Friday, 12 September 2025

ہر نماز کے لئے اذان کی مخصوص طرز

 ہر نماز کے لئے اذان کی مخصوص طرز
ترکیہ میں ہر نماز کے لئے اذان کی ایک مخصوص طرز رکھی گئی ہے:
1. فجر کی اذان صبح کی ہوا کی مانند ہے۔ یہ سحر خیزی کی صدا ہے، جو نیند کی دیواریں توڑ کر دل کو بیدار کرتی ہے اور روح کو روشنی بخشتی ہے۔
2. ظہر کی اذان حجاز کے سوز میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہ دن کے بیچ میں تھم جانے اور رب کے حضور جھک جانے کی یاد دہانی ہے۔
3. عصر کی اذان مصری لحن میں ہے، جو دن کے ڈھلتے لمحوں میں ایک وقار اور گہرائی پیدا کرتی ہے، گویا وقت تھم سا گیا ہو۔
4. مغرب کی اذان مختصر اور سبک ہے۔ اس میں شتابی ہے، کہ دن کے آخری لمحات ضائع نہ ہوں اور بندہ جلدی سے اپنے رب کے حضور حاضر ہو۔
5. عشا کی اذان میں ایک اداس سا سُر ہے۔ یہ دن کے اختتام کی اذان ہے، گویا رات کے پردے میں چھپتے وقت بندے کو آخری بار رب کی بارگاہ میں بلاتی ہے۔
یوں یہ پانچوں اذانیں محض آواز نہیں بلکہ وقت کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ 
( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/09/blog-post_12.html


