میت کے لئے دعاء مغفرت وایصال ثواب گھر بیٹھے کرنا افضل ہے یا قبر پہ جاکر؟
-------------------------------
-------------------------------
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ زید کے والد کا انتقال ہوا تدفین ہوئی۔ کچھ دنوں بعد بارش کی وجہ سے قبر دب گئی تو اسے مٹی ڈال کر درست کیا گیا۔ پھر کئی مہینے ٹھیک رہی۔ اب کئی سال گزرچکے۔ قبر پر گھاس وغیرہ اگ آئی ہے اور قبرستان میں لائن سے قبریں ہیں جن پر کچھ خودرو پودے اگ آئے ہیں اور قبر کا نشان مٹ گیا ہے۔ یعنی دو قبروں کے بیج فرق نہیں رہا۔ اور زمین برابر ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قبر کو مٹی ڈال کر، گھاس صاف کرکے اس کو درست کیا جائے، افضل کیا ہے۔ اور میت کے لئے اور لواحقین یعنی بیٹوں کے لئے کیا عمل شرعی طور پر بہتر ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ زید اپنے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جائے یا بغیر گئے ایصال ثواب کرے۔ افضل کیا ہے۔ نیز جانا یعنی زیارت قبر کرے تو اس کا درست شرعی طریقہ کیا ہے۔ ہر روز جانا بہتر ہے یا ہفتے میں ایک بار۔
نیز کیا قبر پر جانے سے میت کو یا زائر کو کوئی دینی فائدہ پہنچتا ہے؟
قبور کی زیارت کو جانا ثواب کا کام ہے؟
اس بابت کئی احادیث کو کئی علماء ضعیف کہ کر قابل عمل نہیں مانتے اور کئی دوسرے علماء بزرگوں کے طریقوں کو نقل کرتے ہیں
ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں شرعی رہنمائی درکار ہے کہ کون سا عمل پسندیدہ اور ثواب دینے والا ہے اور کون سا عبث یا نقصان والا؟
واضح رہے کہ یہ استفتاء گنجائش اور جواز معلوم کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ مسنون، منصوص اور ثواب کے وعدہ والے عمل کو جاننے کے لئے پوچھا گیا ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
ڈاکٹر عزیر عالم دستگیر، ممبرا، ممبئی
الجواب وباللہ التوفیق:
اگر بارش یا مرورِ زمانہ کی وجہ سے کوئی قبر بالکل دھنس گئی ہو اور اس کے نشانات مٹ گئے ہوں تو حفاظت کی نیت سے ایک بالشت کی حد تک مٹی ڈال کر قبر کو اونچا کیا جاسکتا ہے:
"وإذا خربت القبور فلا بأس بتطیینہا، کذا في التتارخانیة، وہو الأصح ، وعلیہ الفتوی۔"
(الہندیة: ۱/۲۲۷، کتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون: في الجنائز۔ زکریا، دیوبند)
"لا بأس بتطیین القبور خلافاً لما في مختصر الکرخي … وروی البخاری أنہ - صلی اللہ علیہ وسلم - رفع قبر ابنہ إبراہیم شبراً، وطینہ بطین أحمر۔"
(حاشیة الطحطاوي علی المراقي: ۶۱۱، کتاب الصلاة ، فصل في حملہا ودفنہا، المکتبة الفخریة، دیوبند)
امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ میت کو دعا نفع دیتی ہے، چاہے جہاں سے بھی دعا کی جائے: عقیدۃ الطحاوی میں ہے:
”وفي دعاء الأحياء وصدقاتهم منفعة للأموات، والله تعالى يستجيب الدعوات ويقضي الحاجات.“ (شرح العقیدہ الطحاویہ للراجحی 348)
(یعنی زندوں کی دعائیں اور ان کی صدقات اموات کو نفع دیتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور حاجات کو پورا کرتا ہے)۔
اسی لئے تو جنازے میں اور دفن کے بعد بھی میت کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں۔ پس دعا خواہ قریب سے کی جائے یا بعید سے، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ قبر کے پاس دعا کرنے سے ایک دوسری سنت کی ادائی ہوجاتی ہے اور وہ ہے 'سنت زیارت قبور؛ اس لئے یہ افضل و بہتر ومستحب ہے۔
مستدرک حاکم میں ہے:
(۱) عن سليمان بن بريدة، عن أبيه، قال: “زار النبي صلى الله عليه وآله وسلم قبر أمه في ألف مقنع، فلم ير باكيا أكثر من يومئذ" (یہ حدیث صحیح ہے اور علی شرط الشیخین ہے—المستدرک: 1429)۔
(۲) وعن أبي هريرة، قال: "زار رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله، ثم قال: استأذنت ربي أن أزور قبرها فأذن لي، واستأذنته أن أستغفر لها فلم يؤذن لي، فزوروا القبور فإنها تذكر الموت۔"
یہ حدیث صحیح ہے اور علی شرط مسلم ہے (المستدرک: 1430)۔
