Friday 11 October 2024

یوم وفات کے موقع پرمیت کو یاد کرنا؟

یوم وفات کے موقع پرمیت کو یاد کرنا؟
-------------------------------
برسی منانا اپنے جلو میں ایک خصوصی مفہوم رکھتا ہے. جس میں خصوصی عملی اقدامات واہتمامات (مجالس ومحافل کا قیام یا دعوت شیراز وغیرہ کا اہتمام) کا تحقق ہوتا ہے، اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ یہ "ایجاد بندہ" خانہ زاد اور نو ایجاد چیز ہے، شریعت اسلامیہ میں اس کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 
کسی وفات یافتہ بندے بالخصوص علمی ودعوتی اہم شخصیت کے لئے دعائوں کی گزارشات بھی تحدید زمانی (مہ وسال) سے ماورا ہونی چاہئیں، بلاتعیین تاریخ وماہ ہمیشہ ان کے لئے دعائیں کی جاسکتی ہیں اور دوست واحباب سے کروائی بھی جاسکتی ہیں، دعائوں کی گزارشات کے لئے سالانہ یوم وفات کی تعیین وتحدید، گوکہ ممنوع "برسی" کے زمرے میں نہیں آتی؛ لیکن کسی حد تک اس سے ہم آہنگ وہم رنگ ضرور محسوس ہوتی ہے۔
حاضرین وموجود لوگوں کے لئے تین دنوں بعد تعزیت کی کراہت بھی اسی لئے ہے کہ اس سے غم تازہ ہوتا ہے اور پسماندگان میت بلاوجہ مبتلاے رنج وغم ہوتے ہیں 
یوم وفات کے موقع پر ہر سال اہم علمی شخصیات کے سانحہ ارتحال کی تذکیر وتجدید کرنا، ان کے کارناموں کو یاد کرنا، ان کی ہمہ جہت خدمات کو اجاگر کرنا، نسل نو کے لئے نقش راہ بنانے کے مقصد سے ان کے کارہائے نمایاں کو سامنے لانا اگرچہ اصلاً ممنوع نہیں ہے کہ اس میں کوئی خرافی عملی اقدام نہیں ہوتا۔ 
لیکن اس سے ایک تو قرابت داروں کا غم تازہ ہوگا، اور مافوق الثلاث تعزیت کی کراہت والی علت کے باعث یہ عمل ناپسندیدہ ہوگا۔
دوسرے اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ رفتہ رفتہ یہ شکل کہیں برسی کو منتج نہ ہوجائے؛ اس لئے سدّ ذریعہ کے بطور بھی اس کا اہتمام بہتر اور مزاج شریعت سے ہم آہنگ نہیں۔
پورا سال خالی پڑا ہوا ہے۔ حسب موقع وفرصت اکابر علماء کی علمی وتجدیدی کارناموں کو سامنے لاتے رہنا چاہئے، مغفرت ورفع درجات کے لئے دعائوں کی گزارشات بھی ہونے چاہئیں؛ لیکن اس کام کے لئے خاص کر "یوم وفات" کے التزام سے لازمی اجتناب ہونا چاہئے کہ یہ متعدد وجوہ کے سبب پسندیدہ نہیں۔
فقط 
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_11.html

