Sunday, 5 January 2025

سردی کے موسم میں آغوشِ زوجہ سے جسمانی گرماہٹ حاصل کرنے کی شرعی حیثیت

سردی کے موسم میں آغوشِ زوجہ سے جسمانی گرماہٹ  حاصل کرنے کی شرعی حیثیت

النساء نعمةُ الشتاء

‏كان السلف الصالح يغالبون زمهرير شتائهم بالارتماء في أحضان نسائهم، ولا سيّما أن الله سبحانه خص المرأة العربية ذات الجاذبية بطبقة دهنية تساعدها على تدفئة الرضيع والضجيع، وهذا من رحمته بنا، ومن فضله عليها.

‏وجاء في مصنف ابن أبي شيبة أن الفاروق عمر رضي الله عنه رغمَ شِدّةِ اقتدارِه، وقُوّةِ اصطبارِه، كان يستدفئ بامرأته إذا قسا عليه الشتاء، أو اغتسل بالماء.

‏ورُوِيَ مِثلُ هذا عن ابنه عبدالله رضي الله عنه الذي تعلّم من أبيه الاستدفاء بالزوجة الريانة الملآنة الدفآنة إذا الصوفُ ما أغنَى، ولم يَعُدْ للنار معنى.

‏وحَكَتْ أمُّ الدرداء عن أبي الدرداء رضي الله عنهما أنه إذا اشتد عليه الزمهرير استدفأ بحضنِها الشريف، وعاش أجواءَ المَصِيف.

‏وكان هذا النوع من الاستدفاء الطبيعي معروفاً لدى العرب، وخاصة لدي قريش، وقال ابن عباس رضي الله عنه في تأكيد ما سبق: ذاك عيشُ قريش في الشتاء.

‏ولذا كان الصالحون والنابهون والفاتحون يحرصون على الزواج من العَبْلَةِ الغَضَّة، والقُطْنَةِ البَضَّة، ويَزْهَدُون في الجَرَادَة، وعُودِ المَزَادَة، والله أعلم.

‏رضي الله عنهم وأرضاهم.. عَلَّمُونا حتى الاستدفاء في الشتاء أسأل الله أن يُدْفِئَ عظامَهم الراقدة في الليالي الباردة۔ —

عورتیں سردیوں کی نعمت ہیں

سلف صالحین سخت سردیوں میں اپنی بیویوں کی آغوش میں پناہ لیتے تھے، خاص طور پر کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عرب عورت کو ایک مخصوص چکنائی والی تہہ عطا کی ہے جو اسے بچے اور شوہر کو گرم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ اللہ کی ہم پر رحمت اور اس پر اس کا فضل ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں آیا ہے کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ، اپنی طاقت اور صبر کے باوجود، سردیوں کی سختی یا غسل کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ گرماہٹ  حاصل کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ملتی ہے کہ جب اون کے کپڑے کافی نہ رہتے اور آگ سے بھی گرمی نہ ملتی، تو وہ اپنی بیوی کے نرم و ملائم جسم کے ذریعے سردی کا مقابلہ کرتے تھے۔ ام درداء رضی اللہ عنہا نے بھی روایت کیا ہے کہ ابو درداء رضی اللہ عنہ سخت سردی میں ان کی آغوش میں گرمی محسوس کرتے اور گرمیوں کا سا سکون پاتے تھے۔ یہ قدرتی گرماہٹ کا طریقہ عربوں، خاص طور پر قریش میں عام تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: یہ قریش کا سردیوں میں گزر بسر کا طریقہ تھا۔ اسی لیے صالحین، اہلِ دانش اور فاتحین عموماً نرم و ملائم اور خوش جسم بیوی سے شادی کو ترجیح دیتے تھے اور دبلی پتلی اور سخت مزاج عورت سے اجتناب کرتے تھے۔ اللہ ان سب سے راضی ہو اور ان کی قبروں کو ان سرد راتوں میں گرم رکھے۔ آمین

سوشل میڈیا پہ ان دنوں یہ عربی تحریر وائرل ہے 

مركز البحوث الإسلامية العالمي کے بانی اور حلقہ کے دیگر بالغ نظر اور ممتاز اصحاب علم وفکر نے اس پہ مختلف زاویئے سے غور فرمایا اور اپنے اپنے طرز پہ اس کی تشریح وتوضیح کی۔ بانی حلقہ مفتی شکیل منصور القاسمی نے زیرگردش اس عربی مضمون پہ اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا:

"عورتیں خدا کی نعمت ہیں، ان کی جسمانی ساخت بھی شوہروں اور بچوں کے لئے جسمانی راحت وآرام کا ذریعہ ہے، ان  میں خلاق اکبر نے متضاد صفات رکھی ہیں، جس طرح وہ سردیوں میں گرماہٹ کا کام کرتی ہیں ویسے ہی گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈک پہنچانے کا کام بھی بفضلہ تعالیٰ انجام دیتی ہیں، موجودہ موسم سرما (جنوری) کے تناظر میں زیرنظر تحریر تو مناسب ہے ؛واگرنہ یہ سِکّے کا صرف ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ عورتیں "نعمة الصيف" بھی ہیں، اسلاف امت سے موسم سرما میں اگر استدفاء منقول ہے تو موسم گرما میں استبراد بالزوجہ بھی منقول ہے، ممکن ہے کوئی دل جلا بندہ موسم گرما میں اس پہلو کو بھی اجاگر کردے 

صبر آزما انتظار سے خلاصی کے پیش نظر جب تک کے لئے صرف ایک روایت (اسنادی حیثیت پہ بحث سے قطع نظر) کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں:

قَالَ عَبْدُاللَّهِ بن مَسْعُودٍ: "إِنِّي لأَسْتَدْفِئُ بِهَا فِي الشِّتَاءِ، وَأَتَبَرَّدُ بِهَا فِي الصَّيْفِ" المعجم الكبير 9194–حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"بے شک میں سردیوں میں اپنی بیوی کے ذریعے گرماہٹ حاصل کرتا ہوں اور گرمیوں میں اس کے ذریعے ٹھنڈک حاصل کرتا ہوں۔")

سردی وگرمی میں بیویوں سے قربت، ازدواجی تعلقات، ان کی آغوش سے جسمانی گرماہٹ وبرودت کے حصول سے صَرفِ نظر ، مذکورہ عربی مضمون میں درج احادیث بندہ عاجز کی رائے میں ایک خصوصی سیاق رکھتی ہیں، وہ یہ کہ زوج غسل جنابت سے فارغ ہوکر (زوجہ کے اغتسال جنابت سے پہلے) پھر بغل گیر ہوکر قدرے استدفاء کرسکتا ہے، یعنی ان احادیث میں جنبیہ بیوی سے اختلاط وملاصقہ کی گنجائش کو بتانا مقصود ہے کہ یہ اختلاط اس کے اغتسال ثانی کا موجب نہیں ہے، اس نوع  کی روایات سردیوں میں ازدواجی تعلقات کی اہمیت کو ایک ثقافتی اور تاریخی پس منظر میں بیان کرتی ہیں، اس حوالے سے بعض سلف صالحین کے طرزِعمل کا ذکر بھی موجود ہے؛ لیکن اس کی حیثیت صرف ثقافتی ہے؛ شرعی نہیں! اس کا مطلب یہ نہیں کہ سردیوں میں شب وروز بس ہیٹر سمجھ کر چمٹا بیٹھا رہے۔ عربی تحریر کے عنوان سے کچھ یہی تاثر ابھرتا ہے۔

فقط واللہ اعلم 

شکیل منصور القاسمی  

————————————-

مفتی توصیف صاحب قاسمی اس پہ اظہار خیال فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: "مفتی صاحب اچھا ہوا آپ نے صراحت کردی؛ ورنہ ہندوستانی پس منظر میں اتنا سا استدفاء بھی موجب غسل ہی ہے، پھر بھلا غسل کے بعد یہاں استدفاء تو کجا ، بلکہ فرار ہی ہوتا ہے." محمد توصیف قاسمی 

—————————

مفتی فہیم الدین صاحب قاسمی بجنوری مدظلہ کی رائے یہ ہے:

"نا چیز کی ذاتی دریافت یہ ہے کہ گھر میں بیوی سے فاصلہ رکھنا چاہیے، بستر جدا ہوں، اہلیہ بچوں کے ساتھ سوئے اور آپ دوسرے روم میں تنہا پڑے رہیں، جوانی کا ایک نیا تجربہ کریں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تفصیل زنا سے متعلق بیان کی ہے کہ ہر عضو حصے دار ہے، دیکھنا چشم کا زنا ہے، لمس ہاتھ کا زنا ہے، الی آخرہ پھر شرم گاہ بتائے گی کہ دیکھنا اور چھونا کس نوعیت کا تھا اور دونوں کی نیت پاک تھی یا آلودہ۔ یہ تفصیل حلال تعلق پر بھی منطبق ہے، جب ہم بیوی کے ساتھ چپکے رہتے ہیں تو جنسی عمل جاری رہتا ہے، چھونا، دیکھنا، بات کرنا؛ یہ سب جماع کی صورتیں ہیں، اس جاری پروسس کے نتیجے میں ہمارے جنسی بخارات خارج یا بہتر تعبیر میں ضائع ہوتے رہتے ہیں، جنسی دباؤ کم ہوتا رہتا ہے، یہ ناقص آسودگی عروج وشباب کی کیفیت کو نقصان پہنچاتی ہے اور کئی کئی روز جنسی عمل کی نوبت نہیں آتی۔ ہماری برادری کا ایک بڑا تناسب جمعراتی ہے، ان کی جمعراتی سرخ روئی کا راز ہفتہ بھر کی دوری ہے، جمعرات ہر دو نوع کے مدرسین پر آتی ہے؛ مگر غیر مقیم مدرس جمعرات کی سائیکل طوفانی رفتار سے مارتا ہے؛ جب کہ مقیم مدرس جمعرات کا چھٹا گھنٹہ پڑھا کر  بھی خراماں خراماں ہی لوٹتا ہے، اسے کوئی جوش محسوس نہیں ہوتا، اس فرق کی وجہ وہی ہے کہ اول الذکر کا جنسی پروسس موقوف تھا؛ جب کہ ثانی الذکر جنسی عمل کی ناقص صورتوں کو برابر انجوائے کررہا تھا، فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ جنس کی قاتل لہر کو انجوائے کیا جائے، یا تدریجی بہاؤ کو، راقم نے طویل تفکیر کے بعد پر امن صورت کو ترجیح دی ہے اور بستر جدا نہیں کیا۔" (فہیم الدین بجنوری)

—————————-

ڈاکٹر عزیر عالم دستگیر ممبئی کا اس ضمن میں استفسار یہ تھا: "اکابر کے تعامل اور طب، دونوں جگہ یہ بات نہیں ملی جو آپ نے لکھی. ہاں یہ ضرور پڑھا کہ "بستر الگ کرنا" بطور سزا و تنبیہ کے بتایا گیا ہے. پھر یہ مستحسن عادت کیسے ہوسکتی ہے. باقی جاننے والے زیادہ صحیح بتائیں گے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: "میں نے کبھی طبیعت کو عقل پر اور عقل کو شریعت پر غالب نہیں ہونے دیا." عزیر عالم دستگیر 

———————-

بانی حلقہ مفتی شکیل منصور القاسمی نے زیربحث مسئلے کی تشریح وتو ضیح سے متعلق ایک تفصیلی جامع عربی مضمون مشترک فرمایا جو درج ذیل ہے:

(إتحاف النبلاء بما جاء في الاستدفاء بالنساء) 

كتبه أسامة الفرجاني

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، وبعد:

فقد انتشرت الأيام الماضية رسالة فيها بعض الآثار عن السلف في (الاستدفاء بالنساء) وعزاها صاحبها إلى مصنف ابن أبي شيبة رحمه الله ، فرجعت إلى مصنف ابن أبي شيبة للوقوف على أسانيد هذه الآثار، ودرست هذه الأسانيد وخرجت بهذا البحث اليسير، وسأذكر فيه هذه الآثار كلها بأسانيدها، وأتبع كل أثر بحكمه ، ثم أختم هذا البحث بفقه هذه الآثار، أسأل الله التوفيق والسداد.

وقد بوب الإمام ابن أبي شيبة بابا سماه [في الرجل يستدفئ بامرأته بعد أن يغتسل]، وأورد تحته الآتي:

الحديث الأول:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن بشير، عن إبراهيم التيمي أن عمر كان يستدفئ بامرأته بعد الغسل.

حكمه: ضعيف؛ للانقطاع بين (إبراهيم التيمي) و (عمر بن الخطاب) فإبراهيم ولد بعد وفاة عمر بنحو ثلاثين سنة.

الحديث الثاني:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن حماد بن سلمة ، عن عطاء الخراساني، عن أم الدرداء قالت: كان أبوالدرداء يغتسل ثم يجيء ،وله قرقفة يستدفئ به.

حكمه: ضعيف؛ لأجل (عطاء الخراساني) وهو: عطاء بن أبي مسلم.

قال شعبة: حدثنا عطاء الخراساني وكان نسيا.

وقال ابن حبان: كان رديء الحفظ يخطيء ولا يعلم.

ثم هو أيضا يدلس، ولم يصرح هنا بالسماع.

قال الحافظ في التقريب: صدوق يهم كثيرا، ويرسل ويدلس .اهـ

والقرقفة: ارتعاش واضطراب في الأسنان بسبب البرد.

الحديث الثالث:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا حفص وكيع، عن مسعر، عن جبلة، عن ابن عمر قال: إني ﻷغتسل من الجنابة ثم أتكوى بالمرأة قبل أن تغتسل.

حكمه: صحيح، رجاله كلهم ثقات، (حفص بن غياث، ووكيع بن الجراح ، ومسعر بن كدام، وجبلة بن سحيم)

الحديث الرابع:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن إبراهيم بن المهاجر، عن عبدالله بن شداد عن ابن عباس قال: ذاك عيش قريش في الشتاء.

