Friday 1 November 2024

اپنی چال ہی بھول گیا

اپنی چال ہی بھول گیا
فضیلۃ الشیخ ثناء اللہ عبدالرحیم بلتستانی جب بھی پکارتے ہیں تو ’’اے ابونثر! اے ادیبِ لبیب کالزّبیب!‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ ’ادیب‘ کا لفظ سن کر تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ایک ’شیخ الشرع‘ نے ہمیں ’ادیب‘ قرار دے ڈالا۔ مگر ’لبیب اور زبیب‘ کے القاب سن کر ذرا سہم، بلکہ سکڑ جاتے ہیں کہ ’’یااللہ یہ کون سی دو بلائیں ہیں، جو حضرت ہمارے نام کو لگائے ہیں؟‘‘
لغت سے رجوع لائے تو معلوم ہوا کہ ’لبیب‘ تو عقل مند اور دانا کو کہتے ہیں، لیکن ’زبیب‘ کہتے ہیں کشمش کو۔ ’کالزّبیب‘ (تلفظ: ’کَزَّبِیب‘) کے معنی ہوئے ’کشمش جیسا‘۔ نہ جانے شیخ نے یہ لقب ہماری تحریروں کی مٹھاس سے متاثر ہوکر دیا ہے یا ہمارا چُرمُر چہرہ دیکھ کر۔
شیخ کی بات یوں یاد آئی کہ کل ایک اور صاحب ہمیں ادیب کہہ بیٹھے۔ یہ صاحب محقق ہیں اور ایک سرکاری جامعہ سے اُردو میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں دیکھا تو دیکھتے ہی فرمایا:
’’قبلہ! آپ تو ادیب ہیں۔ ذرا یہ بتایئے کہ اُردو میں ‘Deduction’ کے لئے بھی کوئی لفظ ہے یا نہیں؟‘‘
’’ہاں ہاں، ہے کیوں نہیں؟‘‘ ہم نے کمیاب مال بیچنے والے دُکان داروں کی سی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔
پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘
کہا: ’’استخراج!‘‘
بلبلا کر بولے: ’’اس سے تو ‘Deduction’ ہی بہتر ہے‘‘۔
حیرت سے استفسار کیا: ’’وہ کیسے؟‘‘ 
فرمایا: ’’نامانوس لفظ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بولتے ہی قے ہوجائے گی۔‘‘
عرض کیا: ’’قے کو ’استفراغ‘ کہتے ہیں۔ رہا نامانوس ہونے کا معاملہ، تو اُردو کے لئے ‘Deduction’ کون سا مانوس لفظ ہے؟‘‘
صاحبو! الفاظ اور اصطلاحات کو بول بول کر مانوس بنایا جاتا ہے۔ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد ’بریکنگ نیوز‘ بول بول کر اسے سامعین و ناظرین کے لئے مانوس بنانے کی بھرپور جدوجہد کی ہے۔ جب کہ ’تازہ خبر‘ کو باسی جان کر استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے، اس وجہ سے یہ عام فہم ترکیب نامانوس ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے ابلاغی دانشوروں کے پاس شاید اب ذاتی عقل و دانش نہیں رہی۔ وہ محض نقال بن کر رہ گئے ہیں۔ نقال کتنی ہی اچھی نقل کیوں نہ اُتارنے لگے، رہے گا نقال کا نقال۔ موجد نہیں بن سکتا۔ اِنھیں نقالوں کی وجہ سے وہ زمانہ لد گیا جب کوّے ہنس کی چال چلا کرتے تھے۔ اب تو ہمارے راج ہنس ہی پھدک پھدک کر کوّوں کی چال چل رہے ہیں۔
’استخراج‘ ہمارے محققِ محترم کو کیوں نامانوس لگا؟ فقط یہ بات کہ قومی زبان سے اُنسیت دیدہ و دانستہ ختم کی جارہی ہے۔ ہمارے قومی رہنما، قوم کے معزز منصفین اور قومی قانون ساز ہی نہیں، معلمینِ قوم سمیت سب ہی پاکستان میں، پاکستانیوں سے برطانوی زبان بول بول کر اپنی گردن اکڑاتے ہیں۔ شاید اب یہ قومی زبان بول بھی نہیں سکتے کہ محاورہ کہتا ہے: ’’…اپنی چال بھی بھول گیا۔‘‘
’استخراج‘ کا لفظ خارج ہوا ’خَرَجَ‘ سے۔ ’خَرَجَ‘ کے معنی ہیں ’وہ نکلا‘۔ اس ایک لفظ سے بہت سے ایسے الفاظ نکل آئے جو اُردو میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اِخراج یعنی نکال دینا۔ خراج یعنی محصول یا لگان، جو یوں تو بالجبر وصول کیا جاتا ہے، لیکن اگر ہمیں کسی کی کوئی بات اچھی یا حسین لگے تو اُسے راضی خوشی’خراجِ تحسین‘ پیش کرتے ہیں۔ کسی سے عقیدت ہوجائے تو اُسے ’خراج عقیدت‘ پیش کیا جاتا ہے۔ خارج کا لفظ بھی بہت سے معنوں میں عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی دائرے، حلقے یا حدود سے باہر، الگ، بیرونی، داخل کی ضد یا وہ جو شامل نہ ہو۔ اسی برصغیر میں جب کسی کو شہر بدر کیا جاتا تھا تو اُسے ’خارج البلد‘ قرار دیا جاتا تھا۔ عربوں کے ہاں غیر ملکی کو بھی خارجی کہتے ہیں، جب کہ اصطلاحاً وہ لوگ ’خارجی‘ ہیں جو سیدنا علیؓ کی خلافت کو برحق نہیں مانتے۔ ان کی جمع خوارج ہے۔ خارجہ کا لفظ بھی بہت بولا جاتا ہے۔ اُمورِ خارجہ، وزارتِ خارجہ اور وزیرِ خارجہ۔ ان سب کا تعلق خارجی یعنی غیرملکی معاملات سے ہے۔ مخرج کا لفظ بھی خوب استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں نکلنے کی جگہ۔ جمع اس کی مخارج ہے۔ خروج باہر نکلنا یا ظاہر ہونا۔ ’تحقیق‘ سے ہم مانوس ہیں، لیکن ’تخریج‘ سے نہیں، جس کا مطلب ہے نصوص سے احکام اخذ کرنا یا حوالہ نکالنا۔ ہر وقت استعمال کرنے کی وجہ سے لفظ ’استعمال‘ نامانوس نہیں رہا کہ استعمال کا مخرج ’عمل‘ ہے، یعنی کسی چیز کو عمل یا مصرف میں لانا اور برتنا۔ لیکن ’استخراج‘ کو نہ جانے کیوں نامانوس کہا گیا جس کے معنی ہیں اخذ کرنے کا عمل، نتیجہ نکالنے کا عمل یا استنباط کرنے کا عمل۔ ایک دلچسپ بات آپ کو اور بتاتے چلیں کہ عربی میں ’ر‘ ساکن کے ساتھ ’خرج‘ بولا جاتا ہے جو اُردو میں آکر ’خرچ‘ بن گیا ہے اور خرّاج [بہت زیادہ خرچ کرنے والے] شخص کو ہم بھی ’خرّاچ‘ کہنے لگے ہیں۔
