Saturday, 28 September 2024

کیا دین اسلام میں تعدد ازدواج مستحسن نہیں ہے؟

کیا دین اسلام میں تعدد ازدواج مستحسن نہیں ہے؟
-------------------------------
قرآن کریم نے جس سیاق میں (وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً سورہ النساء آیت ۳) دو تا چار خواتین سے نکاح کو مباح کہا ہے وہ ترغیب وتحریض کا اصولی اسلوب نہیں ہے 
بلکہ عرب کے اس ماحول میں یتیم بچیوں کے سرپرستان یتیموں کے اموال  پر خزانے پہ بیٹھے از دہا کی طرح قبضہ جمائے رکھنے کے لئے معمولی مہر دین کے بدلے ان ہی یتیموں سے نکاح کرلیتے تھے، جبکہ وہ اگر دوسری خواتین سے نکاح کرتے تو اتنے معمولی مہر میں نکاح ممکن نہ ہوتا، یوں زیر پرورش یتیموں کے ساتھ معمولی مہر کے بدلے نکاح کرنا دراصل ان کا مالی استحصال کرنا تھا، قرآن کریم نے اس ظالمانہ طریقہ کار کی تردید کی اور جو مسلمان  یتیموں سے شادی کرنا چاہتے ہیں انہیں دو چیزوں کا مکلف بنایا:
اول: یتیموں کو پوری طرح مہر دے کر ان کے ساتھ انصاف کیا جائے، جیسا کہ دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے میں ان کے خاندانی رتبے کا اعتبار کرکے مہر دیا جاتا ہے، یتیموں کی پرورش اور ان کی دیکھ بھال کے دوران ان پر خرچ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہوں اور انہیں اونے پونے مہروں میں نکاح کرلو۔
دوسرا: اگر یتیم بچیوں کے ساتھ مہر مستحق دے کر انصاف نہیں کرسکتے تو تم ان سے شادی نہ کرو، بلکہ کسی دوسری عورت کے پاس جاؤ جو تمہیں پسند ہو! تب لگ پتہ جائے گا کہ مہر میں عدل کیا ہوتا ہے؟
صحیح بخاری کی ایک روایت (حدیث نمبر 4574) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک سوال کے جواب میں آیت تعدد کی یہ تفسیر فرمائی ہے کہ: "یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی (محافظ رشتہ دار جیسے چچیرا بھائی، پھوپھی زاد یا ماموں زاد بھائی) کی پرورش میں ہو اور ترکے کے مال میں اس کی ساجھی ہو اور وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی پر فریفتہ ہوکر اس سے نکاح کرلینا چاہے لیکن پورا مہر انصاف سے جتنا اس کو اور جگہ ملتا وہ نہ دے، تو اسے اس سے منع کردیاگیا کہ ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ان کے ولی انصاف کرسکیں اور ان کی حسب حیثیت بہتر سے بہتر طرز عمل مہر کے بارے میں اختیار کریں (تو اس صورت میں نکاح کرنے کی اجازت ہے) اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے سوا جو بھی عورت انہیں پسند ہو ان سے وہ نکاح کرسکتے ہیں۔"
يا ابْنَ أُخْتِي، هذِه اليَتِيمَةُ تَكُونُ في حَجْرِ ولِيِّهَا، تَشْرَكُهُ في مَالِهِ، ويُعْجِبُهُ مَالُهَا وجَمَالُهَا، فيُرِيدُ ولِيُّهَا أنْ يَتَزَوَّجَهَا بغيرِ أنْ يُقْسِطَ في صَدَاقِهَا، فيُعْطِيَهَا مِثْلَ ما يُعْطِيهَا غَيْرُهُ، فَنُهُوا عن أنْ يَنْكِحُوهُنَّ إلَّا أنْ يُقْسِطُوا لهنَّ، ويَبْلُغُوا لهنَّ أعْلَى سُنَّتِهِنَّ في الصَّدَاقِ، فَأُمِرُوا أنْ يَنْكِحُوا ما طَابَ لهمْ مِنَ النِّسَاءِ سِوَاهُنَّ۔   
اس پس منظر کو سامنے رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ تعدد ازواج والی آیت اصلاً ترغیب تعدد ازواج کے لئے نہیں آئی ہے؛ بلکہ یتیم بچیوں کے مہر کے حوالے سے ناانصافی کے خوف کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے آئی ہے۔ جس آیت سے تعدد ازواج پہ استدلال کیا جاتا ہے اس کا اصل محمل یہ ہے۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ آیت مبارکہ کا عموم تعدد ازواج کے جواز کو ثابت کررہا ہے۔ لیکن یہ اصلاً نہیں؛ تبعاً ہے۔ اسی لئے علماء کے نقطہاے نظر اس بابت مختلف ہیں کہ جوازِ تعدد سے قطع نظر (کہ بہ نص قرآنی تعدد ازواج ثابت ہے) افضل وبہتر کون سا عمل ہے؟ ایک پہ اکتفا کرنا یا بلاضرورت بیک وقت متعدد نکاح کرنا؟ اسی آیت کے بعد والے ٹکڑے {وإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} میں ترک تعدد کا اشارہ بھی موجود ہے اور اس کی علت بھی بتادی گئی ہے، کہ جہاں متعدد ازواج کے ساتھ مآلاً عدل وانصاف قائم رکھنے کا امکان موجود نہ ہو تو تعدد ازواج کا مباح عمل مرغوب ومستحسن نہیں؛ بلکہ ناپسندیدہ عمل ہوگا اور اگر مرد کو پتہ ہوکہ واقعۃً وہ تعدد زوجات کی صورت میں عدل ومساوات قائم نہیں کرسکے گا تو باتفاق فقہاء تعدد ازواج ناجائز ہے۔ آیت کے اسی ٹکڑے کی بناء پر فقہاء شوافع وحنابلہ؛ بالخصوص امام شافعی رحمہ اللہ نے باضابطہ تصریح فرمادی ہے کہ ایک پر اکتفاء کرنا تعدد کے بالمقابل پسندیدہ عمل ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أُحب له أن يقتصر على واحدة وإن أبيح له أكثر؛ لقوله تعالى: ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾ [النساء: 3] (مختصر المزني ٣١٨/٢)
خطيب شربيني شافعي رحمه الله فرماتے ہیں:
وَيُسَنُّ أَنْ لَا يَزِيدَ عَلَى امْرَأَةٍ وَاحِدَةٍ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ ظَاهِرَةٍ. (مغني المحتاج ٢٠٧/٤)
شیخ مرداوی حنبلی فرماتے ہیں:
ويُسْتَحَبُّ أيضًا أنْ لا يزيدَ على واحِدَةٍ إنْ حصَل بها الإعْفافُ، على الصَّحيحِ مِنَ المذهبِ.(كتاب الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف - ت التركي۔ [المرداوي] ٢٥/٢٠)
شیخ عبدالرحمن بن قاسم حنبلی فرماتے ہیں:
ويسن نكاح واحدة) لأَن الزيادة عليها تعريض للمحرم (حاشية الروض المربع لابن قاسم ٢٢٩/٦)
علامہ ابن قدامة مقدسي فرماتے ہیں:
الأولى أن لا يزيد على امرأة واحدة؛ لقول الله تعالى: ﴿ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ﴾ [النساء: 3]، ولقوله سبحانه: ﴿ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ﴾ [النساء: 129] (الشرح الكبير ٢٤/٢٠)