Thursday 10 October 2024

حضرت سعد بن معاذ کو قبر کا بھینچنا

حضرت سعد بن معاذ کو قبر کا بھینچنا
 ✦ حضرت سعد بن معاذ کو قبر کا بھینچنا ✦
ایک بات کے متعلق مجھے استفسار درپیش ہے کہ صحابی رسول حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں، کہا جاتا ہے کہ حضرت کی وفات کے موقع پر خدا تعالی کا عرش بھی جھوم اٹھا تھا؛ لیکن دوسری جانب یہ بھی سنا جاتا ہے کہ تدفین کے بعد ان کو قبر نے بھینچا بھی تھا تو ان کے ساتھ قبر نے یہ معاملہ کیوں کیا؟ مجھے وضاحت کیساتھ اس کا جواب عنایت فرمایئں!
▪️باسمہ تعالی▪️
الجواب وبہ التوفیق: 
حضرت سیدنا سعد بن معاذ ایک جلیل القدر صحابی ہیں۔ جہاں ان کے فضائل متعدد ہیں وہیں یہ بات بھی ہے کہ ان کے جنازہ میں ستر ہزار فرشتے شریک تھے، نیز ان کی وفات پر عرش الہی بھی جھوم اٹھا تھا، فرشتوں نے بھی ان کے جنازے کو کندھا دیا تھا، اور بزبان نبوت ان کے جنتی لباس فاخرہ کا ذکر بھی روایت معتبرہ میں ہے: 
•ان کا جنتی لباس•
امام حافظ الدنیا علامہ ابن حجر عسقلانی نے "الاصابہ" میں معتبر سند سے روایت ذکر کی ہے کہ حضرت سعد بن معاذ کا جنت والا لباس بہت عمدہ ہوگا: 
✧ وأخرج ابن السكن وأبو نعيم من طريق داود بن الحصين عن واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ عن أبيه قال: لبس رسول الله صلى الله عليه وسلم قباء مزررا بالديباج، فجعل الناس ينظرون إليه فقال مناديل سعد في الجنة أفضل من هذا. رواته موثقون إليه.
٭ المصدر: الإصابة في معرفة الصحابة
٭ المحدث: الامام ابن حجر العسقلاني 
٭ المجلد: 4
٭ الصفحة: 525
٭ الرقم: 5857
٭ الطبع: دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
•رحمن کے عرش کا جھومنا• 
امام ترمذی نے بسند صحیح ذکر کیا ہے کہ حضرت سعد بن معاذ کی وفات پر عرش الہی جھوم اٹھا:
※ حدثنا محمود بن غيلان حدثنا عبد الرزاق أخبرنا ابن جريج أخبرني أبو الزبير أنه سمع جابر بن عبدالله يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وجنازة سعد بن معاذ بين أيديهم اهتز له عرش الرحمن.
 قال وفي الباب عن أسيد بن حضير وأبي سعيد ورميثة. قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح.
÷ المصدر سنن الترمذي
÷ المجلد: 6
÷ الصفحة: 160
÷ الرقم: 3848
÷ الطبع: دارالغرب الإسلامي، بيروت، لبنان.
فرشتوں کا جنازے کو کندھا دینا:
امام ترمذی نے بیان کیا کہ ان کے جنازے کے ہلکا ہونے کی وجہ سے بعض منافقین نے اسکا طعنہ دیا تو نبی کریم نے کہا: ان کو کیا معلوم، سعد کے جنازے کو ملائکہ نے بھی کندھا دیا تھا۔
حدثنا عبد بن حميد أخبرنا عبدالرزاق أخبرنا معمر عن قتادة عن أنس بن مالك قال لما حملت جنازة سعد بن معاذ قال المنافقون ما أخف جنازته وذلك لحكمه في بني قريظة فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال إن الملائكة كانت تحمله.
 قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح غريب.
% المصدر: سنن الترمذي
% المجلد: 6
% الصفحة: 161
% الرقم: 3849
% الطبع: دارالغرب الإسلامي، بيروت، لبنان.
قبر کا ان کو بھینچنا:
امام نسائی نے (بَابُ: ضَمَّةِ الْقَبْرِ وَضَغْطَتِهِ) میں بسند صحیح روایت ذکر کی ہے جس میں ہے کہ ایک بار قبر نے حضرت سعد کو بھینچا تھا: 
اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا عمرو بن محمد العنقزي، قال: حدثنا ابن إدريس، عن عبيدالله، عن نافع، عن ابن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "هذا الذي تحرك له العرش، وفتحت له ابواب السماء، وشهده سبعون الفا من الملائكة، لقد ضم ضمة، ثم فرج عنه۔"
(ترجمہ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی وہ شخص ہے جس کے لئے عرش الٰہی ہل گیا، آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے، اور ستر ہزار فرشتے اس کے جنازے میں شریک ہوئے، (پھر بھی قبر میں) اسے ایک بار بھینچا گیا، پھر (یہ معاملہ) ان سے ہٹالیا گیا۔“
∅ المصدر: سنن نسائي
∅ الصفحة: 284
∅ الرقم: 2055
∅ الطبع: دارالحضارة للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية.
قبر نے کیوں بھینچا:
اب قابل بیان بات یہ ہے کہ حضرت سعد کی اس قدر جلالت شان کے باوجود ان کو قبر نے کیوں دبایا؟ تو اس کے دو طرح کے جوابات ہیں:
1) بعض کتب میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: سعد بن معاذ سے گاہے طہارت و بول میں کوتاہی ہوئی ہوگی تو اس کی وجہ سے قبر نے یہ معاملہ کیا: 
دلائل النبوہ:
اخبرنا ابو عبدالله الحافظ، حدثنا ابوالعباس، قال: حدثنا احمد، قال: حدثنا يونس، عن ابن إسحاق، قال: حدثنا أمية بن عبد الله : انه سأل بعضَ أهل سعد: ما بلغكم من قول رسول الله في هذا؟ فقالوا: ذكر لنا ان رسول الله سئل عن ذلك، فقال: كان يقصر في بعض الطهور من البول.
٭ المصدر: دلائل النبوة
٭ المحدث: الإمام البيهقي
٭ المجلد: 4
٭ الصفحة:30
٭ الطبع: دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
فائدہ: کیا یہ بات مستند ہے کہ حضرت سعد طہارت میں کوتاہی کرتے ہوں گے؟
جواب: مذکورہ روایت میں راوی "اہل سعد" کون ہیں اس کی صراحت نہیں؛ یہ روات مجہول ہیں۔ لہذا یہ سند اتنی معتبر نہیں کہ اس بات کو حتمی کہاجاسکے نیز امام ابن الجوزی نے مضوعات میں اس طرح کی روایت ذکر کی ہے جس میں طہارت کی کوتاہی والی بات ہے؛ لیکن حضرت علام نے خود اس روایت پر سخت جرح فرماکر اس کو قابل احتجاج نہیں مانا ہے: 
🔰الموضوعات🔰
أنبأنا ابن ناصر، أنبأنا ابن المبارك بن عبدالجبار، وعبدالقادر بن محمد، قالا: أنبأنا أبو إسحاق البرمكي، حدثنا أبوبكر محمد بن عبدالله بن خلف، حدثنا محمد بن ذريح، حدثنا هناد بن السري، حدثنا ابن فضيل عن أبي سفيان، عن الحسن قال: أصاب سعدُ بنُ معاذٍ جراحةً فجعله النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عند امرأةٍ تُداويه  فمات من اللَّيلِ، فأتاه جبريلُ فأخبره فقال: لقد مات فيكم رجلٌ لقد اهتزَّ العرشُ لحبِّ لقاءِ اللهِ إيَّاه، فإذا هو سعدٌ، فدخل رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قبرَه ، فجعل يُكبِّرُ ويُهلِّلُ فلمَّا خرج قيل: يا رسولَ اللهِ: ما رأيناك صنعت هذا قطُّ؟ قال: إنَّه ضُمَّ في  القبرِ ضمَّةً حتَّى صار مثلَ الشَّعرةِ، فدعوتُ اللهَ أن يُرفِّهَ عنه، وذلك انه كان لا يستبرئُ من  البولِ.
هذا حديث مقطوع؛ ان الحسن لم يدرك سعدا، وابو سفيان اسمه طريف بن شهاب الصفدي، قال احمد بن حنبل ويحي بن معين: ليس بشيئ، وقال النسائي: متروك الحديث، وقال ابن حبان: كان مغفلا، يهم في الأخبار حتي يقلبها، ويروي عن الثقات ما لا يشبه حديث الأثبات، وحوشي سعد ان يقصر فيما يجب عليه من الطهارة.
٭ المصدر: الموضوعات 
٭ المحدث: الامام ابن الجوزيه
٭ المجلد:3
٭ الصفحة: 233
٭ الطبع: المكتبة السلفية، المدينة المنورة، السعودية.
📎نور الانوار📎
ملا جیون نے "نورالانوار" میں ایک روایت ذکر کی ہے: کہ ایک نیک صالح صحابی کی تدفین سے فراغت کے بعد جب قبر نے دبایا تو حضور ان کے گھر تشریف لائے اور ان کی اہلیہ سے (درپردہ) ان کا وہ عمل معلوم کیا جس کی وجہ سے وہ قبر میں مبتلا ہوئے تو جواب ملا کہ موصوف بکریاں چرایا کرتے تھے؛ لیکن بکریوں کے پیشاب کی چھینٹوں سے احتراز میں احتیاط گاہے نہ ہوپاتی تھی: لیکن محشی نے "اشراق الابصار" کے حوالہ سے لکھا کہ یہ واقعہ ان الفاظ میں موجود نہیں۔