محترم گلزار احمد صاحب نے حاصل پورمنڈی، بہاول پور سے ہمیں ایک نہایت طویل خط بھیجا ہے۔ خط کیا لکھا ہے، ’خطِ استوا‘ لکھ دیا ہے، جو پورے کرۂ ارضی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس خط سے ہم اپنی اور اپنے قارئین کی اصلاح پر مشتمل ایک مختصر اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، کہ ان کالموں کا مقصد ہی ’غلطی ہائے مضامین‘ کی اصلاح ہے:
’’۱۸؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو شائع ہونے والا ’’غلطی ہائے مضامین‘‘ بہ عنوان ’الفاظ کے سر پر نہیں اڑتے معنی‘ حسب سابق معلومات کا ذخیرہ تھا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سماجی رابطوں کے ذرائع ابلاغ میں لفظ ’بالکل‘ کا املا جس تیزی سے ’بلکل‘ رواج پا رہا ہے، اس کی اصلاح کے لئے ہر صاحبِ علم کو اپنا فریضہ ادا کرنا چاہئے۔ وطنِ عزیز میں اس وقت جو کھلواڑ اُردو کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہماری ’فیس بک‘ کے علم سے ’نشو و نَما‘ پانے والی نوجوان نسل مستقبل میں ’بلکل‘ ہی کو سند قرار دینے پر مصر دکھائی دے۔ آپ کا یہ لکھنا کہ ’ال‘ تخصیص کے لیے آتا ہے ‘The’ کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ بے شک و شبہ درست ہے، مگر بالکل میں ’ال‘ تخصیص کے لئے استعمال نہیں ہوا، بلکہ یہ ’ال‘ تعریفی ہے، جو حرفِ جر ’بِ‘ کو، کُل کے ساتھ ملانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ جیسے: بالقرآن، بالقلم، بالکتاب، بالتفصیل، بالعموم اور بالخصوص وغیرہ میں۔ ان الفاظ (قلم، کتاب، تفصیل، عموم اور خصوص) کے شروع میں ’ال‘ لگا کر انھیں اسمِ مَعرِفَہ نہیں بنایا گیا، بلکہ عربی زبان کا اُصول یہ ہے کہ جب کسی اسم کے ساتھ کوئی بھی حرفِ جر ملایا جاتا ہے تو اُس اسم سے پہلے ’ال‘ لگایا جاتا ہے۔ بعض اسما میں یہ ’ال‘ لکھنے، پڑھنے اور بولنے یعنی تینوں صورتوں میں آواز دیتا ہے اور بعض اسما میں یہ ’ال‘ لکھنے میں تو آتا ہے مگر بولنے اور پڑھنے میں نہیں آتا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کے حروفِ تہجی کی تعداد اٹھائیس ہے۔ (بعض ہمزہ کو شامل کرکے اس کی تعداد اُنتِیس شمار کرتے ہیں، مگر ہمزہ حرفِ اصلی نہیں ہے۔ کیوں کہ جب الف پر زبر، زیر یا پیش آجائے تو عربی میں اُس ’الف‘ کو ہمزہ پڑھا جاتا ہے) ان اٹھائیس حروفِ تہجی میں سے چودہ حروف قمری ہیں اور چودہ شمسی۔ قمری حروف کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولنے اور پڑھنے میں آتا ہے، جیسے القمر، الکاتب اور الحق وغیرہ، مگر شمسی حروف کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولنے اور پڑھنے میں نہیں آتا، جیسے الشمس، الرشید اور الثاقب وغیرہ۔ کسی ادیب نے ’’حق کا خوف عجب غم ہے‘‘ کَہہ کر ان حروفِ قمری کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یعنی اس جملے’حق کا خوف عجب غم ہے‘ میں چودہ حرف استعمال ہوئے ہیں، جو کہ قمری حروف ہیں۔ ان کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولا بھی جائے گا اور پڑھا بھی، جب کہ باقی رہ جانے والے چودہ حرف شمسی ہیں، ان کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولا اور پڑھا نہیں جائے گا۔ لفظ ’بالکل‘ میں یہی اصول کارفرما ہے۔ یعنی ’الکل‘ میں ’ک‘حرفِ قمری ہے۔ اس کے شروع میں ’بِ‘ حرفِ جر لگانے کے لئے ’ال‘ لکھا گیا ہے، جوحرفِ جَر ’ب‘ لگانے کے بعد (بالکل) بولنے اور پڑھنے میں آرہا ہے۔ جب کہ ’تفصیل‘ میں ’ت‘ حرفِ شمسی ہے۔ اس کے شروع میں ’بِ‘ حرفِ جر لگانے کے لئے ’ال‘ لکھا گیا ہے، جو بولنے اور پڑھنے میں (بالتفصیل) کی آواز دے رہا ہے۔ یعنی ’ل‘ لکھا ہونے کے باوجود (لام) کی آواز پیدا نہیں ہورہی۔ پس جان لیجئے کہ ’بالکل‘ میں’کُل‘ سے پہلے ’ال‘ تعریفی ہے، تخصیصی نہیں۔‘‘
بقلم: احمد حاطب صدیقی (ابونثر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/11/blog-post.html