Wednesday, 10 September 2025

میت کے لئے دعاء مغفرت وایصال ثواب گھر بیٹھے کرنا افضل ہے یا قبر پہ جاکر؟

میت کے لئے دعاء مغفرت وایصال ثواب گھر بیٹھے کرنا افضل ہے یا قبر پہ جاکر؟ 
-------------------------------
-------------------------------
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام اس مسئلے میں کہ زید کے والد کا انتقال ہوا تدفین ہوئی۔ کچھ دنوں بعد بارش کی وجہ سے قبر دب گئی تو اسے مٹی ڈال کر درست کیا گیا۔ پھر کئی مہینے ٹھیک رہی۔ اب کئی سال گزرچکے۔ قبر پر گھاس وغیرہ اگ آئی ہے اور قبرستان میں لائن سے قبریں ہیں جن پر کچھ خودرو پودے اگ آئے ہیں اور قبر کا نشان مٹ گیا ہے۔ یعنی دو قبروں کے بیج فرق نہیں رہا۔ اور زمین برابر ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قبر کو مٹی ڈال کر، گھاس صاف کرکے اس کو درست کیا جائے، افضل کیا ہے۔ اور میت کے لئے اور لواحقین یعنی بیٹوں کے لئے کیا عمل شرعی طور پر بہتر ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ زید اپنے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جائے یا بغیر گئے ایصال ثواب کرے۔ افضل کیا ہے۔ نیز جانا یعنی زیارت قبر کرے تو اس کا درست شرعی طریقہ کیا ہے۔ ہر روز جانا بہتر ہے یا ہفتے میں ایک بار۔
نیز کیا قبر پر جانے سے میت کو یا زائر کو کوئی دینی فائدہ پہنچتا ہے؟
قبور کی زیارت کو جانا ثواب کا کام ہے؟
اس بابت کئی احادیث کو کئی علماء ضعیف کہ کر قابل عمل نہیں مانتے اور کئی دوسرے علماء بزرگوں کے طریقوں کو نقل کرتے ہیں 
ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں شرعی رہنمائی درکار ہے کہ کون سا عمل پسندیدہ اور ثواب دینے والا ہے اور کون سا عبث یا نقصان والا؟ 
واضح رہے کہ یہ استفتاء گنجائش اور جواز معلوم کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ مسنون، منصوص اور ثواب کے وعدہ والے عمل کو جاننے کے لئے پوچھا گیا ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
ڈاکٹر عزیر عالم دستگیر، ممبرا، ممبئی 
الجواب وباللہ التوفیق: 
اگر بارش یا مرورِ زمانہ کی وجہ سے کوئی قبر بالکل دھنس گئی ہو اور اس کے نشانات مٹ گئے ہوں تو حفاظت کی نیت سے ایک بالشت کی حد تک مٹی ڈال کر قبر کو اونچا کیا جاسکتا ہے:
"وإذا خربت القبور فلا بأس بتطیینہا، کذا في التتارخانیة، وہو الأصح ، وعلیہ الفتوی۔"
(الہندیة: ۱/۲۲۷، کتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون: في الجنائز۔ زکریا، دیوبند)
"لا بأس بتطیین القبور خلافاً لما في مختصر الکرخي … وروی البخاری أنہ - صلی اللہ علیہ وسلم - رفع قبر ابنہ إبراہیم شبراً، وطینہ بطین أحمر۔"
(حاشیة الطحطاوي علی المراقي: ۶۱۱، کتاب الصلاة ، فصل في حملہا ودفنہا، المکتبة الفخریة، دیوبند)
امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ میت کو دعا نفع دیتی ہے، چاہے جہاں سے بھی دعا کی جائے: عقیدۃ الطحاوی میں ہے:
”وفي دعاء الأحياء وصدقاتهم منفعة للأموات، والله تعالى يستجيب الدعوات ويقضي الحاجات.“ (شرح العقیدہ الطحاویہ للراجحی 348)
(یعنی زندوں کی دعائیں اور ان کی صدقات اموات کو نفع دیتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور حاجات کو پورا کرتا ہے)۔
 اسی لئے تو جنازے میں اور دفن کے بعد بھی میت کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں۔ پس دعا خواہ قریب سے کی جائے یا بعید سے، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ قبر کے پاس دعا کرنے سے ایک دوسری سنت کی ادائی ہوجاتی ہے اور وہ ہے 'سنت زیارت قبور؛ اس لئے یہ افضل و بہتر ومستحب ہے۔
مستدرک حاکم میں ہے:
(۱) عن سليمان بن بريدة، عن أبيه، قال: “زار النبي صلى الله عليه وآله وسلم قبر أمه في ألف مقنع، فلم ير باكيا أكثر من يومئذ" (یہ حدیث صحیح ہے اور علی شرط الشیخین ہے—المستدرک: 1429)۔
(۲) وعن أبي هريرة، قال: "زار رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله، ثم قال: استأذنت ربي أن أزور قبرها فأذن لي، واستأذنته أن أستغفر لها فلم يؤذن لي، فزوروا القبور فإنها تذكر الموت۔"
یہ حدیث صحیح ہے اور علی شرط مسلم ہے (المستدرک: 1430)۔
قابل غور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ کی قبر مکہ مکرمہ سے 67 کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل (زمانہ اسلام سے پیشتر) کافی عرصہ پہلے ان کی وفات ہوچکی تھی۔ اتنے فاصلے اور اتنے طویل زمانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو والدہ کی قبر کی زیارت کی اجازت اللہ کی جانب سے مل گئی، اور آپ نے صحابہ کی بڑی جماعت کے ہمراہ وہاں جا کر چشم ہائے تر کے ساتھ دعائیں کیں، حالانکہ آپ دور بیٹھے بھی دعا فرماسکتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو صراحتاً زیارت قبور کی اجازت بھی مرحمت فرمائی: "فزُوروا القُبورَ؛ فإنها تُذكِّرُ الموتَ۔"
(۳) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو زیارتِ قبور کے وقت یہ دعا سکھاتے تھے:
"السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين" (مسلم: 975)
(۴) یہی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار بدر، احد اور دیگر مسلمانوں کی قبروں پر خود جاتے اور ان کے لئے دعا کرتے۔ (مسلم: 975)۔
(۵) مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک لمبی حدیث میں حضور ﷺ کو رب کا حکم ہے کہ آپ بقیع غرقد تشریف لے جائیں اور اپنے ساتھیوں کے لئے دعا کریں:
إِنَّ رَبَّكَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَ أَهْلَ الْبَقِيعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَهُمْ (صحیح مسلم 974)۔
ان تمام نصوص و سنت رسول ﷺ سے پتہ چلتا ہے کہ عام مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کرنا متعدد مقاصد کے تحت "مستقل سنت" ہے، پھر والدین کی قبروں کی زیارت کرنا تو مزید کارِ ثواب اور بابِ بر سے ہے۔ اسی لئے علماء و صلحاء کا عمل بھی اس پر ہے کہ ضوابطِ شرعیہ کی رعایت کے ساتھ اولیاء، علماء، صلحاء اور والدین وغیرہ کی قبروں کی زیارت فرماتے اور ان کے لئے دعائیں فرماتے؛ کیونکہ مردے قبر پر آنے والوں کا سلام سنتے اور جواب بھی دیتے ہیں، ان کی آمد سے انہیں انسیت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت الامام امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنی وصیت میں امام ابو یوسف کو نصیحت فرمائی تھی:
"أكثر من زيارة القبور والمشايخ والمواضع المباركة" (الأشباه والنظائر لابن نجيم: 1/371)
یعنی قبروں، مشائخ اور بابرکت مقامات کی زیادہ سے زیادہ زیارت کیا کرو۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إني لأتبرك بأبي حنيفة، وإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره، وسألت الله تعالى الحاجة عنده فما تبعد عني حتى تقضى." (تاريخ بغداد: 1/445)
یعنی میں امام ابو حنیفہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں، اور جب بھی مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں دو رکعت نماز پڑھتا ہوں 'اور ان کی قبر پر آتا ہوں'، پھر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کرتا ہوں، تو وہ حاجت زیادہ دیر نہیں لگتی اور پوری ہوجاتی ہے۔ لہذا سنت رسول ﷺ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہے کہ میت پر دعائیں کرنے اور احوالِ موت سے عبرت حاصل کرنے کی غرض سے قبروں کی زیارت کرنا سنت رسول ﷺ ہے اور 'افضل و مستحب' ہے۔ مطلق دعا تو کہیں سے بھی کی جاسکتی ہے؛ لیکن شرعی حدود و اصول کی رعایت کے ساتھ اگر قبر موجود ہو تو وہاں یا اگر مندرس ہوگئی ہو تو اس کی ممکنہ جگہ پر جا کر دعائیں کرنا (زیارت قبور) مستحب اور بہتر ہے۔ وہاں کسی دن بھی جاسکتا ہے، البتہ زیارت کے لئے کچھ دن افضل ہیں، جیسے: جمعہ، پیر، جمعرات اور ہفتہ، نیز بابرکت راتوں اور ایام میں زیارت مستحب ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وأفضل أيام الزيارة أربعة يوم الاثنين والخميس والجمعة والسبت، والزيارة يوم الجمعة بعد الصلاة حسن ويوم السبت إلى طلوع الشمس ويوم الخميس في أول النهار وقيل في آخر النهار وكذا في الليالي المتبركة لا سيما ليلة براءة وكذلك في الأزمنة المتبركة كعشر ذي الحجة والعيدين وعاشوراء وسائر المواسم كذا في الغرائب." (الفتاوى الهندية: 5/350، الباب السادس عشر في زيارة القبور وقراءة القرآن في المقابر)
(زیارت کے لئے سب سے افضل چار دن ہیں: پیر، جمعرات، جمعہ اور ہفتہ۔ جمعہ کے دن نماز کے بعد زیارت کرنا اچھا ہے، ہفتہ کے دن طلوع آفتاب تک، جمعرات کو دن کے شروع میں اور بعض کے نزدیک دن کے آخر میں۔ اسی طرح بابرکت راتوں میں خصوصاً شبِ براءت، اور بابرکت زمانوں میں جیسے عشرہ ذی الحجہ، عیدین، عاشوراء اور دیگر مبارک ایام و مواسم میں زیارت بہتر ہے)
قبرستان پہنچ کر سب سے پہلے  صاحب قبر کے لئے سلامتی کی دعا کی جائے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ قبرستان کی جانب نکلے اور آپ نے یہ دعاء پڑھی: 
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ»
تم پر سلامتی ہو اے ایمان والو! اور بیشک ہم بھی تمہارے ساتھ لاحق ہونے والے ہیں۔ (مسلم: 975 ۔ ترمذی: 1053)
سلامتی کی دعا کے بعد ان کے لئے دعا مغفرت ورحمت کی جائے:
«السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا، مُؤَجَّلُونَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ، بِكُمْ لَاحِقُونَ، اَللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ»۔
(سلامتی ہو تم پر اے مومنین! تمہارے پاس وہ چیز آئی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا یعنی ثواب و عذاب کل کو یعنی قیامت کے دن کو تمہیں ایک معین مدت تک مہلت دی گئی ہے اور یقیناً ہم بھی اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم سے ملنے ہی والے ہیں۔ اے اللہ! بقیع غرقد والوں کو بخش دے)۔ (مسلم: 974)
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ میرے ہاں قیام فرما ہوتے تو (اکثر) آپ ﷺ رات کے آخری حصہ میں بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور (قبر والوں سے خطاب کرکے یہ دعا فرماتے)
مردے کے پاؤں کی طرف سے قبر پہ جائے، سر کی طرف سے داخل نہ ہو، اس سے مردے کو تکلیف ہوتی ہے۔ ایصال ثواب کرتے ہوئے قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پشت کرکے کھڑا ہو. اور جب دعا کا ارادہ کرے تو قبر کی طرف پشت اور قبلہ کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو، ہندیہ میں ہے:
ثم يقف مستدبر القبلة مستقبلا لوجه الميت . وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلة مستدبرا لوجه الميت (هنديه 350/5. كتاب الكراهية)
قبرستان میں بحالت قیام قبلہ رو ہوکر، دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعاء و استغفار کرنا سنت ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے قبرستان بقیع الغرقد میں کھڑے ہوکر، ہاتھ اُٹھا کر تین دفعہ دعاکی: جاء البقيع فأطال القيام ثم رفع يديه ثلاث مرات. (مسلم. الجنائز. باب الذهاب الى زيارة القبور 1619. نسأي 2010.)۔دوسرے رخ پہ اور بیٹھے ہوئے اور بلا ہاتھ اٹھائے ہوئے بھی دعا کرنا جائز ہے۔
اس کے بعد قرآن میں سے جو یاد ہو پڑھ کر ایصالِ ثواب کرے، بعض روایات میں ہے کہ جو شخص قبروں پر سے گزرا اور [قل ھو اللّٰہ احد] گیارہ دفعہ پڑھ کر اس کا ثواب مرُدوں کو پہنچایا، تو اس کو وہاں کے مرُدوں کی تعداد کے برابر اجر ملے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو قبرستان میں داخل ہوا، اور سورۂ فاتحہ اور اخلاص اور الھاکم التکاثر پڑھا اور کہا کہ اے اللہ! میں نے تیرا جو کلام پڑھا ہے اس کا ثواب قبر والے مؤمن مردوں اور عورتوں کو میں دیتا ہوں تو یہ قبر والے ا للہ کے پاس اس کے حق میں سفارش کریں گے۔ (بہ حوالہ اعلاء السنن: ۸/۲۸۷ تا ۸/۲۸۸)
قبرستان جاتے ہوئے قبروں کے درمیان جوتے پہن کر نہ چلے، ہاں اگرباضابطہ  راستہ بنا ہوا ہو تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔ قبر پہ ٹیک لگاکے بیٹھے، نہ اسے روندے اور نہ وہاں پیشاب پاخانہ کرے۔ شور وغوغا، جشن وچراغاں اور طوفان ہاؤ ہو بپا کئے بغیر انفرادی طور پر مذکورہ بالا آداب کی رعایت ولحاظ کے ساتھ قبروں کی زیارت کی اجازت ہے، یہ عمل صرف مستحب وافضل کے درجے کا ہے، عوام اسے سنت و واجب نہ سمجھے۔۔
فقط واللہ اعلم بالصواب 
احقر العباد شکیل منصور القاسمی البہاری غفراللہ لہ الباری
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
 (بدھ 17 ربیع الاوّل 1447ھ10 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )


  

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں: قسط (۵)

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
قسط (۵)
-------------------------------
-------------------------------
اسلام محض چند رسوم وظواہر کا نام نہیں، اس کا جوہر و خلاصہ اور اس کی غایتِ اولیٰ یہی ہے کہ انسان اپنے بھائی انسان کے لئے نفع رساں ہو ، یہ وہ امتیاز ہے جو اسلام کو دیگر تمام مذاہب سے جدا کرتا ہے۔ دنیا کے مذاہب میں کہیں بھی خدمتِ خلق کو براہِ راست عبادت کا درجہ عطا نہیں کیا گیا، مگر اسلام نے اسے عبادت و بندگی قرار دیا اور اعلان کیا کہ سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے، جو اپنی ذات کے حصار سے نکل کر اجتماعی مفاد کے لئے جئے۔
یہی وجہ ہے کہ خدمتِ خلق کو محبوبیتِ الٰہی تک پہنچنے کا سب سے نزدیک اور یقینی وسیلہ قرار دیا گیا۔ جو کسی کے غم کا بوجھ ہلکا کرے، اس کے عیب کو ڈھانپے، یا اس کی پریشانی کو دور کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دکھوں کو سہل فرما دے گا۔ گویا خدمتِ انسانیت وہ پُل ہے جس کے ذریعے بآسانی بامِ مراد تک پہنچا جا سکتا ہے۔
تصوف کا اصل جوہر بھی یہی ہے۔ ہاتھ میں تسبیح اور تن پر گدڑی پہن لینے کا نام تصوف نہیں؛ بلکہ حقیقی تصوف یہ ہے کہ انسان مخلوق کی راحت رسانی کو اپنا شعار بنائے۔ اسی مقصد کے لیے اسلام نے بیت المال کا تصور دیا تاکہ کوئی فرد کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو، بلکہ "پورا نظامِ امت" اس کا سہارا بن جائے اور اس کی دست گیری کرے۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے جب اس رفاہی نظام کو وسعت عطا کی تو وہ تصور وڈھانچہ ایسا کامل ثابت ہوا کہ آج چودہ سو برس بعد بھی دنیا کی وہ اقوام جو اسلام کی سخت مخالف ہیں، اسی کو اپنے مسائل کا حل سمجھ رہی ہیں۔ 
"عدلِ جہانگیری" کا استعارہ بھی اسی خدمت گزاری کی ایک جھلک ہے، جس نے ایک بادشاہ کے عہد کو تاریخ کے اوراق پر محفوظ وثبت کر دیا۔
انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ مقدسہ اس تصور کی زندہ تفسیر ہے۔ وہ خود فاقے برداشت کرتے؛ لیکن دوسروں کو سیراب کرنا اپنی ترجیح بناتے۔ افسوس کہ آج جمہوری دنیا میں وہ رفاہی نظام قریباً ناپید ہے۔ ہر دور میں مسائل ومصاعب نئے لباس پہن رہے ہیں، کبھی قحط، کبھی وبا، کبھی کورونا، کبھی سیلاب، اور کبھی دینی مدارس کے معلمین کی قلیل تنخواہیں۔
اہلِ خیر نے ہمیشہ آزمائش کے لمحوں میں انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیا ہے۔ کورونا کی وبا ہو یا آبی آفات، ملت کے غیور فرزندوں نے بڑھ چڑھ کر اپنے حصے کا چراغ جلایا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ مدارس کے وہ اساتذہ جو قلیل مشاہروں میں زندگی کی بے رحم چکی میں پِس رہے ہیں، ان کی حالت بھی کسی آفت زدہ یا سیلاب زدہ تباہ حال انسان سے کم نہیں۔
اصحابِ ثروت بیدار ہوں 
لسانی، علاقائی، ادارہ جاتی اور وطنی تنگنائیوں سے اوپر اٹھیں۔ محض علمِ دین کی خدمت کے جذبے سے ان دکھی دل معلمین کے لئے آگے بڑھیں۔ رفاہِ انسانیت اور راحت رسانی کے اس عظیم کام میں حصہ لیں، تاکہ دنیا دیکھے کہ یہ امت فی الواقع خیر امت ہے۔ یہی قربِ خداوندی کا سب سے قریبی زینہ ہے۔
میں نہیں جانتا کہ میری یہ آواز کن دلوں تک پہنچے گی؟  یہ نالہ صحراؤں میں کھو جائے گا؟ یا  کسی صاحبِ قلب کے دل ارجمند پر دستک دے سکے گا، ویسے بھی ظلمتِ شب کو ایک چراغ سے مٹانا ممکن نہیں، میں صرف اپنے حصے کا چراغ جلایا ہوں، اگر ہر شخص اپنے حصے کا دیا روشن کرے تو اندھیرا زیادہ دیر باقی نہیں رہ سکتا:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
آج ضرورت ہے کہ اہلِ خیر باہمی مشورے اور تدبر سے مدرسین کے لیے رفاہی، فلاحی، یا مضاربت وغیرہ کا کوئی مضبوط ومستحکم اور محفوظ وشفاف نظام قائم کریں، اگر ہر شخص اپنی بساط کے مطابق اس عملِ خیر میں شریک ہو تو یقیناً حالات کی کٹھن گھڑیاں آسان ہو سکتی ہیں۔
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
(بدھ 17 ربیع الاوّل 1447ھ10 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )

Monday, 8 September 2025

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں قسط (۴)