حكمه: حسن، رجاله ثقات إلا إبراهيم بن مهاجر فمختلف فيه:

منهم من وثقه كابن سعد وابن شاهين والزهري.

ومنهم من ضعفه كابن معين وابن حبان والدارقطني.

ومنهم من توسط فقال (لا بأس به) كالثوري وأحمد والنسائي في رواية، وقال أبو داود: صالح الحديث.

ويرى الشيخ الألباني -رحمه الله - أن الأقرب هو قول من توسط ، فقد قال في [الصحيحة 317/2]: هو حسن الحديث إن شاء الله تعالى. اهـ

الحديث الخامس:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا إسماعيل بن علية، عن حجاج بن أبي عثمان ،حدثنا يحيى بن أبي كثير، قال: حدثني أبو كثير: قال قلت ﻷبي هريرة: الرجل يغتسل من الجنابة ثم يضطجع مع أهله ؟ قال: لا بأس به.

حكمه: صحيح، رجاله كلهم ثقات، (إسماعيل بن علية، وحجاج بن أبي عثمان الصواف ويحيى بن أبي كثير، وأبو كثير السحيمي).

الحديث السادس:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبوالأحوص، عن أبي إسحاق، عن عبدالرحمن بن الأسود، قال: كان الأسود يجنب فيغتسل، ثم يأتي أهله فيضاجعها يستدفئ بها قبل أن تغتسل.

حكمه: ضعيف، لعنعنة أبي إسحاق - وهو عمرو بن عبد الله السبيعي - فإنه مدلس ، ولم يصرح بالسماع.

الحديث السابع:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا حفص، عن الأعمش، عن إبراهيم قال: كان علقمة يغتسل ثم يستدفئ بالمرأة وهي جنب.

حكمه: صحيح، رجاله ثقات، ولا تضر عنعنة الأعمش فإنها منه عن إبراهيم محمولة على الاتصال، كما قال الإمام الذهبي رحمه الله في (ميزان الاعتدال 224/2).

و (علقمة) هو ابن قيس النخعي، ثقة ثبت فقيه عابد ،من كبار التابعين.

الحديث الثامن:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة أنه كان يستدفئ بامرأته ثم يقوم فيتوضأ وضوءه للصلاة.

حكمه: صحيح على شرط الشيخين .

وعلقمة هو - كما مر - : ابن قيس النخعي .

الحديث التاسع:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبو معاوية، عن حجاج، عن أبي إسحاق، عن الحارث، عن علي أنه كان يغتسل من الجنابة ،ثم يجيء فيستدفيء بامرأته قبل أن تغتسل، ثم يصلي ولا يمس ماء.

حكمه: ضعيف جدا، فالراوي عن علي: الحارث بن عبدالله الأعور مجمع على ضعفه كما قال النووي في الخلاصة.

كما أن أبا إسحاق (السبيعي) وحجاجا (ابن أرطأة) مدلسان ولم يصرحا بالسماع .

الحديث العاشر:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبو خالد، عن حجاج، عن أبي إسحاق، عن الحارث، عن علي قال: إذا اغتسل الجنب ثم أراد أن يباشر امرأته فعل إن شاء.

حكمه: ضعيف جدا.

فيه ما في سابقه من العلل.

الحديث الحادي عشر:

قال ابن أبي شيبة : حدثنا أبو خالد الأحمر، عن شعبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب قال: يباشرها وليس عليه وضوء.

حكمه: صحيح، وعنعنة قتادة هنا لا تضر، فإن الراوي عنه هو شعبة، وقد قال شعبة: كفيتكم تدليس ثلاثة، الأعمش وأبي إسحاق وقتادة [معرفة السنن للبيهقي 35/1]

وقال أبو عوانة في مستخرجه :حدثنا نصر بن مرزوق، حدثنا أسد بن موسى قال : سمعت شعبة يقول: كان همتي من الدنيا شفتي قتادة ، فإذا قال (سمعت) : كتبت ، وإذا قال (قال): تركت. اهـ

مع أن تدليس قتادة في الجملة قليل مغتفر كما قال العلامة الألباني- رحمه الله - في (الصحيحة 614/5): تدليس قتادة قليل مغتفر، ولذلك مشاه الشيخان، واحتجا به مطلقا كما أفاده الذهبي، وكأنه لذلك لم يترجمه الحافظ في التقريب بالتدليس، بل قال فيه (ثقة) .اهـ

الحديث الثاني عشر:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن مبارك، عن الحسن قال: لا بأس أن يستدفئ بامرأته بعد الغسل.

حكمه: ضعيف، فمبارك - وهو ابن فضالة - صدوق يدلس ويسوي كما قال الحافظ في التقريب، ولم يصرح هنا بالسماع .

الحديث الثالث عشر:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن مسعر، عن حماد: أنه كان يكرهه حتى يجف.

حكمه: صحيح، وحماد هو: ابن أبي سليمان الفقيه المعروف، وهو من صغار التابعين .

الحديث الرابع عشر:

قال ابن أبي شيبة: حدثنا شريك، عن حريث، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة قالت: كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يغتسل من الجنابة ثم يستدفئ بي قبل أن أغتسل.

حكمه: ضعيف ، فشريك وهو (ابن عبدالله النخعي) صدوق يخطيء كثيرا، قاله الحافظ في التقريب.

و (حريث) - وهو ابن أبي مطر الفزاري - ضعيف.

وقد أخرج ابن ماجه هذا الحديث في سننه من طريق المصنف.

وأخرجه الترمذي من طريق هناد عن وكيع عن حريث به.

وقد حكم عليه بالضعف العلامة الألباني رحمه الله ، كما في ضعيف الترمذي برقم 123، ابن ماجه برقم 128 .

وأما قول الإمام الترمذي رحمه الله (هذا حديث ليس بإسناده بأس) فمتعقب ،تعقبه العلامة عبدالمحسن العباد - حفظه الله - بقوله [بل فيه بأس] (شرح جامع الترمذي شريط 27)

فتلخص من هذا ثبوت:

1) قول ابن عمر: إني ﻷغتسل من الجنابة ثم أتكوى بالمرأة قبل أن تغتسل.

2) قول ابن عباس: ذاك عيش قريش في الشتاء .

3) قول أبي هريرة (لا بأس) لمن سأله عن (الرجل يغتسل من الجنابة ثم يضطجع مع أهله).

4) قول إبراهيم: كان علقمة يغتسل ثم يستدفئ بالمرأة وهي جنب.

5) قول سعيد بن المسيب [يباشرها وليس عليه وضوء].

6) وكراهية حماد لذلك حتى يجف.

فقه هذه الآثار:

1) أن بشرة الجنب طاهرة؛ ﻷن الاستدفاء إنما يحصل من مس البشرة البشرة [شرح مشكاة المصابيح للمباركفوري 307/2]

2) طهارة عرق المرأة الجنب، ولعابها وسؤرها، كالرجل الجنب، وكذا الحائض والجنب. [المصدر السابق].

3) أن الرجل إذا اغتسل فلا بأس أن يستدفئ بامرأته، قال الترمذي: [وهو قول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين]

فاستدفاء الرجل بامرأته لا بأس به، لكن لا يقال (هو سنة !)،

يقول الشيخ العلامة عبد المحسن العباد حفظه الله : إذا حصل أن الرجل فعل هذا فليس هناك مانع يمنع منه، لكن لا يقال: إن ذلك سنة ثابتة عن النبي صلى الله عليه وسلم ؛ ﻷن الحديث بذلك ضعيفا. اهـ (شرح جامع الترمذي شريط 27)

وهنا أود التنبيه أن إيراد الأئمة المصنفين كابن أبي شيبة والترمذي وابن ماجه لهذه الأحاديث في كتاب الطهارة: يدلك على أن مرادهم بذلك (أن الجنب ليس نجسا)، ولو كان مرادهم بيان سنية الاستدفاء لأوردوا هذه الآثار في كتاب النكاح.

والمقصود أن الاستدفاء لا مانع منه، لعدم المانع الشرعي، وأكدت هذه الآثار هذا الجواز، والله أعلم.

وأجدها فرصة طيبة في هذا المقام ﻷذكر إخواني بمكانة مصنف ابن أبي شيبة ، وحسبك قول الحافظ ابن كثير رحمه الله في (البداية والنهاية 315/10): المصنف الذي لم يصنف أحد مثله قط، لا قبله ولا بعده! .اه

ـ

كما لا يفوتني أن أنبه أن دراستي السابقة هي لأسانيد ابن أبي شيبة خاصة ، فالأحكام السابقة هي على هذه الأسانيد، وأشكر في الختام الشيخ عليا الرملي على تفضله بمراجعة بحثي، والحمد لله رب العالمين.

(كتبه أخوكم: أسامة الفرجاني)

(عورتوں سے گرمی حاصل کرنے کے بارے میں آنے والی روایات سے متعلق شرفاء کو تحفہ علمی)

تحریر: اسامہ الفرجانی

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، اور درود و سلام ہو تمام انبیاء و مرسلین کے سردار، ہمارے نبی محمد ﷺ پر، اور ان کے اہل بیت اور صحابہ پر۔

گزشتہ دنوں ایک پیغام گردش کررہا تھا جس میں سلف صالحین کی چند روایات کا ذکر تھا کہ وہ عورتوں سے گرمی حاصل کرتے تھے۔ پیغام کے مصنف نے ان روایات کو مصنف ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا تھا۔ میں نے ان روایات کی سندوں کو پرکھنے کے لیے مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف رجوع کیا اور ان کی تحقیق کے بعد یہ مختصر مقالہ پیش کیا۔ اس میں تمام روایات کے حوالے، ان کے احکام اور ان کا فہم شامل ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے اس کام میں اخلاص اور درستگی کی دعا کرتا ہوں۔

باب: مرد کا غسل کے بعد اپنی بیوی سے گرمی حاصل کرنا

ابن ابی شیبہ نے اس موضوع پر ایک باب باندھا اور اس میں درج ذیل روایات بیان کیں:

پہلی حدیث:

ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے سفیان کے واسطے سے، انہوں نے بشیر سے، اور انہوں نے ابراہیم تیمی سے روایت کیا کہ:

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غسل کے بعد اپنی بیوی سے گرمی حاصل کرتے تھے۔

حکم: یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ ابراہیم تیمی اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع (تسلسل کا فقدان) ہے۔ ابراہیم تیمی عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے تقریباً تیس سال بعد پیدا ہوئے۔

دوسری حدیث:

ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے حماد بن سلمہ کے واسطے سے، انہوں نے عطا خراسانی سے، اور انہوں نے ام درداء رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ:

ابو درداء رضی اللہ عنہ غسل کے بعد کپکپاہٹ محسوس کرتے اور اپنی بیوی کے پاس آکر گرمی حاصل کرتے۔

حکم: یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ عطا خراسانی کی حافظہ میں کمزوری تھی اور وہ تدلیس کرتے تھے۔

تیسری حدیث:

ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں حفص اور وکیع نے مسعر کے واسطے سے، انہوں نے جبلہ سے، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ:

میں غسل جنابت کے بعد اپنی بیوی سے گرمی حاصل کرتا ہوں۔

حکم: یہ روایت صحیح ہے۔ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

چوتھی حدیث:

ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے اسرائیل کے واسطے سے، انہوں نے ابراہیم بن مہاجر سے، اور انہوں نے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ: یہ قریش کی سردیوں کی زندگی ہے۔

حکم: یہ روایت حسن ہے۔ اس کے راوی قابل اعتماد ہیں، سوائے ابراہیم بن مہاجر کے جن کے بارے میں اختلاف ہے۔

دیگر احادیث کا خلاصہ:

مصنف ابن ابی شیبہ میں ایسی مزید روایات ہیں جن میں مردوں کے غسل کے بعد بیوی سے گرمی حاصل کرنے یا قربت کے مختلف حالات ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں بعض ضعیف ہیں، بعض حسن، اور چند صحیح درجے کی ہیں۔

فقہی نکات:

1. جنب کی جلد اور پسینہ پاک ہے: یہ روایات ثابت کرتی ہیں کہ جنب انسان کی جلد اور پسینہ ناپاک نہیں ہوتا۔

2. بیوی سے قربت جائز ہے: اگر کوئی شخص غسل کے بعد اپنی بیوی سے قربت اختیار کرے یا اس سے گرمی حاصل کرے تو اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔

3. یہ سنت نہیں، صرف جواز ہے: اگرچہ یہ عمل جائز ہے، لیکن اسے سنت کہنا درست نہیں کیونکہ نبی ﷺ سے اس کا ثبوت صحیح سند کے ساتھ نہیں ملتا۔

اختتامیہ:

یہ روایات ہمیں سلف صالحین کے عملی طرزِ زندگی کے کچھ پہلو دکھاتی ہیں۔ البتہ، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ان میں سے بعض ضعیف ہیں اور ان پر کسی شرعی حکم کو قائم نہیں کیا جاسکتا۔

میں اس تحقیقی مقالے کی تصدیق اور جائزے پر شیخ علی الرملي کا شکرگزار ہوں۔

واللہ اعلم۔

————————-

جمع وترتیب: #ایس_اے_ساگر

https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_5.html



Wednesday, 1 January 2025

سنا ہے سال بد لے گا!

سنا ہے سال بد لے گا! 