Wednesday 30 October 2024

ہم نے مدرسہ کیوں چھوڑا

ہم نے مدرسہ کیوں چھوڑا؟
سوچا کہ مدارس کے اندر کے پوشیدہ حقائق اور مہتمم گردی کی پراسرار داستانیں اب سوشل میڈیا پر آ ہی رہی ہیں تو کیوں نہ ہم بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالیں اور اپنے ساتھ 8 سال تک روا رکھے جانے والے دلخراش مظالم کی منظر کشی کریں ۔ سو مدارس کے طلبہ و مدرسین کے غم میں دن رات گھلنے والے انسانیت کے چاچے مامے ذرا قریب قریب آجائیں۔
تو قصہ یہ ہے دوستو کہ جب ہم نے درجہ اولی پڑھنے کے لیے جامعہ خیرالمدارس ملتان میں داخلہ لیا تو سب سے پہلی بات یہ معلوم ہوئی کہ یہاں نہ تو کوئی داخلہ فیس ہے اور نہ ہی ماہانہ فیس۔ مطلب پہلے ہی قدم پر ہم سے وہ خوشی چھین لی گئی جو ہر ماہ ابو سے اسکول فیس کے نام پر کڑکڑاتے نوٹ وصولتے وقت ہوا کرتی تھی۔ پھر اسباق شروع ہوئے تو پتہ چلا کہ یہاں تو سارے اساتذہ صنفِ کرخت سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی اب "تصویرِ کائنات کے رنگ" بھی دکھائی نہیں دیں گے۔ اور تو اور مدرسے آکر "یہاں سے وہاں تک یاد کرکے آنا، کل سنوں گی" والی مدھر آوازیں سنے کو بھی کان ترس گئے، کیونکہ یہاں تو اساتذہ کتاب کا ایک ایک لفظ جان مارکر سمجھاتے تھے اور ہم پر یاد کرنے اور اگلے دن سنانے کا ستم بھی ڈھاتے تھے۔ کچھ کچھ ماحول سمجھ آیا تو پتا چلا کہ یہاں "he loves her" اور "she loves him" کے موٹیویشنل سلوگنز کی بجائے "ضرب یضرب" کی گردانیں کہلوائی جاتی ہیں جن سے شر کی قوتوں کے خلاف شدت پسندی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
جوں جوں یہ سفر کٹتا گیا، ہم پر مدارس کی چار دیواری میں پوشیدہ حقائق کھلتے گئے ۔ یہ خوفناک تجربہ بھی ہوا کہ یہاں تو ہمیں ہفتے میں کم از کم دو دن مفت میں بکرا کھلا کر موٹاپے کا مریض بنانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اور پھر ہمیں پڑھائے جانے والے مضامین کو ذرا دیکھئے! صرف، نحو، منطق، بلاغت، ادب، فلسفہ، عقائد، فقہ، تفسیر اور حدیث جیسے مضامین جو خدا کی خوشنودی تک تو پہنچا سکتے ہیں لیکن مال پانی بنانے اور سُندر زنانی پھنسانے کے گر نہیں سکھا سکتے۔ مطلب "لائف انجوائے " کرنے کا پروگرام تو وڑ گیا ۔  اندازہ کیجیے کہ ہمیں 8 سال کے دوران ایک مرتبہ بھی ڈانس پارٹی اور میوزک کنسرٹ جیسی تفریحات فراہم نہیں کی گئیں۔
امتحانات کے موقع پر تو بنیادی حقوق کی اس حد تک خلاف ورزی کی جاتی کہ انسانی بنیادوں پر اپنے مجبور و پریشان حال بھائیوں کی مدد کرنے اور کسی ورلڈ بینک ٹائپ طالبعلم سے بحالتِ مجبوری امداد لینے کو بالکل ہی ممنوع قرار دے دیا جاتا ۔ امتحان ہال میں جا کر صاف پتہ چلتا تھا کہ خون کیسے سفید ہوتے ہیں اور بے رخی و بے حسی کس کیفیت کا نام ہے۔ بے چارے طالبعلموں کی شکلیں غریب افریقی ممالک کے بوندِ آب کو ترستے بچوں جیسی بھی بن جاتیں لیکن مجال ہے کہ کسی استاد یا فرمانبردار طالبعلم کو ذرہ بھر رحم آتا ہو۔ اور تو اور، ادھر روکڑا شوکڑا بھی نہیں کام نہیں آتا تھا کہ جس کا قاضی الحاجات ہونا مسلّمات میں سے ہے۔
ان 8 سال کے دوران ہمارا واسطہ جن اساتذہ سے پڑا وہ بھی عجیب اللہ کے ولی تھے۔ نہ اپنی صحت کا خیال کرتے، نہ گرمی سردی اور آندھی طوفان دیکھتے، نہ کم تنخواہوں کو خاطر میں لاتے ۔ بس گھنٹی بجنے کی دیر ہوتی کہ وہ ٹھک سے مسند پر آموجود ہوتے۔ ستم بالائے ستم کہ ان کی لغت میں تدریس کا مطلب پورا گھنٹہ سبق پڑھانا تھا۔ دورانِ سبق نہ تو کالیں کرتے، نہ فیسبک چلاتے، نہ اخبار پڑھتے اور نہ ہی ان کے ہاں آدھا وقت پڑھا کر رفو چکر ہونے کی کوئی ترتیب تھی۔ اوپر سے طالبعلموں پر ایسی شفقت برتتے کہ کبھی کبھی تو ہماری شاگرد ہونے والی فیلنگ ہی ختم ہوجاتی تھی۔
آخری سال "دورہ حدیث" آیا تو مولانا محمد حنیف جالندھری نامی اس شخصیت سے آمنا سامنا ہوا جسے مہتمم کہا جاتا ہے۔ سنا تھا کہ بڑے ظالم و جابر قسم کے انسان ہیں۔ سو اس خیال کی حرف بحرف تصدیق ہوئی۔ بھئی اب اس سے بڑا بھی کوئی ظلم ہو گا کہ آپ اتنے مصروف ہونے کے باوجود بھی روزانہ ہی بخاری پڑھانے آجائیں اور وہ بھی پورے مطالعے اور تیاری کے ساتھ! نہ ہی چھٹیاں اور نہ ہی کوئی غیر تحقیقی ٹرخاؤ پروگرام!اساتذہ کے ساتھ سلوک ایسا تحکمانہ کہ 40، 40 اور 50 50 سال انہیں پڑھاتے ہوئے گزرگئے لیکن مجال ہے جو مہتمم صاحب نے کبھی کسی پر ترس کھا کر اس کا اخراج کیا ہو۔ یہ تو وہ ظلم ہے جو مدرسے میں تھا ، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی چیرہ دستیوں سے تو بڑے بڑے شرفاء، زردار اور خوانین تک محفوظ نہ تھے۔ بس کوئی غلطی سے مدارس کے خلاف کچھ لکھے بولے سہی، اس کا تو وہ حال کرتے تھے کہ وہ بیچارا گھٹنے ٹیکنے میں ہی عافیت سمجھتا تھا۔ بدمعاشی ایسی تھی کہ وزیرِ اعظم بھی اگر کوئی حکم جاری کرتا اور وہ ان کی طبعِ شاہانہ کے موافق نہ ہوتا تو اسے مسترد کرنے کا اعلان ایسے کرتے تھے جیسے ناک سے مکھی اڑائی ہو۔ مطلق العنانی کا یہ عالم تھا کہ وفاق المدارس سے ملحق سینکڑوں مدارس اکیلے ہی سنبھالے ہوئے تھے، مجال ہے جو تقسیم کے کسی عمل کو چلنے دیں اور کسی اور کو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر لیڈر بننے کا موقع فراہم کریں۔
آخر ہم بھی گوشت پوست کے انسان تھے، کس قدر برداشت کرتے! سو ابھی "ضرب یضرب" سے شروع ہونے والا صعوبتوں بھرا سفر "کلمتان حبیبتان" تک ہی پہنچا تھا کہ ہمارے صبر کے پیمانے لبریز ہوگئے۔ ضبط کا دامن چھوٹ گیا اور برداشت جواب دے گئی ۔ سو بوریا بستر سمیٹا اور مدرسے کو الوداع کہنے کا جرأتمندانہ اور دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ مدرسہ تو ہم نے چھوڑ دیا لیکن یہ بات ہمیں آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر ظلم و جبر کے اس مرکز اور انسانی حقوق کی اس قربان گاہ کی دہلیز پار کرتے وقت ہماری ان کمبخت آنکھوں کو کیا ہوا تھا کہ خواہ مخواہ بہہ کر آزادی کا مزہ خراب کررہی تھیں۔
اس سلسلہِ جبر کا سب سے کربناک پہلو یہ ہے کہ ظلم و ستم کی چکی میں دن رات پسنے کے باوجود بھی ہم طلبہ کے ذہن اس قدر ماؤف ہوچکے تھے کہ نہ تو ہمیں کبھی احتجاج کا خیال آتا، نہ کلاسوں کا بائیکاٹ سوجھتا اور نہ ہی سوشل میڈیا پر اشک باری کی ہمت ہوتی۔ یہ تو اب ماحول دیکھ کر کچھ ہمت ہوئی ہے اور ڈرتے، جھجھکتے اور کانپتے ہوئے قلم اٹھایا ہے کہ متاعِ کارواں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ کہیں احساسِ زیاں بھی نہ جاتا رہے ۔ بس اب بہت ہوگیا۔ آخر کو اپنے لبرل مہربانوں کے لئے بھی تو کچھ مواد باقی چھوڑنا ہے۔
والسلام 
مظلوم المدارس
محمد اسامہ ملتانی ( #ایس_اے_ساگر )