∌ وقصة هذا الحديث الناسخ ما روي أنه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابي صالح ابتلي بعذاب القبر جاء إلي امرأته فسألها عن أعماله فقالت كان يرعى الغنم و لا يتنزه من بوله فحينئذ قال عليه السلام إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه.
• المصدر: نورالانوار
• المؤلف: العلامة أحمد ملا جيون
• الصفحة: 286
• الطبع: دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان.
إعلاء السنن:
اعلاء السنن میں بھی طبقات ابن سعد کے حوالہ سے روایت ذکر کی ھے کہ قبر نے حضرت سعد بن معاذ کو دبایا تھا؛ لیکن اس کی وجہ خود كے پیشاب سے طہارت میں کوتاہی نہ سمجھی جائے: 
واخرج ابن سعد قال: أخبرنا شبابة بن سوار، أخبرني أبومعشر، عن سعيد المقبري، قال: لما دفن رسول الله سعد بن معاذ، قال: لو نجا أحد من ضغطة القبر، لنجا سعد، ولقد ضم ضمة اختلف فيها اضلاعه من اثر البول، كذا في شرح الصدور للسيوطي، قلتُ: وسند ابن سعد مرسل حسن، ولكن ليس فيه ذكر الغنم ونحوه، ولكن لا يظن بسعد أنه كان لا يستنزه من بول نفسه لكونه نجس بالاتفاق.
. المصدر: إعلاء السنن
. المحدث: العلامة ظفر التهانوي
. المجلد: 1
. الصفحة: 417
. الطبع: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراچي، پاكستان.
2) دوسرا جواب:
دوسرا جواب جو سند صحیح سے روایات میں موجود ہے: وہ یہ ہے کہ قبر کا دبانا یا قبر کا میت کو بھینچنا اس بنا پر ہی نہیں ہوتا کہ وہ عاصی ہے یا کافر ہے؛ بلکہ قبر تو ہر کسی کو دبوچتی و دباتی ہے خواہ عاصی ہو یا مطیع؛ لہذا حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے معاملے کو یہ بالکل نہ سمجھا جائے کہ ان کو قبر نے بوجہ تقصیر فی طہارت بطور عذاب دبایا تھا بلکہ قبر نے معمول و عادت کے مطابق دبایا تھا اور چونکہ اس میں سختی تو ہوتی ہے اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر و تسبیح و تہلیل کرنا ہوا تھا: 
صحیح ابن حبان
اخبرنا عمر بن محمد الهمداني، حدثنا بُنْدار عن عبدالملك بن الصباح، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن نافع، عن صفية، عن عائشة، عن النبي: قال: للقبر ضغطة، لو نجا منها احد، لنجا منها سعد بن معاذ.
٭ المصدر: صحيح ابن حبان
٭ المجلد: 7
٭ الصفحة: 379
٭ الرقم: 3112
٭ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.
ایک خوبصورت توجیہ:
امام سیوطی نے محمد تیمی کا ایک مقولہ نقل کیا ہے کہ قبر کا یہ دبانا بطور محبت و شفقت ہوتا ہے یعنی جیسے کسی ماں کا بچہ کافی دن بعد لوٹے تو ماں فرط محبت میں اسکو گود میں لیکر دباتی ہے، چومتی ہے اس کو سینے سے چمٹاتی ہے بس اسی طرح قبر بھی نیک بندے کیساتھ یہ محبت بھرا برتاؤ کرتی ہے: 
∅ عن محمد التيمي رحمه الله قال: (كان يقال; إن ضمة القبر إنما أصلها أنها أُمُّهُم، ومنها خُلقوا، فغابوا عنها الغيبة الطويلة، فلما رد إليها أولادها ضمتهم ضم الوالدة الشفيقة التي غاب عنها ولدها ثم قدم عليها، فمن كان لله مطيعاً ضمته برفق ورأفة، ومن كان لله عاصياً ضمته بعنف سخطاً منها عليه)۔
. المصدر: بشرى الكئيب بلقاء الحبيب
. المحدث: السيوطي 
. الصفحة: 36
. الطبع: مكتبة القرآن، قاهرة، مصر.
امام ذھبی کی توجیہ:
قلت: هذه الضمة ليست من عذاب القبر في شيء; بل هو أمر يجده المؤمن كما يجد ألم فقد ولده وحميمه في الدنيا، وكما يجد من ألم مرضه، وألم خروج نفسه، وألم سؤاله في قبره وامتحانه، وألم تأثره ببكاء أهله عليه، وألم قيامه من قبره، وألم الموقف وهوله، وألم الورود على النار، ونحو ذلك۔ 
فهذه الأراجيف كلها قد تنال العبد وما هي من عذاب القبر، ولا من عذاب جهنم قط، ولكن العبد التقي يرفق الله به في بعض ذلك أو كله، ولا راحة للمؤمن دون لقاء ربه۔
قال الله تعالى: وأنذرهم يوم الحسرة وقال: وأنذرهم يوم الآزفة إذ القلوب لدى الحناجر فنسأل الله - تعالى - العفو واللطف الخفي۔ ومع هذه الهزات، فسعد ممن نعلم أنه من أهل الجنة ، وأنه [ص: 291] من أرفع الشهداء - رضي الله عنه - كأنك يا هذا تظن أن الفائز لا يناله هول في الدارين، ولا روع ولا ألم ولا خوف، سل ربك العافية، وأن يحشرنا في زمرة سعد.
ترجمہ: ”یہ تنگی اور پکڑ عذاب قبر نہیں ہے، بلکہ یہ تو ایک حالت ہے، جس کا سامنا مومن کو بہرصورت کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ دنیا میں اپنے بیٹے یا محبوب کے گم ہوجانے پر پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اسے بیماری، جان نکلنے، قبر کے سوالات، اس پر نوحہ کرنے کے اثرات، قبر سے اٹھنے، حشر اور اس کی ہولناکی اور آگ پر پیشی وغیرہ جیسے حالات کی تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے یا پڑے گی۔ ان دہشتناک حالات سے انسان کا پالا پڑسکتا ہے۔ یہ نہ قبر کا عذاب ہے، نہ جہنم کا۔ لیکن اللہ تعالیٰ شفقت کرتے ہوئے اپنے متقی بندے کو بعض یا سب حالات سے بچالیتے ہیں۔ مومن کو حقیقی و ابدی راحت اپنے رب کی ملاقات کے بعد ہی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَأَنْذِرْہُم یَوْمَ الْحَسْرَۃِ) (مریم: ٣٩) "آپ لوگوں کو حسرت والے دن سے خبردار کردیں۔" نیز فرمایا: (وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْـآزِفَۃِ، إِذِ القُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ) (المؤمن: ١٨) "آپ لوگوں کو تنگی اور بدحالی والے دن سے ڈرا دیں کہ جب کلیجے منہ کو آئیں گے۔" ہم اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر، لطف وکرم اور پردہ پوشی کا سوال کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان جھٹکوں کے باوجود سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اور بلند مرتبہ شہدا میں سے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ کامیاب انسان کو دنیا و آخرت میں کسی قسم کی پریشانی، قلق، تکلیف، خوف اور گھبراہٹ کا سامنا نہیں ہوگا۔ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور ہمارا حشر (سیدالانصار) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردے۔"
× المصدر: سير أعلام النبلاء
× المحدث: الإمام الذهبي
× الصفحة: 1782
× الرقم: 2222
× الطبع: بيت الافكار الدولية، بيروت، لبنان.
••• خلاصہ کلام •••
معلوم ہوگیا کہ حضرت سعد بن معاذ کی بابت یہ گمان نہ کیا جائے کہ وہ طہارت میں کوتاہی کرتے ہوں گے اس لئے ان کو قبر میں وہ معاملہ پیش آیا؛ بلکہ یہ معاملہ سب کو پیش آنا ہے؛ لیکن انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو یہ معاملہ پیش نہیں آتا ہے: 
💟شرح الصدور💟
امام سیوطی نے حکیم ترمذی کا قول نقل فرمایا ہے کہ انبیاء اس سے مستثنی ہیں:
#وقال الحكيم الترمذي: "سبب هذا الضغط أنه ما من أحد إلا وقد ألم بذنب ما فتدركه هذه الضغطة جزاء لها ثم تدركه الرحمة... قال: وأمّا الانبياء، فلا نعلم ان لهم في القبور ضمة، ولا سؤالا لعصمتهم.
٭ المصدر: شرح الصدور
٭ المؤلف: جلال الدين السيوطي
٭ الصفحة: 110
٭ الطبع: دارالمنهاج، جدة، السعودية.
والله تعالي اعلم
كتبه: محمد عدنان وقار صديقي (22 جولائی، 2021) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_10.html