‎ -------------------------------

‎ ‎عیسوی سال 2024ء کا آخری سورج ڈھلنے کو ہے، ایشیائی ممالک میں ڈھل بھی چکا ہے؛ لیکن سال 2024ء میں عالمی افق پہ نسل پرستانہ برتری، قابو کی حکمرانی، مذہبی منافرت، نسل و قوم پرستی کے جنون وتعصب  کا جو سورج طلوع ہوچکا ہے وہ شاید دہائیوں تک نہ ڈھل سکے۔ ‎نئے عیسوی سال 2025ء کے آغاز پہ امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں کے ساتھ دنیا بھر میں جشن کا سماں ہے- 

‎آسمان پہ رنگ ونور کی برسات ہے۔آتش بازی کی جارہی ہے،منچلے سڑکوں پہ نکل کے رقص کناں ہیں،مرد وخواتین کاروں ،موٹر سائیکلوں اور  پیادہ پائوں سڑکوں پہ نکل آئے ہیں، جشن کا ماحول ہے۔سالِ نو کی آمد پہ شہر کا شہر پٹاخوں اور ہوائی فائرنگ کی آواز سے دہل رہا ہے۔

‎لیکن آہ! فلسطین کے نہتھے عوام میں جراحتوں، ہلاکتوں ،پامالیوں، غموں اور مصیبتوں کی کیسی قیامت خیزیاں ہیں؟ ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی سفاکیت کا طوفان بلاخیز بھی کبھی تھمے گا؟ 

‎سال 2024 کا سب سے تکلیف دہ واقعہ غزہ پر اسرائیلی درندگی کا تسلسل ہے جو اب تک 45 ہزار سے زائد فلسطینی کی معصوم جانیں نگل چکا ہے، لیکن حقوق انسانی کے ٹھیکیدار امریکا اور مغربی ممالک کے کانوں پر جوئیں تک نہ رینگیں، بلکہ سفاک اسرائیل کو جنگی ساز وسامان کی فراہمی کے وعدے کئے جارہے ہیں۔

‎ امریکا کے صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی بطور صدر کامیابی بھی سال 2024 کے منظر نامے کا حیران کن باب ہے۔

سولہ سال تک قوت واقتدار کا اکلوتی سرچشمہ سمجھے جانے والی خاتون آہن حسینہ واجد کا فرار اور اس کے اقتدار کا خاتمہ سال 2024 کی امید افزا خبر تھی۔

‎حماس سربراہان شیخ اسماعیل ہنیہ ،یحییٰ سنوار اور حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت نسل پرستانہ برتری کے مظالم اور درندگی کے دلدوز مظاہر ہیں۔

سال 2024 کی دل خراش سوغاتوں کے بیچ ایک اچھی اور امید افزا خبر یہ آئی کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتین یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور انہیں جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا؛ لیکن المیہ کہئے کہ وہ پابند سلاسل نہ ہوسکا ۔اسی طرح 2024ء میں اسپین، ناروے اور آئرلینڈ کی طرف سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا جو 2024 کے عالمی سیاسی منظر نامے میں غیرمعمولی اقدام ہے، کاش مسلم ممالک بھی یہ جرات کرپاتے! 

میرے نزدیک سال 2024 کی سب سے اچھی اور دھماکہ خیز خبر یہ تھی کہ تاریخ انسانی کا سفاک ترین درندہ بشار الاسد - جس کے خونی پنجوں نے بلا شبہ لاکھوں انسانوں کی جانیں لیں -کے 24 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا اور وہ دم دبا کر روس فرار ہوا ۔فتح دمشق سال رواں کا امید افزا واقعہ ہے۔

‎نسل پرستانہ برتری کے اسی نازی طرز حکومت کا تجربہ ہمارے مادر وطن ہندوستان میں ہورہا ہے، 2024 کے من جملہ سانحات کا سیاہ ترین باب یہ بھی ہے کہ “ مغل اعظم “ کی حکومت یہاں پھر قائم ہو گئی ہے ۔جمہوری روایات اور مذہبی امن ورواداری کا جنازہ نکل رہا ہے۔ اوقاف مسلمین کو ہتھیانے کی سازشیں ہورہی ہیں، مسجدوں کے نیچے منادر تلاش کئے جارہے ہیں، مسلم اقلیت کو سر راہ ہراساں کئے جانے کا ہر حربہ استعمال ہورہا ہے۔

‎امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں (آس ورجاء) کے ساتھ جس عیسوی سال 2024 کا آغاز لوگوں نے کیا تھا ۔آج ہم اپنے دل میں ہزاروں غم چھپائے اس سال کے آخری دن کی دہلیز پہ" یاس وناامیدی" کے ساتھ کھڑے ہیں۔اسلامی سال کا آغاز ہوئے چھ ماہ سے زائد ہوچکے ہیں۔آج شب بارہ بجے کے بعد دنیا بھر کے عیسائی  لوگ اور اسلامی "اقدار وروایات " سے ناواقف '  مغرب زدہ مسلمان ' عیسوی نئے سال کا زور دار  استقبال کریں گے۔

لیکن مجھے  نہیں معلوم کہ جگمگاتی روشنیوں ،قمقموں اور فلک شگاف پٹاخوں کے ذریعہ "بہشت احمقاں" میں رہنے والے یہ لوگ اپنے غموں پہ ہستے ہیں یا اپنی کامیابیوں اور حصولیابیوں پہ خوشیاں مناتے ہیں ؟؟؟ 

 کیونکہ نئے سال  کی نئی صبح میں خوشیاں منانے والے اور خوشحالیوں کے خواب دیکھنے والے کا خواب دسمبر کی آخری تاریخ تک بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا!۔ 

آخر لوگ اس کا ادراک کیوں نہیں کرتے؟ کہ  رات ودن کے بدلنے سے،ستاروں اور سیاروں کے اپنے محور کے گرد چکر لگانے سے، ماہ وسال کے بدلنے ، کسی کے گذرنے یا کسی کے آنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔

فرق پڑتا ہے تو اس سے پڑتا ہے کہ گذرنے والا سال ہمیں کیا دے جارہا ہے ؟ اور آنے والا سال ہمارے لئے کیا لارہا ہے ؟؟؟ ۔۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گذرنے والے سال میں انسانوں کی سوچ اور اپروج میں کیا تبدیلی آئی؟  اور آنے والے سال میں ان کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی کے کیا اور کتنے امکانات ہیں؟؟      

سال 2024 میں ملت اسلامیہ کے چہرے پہ بیشمار غم' سیاہ کالک کی طرح  مل دیئے گئے ہیں۔

اس سال سے ملنے والی سوغاتوں میں ہمیں واضح طور پہ نظر آتا ہے کہ اس سال میں دنیا پہلے سے کہیں بڑھکر بدامنی کا شکار ہوئی۔بالخصوص عالم اسلام پہلے سے کہیں بڑھ کر قتل، غارت، انتشار وخلفشار کی آماجگاہ بن گیا۔

اس کے ساتھ ہی  پورے عالم میں چاروں طرف پہیلی بداعمالیاں، بے ایمانیاں، وحشتناک بدامنی، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک مڑی، ناپ تول میں کمی، احکام خداوندی سے کھلی بغاوت ،دین وشریعت سے دوری، والدین اور شوہروں کی نافرمانی جیسے ناسور ہمارے معاشرے میں ہنوز باقی ہی نہیں، بلکہ ان خرابیوں کا شرح نمو روز افزوں ہے۔ ان کا مداوی کرنے والا کوئی دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ اتنے سارے زخموں کے ہوتے ہوئے ہمیں خوشیاں منانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ اب دیکھنا ہے کہ 2025 کا  نیا منظر نامہ کتنا مہیب اور بھیانک ہوتا ہے! 

اگر  آنے والا سال امن کا پیامبر ہوتا! 

اگر آنے والے سال میں مسلمانان عالم اپنی اساس کو پہچان کر، باہمی گلے شکوے بھول کر، احکام شریعت کے نام پہ بھائی بھائی بن کر، انسانیت اور آدمیت کے نام پہ اتحاد کرلیں، اور آنے والے سال کو ظلم وبربریت اور کفر وطغیان کے خاتمے اور دعوت اسلامی کے فروغ کا سال ہونے کا عہد کریں تو پہر میں بھی آپ کو اس کے آغاز پہ دعائیں دے سکتا ہوں ۔لیکن یہاں حال یہ ہے کہ :

نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے سال بدلے گا 

پرندے پھر وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا 

بدلنا ہے تو دن بدلو بدلتے کیوں ہو ہندسے کو 

مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلے گا 

وہی حاکم وہی غربت وہی قاتل وہی ظالم 

بتائو کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا ؟؟؟ 

‎کیلنڈر کا سورج ڈوب گیا تو کیا؟ انقلاب کا سورج طلوع ہوکر رہے گا، جبر واستبداد کی گھٹائیں چھٹ کے رہیں گی. ان شاء اللہ.

شکیل منصور القاسمی 

‎بیگوسرائے

31/12/2024

‎روز منگل، ساڑھے چھ بجے شام 

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com

https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/2024-2024-2025-2024-45-2024-2024-2024.html
( #ایس_اے_ساگر)



کرسمس کے کیک کا حکم

کرسمس کے کیک کا حکم

-------------------------------

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ بعض عیسائی حضرات جو اس موقع پر کیک بطور تحفہ مسلمان دوستوں کو دیتے ہیں جس کا تعلق بظاہر کرسمس سے ہی معلوم ھوتا ہے کیا اسےقبول کرنے کی گنجایش ہے اورکیا اسےکرسمس سے ہی متعلق ماناجائے گا؟

الجواب وباللہ التوفیق:

کرسمس کے کیک یا اس موقع کے دیگر تحائف قبول کرنے کے بارے میں علماء کے درمیان دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں، علماء کے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ غیر مسلمین کے مذہبی تہواروں کے موقعوں پر ان کے  تحائف قبول کرنا جائز نہیں ہے، کرسمس ایک معروف مذہبی تہوار ہے جس کا تعلق عیسائی باطل ومشرکانہ عقائد سے ہے، اس کا منانا، اس میں شرکت کرنا یا اس موقع سے پیش کے گئے مخصوص تحائف قبول کرنا مشرکانہ عقائد و شعائر کی تعظیم و توثیق کے مشابہ ہونے کے باعث ناجائز ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق غیرمسلموں کی "مذہبی رسومات" اور ان کے تہواروں کی تعظیم سے بچنا ضروری ہے تاکہ کسی قسم کا "تشبہ" پیدا نہ ہو۔اسلام مستقل دین، کامل واکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے، ہر مسلمان کو اپنے مذہب کے عقائد واعمال اور احکام و تعلیمات کی صداقت وحقانیت پر دل ودماغ سے مطمئن ہونا اور اعضاء وجوارح سے اس کا عملی ثبوت پیش کرنا ضروری ہے. کسی دوسری قوم کی عادات و اطوار اور تہذیب و تمدن سے استفادہ وخوشہ چینی (شرکیہ و کفریہ طور طریق کو پسند کرنے) کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کفر پسندی یا اس پہ رضا واقرار یا اس کی حمایت ونصرت بندہ مومن کو دین سے خارج کردیتی ہے:

"يَا أيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ". (الممتحنة: 1).

’’من کثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضي عمل قوم کان شریکا في عمله.‘‘ (كنزالعمال: الرقم: 24730، نصب الرایۃ للزیلعي: 102/5. کتاب الجنایات، باب ما یوجب القصاص وما لا یوجبہ، الحدیث التاسع)

جبکہ علماء کے دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ اپنے مذہبی حدود وشعار پہ انشراح واستقامت کی شرط کے ساتھ دیگر اہل مذاہب ہم وطنوں و ہم پیشہ افراد و اشخاص کے ساتھ معاشرتی حسن سلوک و احسان کے تحت ان کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر ان کے ہدایا قبول کرنا چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے:

 کیک، مٹھائی یا کھانے کی چیزیں انہوں نے اپنے باطل معبودوں کے نام پر نہ چڑھایا ہو اور نہ ہی اس میں کسی حرام و ناپاک چیز کی آمیزش کی گئی ہو، دینے والوں کا اکثر ذریعہ آمدن حلال ہو، قبول کرنے کا مقصد صرف حسن اخلاق ہو، نہ کہ کرسمس کی مذہبی تعظیم، ہدیہ قبول کرنے کے بعد کسی دینی معاملے میں اس غیر مسلم کے اثر انداز ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو ان شرطوں کے تحقق کے ساتھ کیک یا مٹھائی وغیرہ کا استعمال کرنا جائز ہے؛ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے غیرمسلموں کے تحائف قبول کیے ہیں، جیسا کہ یہودیوں سے کھانے کی دعوت قبول کرنا ثابت ہے (صحیح البخاري (2617)، ومسلم (2190) .

جواز کی شرطوں کے تحقق کا ذریعہ چونکہ موہوم ہے، متیقن نہیں؛ اس لئے احوط یہ ہے کہ کرسمس کے کیک یا تحفہ قبول کرنے سے پرہیز کیا جائے، معاشرتی حسن سلوک اور اعلی انسانی اخلاق واقدار کا اظہار امر آخر ہے، مذہبی تہواروں کے موقع کی مخصوص ہدایا قبول کرنے سے ان کے عقائد کی تائید وتوثیق یا ان کے کلچر کی ترویج وتکثیر کا شائبہ ابھرتا ہے؛ اس لئے اجتناب برتنا بہتر ہے؛ تاکہ ہمارا عقیدہ اور اسلامی حدود محفوظ رہ سکیں۔

واللہ اعلم 

شکیل منصور القاسمی

مرکز البحوث الإسلامية العالمي 

٢٨ جمادی الثانیہ 1446ہجری

ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_1.html
( #ایس_اے_ساگر)


سینئر صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال

سینئر صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال
سینئر صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ انا لله و انا اليه راجعون۔ صحافتی حلقوں میں سخت صدمہ ہے۔ شبّیر شاد صاحب کا اس دنیا سے رخصت ہونا اردو صحافت کے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ سبحانہ تعالی متعلقین کو صبرجمیل عطا فرمائے اور مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ نمازجنازہ بعد نماز عشاء جامع مسجد کلاں سہارنپور اور تدفین قبرستان حضرت قطب شیر، انبالہ روڑ میں ہوئی، سہارنپور کے مشہور تاجر اور مخیر، سابق ممبر پارلیمنٹ حاجی فضل الرحمان قریشی کے قریبی عزیز، روزنامہ انقلاب کے مشہور نمائندے اور بہترین صحافی شبیر شاد صاحب کا انتقال حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث ہوا۔ مرحوم تقریبا 65 سال کے تھے۔ شبیر شاد صاحب سے میرا تعارف تو زمانہ طالب علمی سے ہی ہوگیا تھا۔ وہ سہارنپور کے بااثر، معتبر اور بڑے سنجیدہ صحافی تھے۔ ان کی پوری زندگی صحافت میں ہی گزری۔ سہارنپور کے مضافات میں میرے بعض سفر بھی مرحوم کے ساتھ ہوئے۔ وہ سلجھے ہوئے انسان تھے۔ سلجھی ہوئی گفتگو کرتے تھے۔ ایک زمانہ سے وہ روزنامہ انقلاب کے سہارنپور میں نمائندے تھے۔ ان کی خبریں بالکل نپی تلی ہوتی تھیں۔ وہ  لکھتے، مکمل لکھتے تھے۔ جوانی کے دنوں میں ان کے مضامین اور انٹرویو بہت پسند کئے جاتے تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ آپ اردو کے بہترین شاعر تھے آپ نے دوران سفر اپنے بہت سے اشعار مجھے سنائے اور ان اشعار سے ان کی ادبیت اور شعریت کا پایہ بلند محسوس ہوا۔ انھوں نے مظاہرعلوم وقف سہارنپور کی ڈیڑھ سو سالہ عظیم خدمات پر اپنے روزنامہ انقلاب کا ایک خوبصورت معیاری نمبر بھی شائع کروایا۔ یہ خصوصی شمارہ 'انقلاب' کے تمام ایڈیشنوں پر مشتمل تھا۔ ادھر چند سال سے ملاقات کا سلسلہ کافی کم ہوگیا تھا۔ ایک دن انھوں نے مجھے فون کیا کہ میں مکہ مکرمہ میں ہوں، حج کے لئے آیا ہوا ہوں۔ ابھی مکہ میں ہی ہوں۔ میں نے کہا کہ حج کا وقت تو بہت پہلے ختم ہوچکا ہے۔ اب آپ وہاں کس لئے رکے ہوئے ہیں۔ انھوں نے بتلایا کہ میری بیٹی اور میرا داماد یہیں ہیں۔ اور بڑی خوشی کے لہجہ میں بتلایا کہ میرا داماد ماشآءاللہ یہاں ایک بڑے اسپتال میں بطور ڈاکٹر کام کرتا ہے۔ اسے حکومت کی طرف سے رہائش اور دیگر مراعات ملی ہوئی ہیں۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ افسوس کہ آج حاجی فضل الرحمان قریشی کی ایک تحریر سے انتقال کی خبر کلفت اثر پڑھنے کو ملی۔ میں مرحوم کے اہل خانہ اور حاجی فضل الرحمان قریشی سے اظہار تعزیت کرتا ہوں اور ان کے غم میں برابر کا شریک ہوں۔ قارئین کرام سے بھی دعاء مغفرت کی درخواست ہے۔ (ناصرالدین مظاہری) 
------------
(آہ شبیرشاد)
ندیم جہاں شبیرشاد آن واحد میں داغ مفارقت دے گئے، 'غم واندوہ کی وہ کیفیت کہ ہرلفظ اور بیانیہ خوں روتا ہے۔ شبیر شادؔ، سہارنپور کے اردو ادب اور صحافت کی دنیا کا ایک ایسا نام ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ نہ صرف ایک ممتاز صحافی تھے بلکہ ایک قادرالکلام شاعر بھی تھے۔ ان کی شخصیت سہارنپورکی مشترکہ تہذیب اور سماجی ہم آہنگی کی جیتی جاگتی مثال تھی، شبیر شادبزم دوستاں روح و آبرو تھے۔ سہارنپور کی دبستان اردو انکے دم سے شاداب تھی۔
شبیر شادؔ کا تعلق سہارنپور کے ایک معززومعروف خاندان سے تھا۔ ان کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں انسانی تہذیب اور رواداری کی قدریں مقدم تھیں۔ ان کے والد حاجی مقبول رحمتہ اللہ علیہ مشہور مجاہد آزادی اور شہر کے متمول انسان تھے'شبیر شاد نے نوجوانی سے اردو زبان سے محبت کی اور اسے اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ حالیہ شہر سہارنپور کے بام ودر پر دوست پروری اور اردو تہذیب کے نقش و نگار میں شبیر شاد کی مساعی جمیلہ نہایت ممتاز اور واضح ہے۔
شبیر شادؔ نے اردو صحافت کے میدان میں جو خدمات انجام دیں، وہ بے مثال ہیں۔ انہوں نے کئی دہائیوں تک مختلف اردو اخبارات و رسائل میں بطور نمائندہ اور کالم نگار کام کیا۔ ان کے مضامین اور تجزیے گہری بصیرت، غیرجانبداری اور تحقیق پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے سماجی مسائل کو اجاگر کرتے اور حل کے لئے تعمیری مشورے دیتے۔ ان کی صحافت نے سہارنپور میں اردو زبان کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
شبیر شادؔ ایک عمدہ شاعر تھے جن کی شاعری دلوں کو چھولینے والی ہوتی تھی۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں محبت، انسان دوستی اور مشترکہ تہذیب کی جھلک نمایاں تھی۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ ان کا کلام سہل ممتنع کی بہترین مثال ہے، جہاں الفاظ آسان لیکن معانی گہرے ہوتے ہیں۔
شبیر شادؔ اپنی زندگی بھر ہندستان کی مشترکہ تہذیب کے نمائندہ رہے۔ وہ مختلف مذاہب اور برادریوں کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کے زبردست حامی تھے۔ ان کی شخصیت اور کام نے ہمیشہ لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ محبت اور رواداری ہی کسی بھی معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہے۔شنیرکے حلقہ یاراں میں ہر مذہب و مشرب کی نمائدگی موجود ہے۔ شبیر حد درجہ شگفتہ مزاج' باغ و بہار' بزلہ سنج اور حاضر جواب تھے. ان کے متین وجود میں ایک شریر بچہ ہمیشہ زندہ رہا. تاہم گفتگو میں انسانی جذبات کے احترام کے قائل تھے۔
شبیر شادؔ کی وفات سے سہارنپور اورصحافت و اردو ادب کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، لیکن ان کی تحریریں، شاعری اور افکار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ نئی نسل کے لئے ایک مشعلِ راہ ہیں، جو اردو زبان اور مشترکہ تہذیب کے فروغ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
شبیر شادؔ کا نام اردو ادب اور صحافت کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ ان کی شخصیت اور خدمات نے یہ ثابت کردیا کہ ایک فرد اپنی صلاحیتوں اور عزم کے ذریعے معاشرے پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ ان کی یاد ہمیشہ دلوں میں زندہ رہے گی۔ ان کا اس دنیا سے اچانک چلے جانا زمانے بھر کے ساتھ ساتھ میرا ذاتی ناقابل تلافی خسارہ بھی ہے۔
خوشبو دیار لالہ وگل سے خفانہ ہو۔۔۔۔۔
یارب کسی کا دوست کسی سے خفانہ ہو۔ 
(غم زدہ: اشرف عثمانی دیوبندی)( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post.html

Tuesday, 31 December 2024

بد اخلاق بیوی کے شوہر کی دعا قبول نہیں ہوتی؟

سوال: بد اخلاق بیوی کے شوہر کی دعا قبول نہیں ہوتی؟
ایک روایت کی تحقیق دریافت کرنی ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ”تین قسم کے آدمی دعا تو کرتے ہیں لیکن ان کی دعا قبول نہیں ہوتی: (۱) وہ شخص جس کی بیوی برے اخلاق والی ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے۔ (۲) وہ آدمی جس نے کسی سے قرضہ لینا ہو لیکن اس پر کوئی گواہ نہ بنایا ہو اور (۳) وہ آدمی جس نے بیوقوف (یعنی مال کے انتظام کی صلاحیت نہ رکھنے والے چھوٹے یا ناتجربہ کار) آدمی کو مال دے دیا ہو، حالانکہ الله تعالیٰ نے فرمایا: اپنے اموال بیوقوفوں کے حوالے نہ کردو۔“
••• باسمہ تعالی •••
الجواب وبہ التوفیق:
اس روایت کو امام حاکمؒ نے مؔستدرک میں (مرفوعا) ذکر کیا ہے اور پھر روایت پر کلام فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ: حضرات شیخینؒ (بخاری و مسلم) نے اس روایت کو ذکر نہیں کیا؛ کیونکہ اس کی سند میں جو راوی ہیں امام شعبہؒ ان کے بعض اصحاب اس کو موقوفا بیان کرتے ہیں، یعنی اس روایت کو وہ حضرت ابوموسی اشعریؓ صحابی رسول کا فرمان کہتے ہیں: 
🔰 المستدرک علی الصحیحین 🔰
 حدثني علي بن حمشاد العدل، ثنا أبوالمثني معاذ بن معاذ العنبري، ثنا أبي، ثنا شعبة، عن فراس، عن الشعبي، عن أبي بردة، عن أبي موسى الأشعري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "ثلاثة يدعون الله، فلا يستجاب لهم: رجل كانت له امرأة سيئة الخلق فلم يطلقها، ورجل كان له على رجل مال فلم يشهد عليه، ورجل أعطى سفيها ماله، وقد قال عز وجل: (ولا تؤتوا السفهاء أموالكم) [النساء: 5].
هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين، ولم يخرجاه؛  لتوقيف أصحاب شعبة هذا الحديث علي أبي موسي.
٭ المصدر: المستدرك 
٭ المحدث: حاكمؒ
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 331
٭ الرقم: 3181
٭ الطبع: دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
🌷شیخ البانیؒ کی تحقیق🌷
   اس روایت کو شؔیخ البانیؒ نے اپنی السلسلة الصحیحة میں جگہ دی ہے اور دونوں باتیں ذکر کی ہیں:
 1) یہ روایت مرفوع نہیں؛ بل کہ حضرت ابوموسی اشعریؓ کا ارشاد ہے ( جیسا کہ امام حاکمؒ کے حوالے سے سطور بالا میں ذکر ہوا)
2) اس روایت کا متابع (مرفوع ہونے میں) موجود ہے.
♻️ السلسلة الصحيحة ♻️
١٨٠٥ -  "ثلاثة يدعون فلا يستجاب لهم : رجل كانت تحته امرأة سيئة الخلق فلم يطلقها،"  
و رجل كان له على رجل مال فلم يشهد عليه ، و رجل آتى سفيها ماله و قد قال الله  عز وجل: (و لا تؤتوا السفهاء أموالكم)."
"قال الألباني: رواه ابن شاذان في "المشيخة الصغرى" (٥٧ / ١) و الحاكم ( ٢ / ٣٠٢ ) من طريقين: عن أبي المثنى معاذ بن معاذ العنبري حدثنا أبي حدثنا شعبة عن فراس عن الشعبي عن أبي بردة عن أبي موسى الأشعري مرفوعا ، و قال الحاكم : "صحيح" على شرط الشيخين و لم يخرجاه لتوقيف أصحاب شعبة هذا الحديث  على أبي موسى الأشعري ". و وافقه الذهبي .
"قلت : كذا وقع في "المستدرك" : "أبي المثنى معاذ بن معاذ العنبري حدثنا أبي" "و في" المشيخة": معاذ بن المثنى أخبرنا أبي"
و كل ذلك من تحريف النساخ  و الصواب: "المثنى بن معاذ بن العنبري" كما يتضح من الرجوع إلى ترجمة الوالد و الولد من "تاريخ بغداد" و "تهذيب التهذيب" و غيرهما، 
و قد جزم الطحاوي في "مشكل الآثار" (٣ / ٢١٦) أن معاذ بن معاذ العنبري قد حدث به عن شعبة۔
ثم إنهما ثقتان غير أن المثنى لم يخرج له البخاري شيئا۔
فالسند ظاهره الصحة، لكن قد يعله توقيف أصحاب شعبة له إلا أنه لم ينفرد به معاذ بن معاذ بل تابعه داود بن إبراهيم الواسطي : حدثنا شعبة به . أخرجه أبو نعيم في "مسانيد أبي" يحيى فراس" (ق ٩٢ / ١).
و داود هذا ثقة كما في" الجرح "( ١ / ٢ / ٤٠٧ )۔" 
و تابعه عمرو بن حكام أيضا، و فيه ضعف۔
أخرجه أبو نعيم أيضا و الطحاوي۔
و تابعه عثمان بن عمر و هو ثقة أيضا قال حدثنا شعبة به۔
أخرجه الديلمي (٢ / ٥٨). و قد وجدت له طريقا أخرى عن الشعبي. 
رواه ابن عساكر (٨ / ١٨٢ / ١ - ٢) عن إسحاق بن وهب - و هو بخاري - عن الصلت بن بهرام عن الشعبي به .
لكن إسحاق هذا ذكره الخليلي في "الإرشاد" و قال: "يروى عنه ما يعرف و ينكر ، و نسخ" رواها الضعفاء"
★ المصدر: السلسلة الصحيحة
★ المحدث: الشيخ البانيؒ
★ المجلد: 4
★ الصفحة: 420
★ الرقم: 1805
★ الطبع: مكتبة المعارف، للنشر والتوزيع، الريـاض.
🕯️ حديث كا مطلب 🕯️
امام عبدالرؤف مناویؒ ”فیض القدیر“ میں لکھتے ہیں کہ کسی کی بیوی بد خلق ہو اور شوہر کو تنگ کرتی ہو اس کی زندگی اور گھر کا سکون غارت کردیا ہو اصلاح کے بعد بھی وہ باز نہ آتی ہو اور ایسا شخص پھر دعا کرے کہ اللہ مجھے اس بیوی سے چھٹکارا دلادے تو یہ دعا کارگر نہ ہوگی؛ کیونکہ شوہر کے پاس اختیار موجود ہے کہ طلاق دے کر حسب اقتضائے شرع رخصت کردے.
اسی طرح کسی نے کسی کو مال حوالہ کردیا اور اس پر کسی طرح کا گواہ اور لکھت پڑھت نہ کی پھر وہ شخص مال سے مکر گیا تو اب دعا کیا کرے گی؛ کیونکہ غلطی تو خود کیے بیٹھا ہے یعنی پہلے تدبیر و اسباب اختیار کرتا پھر دعا کرتا.
اسی طرح جب اللہ نے فرمادیا کہ بے وقوف کو مال سپرد مت کرو (وہ مال کو ضائع ہی کرے گا) لیکن کوئی شخص پھر بھی بے وقوفوں کے حوالے کوئی مال و متاع کردے پھر دعا کرے کہ میرا مال حاصل ہوجائے تو یہ دعا بھی کارگر نہیں یعنی اپنے حماقت کو اب دعا سے سدھارا نہیں جاسکتا۔ (دنیا دارالاسباب ہے اسباب کو اختیار کرنا اور غیر دانشمندانہ حرکت کرنے سے خود کو بچانا مومن کی شان ہے یہ نہ ہو کہ پاؤں پر کلہاڑی مارکر پھر دعاؤں سے اس کی اصلاح کی جائے)
(ثَلَاثَةٌ يَدْعُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ؛ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ: رَجُلٌ كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَةٌ سَيِّئَةُ الْخُلُقِ)؛ بِالضَّمِّ؛ (فَلَمْ يُطَلِّقْهَا) ؛ فَإِذَا دَعَا عَلَيْهَا لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ؛ لِأَنَّهُ الْمُعَذِّبُ نَفْسَهُ بِمُعَاشَرَتِهَا؛ وَهُوَ فِي سَعَةٍ مِنْ فِرَاقِهَا؛ (وَرَجُلٌ كَانَ لَهُ عَلَى رَجُلٍ مَالٌ فَلَمْ يُشْهِدْ عَلَيْهِ)؛ فَأَنْكَرَهُ؛ فَإِذَا دَعَا لَا يُسْتَجَابُ لَهُ؛ لِأَنَّهُ الْمُفَرِّطُ الْمُقَصِّرُ؛ بِعَدَمِ امْتِثَالِ قَوْلِهِ (تَعَالَى): وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ ؛ (وَرَجُلٌ آتَى سَفِيهًا) ؛ أَيْ: مَحْجُورًا عَلَيْهِ بِسَفَهٍ؛ (مَالَهُ) ؛ أَيْ: شَيْئًا مِنْ مَالِهِ؛ مَعَ عِلْمِهِ بِالْحَجْرِ عَلَيْهِ؛ فَإِذَا دَعَا عَلَيْهِ لَا يُسْتَجَابُ لَهُ؛ لِأَنَّهُ الْمُضَيِّعُ لِمَالِهِ؛ فَلَا عُذْرَ لَهُ؛ (وَقَدْ قَالَ اللَّهُ (تَعَالَى): وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ)۔
(ك) ؛ فِي التَّفْسِيرِ؛ (عَنْ أَبِي مُوسَى)؛ الْأَشْعَرِيِّ ؛ قَالَ الْحَاكِمُ: عَلَى شَرْطِهِمَا؛ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ؛ لِأَنَّ الْجُمْهُورَ رَوَوْهُ عَنْ شُعْبَةَ مَوْقُوفًا؛ وَرَفَعَهُ مُعَاذٌ عَنْهُ؛ انْتَهَى؛ وَأَقَرَّهُ الذَّهَبِيُّ فِي التَّلْخِيصِ؛ لَكِنَّهُ فِي الْمُهَذَّبِ قَالَ: هُوَ مَعَ نَكَارَتِهِ إِسْنَادُهُ نَظِيفٌ.
÷ المصدر: فيض القدير
÷ المحدث: الإمام المناوي
÷ المجلد: 3
÷ الصفحة: 336
÷ الرقم: 3554
÷ الطبع: دارالمعرفة، بيروت، لبنان.
نوٹ: اس روایت کو (باوجودیکہ ضعیف ہے) بیان کیا جاسکتا ہے، نیز دعا قبول نہ ہونا فقط اسی خاص صورت کے لئے ہے (کہ خود کردہ را علاج نیست) یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر  معاملے میں دعا بے اثر ہوگی۔ 
وﷲ تعالی اعلم
(✍🏻... کتبہ: محمد عدنان وقار صدیقی، 20 اكتوبر، 2024) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/12/blog-post_31.html

