکثیر الاسلام و المسلمین کی نیت:
تکثیر امت پر حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کا فخر و مباہات متحقق ہوجائے اس کی نیت:
کثرت تعداد، کثرت افراد (مسلمین) کی اہمیت و فائدہ کا اندازہ ہر ایک کو ہے۔ عرب جن جن علاقوں کو زیر کرتے رہے وہاں انھوں نے اپنے افراد کو بسا، کثرت نساء سے اولاد بھی کثرت سے کیں اور دعوت الی الله کے ذریعہ سے بھی تکثر ملت کی، اس لئے جہاں جہاں عرب قابض ہوئے، آج وہ مسلم اکثریتی ممالک میں شامل ہیں اور تعدد ازدواج وہاں معیوب نہیں ہے۔ لیکن جہاں عجمی مسلمانوں نے فتح کے جھنڈے گاڑھے عموما وہاں مسلمان اقلیت میں رہ گئے۔ حالاں کہ کثرت امت مطلوب ہے۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی عورت سے شادی کروجو خوب محبت کرنے والی (اور) زیادہ بچے جننے والی ہو؛ اس لیے کہ میں تمہاری( کثر ت کی )وجہ سے( قیامت کے دن) دوسری امتوں  پر فخر کروں گا۔ 
"حدثنا أحمد بن إبراهيم، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا مستلم بن سعيد ابن أخت منصور بن زاذان، عن منصور - يعني ابن زاذان - عن معاوية بن قرة عن معقل بن يسار، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال: إني أصبت امرأة ذات حسب وجمال، وأنها لا تلد، أفاتزوجها؟ قال: "لا" ثم أتاه الثانية فنهاه، ثم أتاه الثالثة، فقال: "تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم." (سنن ابی داود، كتاب النكاح، باب في تزويج الأبكار، ج: ۳، صفحہ: ۳۹۵، رقم الحديث: ۲۰۵۰، ط: دارالرسالة العالمية) 
کسی کے ماننے والے، اتباع کرنے والے زیادہ ہوں تو یہ خوشی و فخر کی بات ہوتی ہے، لیکن اس میں متبعین (مسلمین) کا بھی فائدہ ہے۔ اکثریت ہونے کی وجہ سے ان کا رعب و دبدبہ ہوگا، اقلیت میں ہونے کی وجہ سے وہ مقہور نہیں ہوں گے۔ بہر حال ایک عبادت میں جتنی نیت ہو بہتر ہے. مجھے معلوم ہے کہ طریقہائے جماع کا ذکر موخر ہورہا ہے لیکن اس سے پہلے مزید چند باتیں جان لینا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔
قسط چہارم
ایک عورت کا مجھے میسج آیا کہ اس عورت کے شوہر اس سے جماع نہیں کرتے۔ کہتے ہیں آگے کے لئے طاقت بچا رہا ہوں۔ امام مہدی کے خروج کا زمانہ قریب ہے، طاقت کی ضرورت محسوس ہوگی۔ کیا ان کی یہ سوچ غلط ہے۔
دوسری عورت نے میسج کیا - حال یہ کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ باتیں کرتے کرتے میسج دیکھ رہا تھا- مفتی صاحب ایک مرد اپنی بیوی سے کتنی مدت دور رہ سکتا ہے۔ کتنی مرتبہ جماع کرنا چاہئے؟ کیا جماع میں مرد کا حق نہیں ہے۔ مجھے خواہش زیادہ ہے لیکن میرے شوہر ہر روز اس عمل جنت پر آمادہ نہیں ہوتے ہیں۔
سوال پڑھ کر حکایات لطیف کی وہ فارسی حکایت ذہن میں گردش کرنے لگی جس میں ایک خاتون ایک قاضی صاحب کے پاس اپنے شوہر کی یہ شکایت بڑی شدت کے ساتھ لے کر پہنچی کہ یہ میرا حق ادا نہیں کرتے۔ 
شوہر نے کہا: قاضی صاحب! 
راست نمی گوید، بلی من حقوق آں در جماع اورا رسانیدم۔
قاضی صاحب نے خاتون کی طرف دیکھا تو خاتون کچھ دبے لفظوں میں کچھ جلدی جلدی بولتے ہوئے گویا ہوئی: مجھے ایک رات میں چار مرتبہ فراغت چاہئے اور یہ ایک رات میں تین مرتبہ میں "مردہ بدست زندہ" کے مانند ہوجاتے ہیں۔
قاضی صاحب نے جواب دیا کہ اے دوشیرہ آپ فکر نہ کرو۔ وہ ایک رات میں جتنی چڑیا اڑاسکتا ہے آڑائے۔ مابقیہ کے لئے قاضی الحاجات کا در یاد کیا جائے۔
قریب تھا کہ میں یہ حکایت نقل کردوں لیکن بیوی کے قریب ہونے نے اور اس کی ترچھی نگاہوں سے میری مسکراہٹ کو بھانپتے رہنے کے مجھے یہ نقل کرنے سے روکے رکھا۔ کسی اور موقع پر خیال آیا کہ اس سلسلے کچھ لکھا جائے لوگ کثرت جماع کو حضرت صحت سمجھتے ہیں تو کچھ اجڈ جماع میں عورت کا کوئی حق ہی نہیں سمجھتے۔ اب چون کہ اس ارادہ کی تکمیل کرچکا ہوں اور ایک ایسی تحریر تیار ہوچکی ہے جو پیش خدمت ہے؛
جماع میں عورت کا حق:
             کہتے ہیں کہ جماع میں عورتوں کا بھی حق ہے، اصل مجامع اگرچہ مرد ہے اور عورت متعلق جماع ہے، لیکن عورت بھی باب مفاعلۃ (مجامعۃ) کی وجہ سے من وجہ فاعل ہے۔ اسی حق کی وجہ سے مرد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل نہیں کرسکتا۔
عشاء بعد سونے کی تاکید حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے تاکہ نماز فجر میں بیداری اور چستی رہے، عشاء بعد بیدار رہنے کو ناپسند کیا ہے مگر تین لوگوں کو صراحتا اجازت دی نمازی، مسافر اور عروس۔
            آپ کی بات خدا کی بات ہوتی ہے پھر آپ کسی کو "حق" کہہ دیں تو اس کی اہمیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں، "ہر تماشہ (دل لگی) جو انسان کرتا ہے وہ باطل ہے الا یہ کہ وہ تیر اندازی کرے، اپنے گھڑے کو سدھائے اور اپنی بیوی سے کھیلے اس لئے کہ یہ سب حق میں سے ہیں۔ [سنن الترمذی بحوالہ مشکاۃ ۲/۱۱۹]
(حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْأَزْرَقِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ لَيُدْخِلُ بِالسَّهْمِ الْوَاحِدِ الثَّلَاثَةَ الْجَنَّةَ: صَانِعَهُ يَحْتَسِبُ فِي صَنْعَتِهِ الْخَيْرَ، وَالرَّامِيَ بِهِ، وَالْمُمِدَّ بِهِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْمُوا، وَارْكَبُوا، وَأَنْ تَرْمُوا، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ تَرْكَبُوا، وَكُلُّ مَا يَلْهُو بِهِ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ بَاطِلٌ، إِلَّا رَمْيَهُ بِقَوْسِهِ وَتَأْدِيبَهُ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتَهُ امْرَأَتَهُ، فَإِنَّهُنَّ مِنَ الْحَقِّ.") (سنن ابن ماجه: حدیث نمبر: 2811)
حضرت جابر رضی الله تعالی عنہ سے نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے جب کہ انھوں نے کم عمری کے باوجود ثیبہ سے نکاح کیا تھا تو فرمایا تھا: "کیوں باکرہ سے نکاح نہیں کیا، وہ آپ کے ساتھ کھیلتی آپ اس کے ساتھ کھیلتے۔" (صحيح مسلم)
(حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَأَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ : أَنَّ عَبْدَاللَّهِ، هَلَكَ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ، أَوَ قَالَ: سَبْعَ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً ثَيِّبًا، فقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا جَابِرُ، تَزَوَّجْتَ"، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: "فَبِكْرٌ أَمْ ثَيِّبٌ"، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، أَوَ قَالَ: تُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ"، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: إِنَّ عَبْدَاللَّهِ هَلَكَ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ أَوْ سَبْعَ، وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ أَوْ أَجِيئَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَجِيءَ بِامْرَأَةٍ تَقُومُ عَلَيْهِنَّ وَتُصْلِحُهُنَّ، قَالَ: "فَبَارَكَ اللَّهُ لَك"، أَوَ قَالَ: لِي خَيْرًا، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي الرَّبِيعِ: تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، وَتُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ) (صحيح مسلم)
علامہ مظہری شرح مشکاۃ میں فرماتے ہیں: "جو میاں بیوی میں کھیل، اٹھکیلیاں، بوس و کنار، لمس و مس ہوتا ہے، یہ شارع کی مرضی ہے اور یہی سنت ہے اس لئے کہ یہ دل لگی، دل بستگی، انسیت اور نشاط کا سبب ہے، اموشن کو آسمان پر لے جانے والا اور شہوت کو برانگیختہ کرنے والا ہے جو کہ ولادت کا سبب ہے۔ [۴/۱۳]
             مرد جس طرح چاہتا ہے کہ اس پر مس و جس ہو اس کے حساس اعضاء پر مساس ہو عورت بھی اس طرح کی خواہش رکھتی ہے: 
"وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ"
ایک مرتبہ حضرت امام ابویوسف نے ہمارے امام اعظم سے پوچھا: "کیا مرد عورت کی شرمگاہ کو اور عورت مرد کے عضو تناسل کو مس کرسکتی ہے تاکہ تحریک ہو؟ کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ تو امام صاحب نے جواب دیا: کوئی حرج نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کو عظیم اجر دیا جائے گا۔"
مرد کی شرمگاہ باہر ہوتی ہے اور عورت کی ذرا اندر کو، اس لئے بسا اوقات عورت مرد سے سے زیادہ ملاعبت کی طلبگار بلکہ محتاج ہوتی ہے، تاکہ لذت جماع جو اس کا حق ہے، اس کو مل سکے۔
ابن قدامہ رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں: عورت سے جماع سے پہلے کھیلنا مستحب ہے تاکہ اس کی شہوت بھڑک اٹھے اور جو لذت جماع مرد حاصل کررہا ہے وہ اس کو بھی حاصل ہو۔ [المغنی]
ملاعبت کرکے عورت کو اچھی طرح سے تیار نہ کرنا اور عورت کی تحریک اور نہوض شہوت کو خاطر میں نہ لانا بسا اوقات عورت کو عمل جماع سے متنفر کردیتا ہے۔ (خصوصا جب شب زفاف ہو جو اس کی پہلی رات ہے اس وقت اس کے ساتھ ایسا کیا جائے۔)
مرد کے لئے یہ بھی پسندیدہ ہے کہ وہ اپنی فراغت کی طرح عورت کی فراغت کا بھی انتظار کرے، تاکہ عورت بھی منزل ہوجائے،
حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب مرد اپنی بیوی سے جماع کرے تو چاہئے کہ وہ اسے بھی مطمئن کردے، پھر اگر مرد کی خواہش پوری ہوگئی تو جلدی نہ کرے تا آں کہ عورت کی خواہش بھی پوری ہوجائے۔ [مجمع الزوائد]
اس حدیث کی ضمن میں علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ اگر حاجت پوری ہوجائے تو بھی اس سے نہ ہٹے بلکہ مص الشفتین اور تحریک الثدیین میں لگارہے جب تک کہ یہ معلوم نہ ہوجائے کہ وہ بھی مطلوب تک پہنچ چکی ہے، اس کہ یہ حسن مباشرت ہے اس کو پاک دامن رکھنا ہے خوش اخلاقی اور نرمی مزاجی ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی سریع الاراقہ ہو اپنی بیوی کے ساتھ ٹھہرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے تو وہ امساک کا علاج اور معجون لے، اس لئے کہ یہ مندوب تک پہنچنے کا وسیلہ ہے: وللوسائل حکم المقاصد۔
کثرت جماع:
حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم ایک وقت میں اپنی گیارہ بیویوں پر چکر لگاتے تھے، [بخاری] چکر لگانے سے مراد جماع کرنا، بعض مرتبہ ایک ہی مرتبہ آخر میں غسل فرماتے،
(معمر کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دو بیویوں کے درمیان جماع کرنے سے پہلے وضو تو کرتے تھے۔)
کبھی آپ ہر ایک بیوی محترمہ کے پاس سے فارغ ہوکر غسل فرمایا کرتے۔ اور اس عمل کو آپ نے زیادہ ستھرا زیادہ پاک صاف بیان فرمایا۔ (سنن کبری)
قتادہ نے حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم اتنی طاقت رکھتے تھے؟ تو حضرت انس نے جواب دیا: ہم آپس میں باتیں کرتے تھے کہ نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کو تیس کی قوت عطا کی گئی ہے۔ (اور گیارہ بیویوں سے مراد نو زوجات محترمات اور دو باندیاں؛ ماریہ و ریحانہ، آخرالذکر کے بارے میں کچھ اختلاف ہے)
نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے ایسا اپنی زندگی میں گاہے بگاہے سفر پر جانے کے وقت یا آنے کے وقت کیا ہے، لیکن اس سے کثرت جماع کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
حکیم ترمذی رحمہ الله تعالی نوادرالاصول میں فرماتے ہیں؛ انبیاء نکاح زیادہ کیا کرتے تھے اپنی نبوت کے فضل کی وجہ سے، یہ اس وجہ سے کہ نور سے جب سینہ لبالب بھرجاتا ہے تو وہ رگوں میں بہتا ہے، جس سے نفس اور رگیں لذت حاصل کرتیں ہیں، جس کے نتیجے میں شہوت بھڑکتی ہے اور توانا ہوتی ہے۔
ابن مسیب رحمہ الله تعالی سے روایت کیا گیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام لوگوں سے جماع میں بھی بڑھے ہوئے ہوتے ہیں، 
یہ بھی حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کو پکڑ، مضبوطی اور نکاح میں چالیس مردوں کی قوت دی گئی تھی۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مومن کامل کو دس لوگوں کی قوت دی جاتی ہے اور کافر کی قوت صرف شہوت طبعیہ ہوتی ہے۔
[حاشیہ سندھی علی سنن النسائی، کتاب عشرۃ النساء]
ایک ہی رات میں اگر کوئی مرد دوسری مرتبہ جماع کرنا چاہے تو نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے بہتر یہ قرار دیا ہے کہ دو جماع کے درمیان ذکر دھوکر وضو کرلے اس لئے کہ یہ عمل نشاط آور ہے۔ [سنن کبری]
اس حدیث کی اشارۃ النص سے بھی کثرت کا جواز مفہوم ہوتا ہے۔
صحابہ میں:
سلمہ بن صخر البیاضی رضی الله تعالی عنہ ایک نادار صحابی تھے وہ فرماتے ہیں، میں اتنا جماع کرتا ہوں کہ دوسرے اتنا نہیں کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ رمضان کا مہینہ آیا، مجھے خوف ہوا کہ کہیں میں جماع میں مشغول ہوؤں اور جماع کرتے کرتے صبح ہی نہ کردوں، (جس سے میرا روزہ خراب ہوجائے گا) اس لئے میں نے اپنی بیوی سے ایک مہینے کا ظہار کرلیا، لیکن ایک مرتبہ میری خاتون میری خدمت کررہی تھی، اس کی پازیب (یا اس کی جگہ) ظاہر ہوگئی، میں بے بس ہوگیا اور اپنے آپ کو روک نہیں سکا اور خاتون پر آدھمکا۔۔۔۔۔ [مشکاۃ]
     حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ "میں اپنے نفس کو جماع پر مجبور کرتا ہوں تاکہ الله اس کے ذریعہ سے ایسی جان کو وجود دے جو الله تعالی کی پاکی بیان کرے۔ [السنن الکبری للبیہقی: ۱۳۴۶۰]
قرآن و حدیث میں کثرت جماع پر نکیر نہیں آئی ہے بلکہ ماہر نفسیات اس کو بہت سی چیزوں کے لیے مفید مانتے ہیں۔
جیسے محبت بین الزوجین، تناؤ اور ڈپریشن کے خطرات کم ہوتے ہیں، دل کے لئے بھی مفید اور انسان جوان اور خوش مزاج نظر آتا ہے، نیند اچھی آتی ہے، وغیرہ۔ یہ اس وقت ہے جب کہ منی کا خروج بیوی یا بیویوں سے ہو اگر غیر فطری طریقہ پر منی کا خروج ہو جیسے مشت زنی، اغلام بازی یا مرض احتلام سے تو یہ نقصان دہ ہے، اسی طرح جو آدمی کمزور ہے اس کے لئے بھی زیادہ پانی بہانا مضر ہے، اطباء کے کلام کو بھی اسی پر محمول کیا جانا چاہئے۔
یقینا ہر چیز جب اپنی حد سے بڑھ جاتی ہے تو مضر ہوتی ہے، 
(کل شیئ زاد عن حدہ انقلب الی ضدہ)
لیکن کثرت امر اضافی ہے ایک توانا جوان عمر کے لئے کثرت کی حد علی حدہ ہوگی ادھیڑ عمر یا ناتواں کے لئے علی حدہ۔
لہذا جس شخص کے پاس قوت و توانائی ہے وقت اور عمدہ غذا ہے تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ جب رغبت اور اشتہاء محسوس کرے جماع کرلے، بلکہ اس کے لئے باعتبار صحت کے یہی مناسب ہے، تاکہ بدن میں وہ مادہ جمع باقی نہ رہے جس کا بقا کبھی نقصان بھی دے سکتا ہے۔
پانچویں اور اخری قسط:
ناموں کے اچھے اور برے اثر سے کون واقف نہیں؟ ناموں کا اثر جس طرح ذات پر پڑتا ہے کام اور فعل پر بھی وہ اثر انداز ہوتا ہے، موزوں کو الخفین کہا جاتا ہے چنانچہ موزوں کے سلسلے میں مسح کی تخفیف وارد ہوئی۔ واضعین جو بھی نام رکھتے ہیں بڑی غو ر فکر کے بعد رکھتے ہیں،  جماع کے لئے بھی جو نام جس زبان میں اصل وضع میں رکھے گئے ان میں کر نام مسمی کی وضاحت کرتا ہے، ہر نام میں قدرے مشترک سختی ہے۔ آپ نے جان لیا عربی میں اس کو "وطی" کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں روندنا، عوامی اردو زبان میں اس کو کہا جاتا ہے "پیلنا" (سینے سے زور لگاکر کسی چیز کو جگہ سے ہٹانا)
اور فارسی کی عام زبان میں "جفتی کردن" جفتن یعنی کودنا، عورت دو طرح کی ہوتی ہیں بعض عمل جماع آہستگی سے دھیرے دھیرے، ہر کام اطمنان سے کرنا پسند کرتی ہیں اور بعض سخت، جلدی جلدی اور محنت مشقت کرتے ہوئے، لیکن مرد تمام محنت مشقت اٹھاتے ہوئے جلد جلد کودتے پھلانگتے ہوئے کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ پہلی ہی رات کو ان کی بیوی زبان حال سے یہ شعر کہہ دے:
سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
 رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
            کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جماع میں فاعلیت بلکہ فعالیت کا پہلو ذرا غالب رہنا چاہئے، قرآن و حدیث میں ہمیں ایسے چار طریقوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
(1) فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِيفاً
یہاں قرآن کریم میں ایک تمثیل بیان کرتے ہوئے فرمایا (بعض حضرات نے اس واقعہ سے مراد حضرت آدم و حضرت حواء علیہا السلام مراد لیا ہے وہ صحیح نہیں ہے)
فرمایا جب ڈھانک لیا مرد نے عورت کو (اس سے وطی کرنے سے کنایہ کیا گیا ہے) یہ ایک عام اور رائج طریقہ ہے وطی کرنے، اس کو سب سے زیادہ آسان اور لذت بخش کہا جاتا ہے کہ عورت بستر پر چت لیٹی ہو اور مرد اس کو کچھ اس طرح ڈھانک لے کہ اس کے ہر ہر عضو کے مقابلے میں عورت کا ہر ہر عضو ہو، سینہ کے مقابل میں سینہ اور رخ کے مقابل میں رخ۔ مذکورہ طریقہ پر مرد جماع کرتے ہوئے عورت کے بالائی سینے، لب و رخسار اور گردن سے بآسانی استمتاع کرسکتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ ایسی صورت میں کمر کے نیچے کچھ رکھ کر "موضع" کو اوپر کرلیا جائے۔
(2) إذا جلس بين شُعَبِها الأربع ثم جهدها فقد وجب الغسلُ. (متفقٌ عليه)
جب مرد عورت کے پیروں اور رانوں کے درمیان بیٹھے پھر محنت کرکے مشقت اٹھائے تو غسل واجب ہوگیا۔ یہ بیٹھ کر جماع کا ایک شاندار طریقہ ہے کہ  عورت کی پشت کے نیچے کچھ رکھ کر اونچا کردیا جائے اور مرد اس کے پیروں کے درمیان دائیں بائیں جانب کرکے، پیر کے پنجوں کو زمین کر رکھ کر ایڑیوں کے بل کچھ اس طرح بیٹھے جیسے مردانہ پیشاب خانہ میں جو عموما مسجدوں میں بنے ہوتے ہیں مرد بیٹھتا ہے۔ اب چاہے وہ ان پیروں کو وہ اپنے دونوں کندھوں پر رکھ لے، چاہے دائیں بائیں جانب ہی پھیلے رہنے دے۔ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں تیر نشانے پر واقع ہوتا ہے اور حمل کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جبکہ پہلی صورت الذ اور زیادہ سرور آور ہے کیوں مرد و عورت کے جسم ایک دوسرے سے مس کئے ہوتے ہیں۔
(3) عن ابن عباس ۔۔۔۔۔۔ وكان هذا الحي من قريش يشرحون النساء شرحا منكرا، ويتلذذون منهن مقبلات ومدبرات ومستلقيات، فلما قدم المهاجرون المدينة، تزوج رجل منهم امرأة من الأنصار، فذهب يصنع بها ذلك، فأنكرته عليه، وقالت: إنما كنا نؤتى على حرف واحد، فاصنع ذلك ، وإلا فاجتنبني حتى سرى أمرهما، فبلغ ذلك رسول الله - صلى الله عليه وآله وسلم - " فأنزل الله [ص: 556 ] - تبارك وتعالى: (نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم) أي مقبلات ومدبرات ومستلقيات ، يعني ذلك موضع الولد (مستدرک: 2845)
حضرت ابن عباس رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں قریش عورتوں کئی طریقہ سے لطف اندوز ہوتے تھے، آگے سے آکر، چت لٹاکر، گھانا کر الٹا کرکے، جب ہجرت کا عمل ہوا اور بعض مہاجرین نے انصاری خاتون سے نکاح کیا تو وہ بھی انصاریہ کے ساتھ ایسا ہی کرنے لگے۔ انصاریہ نے منع کیا کہ ہم ایک ہی طریقہ استعمال کرتے ہیں ویسا ہی کریں ورنہ علی حدہ رہیں۔ ان کی یہ بات نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وسلم کو بھی پہنچ گئی تو آپ نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی: 
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ 
انصاریوں پر یہ اثر یہودیوں کا پڑا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر گھماکر پیچھے سے جماع کروگے تو بچہ احول (بھینگا) پیدا ہوگا، لیکن یہودیوں کی اس بات کی تردید مشاہدہ بھی کرچکا ہے۔
             اس میں ایک طریقہ جماع کا اشارہ ہے اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر جماع کرنا ہے، اس طرح کہ عورت کو گھماکر گھٹنوں کے بل کردیا جائے اور عورت اپنا چہرہ اور ہاتھ زمین پر رکھ دے، اس طرح کہ اس کے سرین کا حصہ بلند اور سر اور مونڈھے نیچے کی جانب ہو اور دونوں گھٹنوں کے درمیان قدرے فاصلہ ہو، ثمیل سے یوں سمجھ سکتے ہو کہ کبڈ یا الماری کے نیچے کوئی چیز چلی جائے اور کوئی عورت اس کو تلاش کرنے کے لئے الماری (جو زمین سے چار انگل قریب ہے) کے نیچے جھانکے، تو اس کا پچھلا حصہ بلند اور اگلا حصہ نیچے کی طرف جھکتا چلا جاتا ہے، بالکل اسی طرح عورت کو رکھے اور خود گھٹنوں کے بل عورت کے پیچھے کھڑا ہوجائے، مذکورہ طریقہ پر عورت کی ہیئت سے عورت کی اندام نہانی نظر آجائے گی، مرد کولہے پر ہاتھ رکھ کر دخول کرسکتا ہے، عین جماع کے موقع پر اس کی پشت اور گدی سے لطف اندوز بھی ہوسکتا ہے۔ اس طریقہ کا ایک فائدہ یہ ہے چت لیٹنے کے بر خلاف عورت کی کولہے کہ ہڈی قریب قریب رہتی ہیں راستہ کھلا کھلا لگنے کے بجائے تنگ محسوس ہوتا ہے۔
(4) إنما الطلاق لمن أخذ بالساق. (سنن ابن ماجہ)
فرمایا کہ: "طلاق کا حق اس کو ہے جو (بیوی کی) پنڈلی پکڑے" غلام کی بیوی کو آقا بیٹے کی بیوی کو والدین طلاق نہیں دے سکتے، بلکہ طلاق دینے کا اختیار صرف اس کو ہے جو پنڈلی پکڑے یعنی جو اس عورت سے جماع کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس میں جماع کرنے کے اس طریقہ کی طرف اشارہ جس میں جماع کرتے وقت شوہر پنڈلی پکڑے۔ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کھڑے ہوکر جماع کرنے کا ایک عمدہ طریقہ میں جا میں عورت مرد کے نصف اسفل کے مقابل کسی اونچی جگہ پر ہو جیسے پلنگ یا ٹیبل پر، مرد اس اونچی جگہ سے قریب ہوکر عورت کا پاؤں اوپر کی طرف کھینچ کر پنڈلی پکڑلے پھر ایلاج شروع کردے، بات ںانیں لذت حاصل کرنے کا یہ ایک نیا اور اچھوتا طریقہ ہوگا۔
         لیٹ کر چھاجانا، ایڑیوں کے بل، گھٹنوں کے بل اور کھڑے ہوکر جماع کرنے کی یہ چار صورتیں اہل چست و چابک لوگوں کے لئے آپ کے سامنے ہے، لگے ہاتھوں ایک پانچویں صورت اہل سست کے لئے بھی نذر نواز کئے دیتا ہوں۔
    وہ یہ کہ مرد چت لیٹ جائے اور عورت اس پر اس طرح بیٹھ جائے کہ ایلاج کماحقہ ہوجائے، یعنی نوے کا زاویہ بنا کر، زاویہ مستقیہ یا زاویہ حادہ بناکر، پھر عورت کچھ اس طرح کرے جیسے بچپن میں آپ نے سل پر یتھر سے مسالہ رگڑتے ہوئے یا گھستے ہوئے دیکھا ہوگا، اس درمیان مرد عورت کے حسن سے بھی ملاعبت کرکے دل بہلا سکتا ہے اور عورت کو یہ فائدہ ہوگا کہ اس کو اندر تک دخول محسوس ہوگا، عورت کی رحم دانی پر اگر ذکر مرد مس کرے تو اس کی لذت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور انزال جلد ہوجاتا ہے۔ اس میں ایک خرابی ہے ذکر کی گئی ہے کہ منی کے کچھ قطرات ذکر یاحشفے میں رکے رہ جاتے ہیں جو بعد میں بیماری کا سبب بن سکتے ہیں اس کا علاج یہ ہے کہ جماع کے بعد فورا پیشاب کرلیا جائے تاکہ تمام قطرات سے فراغت ہوجائے۔
           اشارۃً یہ چند باتیں اس گمان سے عرض کردی ہیں کہ آپ (چالیس پار) تفصیلات سے بخوبی واقف ہیں: لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبر مشاہدے کی طرح نہیں ہوتی۔“ 
أَخْبَرَنَا أَبُو مُسْلِمٍ، مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْبَغْدَادِيُّ الْكَاتِبُ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ، ثنا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، ثنا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ» [مسند الشهاب/حدیث: 1182]
بس بھولا ہوا سبق دہرانا مقصود تھا، بسا اوقات ذکر (بکسر الذال) وہ لذت دیتا ہے جو عمل نہیں دیتا۔ "الأذن تعشق قبل العين أحيانًا"
ہجر میں بھی مزہ 
ہے وصل سے جدا
م ی قاسمی
( #ایس_اے_ساگر )
۔۔۔۔۔
https://youtu.be/zr5JHnrtu6g?si=XgGuNg74iu6zMvdk