میری جانب بھی ہو اک نگاہ کرم

میری جانب بھی ہو اک نگاہ کرم اے شفیع الوریٰ خاتم الانبیاء
آپ نور ازل آپ شمع حرم آپ شمس الضحیٰ خاتم الانبیاء

آپ ہیں حق نگر، آپ ہیں حق رساں، سدرۃ المنتہیٰ آپ کے زیر پا
آپ ہیں مظہر ذات رب العلیٰ، رہبر حق نما خاتم الانبیاء

اے فصیح البیاں، اے بلیغ اللساں، اے وحید الزماں، ماورائے گماں
آپ کا نور ہے از کراں تا کراں، شاہد کبریا خاتم الانبیاء

مرسل مرسلاں، سرور عرشیاں، ہادی انس و جاں مقبل مقبلاں
آپ کی ذات ہے باعث کن فکاں، راز ارض و سما خاتم الانبیاء

آپ فخر عجم، آپ شان عرب، آپ فضل اتم، آپ رحمت لقب
سرور ذی حشم شاہ والا نسب، مرتضیٰ، مجتبیٰ خاتم الانبیاء

آپ ہیں وجہ تخلیق کون و مکاں، آپ کے دم سے ہیں یہ زمیں آسماں
آپ ہیں بے نشانی کا بیّن نشاں، اے شہ دوسرا خاتم الانبیاء

آپ کے سر پہ لولاک کا تاج ہے، آپ ہی کو فقط فخر معراج ہے
آپ کے ہاتھ اسلام کی لاج ہے، یا نبی مصطفےٰ خاتم الانبیاء


https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_9.html

نکاح میں عورت کی رضامندی اور گواہوں کی گواہی ضروری ہے تو طلاق میں ایسا کیوں نہیں؟