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
قسط (۴)
-------------------------------
-------------------------------
دینی مدارس کے روشن چراغ، ہمارے عظیم مدرسین کرام، جن کے دم سے علم دین کی مشعلیں روشن ہیں اور جن کی شبانہ روز کی عرق ریزی ودماغ سوزی سے علماء راسخین فی العلم کی کھیپ در کھیپ تیار ہورہی ہے ، آج معیشت کی بے رحم آندھیوں کے بیچ لرزاں و ترساں کھڑے ہیں۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کی بدولت ہماری نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہوتی ہے، مگر افسوس! انہی کے گھرانوں میں فاقہ کشی کی پرچھائیاں رقصاں ہیں۔
اگر بالفرض ادارہ جاتی سطح پر مدارس اس بحران کا مداوا نہ کر سکیں تو ہم آزادانہ طور پر اجتماعی و انفرادی سطح پر ایسے طریقے اختیار کر سکتے ہیں جن سے ان بیچاروں کا بار کچھ ہلکا ہوسکے، مثلاً:
۱: مدرسین کی خود کفالت کا راستہ:
(الف) مدرسین کرام اگر اپنے فارغ اوقات میں تدریس کے علاوہ جدید ڈیجیٹل وسائل سے بھی جڑ جائیں تو یہ ان کی معاشی مشکلات کے لیے کسی قدر تریاق بن سکتا ہے۔
(ب) کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن تدریس کا آغاز 
(ج) تصنیف و تالیف اور علمی مقالات کی تیاری
(د) عربی و اردو زبان کی تدریس برائے عالمی طلبہ
(ہ) ترجمہ نگاری، ایڈیٹنگ اور پروف ریڈنگ جیسے فنون 
یہ وہ علمی ذرائع ہیں جن سے کسی حد تک معاشی بیچارگی کی تلافی ہو سکتی ہے۔
۲: سماجی بیداری اور اسلام پسند اہلِ ثروت کو متوجہ کرنا:
علماء و خطباء، اہل قلم اور اہلِ زبان اپنے خطبات، تحریروں، مجالس اور سوشل میڈیا روابط کے ذریعے اہلِ ثروت کو جگائیں۔,کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ قوم ، پیشہ ور اور بے فیض مقررین، گویّوں، نعت خوانوں اور شعرا و شاعرات کو چند گھنٹوں کے عوض ہزاروں اور لاکھوں کا نذرانہ پیش کرتی ہے، مگر جنہوں نے دین کی بنیادیں بچا رکھی ہیں وہ محروم و بے سروسامان رہیں؟ یہ کیسا افسوسناک رویہ ہے!
۳: فارغ التحصیل طلبہ کا قرضِ وفاء:
وہ طلبہ جو انہی مدرسین کی محنت سے آج زندگی کے مختلف میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں، کیا ان پر یہ لازم نہیں کہ اپنے محسنین کو یاد رکھیں؟
ان کے لیے آپس میں ایک مستقل فنڈ قائم کریں، ایک تعاونی اسکیم تشکیل دیں ؛ تاکہ یہ چراغ مزید بجھنے نہ پائیں۔ یہ قرضِ وفا ہے، یہ شکر گزاری کی معراج ہے۔ ہر مدرسے کے باحیثیت ابناء قدیم اس طرح کا نظام بنالیں تو بہت بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
۴: اہلِ خانہ کی ہنرمندی:
اگر مدرسین کے بچے بڑے ہو چکے ہوں یا ان کی شریکِ حیات تیار ہوں تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ انہیں سلائی، کتب ایڈیٹنگ وغیرہ جیسے فنون سکھا دیے جائیں؟ یوں گھر کے اندر ہی ایک باعزت ذریعہ معاش پیدا ہو سکتا ہے اور خاندان کی کفالت کا بوجھ تنہا مدرس کے کاندھوں پر نہ رہے گا۔ 
ضروری ہے کہ اہلِ ایمان، اہلِ ثروت اور فارغ التحصیل باحیثیت طلبہ سب مل کر اس جہادِ معیشت میں مدرسین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، اور اس شمعِ نور کو معاش کی بے رحم آندھیوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں! (جاری)
(پیر 15 ربیع الاوّل 1447ھ
8 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/09/blog-post_8.html

Saturday, 6 September 2025

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں: قسط (۳)

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
قسط (۳)
-------------------------------
-------------------------------
مدارس کے اساتذہ کرام اپنی صلاحیتوں، مزاج، استعداد اور خانگی احوال کے اعتبار سے مختلف و متنوع ہوتے ہیں۔ بعض انتظامی امور میں ماہر، بعض گھریلو زندگی میں قدرے مضبوط اور ذمہ داریوں سے آزاد، جبکہ بعض محض تدریس و تربیت میں منہمک اور گھریلو ذمہ داریوں سے گراں بار ہوتے ہیں۔ یہ حضرات اپنی تمام توانائیاں طلبہ کو علوم و فنون میں ماہر بنانے، ان میں لکھنے پڑھنے کی عادت ڈالنے، اور ان کی فکری و اخلاقی تربیت میں صرف کر دیتے ہیں۔ ان کی دنیا کا دائرہ اکثر مدرسہ اور اس کے طلبہ تک محدود رہتا ہے، اور وہ تجارتی پیچیدگیوں، مالی بازاروں یا معاشرتی سازشوں اور رنگینیوں سے بالکل بے خبر رہتے ہیں۔
