Sagar Times
Monday, 13 January 2025
لائے ہیں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے
Friday, 10 January 2025
حضرت الاستاذ علامہ قمرالدین احمد صاحب گورکھپوری رحمہ اللہ: یادوں کے نقوش
Tuesday, 7 January 2025
کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت اور مذاہبِ ائمہ
کپڑے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت اور مذاہبِ ائمہ
----------------------------------
----------------------------------
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "اللہ اس شخص کی طرف قیامت کے دن نظرِ رحمت نہیں کرے گا، جو تکبر کے ساتھ اپنا کپڑا زمین پر لٹکائے۔" (صحیح بخاری: 5788)
حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت:
مَن جَرَّ ثوبَه خُيَلاءَ، لم يَنظُرِ اللهُ إليه يومَ القيامةِ —-“جو شخص اپنے کپڑے کو تکبر کے ساتھ لٹکائے، اللہ قیامت کے دن اس کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔”أخرَجَه البُخاريُّ (3665) واللَّفظُ له، ومُسْلِم (2085).
اور حضرت جابر بن سُلَیم کی روایت:
إيَّاكَ وإسبال الإزارِ؛ فإنَّها مِن المَخِيلةِ، وإنَّ اللهَ لا يُحِبُّ المَخِيلةَ —-"ازار (کپڑا) لٹکانے سے بچو، کیونکہ یہ تکبر میں شامل ہے، اور بے شک اللہ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔" (أخرجه أبو داود (4084)، والبيهقي (21623)
اور ان جیسی دیگر احادیث کی وجہ سے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا حرام اور گناہ کبیرہ قرار دیدیا گیا ہے، حرمت کی وجہ تکبر اور گھمنڈ ہے۔ اس علت وحکمت کے ساتھ اسبال ازار کی حرمت پہ ائمہ اربعہ متفق ہیں (دیکھئے الفتاوى الهندية: 5/333)، مواهب الجليل للحَطَّاب :1/220)، المجموع للنووي :4/454) كشَّاف القِناع للبُهُوتي 1/277).
لیکن اگر اسبال ازار بغیر غرور وتکبر کے کسی عارض کے باعث ہو تو کیا یہ صورت بھی حرمت میں داخل ہے یا اس کی گنجائش ہے؟ تو حنابلہ کے علاوہ ائمہ ثلاثہ کے یہاں اس مسئلے میں کراہت کا قول منقول ہے، فقہاء حنابلہ، ابن العربي، امام ذهبي، اور علامہ ابن حجر عسقلانی وغیرھم کا رجحان اب بھی حرمت ہی کا ہے.
(وفي هذه الأحاديثِ أنَّ إسبالَ الإزارِ للخُيَلاءِ كَبيرةٌ، وأمَّا الإسبالُ لغَيرِ الخُيَلاءِ، فظاهرُ الأحاديثِ تَحريُمه). (فتح الباري (10/263).
یعنی ان کے یہاں اسبال ازار مطلقاً حرام ہے، خواہ بقصدِ تکبر ہو یا نہ ہو۔ اِن حضرات کے پیش نظر وہ روایات ہیں جن میں تکبر کی قید کے بغیر مطلقاً ممانعت وارد ہوئی ہے:
۱: عن أبي هُريرةَ رَضِيَ اللهُ عنه، عنِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال: (ما أسفَلَ مِن الكَعبينِ مِن الإزارِ، ففي النَّارِ—- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ازار (کپڑے) کا ہوگا، وہ آگ میں ہوگا۔” (أخرَجَه البُخاريُّ (5787).
۲: عن أبي ذَرٍّ الغِفارِيِّ رَضِيَ اللهُ عنه، عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال: (ثلاثةٌ لا يُكَلِّمُهم اللهُ يومَ القيامةِ ولا يَنظُرُ إليهم ولا يُزَكِّيهم ولهم عذابٌ أليمٌ، قال: فقرأها رسولُ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ثلاثَ مَرَّاتٍ. قال أبو ذَرٍّ: خابوا وخَسِروا، من هم يا رسولَ اللهِ؟ قال: المُسبِلُ، والمَنَّانُ، والمُنَفِّقُ سِلعَتَه بالحَلِفِ الكاذِبِ— حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "تین لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف نظر کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔" آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "وہ لوگ برباد اور خسارے میں ہیں، یا رسول اللہ! وہ کون ہیں؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "وہ شخص جو اپنا کپڑا لٹکائے، وہ شخص جو کسی پر احسان جتائے، اور وہ شخص جو اپنی چیز بیچنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے۔" (أخرجه مُسْلِم (106) جبکہ ائمہ ثلاثہ میں شوافع وحنابلہ وجمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ مطلق روایات کو مقید روایات پر محمول کیا جائے گا، اور بقصد عجب وغرور ٹخنہ سے نیچے إسبال ازار ہو تو ممنوع ہوگا ؛ ورنہ مکروہ تنزیہی ہوگا ۔ گوکہ بہتر (پہلا درجہ) یہی ہے کہ ازار نصفِ ساق (ٹخنہ اور گھٹنہ کے درمیان کی لمبی ہڈی کو ساق کہتے ہیں) تک رہے، آدھی پنڈلی سے ٹخنے تک کے درمیان والے حصے تک بھی کوئی مضائقہ نہیں؛ یعنی جائز ہے (یہ دوسرا درجہ ہے)؛ لیکن ٹخنہ سے نیچے جو حصہ غرور وتکبر کی بنا پر لٹکا ہوا ہوگا وہ بہر صورت دوزخ میں لے جانے والا اور گناہ کبیرہ ہوگا؛ لیکن اگر طہارت ونظافت کے ساتھ ٹخنہ سے نیچے بھی کسی باعث بغیر کبر وغرور کے ہوجائے تو یہ حرام وممنوع نہیں ہے؛ بلکہ مکروہ تنزیہی ہے (یہ تیسرا درجہ ہے)، حرام صرف غرور وتکبر کی وجہ سے ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ہے، ہماری کتابوں میں بھی یہی درج ہے۔ ان کا مستدل ابن عمر کی حدیث بخاری (5783) ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر کو اجازت مرحمت فرمائی تھی (لست ممن يصنعه خيلاء):
۱: عن سالم عن ابن عمر "مَن جرَّ ثَوبَهُ خُيلاءَ لم ينظرِ اللَّهُ إليهِ يَومَ القيامةِ قالَ أبوبكرٍ: إنَّ أحدَ جانبَي إزاري يستَرخي، [إلَّا] إنِّي لأتعاهدُ ذلِكَ منهُ، قالَ: لستَ ممَّن يفعلُهُ خُيلاءَ (مسند احمد 5920) حضرت سالم بن عبداللہ اپنے باپ ﴿حضرت عبداللہ بن عمر﴾ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص غرور کی بنا پر کپڑا زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہ دیکھے گا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: "اے اللہ کے رسول! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میرے تہبند کا ایک حصہ لٹکتا رہتا ہے مگر میں اسے درست کرلیتا ہوں۔" اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمھارا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوگا جو غرور کی بنا پر ایسا کرتے ہیں۔"
۲: عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ وَنَحْنُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ يَجُرُّ ثَوْبَهُ مُسْتَعْجِلًا حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ وَثَابَ النَّاسُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَجُلِّيَ عَنْهَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا، وَقَالَ: "إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا فَصَلُّوا وَادْعُوا اللَّهَ حَتَّى يَكْشِفَهَا" (بخاری 5785)
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: "ایک مرتبہ سورج گہن ہوا، اور ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس موجود تھے۔ آپ ﷺ جلدی میں اپنی چادر کھینچتے ہوئے اٹھے یہاں تک کہ مسجد پہنچے۔ لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ ہولیے۔ پھر آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور گہن دور ہوگیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: "بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم ان میں سے کسی چیز کو (گہن وغیرہ) دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو یہاں تک کہ وہ گہن ختم ہوجائے۔"
۳: عن أبي سَعيدٍ الخُدريِّ رضي الله عنه، قال: قال رَسولُ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: (إِزْرةُ المُسلِمِ إلى نِصفِ السَّاقِ، ولا حَرَجَ- أو لا جُناحَ- فيما بينه وبين الكَعبَينِ، ما كان أسفَلَ مِن الكَعبَينِ فهو في النَّارِ، مَن جَرَّ إزارَه بطَرًا لم ينظُرِ اللهُ إليه —-"مسلمان کا لباس نصف پنڈلی تک ہونا چاہیے، اور ٹخنوں تک ہونے میں کوئی حرج یا گناہ نہیں۔ لیکن جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا، وہ آگ میں ہوگا۔ اور جو شخص اپنے کپڑے کو تکبر کے ساتھ گھسیٹے گا، اللہ قیامت کے دن اس کی طرف نظر نہیں کرے گا۔" (أخرجه أبو داود (4093) واللَّفظُ له، والنَّسائي في (السنن الكبرى) (9717)، وابنُ ماجه (3573)، وأحمد (11397)
۴: عن عبدالله بن مسعود أنه كان يُسبل إزاره ، فقيل له في ذلك فقال إني رجل حمش الساقين. (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنا ازار (کپڑا) ٹخنوں سے نیچے رکھتے تھے۔ کسی نے ان سے اس بارے میں کہا تو انہوں نے جواب دیا: "میں کمزور پنڈلیوں والا آدمی ہوں۔") [رواه ابن أبي شيبة في مصنفه (6/27) طبعة دار الفكر ، وصححه ابن حجر في فتح الباري (10/264) طبعة دارالفكر] ان حضرات کا کہنا ہے کہ ان روایات میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے پر وعید ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو یہ کام تکبر کے ساتھ کرتے ہیں۔ لہذا، یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ اگر کوئی بغیر تکبر کے کپڑا لٹکائے تو یہ حرام نہیں ہوگا، ہاں مکروہ تنزیہی ضرور ہوگا۔ فتاوی ہندیہ میں ہے: إسْبَالُ الرَّجُلِ إزَارَهُ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ إنْ لَمْ يَكُنْ لِلْخُيَلَاءِ فَفِيهِ كَرَاهَةُ تَنْزِيهٍ، كَذَا فِي الْغَرَائِبِ. (الفتاوی الهندية ٣٣٣/٥) وحاشية البخاري للسهارنفوري رقم الحديث 3665)
البحرالرائق میں ہے: وَيُكْرَهُ لِلرِّجَالِ السَّرَاوِيلُ الَّتِي تَقَعُ عَلَى ظَهْرِ الْقَدَمِ( البحرالرائق ٢١٦/٨)
بذل المجهود میں ہے: من حديث حذيفة بلفظ "الإزار إلى أنصاف الساقين، فإن أبيت فأسفل، فإن أبيت فمن وراء الساقين، ولا حق للكعبين في الإزار"، انتهى.