حنفیہ میں علامہ سراج الدین ابن نُجيم مصری رحمه الله فرماتے ہیں:
لو لم يزد على واحدة كي لا يدخل الغم على ضعيف القلب ورَقَّ عليها فهو مأجور، وتركُ إدخال الغم عليها يُعد من الطاعة، والأفضل الاكتفاء بواحدة [ابن نجيم، النهر الفائق شرح كنزالدقائق، تحقيق: أحمد عزو عناية، طبعة: دارالكتب العلمية- بيروت، ط1، 1422هـ، 2002 م، (2/ 197).
فتاوى هنديہ میں ہے:
إذا كانت للرجل امرأة وأراد أن يتزوج عليها أخرى، وخاف أن لا يعدل بينهما لم يجز له ذلك، وإن كان لا يخاف جاز له، والامتناعُ أولى، ويُؤجر بترك إدخال الغم عليها۔ [الفتاوى الهندية، (1/ 341].
علامہ خرشی مالکی مختصر خلیل کی شرح میں بلاضرورت نکاح کرنے کو مکروہ اور بیوی کے حقوق ادانہ کرنے کی صورت میں نکاح کرنے کو حرام فرماتے ہوئے لکھتے ہہیں:
وَقَدْ يُكْرَهُ فِي حَقِّ مَنْ لَمْ يَحْتَجْ إلَيْهِ وَيَقْطَعْهُ عَنْ الْعِبَادَةِ وَيَحْرُمُ فِي حَقِّ مَنْ لَمْ يَخْشَ الْعَنَتَ وَيَضُرُّ بِالْمَرْأَةِ لِعَدَمِ قُدْرَتِهِ عَلَى النَّفَقَةِ (شرح الخرشي على مختصر خليل - ومعه حاشية العدوي ١٦٥/٣)
جب بلاضرورت نفس نکاح مکروہ ہے تو بلاضرورت ان کے یہاں تعدد ازواج مستحسن وافضل کیسے ہوسکتا ہے؟ ان تمام تصریحات سے واضح ہے کہ جس طرح نکاح کرنے کے کئی حالات ہیں، مثلاً جو شخص جسمانی اعتبار سے تندرست ہو، مہر اور نان نفقہ ادا کرنے پر قادر ہو، نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ اور معصیت  میں مبتلا ہوجانے کا یقین ہو، اور نکاح کی صورت میں بیوی پر ظلم  و زیادتی کا اندیشہ نہ ہو، تو ایسے شخص پر نکاح کرنا واجب ہے۔ اور اگر نکاح نہ کرنے کی صورت میں برائی میں پڑنے کا اندیشہ نہیں، اور مالی و جسمانی اعتبار سے نکاح کرنے پر قادر ہو تو ایسے شخص پر نکاح کرلینا سنتِ مؤکدہ ہے۔ اگر نکاح کے بعد اندیشہ ہوکہ بیوی کے حقوق ادا نہیں کرپائے گا، اور ظلم کا مرتکب ہوگا تو نکاح مکروہِ تحریمی ہے، اور اگر اس کا صرف اندیشہ نہ ہو بلکہ اپنی عادات یا نفسیاتی میلانات کی وجہ سے اسے یہ یقین ہوکہ نکاح کے بعد بیوی کے ساتھ جور و ظلم کا معاملہ رکھے گا تو ایسے شخص کے لیے  نکاح  کرنا حرام ہے۔ اسی طرح تعدد ازدواج کے حالات بھی مختلف ہیں، جسمانی قویٰ یا دیگر وجوہ سے جنہیں واقعی اس کی ضرورت ہو تو معاشرتی عدل کی شرط کے ساتھ اس کے لئے تعدد ازدواج کی اجازت ہے۔ جنہیں اس کی ضرورت نہ ہو یا تعدد ازدواج کی صورت میں عدل کا قیام مشکوک ہو تو ایسوں کے لئے تعدد ازدواج بہتر نہیں ہے! شریعت اسلامیہ میں تعدد ازدواج کی کہیں فضیلت نہیں آئی ہے۔ تکثیر امت والی روایات کا مقصد تجرد وتبتل کے بالمقابل محض ترغیب نکاح ہے ترغیب تعدد ازدواج نہیں۔ سورہ نساء کی جس آیت میں تعدد ازدواج کی اباحت کا ذکر ہے اس کا مبنی یتیموں کے ساتھ ہورہے جبر کا خاتمہ اور ان سے نکاح کرنے کی صورت میں معتدل مہر کی ادائی کو یقینی بنانا ہے، ترغیب تعدد اس آیت کا مفاد نہیں ہے، اسی لیے مذاہب اربعہ متَبعہ میں بوقت ضرورت تعدد ازدواج کی عدل کی شرط کے ساتھ رخصت واباحت تو بیشک ہے، لیکن مذاہب اربعہ میں سے کسی نے بھی مطلقاً تعدد ازدواج کو افضل وبہتر نہیں کہا ہے؛ کہ یہ عموماً بیویوں کے ساتھ جور و ظلم یا حقوق تلفی کا موجب بنتا ہے، چونکہ شارع علیہ السلام کے حق میں یہ علت غیر متصور تھی؛ اس لئے ان کے حق میں استثناءً تعدد افضل وبہتر تھا، عام امتیوں کے حق میں عمومی احوال میں مطلقاً یہ حکم نہیں! مذاہب اربعہ میں سے شافعیہ اورحنابلہ نے تو دو ٹوک انداز میں ترک تعدد کو افضل ومستحسن کہا ہے. جبکہ احناف نے باب نکاح کے ضمن میں قسم وعدل کی بحث کے ذیل میں اور مالکیہ نے نکاح کے احوال مختلف کے ضمن میں اشارۃً اسے غیرمستحسن مانا ہے، لیکن مطلقاً افضلیتِ تعدد کے قائل یہ (احناف وموالک) بھی نہیں ہیں۔
خلاصہ بحث: 
جیساکہ اوپر کے سطروں میں قدرے تفصیل سے عرض کیا  کہ جس طرح نفس نکاح وزواج کے احوال مختلف ہیں، کسی کے لئے سنت، کسی کے لئے مکروہ وحرام اور کسی کے لئے واجب! ہر ایک کے لئے ہر حالت میں نکاح مسنون، واجب یا مستحب نہیں ہے. ورنہ شیخ عبدالفتاح ابو غدہ کی کتاب مستطاب "العلماء العزاب" میں درج اکابر امت:
 شیخ بشرحافي، هناد سري، طبري، زمخشري، نووي، ابن تيمية اور حضرت شیخ یونس جونپوری رحمہم اللہ اجمعین کا پھر کیا بنے گا؟ 
کیا ان حضرات کو تارکین سنت قرار دینے کی مجال کسی میں ہے؟  
اسی طرح تعدد نکاح کے تئیں بھی ہر شخص کے لئے ہر حال میں علی الاطلاق کوئی حکم متعین کردینا مشکل ہے۔ نکاح کی مشروعیت ہمہ جہت ان گنت وبے شمار اغراض ومقاصد کے تحت ہوئی ہے، تعدد ازواج کا حال بھی یہی کچھ ہے ۔ہر شخص کی انفرادی حالت اور معاشرتی مجبوری، ضرورت اور تقاضہ ایک دوسرے سے جداگانہ ہے. جس کے ساتھ ہی تعدد ازواج کی افضلیت یا عدم افضلیت دائر ہوگی ۔اختلاف احوال کے تحت اس کا حکم بھی مختلف ہوگا۔ تاہم اتنا متیقن ہے کہ شرعی نصوص میں تعدد ازواج کی باضابطہ واصالۃً ترغیب کہیں نہیں آئی ہے، اقتضاء واشارات ہیں۔ اگر اس کی ترغیب منصوص ہوتی تو ذرا سوچئے! شوافع وحنابلہ (احناف کے بعض فقہاء بھی) ایک پر اکتفا کرنے کو مستحب ومسنون کیوں کہتے؟ 
چاروں فقہی مذاہب کا فی الجملہ اکتفاء بالواحدہ کو اصل اور تعدد ازواج کو استثنائی اور رخصت قرار دینا واضح دلیل ہے کہ تعدد ازواج کا مسئلہ اپنے اصل کے اعتبار سے عام افراد امت کے لئے مطلقاً مطلوب ومرغوبِ شرع نہیں ہے. ہاں! بعض اشخاص وافراد کے احوال مخصوصہ کے باعث ان کے لئے مستحسن ہوجائے تو مضائقہ نہیں۔
(اتوار 24 ربیع الاول 1446ھ 29 ستمبر 2024ء) ( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_28.html