اہل و عیال کی ضروریات اور زندگی کے تقاضوں کے باعث بعض اساتذہ اپنی سالوں کی جمع پونجی بازار میں سرمایہ کاری یا مضاربت کے نام پر لگا دیتے ہیں، مگر مکار اور چالاک تاجروں کے ہاتھوں یہ سرمایہ ہڑپ لیا جاتا ہے۔ یوں وہ استاد، جو علم و تدریس میں اپنی جان و دل لگا دیتے ہیں، آخرکار لُٹے پٹے گھر کے رہ جاتے ہیں نہ گھاٹ کے۔
رات و دن تدریس، تعلیم و تربیت اور طلبہ کی صلاحیت سازی میں مشغول یہ اساتذہ جب کسی مصیبت، بیماری یا حادثے کا شکار ہوتے ہیں، تو بعض مدرسہ کے ذمہ داران نہ صرف ان کی خبر گیری تک نہیں کرتے؛ بلکہ ان کی حالت زار پر سنجیدگی سے توجہ دینے اور جزوی انسانی معاونت تک سے گریز کرنے کو کار ثواب سمجھتے ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وہ اساتذہ، جنہوں نے قوم کے بچوں کی تعمیر اور مستقبل کی تشکیل میں اپنی زندگیاں قربان کیں، اگر ان تکلیف دہ سلوک کی وجہ سے تدریس چھوڑ کر محنت و مشقت یا امامت کی طرف نہ جائیں، تو ان کے لیے کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے؟ مدرسہ کی معمولی تنخواہ ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتی، اور اضافی ہنگامی اخراجات کی بھرپائی کب اور کیونکر ہوگی؟
ہمدردان قوم و ملت کب ان کے درد کو سمجھیں گے؟ ملک میں پیش آمدہ آفات اور ہنگامی حالات میں راحت رسانی اور خدمت انسانیت یقیناً ضروری ہے، یہ کام بھی جاری رہے؛ مگر ہمارے یہ مدرسین بھی "شاید انسان ہی ہیں" فرصت ملے تو کچھ رفاہی اقدامات حالات گزیدہ ان اساتذہ کے لیے بھی ہونے چاہئیں، جنہوں نے ہمارے لیے اپنی توانائیاں قربان کیں اور ہماری روشنی کو برقرار رکھا۔ یہ کیسا عدل ہے، یہ کیسا انصاف ہے، کہ وہ چراغ جو قوم کو روشن رکھنے میں اپنی جان لگا دیتے ہیں، خود اندھیروں میں رہ جائیں؟
اب ہم کیا کریں؟
یہ شاید قارئین کرام کو چھوٹا منہ بڑی بات لگے، مگر اظہار کے بغیر چارہ کار بھی تو نہیں۔کب تک مہر بہ لب رہا جائے ؟ ناچیز کے خیال سے اس وقت ترجیحی بنیادوں پر ضروری اقدامات درج ذیل ہوسکتے ہیں:
 1. رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند اس مسئلے پر سب سے پہلے پیش قدمی کرے۔
 2. تمام ملحقہ مدارس کے ذمہ داران کو پابند کرے کہ تنخواہوں کے معیار کو دارالعلوم دیوبند کے طرز پر مقرر کریں، تاکہ اساتذہ کی بنیادی ضروریات پوری ہوں اور وہ عزت و وقار کے ساتھ تدریس جاری رکھ سکیں۔
 3. ایک جامع لائحہ عمل ترتیب دیا جائے، جس میں مالی تحفظ، رفاہی انتظامات، اور ہنگامی صورت حال میں مدد کے فوری اقدامات شامل ہوں۔
 4. تمام ملحقہ اداروں کو عمل درآمد کا مکلف بنایا جائے اور ہر سطح پر نگرانی یقینی بنائی جائے۔
 5. اگلے اجلاس و اجتماع میں رپورٹ طلب کی جائے تاکہ پیش رفت کا جائزہ لیا جاسکے۔
 6. جو مدرسے اس لائحہ عمل پر عمل درآمد میں سست روی دکھائے یا ناکام رہیں، ان کی رکنیت کی منسوخی پر غور کیا جائے، تاکہ عملی اقدام کی اہمیت ہر کسی کے لیے واضح ہو۔
توقع ہے کہ یہ اقدامات اساتذہ کے تئیں انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کریں گے، اور ان کے لیے حقیقی تحفظ اور قدر کی ضمانت بھی فراہم کریں گے۔ ان محسنینِ قوم کی عزت و وقار بحال کیے بغیر، ہم اپنی آنے والی نسلوں کی تعلیم، تربیت اور روشن مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔
اگر یہ چراغِ علم  بجھ گئے، تو روشنی کے ساتھ امید بھی اندھیروں میں کھو جائے گی۔ لہٰذا یہ وقت ہے کہ قوم جاگے، رہنما سنجیدہ ہوں، اور مدارس کے ان چراغوں کو وہ مقام و منزلت دے جو ان کا حق ہے۔ کیونکہ حقیقت میں یہ "اجیر" نہیں، معمارِ قوم ہیں، اور آنے والی نسلوں کی روشنی ہیں۔ (جاری)
(اتوار 14 ربیع الاوّل 1447ھ 6 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/09/blog-post_5.html