وهذا صريح في أنه لا يجوز ستر الكعبين، وقال ابن عابدين في الكلام على آداب اللبس وأحكامه (٩/ ٥٠٦): ويكره للرجال السراويل التي تقع على ظهر القدمين، "عتابية"، انتهى. وهكذا في البحر (٢١٦/٨)
وقال النووي في "شرح مسلم ٣١٣/٧): فالمستحب نصف الساقين، والجائز بلا كراهة ما تحته إلى الكعبين، فما نزل عن الكعبين فهو ممنوع، فإن كان للخيلاء فهو ممنوع منع تحريم وإلا فمنع تنزيه، انتهى الأبواب والتراجم ١٦٨/٦)
قال العلماء: المستحب في الإزار والثوب إلى نصف الساقين، والجائز بلا كراهة ما تحته إلى الكعبين، فما نزل عن الكعبين فهو ممنوع، فإن كان للخيلاء فهو ممنوع منع تحريم وإلَّا فمنع تنزيه. (بذل المجهود ١١٣/١٢…رقم الحديث 4085)
المنتقى شرح الموطأ (7/226)
حاشية العدوي على كفاية الطالب الرباني) (2/453)، مغني المحتاج) للشربيني (1/309)، (نهاية المحتاج) للرملي (2/382)، (شرح النووي على مُسْلِم) (14/62) المغني (2/298)
علامہ نووی صحیح مسلم ج۷، صفحہ ۳۱۳ میں فرماتے ہیں: ’’وأما الأحاديث المطلقة بأن ما تحت الكعبين في النار فالمراد بها ما كان للخيلاء، لأنه مطلق ، فوجب حمله على المقيد—اورجن احادیث میں مطلقاً آیا ہے کہ جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم میں ہے۔ اس سے مراد وہ کپڑا ہے جو تکبر کی وجہ سے لٹکایا گیا ہو۔ کیوں کہ یہ احادیث مطلق ہیں اور مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے.‘‘
حافظِ ثانی علامہ کشمیری رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ قیدِ خیلاء ممانعت وحرمت کی وجہ وعلت (مناط حکم) نہیں ہے، یہ قید واقعی ہے، اُس وقت عرب کے لوگ عجب وغرور کے لئے ہی إسبال ازار کرتے تھے، إسبال ازار کا فعل ہی تکبر کو مستلزم ہے، اب الگ سے اس میں نیت یا قصد تکبر کو نہیں ڈھونڈا جائے گا، حضرت جابر کی روایت "وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الإِزَارِ، فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ" (ابودائود ٤٠٨٤)– اسبالِ ازار سے بچو! کیوں کہ یہ تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے) سے اس کی تائید ہوتی ہے؛ لہذا عجب وغرور ہو یا نہ ہو بہر دو صورت یہ ممنوع وناجائز ہوگا، ہاں جب بلا قصد وعمد ایسا ہوجائے تو معفوعنہ ہے، لیکن باضابطہ قصد وعمد کے ساتھ لمبا ازار پہننا اور اس کی عادت ڈالنا، اس فیشن کو رواج دینا سخت وعید نبوی کے پیش نظر بالکل جائز نہیں ہے: علامہ کشمیری فرماتے ہیں: "وجرُّ الثوب ممنوعٌ عندنا مطلقًا، فهو إذن من أحكام اللباس، وقصرَ الشافعيةُ النهي على قيد المخيلة—" "ہمارے نزدیک ٹخنہ سے نیچے کپڑا لٹکانا مطلقاً ممنوع ہے، لہٰذا یہ لباس کے احکام میں سے ہے۔ جبکہ شافعیہ نے اس ممانعت کو تکبر (یعنی مخیلہ) کی قید کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔" (فیض الباری ٧٢/٦) رقم الحديث 5783، الأبواب والتراجم (١٦٥/٦)
جہاں تک عمومی وعید والی روایات کو قیدِ خیلاء پر محمول کرنے والے استدلال کی بات ہے تو حنفیہ کے یہاں تو مطلق کو مقید پر محمول کرنے کی تو ویسے ہی گنجائش نہیں ہے کہ یہ لغت کے خلاف ہے (فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا﴾ [المجادلة: 3] رقبہ مطلقہ اور رقبہ مومنہ کے ذیل میں اس کی تفصیلات موجود ہیں) شوافع وغیرہ کے یہاں ایسا اس وقت ممکن ہوتا ہے جب مطلق ومقید روایت کا حکم وسبب ایک ہو، اگر حکم اور سبب مختلف ہوں تو مطلق کو مقید پر محمول نہیں کیا جاسکتا، یہاں سبب اور حکم کا اختلاف واضح ہے:
1. حکم کا اختلاف:
• حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وعید یہ ہے کہ اللہ ایسے شخص کی طرف نظر نہیں کرے گا. (لم ينظر الله إليه يوم القيامة)
جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وعید یہ ہے کہ ایسا شخص جہنم میں داخل ہوگا. (ما أسفَلَ مِن الكَعبينِ مِن الإزارِ، ففي النَّارِ)۔
2. سبب کا اختلاف:
• حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وعید کا سبب تکبر(من جر ثوبه خيلاء) ہے۔
• جبکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وعید کا سبب ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا (ما أسفَلَ مِن الكَعبينِ) ہے۔
لہذا، درست بات یہ ہے کہ اب مطلق روایت کو مقید صورت پر محمول نہیں کیا جاسکتا، اور ٹخنہ سے نیچے کپڑا لٹکانے کی یہ وعید دونوں صورتوں پر لاگو ہوتی ہے، چاہے کپڑا تکبر کے ساتھ لٹکایا جائے یا بغیر تکبر کے۔
علاوہ ازیں جیساکہ ہم نے شروع میں عرض کیا احکام شرع کے متعدد اغراض ومقاصد وحِکَم ہوتے ہیں، یہاں بھی صرف تنہا عجب وغرور ہی وجہِ ممانعت نہیں ہے ؛ بلکہ اس کے ساتھ کپڑا لٹکانے میں اور بھی کئی خرابیاں موجود ہیں:
1. عورتوں سے مشابہت:
کپڑا لٹکانے میں عورتوں سے مشابہت ہے، کیونکہ انہیں اپنے لباس کو زمین تک لٹکانے کا حکم دیا گیا ہے۔
دلیل: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ نے اس مرد پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی طرح لباس پہنے۔" (مسند احمد 8425)
2. نجاست کے لگنے کا خدشہ:
لباس لٹکانے سے یہ خطرہ رہتا ہے کہ نجاست اس سے لگ سکتی ہے۔
دلیل: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کے وقت، انہوں نے اس نوجوان سے کہا جو ان کے پاس آیا تھا: "اپنا کپڑا اوپر کرو، یہ تمہارے لباس کے لیے زیادہ صاف اور تمہارے رب کے لیے زیادہ متقی ہے۔" (صحیح ابن حبان 6918)
3. تکبر کا امکان:
لباس لٹکانا تکبر کے اظہار کا امکان رکھتا ہے۔
ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کسی مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنا لباس ٹخنوں سے نیچے کرے اور کہے کہ میں اسے تکبر کے بغیر لٹکاتا ہوں، کیونکہ ممانعت کا حکم اس لٹکانے کو شامل ہے۔ اور جس شخص کا عمل اس ممانعت کو شامل ہو، اس کے لیے یہ کہنا جائز نہیں کہ میں اس ممانعت کا مرتکب نہیں ہوں کیونکہ مجھ میں تکبر نہیں۔ یہ دعویٰ ناقابل تسلیم ہے، کیونکہ لباس کا طویل ہونا ہی دلیلِ تکبر ہے، اب جھوٹی خارجی وقولی وضاحتوں کی چنداں ضرورت نہیں. (عارضة الأحوذي" (7/238)
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "خلاصہ یہ ہے کہ کپڑا لٹکانے کا عمل لباس کو گھسیٹنے کا سبب بنتا ہے، اور لباس گھسیٹنے کا عمل تکبر کی طرف لے جاتا ہے، چاہے پہننے والے کی نیت تکبر کی نہ بھی ہو۔" (فتح الباري (10/264)
اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کی گئی، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ازار کو گھسیٹنے سے بچو، کیونکہ ازار کا گھسیٹنا تکبر کی علامت ہے۔" (فتح الباري (10 / 264)
4. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
رسول اللہ ﷺ کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے یہ فرمانا کہ: "آپ ان لوگوں میں سے نہیں جو یہ تکبر کے ساتھ کرتے ہیں." اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بغیر تکبر کے کپڑا لٹکانا جائز ہے، کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتے تھے۔ بلکہ جب بھی ان کا ازار ڈھیلا ہو جاتا، وہ اسے درست کرلیتے تھے، جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے۔ آج کل إسبال ازار کی وکالت کرنے والے تو باضابطہ دراز قد پینٹ قصداً وعمداً خرید کر پہنتے ہیں، اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے گنجائش ڈھونڈنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں، بلا قصد وعمد کے کبھی ایسا ہوجائے تو مجبوری کی یہ صورت کراہت تنزیہی کے زمرے میں آکر قابل عفو ہے جیساکہ فقہاء حنفیہ کا مذہب ہے؛ لیکن ٹخنہ سے نیچے ازار لٹکانے کا فیشن بنا لینا اس بابت سخت نبوی وعیدوں کے ہوتے ہوئے کسی بندہ مومن کے لئے قطعی جائز نہیں ہے، اسلام ایک مکمل دین اور مستقل تہذیب ہے۔ اس میں زندگی کے ہر گوشے کی تشفی بخش رہنمائی موجود ہے۔کسی بھی دوسرے مذہب اور تہذیب وتمدن سے کچھ لینے اور خوشہ چینی کی ضرورت نہیں۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 208 میں مسلمانوں سے جو مطالبہ کیا گیا ہے وہ بہت ہی عام ہے کہ اسلامی عقائد واعمال اور احکام وتعلیمات کی صداقت وحقانیت پہ دل ودماغ بھی مطمئن ہو اور اعضاء وجوارح اور وضع قطع بھی عملی ثبوت پیش کریں۔ارشادات نبوی سے معارض کسی عرف وکلچر کی کوئی وقعت نہیں۔
"ما أسفل من الكعبين من الإزار، ففي النار" (جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ آگ میں ہوگا) کی توجیہ!
حدیث کے ظاہر پر عمل کرنا بھی ممکن ہے کہ ازار لٹکانے والے کے کپڑے بھی دوزخ میں جائیں گے، جیساکہ ارشاد باری ہے: (إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ) [الأنبياء: 98]
طبرانی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: "نبی اکرم ﷺ نے مجھے دیکھا کہ میں نے اپنا ازار لٹکایا ہوا تھا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"اے ابن عمر! جو کپڑا زمین کو چھوتا ہے، وہ آگ میں ہوگا۔ (”فَرَآنِي قَدْ أَسْبَلْتُ، فَجَاءَ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِي، وَقَالَ: "يَا ابْنَ عُمَرَ، كُلُّ شَيْءٍ مَسَّ الْأَرْضَمِنَ الثِّيَابِ، فَفِي النَّارِ "مسند احمد 5831)
علامہ خطابی فرماتے ہیں کہ اس کی توجیہ دو طرح سے کی جا سکتی ہے:
1. یہ کہ ٹخنوں سے نیچے کا جو حصہ (پاؤں) ہوگا، وہ اس عمل کے بدلے میں سزا کے طور پر آگ میں ہوگا( تسمية الشيء باسم ما جاوره)
2. اس سے مراد یہ ہے کہ یہ اور وہ فعل جو اس نے کیا، وہ آگ کے اعمال میں سے شمار ہوگا، یعنی یہ ان اعمال میں شامل ہے جو اہلِ جہنم کے اعمال میں گنے جاتے ہیں۔ [معالم السنن (4/183) طبعة المكتبة العلمية]
نماز سے پہلے پائنچے اوپر کرنے کا اعلان؟
ٹخنہ سے نیچے کپڑے لٹکانا نماز کے اندر اور باہر ہر دو حالتوں میں مکروہ ہے. نماز کے اندر اس کی کراہت دو چند ہے. ابودائود کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتے (وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لا يَقْبَلُ صَلاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ 543)
اگرکسی کالباس ایسا ہوکہ بلا قصد ٹخنے ڈھک جاتے ہوں تو اسے کم ازکم نمازسے پہلے پائنچہ اوپر کرلینا چاہیے، یہ عمل وعیدِ "کفّ ثوب" (لاَ أکُفُّ شَعْراً وَلاَ ثَوْباً․ بخاری 816) میں شامل نہیں ہے. "کف ثوب" یہ ہے کہ نمازی دوران نماز آستین وغیرہ فولڈ کرے۔ (قوله كمشمر كم أو ذيل) أي كما لو دخل في الصلاة وهو مشمر كمه أو ذيله، وأشار بذلك إلى أن الكراهة لا تختص بالكف وهو في الصلاة (شامی 640/1)
اگر نماز شروع ہونے سے قبل اس کی ہدایت کی جاتی ہے تو یہ درست عمل ہے؛ تاکہ نماز کراہت تحریمی سے بچ جائے، جو فعل نماز سے باہر گناہ ہو ،نماز میں اس کاگناہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
خلاصہ: إسبال ازار کی حرمت عام ہے، إسبال کا عمل بذات خود کبر وغرور کی دلیل ہے، اس ممانعت کی اصل حکمت یہ ہے کہ انسان تکبر سے بچ کر عاجزی اختیار کرے، مال و دولت کی نمائش سے اجتناب کرے، صفائی کا خیال رکھے، اور اسلامی تشخص کو اجاگر کرے۔ یہ ہدایت نہ صرف ظاہری عمل کی اصلاح کے لیے ہے بلکہ باطنی صفات کو بھی بہتر بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ عذر ومجبوری اور لاعلمی کی صورتیں مستثنی ہیں، فقہاء حنفیہ کے اقوال کا محمل یہی ہے، لیکن قصد وارادہ کے ساتھ لمبا ازار وپینٹ پہننا اور اس کی ترویج واشاعت کرنا ناجائز اور قابل لعنت عمل ہے، جب اس عمل کو ہی دلیل تکبر بنادیا گیا تو اب نیتوں کی توجیہات ناقابل التفات واعتبار ہونگی، نماز کے اندر وباہر ہر جگہ یہ طریقہ ناجائز ہے، ازار اور کپڑے کے لیے مستحب وبہتر یہ ہے کہ وہ نصف پنڈلی تک ہو، بغیر کسی کراہت کے جائز یہ بھی ہے کہ ٹخنوں تک ہو؛ لیکن جو ٹخنوں سے نیچے ہو، وہ ممنوع وناجائز ہے، پھر ٹخنوں سے نیچے لٹکانا ازراہ فیشن و عُجب وتکبر کے ہو تو یہ سختی سے حرام وگناہ کبیرہ ہے، اور اگر بغیر تکبر کے لاعلمی میں کبھی کبھار ہوجائے یا کسی مجبوری کے تحت ہوجائے تو یہ مکروہِ تنزیہی (ناپسندیدہ) ہے، چونکہ ٹخنہ ڈھک کے نماز پڑھنا مزید سنگین اور نماز مسترد کردیے جانے کا سبب ہے؛ اس لئے نماز میں داخل ہونے سے پہلے اس کا بطور خاص اہتمام ہونا چاہیے، اگر کوئی اس جانب توجہ مبذول کروائے (اعلان کرے) تو یہ شرعاً جائز ہے اس پر عمل کیا جائے اور کم از کم وقتی طور پہ فولڈ کرکے نماز پڑھ لے، فولڈ کا یہ عمل ممنوع ہیئت (کفّ ثوف) میں داخل نہیں ہے، جو لوگ اس پہ منفی پراپیگنڈہ کرتے ہیں وہ ادلہ شرعیہ کے درست تطبیق وتجزیہ سے قاصر ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
مركز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر)
(منگل6؍ رجب المرجب 1446ھ 7؍ جنوری 2025ء)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_7.html
Sunday, 5 January 2025
سردی کے موسم میں آغوشِ زوجہ سے جسمانی گرماہٹ حاصل کرنے کی شرعی حیثیت
سردی کے موسم میں آغوشِ زوجہ سے جسمانی گرماہٹ حاصل کرنے کی شرعی حیثیت
النساء نعمةُ الشتاء
كان السلف الصالح يغالبون زمهرير شتائهم بالارتماء في أحضان نسائهم، ولا سيّما أن الله سبحانه خص المرأة العربية ذات الجاذبية بطبقة دهنية تساعدها على تدفئة الرضيع والضجيع، وهذا من رحمته بنا، ومن فضله عليها.