Wednesday, 25 September 2024

شرعی ڈاڑھی

شرعی ڈاڑھی
-------------------------------
دنیا میں آباد اربوں انسانوں کے درمیان مسلم وغیرمسلم، کافر ومومن کے مابین فرق وامتیاز اگر افکار و عقائد کے ذریعہ ہوتا ہے تو وہیں تہذیب، طرزلباس، فیشن، تراش خراش، شکل وشباہت، رنگ ڈھنگ، ہیئت و کیفیت اور وضع قطع کو بھی قوموں کے درمیان وجہِ امتیاز مانا گیا ہے؛ اسی لئے غیروں کی شباہت اپنانے پر وعیدِ حدیث  آئی ہے۔ دینی غیرت، اسلامی حمیت اور شرعی امتیازات وخصوصیات کا تحفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے مسنون و مامور شکل وشباہت اختیار کرنے میں ہے،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پوری زندگی ان ظاہری خصوصیات وامتیازات پہ عملی مداومت فرمائی، اور امت کو صریح ایجابی حکم بھی فرمایا۔ 
متعدد صریح احادیث کی بنیاد پر ڈاڑھی رکھنا واجب اور نہ رکھنا حرام وممنوع قرار دیا گیا ہے، ڈاڑھی کی واجبی مقدار کا تعیُّن ارشاد نبوی میں تو نہیں ہوا؛ لیکن منشاءِ نبوی اور مرادِرسول کو دیگر افراد امت سے زیادہ سمجھنے والے، اور "آشناے مزاج یار" اصحابِ رسول نے اپنے عمل سے اس وجوب کا تعین فرمادیا ہے، اور وہ ہے کم سے کم چار انگلی کی مقدار (مقدار قُبضہ)! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو نجومِ ہدایت (ہدایت کے ستارے) قرار دیا ہے، یعنی کہ صحابی رسول کی اتّباع بھی "راہ نجات" ہے؛ بالخصوص خلفائے راشدین کی سنت اور طور طریق کو اپنی سنت ہی کی طرح مضبوط ولازم  پکڑنے کا حکم خود حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے دیا ہے۔
اِس مقدار میں ڈاڑھی رکھنا واجب اور شعار اسلام میں داخل ہے، شعار کا تحفظ بھی ضروری ہے اور تبلیغ وترویج بھی! امت کے تمام ہی ائمہ مجتہدین نے متفقہ و اجماعی طور پر ایک مشت (چار انگل) ڈاڑھی رکھنے کو واجب اور اس سے کم مقدار ہونے پر تراش خراش کو فسق  وگناہ قرار دیا ہے۔
ہر دینی معاملے میں قابلِ اقتداء و اتباع ذاتِ رسول ہے، آپ صلے اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہی امت کے لئے نمونۂِ عمل ہے، عرب کے حکمراں، وہاں کے بعض اہل علم، دانشوران، یا زید عمر بکر کا قول وعمل اسوہ نہیں ہے۔
علماء دین، نائبین رسول ہیں، ان کے دوش پہ شرعی شکل وشباہت اور وضع قطع کے تحفظ کی ذمہ داری اوروں کے بالمقابل بدرجہا زیادہ ہے، نبوی احکام و تعلیمات کی صداقت وحقانیت پر دل ودماغ سے مطمئن ہونا اور اعضاء وجوارح سے اس کا عملی ثبوت پیش کرنا ضروری ہے، مدرسے سے فراغت کے بعد عصری اداروں اور تعلیم گاہوں کا رخ کرنے والے بعض فضلاء (جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں) کا مخلوط وآزادانہ ماحول سے متاثر ہوکر عالمانہ وضع قطع اور شکل وشباہت کو مجروح ومخدوش کرنا انتہائی المناک وشرمناک عمل ہے، ایک عالم دین کو قطعی زیب نہیں دیتا کہ دوسری قوم یا دنیادار واشخاص کی عادات و اطوار اور تہذیب و تمدن سے استفادہ وخوشہ چینی کے فراق میں واجبی شعار کا ہی حشر نشر کرنے لگ جائے، یہ مسلّمہ اصول ہے کہ جس شخص کی ظاہرِی ہیئت میں ترک واجب ہو اس کا باطن کبھی کسی طور صالح نہیں ہوسکتا، مرکزی دینی اداروں کے سند یافتہ فضلاء کو عصری اداروں میں جاکر "مؤثر" بننا چاہئے؛ نہ کہ "متأثر"!
وہ معاشرے میں دینی اداروں کے ترجمان اور دینی تہذیب وتمدن کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں، انہیں صالح اسلامی معاشرے کی تعمیر وتشکیل میں اپنا مؤثر رول ادا کرنا چاہئے، استعارے اور محاورے کی زبان میں جب کعبہ کے خدّام اور حرم کے پاسبان ہی کفریہ اعمال انجام دینے لگیں تو پھر شعائر اسلام کہاں ڈھونڈنے جائیں؟ ان کے اقدار واعمال واخلاق اداروں کی نیک نامی وبدنامی کا باعث بنتے ہیں، مفادات حاصلہ، مخلوق کی رضا جوئی، یا خوب روئی کی خاطر یا ویسے ہی احساس کمتری کے باعث اپنے عالمانہ وضع قطع کو "مشق ستم" بنانے سے قبل تھوڑی دیر کے لئے اس پہ ضرور غور کرلیں! اگر آپ کو تراش خراش پر ہی ضد ہو تو خدارا اپنی "ادارہ جاتی نسبتوں" کے اظہار سے تو گریز کرلیا کریں؛ تاکہ ان اداروں کا اعلیٰ اخلاقی وتربیتی نظام و ”شرفِ انتساب“ آپ کے ضعف عملی کی بھینٹ چڑھ کر مورد طعن نہ بن سکے!
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_25.html ( #ایس_اے_ساگر )