Wednesday 2 October 2024

مسجد کے اوپر قائم مکتب میں مسجد کی جماعت سے پہلے جماعت قائم کرنا؟

مسجد کے اوپر قائم مکتب میں مسجد کی جماعت سے پہلے جماعت قائم کرنا؟
-------------------------------
سوال: ایک مسجد ہے۔ اس کے اوپر کے حصے میں مدرسہ چلتا ہے۔ آس پاس کے مقامی طلبہ ہیں۔ اہل مدرسہ جماعت سے پہلے ہی وقت شروع ہونے کے فورا بعد اپنی جماعت کرلیتے ہیں مسجد کی جماعت چھوڑکر۔اس میں کئی ایسے لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو مسجد کے بالکل قریب رہتے ہیں۔ پوچھنے پر عذر بتاتے ہیں کہ اگر ابھی ہم جماعت نہ کریں تو طلبہ منتشر ہوجاتے ہیں اور نماز نہیں پڑھتے۔ کیا اس طرح سے مسجد کی جماعت سے پہلے اسی مسجد کی مدرسے والوں کا پہلے جماعت کرنا درست ہے۔
عبدالرحمن بنگلور
الجواب وباللہ التوفیق:
یہ عذر لنگ ہے۔ اس کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں۔ اور اس طرح جماعت قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ طلبہ کو منتشر ہونے سے بچانے کے لئے مؤثر تربیتی یا حفاظتی نظام بنایا جائے، اس طرح کی جماعت قائم کرنے سے مسجد کی جماعت متاثر ہوگی اور لوگ جماعت مسجد میں شرکت سے رفتہ رفتہ کنارہ کش ہوجائیں گے اور یوں مسجد کی جماعت برائے نام رہ جائے گی، جبکہ تکثیر جماعت کا حکم دیا گیا ہے:
"(ولنا) أنا أمرنا بتكثير الجماعة، وفي تكرار الجماعة في مسجد واحد تقليلها؛ لأن الناس إذا عرفوا أنهم تفوتهم الجماعة يعجلون للحضور؛ فتكثر الجماعة، وإذا علموا أنه لاتفوتهم يؤخرون؛ فيؤدي إلى تقليل الجماعات، وبهذا فارق المسجد الذي على قارعة الطريق؛ لأنه ليس له قوم معلومون فكل من حضر يصلي فيه، فإعادة الجماعة فيه مرةً بعد مرة لاتؤدي إلى تقليل الجماعات." (المبسوط للسرخسی، كتاب الصلاة، باب الأذان، أذان المرأة، ج:1، ص: 135، ط: دارالمعرفة بيروت)
( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/10/blog-post_2.html

Tuesday 1 October 2024

صبح و شام کے اذکار

صبح شام کے چند مسنون اذکار

یعنی وہ دعائیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام کیا کرتے تھے۔ ان دعاؤں کو مضبوط پکڑیں، خود پر لازم کرلیں تاکہ جنات، شیاطین اور حاسدین کے شر سے حفاظت رہے اور قرب الہٰی کا راستہ آسان ہوجائے۔ ان شآءاللہ تعالیٰ
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم

1: سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَ رِضَا نَفْسِهِ وَ زِنَةَ عَرْشِهِ وَ مِدَادَ کَلِمَاتِهِ۔ (3x)
پاک ہے الله اور اسی کی تعریف ہے اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر، اس کی ذات کی رضا کے برابر، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر۔ (تین بار)
2: اَللهُ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ ھُوَ اٙلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْم ٌ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗ اِلَّا بِاِذْنِهٖ  یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖ  اِلَّا بِمَا شَآءَ وَسِعَ کُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ لَا یَؤُدُهٗ حِفْظُھُمَا وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ (1x)
الله کے سوا کوئی معبود نہیں وه زنده اور قائم رہنے والا ہے، اسے نه اونگھ آتی ہے نه نیند، اسی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے، وه جانتا ہے جو ان کے آگے اور پیچھے ہے، اور وه اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطه نہیں کرسکتے سوائے اس کے جو وه چاہے، اس کی کرسی آسمانوں اور زمین تک  وسیع  ہے اور ان کی حفاظت اسے نہیں تھکاتی اور وه بہت بلند اور بہت عظمت والا ہے۔ (ایک بار)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ  عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْد
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (10x) 
دس بار صبح و شام
3: اَللّٰھُمَّ بِکَ اَصْبَحْنَا وَ بِکَ اَمْسَیْنَا وَ بِکَ نَحْیَا وَ بِکَ نَمُوْتُ وَاِلَیْکَ النُّشُوْرُ۔ (1x)
اے الله! تیرے حکم سے ہم نے صبح کی اور تیرے حکم سے ہم نے شام کی اور تیرے حکم سے ہم جیتے اور تیرے حکم سے ہم مرتے ہیں اور تیری ہی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ (ایک بار )
4: اَصْبَحْنَا عَلٰی فِطْرَةِ الْاِسْلَامِ وَ عَلٰی کَلِمَةِ الْاِخْلَاصِ وَ عَلٰی دِیْنِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وسلم وَ عَلٰی مِلَّةِ اَبِیْنَا اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (1x)
ہم نے صبح کی فطرتِ اسلام پر، کلمه ٔ اخلاص پر اور اپنے نبی حضرت محمد صلی الله علیه وسلم کے دین پر اور اپنے باپ حضرت ابراہیم علیه السلام کی ملت پر جو یکسو مسلمان تھے اور وه مشرکوں میں سے نہیں تھے۔ (ایک بار)
5⃣ اَللّٰھُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ، عَالِمَ الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَةِ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ رَبَّ کُلِّ شَیْءٍ وَّ مَلِیْکَهُ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَ مِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَ شِرْکِهِ وَ اَنْ اَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِیْ سُوْءً اَوْ اَجُرَّهُ اِلٰی مُسْلِمٍ۔ (1x)