وجاء في مصنف ابن أبي شيبة أن الفاروق عمر رضي الله عنه رغمَ شِدّةِ اقتدارِه، وقُوّةِ اصطبارِه، كان يستدفئ بامرأته إذا قسا عليه الشتاء، أو اغتسل بالماء.
ورُوِيَ مِثلُ هذا عن ابنه عبدالله رضي الله عنه الذي تعلّم من أبيه الاستدفاء بالزوجة الريانة الملآنة الدفآنة إذا الصوفُ ما أغنَى، ولم يَعُدْ للنار معنى.
وحَكَتْ أمُّ الدرداء عن أبي الدرداء رضي الله عنهما أنه إذا اشتد عليه الزمهرير استدفأ بحضنِها الشريف، وعاش أجواءَ المَصِيف.
وكان هذا النوع من الاستدفاء الطبيعي معروفاً لدى العرب، وخاصة لدي قريش، وقال ابن عباس رضي الله عنه في تأكيد ما سبق: ذاك عيشُ قريش في الشتاء.
ولذا كان الصالحون والنابهون والفاتحون يحرصون على الزواج من العَبْلَةِ الغَضَّة، والقُطْنَةِ البَضَّة، ويَزْهَدُون في الجَرَادَة، وعُودِ المَزَادَة، والله أعلم.
رضي الله عنهم وأرضاهم.. عَلَّمُونا حتى الاستدفاء في الشتاء أسأل الله أن يُدْفِئَ عظامَهم الراقدة في الليالي الباردة۔ —
عورتیں سردیوں کی نعمت ہیں
سلف صالحین سخت سردیوں میں اپنی بیویوں کی آغوش میں پناہ لیتے تھے، خاص طور پر کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عرب عورت کو ایک مخصوص چکنائی والی تہہ عطا کی ہے جو اسے بچے اور شوہر کو گرم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ اللہ کی ہم پر رحمت اور اس پر اس کا فضل ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں آیا ہے کہ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ، اپنی طاقت اور صبر کے باوجود، سردیوں کی سختی یا غسل کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ گرماہٹ حاصل کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ملتی ہے کہ جب اون کے کپڑے کافی نہ رہتے اور آگ سے بھی گرمی نہ ملتی، تو وہ اپنی بیوی کے نرم و ملائم جسم کے ذریعے سردی کا مقابلہ کرتے تھے۔ ام درداء رضی اللہ عنہا نے بھی روایت کیا ہے کہ ابو درداء رضی اللہ عنہ سخت سردی میں ان کی آغوش میں گرمی محسوس کرتے اور گرمیوں کا سا سکون پاتے تھے۔ یہ قدرتی گرماہٹ کا طریقہ عربوں، خاص طور پر قریش میں عام تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: یہ قریش کا سردیوں میں گزر بسر کا طریقہ تھا۔ اسی لیے صالحین، اہلِ دانش اور فاتحین عموماً نرم و ملائم اور خوش جسم بیوی سے شادی کو ترجیح دیتے تھے اور دبلی پتلی اور سخت مزاج عورت سے اجتناب کرتے تھے۔ اللہ ان سب سے راضی ہو اور ان کی قبروں کو ان سرد راتوں میں گرم رکھے۔ آمین
سوشل میڈیا پہ ان دنوں یہ عربی تحریر وائرل ہے
مركز البحوث الإسلامية العالمي کے بانی اور حلقہ کے دیگر بالغ نظر اور ممتاز اصحاب علم وفکر نے اس پہ مختلف زاویئے سے غور فرمایا اور اپنے اپنے طرز پہ اس کی تشریح وتوضیح کی۔ بانی حلقہ مفتی شکیل منصور القاسمی نے زیرگردش اس عربی مضمون پہ اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا:
"عورتیں خدا کی نعمت ہیں، ان کی جسمانی ساخت بھی شوہروں اور بچوں کے لئے جسمانی راحت وآرام کا ذریعہ ہے، ان میں خلاق اکبر نے متضاد صفات رکھی ہیں، جس طرح وہ سردیوں میں گرماہٹ کا کام کرتی ہیں ویسے ہی گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈک پہنچانے کا کام بھی بفضلہ تعالیٰ انجام دیتی ہیں، موجودہ موسم سرما (جنوری) کے تناظر میں زیرنظر تحریر تو مناسب ہے ؛واگرنہ یہ سِکّے کا صرف ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ عورتیں "نعمة الصيف" بھی ہیں، اسلاف امت سے موسم سرما میں اگر استدفاء منقول ہے تو موسم گرما میں استبراد بالزوجہ بھی منقول ہے، ممکن ہے کوئی دل جلا بندہ موسم گرما میں اس پہلو کو بھی اجاگر کردے
صبر آزما انتظار سے خلاصی کے پیش نظر جب تک کے لئے صرف ایک روایت (اسنادی حیثیت پہ بحث سے قطع نظر) کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں:
قَالَ عَبْدُاللَّهِ بن مَسْعُودٍ: "إِنِّي لأَسْتَدْفِئُ بِهَا فِي الشِّتَاءِ، وَأَتَبَرَّدُ بِهَا فِي الصَّيْفِ" المعجم الكبير 9194–حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"بے شک میں سردیوں میں اپنی بیوی کے ذریعے گرماہٹ حاصل کرتا ہوں اور گرمیوں میں اس کے ذریعے ٹھنڈک حاصل کرتا ہوں۔")
سردی وگرمی میں بیویوں سے قربت، ازدواجی تعلقات، ان کی آغوش سے جسمانی گرماہٹ وبرودت کے حصول سے صَرفِ نظر ، مذکورہ عربی مضمون میں درج احادیث بندہ عاجز کی رائے میں ایک خصوصی سیاق رکھتی ہیں، وہ یہ کہ زوج غسل جنابت سے فارغ ہوکر (زوجہ کے اغتسال جنابت سے پہلے) پھر بغل گیر ہوکر قدرے استدفاء کرسکتا ہے، یعنی ان احادیث میں جنبیہ بیوی سے اختلاط وملاصقہ کی گنجائش کو بتانا مقصود ہے کہ یہ اختلاط اس کے اغتسال ثانی کا موجب نہیں ہے، اس نوع کی روایات سردیوں میں ازدواجی تعلقات کی اہمیت کو ایک ثقافتی اور تاریخی پس منظر میں بیان کرتی ہیں، اس حوالے سے بعض سلف صالحین کے طرزِعمل کا ذکر بھی موجود ہے؛ لیکن اس کی حیثیت صرف ثقافتی ہے؛ شرعی نہیں! اس کا مطلب یہ نہیں کہ سردیوں میں شب وروز بس ہیٹر سمجھ کر چمٹا بیٹھا رہے۔ عربی تحریر کے عنوان سے کچھ یہی تاثر ابھرتا ہے۔
فقط واللہ اعلم
————————————-
مفتی توصیف صاحب قاسمی اس پہ اظہار خیال فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: "مفتی صاحب اچھا ہوا آپ نے صراحت کردی؛ ورنہ ہندوستانی پس منظر میں اتنا سا استدفاء بھی موجب غسل ہی ہے، پھر بھلا غسل کے بعد یہاں استدفاء تو کجا ، بلکہ فرار ہی ہوتا ہے." محمد توصیف قاسمی
—————————
مفتی فہیم الدین صاحب قاسمی بجنوری مدظلہ کی رائے یہ ہے:
"نا چیز کی ذاتی دریافت یہ ہے کہ گھر میں بیوی سے فاصلہ رکھنا چاہیے، بستر جدا ہوں، اہلیہ بچوں کے ساتھ سوئے اور آپ دوسرے روم میں تنہا پڑے رہیں، جوانی کا ایک نیا تجربہ کریں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تفصیل زنا سے متعلق بیان کی ہے کہ ہر عضو حصے دار ہے، دیکھنا چشم کا زنا ہے، لمس ہاتھ کا زنا ہے، الی آخرہ پھر شرم گاہ بتائے گی کہ دیکھنا اور چھونا کس نوعیت کا تھا اور دونوں کی نیت پاک تھی یا آلودہ۔ یہ تفصیل حلال تعلق پر بھی منطبق ہے، جب ہم بیوی کے ساتھ چپکے رہتے ہیں تو جنسی عمل جاری رہتا ہے، چھونا، دیکھنا، بات کرنا؛ یہ سب جماع کی صورتیں ہیں، اس جاری پروسس کے نتیجے میں ہمارے جنسی بخارات خارج یا بہتر تعبیر میں ضائع ہوتے رہتے ہیں، جنسی دباؤ کم ہوتا رہتا ہے، یہ ناقص آسودگی عروج وشباب کی کیفیت کو نقصان پہنچاتی ہے اور کئی کئی روز جنسی عمل کی نوبت نہیں آتی۔ ہماری برادری کا ایک بڑا تناسب جمعراتی ہے، ان کی جمعراتی سرخ روئی کا راز ہفتہ بھر کی دوری ہے، جمعرات ہر دو نوع کے مدرسین پر آتی ہے؛ مگر غیر مقیم مدرس جمعرات کی سائیکل طوفانی رفتار سے مارتا ہے؛ جب کہ مقیم مدرس جمعرات کا چھٹا گھنٹہ پڑھا کر بھی خراماں خراماں ہی لوٹتا ہے، اسے کوئی جوش محسوس نہیں ہوتا، اس فرق کی وجہ وہی ہے کہ اول الذکر کا جنسی پروسس موقوف تھا؛ جب کہ ثانی الذکر جنسی عمل کی ناقص صورتوں کو برابر انجوائے کررہا تھا، فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ جنس کی قاتل لہر کو انجوائے کیا جائے، یا تدریجی بہاؤ کو، راقم نے طویل تفکیر کے بعد پر امن صورت کو ترجیح دی ہے اور بستر جدا نہیں کیا۔" (فہیم الدین بجنوری)
—————————-
ڈاکٹر عزیر عالم دستگیر ممبئی کا اس ضمن میں استفسار یہ تھا: "اکابر کے تعامل اور طب، دونوں جگہ یہ بات نہیں ملی جو آپ نے لکھی. ہاں یہ ضرور پڑھا کہ "بستر الگ کرنا" بطور سزا و تنبیہ کے بتایا گیا ہے. پھر یہ مستحسن عادت کیسے ہوسکتی ہے. باقی جاننے والے زیادہ صحیح بتائیں گے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: "میں نے کبھی طبیعت کو عقل پر اور عقل کو شریعت پر غالب نہیں ہونے دیا." عزیر عالم دستگیر
———————-
بانی حلقہ مفتی شکیل منصور القاسمی نے زیربحث مسئلے کی تشریح وتو ضیح سے متعلق ایک تفصیلی جامع عربی مضمون مشترک فرمایا جو درج ذیل ہے:
(إتحاف النبلاء بما جاء في الاستدفاء بالنساء)
كتبه أسامة الفرجاني
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على أشرف الأنبياء والمرسلين، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، وبعد:
فقد انتشرت الأيام الماضية رسالة فيها بعض الآثار عن السلف في (الاستدفاء بالنساء) وعزاها صاحبها إلى مصنف ابن أبي شيبة رحمه الله ، فرجعت إلى مصنف ابن أبي شيبة للوقوف على أسانيد هذه الآثار، ودرست هذه الأسانيد وخرجت بهذا البحث اليسير، وسأذكر فيه هذه الآثار كلها بأسانيدها، وأتبع كل أثر بحكمه ، ثم أختم هذا البحث بفقه هذه الآثار، أسأل الله التوفيق والسداد.
وقد بوب الإمام ابن أبي شيبة بابا سماه [في الرجل يستدفئ بامرأته بعد أن يغتسل]، وأورد تحته الآتي:
الحديث الأول:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن بشير، عن إبراهيم التيمي أن عمر كان يستدفئ بامرأته بعد الغسل.
حكمه: ضعيف؛ للانقطاع بين (إبراهيم التيمي) و (عمر بن الخطاب) فإبراهيم ولد بعد وفاة عمر بنحو ثلاثين سنة.
الحديث الثاني:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن حماد بن سلمة ، عن عطاء الخراساني، عن أم الدرداء قالت: كان أبوالدرداء يغتسل ثم يجيء ،وله قرقفة يستدفئ به.
حكمه: ضعيف؛ لأجل (عطاء الخراساني) وهو: عطاء بن أبي مسلم.
قال شعبة: حدثنا عطاء الخراساني وكان نسيا.
وقال ابن حبان: كان رديء الحفظ يخطيء ولا يعلم.
ثم هو أيضا يدلس، ولم يصرح هنا بالسماع.
قال الحافظ في التقريب: صدوق يهم كثيرا، ويرسل ويدلس .اهـ
والقرقفة: ارتعاش واضطراب في الأسنان بسبب البرد.
الحديث الثالث:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا حفص وكيع، عن مسعر، عن جبلة، عن ابن عمر قال: إني ﻷغتسل من الجنابة ثم أتكوى بالمرأة قبل أن تغتسل.
حكمه: صحيح، رجاله كلهم ثقات، (حفص بن غياث، ووكيع بن الجراح ، ومسعر بن كدام، وجبلة بن سحيم)
الحديث الرابع:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن إبراهيم بن المهاجر، عن عبدالله بن شداد عن ابن عباس قال: ذاك عيش قريش في الشتاء.
حكمه: حسن، رجاله ثقات إلا إبراهيم بن مهاجر فمختلف فيه:
منهم من وثقه كابن سعد وابن شاهين والزهري.
ومنهم من ضعفه كابن معين وابن حبان والدارقطني.
ومنهم من توسط فقال (لا بأس به) كالثوري وأحمد والنسائي في رواية، وقال أبو داود: صالح الحديث.
ويرى الشيخ الألباني -رحمه الله - أن الأقرب هو قول من توسط ، فقد قال في [الصحيحة 317/2]: هو حسن الحديث إن شاء الله تعالى. اهـ
الحديث الخامس:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا إسماعيل بن علية، عن حجاج بن أبي عثمان ،حدثنا يحيى بن أبي كثير، قال: حدثني أبو كثير: قال قلت ﻷبي هريرة: الرجل يغتسل من الجنابة ثم يضطجع مع أهله ؟ قال: لا بأس به.
حكمه: صحيح، رجاله كلهم ثقات، (إسماعيل بن علية، وحجاج بن أبي عثمان الصواف ويحيى بن أبي كثير، وأبو كثير السحيمي).
الحديث السادس:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبوالأحوص، عن أبي إسحاق، عن عبدالرحمن بن الأسود، قال: كان الأسود يجنب فيغتسل، ثم يأتي أهله فيضاجعها يستدفئ بها قبل أن تغتسل.
حكمه: ضعيف، لعنعنة أبي إسحاق - وهو عمرو بن عبد الله السبيعي - فإنه مدلس ، ولم يصرح بالسماع.
الحديث السابع:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا حفص، عن الأعمش، عن إبراهيم قال: كان علقمة يغتسل ثم يستدفئ بالمرأة وهي جنب.
