Sagar Times
Friday 1 November 2024
اپنی چال ہی بھول گیا
Wednesday 30 October 2024
ہم نے مدرسہ کیوں چھوڑا
میری جانب بھی ہو اک نگاہ کرم
نکاح میں عورت کی رضامندی اور گواہوں کی گواہی ضروری ہے تو طلاق میں ایسا کیوں نہیں؟
Tuesday 29 October 2024
انسان کے پاؤں میں کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں
Saturday 26 October 2024
ایودھیا فیصلے کا الزام خدا پر نہیں ڈالنا چاہئے
جسٹس چندرچوڑ کو اپنےقابل مذمت ایودھیا فیصلے کا الزام خدا پر نہیں ڈالنا چاہئے
تحریر: سِدھارتھ وَرَادَراجن
22 اکتوبر 2024
ترجمانی: مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ
25 اکتوبر 2024
ہندوستان کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اس ہفتے کے آخر میں مہاراشٹرا میں ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی عدالت عظمیٰ کے سب سے زیادہ متنازع فیصلوں میں سے ایک کے بارے میں_جس کا وہ حصہ رہے ہیں_ ایک حیران کن انکشاف یہ کہتے ہوئے کیا "اکثر ہمارے سامنے ایسے مقدمات ہوتے ہیں (جن کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے) لیکن ہم کسی حل تک نہیں پہنچ پاتے، ایودھیا (بابری مسجد) تنازعے میں بھی ایسا ہی ہوا جو تین ماہ تک میرے سامنے رہا بالآخر میں اپنے معبود کے سامنے بیٹھا اور کہا کہ اسے حل نکالنا ہوگا۔"
ہندوستان کے اعلیٰ ترین جج نے مذکورہ قضیہ کے حل کی اس قدر واضح تفصیل فراہم کی ہے کہ ہم اُس "حل" کی تصویر کشی کر سکتے ہیں، جو فیصلہ جسٹس چندرچوڑ اور ان کے ساتھیوں نے بالآخر سنایا اس کے مطابق دیوتا کا تقاضہ تھا کہ "زمین مجھے دے دو تاکہ میرے نام پر ایک اور مندر بن سکے…"
جب دیوتا بول چکے تو ججوں کے لیے صرف ایک کام باقی رہ گیا تھا اس"حل" کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق قانونی دلائل کے کپڑے میں لپیٹنا، جب مندر محفوظ ہوگیا تو دیوتا نے ان پانچوں ججوں کو ان کے عقیدے اور عقیدت مندی کا اعزاز جو انہوں نے اس خدائی فیصلے میں دکھایا تھا یوں دیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی راجیہ سبھا کی رکنیت سے سرفراز ہوئے، بنچ کے دو جونیئر جج وقت کے ساتھ چیف جسٹس بن گئے اور باقی دو ججوں میں سے ایک کو ریٹائرمنٹ کے بعد گورنری مل گئی جبکہ دوسرا نیشنل کمپنی لاء اپیلیٹ ٹریبونل کا سربراہ قرار پایا...
مذکورہ فیصلے میں دیوتا کا کردار ایک اور معمہ بھی حل کرتا ہے، یہ سپریم کورٹ کا پہلا اور اب تک کا واحد فیصلہ ہے جس پر کسی جج کے دستخط نہیں ہیں، آخرکار اب ہم کسی دیوتا یا معبود کےنادیدہ ہاتھ کا تو حوالہ دے سکتے ہیں...
مزاح ایک طرف، جسٹس چندرچوڑ کا یہ بیان کم از کم پانچ وجوہات کی بناء پر تشویش ناک ہے...