HOW TO KEEP BODY PARTS HEALTHY

HOW TO KEEP BODY PARTS HEALTHY

> Healthy Brain
- 7-8 Hour Sleep
- Read Daily
- Socialize
- Meditate

> Healthy Heart
- Eat Healthy
- Exercise Often
- Manage Stress
- Don't Smoke

> Healthy Bones
- Eat vegetables
- Lift Weights
- Consume Calcium & Vitamin D

> Healthy Skin
- Drink Plenty of Water
- Eat Vegetables
- Consume Vitamin A & C Rich Food
- Sun Exposure

> Healthy Guts
- Eat Whole Food
- Eat Fiber Rich Food
- No Sugar
- Stay Hydrated
Compiled by: Dr. Khadija Sumbul
(For consultations: 9030089588)
( #S_A_Sagar )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/how-to-keep-body-parts-healthy.html

Saturday, 21 September 2024

مفتی طارق مسعود صاحب کا حالیہ قضیہ: ہمارا غیر منصفانہ رویہ

مفتی طارق مسعود صاحب کا حالیہ قضیہ: ہمارا غیر منصفانہ رویہ
-------------------------------
موقع  محل کی نزاکت وحساسیت کا ادراک، مزاج شناسی اور معاملہ فہمی بہت بڑی چیز ہے۔ ملکی، ملی، علمی، دعوتی واصلاحی کام کے وسیع وعریض میدان میں سرگرم عمل اور محو سفر رہنے والے افراد و اشخاص کی زبان اور باگِ قلم حد درجہ محتاط رہنے چاہئیں۔ انہیں موقع محل کی نزاکت ورعایت کے ادراک کے ساتھ ناپ تول کر اپنی باتوں کے مثبت ومنفی عواقب و نتائج پہ نظر رکھتے ہوئے "لب کُشا" ہونا چاہئے۔ ذرا سی بے احتیاطی، چوک اور مقتضائے حال کی عدم رعایت سے مفاد پرست ٹولۂ اوباش اہل حرم کو دست وگریباں کرکے اور اضطراب وانتشار وبے چینی پھیلاکر افراد ملت کے ذہنوں کو غیرضروری طور پر خلفشار کی آمجگاہ بناکر ہی چھوڑتا ہے، اپنی دعوتی واصلاحی خدمات کے باعث شہرت واعتبار رکھنے والے صالح عالم دین مفتی طارق مسعود صاحب کی قرآن میں عربی گرامر کی غلطی کی حالیہ تقریر کے حوالے سے بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا، جو انتہائی المناک وافسوناک وتکلیف دہ عمل تھا، بشری خامیوں اور فرگزاشتوں سے کون منزّہ ہے؟ انسان، علم وفضل وکمال اور تقوی وطہارت کے اعلی رتبے پہ فائز ہوکے بھی آخر خطائوں کا پتلا ہی رہتا ہے۔ اپنی خامیوں اور لغزشوں کے اعتراف میں ہی انسانی عظمت واقبال مندی کا راز پنہاں ہے۔ مفتی صاحب موصوف کی نیت خواہ کچھ بھی ہو ؛ پَر انہوں نے اس بابت جو کچھ فرمایا تھا وہ یقیناً ان کی لسانی فروگزاشت وخطا تھی ، اچھا ہوا کہ توجہ دہانی کے بعد انہوں نے بروقت اس کا اعتراف اور اس کی حساسیت کا ادراک فرمالیا اور اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے دوٹوک انداز میں ان تمام لوگوں سے اس سبقت لسانی پر معذرت کرلی جن کے احساسات اس غیر محتاط بیان سے متاثر ہوئے تھے۔ یہ حوصلہ مندانہ اقدام یقیناً ان کے بڑے پن کا مظہر اور مزید ترقیوں کا زینہ ہے۔
کیا اہل علم سے یہ کہنے کی بات ہے؟ کہ ہمارا مذہب اعتدال وتوازن اور وسطیت سکھاتا ہے، مدح وذم، تعریف وتنقید ہر دو چیز میں ہمیں اعتدال اور حقیقت پسندی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے، کسی صاحبِ تحریر وتقریر کے منشاء ومراد کو پانے کے لئے گہری تحلیل وتجزیہ، ذہنی پس منظر، اصلی مزاج وطبعیت، اور نفسیاتی کیفیت کا دقت نظر کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے، عجلت پسندانہ اور غیرمحتاط رد عمل وتبصرہ اندر کی بوکھلاہٹ اور شخص مذکور سے ذاتی رنجشوں بدگمانیوں، اور چپقلشوں کی غمازی کرتا ہے۔ ہمیں اس موقع سے اچھے اچھے اصحاب علم ودانش کو بلا وجہ قلمی توانائیاں صرف کرتے دیکھ کر بڑا افسوس ہوا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سارے مسائل اِعراض وچشم پوشی سے ازخود حل ہوجاتے ہیں، نزاعی مسائل اور لاطائل بحثوں کو  بلاضرورت طول دینا، رائی کو پہاڑ بنانا، شیرہ لگاکر معاملے کو سوشلستان میں زندہ رکھنے کے مترادف ہے، جس سے غیرشرعی تنقیص آمیز محاذ آرائی ومہم جوئی کی فضا بدستور قائم رہتی ہے، اور آوارہ زبان ٹولہ علماء دین کے خلاف بھونکنے کو اپنا محبوب شغل بنائے رکھتا ہے۔
"لینے" اور "دینے" دونوں کا پیمانہ ایک ہونا چاہئے، "سیر" اور "سوا سیر" کی ذہنیت قرینِ انصاف نہیں، لسان وقلم کی سبقت ہر کسی سے ہوجاتی ہے۔ ہم اپنے تنقیص آمیز تبصروں کی جس خوبصورت تاویل وتوجیہ کرکے نکل جاتے ہیں ، دوسروں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھنا چاہئے، اظہارِ معذرت کے بعد اب اس معاملے کو بالکلیہ ختم کرکے ان کے ساتھ عفو ودر گزر کا معاملہ کرتے ہوئے حسب سابق باہمی آداب و احترام و رواداری کا معاملہ باقی رکھنا چاہیے، مفتی طارق مسعود صاحب سے بھی گزارش ہے آئندہ اپنی تقریروں میں حد درجہ محتاط رویہ اختیار کریں، عوامی مجالس میں خالص علمی نازک مسائل بیان کرنے سے پیشتر ممکنہ عواقب ونتائج پہ لازمی غور کرلیا کریں! 
ہفتہ ۱۷ ربیع الاول ١٤٤٦ ہجری 
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_21.html ( #ایس_اے_ساگر )