اے الله! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، چھپے اور کھلے کے جاننے والے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، ہر چیز کا رب اور اس کا مالک ہے، میں تیری پناه چاہتا ہوں اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے اور اس کے شرک کے شر سے اور یه که میں اپنی جان کو کسی برائی میں ملوث کروں یا کسی دوسرے مسلمان کو اس کی طرف مائل کروں۔ (ایک بار)
6: اَصْبَحْنَا وَ اَصْبَحَ الْمُلْکُ ِللهِ وَ الْحَمْدُ ِللهِ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ، رَبِّ اَسْاَلُکَ خَیْرَ مَا فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ وَ خَیْرَ مَا بَعْدَهُ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ وَ شَرِّ مَا بَعْدَهُ، رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَ سُوْءِ الْکِبَرِ رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابٍ فِی النَّارِ وَ عَذَابٍ فِی الْقَبْرِ۔ (1x)
ہم نے صبح کی اور تمام عالم نے صبح کی الله کے لیے اور تمام تعریفیں الله کے لیے ہیں، الله کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وه اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وه ہر چیز پر قادر ہے، اے میرے رب! میں تجھ سے آج کے دن کی اور جو اس کے بعد ہے اس کی بھلائی مانگتا ہوں اور میں تیری پناه چاہتا ہوں آج کے دن اور جو اس کے بعد ہے اس کی برائی سے، اے میرے رب! میں تیری پناه چاہتا ہوں سستی اور بدترین بڑھاپے سے، اے میرے رب! میں تیری پناه چاہتا ہوں آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے۔ (ایک بار)
7: رَضِیْتُ بِاللهِ رَبًّا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا۔ (3x)
میں الله کے معبود ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد صلی الله علیه وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوا۔ (صبح شام  تین بار) (ترمذی 3389)  
7: بِسْمِ اللهِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ وَ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ (3x)
الله کے نام سے، وه ذات جس کے نام کے ساتھ کوئی چیز زمین میں اور آسمان میں نقصان نہیں دے سکتی اور وه سننے والا، جاننے والا ہے۔ (تین بار)
9: اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَ الْفَقْرِ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، لَا اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ۔ (3x)
اے الله! میرے بدن میں مجھے عافیت دے، اے الله! میرے کانوں میں مجھے عافیت دے، اے الله! میری آنکھوں میں مجھے عافیت دے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اے الله! یقینا میں تیری پناه چاہتا ہوں کفر اور فقر و فاقه سے، اے الله! بے شک میں تیری پناه چاہتا ہوں عذابِ قبر سے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (تین بار صبح وشام)
10: یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَاْنِیْ کُلَّهُ وَ لَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَةَ عَیْنٍ۔ (3x)
اے زنده اور قائم رہنے والے، تیری رحمت کے سبب سے فریاد کرتا ہوں که میرے سب کاموں کی اصلاح فرما دے اور پلک جھپکنے تک کے لیے بھی مجھے میرے نفس کے حوالے نه کر۔ (تین بار)
11: اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُکَ وَ اَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَ وَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ اَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَ اَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ اِنَّهُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔ (1x)
اے الله! تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بنده ہوں اور میں اپنی استطاعت کے مطابق تجھ سے کیے ہوئے عہد اور وعدے پر قائم ہوں، میں تیری پناه چاہتا ہوں ہر برائی سے جو میں نے کی، میں اپنے اوپر تیری عطا کرده نعمتوں کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے گناه کا اعتراف کرتا ہوں، پس مجھے بخش دے، یقینا تیرے سوا کوئی گناہوں کو بخش نہیں سکتا۔ (ایک بار)
12: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الْعَافِیَةَ فِی الدُّنْیَا وَ الْآخِرَةِ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَةَ فِیْ دِیْنِیْ وَ دُنْیَایَ وَاَھْلِیْ وَ مَالِیْ، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِیْ وَ آمِنْ رَوْعَاتِیْ، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَ مِنْ خَلْفِیْ وَ عَنْ یَّمِیْنِیْ وَ عَنْ شِمَالِیْ وَ مِنْ فَوْقِیْ وَ اَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ اَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ۔ (1x)
اے الله! بے شک میں آپ سے دنیا اور آخرت میں عافیت مانگتا ہوں، اے الله! بے شک میں آپ سے درگزر کا اور اپنے دین، دنیا، اہل اور مال کی عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے الله! میرے عیب ڈھانپ دے اور مجھے خوف سے امن دے۔ اے الله! میری حفاظت کر، میرے سامنے سے اور میرے پیچھے سے اور میرے دائیں سے اور میرے بائیں سے اور میرے اوپر سے اور میں پناه چاہتا ہوں تیری عظمت کے ذریعے اس سے که میں نیچے سے ہلاک کیا جاؤں۔ (ایک بار)
13: قُلْ ھُوَ اللهُ اَحَدٌ o اَللهُ الصَّمَدُ o لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ o وَ لَمْ یَکُنْ لَّهٗ کُفُوًا اَحَدٌo
(3x)
کہہ دیجئے! که وه الله ایک ہے۔ الله بے نیاز ہے۔ نه اس سے کوئی پیدا ہوا اور نه ہی وه کسی سے پیدا ہوا، اور نه ہی کوئی اسکا ہمسر ہے۔ (تین بار)
14: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ o مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ o وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ o وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ o وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ o(3x)
کہہ دیجئے! میں صبح کے رب کی پناه چاہتا ہوں۔ ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب وه پھیل جائے، اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے، اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وه حسد کرے۔ (تین بار)
15: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ o مَلِکِ النَّاسِ o اِلٰهِ النَّاسِ o مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ o الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ o مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ o (3x)
کہہ دیجئے! میں لوگوں کے رب کی پناه چاہتا ہوں۔ لوگوں کے مالک کی۔ لوگوں کے معبود کی۔ وسوسه ڈالنے والے، بار بار پلٹ کر آنے والے کے شر سے۔ وه جو لوگوں کے سینوں میں وسوسه ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے۔ (تین بار)
نوٹ: اگر یہ حرکت تشدید کے نیچے ہو تو زیر پڑھا جاتا ہے۔
16: اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ الَّتِیْ لَا یُجَاوِزُھُنَّ بَرٌّ وَّ لَا فَاجِرٌ مِّنْ شَرِّ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَ مَا یَعْرُجُ فِیْھَا وَ مِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّیْلِ وَ النَّھَارِ وَ مِنْ کُلِّ طَارِقٍ اِلَّا طَارِقًا یَّطْرُقُ بِخَیْرٍ یَّا رَحْمَانُ۔ (1x)
میں الله تعالیٰ کے ان تمام کلمات کے ساتھ پناه چاہتا ہوں جن سے آگے نه تو کوئی نیک اور نه ہی کوئی برا شخص بڑھ سکتا ہے، ہر اس چیز کے شر سے جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور رات اور دن کے فتنوں کے شر سے اور ہر حادثے کے شر سے سوائے اس حادثے کے جو خیر کا باعث ہو، اے رحم فرمانے والے۔
17: اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ (1x)
اے الله! بے شک ہم تجھ کو ان کے مقابلے میں رکھتے ہیں اور ان کے
شر سے تیری پناه طلب کرتے ہیں
18: حَسْبِيَ اللّهُ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
ترجمہ: مجھے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں‌، اس پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔
19: لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (100x)
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‌۔ وہ اکیلا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں‌۔ اسکی بادشاہت اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔
دن میں  100 مرتبہ
20: اَسْتَغْفِرُاللهَ
میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں
صبح 100 (سو) بار
21: سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ
اللہ پاک ہے اسی کی تعریف ہے
صبح وشام 100 (سو) بار
واللہ تعالی اعلم