پہلی بات؛ جسٹس چندرچوڑ کے مذکورہ بیان سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ایودھیا بنچ نے تنازعے کا کوئی "حل" نہیں نکالا تھا اور یہ کہنا سراسر دھوکہ دہی ہوگی کہ وہ کسی نتیجے پر پہونچے تھے، حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے بس طاقتور فریق کے حق میں فیصلہ سنایا جو غیر قانونی طور پر مسجد کو منہدم کرنے میں ملوث تھا، ججوں نے تسلیم کیا کہ انہدام ایک سنگین جرم تھا لیکن پھر بھی وہ مسجد توڑنے والوں اور ان کے معاونین کو اس زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت دینے میں کوئی برائی نہیں دیکھ سکے جس پر بنی عمارت انہوں نے غیر قانونی طور پر توڑ دی تھی، طاقت ہی حق ہے کو مشکل سے حل کہا جا سکتا ہے، مزید مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جسٹس چندرچوڑ ہم سے یہ یقین کرنے کی توقع رکھتے ہیں کہ بنچ کی جانب سے ایودھیا کے باہر پانچ ایکڑ زمین مسجد کے لئے فراہم کرنے کی حکومت کو ہدایت دینا کسی قسم کا خدائی انصاف ہے، بنچ کے سامنے سوال یہ نہیں تھا کہ مسلمانوں کے پاس کوئی مسجد ہے یا نہیں جس میں وہ عبادت کر سکیں، بلکہ سوال یہ تھا کہ کیا غنڈوں اور بدمعاشوں کے لئے کسی فرد یا کمیونٹی کو پرتشدد طور پر ان کی اپنی جائیداد سے بے دخل کرنا جائز و درست ہے؟ ہندوستانی عدلیہ کے لئے ابدی شرمندگی اور دائمی عار کی بات یہ ہے کہ ایودھیا بنچ نے اس سوال کا جواب اثبات میں دیا ہے...
دوسری بات؛ چیف جسٹس کا یہ خیال کہ انہوں نے بابری مسجد تنازعہ کا ایک خدائی فیصلہ یا الہی حل فراہم کیا ہے اس بات کا بھی جواب فراہم کرتا ہے کہ انہوں نے گیانواپی مسجد اور اس جیسے مذہبی معاملات والے مقدمات کو چلانے کی اجازت کیوں دی جبکہ پلیسس آف ورشپ ایکٹ 1991ء واضح طور پر یہ اعلان کرتا ہے کہ ملک کی آزادی کے دن یعنی 15 اگست 1947ء کو جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی اس کو تبدیل نہیں کیا جائے گا، یہ امر اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ آگے چل کر مسلم عبادت گاہوں پر ہندوتوا گروپس کی جانب سے کئے جانے والے دعووں کے "الہی حل" کس نوعیت کے ہوں گے، رواں ماہ کے شروع میں چیف جسٹس نے ایک تقریر میں اس فکر کا اظہار کیا تھا کہ جب وہ ریٹائرڈ ہوں گے تو ان کی میراث کیا ہوگی؟ انہیں زیادہ سوچنے اور انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، انہوں نے ہندوتوا گروپس کے لئے مزید سینکڑوں تباہ کن دعووں کے دروازے کھول دیئے ہیں، ان مقدمات کے فیصلے مکمل احترام کے ساتھ جسٹس چندر چوڑ کی پیش کردہ "انصاف کی دیوی" کے قدموں کی نذر کردیئے جائیں گے...
تیسری بات؛ جسٹس چندرچوڑ نے "دیوتا" سے تنازعے کا حل کیسے مانگا، جب کہ وہ دیوتا خود —اپنے ’دوست‘ کے ذریعے— اصل تنازعے کا فریق تھا؟ کیا اسے مفادات کا ٹکراؤ نہیں کہتے؟ اور لمحہ بھر کے لیے اس بے اصولی پر بھی غور کیجئے، اگر –کسی ہندو مسلم فریقین کے مابین کسی تلخ تنازعے میں– ایک مسلم جج مسلم فریق کے حق میں فیصلہ سنا کر یہ کہے کہ یہ "حل" اسے اللّٰه کی جانب سے حاصل ہوا ہے تو وہی ہندوتوا سیاست داں جو چیف جسٹس کے بیان پر خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں سب سے پہلے وہی "جانب داری" کا رونا روئیں گے...