Friday, 20 September 2024

جمعہ کے دن صدقہ کرنے کی فضیلت

جمعہ کے دن صدقہ کرنے کی فضیلت 
-------------------------------
سوال: میں نے کہیں پڑھا کہ کسی اچھے اور نیک کام کے لئے اپنی طرف سے دن مخصوص کرلینا اور پھر ہر صورت اس کی پابندی کرنا اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دلانا دین میں اپنی طرف سے اضافہ ہے اور ایجادِ بندہ ہے جس کی دین میں گنجائش نہیں ہے۔ بدعت کے زمرے میں ہے۰
میری عادت ہے جمعہ کو صدقہ دینے کی اور میں اپنی بہنوں کو بھی کہا جو اتوار یا جمعرات کو دیتی تھیں کہ جمعہ کا دن افضل ہے جمعہ کو دیا کرو۔ میرا یہ عمل پابندی سے گزشتہ کئی سال سے ہے۔ کیا یہ بدعت ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
جائز ہے۔ اسے بدعت نہیں کہا جاسکتا۔ دلائل مذکورہ فتویٰ میں موجود ہیں۔
امام ابوبکربن ابی شیبہؒ (المتوفى: 235هـ) نے روایت کیا ہے کہ:
حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن مجاهد، عن عبد الله بن ضمرة، عن كعب، قال: «الصدقة تضاعف يوم الجمعة»
ترجمہ: حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن صدقہ (کا اجر و ثواب) کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ،کتاب الجمعۃ)
اور امام عبدالرزاق الصنعاني (المتوفى: 211هـ) حضرت کعب کی یہ روایت کچھ تفصیل سے کرتے ہیں جس سے ہم صرف مطلوبہ جملہ نقل کریں گے:
عن الثوري، عن منصور، عن مجاهد، عن ابن عباس قال:
فقال كعب:«والصدقة فيه أعظم من سائر الأيام»
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: حضرت کعب نے کہا: جمعہ کے دن میں صدقہ کرنا دیگر تمام ایام کی بنسبت زیادہ عظمت رکھتا ہے۔"​
(مصنف عبدالرازق، کتاب الجمعۃ ،باب عظم یوم الجمعۃ (ت اعظمی)
اور ملک شام کے دو مشہور محدث شعيب الأرناؤوط - عبدالقادر الأرناؤوط کہتے ہیں: رجالہ ثقات وإسناده صحيح (دیکھئے حاشیۃ زادالمعاد)
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فالصدقة في ليلة الجمعة ويومها يكون ثوابها أعظم نظرا لفضيلة ذلك الزمان.
قال ابن القيم في زادالمعاد متحدثا عن خصائص يوم الجمعة:
الخامسة والعشرون: أن للصدقة فيه مزية عليها في سائر الأيام، والصدقة فيه بالنسبة إلى سائر أيام الأسبوع، كالصدقة في شهر رمضان بالنسبة إلى سائر الشهور. وشاهدت شيخ الإسلام ابن تيمية قدس الله روحه، إذا خرج إلى الجمعة يأخذ ما وجد في البيت من خبز أو غيره، فيتصدق به في طريقه سرا، وسمعته يقول: إذا كان الله قد أمرنا بالصدقة بين يدي مناجاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فالصدقة بين يدي مناجاته تعالى أفضل وأولى بالفضيلة. انتهى
وفي تحفة الحبيب على شرح الخطيب وهو شافعي متحدثا عن الجمعة:
ويسن كثرة الصدقة وفعل الخير في يومها وليلتها، ويكثر من الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم في يومها وليلتها لخبر: إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة، فأكثروا علي من الصلاة فيه، فإن صلاتكم معروضة علي. انتهى.
وفي فتح العلي المالك للشيخ محمد عليش المالكي:
(ما قولكم) في رجل يصنع ذكرا في ليلة الجمعة أو ليلة الاثنين أو نحوهما من الليالي الفاضلة، ويدعو أهل الذكر فهل إذا توجه غيرهم معهم في تلك الليلة بلا دعوة، وأكل مما يجعل لهم فيها كالعك يحرم عليه أفيدوا الجواب ؟ فأجبت بما نصه: الحمدلله، والصلاة، والسلام على سيدنا محمد رسول الله: الطعام المجعول للفقراء الذاكرين خارج مخرج الصدقة على غير معين بحيث يقصد به مخرجه كل حاضر، فيجوز لكل من يحضر معهم تناوله، والله أعلم. انتهى
فتخصيص ليلة الجمعة بإطعام بعض الناس لا بأس به؛ بل هو طاعة يثاب عليها فاعلها.
وكون من يطعمهم من الأغنياء لا حرج فيه لأن صدقة التطوع تباح للغني؛ كما تقدم في الفتوى رقم: 51694.
وعليه؛ فما شاهدته من إطعام الطعام ليلة الجمعة ليس مثل تخصيصها بالقيام الذي ثبت النهي عنه في الحديث الصحيح.
والله أعلم.