Friday, 5 September 2025

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں (قسط) (۲)

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
قسط (۲)
-------------------------------
-------------------------------
اسلام ایک ایسا آفاقی اور کامل دین ہے جس نے مزدوروں اور محنت کشوں کو محض خادم یا نوکر نہیں بلکہ انہیں "بھائی" قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے انسانیت کو وہ عظیم اصول عطا فرمایا جس نے دنیا کو مزدور کی عظمت کا سبق سکھایا:
إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ (صحیح البخاری، حدیث: 30)—-یہ تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے؛ پس جو خود کھاؤ وہی انہیں کھلاؤ، جو خود پہنو وہی انہیں پہناؤ، ان پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالو، اگر ڈالو تو خود ان کی مدد کرو)۔
مزید برآں، آپ ﷺ نے مزدوری طے کیے بغیر کسی کو ملازم رکھنے سے منع فرمایا:
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ اسْتِئْجَارِ الْأَجِيرِ حَتَّى يُبَيَّنَ لَهُ أَجْرُهُ (مسند أحمد، حدیث: 11743)
اور تاکید فرمائی:
أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ (سنن ابن ماجہ، حدیث: 2443)
یعنی مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اجرت ادا کرو۔
قرآن مجید نے بھی صاف اعلان کیا:
﴿وَلا تَبخَسُوا النّاسَ أَشياءَهُم﴾ (الاعراف: 85)
—-یعنی لوگوں کے حقوق میں کمی نہ کرو۔
بلکہ ایک اور حدیث میں سخت وعید آئی ہے:
قَالَ اللَّهُ: ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ … وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ، وَلَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ
(صحیح البخاری، حدیث: 2227—اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قیامت کے دن تین اشخاص سے میں خود جھگڑوں گا… ان میں ایک وہ ہے جس نے کسی مزدور سے پورا کام لیا مگر اس کی مزدوری ادا نہ کی)۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق اجرت محض لین دین نہیں، بلکہ مزدور کی عزتِ نفس کی حفاظت اور اس کے گھرانے کی ضروریاتِ زندگی کی کفالت کا ضامن ہے۔تن خواہ کا بنیادی مفہوم بھی تو یہی ہے!
ریاستی قوانین بھی اسی عدل کے تابع ہیں۔ ہندستان کی عدالتِ عظمیٰ نے 31 اکتوبر 2018 کو مزدوروں کے لئے کم از کم اجرت مقرر کی:
غیر تربیت یافتہ: یومیہ 538، ماہانہ 14,000
کم تربیت یافتہ: یومیہ 592، ماہانہ 15,400
تربیت یافتہ یا میٹرک پاس: یومیہ 652، ماہانہ 16,962
گریجویشن یا اس سے زائد: یومیہ 710، ماہانہ 18,462
افسوس صد افسوس! کہ ملک کے مرکزی اداروں کو چھوڑ کر بیشتر مدارس میں آج بھی اساتذہ کو اس معیار سے کہیں کم تنخواہیں دی جارہی ہیں۔ بلند و بالا عمارتوں پر لاکھوں اور کروڑوں خرچ ہوتے ہیں، مگر وہ استاد، جو علم کے چراغ جلا کر نسلوں کو روشنی دیتے ہیں، دس تا پندرہ ہزار کے قلیل مشاہرے پر زندگی کی کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ وہ المیہ ہے جو ذہین فضلاء کو تدریس سے کنارہ کشی پر مجبور کررہا ہے۔ اگر یہی طرزِ عمل جاری رہا تو مدارس کی روشن قندیلیں ایک ایک کرکے بجھ جائیں گی، اور علم و عرفان کی بزم ویرانی میں بدل جائے گی۔
آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اربابِ مدارس اساتذہ کو "بھائی" سمجھیں، اجرت کے فرسودہ اور ظالمانہ نظام کو ختم کریں، اور عدالت کی مقررہ کم از کم شرح کو اخلاقی معیار بنائیں۔ اساتذہ کی بنیادی ضروریات کی کفالت کریں، مشاہرات وقت پر ادا کریں، ایمرجنسی حالات کے لئے قرضِ حسنہ کا نظام وضع کریں، اور اچھی کارکردگی پر انعام و اکرام کا سلسلہ جاری کریں۔اضافی خدمات ومحنتوں پہ معقول اضافی اجرت دیں، ان کی مجبوریوں سے فائدہ نہ اٹھائیں!
یاد رکھئے! عمارتیں نہیں؛ بلکہ "اساتذہ کرام" مدارس کی جان وشہ رگ ہیں۔ ان کی عزت و آسودگی میں ہی امت کی بقاء اور مدارس کی روشنی مضمر ہے۔ تدریس کے سپاہی یوں ہی سرکاری اسکولوں کا رُخ نہیں کرررہے ہیں، بلکہ ظالمانہ و فرسودہ "تنخواہی نظام" انہیں اس ہجرت وانحراف پر مجبور کررہا ہے۔
مدارس کو حقیقی معنوں میں اگر زندہ رکھنا ہے تو سب سے پہلے اساتذہ کے دلوں کو زندہ رکھنا ہوگا۔ عالی شان عمارتیں مدارس کو وقار نہیں دیتیں، بلکہ وہ اساتذہ کرام ہی ہیں جو ان عمارتوں کو معنی بخشتے ہیں۔ اگر ان کے گھروں کے چولہے بجھ گئے تو مدارس کی روشنی بجھتے دیر نہیں لگے گی۔ 
اب وقت ہے کہ ہم اپنے نظامِ تنخواہ کو عدل و کرم کا آئینہ بنائیں، نصاب درس ونظام تربیت کی طرح دارالعلوم دیوبند کے نظام مشاہرات کو بھی آئیڈیل بنانے کی کوشش کریں؛ تاکہ مدارس کے چراغ معیشت کی آندھیوں میں بھی ہمیشہ روشن رہیں۔
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
 (جمعہ، 12 ربیع الاوّل 1447ھ 5 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/09/blog-post_5.html