نکاح میں عورت کی رضامندی اور گواہوں کی گواہی ضروری ہے تو طلاق میں ایسا کیوں نہیں؟؟؟
سوال: شریعت نے عورت کو طلاق کے قبول کرنے یا کرنے کے بارے میں اختیار کیوں نہیں دیا گیا جیساکہ نکاح میں دیا گیا ہے ( عموماً غیرمسلم سوال کرتے ہیں)
-------------------------------
الجواب وباللہ التوفیق:
نکاح کرلینے سے مرد کو یک گونہ عورت پہ ملک حاصل ہوجاتا ہے۔ عورت اب آزاد باقی نہیں رہتی۔شوہر کے لئے وہ محبوس ہوجاتی ہے ۔اسی حبس کے عوض شوہر پر مالی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ عورت کی یہ آزادی متعدد دینی ودنیوی مقاصد و مصالح کی خاطر بذریعہ نکاح چھین لی جاتی ہے۔ اس لئے نکاح  کی صحت جمہور علماء کے مذہب کے مطابق اس کی رضامندی پر موقوف ہے۔ اور اعلان اور گواہوں کی گواہی اس لئے ضروری ہے تاکہ نکاح ناجائز تعلقات سے ممتاز ہوجائے۔ علاوہ ازیں نکاح سے متعاقدین کے علاوہ بچے کا حق بھی وابستہ ہے۔ اس لئے بھی گواہی ضروری ہے تاکہ بچہ کی پیدائش کی صورت میں باپ ثبوت نسب کا انکار کرکے نومولود کی زندگی سے کھلواڑ نہ کرسکے۔ طلاق اسی ملک نکاح کو زائل کرنے اور عورت کی آزادی سے پابندی اٹھادینے کا نام ہے تاکہ عورت اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جائے۔ اس رفع قید نکاح میں نہ کسی غیرمتعاقدین کا حق وابستہ ہے۔ نہ ناجائز تعلقات سے کسی کو ممتاز کرنا مقصود ہے۔ اس لئے اب اس میں نہ شہادت ضروری ہے نہ عورت کی رضامندی۔
نکاح کی حیثیت اسلام میں ایک معاہدہ کی ہے جس کے نیچے دو آدمی زندگی گذارنے کا عہد کرتے ہیں مرد کی طرف سے مہر نان نفقہ کسوہ سکنی وحسن معاشرت کی شرط ہوتی ہے جبکہ عورت کی طرف سے پاکدامنی اور فرمانبرداری کا عہد وپیماں ہوتا ہے۔ جس طرح دنیا کے دیگر معاہدے شرطوں کے ٹوٹ جانے سے  ازخود منسوخ ہوجاتے ہیں، ایسے ہی معاہدہ نکاح بھی شرطوں کی پاسداری نہ ہونے سے ٹوٹ جائے گا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مرد کی طرف سے اگر شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خود بخود نکاح توڑنے کی مجاز نہیں ہوگی بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ نکاح توڑ سکتی ہے، جیساکہ ولی کے ذریعہ سے شادی کرواسکتی یے اور یہ کمی اس کی فطرت اور نقصان عقل کی وجہ سے یے۔ لیکن مرد جیسے اپنے اختیار سے معاہدہ نکاح باندھ سکتا ہے ایسا ہی عورت کی طرف سے شرائط نکاح ٹوٹنے کے وقت طلاق دینے میں بھی خود مختار ہوگا۔ نہ اس میں عورت کی رضاء چاہئے نہ گواہوں کی گواہی۔ ہاں گواہ بنالے تو بہتر ہے۔ فطرت اور عالمی معاہدہ قانون کی عکسی تصویر ہے یہ نظام ۔۔
ھذا ماتیسر لی فی العجالة.والله أعلم وعلمه أتم وأكمل. 
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_30.html

Tuesday 29 October 2024

انسان کے پاؤں میں کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں

انسان کے پاؤں میں کتنی ہڈیاں ہوتی ہیں؟
انسانی پاؤں ایک حیاتیاتی معجزہ ہے، ہر پاؤں میں 26 ہڈیاں ہیں جبکہ دونوں پاؤں میں کل 52 ہڈیاں ہیں۔ یہ انسانی جسم کی کل 206 ہڈیوں میں سے ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں، جو تمام ٹخنوں کے نیچے پیک ہیں۔ ہڈیوں کی یہ کثافت پیچیدہ حرکات کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جو ہمیں درست چلنے، دوڑنے، چھلانگ لگانے اور توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس پیچیدہ جال کے بغیر، روزمرہ کی سرگرمیاں بہت زیادہ مشکل اور کم مستحکم ہوں گی۔ پاؤں میں ہڈیوں کی یہ گھنی ترتیب صدمے کو جذب کرنے اور وزن کو تقسیم کرنے کے لئے ضروری ہے۔ ہر ہڈی، جوڑوں، لیگامینٹس اور ٹینڈنز کے ساتھ مل کر، جسم کی حرکات کو سہارا دینے کے لئے ہم آہنگی سے کام کرتی ہے۔ یہ ڈیزائن پاؤں کو ایک اسپرنگ کی طرح کام کرنے دیتا ہے، ہر قدم کے ساتھ توانائی کا ذخیرہ جاری کرتا ہے۔ اس طرح کی ساخت کی پیچیدگی ہمیں پھرتی اور برداشت کے ساتھ حرکت کرنے کی یقین دہانی کرواتی ہے، چاہے ہم دوڑ رہے ہوں یا محض چل پھر رہے ہوں۔ لہذا، اگلی بار جب ہم آپ قدم اٹھائیں، یاد رکھیں کہ ہم ایک نفیس انجینئرنگ شاہکار پر کھڑے ہیں جو ہماری توقع سے زیادہ ہڈیوں کا بوجھ برداشت کرتا ہے۔
چلتے چلتے ذرا کسی چیز سے ٹھوکر لگتی ہے یا پاؤں کے نیچے کچھ نوک دار چیز آنے سے بچنے کی کوشش میں پاؤں کی کسی ہڈی میں چیخنے کی اذیت محسوس ہوتی ہے سوجن ہوتی ہے، چلنے پھرنے سے قاصر جب ہمیں ان ہڈیوں کے حسین امتزاجی جوڑ پر اظہار تشکر کا احساس ہوگا۔ ( #ایس_اے_ساگر )

Saturday 26 October 2024

ایودھیا فیصلے کا الزام خدا پر نہیں ڈالنا چاہئے

جسٹس چندرچوڑ کو اپنےقابل مذمت ایودھیا فیصلے کا الزام خدا پر نہیں ڈالنا چاہئے 

تحریر: سِدھارتھ وَرَادَراجن 

22 اکتوبر 2024

ترجمانی: مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ

25 اکتوبر 2024

ہندوستان کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اس ہفتے کے آخر میں مہاراشٹرا میں ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی عدالت عظمیٰ کے سب سے زیادہ متنازع فیصلوں میں سے ایک کے بارے میں_جس کا وہ حصہ رہے ہیں_ ایک حیران کن انکشاف یہ کہتے ہوئے کیا "اکثر ہمارے سامنے ایسے مقدمات ہوتے ہیں (جن کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے) لیکن ہم کسی حل تک نہیں پہنچ پاتے، ایودھیا (بابری مسجد) تنازعے میں بھی ایسا ہی ہوا جو تین ماہ تک میرے سامنے رہا بالآخر میں اپنے معبود کے سامنے بیٹھا اور کہا کہ اسے حل نکالنا ہوگا۔"

ہندوستان کے اعلیٰ ترین جج نے مذکورہ قضیہ کے حل کی اس قدر واضح تفصیل فراہم کی ہے کہ ہم اُس "حل" کی تصویر کشی کر سکتے ہیں، جو فیصلہ جسٹس چندرچوڑ اور ان کے ساتھیوں نے بالآخر سنایا اس کے مطابق دیوتا کا تقاضہ تھا کہ "زمین مجھے دے دو تاکہ میرے نام پر ایک اور مندر بن سکے…"

جب دیوتا بول چکے تو ججوں کے لیے صرف ایک کام باقی رہ گیا تھا اس"حل" کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق قانونی دلائل کے کپڑے میں لپیٹنا، جب مندر محفوظ ہوگیا تو دیوتا نے ان پانچوں ججوں کو ان کے عقیدے اور عقیدت مندی کا اعزاز جو انہوں نے اس خدائی فیصلے میں دکھایا تھا یوں دیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی راجیہ سبھا کی رکنیت سے سرفراز ہوئے، بنچ کے دو جونیئر جج وقت کے ساتھ چیف جسٹس بن گئے اور باقی دو ججوں میں سے ایک کو ریٹائرمنٹ کے بعد گورنری مل گئی جبکہ دوسرا نیشنل کمپنی لاء اپیلیٹ ٹریبونل کا سربراہ قرار پایا...