حكمه: صحيح، رجاله ثقات، ولا تضر عنعنة الأعمش فإنها منه عن إبراهيم محمولة على الاتصال، كما قال الإمام الذهبي رحمه الله في (ميزان الاعتدال 224/2).
و (علقمة) هو ابن قيس النخعي، ثقة ثبت فقيه عابد ،من كبار التابعين.
الحديث الثامن:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة أنه كان يستدفئ بامرأته ثم يقوم فيتوضأ وضوءه للصلاة.
حكمه: صحيح على شرط الشيخين .
وعلقمة هو - كما مر - : ابن قيس النخعي .
الحديث التاسع:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبو معاوية، عن حجاج، عن أبي إسحاق، عن الحارث، عن علي أنه كان يغتسل من الجنابة ،ثم يجيء فيستدفيء بامرأته قبل أن تغتسل، ثم يصلي ولا يمس ماء.
حكمه: ضعيف جدا، فالراوي عن علي: الحارث بن عبدالله الأعور مجمع على ضعفه كما قال النووي في الخلاصة.
كما أن أبا إسحاق (السبيعي) وحجاجا (ابن أرطأة) مدلسان ولم يصرحا بالسماع .
الحديث العاشر:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا أبو خالد، عن حجاج، عن أبي إسحاق، عن الحارث، عن علي قال: إذا اغتسل الجنب ثم أراد أن يباشر امرأته فعل إن شاء.
حكمه: ضعيف جدا.
فيه ما في سابقه من العلل.
الحديث الحادي عشر:
قال ابن أبي شيبة : حدثنا أبو خالد الأحمر، عن شعبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب قال: يباشرها وليس عليه وضوء.
حكمه: صحيح، وعنعنة قتادة هنا لا تضر، فإن الراوي عنه هو شعبة، وقد قال شعبة: كفيتكم تدليس ثلاثة، الأعمش وأبي إسحاق وقتادة [معرفة السنن للبيهقي 35/1]
وقال أبو عوانة في مستخرجه :حدثنا نصر بن مرزوق، حدثنا أسد بن موسى قال : سمعت شعبة يقول: كان همتي من الدنيا شفتي قتادة ، فإذا قال (سمعت) : كتبت ، وإذا قال (قال): تركت. اهـ
مع أن تدليس قتادة في الجملة قليل مغتفر كما قال العلامة الألباني- رحمه الله - في (الصحيحة 614/5): تدليس قتادة قليل مغتفر، ولذلك مشاه الشيخان، واحتجا به مطلقا كما أفاده الذهبي، وكأنه لذلك لم يترجمه الحافظ في التقريب بالتدليس، بل قال فيه (ثقة) .اهـ
الحديث الثاني عشر:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن مبارك، عن الحسن قال: لا بأس أن يستدفئ بامرأته بعد الغسل.
حكمه: ضعيف، فمبارك - وهو ابن فضالة - صدوق يدلس ويسوي كما قال الحافظ في التقريب، ولم يصرح هنا بالسماع .
الحديث الثالث عشر:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا وكيع، عن مسعر، عن حماد: أنه كان يكرهه حتى يجف.
حكمه: صحيح، وحماد هو: ابن أبي سليمان الفقيه المعروف، وهو من صغار التابعين .
الحديث الرابع عشر:
قال ابن أبي شيبة: حدثنا شريك، عن حريث، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة قالت: كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يغتسل من الجنابة ثم يستدفئ بي قبل أن أغتسل.
حكمه: ضعيف ، فشريك وهو (ابن عبدالله النخعي) صدوق يخطيء كثيرا، قاله الحافظ في التقريب.
و (حريث) - وهو ابن أبي مطر الفزاري - ضعيف.
وقد أخرج ابن ماجه هذا الحديث في سننه من طريق المصنف.
وأخرجه الترمذي من طريق هناد عن وكيع عن حريث به.
وقد حكم عليه بالضعف العلامة الألباني رحمه الله ، كما في ضعيف الترمذي برقم 123، ابن ماجه برقم 128 .
وأما قول الإمام الترمذي رحمه الله (هذا حديث ليس بإسناده بأس) فمتعقب ،تعقبه العلامة عبدالمحسن العباد - حفظه الله - بقوله [بل فيه بأس] (شرح جامع الترمذي شريط 27)
فتلخص من هذا ثبوت:
1) قول ابن عمر: إني ﻷغتسل من الجنابة ثم أتكوى بالمرأة قبل أن تغتسل.
2) قول ابن عباس: ذاك عيش قريش في الشتاء .
3) قول أبي هريرة (لا بأس) لمن سأله عن (الرجل يغتسل من الجنابة ثم يضطجع مع أهله).
4) قول إبراهيم: كان علقمة يغتسل ثم يستدفئ بالمرأة وهي جنب.
5) قول سعيد بن المسيب [يباشرها وليس عليه وضوء].
6) وكراهية حماد لذلك حتى يجف.
فقه هذه الآثار:
1) أن بشرة الجنب طاهرة؛ ﻷن الاستدفاء إنما يحصل من مس البشرة البشرة [شرح مشكاة المصابيح للمباركفوري 307/2]
2) طهارة عرق المرأة الجنب، ولعابها وسؤرها، كالرجل الجنب، وكذا الحائض والجنب. [المصدر السابق].
3) أن الرجل إذا اغتسل فلا بأس أن يستدفئ بامرأته، قال الترمذي: [وهو قول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين]
فاستدفاء الرجل بامرأته لا بأس به، لكن لا يقال (هو سنة !)،
يقول الشيخ العلامة عبد المحسن العباد حفظه الله : إذا حصل أن الرجل فعل هذا فليس هناك مانع يمنع منه، لكن لا يقال: إن ذلك سنة ثابتة عن النبي صلى الله عليه وسلم ؛ ﻷن الحديث بذلك ضعيفا. اهـ (شرح جامع الترمذي شريط 27)
وهنا أود التنبيه أن إيراد الأئمة المصنفين كابن أبي شيبة والترمذي وابن ماجه لهذه الأحاديث في كتاب الطهارة: يدلك على أن مرادهم بذلك (أن الجنب ليس نجسا)، ولو كان مرادهم بيان سنية الاستدفاء لأوردوا هذه الآثار في كتاب النكاح.
والمقصود أن الاستدفاء لا مانع منه، لعدم المانع الشرعي، وأكدت هذه الآثار هذا الجواز، والله أعلم.
وأجدها فرصة طيبة في هذا المقام ﻷذكر إخواني بمكانة مصنف ابن أبي شيبة ، وحسبك قول الحافظ ابن كثير رحمه الله في (البداية والنهاية 315/10): المصنف الذي لم يصنف أحد مثله قط، لا قبله ولا بعده! .اه
ـ
كما لا يفوتني أن أنبه أن دراستي السابقة هي لأسانيد ابن أبي شيبة خاصة ، فالأحكام السابقة هي على هذه الأسانيد، وأشكر في الختام الشيخ عليا الرملي على تفضله بمراجعة بحثي، والحمد لله رب العالمين.
(كتبه أخوكم: أسامة الفرجاني)
(عورتوں سے گرمی حاصل کرنے کے بارے میں آنے والی روایات سے متعلق شرفاء کو تحفہ علمی)
تحریر: اسامہ الفرجانی
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، اور درود و سلام ہو تمام انبیاء و مرسلین کے سردار، ہمارے نبی محمد ﷺ پر، اور ان کے اہل بیت اور صحابہ پر۔
گزشتہ دنوں ایک پیغام گردش کررہا تھا جس میں سلف صالحین کی چند روایات کا ذکر تھا کہ وہ عورتوں سے گرمی حاصل کرتے تھے۔ پیغام کے مصنف نے ان روایات کو مصنف ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا تھا۔ میں نے ان روایات کی سندوں کو پرکھنے کے لیے مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف رجوع کیا اور ان کی تحقیق کے بعد یہ مختصر مقالہ پیش کیا۔ اس میں تمام روایات کے حوالے، ان کے احکام اور ان کا فہم شامل ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے اس کام میں اخلاص اور درستگی کی دعا کرتا ہوں۔
باب: مرد کا غسل کے بعد اپنی بیوی سے گرمی حاصل کرنا
ابن ابی شیبہ نے اس موضوع پر ایک باب باندھا اور اس میں درج ذیل روایات بیان کیں:
پہلی حدیث:
ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے سفیان کے واسطے سے، انہوں نے بشیر سے، اور انہوں نے ابراہیم تیمی سے روایت کیا کہ:
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غسل کے بعد اپنی بیوی سے گرمی حاصل کرتے تھے۔
حکم: یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ ابراہیم تیمی اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع (تسلسل کا فقدان) ہے۔ ابراہیم تیمی عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے تقریباً تیس سال بعد پیدا ہوئے۔
دوسری حدیث:
ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے حماد بن سلمہ کے واسطے سے، انہوں نے عطا خراسانی سے، اور انہوں نے ام درداء رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ:
ابو درداء رضی اللہ عنہ غسل کے بعد کپکپاہٹ محسوس کرتے اور اپنی بیوی کے پاس آکر گرمی حاصل کرتے۔
حکم: یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ عطا خراسانی کی حافظہ میں کمزوری تھی اور وہ تدلیس کرتے تھے۔
تیسری حدیث:
ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں حفص اور وکیع نے مسعر کے واسطے سے، انہوں نے جبلہ سے، اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ:
میں غسل جنابت کے بعد اپنی بیوی سے گرمی حاصل کرتا ہوں۔
حکم: یہ روایت صحیح ہے۔ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
چوتھی حدیث:
ابن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں وکیع نے اسرائیل کے واسطے سے، انہوں نے ابراہیم بن مہاجر سے، اور انہوں نے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ: یہ قریش کی سردیوں کی زندگی ہے۔
حکم: یہ روایت حسن ہے۔ اس کے راوی قابل اعتماد ہیں، سوائے ابراہیم بن مہاجر کے جن کے بارے میں اختلاف ہے۔
دیگر احادیث کا خلاصہ:
مصنف ابن ابی شیبہ میں ایسی مزید روایات ہیں جن میں مردوں کے غسل کے بعد بیوی سے گرمی حاصل کرنے یا قربت کے مختلف حالات ذکر کیے گئے ہیں۔ ان میں بعض ضعیف ہیں، بعض حسن، اور چند صحیح درجے کی ہیں۔
فقہی نکات:
1. جنب کی جلد اور پسینہ پاک ہے: یہ روایات ثابت کرتی ہیں کہ جنب انسان کی جلد اور پسینہ ناپاک نہیں ہوتا۔
2. بیوی سے قربت جائز ہے: اگر کوئی شخص غسل کے بعد اپنی بیوی سے قربت اختیار کرے یا اس سے گرمی حاصل کرے تو اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔
3. یہ سنت نہیں، صرف جواز ہے: اگرچہ یہ عمل جائز ہے، لیکن اسے سنت کہنا درست نہیں کیونکہ نبی ﷺ سے اس کا ثبوت صحیح سند کے ساتھ نہیں ملتا۔
اختتامیہ:
یہ روایات ہمیں سلف صالحین کے عملی طرزِ زندگی کے کچھ پہلو دکھاتی ہیں۔ البتہ، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ان میں سے بعض ضعیف ہیں اور ان پر کسی شرعی حکم کو قائم نہیں کیا جاسکتا۔
میں اس تحقیقی مقالے کی تصدیق اور جائزے پر شیخ علی الرملي کا شکرگزار ہوں۔
واللہ اعلم۔
————————-
جمع وترتیب: #ایس_اے_ساگر
https://saagartimes.blogspot.com/2025/01/blog-post_5.html
Wednesday, 1 January 2025
سنا ہے سال بد لے گا!
سنا ہے سال بد لے گا!
-------------------------------
عیسوی سال 2024ء کا آخری سورج ڈھلنے کو ہے، ایشیائی ممالک میں ڈھل بھی چکا ہے؛ لیکن سال 2024ء میں عالمی افق پہ نسل پرستانہ برتری، قابو کی حکمرانی، مذہبی منافرت، نسل و قوم پرستی کے جنون وتعصب کا جو سورج طلوع ہوچکا ہے وہ شاید دہائیوں تک نہ ڈھل سکے۔ نئے عیسوی سال 2025ء کے آغاز پہ امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں کے ساتھ دنیا بھر میں جشن کا سماں ہے-
آسمان پہ رنگ ونور کی برسات ہے۔آتش بازی کی جارہی ہے،منچلے سڑکوں پہ نکل کے رقص کناں ہیں،مرد وخواتین کاروں ،موٹر سائیکلوں اور پیادہ پائوں سڑکوں پہ نکل آئے ہیں، جشن کا ماحول ہے۔سالِ نو کی آمد پہ شہر کا شہر پٹاخوں اور ہوائی فائرنگ کی آواز سے دہل رہا ہے۔
لیکن آہ! فلسطین کے نہتھے عوام میں جراحتوں، ہلاکتوں ،پامالیوں، غموں اور مصیبتوں کی کیسی قیامت خیزیاں ہیں؟ ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی سفاکیت کا طوفان بلاخیز بھی کبھی تھمے گا؟
سال 2024 کا سب سے تکلیف دہ واقعہ غزہ پر اسرائیلی درندگی کا تسلسل ہے جو اب تک 45 ہزار سے زائد فلسطینی کی معصوم جانیں نگل چکا ہے، لیکن حقوق انسانی کے ٹھیکیدار امریکا اور مغربی ممالک کے کانوں پر جوئیں تک نہ رینگیں، بلکہ سفاک اسرائیل کو جنگی ساز وسامان کی فراہمی کے وعدے کئے جارہے ہیں۔
امریکا کے صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی بطور صدر کامیابی بھی سال 2024 کے منظر نامے کا حیران کن باب ہے۔
سولہ سال تک قوت واقتدار کا اکلوتی سرچشمہ سمجھے جانے والی خاتون آہن حسینہ واجد کا فرار اور اس کے اقتدار کا خاتمہ سال 2024 کی امید افزا خبر تھی۔
حماس سربراہان شیخ اسماعیل ہنیہ ،یحییٰ سنوار اور حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت نسل پرستانہ برتری کے مظالم اور درندگی کے دلدوز مظاہر ہیں۔
سال 2024 کی دل خراش سوغاتوں کے بیچ ایک اچھی اور امید افزا خبر یہ آئی کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتین یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور انہیں جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا؛ لیکن المیہ کہئے کہ وہ پابند سلاسل نہ ہوسکا ۔اسی طرح 2024ء میں اسپین، ناروے اور آئرلینڈ کی طرف سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا جو 2024 کے عالمی سیاسی منظر نامے میں غیرمعمولی اقدام ہے، کاش مسلم ممالک بھی یہ جرات کرپاتے!