قابل غور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ کی قبر مکہ مکرمہ سے 67 کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل (زمانہ اسلام سے پیشتر) کافی عرصہ پہلے ان کی وفات ہوچکی تھی۔ اتنے فاصلے اور اتنے طویل زمانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت اللہ کی جانب سے مل گئی، اور آپ نے صحابہ کی بڑی جماعت کے ہمراہ وہاں جا کر چشم ہائے تر کے ساتھ دعائیں کیں، حالانکہ آپ دور بیٹھے بھی دعا فرماسکتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو صراحتاً زیارت قبور کی اجازت بھی مرحمت فرمائی: "فزُوروا القُبورَ؛ فإنها تُذكِّرُ الموتَ۔"
(۳) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو زیارتِ قبور کے وقت یہ دعا سکھاتے تھے:
"السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين" (مسلم: 975)
(۴) یہی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار بدر، احد اور دیگر مسلمانوں کی قبروں پر خود جاتے اور ان کے لئے دعا کرتے۔ (مسلم: 975)۔
(۵) مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک لمبی حدیث میں حضور ﷺ کو رب کا حکم ہے کہ آپ بقیع غرقد تشریف لے جائیں اور اپنے ساتھیوں کے لئے دعا کریں:
”إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ“ (صحیح مسلم 974)۔
ان تمام نصوص و سنت رسول ﷺ سے پتہ چلتا ہے کہ عام مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کرنا متعدد مقاصد کے تحت "مستقل سنت" ہے، پھر والدین کی قبروں کی زیارت کرنا تو مزید کارِ ثواب اور بابِ بر سے ہے۔ اسی لئے علماء و صلحاء کا عمل بھی اس پر ہے کہ ضوابطِ شرعیہ کی رعایت کے ساتھ اولیاء، علماء، صلحاء اور والدین وغیرہ کی قبروں کی زیارت فرماتے اور ان کے لئے دعائیں فرماتے؛ کیونکہ مردے قبر پر آنے والوں کا سلام سنتے اور جواب بھی دیتے ہیں، ان کی آمد سے انہیں انسیت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت الامام امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی وصیت میں امام ابو یوسف کو نصیحت فرمائی تھی:
"أكثر من زيارة القبور والمشايخ والمواضع المباركة" (الأشباه والنظائر لابن نجيم: 1/371)
یعنی قبروں، مشائخ اور بابرکت مقامات کی زیادہ سے زیادہ زیارت کیا کرو۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إني لأتبرك بأبي حنيفة، وإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره، وسألت الله تعالى الحاجة عنده فما تبعد عني حتى تقضى." (تاريخ بغداد: 1/445)
یعنی میں امام ابو حنیفہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں، اور جب بھی مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں دو رکعت نماز پڑھتا ہوں 'اور ان کی قبر پر آتا ہوں'، پھر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کرتا ہوں، تو وہ حاجت زیادہ دیر نہیں لگتی اور پوری ہوجاتی ہے۔ لہذا سنت رسول ﷺ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے کہ میت پر دعائیں کرنے اور احوالِ موت سے عبرت حاصل کرنے کی غرض سے قبروں کی زیارت کرنا سنت رسول ﷺ ہے اور 'افضل و مستحب' ہے۔ مطلق دعا تو کہیں سے بھی کی جاسکتی ہے؛ لیکن شرعی حدود و اصول کی رعایت کے ساتھ اگر قبر موجود ہو تو وہاں یا اگر مندرس ہوگئی ہو تو اس کی ممکنہ جگہ پر جا کر دعائیں کرنا (زیارت قبور) مستحب اور بہتر ہے۔ وہاں کسی دن بھی جاسکتا ہے، البتہ زیارت کے لئے کچھ دن افضل ہیں، جیسے: جمعہ، پیر، جمعرات اور ہفتہ، نیز بابرکت راتوں اور ایام میں زیارت مستحب ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وأفضل أيام الزيارة أربعة يوم الاثنين والخميس والجمعة والسبت، والزيارة يوم الجمعة بعد الصلاة حسن ويوم السبت إلى طلوع الشمس ويوم الخميس في أول النهار وقيل في آخر النهار وكذا في الليالي المتبركة لا سيما ليلة براءة وكذلك في الأزمنة المتبركة كعشر ذي الحجة والعيدين وعاشوراء وسائر المواسم كذا في الغرائب." (الفتاوى الهندية: 5/350، الباب السادس عشر في زيارة القبور وقراءة القرآن في المقابر)