Friday, 14 November 2025

سجدے میں جانے کا راجح ومسنون طریقہ

سجدے میں جانے کا راجح و مسنون طریقہ
-------------------------------
-------------------------------
سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
سجدہ میں جانے کے طریقے کے بارے میں دو طرح کی حدیثیں ہیں: ایک فعلی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے گھنٹے مبارک رکھتے تھے۔ دوسری قولی حدیث ہے جس میں یہ حکم ہے کہ جب کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے. دونوں احادیث تحقیق اور وجہ ترجیح مطلوب ہے براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں! 
(محمد نوازش قاسمی امروہوی)
الجواب وباللہ التوفیق 
نماز میں سجدہ کے لئے جھکتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھنا چاہئے یا پہلے ہاتھ؟
فقہاء کرام کے اس مسئلے میں دو نقطہاے نظر  ہیں:
امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد (ایک روایت میں)، امام نخعی، امام سفیان ثوری، امام اسحاق بن راہویہ اور جمہور فقہاء کے نزدیک پہلے گھٹنے زمین پر رکھنا مستحب ہے، پھر ہاتھ، اور آخر میں پیشانی (المجموع شرح المهذب" (3/ 427، ط. دارالفكر)،المغني (1/ 370، ط. مكتبة القاهرة)
یہی طریقہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے۔ (مصنف ابن أبي شيبة (1/ 236-239، ط. مكتبة الرشد)
ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح روایت ہے کہ آپ جب سجدے میں جاتے تو پہلے گھٹنے رکھتے تھے، پھر ہاتھ:
(عن وائل بن حُجْررضي الله عنه قال: "رَأيتُ النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وآله وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قبل يدَيْهِ، وإذا نَهَضَ رَفَعَ يدَيْهِ قبْل رُكْبَتَيْهِ"( سن ابودائود 838، صحیح ابن حبان 1912)
جبکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ایک روایت کے مطابق امام احمد، امام اوزاعی، اور بعض محدثین کے نزدیک سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے چاہئیں، پھر گھٹنے. (المجموع شرح المهذب" (3/ 421، ط. دارالفكر)، نيل الأوطار للشوكاني (2/ 293، ط. دارالحديث).
ان کی دلیل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے، بلکہ اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے:
(عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبيِّ صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: إذَا سَجَدَ أَحَدُكُم فلا يَبْرُك كَمَا يَبْرُكُ البعيرُ، وليَضَعْ يدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ۔ (سنن دارمی 1360)
علامہ ابن القیم جوزیہ رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل کی تحقیق کے بعد دس وجوہ سے ثابت کیا ہے کہ راجح، صحیح اور ثابت طریقہ وہی ہے جو جمہور فقہاء نے کہا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا عمل بھی اسی پر تھاکہ وہ پہلے گھٹنہ رکھتے تھے، پھر ہاتھ۔ اس سلسلے میں انہوں نے  متعدد احادیث موقوفہ بھی نقل کی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ میں راوی سے غلطی ہوئی ہے، کیونکہ حدیث کے شروع اور آخر میں تضاد ہے:
[كان صلى الله عليه وآله وسلم يضع ركبتيه قبل يديه ثم يديه بعدهما ثم جبهته وأنفه، هذا هو الصحيح... وأما حديث أبي هريرة رضي الله عنه يرفعه: «إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ، وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ»، فالحديث -والله أعلم- قد وقع فيه وهم من بعض الرواة، فَإِنَّ أوَّله يُخَالف آخره، فإنه إذا وضع يديه قبل ركبتيه فقد برك كما يبرك البعير، فإِنَّ البعير إنما يضع يديه أوَّلًا، ولَمَّا علم أصحابُ هذا القول ذلك قالوا: رُكْبَتَا البعير في يديه لا في رجليه، فهو إذا برك وضع ركبتيه أوَّلًا، فهذا هو الْمَنْهي عنه، وهو فاسد... وكان يقع لي أن حديث أبي هريرة رضي الله عنه كما ذكرنا مما انقلب على بعض الرواة متنه، وأصله ولعله: "وَلْيَضَعْ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ" (زاد المعاد ٢١٥/١)
امام ابن القیم جوزیہ رحمہ اللہ نے درج ذیل دس وجوہِ ترجیح بتائے ہیں:
وحديث وائل بن حجر رضي الله عنه أولى؛ لوجوه:
أحدها: أنه أثبت من حديث أبي هريرة، قاله الخطَّابي وغيره.
الثاني: أنَّ حديث أبي هريرة مُضْطرب المتن كما تقدم، فمنهم من يقول فيه «وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ» ومنهم من يقول بالعكس، ومنهم من يقول: «وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ»، ومنهم من يحذف هذه الجملة رَأْسًا.
الثالث: ما تقدَّم من تعليل البخاري والدارقطني وغيرهما.
الرابع: أنه على تقدير ثبوته قد ادعى فيه جماعة من أهل العلم النسخ، قال ابن المنذر: وقد زعم بعض أصحابنا أَنَّ وضع اليدين قبل الركبتين مَنْسُوخٌ، وقد تقدم ذلك.
الخامس: أنه الْمُوَافِقُ لِنَهْي النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم عَنْ بُرُوكٍ كَبُرُوكِ الْجَمَلِ فِي الصَّلَاةِ، بخلاف حديث أبي هريرة رضي الله عنه.
السادس: أنه الموافق للمنقول عن الصحابة كعمر بن الخطاب وابنه وعبد الله بن مسعود رضي الله عنهم، ولَمْ يُنْقَل عن أحدٍ منهم ما يُوَافِقُ حديث أبي هريرة إلا عن عمر رضي الله عنه على اختلاف عنه.
السابع: أن له شواهد من حديث ابن عمر وأنس رضي الله عنهم، كما تقدم، وليس لحديث أبي هريرة شَاهِدٌ، فلو تقَاوَمَا لقدم حديث وائل بن حجر من أَجْلِ شواهده، فكيف وحديث وائل أقوى كما تقدم.
الثامن: أَنَّ أكثر الناس عليه، والقول الآخر إنما يحفظ عن الأوزاعي ومالك، وأما قول ابن أبي داود: "إنه قول أهل الحديث" فَإِنَّما أراد به بعضهم، وإلا فأحمد والشافعي وإسحاق على خلافه.
التاسع: أنه حديث فيه قصة مَحْكِيَّة سِيقَتْ لِحِكَايَةِ فِعْلِه صلى الله عليه وآله وسلم، فهو أَوْلَى أن يكون مَحْفُوظًا؛ لأن الحديث إذا كان فيه قِصَّة مَحْكِيَّة دَلَّ على أنه حفظ.
العاشر: أَنَّ الأفعال المحكية فيه كلها ثابتة صحيحة من رواية غيره، فهي أفعال معروفة صحيحة، وهذا واحد منها فله حكمها، ومعارضه ليس مقاومًا له؛ فيتعين ترجيحه، والله أعلم۔ زاد المعاد ٢٢٣-٢٢٤/١]
(کذا فی دارالافتاء المصریۃ dar-alifta .org)
واللہ اعلم بالصواب 
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post_14.html