Monday, 30 December 2024

نعت گوئی میں مبالغہ آرائی کے ذریعے حد سے تجاوز کرنا ممنوع ہے

نعت گوئی میں مبالغہ آرائی کے ذریعے حد سے تجاوز کرنا ممنوع ہے
-------------------------------
حضرت مفتی صاحب! 
عرض خدمت یہ ہے کہ آیا یہ نعت پڑھنا درست ہے یا نہیں بالخصوص نشان زدہ مصرعہ کا مرحمت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
سائل: محمد ارشد علی قاسمی سید پوری
الجواب وباللہ التوفیق:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا باعثِ تخلیق کون ومکان ہونا متعدد احادیث سے ثابت ہے، بوصیری کے مقبول عام قصیدہ بردہ کا ایک مصرعہ یوں بھی ہے:
وكيف تدعو إلى الدنيا ضَرُورَةُ مَن …..لولاه لم تُخْرَج الدنيا من العَدَم
مستدرک حاکم ، دلائل النبوہ للبیہقی مرقات وغیرہ میں اس مضمون کی صحیح الاسناد حدیث موجود ہے، توحید وتبدیع جیسے معاملات میں علامہ ابن تیمیہ جیسی متشدد شخصیت بھی ان احادیث کی روشنی میں یہ نقل کررہی ہے: 
"إن الله خلق من أجله العالَم أو: إنه لولا هو لَمَا خَلق الله عرشًا ولا كرسيًّا ولا سماءً ولا أرضًا ولا شمسًا ولا قمرًا. مجموع الفتاوى (11/86-96)
لہٰذا اس تناظر میں  "جہاں آپ کا ہے ستاروں کا، یہ کارواں آپ کا“ کہنا موجب شرک نہیں ہے- 
"اگر میرے آقا عنایت کریں گے"
عنایت کے معنی لطف وکرم اور توجہ کے ہیں، اس کے معنی عطاء وبخشش کی ہی نہیں ہیں. اس لحاظ سے اس مصرع میں بھی شرکیہ مفہوم مجھے نہیں معلوم ہوتا ہے 
نعت گوئی انتہائی نازک وحساس صنف سخن ہے. اس میں بیجا مدح سرائی اور تعریف وتوصیف میں حدود سے تجاوز کرنا اور مدح وستائش میں مبالغہ آرائی سے کام لینا خاصا خطرناک ہے اور انسان کو کہیں سے کہیں پہنچادیتا ہے ۔
مبالغہ آمیز مدح سرائی، منبع اوصاف وکمالات، وجہ تخلیق کون ومکان، محبوب باری، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے لئے منع فرمادی ہے، ارشاد نبوی ہے: 
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ: لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ.
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھادیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں- (صحیح البخاری: ٣٤٤٥)
اس حدیث میں غیرواقعی چیزوں پہ تعریف کرتے ہوئے مبالغہ آرائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ایسی چیزیں منسوب کرنے سے منع کیا گیا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہیں. جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علم غیب، حاضر وناظر یا اختیارکلی جیسی چیزیں منسوب کردینا، کیونکہ یہ چیزیں صرف اللہ کی خصوصیات ہیں، حضور باوجود جملہ خصوصیات کے لوگوں کے ان دعاوی محضہ سے متصف نہیں، جیسے عیسی ابن مریم جملہ معجزات کے علی الرغم ابنیت خداوندی سے متصف نہیں ہیں۔ لہذا نعت لکھتے یا پڑھتے ہوئے ان حدود کا پاس ولحاظ رکھنا ازبس ضروری ہے. 
٢٦ دسمبر ٢٠٢٤ء
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2024/12/blog-post_30.html
( #ایس_اے_ساگر)

Tuesday, 10 December 2024

فساد شام {إذا فسد أهل الشام} کی حقیقت

فساد شام {إذا فسد أهل الشام} کی حقیقت

-------------------------------

آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے بڑے لڑکے (مشہور قول کے مطابق) "سام" کے نام پہ آباد ہونے والے ملک "شام" کو انگریزی میں "syria"  عربی میں "سوریا" اور سریانی میں شام کہتے ہیں۔ طوفان نوح کے بعد سام بن نوح اسی علاقے میں آباد ہوئے تھے۔ اس لئے "شام " کے نام سے یہ علاقہ مشہور ہوگیا۔ قدیم نبوتوں، صحیفوں، قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں "شام" کو بڑی عظمت حاصل ہے۔ اس بابرکت اور باحیثیت ملک کے حدود کافی وسیع تھے۔ جسے اسلام دشمن فرانسیسی  استعماری قوت  نے سنہ 1920 عیسوی میں درج ذیل چار الگ الگ سرحدوں میں بانٹ دیا۔ 

1 : حالیہ شام (دارالحکومت دمشق) جہاں روافض کا خونی پنجہ مسلم جسم کو نوچ رہا ہے۔

2 : فلسطین =اسرائیل = (دارالحکومت بیت المقدس) جہاں پون صدی سے یہود قابض ہیں،

3 : لبنان (دارالحکومت بیروت) جہاں مسلمانوں کو اقلیت میں رکھا گیا ہے اور طریقے طریقے سے ان کا استحصال کیا جاتا ہے،

4 : اردن (دارالحکومت عمان) جہاں برطانوی استعمار کے پرانے ایجنٹ اور نمک خور مسلط ہیں اور صیہونیوں سے یاری کا حق ادا کرتے ہیں!

غیرمنقسم ملک شام پر 636 عیسوی سے 1920 عیسوی تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔

1920 میں  شریف مکہ کی غداری کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اور 1920 میں شام  فرانس کے قبضہ میں چلا گیا۔

1946 میں فرانسیسی استعماریت سے آزادی ملی۔

اور حافظ امین وہاں کا سربراہ بنا۔ 1970 عیسوی میں حافظ الاسد ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ  امین سے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

2000 میں اس کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا بشارالاسد اس  ملک کا صدر بن گیا اور آج تک اسی کی  قہرمانیوں کی زد میں سرزمین انبیاء ہے۔

بشارالاسد شیعہ نصیری فرقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ جو مسلمانوں کا سخت ترین دشمن اور صیہونیوں کا وفادار رہا ہے۔ اس فرقہ کے چند مخصوص عقائد یہ ہیں: 

1: حضرت علی رضی اللہ عنہ میں خداتعالی حلول کئے ہوئے ہیں۔

2: ہندوستانی برہمنوں کی طرح تناسخ ارواح (آوا گون) کا قائل ہے۔ حساب کتاب اور بعث وحشر کا منکر ہے۔

3: دینی فرائض نماز روزہ کی فرضیت کا قائل نہیں۔ مسجدوں کی تعمیر وبناء کا بھی انکاری ہے۔

4: محرمات شرعیہ: زناء، شراب نوشی وغیرہ کی حلت کا قائل ہے۔

اسی لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے مختلف رسائل میں یہ فتوی دیا کہ:

نہ ان کی عورتوں سے مناکحت جائز ہے۔ نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ نہ ان کی میت پہ نماز جنازہ پڑھنا درست ہے۔ اس کے کسی بھی فرد کو اسلامی فوج و لشکر میں نوکری دینا ایسے ہی خطرناک ہے جیسے بکریوں کے ریوڑ میں بھیڑ کو رکھنا۔ اس لئے اسے مسلم فوجیوں میں ملازمت دینا گناہ کبیرہ ہے۔ مسلمانوں کی بجائے صہیونی اور یہودیوں سے ان کے تعلقات رہتے ہیں-"

انہوں نے صلاح الدین ایوبی کے خلاف صلیبیوں کا، ظاہر بیبرس  کے خلاف تاتاریوں کا، اور عثمانیوں کے خلاف صفویوں اور فرانسیسیوں کا ساتھ دیا ہے۔ مذہب اسلام میں اچھا یا برا ہونے کا اصل معیار تو انسانی عمل ہے۔ انسان حسب نسب جاہ وحشمت سے نہیں، بلکہ خود اپنے عمل  سے نیک وبد بنتا ہے۔ لیکن بعض مکانوں اور جگہوں  کے فضائل قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ حرمین طیبین  کے بعد سب سے زیادہ اس غیرمنقسم بلاد شام کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ سورہ الانبیاء آیت 71+ 81+  میں اس کی برکت واہمیت کی صراحت آئی ہے۔ بعض علماء نے اس کے فضائل پہ مستقل کتابیں لکھی ہیں اور اس کی اہمیت و حیثیت کے حوالے سے ساری روایتیں جمع کی ہیں۔ جس میں رطب ویابس، صحیح وسقیم حتی کہ من گھرت  قسم کی روایتیں بھی در آئی ہیں۔ لیکن ہم  ذیل میں  فضائل شام کی بیس احادیث ذکر کررہے ہیں جنہیں فن حدیث کے ماہرین نے صحیح کہا ہے۔

1- عن عبدالله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «اللهم بارك لنا في شامنا، اللهم بارك لنا في يمننا»، قالوا: "يا رسول الله، وفي نجدنا؟" فأظنه قال في الثالثة: «هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان» (أخرجه البخاري [1037])    

ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا]: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما) صحابہ کرام نے عرض کیا: "اور ہمارے نجد میں بھی؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما)، صحابہ کرام نے عرض کیا: "اورہمارے نجد میں بھی؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (وہاں زلزلے، فتنے ہونگے اور وہیں سے شیطان کا سینگ رونما ہوگا) 

2- عن أبي الدرداء رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بينا أنا نائم إذ رأيتُ عمود الكتاب احتمل من تحت رأسي، فظننتُ أنه مذهوب به، فأتبعته بصري، فعمد به إلى الشام، ألا وإن الإيمان حين تقع الفتن بالشام» (أخرجه أحمد [21733]، وصحّحه الأرناؤوط۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ عمودالکتاب (ایمان) کو لے گئے اور انہوں نے (ملک) شام کا قصد کیا۔ جب جب بھی فتنے پھیلیں گے تو شام میں امن وسکون رہے گا۔)

3- عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرو بن العاص رضي اللَّه عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «إني رأيتُ عمودَ الْكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فنظرتُ فَإِذَا هُوَ نورٌ ساطعٌ عُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، أَلا إِنَّ الإِيمَانَ - إِذَا وَقَعَتِ الفتن- بالشام» (أخرجه الحاكم [8554]، وصحّحه على شرط الشيخين ووافقه الذهبي، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب میں سویا ہوا تھا تو میں نے دیکھا کہ عمودالکتاب (ایمان) میرے سر کے نیچے سے کھینچا جارہا ہے۔ میں نے گمان کیا کہ اس کو اٹھالیا جائے گا تو میری آنکھ نے اس کا تعاقب کیا، اس کا قصد (ملک) شام کا تھا جہاں پھوٹتا ہوا نور تھا۔ جب جب بھی شام میں فتنے پھیلیں گے وہاں ایمان میں اضافہ ہوگا۔)

4- عن عبدالله بن عمر بن الخطاب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ لنا النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يومًا: «إني رأيتُ الملائكة في المنامِ أخذوا عمود الكتاب، فعمدوا به إلى الشام، فإذا وقعت الفتنُ فإن الإيمان بالشام» (أخرجه ابن عساكر في تاريخ دمشق [1/110]، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام لأبي الحسن الربعي۔

(ترجمہ تقریبا برابر ہے).

5- عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رأيتُ عمودًا من نور خرج من تحت رأسي ساطعًا حتى استقر بالشام» (أخرجه البيهقي في دلائل النبوة [6/448]، وابن عساكر في تاريخ دمشق [1/109]، وصحّحه الألباني في المشكاة [6280]۔

(ترجمہ تقریبا برابر ہے)

6- عن عبدالله بن حوالة رضي اللَّه عنه: كُنّا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فشكونا إليه العُري والفقر وقلة الشيء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أبشروا؛ فوالله! لأنا من كثرة الشيء أخوف عليكم من قلته، والله! لا يزال هذا الأمر فيكم حتى يفتح الله عز وجل أرض فارس، وأرض الروم، وأرض حِمير، وحتى تكونوا أجناداً ثلاثة: جنداً بالشام، وجنداً بالعراق، وجنداً باليمن، وحتى يُعطى الرجل المئة فيسخطها». قال ابن حوالة: "فقلتُ: يا رسول الله! اخترلي إن أدركني ذلك؟" قال: «إني أختار لك الشام؛ فإنه صفوة الله عز وجل من بلاده، وإليه يحشر صفوته من عباده. يا أهل اليمن! عليكم بالشام؛ فإنه صفوة الله عز وجل من أرض الشام، ألافمن أبى؛ فليسق من غُدر اليمن -جمع غدير الماء-؛ فإن الله عز وجل قد تكفّل بالشام وأهله» (أخرجه ابن عساكر في تاريخ دمشق [1/75]، وقال الألباني في السلسلة الصحيحة [7/1260]: إسناده صحيح رجاله كلهم ثقات).

حضرت ابن حولہ ؓ کہتے ہیں کہ  ہم رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس تھے۔ ہم نے فقر وتنگدستی وبرہنگی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہارے حوالے سے فقر وتنگدستی سے زیادہ افراط زر سے خوف ہے۔ پھر آپ نے صلی الله علیہ وسلم فرمایا: دین وملت کا یہ نظام چلتا رہے گا یہاں تک  کہ تم مسلمانوں کے جدا جدا کئی لشکر ہوجائیں گے ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، (یہ سن کر ) ابن حولہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (اگر اس زمانہ میں میں ہوا تو) فرمائیے کہ میں کون سا لشکر اختیار کروں؟ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سرزمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ سر زمین ہے (یعنی اللہ نے آخر زمانہ میں دینداروں کے رہنے کے لئے شام کی سر زمین ہی کو پسند فرمایا ہے پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو اپنے آپ کو بھی اور اپنے جانوروں کو بھی اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض میری وجہ سے میری امت کے حق میں یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ (کفار کے فتنہ و فساد اور ان کے غلبہ سے) شام اور اہل شام کو مامون ومحفوظ رکھے گا۔"

7- عن ابن حَوالة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «سيصير الأمرُ إلى أن تكونوا جُنوداً مُجَندَةً: جندٌ بالشام، وجندٌ باليمن، وجندٌ بالعراق» قال ابن حَوَالة: "خِرْ لي يا رسول الله! إن أدركتُ ذلك؟" فقال: «عليك بالشام؛ فإنها خيرةُ الله مِنْ أرضه، يَجْتَبِي إليها خِيرتَهُ منعباده. فأما إن أبيتم؛ فعليكم بيمنكم، واسقوا من غُدُركم؛ فإن الله توكللي بالشام وأهله» (أخرجه أحمد [17005]، وأبو داود [2483]، وصحّحه الألباني في صحيح الجامع الصغير [3659]).

حضرت ابن حولہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: وہ زمانہ قریب ہے جب دین اور ملت کا یہ نظام ہوگا کہ تم مسلمانوں کے جدا جدا کئی لشکر ہوجائیں گے ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، (یہ سن کر) ابن حولہ ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (اگر اس زمانہ میں میں ہوا تو) فرمائیے کہ میں کون سا لشکر اختیار کروں؟ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سرزمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ سر زمین ہے (یعنی اللہ نے آخر زمانہ میں دینداروں کے رہنے کے لئے شام کی سرزمین ہی کو پسند فرمایا ہے پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو اپنے آپ کو بھی اور اپنے جانوروں کو بھی اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض میری وجہ سے میری امت کے حق میں یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ (کفار کے فتنہ و فساد اور ان کے غلبہ سے) شام اور اہل شام کو مامون ومحفوظ رکھے گا۔"

8- عن ابن حَوالة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا ابن حوالة، إذا رأيتَ الخلافة قد نزلت أرض المقدَّسة فقد دنت الزلازل والبلابل والأمور العظام، والساعة يومئذٍ أقرب من الناس من يدي هذه من رأسك» (أخرجه أحمد [22487]، وأبو داود [2535]، وصحّحه الألباني في صحيح أبي داود [2286]).

ابن حوالہ کہتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے  اور فرمایا اے ابن حوالہ جب تو خلافت کو ارض مقدس (شام) میں اترتا دیکھے تو سمجھ لے کہ زلزلے مصائب اور حوادث قریب آگئے اور اس دن قیامت لوگوں سے اس قدر قریب ہوگی جس قدر تیرے سر سے میرا ہاتھ ہے۔

9- - عن زيد بن ثابت رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طوبى للشام» قلنا: "لأي ذلك يا رسول الله؟" قال: «لأن ملائكة الرحمن باسطة أجنحتها عليها» (أخرجه أحمد [21606]، والترمذي [3954]، والحاكم [2900] وصحّحه على شرط الشيخين ووافقه الذهبي، وصحّحه الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة [503]).

"شام کتنی مبارک جگہ ہے!"، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: "اے اللہ کے رسول، ایسا کیوں ہے؟"، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: "میں اللہ کے فرشتوں کو دیکھتا ہوں کہ انھوں نے شام کے اوپر اپنے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔"

10- عن أبي الدرداء رضي اللَّه عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن فسطاط المسلمين يوم الملحمة بالغوطة إلى جانب مدينة يقال لها: دمشق، من خير مدائن الشام» (أخرجه أحمد [21725]، وأبو داود [4298]، وصحّحه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب [3097]).

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قتل کرنے کے دن (یعنی جنگ میں) مسلمانوں کا خیمہ الغوطہ میں ہوگا، جو دمشق کے قریب واقع ہے۔

[وأخرجه أبو داود (4298) ، ويعقوب بن سفيان في "المعرفة والتاريخ" 2/290، والطبراني في "مسند الشاميين" (589)، وابن عساكر في "تاريخ دمشق" 1/103 و104 من طرق عن يحيى بن حمزة، بهذا الإسناد.

وأخرجه ابن عساكر 1/104 من طريق صدقة بن خالد، عن عبد الرحمن ن يزيد بن جابر، به.

وأخرجه الطبراني في "الشاميين" (1313) ، والحاكم 4/486، وابن عساكر 1/103 من طريق خالد بن دهقان، عن زيد بن أرطاة، به.

وانظر ما سلف برقم (17470) من حديث أصحاب النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.]

11- عن أبي هريرة رضي الله عنه أنه سمع رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا وقعت الملاحِمُ بعث الله من دمشقَ بعثًا من الموالي، أكرمَ العرب فرسًا، وأجودهم سلاحًا، يؤيدُ الله بهم الدين» (أخرجه ابن ماجة [4090]، والحاكم [8646]، واللفظ له وصحّحه ووافقه الذهبي وحسّنه الألباني في السلسلة الصحيحة [2777]).

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ فتنوں اور لڑائیوں کے زمانے میں دمشق سے اللہ تعالی بہترین شہسوار اور شاندار ہتھیار بند شہسوراوں کو بھیجیں گے جن کے ذریعہ دین کو مستحکم فرمائیں گے۔

12- عن النواس بن السمعان الكلابيّ رضي اللَّه عنه قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال، فقال: «إن يخرج وأنا فيكم فأنا حجيجه دونكم، وإن يخرج ولستُ فيكم، فامرؤ حجيج نفسه، والله خليفتي على كل مسلم، فمن أدركه منكم فليقرأ عليه فواتح سورة الكهف، فإنها جواركم من فتنته»، قلنا: "وما لبثه في الأرض؟" قال: «أربعون يوماً: يومٌ كسنة، ويومٌ كشهر، ويومٌ كجمعة، وسائر أيامه كأيامكم»، فقلنا: "يا رسول الله، هذا اليوم الذي كسنة، أتكفينا فيه صلاة يوم وليلة؟" قال: «لا، اقدروا له قدره، ثم ينزل عيسى ابن مريم عند المنارةالبيضاء شرقي دمشق، فيُدرِكه عند باب لد، فيقتله» (أخرجه مسلم [2937]).

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر میرے رہتے ہوئے دجال نکل آیا تو میں اس سے تم لوگوں کی حفاظت کروں گا۔ اور اگر میرے بعد نکلا تو پہر ہر آدمی اپنی حفاظت آپ کرے۔ اللہ تعالی ہر مسلم کی طرف سے میرا نائب ہوگا۔ اگر دجال نکل آئے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی چند آیتیں پڑھے۔کیونکہ وہ اس کے فتنہ حفاظت کا ذریعہ بنیں گی۔ ہم نے کہا وہ کتنا دن ٹھہرے گا؟  فرمایا چالیس دن ٹھہرے گا۔ ایک دن ایک سال کے برابر۔ ایک دن ایک مہینہ کے برابر اور ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا۔ باقی دن معمول کے مطابق ہونگے۔ صحابہ نے پوچھا کہ سال کے برابر  لمبے دن میں ہم نماز وغیرہ کیسے پڑھیں گے؟ کیا ایک دن رات کی نماز کافی ہوجائے گی پورے سال میں؟

حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ بلکہ ہر دن کے حساب سے اندازہ لگاکے پانچ وقت کی نماز پڑھو۔ پھر عیسی علیہ وسلم دمشق کے شرقی جانب سفید مینار کے پاس اتریں گے۔ دجال کو تلاش کریں گے۔ باب لد کے پاس اسے پائیں گے پھر اسے قتل کردیں گے۔

13- عن أوس بن أوس الثقفي رضي الله عنه أنه سمع رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وعلى آله وسلم يقول: «ينزل عيسى بن مريم عليهما السلام عندالمنارةِ البيضاء شرقي دمشق» (أخرجه الطبراني في المعجم الكبير [590]، وصحّحه الألباني في صحيح الجامع الصغير [8169]).

 رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہوگا۔ 

14- عن معاوية رضي اللَّه عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال طائفة من أُمّتي قائمة بأمر الله لا يضرهم من خذلهم أو خالفهم حتى يأتي أمرالله وهم ظاهرون على الناس» (أخرجه البخاري [3641]، ومسلم [1037]، وزاد البخاري في روايته وأحمد [16932]: فقام مالك بن يخامر السكسكي فقال: "سمعتُ معاذ بن جبل يقول: وهم بالشام").

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے احکام کی پابندی کرے گی، جس کو نیچا دکھانے والے اور مخالفت کرنے والے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک وہ اللہ کے دین پر قائم رہیں گے… مالک بن یخامر  نے کہا: اے امیرالموٴمنین! میں نے حضرت معاذ سے سنا ہے کہ یہ جماعت ملک شام میں ہوگی۔ (بخاری، مسلم، طبرانی)

15- عن جابر بن عبدالله رضي اللَّه عنهما قال: سمعتُ النبي صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «لا تزال طائفة من أُمّتي يقاتلون على الحق ظاهرين إلى يوم القيامة»، قال: «فينزل عيسى بن مريم صلى الله عليه وسلم، فيقول أميرهم: "تعال صلّ لنا"، فيقول: "لا، إن بعضكم على بعض أمراء تكرمة الله هذه الأمة»» (أخرجه مسلم [156]).

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی جماعت حق کے لئے برسر پیکار رہے گی۔ قیامت تک یہ جماعت اپنے مخالفین پر غالب رہے گی۔ پھر عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ مسلمانوں کے امیر ان سے امامت کی درخواست کریں گے۔وہ امت محمدیہ کے اکرام میں  یہ کہکر عذرخواہی فرمائیں گے کہ تمہارے میں سے ہی کوئی امامت وامارت کرے۔

16- عن أبي هريرة رضي اللَّه عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال عصابة من أُمّتي قائمة على أمرالله، لا يضرّها من خالفها، تقاتل أعداءها، كلما ذهبت حرب نشبت حرب قوم آخرين، يرفع الله قومًا ويرزقهم منه حتى تأتيهم الساعة» ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هم أهل الشام» (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط [7948]، وحسّن إسناده الأرناؤوط في تحقيق المسند [14/26]).

 نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے قتال کرتا رہے گا، ان کو ان کے مخالف نقصان نہ دے سکیں گے  اور وہ اپنے دشمنوں سے لڑتے رہیں گے جب بھی جنگ جائے گی ایک اور لڑنے والی جنگ ان سے الجھ جائے گی. اللہ ایک قوم کو بلند کردے گا کہ ان کو رزق دے (کر آزمائش میں ڈالے گا) یہاں تک کہ قیامت  آئے اور نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا: "وہ اہل شام ہونگے۔"

17- عن سلمة بن نفيل رضي اللَّه عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال طائفة من أُمّتي ظاهرين على الناس يرفع الله قلوب أقوام يقاتلونهم، ويرزقهم الله منهم حتى يأتي أمر الله عز وجل وهم على ذلك، ألا إن عقر دار المؤمنين الشام، والخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة» (أخرجه أحمد [16965]، وحسّنه الألباني في السسلة الصحيحة [1961]).

میری امت کا ایک گروہ لوگوں پر ہمیشہ غالب رہے گا، اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کے دلوں کو اٹھائے گا، وہ ان سے قتال کریں گے اور اللہ انہیں وہاں سے رزق عطاء فرمائے گا، حتی کہ جب اللہ کا حکم آئے گا تو وہ اسی حال میں ہوں گے، یاد رکھو! مسلمانوں کا خون بہنے کی جگہ شام ہے اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لئے خیروبرکت رکھ دی گئی ہے۔

18- عن بهز بن حكيم بن معاوية القشيري، عن أبيه، عن جده قَالَ: "قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أين تأمرني؟" فقال: «ها هنا»، وأومأ بيده نحو الشامِ، قال: «إنكم محشورون رجالًا وركبانًا، ومُجْرَون على وجوهِكم» (أخرجه أحمد [20050]، والحاكم [8686]، وصحّحه ووافقه الذهبي، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام).

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو ملک شام کی طرف ہجرت کرنے کا اشارہ فرمایا۔ نیز فرمایا کہ تم پیادہ پا اور سوار ہوکر اٹھائے جائوگے۔ منہ کے بل ہنکائے جائوں گے۔

19- عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «سَتَخْرُجُ نَارٌ فِي آخِرِالزَّمَانِ من حَضْرَمَوْت تحشرُالناس»، قلنا: "فماذا تأمرنا يا رسول الله؟" قال: «عليكم بالشام» (أخرجه أحمد [4536]، والترمذي [2217]، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام).

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخر زمانے میں حضر موت سے ایک آگ نکلے گی اور لوگوں کو جمع کرے گی ۔صحابہ نے پوچھا کہ حضور!  پھر ایسے موقع سے ہمارے لئے کیا ہدایت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایسے برے وقت میں شام کا رخ کرلینا۔

20- عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أبيه رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «إِذَا فسدَ أهلُ الشامِ فَلا خيرَ فِيكُمْ، لا تزالُ طائفةٌ من أُمتي منصورين، لا يضرُّهم مَنْ خَذَلَهم حَتَّى تقومَ الساعةُ» (أخرجه أحمد [20361]، والترمذي [2192] والحديث صححه الترمذي وابن حبان وكثير من المعاصرين كالشيخ الألباني  والارنؤوط وغيره.

[وأخرجه ابن أبى شيبة (6/409، رقم 32460) وأحمد (15596 + 15597 +20361  + 20367)، والترمذى (4/485، رقم 2192) وقال: حسن صحيح، والطبرانى (19/27، رقم 55، 56)، وابن حبان (16/292، رقم 7302). وأخرجه أيضًا: الطيالسى (ص 145، رقم 1076) والرويانى (2/128، رقم 946)]

ورواه أحمد في «مسنده» (3/436) برقم (15634)، و(5/34) برقم (20377) عن يزيد بن هارون، وفي (3/436) برقم (15635)، و(5/34) برقم (20383) عن يحيى بن سعيد، كلاهما عن شعبة، به.

ورواه البزار في «مسنده» (8/243) برقم (3303) عن عمرو بن عليّ، عن يحيى بن سعيد، عن شعبة، به.

ثمّ قال البزار: "وهذا الحديث بهذا اللفظ لا نعلم رواه عن النبيّ إلا قرة بن إياس!".

ورواه ابن ماجة في «سننه»(1/4) عن مُحَمَّد بن بَشَّارٍ، عن مُحَمَّد بن جَعْفَرٍ، عن شُعْبَة، به.

ورواه سعيد بن منصور في «سننه»(2/178) عن عَبْدالرَّحْمَنِ بن زِيَادٍ، عن شُعْبَة، به.

ورواهُ يعقوب بن سفيان في «المعرفة والتاريخ» (2/170) عن سليمان بن عبدالرحمن الدمشقيّ، عن عيسى بن يونس، قال: حدثنا شعبة، عن معاوية بن قرة، عن أبيه - وكانت له صحبة- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكره.

ثمّ رواه عن الرَّبيع بن يحيى قال: حدثنا شعبة، قال: سمعت معاوية بن قرة يُحدِّث عن أبيه - وقد رأى النبي ومسح النبي برأسه – فقال: إذا فسد أهل الشام فلا خير فيكم.

ورواه الطبراني في «المعجم الكبير» (19/27) من طريق أَسَد بن مُوسَى وعَاصِم بن عَلِيٍّ وعَلِيّ بن الْجَعْدِ، ثلاثتهم عن شُعْبَة، به.

وعقد ابن عساكر باباً في «تاريخه» (1/305): "باب نفي الخير عن أهل الإسلام عند وجود فساد أهل الشام"

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر اہل شام میں بگاڑ پیداہوجائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی جس کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور اس کو نیچا دکھانے والے کل قیامت تک اس جماعت کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں۔ آج کل اسی بیسویں نمبر کی حدیث کا ترجمہ لوگ کررہے ہیں کہ: "جب شام مکمل تباہ وبرباد ہوجائے تو دنیا میں کہیں خیر نہیں."

"فساد أهل الشام" کا ترجمہ مکمل تباہی وبربادی سے کرنا بالکل ہی غلط ہے۔ زیرنظر مضمون میں اسی کا علمی جائزہ لیا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ ترجمہ کرنا نصوص کے بالکل خلاف ہے۔

فَسَدَ (ن ض) وفَسُدَ (ش) فَسَادًا و فُسوُدًا ۔ خراب ہونا ۔ بگڑ جانا۔ یہ صلح کی ضد ہے۔ صفت فَسِیدٌ۔ ج۔ فُسدٰی و اَفَاسِدُ

اَفسَدَہٗ و فَسَّدَہٗ۔ کسی کو خراب کرنا۔ بگاڑ نا

فسداللحم او اللبن او نحوهما فسادا: خراب ہونا بگڑنا سڑنا، ناقابل استعمال ہونا۔

فسدالعقد ونحوه: معاہدہ وغیرہ کا لعدم ہوجانا، باطل ہونا۔

فسدالرجل: آدمی کا بگڑجانا، حدود عقل وحکمت سے تجاوز کرجانا۔

فسدالامور: معاملات بگڑ جانا، افرا تفری پیدا ہونا، نظام میں خلل پڑنا۔ قرآن حکیم میں ہے: لوکان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا۔ اگر ان ( زمین وآسمان ) میں متعدد خدا ہوتے تو ان کا نظام بگڑ جاتا۔ ھو فاسد وفسید۔

افسدالرجل: آدمی کا بگڑنا، خراب ہونا حدود عقل وحکمت سے باہر ہوجانا۔

افسدالشئ: بگاڑنا، خراب کرنا (2) بے نفع اور بئ نتیجہ بنانا، ناکام بنان، باطل کرنا، صحیح بنیاد سے ہٹا دینا، غلط کرنا۔

افسد في الارض: زمین میں خرابی اور بگاڑ پھیلانا، فساد مچانا۔

لسان العرب میں ہے: قال ابن منظور: «الفساد نقيض الصلاح... وتفاسد القوم: تدابروا وقطعوا الأرحام... واستفسد السلطان قائده إذا أساء إليه حتى استعصى عليه، والمفسدة خلاف المصلحة، والاستفساد خلاف الاستصلاح"  (لسان العرب 3:335)

وعن الراغب: «الفساد خروج الشيء عن الاعتدال ، قليلاً كان الخروج عنه أو كثيراً» (معاني القرآن: 379)

ويضاده الصلاح، ويستعمل ذلك في النفس والبدن والأشياء الخارجة عن الاستفادة.

یعنی دین، عقل، نسل، عقیدہ اور عمل وغیرہ میں بگاڑ، فساد اور ناہمواری کو قرآن وحدیث میں "فساد " سے تعبیر کیا گیا ہے۔اس لفظ کے مفہوم میں کافی وسعت ہے۔ اسے صرف قتل وغارت گری کے معنی میں ہی استعمال کرنا  ناواقفیت پر مبنی ہے۔

امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ میانہ روی اور حد اعتدال سے نکل جانے والی ہر چیز کو "فساد " کہتے ہیں۔ خواہ تھوڑا نکلے یا زیادہ۔ اس کا تعلق جیسے نفس اور بدن سے ایسے ہی ہر چیز سے۔ یعنی افراط وتفریط سے دوچار ہوجانے والی ہر چیز کو شرعی اصطلاح میں فساد کہتے ہیں:

 والفساد في الاصطلاح: خروج الشيء عن الاعتدال، قليلًا كان الخروج أو كثيراً، ويستعمل ذلك في النفس، والبدن، والأشياء الخارجة عن الاستقامة (المفردات للراغب 2: 192، بصائر ذوي التمييز 4: 192، التوقيف للمناوي ص 556)

علامہ ابن الجوزی کا کہنا ہے کہ ہر اچھی حالت کا برائی کی طرف میلان وانحطاط خواہ اقوال میں ہو یا افعال میں۔ کفر وشرک کے ذریعہ ہو یا عصیان ونافرمانی کے ذریعہ، ہر ایک کو فساد کہتے ہیں۔ یہ ذات میں بھی ہوتا ہے اور دین میں بھی۔

 «الفساد: تغيُّر عمَّا كان عليه من الصَّلاح، وقد يقال في الشيء مع قيام ذاته، ويقال فيه مع انتقاضها، ويقال فيه إذا بطل وزال، ويُذكر الفساد في الدِّين كما يذكر في الذَّات، فتارةً يكون بالعِصيان، وتارة بالكفر، ويُقال في الأقوال إذا كانت غير منتظمة، وفي الأفعال إذا لم يعتدَّ بها»{نزهة الأعين النواظر ص 469}

"فساد "ظلم" سے زیادہ عام ہے۔ ظلم تو خامی اور کمی کو کہتے ہیں جبکہ فساد کے مفہوم میں مزید وسعت ہے۔ خامی اور کمی کے ساتھ لہو ولعب میں انہماک اور شریعت سے غیر ثابت شدہ ہر چیز (بدعت ) پر فساد کا اطلاق ہوتا ہے۔

والفساد أعمُّ منَ الظلم؛ لأنَّ الظلم نقص، أما الفساد فيقع عليه وعلى الابتداع واللهو واللعب۔

الكليات لأبي البقاء ص{1097}

قرآن کریم میں لفظ "فساد" قریب پچاس سے زیادہ جگہوں میں استعمال ہوا ہے۔ ہر جگہ اگرچہ مختلف معنی مراد لئے گئے ہیں! لیکن حد اعتدال سے تجاوز، خواہشات نفسانی کی پیروی، فرائض ومحارم شرعیہ کی بے توقیری اور حدود اللہ کی پامالی  وغیرہ قریب ہر جگہ مشترک ہے۔

 قرآن کریم میں لفظ فساد کا استعمال: 

لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥ البقرة﴾

فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ ﴿١١٦ هود﴾

وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ﴿٧٧ القصص﴾

وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٧٧ القصص﴾

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ ﴿٤١ الروم﴾

إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ ﴿٢٦ غافر﴾

فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ ﴿١٢ الفجر﴾

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ﴿١١ البقرة﴾

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِنْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿١٢ البقرة﴾

وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿٢٧ البقرة﴾

قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ ﴿٣٠ البقرة﴾

وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿٦٠ البقرة﴾

وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا ﴿٢٠٥ البقرة﴾

وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ﴿٢٢٠ البقرة﴾

وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ ﴿٢٥١ البقرة﴾

فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ ﴿٦٣ آل عمران﴾

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ﴿٣٢ المائدة﴾

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا ﴿٣٣ المائدة﴾

وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٦٤ المائدة﴾

وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٦٤ المائدة﴾

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ﴿٥٦ الأعراف﴾

فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿٧٤ الأعراف﴾

وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ﴿٨٥ الأعراف﴾

وَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿٨٦ الأعراف﴾

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿١٠٣ الأعراف﴾

أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ﴿127 الأعراف﴾

اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿142 الأعراف﴾

إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ﴿73 الأنفال﴾

وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ ﴿40 يونس﴾

إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿81 يونس﴾

آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿91 يونس﴾

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿85 هود﴾

قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ ﴿73 يوسف﴾

وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ﴿25 الرعد﴾

زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ ﴿88 النحل﴾

لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ ﴿4 الإسراء﴾

إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ﴿94 الكهف﴾

لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ﴿22 الأنبياء﴾

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ ﴿71 المؤمنون﴾

الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴿152 الشعراء﴾

وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿183 الشعراء﴾

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿14 النمل﴾

قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا ﴿34 النمل﴾

وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴿48 النمل﴾

يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿4 القصص﴾

نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ﴿83 القصص﴾

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ ﴿30 العنكبوت﴾

وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿36 العنكبوت﴾

أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ ﴿28 ص﴾

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ﴿22 محمد﴾

ان مذکورہ مقامات میں فساد کے ساتھ کہیں اشارتا اور کہیں صراحتا "ارض" کا استعمال ہوا ہے۔ لیکن جہاں مفسدین کے انجام کو بتانا یا اس سے عبرت دلانا مقصود تھا وہاں "ارض" کے اضافہ کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ اور ایسے کل گیارہ مقامات ہیں۔ جو اوپر مذکور ہوئے۔ قرآن کریم میں ان مقامات پہ فساد درج ذیل معنی میں استعمال ہوا ہے۔

 1: کفر کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴾ [البقرة: ٢٧] [   تفسير إبن عطية 1:99،تفسير القرطبي 1: 247،تفسير البيضاوي 1:267، تفسير أبي حيان 1:274،تفسير إبن عجيبة 1: 66 ].