Saturday 28 September 2024

کیا دین اسلام میں تعدد ازدواج مستحسن نہیں ہے؟

کیا دین اسلام میں تعدد ازدواج مستحسن نہیں ہے؟
-------------------------------
قرآن کریم نے جس سیاق میں (وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً سورہ النساء آیت ۳) دو تا چار خواتین سے نکاح کو مباح کہا ہے وہ ترغیب وتحریض کا اصولی اسلوب نہیں ہے 
بلکہ عرب کے اس ماحول میں یتیم بچیوں کے سرپرستان یتیموں کے اموال  پر خزانے پہ بیٹھے از دہا کی طرح قبضہ جمائے رکھنے کے لئے معمولی مہر دین کے بدلے ان ہی یتیموں سے نکاح کرلیتے تھے، جبکہ وہ اگر دوسری خواتین سے نکاح کرتے تو اتنے معمولی مہر میں نکاح ممکن نہ ہوتا، یوں زیر پرورش یتیموں کے ساتھ معمولی مہر کے بدلے نکاح کرنا دراصل ان کا مالی استحصال کرنا تھا، قرآن کریم نے اس ظالمانہ طریقہ کار کی تردید کی اور جو مسلمان  یتیموں سے شادی کرنا چاہتے ہیں انہیں دو چیزوں کا مکلف بنایا:
اول: یتیموں کو پوری طرح مہر دے کر ان کے ساتھ انصاف کیا جائے، جیسا کہ دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے میں ان کے خاندانی رتبے کا اعتبار کرکے مہر دیا جاتا ہے، یتیموں کی پرورش اور ان کی دیکھ بھال کے دوران ان پر خرچ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہوں اور انہیں اونے پونے مہروں میں نکاح کرلو۔
دوسرا: اگر یتیم بچیوں کے ساتھ مہر مستحق دے کر انصاف نہیں کرسکتے تو تم ان سے شادی نہ کرو، بلکہ کسی دوسری عورت کے پاس جاؤ جو تمہیں پسند ہو! تب لگ پتہ جائے گا کہ مہر میں عدل کیا ہوتا ہے؟
صحیح بخاری کی ایک روایت (حدیث نمبر 4574) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک سوال کے جواب میں آیت تعدد کی یہ تفسیر فرمائی ہے کہ: "یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی (محافظ رشتہ دار جیسے چچیرا بھائی، پھوپھی زاد یا ماموں زاد بھائی) کی پرورش میں ہو اور ترکے کے مال میں اس کی ساجھی ہو اور وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی پر فریفتہ ہوکر اس سے نکاح کرلینا چاہے لیکن پورا مہر انصاف سے جتنا اس کو اور جگہ ملتا وہ نہ دے، تو اسے اس سے منع کردیاگیا کہ ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ان کے ولی انصاف کرسکیں اور ان کی حسب حیثیت بہتر سے بہتر طرز عمل مہر کے بارے میں اختیار کریں (تو اس صورت میں نکاح کرنے کی اجازت ہے) اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے سوا جو بھی عورت انہیں پسند ہو ان سے وہ نکاح کرسکتے ہیں۔"
يا ابْنَ أُخْتِي، هذِه اليَتِيمَةُ تَكُونُ في حَجْرِ ولِيِّهَا، تَشْرَكُهُ في مَالِهِ، ويُعْجِبُهُ مَالُهَا وجَمَالُهَا، فيُرِيدُ ولِيُّهَا أنْ يَتَزَوَّجَهَا بغيرِ أنْ يُقْسِطَ في صَدَاقِهَا، فيُعْطِيَهَا مِثْلَ ما يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا عن أنْ يَنْكِحُوهُنَّ إلَّا أنْ يُقْسِطُوا لهنَّ، ويَبْلُغُوا لهنَّ أعْلَى سُنَّتِهِنَّ في الصَّدَاقِ، فَأُمِرُوا أنْ يَنْكِحُوا ما طَابَ لهمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ۔   
اس پس منظر کو سامنے رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ تعدد ازواج والی آیت اصلاً ترغیب تعدد ازواج کے لئے نہیں آئی ہے؛ بلکہ یتیم بچیوں کے مہر کے حوالے سے ناانصافی کے خوف کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے آئی ہے۔ جس آیت سے تعدد ازواج پہ استدلال کیا جاتا ہے اس کا اصل محمل یہ ہے۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ آیت مبارکہ کا عموم تعدد ازواج کے جواز کو ثابت کررہا ہے۔ لیکن یہ اصلاً نہیں؛ تبعاً ہے۔ اسی لئے علماء کے نقطہاے نظر اس بابت مختلف ہیں کہ جوازِ تعدد سے قطع نظر (کہ بہ نص قرآنی تعدد ازواج ثابت ہے) افضل وبہتر کون سا عمل ہے؟ ایک پہ اکتفا کرنا یا بلاضرورت بیک وقت متعدد نکاح کرنا؟ اسی آیت کے بعد والے ٹکڑے {وإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} میں ترک تعدد کا اشارہ بھی موجود ہے اور اس کی علت بھی بتادی گئی ہے، کہ جہاں متعدد ازواج کے ساتھ مآلاً عدل وانصاف قائم رکھنے کا امکان موجود نہ ہو تو تعدد ازواج کا مباح عمل مرغوب ومستحسن نہیں؛ بلکہ ناپسندیدہ عمل ہوگا اور اگر مرد کو پتہ ہوکہ واقعۃً وہ تعدد زوجات کی صورت میں عدل ومساوات قائم نہیں کرسکے گا تو باتفاق فقہاء تعدد ازواج ناجائز ہے۔ آیت کے اسی ٹکڑے کی بناء پر فقہاء شوافع وحنابلہ؛ بالخصوص امام شافعی رحمہ اللہ نے باضابطہ تصریح فرمادی ہے کہ ایک پر اکتفاء کرنا تعدد کے بالمقابل پسندیدہ عمل ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أُحب له أن يقتصر على واحدة وإن أبيح له أكثر؛ لقوله تعالى: ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾ [النساء: 3] (مختصر المزني ٣١٨/٢)
خطيب شربيني شافعي رحمه الله فرماتے ہیں:
وَيُسَنُّ أَنْ لَا يَزِيدَ عَلَى امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ ظَاهِرَةٍ. (مغني المحتاج ٢٠٧/٤)
شیخ مرداوی حنبلی فرماتے ہیں:
ويُسْتَحَبُّ أيضًا أنْ لا يزيدَ على واحِدَةٍ إنْ حصَل بها الإعْفافُ، على الصَّحيحِ مِنَ المذهبِ.(كتاب الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف - ت التركي۔ [المرداوي] ٢٥/٢٠)
شیخ عبدالرحمن بن قاسم حنبلی فرماتے ہیں:
ويسن نكاح واحدة) لأَن الزيادة عليها تعريض للمحرم (حاشية الروض المربع لابن قاسم ٢٢٩/٦)
علامہ ابن قدامة مقدسي فرماتے ہیں:
الأولى أن لا يزيد على امرأة واحدة؛ لقول الله تعالى: ﴿ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ﴾ [النساء: 3]، ولقوله سبحانه: ﴿ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ﴾ [النساء: 129] (الشرح الكبير ٢٤/٢٠)