مذکورہ فیصلے میں دیوتا کا کردار ایک اور معمہ بھی حل کرتا ہے، یہ سپریم کورٹ کا پہلا اور اب تک کا واحد فیصلہ ہے جس پر کسی جج کے دستخط نہیں ہیں، آخرکار اب ہم کسی دیوتا یا معبود کےنادیدہ ہاتھ کا تو حوالہ دے سکتے ہیں...

مزاح ایک طرف، جسٹس چندرچوڑ کا یہ بیان کم از کم پانچ وجوہات کی بناء پر تشویش ناک ہے...

پہلی بات؛ جسٹس چندرچوڑ کے مذکورہ بیان سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ایودھیا بنچ نے تنازعے کا کوئی "حل" نہیں نکالا تھا اور یہ کہنا سراسر دھوکہ دہی ہوگی کہ وہ کسی نتیجے پر پہونچے تھے، حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے بس طاقتور فریق کے حق میں فیصلہ سنایا جو غیر قانونی طور پر مسجد کو منہدم کرنے میں ملوث تھا، ججوں نے تسلیم کیا کہ انہدام ایک سنگین جرم تھا لیکن پھر بھی وہ مسجد توڑنے والوں اور ان کے معاونین کو اس زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت دینے میں کوئی برائی نہیں دیکھ سکے جس پر بنی عمارت انہوں نے غیر قانونی طور پر توڑ دی تھی، طاقت ہی حق ہے کو مشکل سے حل کہا جا سکتا ہے، مزید مضحکہ خیز  بات یہ ہے کہ جسٹس چندرچوڑ ہم سے یہ یقین کرنے کی توقع رکھتے ہیں کہ بنچ کی جانب سے ایودھیا کے باہر پانچ ایکڑ زمین مسجد کے لئے فراہم کرنے کی حکومت کو ہدایت دینا کسی قسم کا خدائی انصاف ہے، بنچ کے سامنے سوال یہ نہیں تھا کہ مسلمانوں کے پاس کوئی مسجد ہے یا نہیں جس میں وہ عبادت کر سکیں، بلکہ سوال یہ تھا کہ کیا غنڈوں اور بدمعاشوں کے لئے کسی فرد یا کمیونٹی کو پرتشدد طور پر ان کی اپنی جائیداد سے بے دخل کرنا جائز و درست ہے؟ ہندوستانی عدلیہ کے لئے ابدی شرمندگی اور دائمی عار کی بات یہ ہے کہ ایودھیا بنچ نے اس سوال کا جواب اثبات میں دیا ہے...

دوسری بات؛ چیف جسٹس کا یہ خیال کہ انہوں نے بابری مسجد تنازعہ کا ایک  خدائی فیصلہ یا الہی حل فراہم کیا ہے اس بات کا بھی جواب فراہم کرتا ہے کہ انہوں نے گیانواپی مسجد اور اس جیسے مذہبی معاملات والے مقدمات کو چلانے کی اجازت کیوں دی جبکہ پلیسس آف ورشپ ایکٹ 1991ء واضح طور پر یہ اعلان کرتا ہے کہ ملک کی آزادی کے دن یعنی 15 اگست 1947ء کو جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی اس کو تبدیل نہیں کیا جائے گا، یہ امر اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ آگے چل کر مسلم عبادت گاہوں پر ہندوتوا گروپس کی جانب سے کئے جانے والے دعووں کے "الہی حل" کس نوعیت کے ہوں گے، رواں ماہ کے شروع میں چیف جسٹس نے ایک تقریر میں اس فکر کا اظہار کیا تھا کہ جب وہ ریٹائرڈ ہوں گے تو ان کی میراث کیا ہوگی؟ انہیں زیادہ سوچنے اور انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، انہوں نے ہندوتوا گروپس کے لئے مزید سینکڑوں تباہ کن دعووں کے دروازے کھول دیئے ہیں، ان مقدمات کے فیصلے مکمل احترام کے ساتھ جسٹس چندر چوڑ کی پیش کردہ "انصاف کی دیوی" کے قدموں کی نذر کردیئے جائیں گے...

تیسری بات؛ جسٹس چندرچوڑ نے "دیوتا" سے تنازعے کا حل کیسے مانگا، جب کہ وہ دیوتا خود —اپنے ’دوست‘ کے ذریعے— اصل تنازعے کا فریق تھا؟ کیا اسے مفادات کا ٹکراؤ نہیں کہتے؟ اور لمحہ بھر کے لیے اس بے اصولی پر بھی غور کیجئے، اگر –کسی ہندو مسلم فریقین کے مابین کسی تلخ تنازعے میں– ایک مسلم جج مسلم فریق کے حق میں فیصلہ سنا کر یہ کہے کہ یہ "حل" اسے اللّٰه کی جانب سے حاصل ہوا ہے تو وہی ہندوتوا سیاست داں جو چیف جسٹس کے بیان پر خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں سب سے پہلے وہی "جانب داری" کا رونا روئیں گے...

چوتھی بات؛ حقیقت یہ ہے کہ جسٹس چندرچوڑ اس قسم کے 'الہی' جواز اور عظیم الشان بیانات کا بے جاسہارا لینے کی کوشش کرہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایودھیا کے معاملے میں دیا گیا فیصلہ قانونی طور پر ناقص تھا، ایسا کرنے سےوہ اپنے دیوتا پر بھی متنازعہ فیصلے کا الزام ڈال کر ظلم کررہے ہیں، جب کہ حقیقت میں یہ ان چھوٹے لوگوں کا کام تھا جو اپنی ناقص دلیل کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلاشبہ یہ وقت ہے کہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اپنی فیصلوں کی ذمہ داری لینا سیکھیں...