https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_20.html




Thursday, 19 September 2024

اولادِ رسول ﷺ کے مختصر احوال

اولادِ رسول ﷺ کے مختصر احوال
-------------------------------
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بیٹے (راجح قول کے مطابق) اور چار بیٹیاں (باتفاق علماء) تھیں.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹے:
1: حضرت قاسم رضی اللہ تعالی عنہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے حضرت قاسم پیدا ہوئے اور بعثتِ نبوت سے پہلے ہی انتقال فرما گئے ۔دو سال کی عمر پائی تھی، انہیں کے نام سے ہمارے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ''ابوالقاسم'' مشہور ہوئی ۔مکہ مکرمہ میں ولادت ہوئی اور وہیں انتقال ہوا. (المواھب اللدنیہ 479/1، زرقانی:3 ص 24)
2: حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ:
سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا سے اعلان نبوت کے بعد پیدا ہوئے ؛ اس لئے ان کا لقب طیب وطاہر پڑا، ایک سال چھ ماہ آٹھ دن زندہ رہے اور طائف میں 614ء میں وفات پائی (مواہب لدنیہ 478/1)
3: حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ:
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باندی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے مدینہ منورہ میں سنہ 630ء میں پیدا ہوئے، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ  نے حاضر خدمت رسول  ہو کر ولادت کی خوشخبری سنائی، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو رافع کو ایک غلام عطا فرمایا ۔ ساتویں روز عقیقہ ہوا جس میں دو مینڈھے ذبح کروائے گئے اور سر منڈواکر بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی، بال زمین میں دفن کئے۔ اٹھارہ ماہ کے قریب زندہ رہے، 632ء میں مدینہ منورہ میں وفات پائی، حضورؐ ان کی وفات پر بہت غمگین ہوئے، آپؐ نے فرمایا: 
’’إن العين تدمع، والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون“ 
آنکھیں اشک بار، دل غم سے نڈھال ہے؛ لیکن ہم راضی برضاے الٰہی رہیں گے، اے ابراہیمؓ! ہم تمہاری جدائی پر بہت غمزدہ ہیں۔ (صحيح البخاری، الجنائز، باب: قول النبي صلى الله عليه وسلم: إنا بك لمحزونون (1303)
ایک صحابیؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ ! آپ ہمیں رونے سے منع فرماتے ہیں (لیکن آپ رورہے ہیں؟) فرمایا کہ زبان کے رونے سے منع کرتا ہوں آنکھ کا رونا تو فطری ہے۔ انہی کے انتقال کے وقت اتفاقاً سورج گہن ہوا تو بعضوں کو خیال ہوا کہ شاید حضرت ابراہیم کی وفات کے باعث ایسا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کی تردید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: 
«إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا تنكسفان لموت أحد ولا لحياته؛ ولكنهما آيتان من آيات الله يخوف الله بهما عباده فإذا رأيتموهما فافزعوا إلى الصلاة» [صحیح البخاري، كتاب: الجمعة، باب: الصدقة في الكسوف (1044)] (زاد المعاد (1 /103)، والفصول في سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لابن كثير (ص: 130). المواهب اللدنية 485-489 ج 1)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں:
باتفاق علماء اہل سیر ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے چار بیٹیاں بھی عطا فرمائیں، چاروں جوان ہوئیں اور چاروں کی شادیاں ہوئیں، تین بیٹیوں کی اولاد بھی ہوئی جبکہ ایک کی اولاد نہیں ہوئی۔
1: حضرت زینب رضی اللہ عنہا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بیٹی حضرت زینبؓ تھیں، مکہ مکرمہ میں سنہ 600ء کو یعنی بعثت نبوی سے قریب دس سال پہلے پیدا ہوئیں، حضور کی عمر مبارک اس وقت تیس سال تھی. آپ کا نکاح اپنے خالہ زاد 'قاسم' المعروف ابوالعاص بن ربیعؓ سے ہوا تھا جو حضرت خدیجہؓ کے بھانجے تھے، یعنی حضور کی سالی حضرت ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے، یہ غزوۂ بدر میں کفار کی طرف سے لڑنے آئے تھے، غزوۂ بدر کے بعد ابوالعاص حضورؐ کی قید میں آگئے تھے جبکہ دونوں کا نکاح باقی تھا ؛ کیونکہ اس وقت تک  نکاح کے نئے قوانین شرع نازل نہیں ہوئے تھے، حضرت زینبؓ نے اپنا ہار فدیہ میں دے کر اپنے خاوند کو  رہا کروایا۔ ابوالعاصؓ بعد میں سنہ 7 ہجری میں ایک موقع سے مشرف باسلام ہوگئے تھے اور پھر مسلمانوں کی طرف سے معرکوں اور غزوات میں شریک بھی ہوتے رہے، انتہائی بہادر اور دلیر آدمی تھے۔ حضرت زینبؓ  کے دو بچے تھے ،  ایک بیٹا تھا اور ایک بیٹی۔ بڑی بیٹی امامہؓ  بنت ابو العاص تھیں جبکہ بیٹے علی بن ابو العاص تھے۔ امامہؓ حضورؐ کی بہت لاڈلی نواسی تھیں، روایات میں آتا ہے کہ امامہؓ نماز کے دوران حضورؐ کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، حضورؐ قعدے میں بیٹھتے تھے تو امامہؓ کبھی کندھے پر چڑھ جاتیں اور کبھی آکر گود میں بیٹھ جاتی تھیں۔ حضورؐ نماز کے دوران سجدے میں جاتے تھے تو یہ گردن پر چڑھ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ امامہؓ جوان ہوئیں تو حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے بعد حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کی وصیت کے مطابق حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے امامہؓ سے نکاح کیا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سنہ 629 ء کو مدینہ منورہ میں وفات پائیں (الطبقات الكبرى لابن سعد (10 /31).
2: حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا:
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی حضرت رقیہؓ تھیں، سنہ 603ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں، آپ کا نکاح حضورؐ نے پہلے ابولہب کے بیٹے عتبہ سے کیا تھا، نکاح ہوگیا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ حضورؐ کی تیسری بیٹی ام کلثوم ابولہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کے نکاح میں تھیں۔اس دوران دعوتِ اسلام کا سلسلہ شروع ہوگیا، ابولہب نے اس کی عداوت میں اعلان کر دیا کہ میں اپنے بیٹوں کی شادیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں سے نہیں کروں گا۔ پھر حضرت رقیہ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے ہوا، حضرت عثمانؓ جب ہجرت کر کے حبشہ گئے تو حضرت رقیہؓ ان کے ساتھ تھیں، حبشہ میں ان کا بیٹا عبد اللہؓ پیدا ہوا۔ حضرت عثمانؓ انہی کے حوالے سے ابوعبد اللہؓ کہلاتے تھے۔ یہ حضورؐ کا دوسرا نواسہ جبکہ حضرت رقیہؓ کے بطن سے پہلا بیٹا تھا، چھ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا، مدینہ منورہ میں ایک مرتبہ کھیل رہے تھے کہ کسی دوسرے بچے نے چھڑی ماری جو آنکھ میں لگ گئی، اسی زخم سے پھر وفات ہوگئی۔ حضرت عثمانؓ مدینہ میں ہوتے ہوئے بھی بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت رقیہؓ گھر میں بیمار تھیں، حضرت عثمانؓ کے علاوہ اور کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ حضورؐ نے خود حضرت عثمانؓ سے گھر پر رکنے کا کہا تھا کہ علالت ونقاہت کے سبب حضرت رقیہؓ کا اٹھنا بیٹھنا بھی مشکل تھا، حضرت عثمانؓ حضرت رقیہ کی تیمار داری میں مدینہ منورہ میں رکے رہے اور پھر اسی حالت میں غزوۂ بدر کے بعد حضرت رقیہؓ کا مدینہ منورہ میں 624ء میں انتقال ہوگیا۔ (المواهب اللدنية 480/1، و خاندان نبوت: ابوعمار زاہدالراشدی)
3: حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا:
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دی، اسی لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے یعنی دو نوروں والے۔ آپ کی ولادت مکہ مکرمہ میں سنہ 604ء میں ہوئی تھی۔ جب حضرت ام کلثومؓ بھی فوت ہوگئیں تو اس وقت حضورؐ کی بیٹیوں میں صرف حضرت فاطمہؓ زندہ تھیں اور حضرت علیؓ کے نکاح میں تھیں۔ حضورؐ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے  تیرے نکاح میں دیتا جاتا۔ سنہ ۹ موافق 630ء ہجری میں مدینہ منورہ میں آپ کا انتقال ہوا، حضرت ام کلثومؓ کی کوئی اولاد نہ تھی۔
 (الطبقات الكبرى لابن سعد (10 /37).
4: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا:
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی لیکن سب سے چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا ء رضی اللہ عنہا  تھیں، سنہ 604ء میں  مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں، اور سنہ 632ء کو مدینۃ منورہ میں وفات پائیں، ان کا نکاح حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد حضرت علی بن ابی طالب سے ہوا، دامادوں میں حضرت علیؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ چہیتے داماد تھے؛ جبکہ بیٹیوں میں حضرت فاطمہؓ حضورؐ کی سب سے زیادہ چہیتی بیٹی تھیں۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بہت زیادہ محبت تھی۔ آپؐ کسی سفر پر جانے سے پہلے سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ملنے جاتے، پھر جب آپؐ سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے پاس جاتے؛ تاکہ ان سے غیاب کا وقفہ کم سے کم تر رہے ، حضرت علیؓ نے حضورؐ سے ان سے نکاح کی خواہش ظاہر فرمائی تو حضورؐ نے پوچھا کچھ مال پاس ہے یا نہیں؟ حضرت علیؓ نے بتایا، یا رسول اللہؐ کچھ بھی نہیں ہے۔ پوچھا مہر دینے کے لیے کچھ ہے؟ بتایا، یا رسول اللہؐ وہ بھی نہیں ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ زرہ کہاں ہے جو تمہیں غنیمت میں ملی تھی؟ بتایا، وہ میرے پاس ہے۔ آپؐ نے فرمایا جاؤ لے کر آؤ۔ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے وہ زرہ لے کر بیچ دی جسے حضرت عثمانؓ نے خریدا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اس میں سے مہر بھی ادا کرنا اور کچھ سامان وغیرہ بھی خریدنا۔ نکاح کے بعد ایک انصاری صحابی حضرت حارث رضی اللہ عنہ کے مکان میں رہائش اختیار فرمائی، ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حضرت فاطمہؓ کے علاوہ آپؐ کی ساری اولاد فوت ہوگئی تھی۔ حضرت فاطمہؓ کے تین بیٹے  اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں حضر ت حسنؓ، حضرت حسینؓ اور حضرت محسنؓ۔ (حضرت محسن صغر سنی ہی میں وفات پاگئے تھے) بیٹیوں میں ام کلثوم بنت علی اور زینب بنت علی رضی اللہ عنہما تھیں، یعنی دونوں بہنوں کا نام خالہ کے نام پر ہی رکھا گیا تھا ، حضرت ام کلثوم بنت علی کا نکاح سنہ 71 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا، دوسری بیٹی حضرت زینب بنت علی کا نکاح حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے ہوا (نسب قریش ص 52)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں جن بچوں نے پرورش پائی ان میں حضرت امامہؓ بنت علی، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ تھے۔ (خاندان نبوت، ابو عمار زاہدالراشدی)
اس طرح ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں، تین داماد اور آٹھ نواسے اور نواسیاں تھیں رضی اللہ عنہم اجمعین۔
( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_96.html



رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہرات: ایک نظر میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہرات: ایک نظر میں 
-------------------------------
جمعرات ۱۵/ ربیع الاول ١٤٤٦ ہجری  
1: خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا:
خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قُصَی بن کلاب القرشیہ الاسدیۃ، قصی پر پہنچ کر آپ کا خاندان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے مل جاتا ہے۔ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا اور لوی بن غالب کے دوسرے بیٹے عامر کی اولاد تھیں۔ یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب سے پہلی بیوی تھیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے قبل نکاح کیا تھا۔ اس وقت آپ کی عمر 25 سال تھی اور حضرت خدیجۃالکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس وقت 40 سال کی بیوہ تھیں۔ ان کی پہلی شادی ابوہالہ بن زرارہ سے ہوئی تھی۔ ان سے آپ کے یہاں دو بیٹے پیدا ہوئے: ہند اور ہالہ، ان کے انتقال کے بعد عتیق بن عائذ کے نکاح میں آئیں۔ عتیق کے انتقال کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں داخل ہوئیں۔ [الاصابۃ: ج: ۸، ص: ۹۹]
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ کے یہاں چھ اولاد ہوئیں جن میں دو بیٹے تھے اور چار بیٹیاں تھیں:
۱: قاسم بن محمد ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے بیٹے تھے، انہی کے نام پر آپ ﷺ کی کنیت ابوالقاسم تھی، صغر سنی میں مکہ میں انتقال کیا، اس وقت پیروں پر چلنے لگے تھے۔
۲۔ زینب بنت محمد، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑی دختر تھیں۔
۳۔ عبداللہ بن محمد، انہوں  نے بہت کم عمر پائی، چونکہ زمانۂ نبوت میں پیدا ہوئے تھے اس لئے طیب اور طاہر کے لقب سے مشہور ہوئے۔
٤۔ رقیہ بنت محمدرضی اللہ عنہا
۵۔ ام کلثوم بنت محمدرضی اللہ عنہا 
٦۔ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا [سیر اعلام النبلاء: ج: ۳، ص: ۴۱۱]
مکہ مکرمہ میں 556ء میں پیدا ہوئیں اور مکہ مکرمہ میں 619ء کے دوران وفات پائی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے 25 سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ گزارے۔ 15 سال بعثت سے قبل اور دس سال بعث کے بعد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں کسی عورت سے شادی نہیں کی۔ سوائے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تمام اولاد انہیں کے بطن سے ہوئی جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اس وقت پچاس سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور سوائے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس کوئی بیوی نہیں تھی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جس قدر بھی نکاح کئے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد کئے ہیں۔
2) حضرت سودہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بنت زمعہ:
یہ وہ پہلی خاتون تھیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں اور یہ ایک معمر خاتون تھیں جو پہلے سکران بن عمرو انصاری کے نکاح میں تھیں۔ اگرچہ یہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے عمر میں بڑی تھیں؛ لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صرف اس حکمت و مصلحت کی بدولت ان سے نکاح کیا کہ ایک تو یہ مؤمنات مہاجرات میں سے تھیں اور دوسرا ان کا خاوند ہجرت حبشہ کے بعد انتقال کرگیا اور یہ اکیلی رہ گئیں، کوئی ٹھکانہ اور مددگار نہیں تھا۔ اگر گھروالوں کے پاس جاتیں تو وہ انہیں شرک پر مجبور کرتے یا پھر شدید تکالیف سے دوچار کرتے۔ چنانچہ آپ نے ان کے صدق ایمان اور اخلاص کی وجہ سے اپنی زوجیت کا شرف بخشا اور ان سے نکاح کرکے اور اپنی کفالت میں لے کر ان پراحسان عظیم فرمایا۔ 589ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں اور 674ء میں مدینہ منورہ میں وفات پائیں۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی، پہلے شوہر سکران سے ایک لڑکا تھا جس کا نام عبدالرحمن تھا، انہوں نے جنگ جلولاء (سن 16 ہجری، موافق 637 ء) فارس میں شہادت حاصل کی۔
(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ:
سن 10 نبوی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح ہوا، ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں یہی ایک خاتون تھیں جو کنواری تھیں۔ ان کے علاوہ کسی کنواری عورت سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے شادی نہیں کی۔ 614ء مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ حضور کی سب سے پیاری زوجہ تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کبھار انہیں "حُمَیرا" کہہ کر بھی پکارا کرتے تھے۔ واقعہ اِفک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکدامنی کا بیان قرآن حکیم میں نازل ہوا، 678ء کے دوران حجرۂ عائشہ، مدینہ منورہ میں وفات پائیں۔ یوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی سب بیویاں علمی اور عملی لحاظ سے یکتا ئے روز گار تھیں؛ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان میں سب سے زیادہ زیرک ذکی اور قوی الحفظ خاتون تھیں ۔بلکہ علمی لحاظ سے اکثر معاصر صحابی و صحابیات میں طبعی ذہانت و فطانت، فراست و متانت اور وسعت علمی کے اعتبار سے ممتاز وفائق تھیں، اکثر کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے جب کوئی مشکل سوال پیش آجاتا تو وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کو حل کر دیتی تھیں۔ کم و بیش آٹھ ہزار صحابہ و صحابیات نے علمی و فقہی معلومات حاصل کرنے کیلئے آپ سے سلسلہ تلمذ قائم کیا۔ آپ مُکثرین الروایۃ صحابیات میں سے ہیں، آپ سے مروی احادیث کی تعداد (بہ حذف مکررات) دو ہزار دو سو دس ہے۔ (سير أعلام النبلاء للذهبي 2/139)۔