حنفیہ میں علامہ سراج الدین ابن نُجيم مصری رحمه الله فرماتے ہیں:
لو لم يزد على واحدة كي لا يدخل الغم على ضعيف القلب ورَقَّ عليها فهو مأجور، وتركُ إدخال الغم عليها يُعد من الطاعة، والأفضل الاكتفاء بواحدة [ابن نجيم، النهر الفائق شرح كنزالدقائق، تحقيق: أحمد عزو عناية، طبعة: دارالكتب العلمية- بيروت، ط1، 1422هـ، 2002 م، (2/ 197).
فتاوى هنديہ میں ہے:
إذا كانت للرجل امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى، وخاف أن لا يعدل بينهما لم يجز له ذلك، وإن كان لا يخاف جاز له، والامتناعُ أولى، ويُؤجر بترك إدخال الغم عليها۔ [الفتاوى الهندية، (1/ 341].
علامہ خرشی مالکی مختصر خلیل کی شرح میں بلاضرورت نکاح کرنے کو مکروہ اور بیوی کے حقوق ادانہ کرنے کی صورت میں نکاح کرنے کو حرام فرماتے ہوئے لکھتے ہہیں:
وَقَدْ يُكْرَهُ فِي حَقِّ مَنْ لَمْ يَحْتَجْ إلَيْهِ وَيَقْطَعْهُ عَنْ الْعِبَادَةِ وَيَحْرُمُ فِي حَقِّ مَنْ لَمْ يَخْشَ الْعَنَتَ وَيَضُرُّ بِالْمَرْأَةِ لِعَدَمِ قُدْرَتِهِ عَلَى النَّفَقَةِ (شرح الخرشي على مختصر خليل - ومعه حاشية العدوي ١٦٥/٣)
جب بلاضرورت نفس نکاح مکروہ ہے تو بلاضرورت ان کے یہاں تعدد ازواج مستحسن وافضل کیسے ہوسکتا ہے؟ ان تمام تصریحات سے واضح ہے کہ جس طرح نکاح کرنے کے کئی حالات ہیں، مثلاً جو شخص جسمانی اعتبار سے تندرست ہو، مہر اور نان نفقہ ادا کرنے پر قادر ہو، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ اور معصیت  میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو، اور نکاح کی صورت میں بیوی پر ظلم  و زیادتی کا اندیشہ نہ ہو، تو ایسے شخص پر نکاح کرنا واجب ہے۔ اور اگر نکاح نہ کرنے کی صورت میں برائی میں پڑنے کا اندیشہ نہیں، اور مالی و جسمانی اعتبار سے نکاح کرنے پر قادر ہو تو ایسے شخص پر نکاح کرلینا سنتِ مؤکدہ ہے۔ اگر نکاح کے بعد اندیشہ ہوکہ بیوی کے حقوق ادا نہیں کرپائے گا، اور ظلم کا مرتکب ہوگا تو نکاح مکروہِ تحریمی ہے، اور اگر اس کا صرف اندیشہ نہ ہو بلکہ اپنی عادات یا نفسیاتی میلانات کی وجہ سے اسے یہ یقین ہوکہ نکاح کے بعد بیوی کے ساتھ جور و ظلم کا معاملہ رکھے گا تو ایسے شخص کے لیے  نکاح  کرنا حرام ہے۔ اسی طرح تعدد ازدواج کے حالات بھی مختلف ہیں، جسمانی قویٰ یا دیگر وجوہ سے جنہیں واقعی اس کی ضرورت ہو تو معاشرتی عدل کی شرط کے ساتھ اس کے لئے تعدد ازدواج کی اجازت ہے۔ جنہیں اس کی ضرورت نہ ہو یا تعدد ازدواج کی صورت میں عدل کا قیام مشکوک ہو تو ایسوں کے لئے تعدد ازدواج بہتر نہیں ہے! شریعت اسلامیہ میں تعدد ازدواج کی کہیں فضیلت نہیں آئی ہے۔ تکثیر امت والی روایات کا مقصد تجرد وتبتل کے بالمقابل محض ترغیب نکاح ہے ترغیب تعدد ازدواج نہیں۔ سورہ نساء کی جس آیت میں تعدد ازدواج کی اباحت کا ذکر ہے اس کا مبنی یتیموں کے ساتھ ہورہے جبر کا خاتمہ اور ان سے نکاح کرنے کی صورت میں معتدل مہر کی ادائی کو یقینی بنانا ہے، ترغیب تعدد اس آیت کا مفاد نہیں ہے، اسی لیے مذاہب اربعہ متَبعہ میں بوقت ضرورت تعدد ازدواج کی عدل کی شرط کے ساتھ رخصت واباحت تو بیشک ہے، لیکن مذاہب اربعہ میں سے کسی نے بھی مطلقاً تعدد ازدواج کو افضل وبہتر نہیں کہا ہے؛ کہ یہ عموماً بیویوں کے ساتھ جور و ظلم یا حقوق تلفی کا موجب بنتا ہے، چونکہ شارع علیہ السلام کے حق میں یہ علت غیر متصور تھی؛ اس لئے ان کے حق میں استثناءً تعدد افضل وبہتر تھا، عام امتیوں کے حق میں عمومی احوال میں مطلقاً یہ حکم نہیں! مذاہب اربعہ میں سے شافعیہ اورحنابلہ نے تو دو ٹوک انداز میں ترک تعدد کو افضل ومستحسن کہا ہے. جبکہ احناف نے باب نکاح کے ضمن میں قسم وعدل کی بحث کے ذیل میں اور مالکیہ نے نکاح کے احوال مختلف کے ضمن میں اشارۃً اسے غیرمستحسن مانا ہے، لیکن مطلقاً افضلیتِ تعدد کے قائل یہ (احناف وموالک) بھی نہیں ہیں۔
خلاصہ بحث: 
جیساکہ اوپر کے سطروں میں قدرے تفصیل سے عرض کیا  کہ جس طرح نفس نکاح وزواج کے احوال مختلف ہیں، کسی کے لئے سنت، کسی کے لئے مکروہ وحرام اور کسی کے لئے واجب! ہر ایک کے لئے ہر حالت میں نکاح مسنون، واجب یا مستحب نہیں ہے. ورنہ شیخ عبدالفتاح ابو غدہ کی کتاب مستطاب "العلماء العزاب" میں درج اکابر امت:
 شیخ بشرحافي، هناد سري، طبري، زمخشري، نووي، ابن تيمية اور حضرت شیخ یونس جونپوری رحمہم اللہ اجمعین کا پھر کیا بنے گا؟ 
کیا ان حضرات کو تارکین سنت قرار دینے کی مجال کسی میں ہے؟  
اسی طرح تعدد نکاح کے تئیں بھی ہر شخص کے لئے ہر حال میں علی الاطلاق کوئی حکم متعین کردینا مشکل ہے۔ نکاح کی مشروعیت ہمہ جہت ان گنت وبے شمار اغراض ومقاصد کے تحت ہوئی ہے، تعدد ازواج کا حال بھی یہی کچھ ہے ۔ہر شخص کی انفرادی حالت اور معاشرتی مجبوری، ضرورت اور تقاضہ ایک دوسرے سے جداگانہ ہے. جس کے ساتھ ہی تعدد ازواج کی افضلیت یا عدم افضلیت دائر ہوگی ۔اختلاف احوال کے تحت اس کا حکم بھی مختلف ہوگا۔ تاہم اتنا متیقن ہے کہ شرعی نصوص میں تعدد ازواج کی باضابطہ واصالۃً ترغیب کہیں نہیں آئی ہے، اقتضاء واشارات ہیں۔ اگر اس کی ترغیب منصوص ہوتی تو ذرا سوچئے! شوافع وحنابلہ (احناف کے بعض فقہاء بھی) ایک پر اکتفا کرنے کو مستحب ومسنون کیوں کہتے؟ 
چاروں فقہی مذاہب کا فی الجملہ اکتفاء بالواحدہ کو اصل اور تعدد ازواج کو استثنائی اور رخصت قرار دینا واضح دلیل ہے کہ تعدد ازواج کا مسئلہ اپنے اصل کے اعتبار سے عام افراد امت کے لئے مطلقاً مطلوب ومرغوبِ شرع نہیں ہے. ہاں! بعض اشخاص وافراد کے احوال مخصوصہ کے باعث ان کے لئے مستحسن ہوجائے تو مضائقہ نہیں۔
(اتوار 24 ربیع الاول 1446ھ 29 ستمبر 2024ء) ( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_28.html