پانچویں بات؛ جج آئین اور قانون کی کتابوں کے مطابق انصاف کرنے کی قسم اٹھاتے ہیں، وہ دیوتاؤں یا مقدس کتابوں پر ایمان رکھنے اور اپنی ذاتی زندگیوں میں ان کے احکامات اور حکمت کی پیروی کرنے کے لیے آزاد ہیں، لیکن جب انصاف کرنے کی بات آتی ہے تو کوئی دیوتا آئین سے بالاتر یا کسی فیصلے کا 'ذریعہ' نہیں بن سکتا، ہاں، خدا پر ایمان کبھی کبھار مَردوں کو مشکل فیصلے لینے کی ہمت دے سکتا ہے، میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ فیصلہ کرنے میں کافی ہمت کی ضرورت ہوتی کہ جن افراد اور تنظیموں نے بابری مسجد کو منہدم کیا تھا انہیں کبھی اس زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن ایودھیا بنچ کے فیصلے میں کوئی ہمت شامل نہیں تھی بالخصوص ایسے وقت میں جب مرکز میں برسر اقتدار جماعت کو انتخابات میں رام مندر کی ضرورت تھی  کہ مندر تعمیر ہونا چاہیے...

ہندوستان کے پاس پہلے سے ہی ایک وزیر اعظم ہے جو براہ راست خدا سے بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی اور ہدایات پر عمل کررہا ہے، ملک کے پاس اب مودی کے اپنے غیر حیاتیاتی قد کے لائق چیف جسٹس بھی ہیں، ہمیں چیف جسٹس چندرچوڑ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے  انصاف کی دیوی سے ہی نہیں بلکہ ہماری آنکھوں سے بھی پٹی ہٹائی ہے...

_______

سِدھارتھ وَرَادَراجن "دی وائر" کے بانی ایڈیٹر ہیں، ماقبل میں وہ "دی ہندو" اخبار میں ایڈیٹر کے فرائض نبھا چکے ہیں، 2010 میں انہیں رام ناتھ گوئینکا سال کے بہترین صحافی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا، مذکورہ مضمون اپنی اصل زبان انگریزی میں"دی وائر" پر پڑھا جاسکتا ہے...

------------------

Justice Chandrachud Should Not Blame God for His Own Awful Ayodhya Judgment

Siddharth Varadarajan

22/Oct/2024

Hindutva politicians who are thrilled with the CJI's candour would be the first to yell 'bias!' if – in a bitter dispute between a Muslim and a Hindu litigant – a Muslim judge who delivers a verdict that favours the Muslim says the 'solution' came to him from Allah!

Speaking at a public event in Maharashtra over the weekend, Chief Justice of India D.Y. Chandrachud made a startling disclosure about one of the most controversial judgments he has been party to while on the Supreme Court.

“Very often we have cases (to adjudicate) but we don’t arrive at a solution,” he said. “Something similar happened during the Ayodhya (Ram Janmabhoomi-Babri Masjid) dispute which was in front of me for three months. I sat before the deity and told him he needed to find a solution,” he added.

India’s top judge has provided such a vivid and moving description that we can picture “the solution” being delivered in an epiphanous flash. And going by the judgment which Justice Chandrachud and his colleagues eventually delivered, the deity appears to have said: give me the land so that I can have another temple.

The deity having spoken, the only job left for the judges was to dress up this “solution” with the cloth of judicial reasoning to the best of their ability. His temple secured, the deity then honoured the faith that each of the five judges had shown in his divine judgment. The man who was CJI at the time, Ranjan Gogoi, was sent by God to the Rajya Sabha. Two of the puisne judges on the bench were elevated to CJI in due course. And of the two remaining puisne judges, God ensured one became a governor upon retirement while the other became head of the National Company Law Appellate Tribunal.

The deity’s role in its authorship also helps clear up one of those mysteries about the Ayodhya judgment – that it alone among all judgments the Supreme Court had delivered till then was unsigned. After all, one can’t formally credit the hand of god now, can we.

Jokes aside, Justice Chandrachud’s statement is alarming for at least five reasons.

First, he and the Ayodhya bench definitely did not “find a solution” to the dispute and it is dishonest for him to pretend otherwise. What they did was to find in favour of the powerful party implicated in the illegal demolition of the mosque. The judges acknowledged that the demolition was a heinous crime but saw nothing wrong in allowing the vandals and their proxies to take possession of land they had illegally cleared. ‘Might is right’ can hardly be called a solution and it is laughable if Justice Chandrachud wants us to believe the bench’s direction to the government to provide five acres outside Ayodhya for a new mosque represents some kind of divine justice. The issue before the bench was not whether there is a mosque that Muslims can worship in but whether it is permissible for thugs to violently dispossess a person or a community. To the eternal shame of the Indian judiciary, the Ayodhya bench answered that question in the affirmative.

Second, the fact that the CJI actually thinks he delivered a divinely ordained solution to the dispute may explain why he has helped reopen the Gyanvapi dispute (and countless other disputes as a result) despite the Places of Worship Act, 1991, placing a strict bar on changing the character of a place of worship from what it was on August 15, 1947. This is also a pointer to the kind of divinely-ordained solutions that will doubtless follow in our courtrooms as Hindutva groups mount claims on Muslim places of worship around the country. Earlier this month, the CJI wondered aloud what his legacy would be. He need not wonder or wait too long to find out. He has opened the door to hundreds of destructive claims by Hindutva organisations. Judgments in those cases may then be respectfully laid at the feet of the newly minted “goddess of justice” commissioned by Justice Chandrachud.

Third, how could Justice Chandrachud have asked “the deity” to help find a solution to the dispute when the deity — through his ‘next friend’ — was a party to the original dispute? Is this not a conflict of interest? And think about the impropriety for a moment. Hindutva politicians who are thrilled with the CJI’s candour would be the first to yell ‘bias!’ if – in a bitter dispute between a Muslim and a Hindu litigant – a Muslim judge who delivers a verdict that favours the Muslim says the ‘solution’ came to him from Allah!