Monday, 10 November 2025

حقوق اللہ اورحقوق العباد کی اقسام و ترجیح

حقوق اللہ اورحقوق العباد کی اقسام و ترجیح
----------------------------------
----------------------------------
فقہاء کے نزدیک حقوق کی بنیاد پر دنیا کے تمام معاملات چار اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں:
۱: خالص اللہ کے حقوق:
یہ وہ تمام اعمال یا احکام ہیں جن کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی تعظیم، اور اس کے دین کے شعائر کا قیام ہو، یا وہ امور جن میں عام مصلحت ہو مگر کسی خاص شخص سے متعلق نہ ہو۔ انہیں "اللہ کے حقوق" اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی اہمیت زیادہ اور نفع سب کے لیے عام ہوتا ہے۔ ان میں ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد، حدود، کفارات وغیرہ شامل ہیں۔
۲: خالص بندوں کے حقوق:
یہ وہ حقوق ہیں جو صرف انسان کی ذاتی مصلحت اور فائدے سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں اللہ کے حق کا کوئی پہلو شامل نہیں ہوتا۔
مثلاً: مالی حقوق ؛ جیسے قرض، ملکیت، وراثت وغیرہ۔
یہ تمام حقوق بندے کی دنیاوی ضرورتوں اور شخصی مفادات سے متعلق ہیں۔
۳: ایسے حقوق جن میں اللہ اور بندے دونوں کا حق جمع ہو، لیکن اللہ کا حق غالب ہو:
یہ وہ معاملات ہیں جن میں دونوں پہلو پائے جاتے ہیں، بندے کا بھی اور اللہ کا بھی، مگر اللہ کا حق مقدم مانا جاتا ہے۔ مثلاً: حدِ قذف؛ اس میں ایک طرف فرد کی عزت پر حملہ ہے، لیکن چونکہ یہ معاشرتی پاکیزگی اور اجتماعی اخلاقیات سے متعلق ہے، اس لیے اللہ کا حق زیادہ اہم ہے۔
اسی طرح چوری کی حد، عدتِ طلاق، اور عدتِ وفات وغیرہ میں بھی نسب کی حفاظت اور معاشرتی نظم وغیرہ کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
۴: ایسے حقوق جن میں اللہ اور بندے دونوں کا حق جمع ہو، لیکن بندے کا حق غالب ہو:
یہ وہ معاملات ہیں جن میں دونوں حقوق کا تعلق ہوتا ہے، مگر بندے کا حق زیادہ نمایاں اور مقدم ہوتا ہے، مثلاً: قصاص اور دیت۔
قتلِ عمد میں اللہ کا حق اس لیے ہے کہ یہ مخلوقِ خدا پر ظلم اور معاشرتی فساد کا سبب بنتا ہے،جبکہ بندے کا حق اس لیے ہے کہ مقتول کی جان اس کی ذاتی ملکیت تھی، اور اس کے وارثوں کو اس کے نقصان کا صدمہ پہنچا۔
اسی لیے شریعت نے قصاص کو مشروع کیا تاکہ دونوں حقوق محفوظ رہیں اور زمین سے ظلم و فساد ختم ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ کس موقع پر کس حق کو مقدم رکھا جائے؟
تو یہ ایک دقیق اور تفصیل طلب مسئلہ ہے۔ شریعت میں کوئی کلی اصول مقرر نہیں ہے کہ ہمیشہ بندوں کے حقوق مقدم ہوں یا ہمیشہ اللہ کے حقوق۔ اس بارے میں علامہ عزّ بن عبدالسلامؒ نے درج ذیل تین پہلوؤں سے بحث کی ہے:
۱: وہ مواقع جہاں اللہ کے حقوق کو ترجیح دی جاتی ہے:
یہ وہاں ہوتا ہے جہاں بندے کی آخرت کی بھلائی مقصود ہو۔
مثلاً وقت کی تنگی میں کھانے پینے پر نماز کو ترجیح دینا، عبادت میں آنے والی مشقت برداشت کرنا،اور اللہ کے دین کی خاطر جان و مال قربان کرنا۔ یہ سب اس لیے مقدم ہیں کہ ان میں بندے کے لیے اخروی فائدہ زیادہ ہے۔
۲: وہ مواقع جہاں بندوں کے حقوق کو ترجیح دی جاتی ہے:
یہ وہاں ہوتا ہے جہاں بندے کی دنیوی آسانی اور راحت مقصود ہو۔ جیسے جبر و اکراہ کی حالت میں جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر کہہ دینا، بیماری یا سفر میں روزہ مؤخر کرنا،نمازِ جمعہ یا جماعت سے شرعی عذر کی بنا پر رخصت پانا،یا مجبوری کے وقت جہاد سے معذوری اختیار کرنا وغیرہ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر نرمی اور رحمت کے مظاہر ہیں۔
۳: وہ معاملات جن میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ کون سا حق مقدم ہو: جیسے اگر کوئی شخص وفات پا جائے اور اس پر قرض اور زکوٰۃ دونوں باقی ہوں، تو اگر زکوٰۃ کا مال موجود ہے تو پہلے زکوٰۃ ادا کی جائے گی، کیونکہ اس میں اللہ اور فقراء دونوں کا حق شامل ہے۔ اگر مال تلف ہو گیا ہو تو بعض علماء قرض کو مقدم مانتے ہیں، بعض نے دونوں کو برابر رکھا، اور بعض کے نزدیک زکوٰۃ مقدم ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى"
(صحیح البخاری ۱۹۵۳—اللہ کا قرض زیادہ واجب الادا ہے)
اور زکوٰۃ میں دو حقوق جمع ہیں اللہ کا اور بندوں کا۔
اسی طرح اگر کسی پر حج اور قرض دونوں لازم ہوں تو اس میں بھی اختلاف ہے:
کچھ علماء کے نزدیک حج مقدم ہے کیونکہ اس پر نص وارد ہے،کچھ کے نزدیک قرض مقدم ہے کیونکہ وہ بندوں کا حق ہے،اور بعض نے دونوں کو برابر قرار دیا ہے۔ (الفصل السادس: فيما يتقدم من حقوق الرب على حقوق عباده إحسانا إليهم في أخراهم ……قواعد الأحكام في مصالح الأنام ١٤٦/١)
خلاصہ یہ ہے کہ شریعت میں کوئی مطلق اصول مقرر نہیں ہے کہ ہمیشہ بندوں کے حقوق مقدم ہوں یا ہمیشہ اللہ کے۔ بلکہ اصول یہ ہے کہ جہاں آخرت کا فائدہ مقصود ہو وہاں اللہ کے حقوق مقدم ہوتے ہیں، اور جہاں دنیاوی سہولت و راحت کا پہلو غالب ہو وہاں بندوں کے حقوق مقدم ہوتے ہیں۔ باقی وہ معاملات جن میں دونوں پہلو جمع ہوں، وہاں فیصلہ مصلحت، موقع اور مقتضائے حال کے لحاظ سے جلب مصالح اور ازالہ مفاسد کے ضابطے کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ 
واللہ اعلم بالصواب 
(روز جمعہ ۱۵ جمادی الاولی ۷ نومبر ۲۰۲۵ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post_62.html