چوتھی بات؛ حقیقت یہ ہے کہ جسٹس چندرچوڑ اس قسم کے 'الہی' جواز اور عظیم الشان بیانات کا بے جاسہارا لینے کی کوشش کرہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایودھیا کے معاملے میں دیا گیا فیصلہ قانونی طور پر ناقص تھا، ایسا کرنے سےوہ اپنے دیوتا پر بھی متنازعہ فیصلے کا الزام ڈال کر ظلم کررہے ہیں، جب کہ حقیقت میں یہ ان چھوٹے لوگوں کا کام تھا جو اپنی ناقص دلیل کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلاشبہ یہ وقت ہے کہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اپنی فیصلوں کی ذمہ داری لینا سیکھیں...
پانچویں بات؛ جج آئین اور قانون کی کتابوں کے مطابق انصاف کرنے کی قسم اٹھاتے ہیں، وہ دیوتاؤں یا مقدس کتابوں پر ایمان رکھنے اور اپنی ذاتی زندگیوں میں ان کے احکامات اور حکمت کی پیروی کرنے کے لیے آزاد ہیں، لیکن جب انصاف کرنے کی بات آتی ہے تو کوئی دیوتا آئین سے بالاتر یا کسی فیصلے کا 'ذریعہ' نہیں بن سکتا، ہاں، خدا پر ایمان کبھی کبھار مَردوں کو مشکل فیصلے لینے کی ہمت دے سکتا ہے، میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ فیصلہ کرنے میں کافی ہمت کی ضرورت ہوتی کہ جن افراد اور تنظیموں نے بابری مسجد کو منہدم کیا تھا انہیں کبھی اس زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن ایودھیا بنچ کے فیصلے میں کوئی ہمت شامل نہیں تھی بالخصوص ایسے وقت میں جب مرکز میں برسر اقتدار جماعت کو انتخابات میں رام مندر کی ضرورت تھی کہ مندر تعمیر ہونا چاہیے...
ہندوستان کے پاس پہلے سے ہی ایک وزیر اعظم ہے جو براہ راست خدا سے بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی اور ہدایات پر عمل کررہا ہے، ملک کے پاس اب مودی کے اپنے غیر حیاتیاتی قد کے لائق چیف جسٹس بھی ہیں، ہمیں چیف جسٹس چندرچوڑ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے انصاف کی دیوی سے ہی نہیں بلکہ ہماری آنکھوں سے بھی پٹی ہٹائی ہے...
_______
سِدھارتھ وَرَادَراجن "دی وائر" کے بانی ایڈیٹر ہیں، ماقبل میں وہ "دی ہندو" اخبار میں ایڈیٹر کے فرائض نبھا چکے ہیں، 2010 میں انہیں رام ناتھ گوئینکا سال کے بہترین صحافی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا، مذکورہ مضمون اپنی اصل زبان انگریزی میں"دی وائر" پر پڑھا جاسکتا ہے...
------------------
Justice Chandrachud Should Not Blame God for His Own Awful Ayodhya Judgment
Siddharth Varadarajan
22/Oct/2024
Hindutva politicians who are thrilled with the CJI's candour would be the first to yell 'bias!' if – in a bitter dispute between a Muslim and a Hindu litigant – a Muslim judge who delivers a verdict that favours the Muslim says the 'solution' came to him from Allah!
Speaking at a public event in Maharashtra over the weekend, Chief Justice of India D.Y. Chandrachud made a startling disclosure about one of the most controversial judgments he has been party to while on the Supreme Court.
“Very often we have cases (to adjudicate) but we don’t arrive at a solution,” he said. “Something similar happened during the Ayodhya (Ram Janmabhoomi-Babri Masjid) dispute which was in front of me for three months. I sat before the deity and told him he needed to find a solution,” he added.
India’s top judge has provided such a vivid and moving description that we can picture “the solution” being delivered in an epiphanous flash. And going by the judgment which Justice Chandrachud and his colleagues eventually delivered, the deity appears to have said: give me the land so that I can have another temple.