Wednesday 25 September 2024

شرعی ڈاڑھی

شرعی ڈاڑھی
-------------------------------
دنیا میں آباد اربوں انسانوں کے درمیان مسلم وغیرمسلم، کافر ومومن کے مابین فرق وامتیاز اگر افکار و عقائد کے ذریعہ ہوتا ہے تو وہیں تہذیب، طرزلباس، فیشن، تراش خراش، شکل وشباہت، رنگ ڈھنگ، ہیئت و کیفیت اور وضع قطع کو بھی قوموں کے درمیان وجہِ امتیاز مانا گیا ہے؛ اسی لئے غیروں کی شباہت اپنانے پر وعیدِ حدیث  آئی ہے۔ دینی غیرت، اسلامی حمیت اور شرعی امتیازات وخصوصیات کا تحفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے مسنون و مامور شکل وشباہت اختیار کرنے میں ہے،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پوری زندگی ان ظاہری خصوصیات وامتیازات پہ عملی مداومت فرمائی، اور امت کو صریح ایجابی حکم بھی فرمایا۔ 
متعدد صریح احادیث کی بنیاد پر ڈاڑھی رکھنا واجب اور نہ رکھنا حرام وممنوع قرار دیا گیا ہے، ڈاڑھی کی واجبی مقدار کا تعیُّن ارشاد نبوی میں تو نہیں ہوا؛ لیکن منشاءِ نبوی اور مرادِرسول کو دیگر افراد امت سے زیادہ سمجھنے والے، اور "آشناے مزاج یار" اصحابِ رسول نے اپنے عمل سے اس وجوب کا تعین فرمادیا ہے، اور وہ ہے کم سے کم چار انگلی کی مقدار (مقدار قُبضہ)! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو نجومِ ہدایت (ہدایت کے ستارے) قرار دیا ہے، یعنی کہ صحابی رسول کی اتّباع بھی "راہ نجات" ہے؛ بالخصوص خلفائے راشدین کی سنت اور طور طریق کو اپنی سنت ہی کی طرح مضبوط ولازم  پکڑنے کا حکم خود حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے دیا ہے۔
اِس مقدار میں ڈاڑھی رکھنا واجب اور شعار اسلام میں داخل ہے، شعار کا تحفظ بھی ضروری ہے اور تبلیغ وترویج بھی! امت کے تمام ہی ائمہ مجتہدین نے متفقہ و اجماعی طور پر ایک مشت (چار انگل) ڈاڑھی رکھنے کو واجب اور اس سے کم مقدار ہونے پر تراش خراش کو فسق  وگناہ قرار دیا ہے۔
ہر دینی معاملے میں قابلِ اقتداء و اتباع ذاتِ رسول ہے، آپ صلے اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہی امت کے لئے نمونۂِ عمل ہے، عرب کے حکمراں، وہاں کے بعض اہل علم، دانشوران، یا زید عمر بکر کا قول وعمل اسوہ نہیں ہے۔
علماء دین، نائبین رسول ہیں، ان کے دوش پہ شرعی شکل وشباہت اور وضع قطع کے تحفظ کی ذمہ داری اوروں کے بالمقابل بدرجہا زیادہ ہے، نبوی احکام و تعلیمات کی صداقت وحقانیت پر دل ودماغ سے مطمئن ہونا اور اعضاء وجوارح سے اس کا عملی ثبوت پیش کرنا ضروری ہے، مدرسے سے فراغت کے بعد عصری اداروں اور تعلیم گاہوں کا رخ کرنے والے بعض فضلاء (جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں) کا مخلوط وآزادانہ ماحول سے متاثر ہوکر عالمانہ وضع قطع اور شکل وشباہت کو مجروح ومخدوش کرنا انتہائی المناک وشرمناک عمل ہے، ایک عالم دین کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ دوسری قوم یا دنیادار واشخاص کی عادات و اطوار اور تہذیب و تمدن سے استفادہ وخوشہ چینی کے فراق میں واجبی شعار کا ہی حشر نشر کرنے لگ جائے، یہ مسلّمہ اصول ہے کہ جس شخص کی ظاہرِی ہیئت میں ترک واجب ہو اس کا باطن کبھی کسی طور صالح نہیں ہوسکتا، مرکزی دینی اداروں کے سند یافتہ فضلاء کو عصری اداروں میں جاکر "مؤثر" بننا چاہئے؛ نہ کہ "متأثر"!
وہ معاشرے میں دینی اداروں کے ترجمان اور دینی تہذیب وتمدن کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں، انہیں صالح اسلامی معاشرے کی تعمیر وتشکیل میں اپنا مؤثر رول ادا کرنا چاہئے، استعارے اور محاورے کی زبان میں جب کعبہ کے خدّام اور حرم کے پاسبان ہی کفریہ اعمال انجام دینے لگیں تو پھر شعائر اسلام کہاں ڈھونڈنے جائیں؟ ان کے اقدار واعمال واخلاق اداروں کی نیک نامی وبدنامی کا باعث بنتے ہیں، مفادات حاصلہ، مخلوق کی رضا جوئی، یا خوب روئی کی خاطر یا ویسے ہی احساس کمتری کے باعث اپنے عالمانہ وضع قطع کو "مشق ستم" بنانے سے قبل تھوڑی دیر کے لئے اس پہ ضرور غور کرلیں! اگر آپ کو تراش خراش پر ہی ضد ہو تو خدارا اپنی "ادارہ جاتی نسبتوں" کے اظہار سے تو گریز کرلیا کریں؛ تاکہ ان اداروں کا اعلیٰ اخلاقی وتربیتی نظام و ”شرفِ انتساب“ آپ کے ضعف عملی کی بھینٹ چڑھ کر مورد طعن نہ بن سکے!
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_25.html ( #ایس_اے_ساگر )

HOW TO KEEP BODY PARTS HEALTHY

HOW TO KEEP BODY PARTS HEALTHY

> Healthy Brain
- 7-8 Hour Sleep
- Read Daily
- Socialize
- Meditate

> Healthy Heart
- Eat Healthy
- Exercise Often
- Manage Stress
- Don't Smoke

> Healthy Bones
- Eat vegetables
- Lift Weights
- Consume Calcium & Vitamin D

> Healthy Skin
- Drink Plenty of Water
- Eat Vegetables
- Consume Vitamin A & C Rich Food
- Sun Exposure

> Healthy Guts
- Eat Whole Food
- Eat Fiber Rich Food
- No Sugar
- Stay Hydrated
Compiled by: Dr. Khadija Sumbul
(For consultations: 9030089588)
( #S_A_Sagar )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/how-to-keep-body-parts-healthy.html