میرے نزدیک سال 2024 کی سب سے اچھی اور دھماکہ خیز خبر یہ تھی کہ تاریخ انسانی کا سفاک ترین درندہ بشار الاسد - جس کے خونی پنجوں نے بلا شبہ لاکھوں انسانوں کی جانیں لیں -کے 24 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا اور وہ دم دبا کر روس فرار ہوا ۔فتح دمشق سال رواں کا امید افزا واقعہ ہے۔
نسل پرستانہ برتری کے اسی نازی طرز حکومت کا تجربہ ہمارے مادر وطن ہندوستان میں ہورہا ہے، 2024 کے من جملہ سانحات کا سیاہ ترین باب یہ بھی ہے کہ “ مغل اعظم “ کی حکومت یہاں پھر قائم ہو گئی ہے ۔جمہوری روایات اور مذہبی امن ورواداری کا جنازہ نکل رہا ہے۔ اوقاف مسلمین کو ہتھیانے کی سازشیں ہورہی ہیں، مسجدوں کے نیچے منادر تلاش کئے جارہے ہیں، مسلم اقلیت کو سر راہ ہراساں کئے جانے کا ہر حربہ استعمال ہورہا ہے۔
امن کی امیدوں اور خوشحالی کی تمنائوں (آس ورجاء) کے ساتھ جس عیسوی سال 2024 کا آغاز لوگوں نے کیا تھا ۔آج ہم اپنے دل میں ہزاروں غم چھپائے اس سال کے آخری دن کی دہلیز پہ" یاس وناامیدی" کے ساتھ کھڑے ہیں۔اسلامی سال کا آغاز ہوئے چھ ماہ سے زائد ہوچکے ہیں۔آج شب بارہ بجے کے بعد دنیا بھر کے عیسائی لوگ اور اسلامی "اقدار وروایات " سے ناواقف ' مغرب زدہ مسلمان ' عیسوی نئے سال کا زور دار استقبال کریں گے۔
لیکن مجھے نہیں معلوم کہ جگمگاتی روشنیوں ،قمقموں اور فلک شگاف پٹاخوں کے ذریعہ "بہشت احمقاں" میں رہنے والے یہ لوگ اپنے غموں پہ ہستے ہیں یا اپنی کامیابیوں اور حصولیابیوں پہ خوشیاں مناتے ہیں ؟؟؟
کیونکہ نئے سال کی نئی صبح میں خوشیاں منانے والے اور خوشحالیوں کے خواب دیکھنے والے کا خواب دسمبر کی آخری تاریخ تک بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا!۔
آخر لوگ اس کا ادراک کیوں نہیں کرتے؟ کہ رات ودن کے بدلنے سے،ستاروں اور سیاروں کے اپنے محور کے گرد چکر لگانے سے، ماہ وسال کے بدلنے ، کسی کے گذرنے یا کسی کے آنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
فرق پڑتا ہے تو اس سے پڑتا ہے کہ گذرنے والا سال ہمیں کیا دے جارہا ہے ؟ اور آنے والا سال ہمارے لئے کیا لارہا ہے ؟؟؟ ۔۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گذرنے والے سال میں انسانوں کی سوچ اور اپروج میں کیا تبدیلی آئی؟ اور آنے والے سال میں ان کے زاویہ نگاہ میں تبدیلی کے کیا اور کتنے امکانات ہیں؟؟
سال 2024 میں ملت اسلامیہ کے چہرے پہ بیشمار غم' سیاہ کالک کی طرح مل دیئے گئے ہیں۔
اس سال سے ملنے والی سوغاتوں میں ہمیں واضح طور پہ نظر آتا ہے کہ اس سال میں دنیا پہلے سے کہیں بڑھکر بدامنی کا شکار ہوئی۔بالخصوص عالم اسلام پہلے سے کہیں بڑھ کر قتل، غارت، انتشار وخلفشار کی آماجگاہ بن گیا۔
اس کے ساتھ ہی پورے عالم میں چاروں طرف پہیلی بداعمالیاں، بے ایمانیاں، وحشتناک بدامنی، دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری، بھوک مڑی، ناپ تول میں کمی، احکام خداوندی سے کھلی بغاوت ،دین وشریعت سے دوری، والدین اور شوہروں کی نافرمانی جیسے ناسور ہمارے معاشرے میں ہنوز باقی ہی نہیں، بلکہ ان خرابیوں کا شرح نمو روز افزوں ہے۔ ان کا مداوی کرنے والا کوئی دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ اتنے سارے زخموں کے ہوتے ہوئے ہمیں خوشیاں منانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔ اب دیکھنا ہے کہ 2025 کا نیا منظر نامہ کتنا مہیب اور بھیانک ہوتا ہے!
اگر آنے والا سال امن کا پیامبر ہوتا!
اگر آنے والے سال میں مسلمانان عالم اپنی اساس کو پہچان کر، باہمی گلے شکوے بھول کر، احکام شریعت کے نام پہ بھائی بھائی بن کر، انسانیت اور آدمیت کے نام پہ اتحاد کرلیں، اور آنے والے سال کو ظلم وبربریت اور کفر وطغیان کے خاتمے اور دعوت اسلامی کے فروغ کا سال ہونے کا عہد کریں تو پہر میں بھی آپ کو اس کے آغاز پہ دعائیں دے سکتا ہوں ۔لیکن یہاں حال یہ ہے کہ :
نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے سال بدلے گا
پرندے پھر وہی ہونگے شکاری جال بدلے گا
بدلنا ہے تو دن بدلو بدلتے کیوں ہو ہندسے کو
مہینے پھر وہی ہونگے سنا ہے سال بدلے گا
وہی حاکم وہی غربت وہی قاتل وہی ظالم
بتائو کتنے سالوں میں ہمارا حال بدلے گا ؟؟؟
کیلنڈر کا سورج ڈوب گیا تو کیا؟ انقلاب کا سورج طلوع ہوکر رہے گا، جبر واستبداد کی گھٹائیں چھٹ کے رہیں گی. ان شاء اللہ.
بیگوسرائے
31/12/2024
روز منگل، ساڑھے چھ بجے شام
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
کرسمس کے کیک کا حکم
کرسمس کے کیک کا حکم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ بعض عیسائی حضرات جو اس موقع پر کیک بطور تحفہ مسلمان دوستوں کو دیتے ہیں جس کا تعلق بظاہر کرسمس سے ہی معلوم ھوتا ہے کیا اسےقبول کرنے کی گنجایش ہے اورکیا اسےکرسمس سے ہی متعلق ماناجائے گا؟
الجواب وباللہ التوفیق:
کرسمس کے کیک یا اس موقع کے دیگر تحائف قبول کرنے کے بارے میں علماء کے درمیان دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں، علماء کے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ غیر مسلمین کے مذہبی تہواروں کے موقعوں پر ان کے تحائف قبول کرنا جائز نہیں ہے، کرسمس ایک معروف مذہبی تہوار ہے جس کا تعلق عیسائی باطل ومشرکانہ عقائد سے ہے، اس کا منانا، اس میں شرکت کرنا یا اس موقع سے پیش کے گئے مخصوص تحائف قبول کرنا مشرکانہ عقائد و شعائر کی تعظیم و توثیق کے مشابہ ہونے کے باعث ناجائز ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق غیرمسلموں کی "مذہبی رسومات" اور ان کے تہواروں کی تعظیم سے بچنا ضروری ہے تاکہ کسی قسم کا "تشبہ" پیدا نہ ہو۔اسلام مستقل دین، کامل واکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے، ہر مسلمان کو اپنے مذہب کے عقائد واعمال اور احکام و تعلیمات کی صداقت وحقانیت پر دل ودماغ سے مطمئن ہونا اور اعضاء وجوارح سے اس کا عملی ثبوت پیش کرنا ضروری ہے. کسی دوسری قوم کی عادات و اطوار اور تہذیب و تمدن سے استفادہ وخوشہ چینی (شرکیہ و کفریہ طور طریق کو پسند کرنے) کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کفر پسندی یا اس پہ رضا واقرار یا اس کی حمایت ونصرت بندہ مومن کو دین سے خارج کردیتی ہے:
"يَا أيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ". (الممتحنة: 1).
’’من کثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضي عمل قوم کان شریکا في عمله.‘‘ (كنزالعمال: الرقم: 24730، نصب الرایۃ للزیلعي: 102/5. کتاب الجنایات، باب ما یوجب القصاص وما لا یوجبہ، الحدیث التاسع)
جبکہ علماء کے دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ اپنے مذہبی حدود وشعار پہ انشراح واستقامت کی شرط کے ساتھ دیگر اہل مذاہب ہم وطنوں و ہم پیشہ افراد و اشخاص کے ساتھ معاشرتی حسن سلوک و احسان کے تحت ان کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر ان کے ہدایا قبول کرنا چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
کیک، مٹھائی یا کھانے کی چیزیں انہوں نے اپنے باطل معبودوں کے نام پر نہ چڑھایا ہو اور نہ ہی اس میں کسی حرام و ناپاک چیز کی آمیزش کی گئی ہو، دینے والوں کا اکثر ذریعہ آمدن حلال ہو، قبول کرنے کا مقصد صرف حسن اخلاق ہو، نہ کہ کرسمس کی مذہبی تعظیم، ہدیہ قبول کرنے کے بعد کسی دینی معاملے میں اس غیر مسلم کے اثر انداز ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو ان شرطوں کے تحقق کے ساتھ کیک یا مٹھائی وغیرہ کا استعمال کرنا جائز ہے؛ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے غیرمسلموں کے تحائف قبول کیے ہیں، جیسا کہ یہودیوں سے کھانے کی دعوت قبول کرنا ثابت ہے (صحیح البخاري (2617)، ومسلم (2190) .
جواز کی شرطوں کے تحقق کا ذریعہ چونکہ موہوم ہے، متیقن نہیں؛ اس لئے احوط یہ ہے کہ کرسمس کے کیک یا تحفہ قبول کرنے سے پرہیز کیا جائے، معاشرتی حسن سلوک اور اعلی انسانی اخلاق واقدار کا اظہار امر آخر ہے، مذہبی تہواروں کے موقع کی مخصوص ہدایا قبول کرنے سے ان کے عقائد کی تائید وتوثیق یا ان کے کلچر کی ترویج وتکثیر کا شائبہ ابھرتا ہے؛ اس لئے اجتناب برتنا بہتر ہے؛ تاکہ ہمارا عقیدہ اور اسلامی حدود محفوظ رہ سکیں۔
واللہ اعلم
مرکز البحوث الإسلامية العالمي
٢٨ جمادی الثانیہ 1446ہجری