The deity having spoken, the only job left for the judges was to dress up this “solution” with the cloth of judicial reasoning to the best of their ability. His temple secured, the deity then honoured the faith that each of the five judges had shown in his divine judgment. The man who was CJI at the time, Ranjan Gogoi, was sent by God to the Rajya Sabha. Two of the puisne judges on the bench were elevated to CJI in due course. And of the two remaining puisne judges, God ensured one became a governor upon retirement while the other became head of the National Company Law Appellate Tribunal.
The deity’s role in its authorship also helps clear up one of those mysteries about the Ayodhya judgment – that it alone among all judgments the Supreme Court had delivered till then was unsigned. After all, one can’t formally credit the hand of god now, can we.
Jokes aside, Justice Chandrachud’s statement is alarming for at least five reasons.
First, he and the Ayodhya bench definitely did not “find a solution” to the dispute and it is dishonest for him to pretend otherwise. What they did was to find in favour of the powerful party implicated in the illegal demolition of the mosque. The judges acknowledged that the demolition was a heinous crime but saw nothing wrong in allowing the vandals and their proxies to take possession of land they had illegally cleared. ‘Might is right’ can hardly be called a solution and it is laughable if Justice Chandrachud wants us to believe the bench’s direction to the government to provide five acres outside Ayodhya for a new mosque represents some kind of divine justice. The issue before the bench was not whether there is a mosque that Muslims can worship in but whether it is permissible for thugs to violently dispossess a person or a community. To the eternal shame of the Indian judiciary, the Ayodhya bench answered that question in the affirmative.
Second, the fact that the CJI actually thinks he delivered a divinely ordained solution to the dispute may explain why he has helped reopen the Gyanvapi dispute (and countless other disputes as a result) despite the Places of Worship Act, 1991, placing a strict bar on changing the character of a place of worship from what it was on August 15, 1947. This is also a pointer to the kind of divinely-ordained solutions that will doubtless follow in our courtrooms as Hindutva groups mount claims on Muslim places of worship around the country. Earlier this month, the CJI wondered aloud what his legacy would be. He need not wonder or wait too long to find out. He has opened the door to hundreds of destructive claims by Hindutva organisations. Judgments in those cases may then be respectfully laid at the feet of the newly minted “goddess of justice” commissioned by Justice Chandrachud.
Third, how could Justice Chandrachud have asked “the deity” to help find a solution to the dispute when the deity — through his ‘next friend’ — was a party to the original dispute? Is this not a conflict of interest? And think about the impropriety for a moment. Hindutva politicians who are thrilled with the CJI’s candour would be the first to yell ‘bias!’ if – in a bitter dispute between a Muslim and a Hindu litigant – a Muslim judge who delivers a verdict that favours the Muslim says the ‘solution’ came to him from Allah!
Fourth, the truth is that Justice Chandrachud is seeking refuge in this kind of ‘divine’ rationalising and grandstanding because he knows the judgment he helped deliver in the Ayodhya matter was legally unsound. In doing so, he is surely perpetrating a great injustice on ‘the deity’ too – on whom the controversial verdict is sought to be pinned – when it was actually the handiwork of small men unwilling to take responsibility for their own flawed reasoning. Surely it is high time Justice DY Chandrachud learns to take responsibility for his own decisions.
Fifth, judges take an oath to do justice by the laws laid down in the Constitution and statute book. They are free to believe in deities or holy books and follow their orders and oracular wisdom in their personal lives. But when it comes to dispensing justice, no deity can be above the Constitution or be the ‘source’ of a decision. Yes, faith in god can sometimes give men the courage to take difficult decisions. I concede that tremendous courage would have been required to rule that the men and organisations who demolished the Babri Masjid would never be allowed to take control of that land. But there was no courage involved in the Ayodhya bench’s ruling – at a time when the ruling party at the Centre was politically desperate for the Ram temple as an election prop – that a temple must be built.
India already has a prime minister who directly communes with God and says he follows God’s will and instructions. The country now has a Chief Justice worthy of Modi’s own non-biological stature.
We should thank Chief Justice Chandrachud for removing the blindfold from not just Lady Justitia but from all our eyes as well.
( S_A_Sagar# )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_26.html