Thursday, 4 September 2025

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
-------------------------------
-------------------------------
مدارسِ اسلامیہ صدیوں سے دین کی حفاظت، علم کی اشاعت اور ایمان کی آبیاری کے قلعے کے طور پر امت کا سرمایۂ افتخار رہے ہیں۔ ان کے اساتذہ و فضلا نے صبر و قناعت کی زندگی اختیار کی، عسرتوں پر مسکرائے، اور اپنی تنگ دستی کو امت کی سعادتوں میں ڈھال دیا۔ یہی برصغیر کے اکابر علماء کا طرۂ امتیاز تھا؛ مگر آج ایک نئی آندھی اٹھی ہے، جو ان چراغوں کی لو کو مدھم کرنے لگی ہے۔ پرکشش سرکاری نوکریوں کی چمک نے مدارس کے بہت سے تازہ دم سپاہیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جو قافلہ کل دین کی پاسبانی کے لئے صف بستہ کھڑا تھا، آج وہ سرکاری اسکولوں و مکاتب کی راہوں کا مسافر بن رہا ہے۔ یہ صورت حال مدارس کے قابل اساتذہ کے وجود اور ان کے مستقبل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
طبقۂ علماء کے لئے سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ معاش کی فکر میں اس قدر الجھ جائیں کہ علم و دین کی اصل خدمت پس منظر میں چلی جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اکابر نے سادہ زیست کو زینت بنایا، عسرتوں کو خندہ پیشانی سے جھیلا، مگر علمِ دین کی شمع بجھنے نہ دی۔ ان کی زندگیاں مسلسل جدوجہد، بے پناہ ایثار اور دین کی خاطر جاں فشانی سے عبارت ہیں۔
طالبِ علمانہ دور میں ایک جواں سال طالبِ علم معمولی وسائل کے ساتھ، شب و روز کی مشقت سہہ کر، محض ذوق و شوق کے سہارے علمی پیاس بجھاتا ہے۔ یہی قربانی اس کے مستقبل کی برکتوں کی ضمانت بنتی ہے۔ اگر یہی جذبہ تدریسی دور میں بھی چند سال برقرار رہے، اور وہ گنتی کے کچھ عرصۂِ عسرت کو مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کر لے، تو اللہ تعالیٰ آسائشوں کے ایسے ایسے دروازے کھول دیتے ہیں جن کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ جنہوں نے صبر کیا، قناعت کو اوڑھنا بچھونا بنایا، اور معمولی وسائل پر سادہ زیست اختیار کی، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسی فتوحات کے در کھولے کہ شاہانِ وقت ان کے قدموں میں جھکنے لگے۔ انہی کے ذریعے امت کو علمی، فکری اور روحانی فتوحات نصیب ہوئیں۔
افسوس کہ آج کے دور میں ایک نیا طوفان اٹھا ہے۔ یوپی بورڈ اور بہار مدرسہ بورڈ، اور پھر بی پی ایس سی وغیرہ کے امتحانات نے جب نوکریوں کی راہیں کھولیں تو ہزاروں باصلاحیت مدرسین اور کہنہ مشق اساتذۂ حدیث مدارس سے رخ موڑ کر سرکاری بحالیوں کی طرف لپک پڑے۔ یہ ایسا عمومی انحراف ہے جس نے مدارس کی علمی و روحانی فضا کو بری طرح مجروح کردیا ہے۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی حکومتی منظم سازش کا شاخسانہ ہے یا طبقۂ علماء کی محض وقتی مجبوریوں کا اثر؟؛ مگر اتنا طے ہے کہ مدارس کے لئے یہ منظر نہایت تشویشناک ہے۔ 
اس سے مجالِ انکار نہیں کہ زندگی کی اس مادّی دنیا میں رزق کا مسئلہ ایک تسلیم شدہ ہمہ گیر حقیقت ہے، جس سے چشم پوشی ممکن نہیں۔ انسان خواہ کتنی ہی روحانی بلندیوں کو چھو لے، اس کے وجود کی زمینی ضرورتیں اُسے دستک دیتی رہتی ہیں۔ بھوک، پیاس، لباس اور سر چھپانے کی جگہ، یہ سب تقاضے انسان کو اس حقیقت کی یاد دلاتے ہیں کہ آمدنی کے بغیر زیست کا بار اٹھانا تقریباً ناممکن ہے۔
اسلام نے اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا ؛ بلکہ اسے دین کے دائرے میں شامل کیا۔ عبادات اور ایمانی فرائض کے بعد، معاش کی جدوجہد کو ایک مستقل ذمہ داری قرار دے کر دوسرا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ:
"حلال روزی کی تلاش وجستجو، فرض عبادات کے بعد ایک اور فریضہ ہے۔" (مرقاۃ المفاتیح، كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ج: 5، ص:1904، ط: دارالفكر)
اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے کہ کسبِ حلال محض ایک دنیاوی ضرورت نہیں؛ بلکہ دینی تقاضہ بھی ہے۔
انبیاء کے وارثوں کے لئے بالخصوص یہ امر نہایت اہم ہے کہ وہ ایسے ذرائعِ آمدنی اختیار کریں جن سے اُن کی خودداری محفوظ رہے۔ اُس کی پیشانی علم کی روشنی سے روشن ہو، نہ کہ سوال کی زنجیر سے جھکی ہوئی۔ محتاجی کا داغ اُس کے شایانِ شان نہیں۔
تاریخِ انبیاء پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہاتھ سے محنت کئے بغیر زندگی بسر نہ کی۔ کسی نے لکڑی تراشی، کسی نے کھیتی باڑی کی، کسی نے جانور چَرائے، اور کسی نے تجارت کی۔ اور جانِ کائنات، سرورِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اجیاد کے پہاڑوں پر اجرت پر لوگوں کی بکریاں چَرائیں، قافلۂ تجارت کے ساتھ ملک شام کا سفر کئے، اور مدینہ کے نواح (مقام جُرُف) میں کھیتی باڑی میں ہاتھ ڈالا۔ گویا عرش کے فرستادہ بھی زمین پر اپنے ہاتھ سے کماتے تھے، تاکہ امت کو یہ سبق دیں کہ عزّت محنت میں ہے، ذلت سوال میں اور حلال روزی کی طلب ہر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم میں جلوہ گر ہے۔
اسی تناظر میں علماء و اہلِ تدریس وتعلیم کے لئے موزوں یہی ہے کہ تدریس کو محور بنائے رکھتے ہوئے اور اس کے نظام کو متاثر کئے بغیر، بوقت ضرورت، خارج اوقات میں تجارت، مضاربت، حرفت، یا کوئی اور جائز ذریعہ اختیار کریں۔ یوں علم بھی محفوظ رہے گا، عزّت بھی سلامت رہے گی اور ضروریاتِ حیات بھی پوری ہوں گی۔ اس کے برعکس اگر محض ذریعہ معاش کی تلاش میں کتاب وسنت کے درس و تدریس سے کٹ کر دوسری راہوں کا رخ کیا جائے تو نہ یہ دانشمندی ہے اور نہ ہی پائیدار حل!
فوج در فوج تدریس کے سپاہی اگر مدارس چھوڑ کر عصری اسکولوں کی نوکریوں میں کھو جائیں، تو یہ طرزِ عمل مدارس کے وجود کے لئے سم قاتل ہے۔
مدارس کا اصل سرمایہ ان کے مخلص، ایثار پیشہ اور قناعت شعار اساتذہ ہیں۔ اگر یہی قافلہ منتشر ہو گیا تو مدارس محض اینٹوں کی عمارتیں اور نصاب کی کتابیں بن کر رہ جائیں گے، ان کی روح پرواز کر جائے گی۔ آج سب سے بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ اہلِ علم اپنی اصل حیثیت کو پہچانیں، اپنے اکابر کے روشن نقوش پر چلتے ہوئے دین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصدِ اعلیٰ بنائیں۔ چند سال کی ریاضت اور صبر وتحمل کے بعد دنیا بھی آپ کے قدموں میں آئے گی، عزت بھی رفیق ہوگی اور شہرت ووقار بھی! 
یہی وہ چراغ ہے جس کی روشنی سے امت کا مستقبل منور ہوتا ہے:
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لیجئے!
(بدھ 10 ربیع الاوّل 1447ھ3 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/09/blog-post_4.html