قرآنِ کریم کی تلاوت کا معمول، اس کی اہمیت اور تلاوتِ قرآن کے درجات

قرآنِ کریم کی تلاوت کا معمول، اس کی اہمیت اور تلاوتِ قرآن کے درجات

-------------------------

-------------------------

قرآنِ مجید مومن کے دل کی زندگی ہے،مؤمن کا دل اسی وقت منور رہتا ہے جب وہ کتابِ الٰہی سے مسلسل وابستہ رہے؛ اسی لیے اہلِ علم نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمان کو قرآنِ کریم کی تلاوت کے لیے باقاعدہ وباضابطہ وقت مقرر کرنا چاہیے؛ تاکہ وہ ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائے جن کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہِ حق تعالیٰ میں یہ شکایت فرمائیں گے:

 "وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا" (الفرقان: 30)

اور کہیں گے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو مہجور و متروک کردیا ہے۔ )

فقہاء نے بیان کیا ہے کہ قرآن کو چالیس دن سے زیادہ عرصے میں ختم کرنا مناسب نہیں ہے۔ امام ابن قدامہؒ حنبلی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بلا عذر چالیس دن سے زیادہ قرآن ختم نہ کرے تو یہ تساہل اور غفلت کی علامت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کو نصیحت فرمائی کہ وہ ابتدا میں ہر چالیس دن میں قرآن ختم کریں، پھر آہستہ آہستہ کم کرتے ہوئے فرمایا کہ سات دن سے کم میں ختم نہ کیا جائے. (المغني، 2/127)

یہ اعتدال کا معیار ہے۔ اس سے زیادہ جلدی پڑھنے میں تدبر اور غور و فکر متاثر ہو جاتا ہے، اور اس سے زیادہ تاخیر غفلت کا باعث بن سکتی ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے قرآن ختم کرتے، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے فرمایا تھا:

اقرأِ القرآن في كل شهر، قال: قلت: أُطِيقُ أكثر من ذلك، قال: اقرأْ في كل سبعِ ليالٍ مرّةً (رواه البخاري 5052، ومسلم 1159)

بہت سے سلفِ صالحین بھی اسی طرح قرآن کو سات دن میں مکمل کیا کرتے تھے۔ تاہم محدثین اور فقہاء نے اس پر زور دیا کہ یہ معاملہ ہر شخص کے حال اور مشغلے کے مطابق مختلف ہو سکتا ہے۔امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قرآن کے معانی پر غور کرنا چاہتا ہے یا اسے دینی و علمی مشاغل میں مصروفیت ہے، تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق اتنا ہی پڑھے جتنا دل و دماغ کے سکون اور فہم کے ساتھ ممکن ہو۔ اور اگر کسی کے پاس وقت فراخ ہے اور دل کو تلاوت سے لذت حاصل ہوتی ہے تو جتنا زیادہ پڑھ سکے، بہتر ہے، بشرطیکہ بے توجہی اور تھکن وملل پیدا نہ ہو۔ امام ابن حجرؒ نے بھی اسی توازن کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نہ تلاوت میں اتنی جلدی ہو کہ تدبر ختم ہو جائے، نہ اتنی تاخیر کہ قرآن سے تعلق کمزور ہو۔ (فتح الباري، 9/96)

سب سے بہتر یہ ہے کہ مسلمان اپنے لیے روزانہ ایک حصہ مقرر کرے۔ چاہے وہ نمازِ فجر کے بعد ہو یا عشاء کے بعد، مقصد یہ ہے کہ دل کا رشتہ قرآن سے ہمیشہ قائم رہے۔ خواہ ایک صفحہ ہو ، ایک رکوع یا ایک جزو ۔ مقدار معیار نہیں ؛ بلکہ تسلسل اور تدبر معیار ومطلوب ہے۔ قرآنِ کریم خود اپنے بارے میں فرماتا ہے:

"يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ" (یونس: 57)

"وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ" (الإسراء: 82)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جو شخص قرآن کے ایک حرف کی تلاوت کرتا ہے، اس کے لیے ایک نیکی ہے، اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ (الم) ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، اور میم ایک حرف ہے۔" (ترمذی)

سلف صالحین قرآن کو ہفتے کے ایام پر تقسیم کر کے ہر دن ایک حصہ پڑھا کرتے تھے، تاکہ ایک ہفتے میں مکمل تلاوت ہو جائے۔ اس طرح قرآن کے ساتھ مسلسل رفاقت قائم رہتی اور دل ایمان سے تازہ رہتا۔

تلاوتِ قرآن کے درجات

قراء کرام کے نزدیک تلاوتِ قرآن کے چار درجے ہیں:

1. ترتیل: یعنی مخارج و صفات کی رعایت رکھتے ہوئے خوش الحانی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔ فرض نمازوں میں یہی اسلوب مناسب ہے۔

2. تحقیق: یعنی ترتیل سے بھی زیادہ اطمینان سے پڑھنا، جیسا کہ جلسوں یا درس میں تلاوت کی جاتی ہے۔

3. حدر: یعنی قواعدِ تجوید کی رعایت رکھتے ہوئے قدرے رواں انداز میں پڑھنا، جیسا کہ تراویح میں کیا جاتا ہے۔

4. تدویر: یعنی ترتیل اور حدر کے درمیانی انداز میں تلاوت کرنا۔

ان مراتب میں سب سے اعلیٰ ترتیل ہے۔ نبی کریم ﷺ کی قراءت تحقیق کے اسلوب پر تھی، جو ترتیل کا اعلیٰ درجہ ہے۔ آپ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا:

"وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا" (سورۃ المزمل: 4)

نبی کریم ﷺ نے اسی حکم کے مطابق قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا اور تلاوت کا عملی نمونہ امت کے لیے پیش فرمایا۔

ام المؤمنین حضرت حفصہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سورت کی تلاوت فرماتے اور اس قدر ترتیل سے پڑھتے کہ وہ اپنی طوالت میں مزید بڑھ جاتی. (مسلم، حدیث: 118، باب صلاۃ المسافرین)

ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قراءت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے حرف بہ حرف آپ کی تلاوت نقل کر کے بتائی کہ آپ ﷺ ایک ایک حرف واضح ادا فرماتے تھے۔ (سنن الترمذي، أبواب ثواب القرآن، حدیث: 2923؛ النسائي، 2/181)

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک رات قرآن کی ایک ہی آیت کے ساتھ قیام فرمایا۔" (مسند احمد، 5/149؛ تفسیر بغوی، 4/408)

علماء کرام فرماتے ہیں کہ فرائض و واجبات میں ترتیل کا اسلوب اختیار کیا جائے، جبکہ سنن و نوافل میں حدر اور تدویر کی رفتار میں پڑھنے کی گنجائش ہے، تاکہ کثرتِ قراءت کا اہتمام ہو، جو زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کتاب اللہ سے ایک حرف پڑھا، اسے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ‘الم’ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، اور میم ایک حرف ہے۔" (الترمذي، باب ثواب القرآن، حدیث: 2910؛ سنن الدارمي، 2/308؛ مستدرک حاکم، 1/567)

یہ حدیث کثرتِ قراءت کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے، لہٰذا سنن و نوافل میں حدر و تدویر کے انداز میں تلاوت کی اجازت دی گئی ہے۔ جن صحابہ و تابعین سے کثرتِ قراءت منقول ہے، ان کا مطلب یہی تھا کہ وہ حدر کے انداز میں قرآن پڑھتے تھے۔ مثلاً:

حضرت عثمان بن عفانؓ نے ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھا۔ (البيهقي، شعب الإيمان، 5/145؛ السنن، 3/24)

حضرت تمیم داریؓ، حضرت سعید بن جبیرؒ اور حضرت علقمہ بن قیسؒ (شاگرد حضرت عبداللہ بن مسعودؓ) سے بھی ایک رات میں قرآن ختم کرنے کی روایت ہے۔ (فضائل القرآن، ابو عبيد)