(زیارت کے لئے سب سے افضل چار دن ہیں: پیر، جمعرات، جمعہ اور ہفتہ۔ جمعہ کے دن نماز کے بعد زیارت کرنا اچھا ہے، ہفتہ کے دن طلوع آفتاب تک، جمعرات کو دن کے شروع میں اور بعض کے نزدیک دن کے آخر میں۔ اسی طرح بابرکت راتوں میں خصوصاً شبِ براءت، اور بابرکت زمانوں میں جیسے عشرہ ذی الحجہ، عیدین، عاشوراء اور دیگر مبارک ایام و مواسم میں زیارت بہتر ہے)
قبرستان پہنچ کر سب سے پہلے صاحب قبر کے لئے سلامتی کی دعا کی جائے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ قبرستان کی جانب نکلے اور آپ نے یہ دعاء پڑھی:
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ»
تم پر سلامتی ہو اے ایمان والو! اور بیشک ہم بھی تمہارے ساتھ لاحق ہونے والے ہیں۔ (مسلم: 975 ۔ ترمذی: 1053)
سلامتی کی دعا کے بعد ان کے لئے دعا مغفرت ورحمت کی جائے:
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ، بِكُمْ لَاحِقُونَ، اَللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ»۔
(سلامتی ہو تم پر اے مومنین! تمہارے پاس وہ چیز آئی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا یعنی ثواب و عذاب کل کو یعنی قیامت کے دن کو تمہیں ایک معین مدت تک مہلت دی گئی ہے اور یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم سے ملنے ہی والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو بخش دے)۔ (مسلم: 974)
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ میرے ہاں قیام فرما ہوتے تو (اکثر) آپ ﷺ رات کے آخری حصہ میں بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (قبر والوں سے خطاب کرکے یہ دعا فرماتے)
مردے کے پاؤں کی طرف سے قبر پہ جائے، سر کی طرف سے داخل نہ ہو، اس سے مردے کو تکلیف ہوتی ہے۔ ایصال ثواب کرتے ہوئے قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پشت کرکے کھڑا ہو. اور جب دعا کا ارادہ کرے تو قبر کی طرف پشت اور قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو، ہندیہ میں ہے:
ثم يقف مستدبر القبلة مستقبلا لوجه الميت . وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلة مستدبرا لوجه الميت (هنديه 350/5. كتاب الكراهية)
قبرستان میں بحالت قیام قبلہ رو ہوکر، دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعاء و استغفار کرنا سنت ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے قبرستان بقیع الغرقد میں کھڑے ہوکر، ہاتھ اُٹھا کر تین دفعہ دعاکی: جاء البقيع فأطال القيام ثم رفع يديه ثلاث مرات. (مسلم. الجنائز. باب الذهاب الى زيارة القبور 1619. نسأي 2010.)۔دوسرے رخ پہ اور بیٹھے ہوئے اور بلا ہاتھ اٹھائے ہوئے بھی دعا کرنا جائز ہے۔
اس کے بعد قرآن میں سے جو یاد ہو پڑھ کر ایصالِ ثواب کرے، بعض روایات میں ہے کہ جو شخص قبروں پر سے گزرا اور [قل ھو اللّٰہ احد] گیارہ دفعہ پڑھ کر اس کا ثواب مرُدوں کو پہنچایا، تو اس کو وہاں کے مرُدوں کی تعداد کے برابر اجر ملے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو قبرستان میں داخل ہوا، اور سورۂ فاتحہ اور اخلاص اور الھاکم التکاثر پڑھا اور کہا کہ اے اللہ! میں نے تیرا جو کلام پڑھا ہے اس کا ثواب قبر والے مؤمن مردوں اور عورتوں کو میں دیتا ہوں تو یہ قبر والے ا للہ کے پاس اس کے حق میں سفارش کریں گے۔ (بہ حوالہ اعلاء السنن: ۸/۲۸۷ تا ۸/۲۸۸)
قبرستان جاتے ہوئے قبروں کے درمیان جوتے پہن کر نہ چلے، ہاں اگرباضابطہ راستہ بنا ہوا ہو تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔ قبر پہ ٹیک لگاکے بیٹھے، نہ اسے روندے اور نہ وہاں پیشاب پاخانہ کرے۔ شور وغوغا، جشن وچراغاں اور طوفان ہاؤ ہو بپا کئے بغیر انفرادی طور پر مذکورہ بالا آداب کی رعایت ولحاظ کے ساتھ قبروں کی زیارت کی اجازت ہے، یہ عمل صرف مستحب وافضل کے درجے کا ہے، عوام اسے سنت و واجب نہ سمجھے۔۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
(بدھ 17 ربیع الاوّل 1447ھ10 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )