Wednesday, 25 September 2024

شرعی ڈاڑھی

شرعی ڈاڑھی
-------------------------------
دنیا میں آباد اربوں انسانوں کے درمیان مسلم وغیرمسلم، کافر ومومن کے مابین فرق وامتیاز اگر افکار و عقائد کے ذریعہ ہوتا ہے تو وہیں تہذیب، طرزلباس، فیشن، تراش خراش، شکل وشباہت، رنگ ڈھنگ، ہیئت و کیفیت اور وضع قطع کو بھی قوموں کے درمیان وجہِ امتیاز مانا گیا ہے؛ اسی لئے غیروں کی شباہت اپنانے پر وعیدِ حدیث  آئی ہے۔ دینی غیرت، اسلامی حمیت اور شرعی امتیازات وخصوصیات کا تحفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے مسنون و مامور شکل وشباہت اختیار کرنے میں ہے،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پوری زندگی ان ظاہری خصوصیات وامتیازات پہ عملی مداومت فرمائی، اور امت کو صریح ایجابی حکم بھی فرمایا۔ 
متعدد صریح احادیث کی بنیاد پر ڈاڑھی رکھنا واجب اور نہ رکھنا حرام وممنوع قرار دیا گیا ہے، ڈاڑھی کی واجبی مقدار کا تعیُّن ارشاد نبوی میں تو نہیں ہوا؛ لیکن منشاءِ نبوی اور مرادِرسول کو دیگر افراد امت سے زیادہ سمجھنے والے، اور "آشناے مزاج یار" اصحابِ رسول نے اپنے عمل سے اس وجوب کا تعین فرمادیا ہے، اور وہ ہے کم سے کم چار انگلی کی مقدار (مقدار قُبضہ)! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو نجومِ ہدایت (ہدایت کے ستارے) قرار دیا ہے، یعنی کہ صحابی رسول کی اتّباع بھی "راہ نجات" ہے؛ بالخصوص خلفائے راشدین کی سنت اور طور طریق کو اپنی سنت ہی کی طرح مضبوط ولازم  پکڑنے کا حکم خود حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے دیا ہے۔
اِس مقدار میں ڈاڑھی رکھنا واجب اور شعار اسلام میں داخل ہے، شعار کا تحفظ بھی ضروری ہے اور تبلیغ وترویج بھی! امت کے تمام ہی ائمہ مجتہدین نے متفقہ و اجماعی طور پر ایک مشت (چار انگل) ڈاڑھی رکھنے کو واجب اور اس سے کم مقدار ہونے پر تراش خراش کو فسق  وگناہ قرار دیا ہے۔
ہر دینی معاملے میں قابلِ اقتداء و اتباع ذاتِ رسول ہے، آپ صلے اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہی امت کے لئے نمونۂِ عمل ہے، عرب کے حکمراں، وہاں کے بعض اہل علم، دانشوران، یا زید عمر بکر کا قول وعمل اسوہ نہیں ہے۔
علماء دین، نائبین رسول ہیں، ان کے دوش پہ شرعی شکل وشباہت اور وضع قطع کے تحفظ کی ذمہ داری اوروں کے بالمقابل بدرجہا زیادہ ہے، نبوی احکام و تعلیمات کی صداقت وحقانیت پر دل ودماغ سے مطمئن ہونا اور اعضاء وجوارح سے اس کا عملی ثبوت پیش کرنا ضروری ہے، مدرسے سے فراغت کے بعد عصری اداروں اور تعلیم گاہوں کا رخ کرنے والے بعض فضلاء (جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں) کا مخلوط وآزادانہ ماحول سے متاثر ہوکر عالمانہ وضع قطع اور شکل وشباہت کو مجروح ومخدوش کرنا انتہائی المناک وشرمناک عمل ہے، ایک عالم دین کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ دوسری قوم یا دنیادار واشخاص کی عادات و اطوار اور تہذیب و تمدن سے استفادہ وخوشہ چینی کے فراق میں واجبی شعار کا ہی حشر نشر کرنے لگ جائے، یہ مسلّمہ اصول ہے کہ جس شخص کی ظاہرِی ہیئت میں ترک واجب ہو اس کا باطن کبھی کسی طور صالح نہیں ہوسکتا، مرکزی دینی اداروں کے سند یافتہ فضلاء کو عصری اداروں میں جاکر "مؤثر" بننا چاہئے؛ نہ کہ "متأثر"!
وہ معاشرے میں دینی اداروں کے ترجمان اور دینی تہذیب وتمدن کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں، انہیں صالح اسلامی معاشرے کی تعمیر وتشکیل میں اپنا مؤثر رول ادا کرنا چاہئے، استعارے اور محاورے کی زبان میں جب کعبہ کے خدّام اور حرم کے پاسبان ہی کفریہ اعمال انجام دینے لگیں تو پھر شعائر اسلام کہاں ڈھونڈنے جائیں؟ ان کے اقدار واعمال واخلاق اداروں کی نیک نامی وبدنامی کا باعث بنتے ہیں، مفادات حاصلہ، مخلوق کی رضا جوئی، یا خوب روئی کی خاطر یا ویسے ہی احساس کمتری کے باعث اپنے عالمانہ وضع قطع کو "مشق ستم" بنانے سے قبل تھوڑی دیر کے لئے اس پہ ضرور غور کرلیں! اگر آپ کو تراش خراش پر ہی ضد ہو تو خدارا اپنی "ادارہ جاتی نسبتوں" کے اظہار سے تو گریز کرلیا کریں؛ تاکہ ان اداروں کا اعلیٰ اخلاقی وتربیتی نظام و ”شرفِ انتساب“ آپ کے ضعف عملی کی بھینٹ چڑھ کر مورد طعن نہ بن سکے!
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_25.html ( #ایس_اے_ساگر )

No comments:

Post a Comment