Fourth, the truth is that Justice Chandrachud is seeking refuge in this kind of ‘divine’ rationalising and grandstanding because he knows the judgment he helped deliver in the Ayodhya matter was legally unsound. In doing so, he is surely perpetrating a great injustice on ‘the deity’ too – on whom the controversial verdict is sought to be pinned – when it was actually the handiwork of small men unwilling to take responsibility for their own flawed reasoning. Surely it is high time Justice DY Chandrachud learns to take responsibility for his own decisions.


Fifth, judges take an oath to do justice by the laws laid down in the Constitution and statute book. They are free to believe in deities or holy books and follow their orders and oracular wisdom in their personal lives. But when it comes to dispensing justice, no deity can be above the Constitution or be the ‘source’ of a decision. Yes, faith in god can sometimes give men the courage to take difficult decisions. I concede that tremendous courage would have been required to rule that the men and organisations who demolished the Babri Masjid would never be allowed to take control of that land. But there was no courage involved in the Ayodhya bench’s ruling – at a time when the ruling party at the Centre was politically desperate for the Ram temple as an election prop – that a temple must be built.

India already has a prime minister who directly communes with God and says he follows God’s will and instructions. The country now has a Chief Justice worthy of Modi’s own non-biological stature.

We should thank Chief Justice Chandrachud for removing the blindfold from not just Lady Justitia but from all our eyes as well.

courtesy: the wire

( S_A_Sagar# )

https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_26.html




Monday 21 October 2024

پانچ قسم کے لوگوں سے دوستی نہ کرو

عربی میں دوستی کے 13 درجے ہیں:
دوستی کے درجات یہ ہیں:
1. زمیل: کوئی ایسا شخص جس سے آپ صرف ملاقات کی حد تک واقف ہوں۔
2. جلیس: کوئی ایسا شخص جس کے ساتھ آپ کچھ وقت بغیر کسی پریشانی کے گزار سکیں۔
3. سمیر: ایسا شخص جس کے ساتھ بات چیت کرنے میں آپ کو کوئی دقت نہ ہو۔ 
4. ندیم: پینے پلانے والا ایک ساتھی (صرف چائے) جسے آپ فرصت کے لمحوں میں یاد کرسکیں۔
5. صاحب: کوئی ایسا شخص جو آپ کی خیریت کے لیے فکرمند ہو۔ 
6. رفیق: کوئی ایسا شخص جس پر آپ انحصار کر سکیں۔ آپ شاید ان کے ساتھ اپنی چھٹیاں بھی گزارنا چاہیں۔
7. صدیق: ایک سچا دوست، کوئی ایسا شخص جو آپ سے کسی مطلب برآری کے لیے دوستی نہیں کرتا۔ بلکہ اس سے آپ کے تعلقات کی بنیاد بےلوث اور اخلاص پر مبنی ہو۔
8. خلیل: ایک بہت قریبی دوست، کوئی ایسا شخص جس کی موجودگی آپ کو خوش کر دے۔
9. انیس: کوئی ایسا شخص جس کی موجودگی میں آپ راحت اور سکون محسوس کریں۔
10. نَجی: قابل بھروسہ/ اعتماد کے قابل
 کوئی ایسا شخص جس پر آپ کو بہت یقین ہو۔
11. صفی: آپ کا بہترین دوست، کوئی ایسا شخص جسے آپ دوسرے دوستوں پر فوقیت دیتے ہیں۔
12. قرین: کوئی ایسا شخص جو آپ سے الگ نہ ہو اور نہ صرف آپ جانتے ہوں کہ وہ کیسا سوچتا ہے بلکہ وہ بھی آپ کے خیالات سے واقف ہو آپ دونوں ایک دوسرے کے مزاج آشنا ہوں۔
13۔ حبیب: یہ دوستی کی اعلیٰ ترین شکل ہے جس میں دوستی کے باقی سب اوصاف کے ساتھ دوست محبوب کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔ یعنی وہ انسان جس سے بے لوث محبت بھی ہو۔
یہ سب کے سب میرے محبوب ہیں جن سے میرا ماضی روشن ہوا تھا اور جب جب یہ ملتے ہیں تو حال بھی خوش ہو جاتا ہے اور مستقبل میں دوبارہ ملنی کی تمنا ہوا کرتی ہے۔۔
پانچ قسم کے لوگوں سے دوستی نہ کرو 
حضرت محمد باقر فرماتے ہیں میرے پدربزرگوار علی بن الحسین نے مجھے وصیت فرمائی:
اے میرے بیٹے! پانچ قسم کے لوگوں سے دوستی نہ کرو ، ان کے گفتگو نہ کرو، اور ان کے ہمراہ سفر مت کرو -
میں نے عرض کیا: اے بابا جان! میں آپ پر قربان جاؤں ، وہ پانچ لوگ کون ہیں؟؟
امام محمد باقر نے فرمایا:
بد کردار انسان سے دوستی مت کرو ، کیونکہ وہ تمہیں ایک لقمہ غذا یا اس سے کمتر کے عوض میں فروخت کر دے گا -
میں نے عرض کیا: اے بابا جان ! وہ کم تر کیا ہے؟؟
انہوں نے فرمایا: وہ اس کا لالچ کریں گے جو انھیں نہیں ملے گا -
میں نے عرض کیا: اے بابا جان! دوسری کیا ہے ؟؟
امام محمد باقر نے فرمایا: بخیل اور کنجوس شخص سے دوستی مت کرو ، کیونکہ ایسا مال جو تمھاری ضرورت کو پورا کرے گا وہ تمہیں نہیں دے گا -
میں نے عرض کیا: اے بابا جان! تیسرا شخص کون ہے؟؟
امام محمد باقر نے فرمایا: جھوٹے آدمی سے دوستی مت کرو، کیونکہ وہ سراب کی مانند ہے، وہ تمھارے لیے نزدیک کو دور اور دور کو نزدیک کرے گا -
میں نے عرض کیا: اے بابا جان! چوتھا شخص کون ہے؟؟
امام محمد باقر نے فرمایا: احمق آدمی سے دوستی نہ کرو کیونکہ اس کا ارادہ آپ کو فائدہ پہنچنے کا ہوگا، لیکن نقصان پہنچاۓ گا-
میں نے عرض کیا: بابا جان! ان میں پانچواں شخص کون ہے؟؟
امام محمد باقر نے فرمایا: قطع رحم کرنے والے شخص سے دوستی نہ کرنا، کیونکہ میں نے خدا کی کتاب میں اسے تین جگہ پر ملعون پایا ہے-
( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_21.html