یہ واضح ہے کہ وہ حضرات اسی اندازِ حدر میں تلاوت کرتے تھے، کیونکہ ترتیلاً ایک رکعت یا ایک شب میں مکمل قرآن پڑھنا عادۃً ممکن نہیں۔ البتہ ایسی تیز رفتاری جس میں حروف و الفاظ درست طور پر ادا نہ ہوں اور مفہوم سمجھ میں نہ آئے، اسے "الهذّ" یا "الهذرمة" کہا گیا ہے، جس سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ یہ مکروہِ تحریمی ہے۔ (التبيان، ص: 89)

تلاوتِ قرآن کے روحانی اثرات:

قرآن کی زیادہ تلاوت حافظے کو کمزور نہیں کرتی ؛ بلکہ اسے مضبوط اور مؤثر بناتی ہے۔ قرآن کی تلاوت اور حفظ دونوں بہترین عبادات میں سے ہیں جو انسان کے لیے برکت، شرحِ صدر اور بلندیِ درجات کا ذریعہ بنتی ہیں۔ خاص طور پر جب تلاوت غور و فکر کے ساتھ کی جائے تو یہ یادداشت کو سہارا دیتی ہے اور حفظ کو مزید پختہ کر دیتی ہے۔ الغرض، قرآنِ کریم کی تلاوت کے لیے کوئی مقررہ مقدار لازم نہیں! ہر مسلمان اپنی حالت، وقت اور توفیق کے مطابق تلاوت کو ورد زبان بنائے۔ جو جتنا زیادہ تلاوت کرے گا، وہ اتنا ہی زیادہ روحانی سکون اور اجر پائے گا۔ اہم یہ ہے کہ قرآن سے تعلق روزانہ اور مستقل رہے؛ چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو!

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
مركز البحوث الإسلامية العالمي 

(پیر 18؍ جُمادَی الأُولى 1447ھ 10 نومبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر ) 

https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post_79.html



غیرمسلم کو صدقہ نافلہ دینا باعثِ اجر وثواب ہے یا نہیں؟

غیرمسلم کو صدقہ نافلہ دینا باعثِ اجر وثواب ہے یا نہیں؟
----------------------------------
----------------------------------
سوال: غیرمسلم کو صدقہ نافلہ دینا باعثِ اجر وثواب ہے یا نہیں؟ 
سائل: مفتی محمد اطہر القاسمی، ارریہ، بہار
الجواب وباللہ التوفیق: 
غیر مسلم کو صدقہ دینا شرعاً جائز، اخلاقاً پسندیدہ اور دینی طور پر باعثِ اجر عمل ہے، بشرطیکہ وہ اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی نہ رکھتا ہو۔ قرآنِ کریم میں واضح ہدایت ہے کہ جو لوگ مسلمانوں سے دشمنی یا جنگ نہیں کرتے، اُن کے ساتھ بھلائی اور انصاف سے پیش آنا چاہیے:
لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الممتحنة: 8)
اسی بھلائی ”أَن تَبَرُّوهُمْ“ میں مالی مدد، خیرات وصدقات نافلہ ، خندہ پیشانی ، نرم گوئی وغیرہ سب کچھ  شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے عمل سے یہ تعلیم دی ہے، بخاری میں ہے:
فِي كُلِّ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ (بخاری 2363)
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی والدہ مشرکہ تھیں، جب وہ بیٹی سے ملنے آئیں تو حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو:
عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنها أنها قالت: "قدمت علي أمي وهي مشركة في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستفتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قلت: إن أمي قدمت وهي راغبة، أفأصل أمي؟ قال: "نعم، صلي أمك( بخاری 2620)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم والدین یا اقارب یا دوست یا پڑوسی کے ساتھ مالی تعاون اور خیرات کرنا نہ صرف جائز بلکہ باعثِ ثواب ہے. لیکن شرط یہ ہے کہ وہ کافر مسلمانوں کے ساتھ بر سر پیکار نہ ہو اور مالی مدد صدقات نافلہ سے کی گئی ہو ،زکات وغیرہ سے ان کی مدد کرنا اصح قول کے بموجب بالکل جائز نہیں ہے۔ صدقہ نافلہ میں بھی بہتر یہ ہے کہ محتاج مسلمانوں سے آغاز کرے۔ علامہ عینی کی بنایہ شرح ہدایہ میں ہے:
والأصح أنه لا يجوز دفع الصدقة إليهم إلا التطوع، وبالمنع قال مالك والشافعي، وأما الحربي فلا يجوز دفع صدقة ما إليه بالإجماع حتى التطوع (بنایہ شرح ہدایہ ٤٦١/٣)
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی
واللہ اعلم بالصواب 
(روز جمعہ ۱۵ جمادی الاولی ۷ نومبر ۲۰۲۵ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post_490.html

بھینس کا انڈا اور اردو

بھینس کا انڈا اور اردو
(آصف انظار عبدالرزاق صدیقی)
دنیا کے ہر خطے میں گاؤں ہوتے ہیں ۔گاؤوں میں بہت سے گھر ہوتے ہیں اور ان گھروں میں لڑکے بالے رہتے ہیں ۔جنھیں منہ اندھیرے اٹھا کر حسب مقام ومنصب قاعدہ بغدادی ، یسرنا القرآن، نورانی قاعدہ، اردو کی پہلی کے ساتھ ساتھ کوئی پوتھی، کوئی ریڈر تھمادی جاتی ہے
پھر شروع ہوتا ہے مشقتوں کا ایک سلسلہ۔
یعنی
"قیدِ کتاب و بند ِ قلم اصل میں دونوں ایک ہیں
مکتب کے بعدبھی لڑکے چین و سکون پائے کیوں"

چنانچہ غالب کے لیے غم ناؤ نوش
مولویوں کے لیے غم چندہ و بریانی
قائدوں کے لیے غم ممبری،کونسل صدارت،
کسانوں کے لیے غم سیلاب و خشک سالی
ویسی سوہانِ روح نہیں ہوسکتی جیسی
مکتبی نونہالوں کے لیے کتابوں کا بار دوش کرنا، پگڈنڈیوں پر جاڑے کی صبح اوس سے لتھڑی دوب پر  غربت کے ننگے پھٹے پاؤں میں گاؤں کے بابو سے سچائی مشین کی نکلی پرانی گریس مانگ کر ،ویسلین جیلی کی جگہ ملنا اور باسی روٹی کا مالیدہ کھا کر دوڑتے ہوئے مکتب جانا۔
پھر مکتب کی کچی فرش پر اپنے بورئیے بچھاکر بیٹھنا۔
طوطی وار رٹے ہوئے سبق کو قمچیوں کے سائے میں مجاہدانہ سنانا۔اور غازیانہ اپنے بورئیے پر واپس آنا۔
برستی قمچیوں اور گوش مالی کرتی انگلیوں سے اپنے کان بجالانا اصلی کارنامے ہوتے تھے۔۔
صبح کے تعلیمی دورانیے کو لشتم پشتم پورا کرنا۔
جھوم جھوم کر اسباق کا اعادہ کرنا، انگلیوں کے دباؤ اور رگڑ  سے  حروف کو مندرس کردینا۔
کتاب کے ناقابل استعمال ہونے کی وجہ سے والد اور استاد دونوں کی مار برداشت کرنا۔

نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
۔۔۔
ہماری خوش قسمتی یہ تھی کے ہمیں گریس مانگنی نہیں پڑتی تھی۔ اور پاؤں بھی" حافی" نہ تھے۔مگر شبنم کھائے سبزے ، مکتب کی کچی زمین اور بوریئے کا کوئی متبادل موجود نہ تھا۔ مولوی ایوب رحمۃ اللہ علیہ کی لچکتی قمچیوں، دھار دار کھپچیوں اور سنٹیوں کی آپ ہمیشہ خیر نہیں منا سکتے تھے ، کبھی تو آپ کی سرکش پیٹھ ان قمچیوں کی سٹاک پٹاک کا شکار ہوں گی۔
۔۔۔۔
مولانا عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کی بلند بانگ آواز سے بھی آپ کی اصلاح ہوتی رہتی ہے۔
مولانا اکثر معلومات اور تجربات کو بیک جنبش لب پلٹ دیتے ۔۔ہمارے کورے کچے ذہن کی زمین پر وہ اکثر اپنا سکہ بند ڈایئلاگ دے مارتے۔۔ہمارا سارا علم ساری وِدّیا خاک بسر ہوجاتی۔۔ہم اپنے ننھے دماغوں میں ہوش کے کچے کچے ناخن گاڑ تے مگر ہر کھود کرید کے بعد بھی نتیجہ یہی آتا ہے آخر بھینس کے انڈے کا ہونا ممکن نہیں ہے۔۔مگر مولانا بلاتفریق ہر غبی و ذکی کو یومیہ دوچار بار بھینس کا انڈا ضرور کہتے ۔۔
اور اس وقت سے تاحال ہم بھینسوں کے دودھ کے علاوہ  قورمے ،کباب، قیمے اور پائے ہی سے واقف ہوسکے۔۔غالبا مولانا کے بھینسوں کا انڈا دلی کے الوؤں کے پٹھوں کی طرح کا کوئی جملہ تھا ۔۔
یعنی
سنا ہے کہ دلی میں الو کے پٹھے
رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں

یا یہ بھینس کا انڈا کوئی پندرہ لاکھ کا عنقا ہے جسے حضرت مودی علیہ ماعلیہ نے الیکشن کے دوران ایسا اڑایا کہ نہ اب مودی اور اس کے وزیر خارجہ کے ہات آتا ہے نہ ہی غریب عوام کے کھاتے میں اس کا سراغ ملتا ہے۔۔
مدتوں ہم بھینس کا انڈا ڈھوتے رہے کہ کسی دن تو اس میں سے کوئی شتر مرغ برآمد ہوگا ۔۔۔مگر‌نہ ہوا۔۔
پھر ایک دن والد صاحب کی کاپیوں میں ہم غالب سے جا بھڑے۔۔ کون غالب وہی مرزا نوشہ ،غالب شاہ کا مصاحب، خستہ وخوار مشکل گو و مشکل پسند ۔۔جس کے بارے میں حضرت یگانہ چنگیزی بہاری ثم لکھنوی اپنی ظالمانہ تصنیف" غالب شکن"  میں فرماتے ہیں:
"غالبؔ زیادہ سے زیادہ ہندوستان کا اک بلند خیال دقت پسند گمراہ شاعر ہے جو آخرِ عمر میں راہ پر آیا۔"
اسی غالب کا شعر والد محترم کی روایت سے پہلے پہل ہمیں پہنچا۔ لکھا تھا
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
ہم پوری ایمانداری سے تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں تغافل کا مطلب خاک سمجھ میں نہ آیا اور اس شعر کا لطف سارا اسی پر موقوف تھا ۔۔مگر ہم نے یہ شعر یاد کرلیا یا زیادہ صحیح لفظوں میں یہ کہ ہمیں یاد ہوگیا۔۔
۔۔۔
غالب کا باب بند ہوگیا اور ہمارے استاذ نے شیخ سعدی وغیرہ سے ہمیں جا لڑایا۔۔ہم آج تک حیرت میں ہیں کہ یا خدا اردو کی تیسری کتاب پڑھنے والے مکتبی بالک کو گلستان ِ سعدی کے رزمیہ اور عشقیہ ابواب پڑھانے کے کیا معنی تھے۔۔
۔۔۔۔
مدتیں گزریں کہ ہم بھینس کے انڈوں کو بھول گئے۔۔ پھر ایک دن غالباً جب ہم حفظ کے اسباق لیتے تھے اور قصۂ گل بکاؤلی پڑھتے تھے کہیں سے انشا جی اپنی اردو کی آخری کتاب کے ساتھ ہم سے متعارف ہوئے ۔۔
اور ان کی یہ نثری پیروڈی کی کتاب ، گتوں سمیت ہمارے دل میں اتر گئی۔۔ اس کتاب میں بھی ایک عدد بھینس ہے۔۔ مگر انڈا وہاں بھی نہیں ہے۔۔بس انڈے کے وجود کا اشارہ ہے۔۔
ہم ایک بار پھر بھینس کے انڈوں کی تلاش میں نکلے مگر بھینس کے انڈوں سے پہلے ڈایناسور کے باقیات مل گئے۔ہم نے بھرپور امیدوں سے جراسک پارک کی پہلی قسط دیکھی۔۔اور وہی سال تھا کہ ہمیں ۔۔دارا العلوم العربیہ الاسلامیہ جودھپور میں عربی سوم کے سال میں خواجہ الطاف حسین حالی کی "یادگار غالب "ہاتھ لگی
آپ کو بتا دیں کہ ہمارے لیے پچپن سے ہی غالب کے مقابلے میں حالی زیادہ معروف اور محترم تھے۔کیونکہ غالب کے "مخرب اخلاق" اشعار کہاں اور حالی کی اصلاحات و مسدس کہاں ۔
حالی کی "مناجات بیوہ"  اور" وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا" روزانہ پڑھنے کی چیز تھی۔۔
۔۔۔
تو حالی یادگار غالب میں لکھتے ہیں کہ۔۔
ایک دفعہ مولوی عبدالقادر رام پوری نے جو نہایت ظریف الطبع تھے اور جن کو چند روز قلعۂِ ِ دہلی سے تعلق رہا تھا، مرزا سے کسی موقع پر کہا کہ آپ کا ایک اردو شعر سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اسی وقت دو مصرعے خود موزوں کر کے مرزا کے سامنے پڑھے۔
پہلے تو روغنِ گل بھینس کے انڈے سے نکال
پھر دوا جتنی ہے کل بھینس کے انڈے سے نکال
۔۔۔
بس اس دن ہمیں معلوم ہوا کہ یہ بھینس کے انڈے والی خرافات مولوی عبدالقادر رامپوری کی چلائی ہوئی ہے۔۔
اور ہمارے دل میں استاذ محترم مولانا عبدالعلیم صدیقی رحمہ اللہ کی قدر بڑھی۔۔کہ گاؤں کا ایک مکتبی مدرس یادگار غالب سے واقف ہے۔۔
اور اپنے کودن بچوں کو غالب کے اشعار کی طرح ہی عظیم سمجھتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔
ہمارے گاؤں کے بچوں میں اقبال بہت مشہور و مقبول نہ تھے البتہ لب آتی ہے دعا۔۔اور سارے جہاں سے اچھا، ہماری اردو کی مجبوریوں میں سے تھی۔۔
کہ ہم نہ مدرسے میں" سرسوتی وندنا " کرسکتے تھے
نہ ہی ہمارے یہاں ڈر اور خوف کا وہ ماحول تھا کہ ۔۔وندے ماترم گانے لگتے ۔۔نہ ہی حکومتی دباؤ تھا کہ جن گن من ادھنایک پڑھتے۔۔
ہم اقبال سے کام چلا رہے تھے۔۔
۔۔۔
اقبال کے شکوے سے ہم  بواسطہ نصرت فتح علی خان واقف ہوئے۔۔اورحسرت موہانی سے ہمارا تعارف چپکے چپکے غلام علی نے کروایا۔استاد قمر جلالوی سے منی بیگم نے اوگت کرایا۔۔شکیل بدایونی سے واقفیت محمد رفیع کی رہین منت ہے۔احمد فراز سے شناسائی مہدی حسن نے کروائی۔۔ ۔ اور یہ سب یوں ہوا کہ والد صاحب کے پاس ہمارے پھوپھا جناب مسیح الرحمن صدیقی صاحب کا ہدیہ کیا ہوا پاناسونیک کا ریکارڈ پلیئر تھا ۔۔۔
ابن صفی،نسیم حجازی وغیرہ سے ہم خود واقف ہوئے۔
میاں نظیر اکبرآبادی ہماری دادی کی زبانی ہمارے دل میں اترے ۔
ہمارے گاؤں کی اردو میں بڑا کردار محرم کے جلوس میں پڑھے جانے والے اشعار کا بھی ہے۔۔
یعنی۔۔
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔
اور مستان چچا کی اس داستان گوئی کا بھی جو وہ ہمارے دروازے پر سردی کی راتوں میں مسلسل کئی کئی دنوں تک سناتے۔۔تہہ در تہہ کہانیاں ، کہانیوں سے نکلتے قصے، قصوں سے جڑے حواشی اور حواشی کی تشریحات ۔۔
۔۔۔۔۔
آہ اب جو گاؤں کو دیکھتے ہیں تو۔
تو بس دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔۔
وہاں نہ میر ہے نہ غالب ، اقبال ہے نہ شبلی وہاں
ہندی کے ادھیاپک ہیں۔۔"انگلس"  کےسر جی ہیں ریاضی کے ماسٹر صاحب ہیں ۔۔جو لطف زبان اور نزاکت ادا سے کالے کوسوں دور رہتے ہیں ۔۔
اردو کے حافظ جی ہیں  جو قلقہ، غنا، مد، اور حروف حلقی میں لگے ہیں ۔۔اردو بھی نورانی قاعدے کی معرفت پڑھائی جارہی ہے۔۔۔
حرف حلقی شش بود اے نورِ عین
ہمزہ ہاؤ، حاؤ خاؤ، عین غین۔۔۔