و قوله تعالى: ﴿وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ﴾ [يونس: ٤٠] [تفسير الطبري 15: 94، تفسيرالقرطبي 8: 345، تفسير إبن كثير 4: 270].

وقولہ تعالى: ﴿وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ﴾ [الأعراف: ٨٥] 

2: نفاق کے معنی میں:

قوله تعالى: ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ * أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ ﴾ [البقرة: ١١ - ١٢] [البحر المديد لابن عجيبة 1: 51].

3: معاصی اور گناہ کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ﴾ [الأعراف: ٥٦] [تفسيرالبغوي 3: 238، ابن عطية 2: 277،  القرطبي 7: 226، أبي حيان 4: 313، إبن عجيبة 2: 499].

و قوله تعالى: ﴿وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَاللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ﴾ [الرعد: ٢٥] 

وقوله تعالى: ﴿ تِلْكَ الدَّارُالْآَخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ﴾ [القصص: ٨٣] 

 4: عالمی نظام کی خرابی کے معنی میں: 

و قوله تعالى: ﴿ لَوْ كَانَ فِيهِمَا آَلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ [الأنبياء: ٢٢] [الجامع لأحكام القرآن 11: 279، المحرر الوجيز 4 : 95 ، روح المعاني 17: 25 ، التحرير والتنوير 17: 39].

و قوله تعالى: ﴿قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ ﴾ [النمل: ٣٤] 

5: منکر اور برائی کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ ﴾  [هود: ١١٦] [الطبري 15: 527، القرطبي 9: 113، تفسير إبن عجيبة 3: 344].

6: غارت گری کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا.... ﴾ [المائدة: ٣٣]   [تفسير إبن عطية 2: 215].

 7: فتنہ انگیزی اور جنگ بھڑکانے کے معنی میں: 

قوله تعالى في اليهود: ﴿كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾ [المائدة: ٦٤] 

8: حکومت وسلطنت کے معنی میں: 

 قوله تعالى: ﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴾ [محمد: ٢٢] الرازي 12: 39، القرطبي 6: 241، البضاوي 2: 347، أبي حيان 3: 537].

9: جادو کے معنی میں: 

 قوله تعالى: ﴿قَالَ مُوسَى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ﴾ [يونس: ٨١] [تفسيرالقرطبي 8: 368،  البيضاوي 3: 211 ، تفسير إبن العاشور 11: 256].

10: یتیم کا مال نا حق کھانے کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ﴾ [البقرة: ٢٢٠][ تفسير الطبري 4: 357،  تفسيرالزمخشري 1: 291، تفسيرالقرطبي 3: 66، تفسيرالبضاوي 1 : 506].

11: لواطت کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ﴾ [العنكبوت: ٣٠] [تفسير إبن كثير 6: 276، تفسير الشوكاني 5 : 371].

12: جبر وظلم اور حقوق کی پامالی کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ * فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ﴾ [الفجر: ١١ – ١٢] ﴿ طَغَوْا﴾ ﴿فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ ﴾[القرطبي 20: 49].

13: مسلمانوں پر غلبہ کفار کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ  تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ﴾ [الأنفال: ٧٣] [الجامع لأحكام القرآن 8: 58].

14: چوری کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ ﴾ [يوسف: ٧٣]  [التحرير والتنوير 13: 29].

15: فضاء وماحول کےبگاڑ کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ [الروم: ٤١] [درج الدرر 2 : 438،  الجامع لأحكام القرآن 14: 41].

16: دنیا کے نظام کی خرابی کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ﴾ [المؤمنون: ٧١]   [ تفسيرالطبري 19: 57].

17: ہر قسم کی تعدی سے ممانعت کے معنی میں: 

قوله تعالى: ﴿وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [الأعراف: ٥٦][التحرير والتنوير 8: 173].

و قوله تعالى: ﴿قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا﴾ [الكهف: ٩٤] [البحرالمحيط لأبي حيان 4: 313].

و قوله تعالى: ﴿وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي  الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴾ [النمل: ٤٨] [القرطبي 13: 215].

حدیث رسول میں لفظ فساد کا استعمال:

1: دوران جنگ قتل وتخریب کے معنی میں:

فعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ: «الْغَزْوُ غَزْوَانِ، فَأَمَّا مَن ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ»[أخرجه مالك في الموطأ برقم 998، وأبو داود في الجهاد برقم 2515، والنسائي في الجهاد برقم 3188، والدارمي في الجهاد برقم 2417، والطبراني في الكبير برقم 16933، والحاكم في المستدرك 2: 94 برقم 2435 وقال: صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذهبي]

اس میں اجتناب فساد کی مراد یہ ہے کہ قتل کرنے، مال لوٹنے اور قیدی بنانے میں شرعی اصولوں کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔

[شرح المشكاة للطيبي 8: 2657، فيض القدير للمناوي 4: 411. قوله «ياسر الشريك» أي: ساهل الرفيق، واستعمل اليسر معه نفعًا بالمعونة وكفاية للمؤنة. وقوله: «لم يرجع بالكفاف» أي: لم يعد من الغزو رأسًا برأس، بحيث لا يكون له أجر ولا عليه وزر، بل وزره أكثر؛ لأنه لم يغز لله، وأفسد في الأرض]

2: مال برباد کرنے کے معنی میں: 

فعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «إِذَا أَنْفَقَت الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ وَلِزَوْجِهَا أَجْرُهُ بِمَا كَسَبَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ لَا يَنْقُصُ بَعْضُهُمْ أَجْرَ بَعْضٍ شَيْئًا» [أخرجه البخاري في الزكاة برقم 1359، ومسلم في الزكاة برقم 1024. شرح المشكاة للطيبي 5: 1568، شرح مسلم للنووي 7: 113]

ومن ذلك ما رواه جابر بن عبدالله رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنَّه قال: «أمسِكُوا عَلَيْكُم أَمْوَالَكُم ولا تُفْسِدُوْهَا..»[أخرجه مسلم برقم 1625. إكمال المعلم 5: 358]

3: لڑکی کا بغیر شوہر کے رہنے کے معنی میں (قلت عفت وعصمت):

فعَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ، فَأَنْكِحُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ»، وَفِي رِوَايَةٍ: «عَرِيضٌ»، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَإِنْ كَانَ فِيهِ؟ قَالَ: «إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ» قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ[ أخرجه الترمذي برقم 1085 وقال: حديث حسن غريب، وابن ماجه برقم 1967، والطبراني في الكبير 22: 299 برقم 81614، والبيهقي في السنن الكبرى 7: 132 برقم 13481]

4: دلوں کے بگاڑکے معنی میں: 

فعن النعمان بن بشيرٍ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «..ألاَ وَإنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَت صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، ألاَ وَهِيَ القَلْبُ»[أخرجه البخاري في الإيمان برقم 52؛ ومسلم في المساقاة برقم 1599، واللفظ له. عن النعمان بن بشيررضي الله عنه]

5: اجتماعی تعلقات کے بگاڑ کے معنی میں:

فعَنْ أبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه عَنْ رسول الله صلى الله عليه وسلم قَالَ: «ألا أخْبِرُكُمْ بِأفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامَ وَالصلاة والصدقة؟»، قَالُوا: بَلَى يَا رسول الله، قَالَ: «إِصْلاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفًسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ»  [أخرجه البخاري في الأدب المفرد ص142 برقم 391، وأحمد في مسنده 6: 444 برقم 27548، وأبو داود برقم 4919، والترمذي برقم 2509 وقال: حديث صحيح، وابن حبان في صحيحه 11: 489 برقم 5092. [شرح المشكاة للطيبي 10: 3213 - 3214]

6: لوگوں کے احوال کی تبدیلی کے معنی میں: 

فعنْ إبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، أَوِ ابْن أَبِي الْمُغِيرَةِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِصلى الله عليه وسلم: «طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ»، قِيلَ: وَمَنِ الْغُرَبَاءُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يُصْلِحُونَ حِينَ يُفْسِدُ النَّاس» [أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف 13: 237 برقم 235]

امام بیضاوی نے فساد فی الارض کی تعریف میں لکھا ہے: "الاخلال بالشرائع الالھیۃ" یعنی اللہ کی نازل کردہ شریعت میں خلل ڈالنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا "فساد فی الارض" ہے۔ امام شاہ ولی اللہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے زمین میں اصلاح ہوتی ہے اور شریعت کے خلاف کرنے سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں پاکیزہ عقیدے، پاکیزہ عمل، خدا کے سامنے عاجزی اور عدل و انصاف کے قیام سے انسان کا مزاج درست رہتا ہے اور وہ فرشتوں کے مزاج کے ساتھ مل جاتا ہے مگر جب انسان میں عقیدے کی نجاست آجاتی ہے اخلاق اور عمل کی نجاست پیدا ہوجاتی ہے۔ عاجزی کی بجائے غرور، احسان کی بجائے لوٹ کھسوٹ اور عدل کی جگہ ظلم لے لیتا ہے تو پھر انسان کا مزاج بگڑ جاتا ہے۔ اس کی مثال حلال جانوروں کی ہے جن کا ہم دودھ پیتے اور گوشت کھاتے ہیں۔ جب تک یہ جانور: اونٹ، گائے، بھینس، بھیڑ، بکری وغیرہ گھاس کھاتے رہیں گے ان کا مزاج درست رہے گا اور اگر ان میں سے کوئی جانور چارے کی بجائے گوشت کھانا شروع کردے تو اس کا مزاج بگڑ جائے گا، پھر اس کا دودھ قابل استعمال رہے گا اور نہ گوشت، اس لئے شریعت میں گندگی کی کھانے والے جانور کا گوشت مکروہ تحریمی میں آتا ہے کیونکہ گندی چیزیں کھانے سے اس کا مزاج بگڑجاتا ہے اور اس کا دودھ اور گوشت قابل استعمال نہیں رہتا۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ: "ایسے جانور کو کم از کم دس دن تک باندھ کر رکھو تاکہ وہ گندگی نہ کھائے اس دوران اسے پاک چارہ کھلائو، تب اس کا دودھ اور گوشت کھانے کے قابل ہوگا-" شریعت الٰہیہ کو قائم رکھنے سے انسان کا مزاج درست رہتا ہے اور جب وہ شرائع کی پابندی چھوڑ دیتا ہے تو مزاج بگڑ جاتے ہیں اور پھر تباہی و برباد کی کی قریب ہوجاتا ہے۔ ان نصوص کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل وخون ریزی کے ذریعہ نفس انسانی میں بگاڑ، محرمات کے ارتکاب سے بدن انسانی میں بگاڑ، لوٹ کھسوٹ چوری، ڈاکہ زنی، سودی کاروبار، رشوت وکرپشن کے ذریعہ اموال انسانی میں بگاڑ، کفر وشرک، بدعات وخرافات، یہودی عیسائی اور صہیونی طاقتوں سے ولاء ودوستی اور انہیں مسلم زمین کی فراہمی کے ذریعہ دین ومذہب  میں  بگاڑ، زناء کاری و فحاشی کی ترویج، رقص وسرود کی محفلوں اور نائٹ کلبوں کے ذریعہ نسل انسانی میں بگاڑ، شراب اور دیگر تمام مخدرات ومنشیات کی ارزانی وفراوانی کے ذریعہ عقل انسانی میں بگاڑ جب پیدا ہوجائے تو پھرانسانی معاشرہ بالکل فاسد ہوجاتا ہے۔ امن وامان ختم ہوجاتا ہے۔ انتہائی قابل افسوس پہلو ہے کہ گزشتہ دسیوں سال سے سرزمین انبیاء غیرمنقسم شام میں بدقسمتی سے فساد کی یہ  ساری قسمیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ حالانکہ ملک شام کے اسی بابرکت خطے سے دنیا کا امن وامان بھی وابستہ تھا۔ یہاں کے لوگوں کی اعتقادی اور عملی زندگی کی پوری عمارت دینی فرائض اور شرعی آحکام پہ استوار ہونی چاہئے۔ کتاب وسنت کی حفاظت واشاعت، جہاد فی سبیل اللہ، خلق خدا کی نفع رسانی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احساس ذمہ داری کے ساتھ اعلاء کلمة اللہ اور دعوت الی اللہ زندگی کا نصب العین ہونا چاہئے۔ لیکن نفس، نسب، مال، عقل دین وعقیدہ میں حد درجہ فساد کی وجہ سے نبوی پیشین گوئی حرف بحرف صادق آئی۔ اور پورے خطے پہ یہودی اور صہیونیوں کا راج ہوگیا۔ بشارالاسد جیسا درندہ صفت بھیڑیا ڈھائی لاکھ سے زیادہ بے گناہوں کے قتل سے اپنا ہاتھ رنگ چکا ہے۔

اذا فسد اھل الشام:

سے دینی واخلاقی فساد مراد ہے۔ شام مکمل طور پر کبھی بھی تباہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی حفاظت کے لئے نگراں فرشتے پر بچھائے تیار ہیں۔ حدیث کا دوسرا ٹکڑا "ولاتزال طائفة من أمتي منصورين. لايضرهم من خذلهم حتي تقوم الساعة" خود اس مفہوم کی تکذیب کررہا ہے کہ شام میں موجود اس طائفہ کو دنیا کی کوئی طاقت ختم کردے! 

واللہ اعلم بالصواب 

١٤\٦\١٤٣٩ ہجری
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2024/11/3201-2232-3202.html
( #ایس_اے_ساگر)