(4) حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے عقد نکاح میں آنے سے پیشتر یہ بیوہ ہوچکی تھیں، ان کا پہلا نکاح خُنَیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا تھا جو جنگ بدر میں شدید زخمی ہوئے اور پھر انہی زخموں سے جانبر نہ ہوسکے اور روح پرواز کرگئی۔ وہ ان شجاع اور بہادر مردوں میں سے ایک تھے جن کی بہادری، شجاعت اور جہادی کارنامے تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے جاتے ہیں۔ بیوہ ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں، نکاح کے وقت ۲۱ سال کی متوفی عنہا زوجہا (بیوہ) تھیں، 604ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں اور 661ء مدینہ منورہ میں ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی، ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصاحبت کی مدت آٹھ سال (8) ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی، ان سے مروی روایاتِ حدیث کی تعداد ساٹھ (60) ہے۔
(5) حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ:  
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے نکاح کیا۔ یہ بے باک ونڈر مجاہد، شہید اسلام عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب کی بیوہ تھیں جو غزوہ بدر کی پہلی مبارزت میں شہید ہوگئے تھے، لیکن عزم واستقلال کا پہاڑ، یہ خاتون خاوند کی شہادت کے باوجود زخمیوں کو طبی امداد بہم پہنچانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کے فرائض برابر سر انجام  دینے میں مستقل مصروف عمل تھیں۔ خاوند کی شہادت انہیں اپنے فرائض سے غافل نہ کرسکی؛ حتیٰ کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو کفر و اسلام کے اس عظیم معرکہ میں فتح و کامرانی سے ہمکنار کردیا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان کے صبر واستقلال اور جہاد کا علم ہوا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود اس خاتون سے 400 درہم مہر کے عوض نکاح کرلیا۔ 595ء مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں اور 626ء میں مدینہ منورہ میں بعمر تیس سال (30) وفات پائیں۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصاحبت کی مدت صرف تین ماہ رہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
(6) حضرت ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ مخزومیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا:
یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں چھٹے نمبر پر ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت بیوہ تھیں، عبداللہ بن عبدالاسد (جو ابو سلمہ کے نام سے مشہور ہیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے) سے پہلے نکاح ہوا، جنگ احد میں وہ شہید ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں۔ 596ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں اور 681ء میں مدینہ منورہ میں وفات پائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدت مصاحبت ۷ سال رہی۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے بعد امہات المومنین میں سب سے زیادہ ان سے احادیث مروی ہیں، ان کی مرویات حدیث کی تعداد 378 ہے۔ ہمارے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے یہاں کوئی بھی اولاد نہیں ہوئی؛ البتہ ان کے پہلے شوہر ابوسلمہ سے تین اولاد تھی:
۱۔ عمر بن ابی سلمہ 
۲۔ سلمہ جن کے نام پر ان کے پہلے شوہر کی کنیت ابوسلمہ تھی 
۳۔ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہم۔
7۔ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا:
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی امیمہ بنت عبد المطلب کی بیٹی تھیں، یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پھوپھی زاد بہن تھیں، ان کا نکاح پہلے زید بن حارثہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولا بیٹے) سے ہوا تھا۔ مطلقہ ہوگئیں تو آپ کے حرم میں آئیں۔ اس نکاح میں ایسی عظیم حکمت کار فرماتھی، جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی کسی اور شادی میں نہ تھی۔ وہ یہ کہ متبَنّیٰ کے بارے میں جو غلط تصور رائج ہوچکا تھا اس کی بیخ کنی کردی گئی۔ 588ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں اور 641ء میں مدینہ منورہ میں فوت ہوئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدت مصاحبت ۵ سال رہی، ان سے مروی احادیث کی تعداد ۱۱ ہے، ہمارے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
8: جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا: 
آپ کا نام بَرّہ تھا جسے بدل کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ رکھ دیا۔ حارث بن ضرار قبیلہ بن مصطلق کے رئیس کی بیٹی تھی۔ ان کی پہلی شادی مسافع بن صفوان سے ہوئی تھی جو غزوہ مریسیع میں قتل ہوگیا اور جویریہ مسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہوگئی۔ ان کا خاوند اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا۔ 608ء میں مدینہ منورہ میں پیدائش ہوئی اور 676 عیسوی میں مدینہ منورہ میں وفات ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدتِ مصاحبت چھ (6) سال تھی، مرویاتِ حدیث سات (7) ہیں۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
9۔ حضرت صفیہ بنت حُیَیی بن اخطب رضی اللہ عنہا:
یہ قبیلہ بنونضیر کے سردار کی بیٹی تھیں، حضرت ہارون علیہ السلام سے ان کے والد کا خاندانی تعلق تھا۔ ان کا نکاح سلام بن مشکم القرظی سے ہواتھا، سلام نے طلاق دی تو کنانہ بن ابی لحقیق کے نکاح میں آئیں، جو ابو رافع تاجر حجاز اور رئیس خیبر کا بھتیجا تھا، کنانہ جنگِ خیبر ( محرم 7ہجری) میں مقتول ہوا اور صفیہ اسیر ہوکر آئیں۔ حضرت دحیہ کلبی کے حصے میں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خرید لیا۔ مشرف باسلام ہوئیں۔ آپ ﷺ نے آزاد فرماکر ان سے نکاح کرلیا۔ ان کی آزادی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ (صحیح بخاری 371) 610ء کے دوران مدینہ منورہ میں پیدائش ہوئیں اور 670ء کے دوران مدینہ منورہ میں فوت ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدت مصاحبت ہونے چار سال تھی، ان کی مرویات حدیث دس (10) ہیں، ہمارے رسول ﷺ سے ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
10: حضرت ام حبیبہ (رملہ) بنت ابوسفیان رضی اللہ عنہا:
مشہور سردار قریش ابوسفیان ابن الحرب کی بیٹی تھیں، اور بیوہ تھیں۔ پہلے ان کا نکاح زینب بنت جحش کے بھائی عبیداللہ بن جحش سے ہوا تھا۔ انہی کے ساتھ وہ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئی تھیں۔ حبشہ پہنچنے کے بعد عبیداللہ بن جحش نے عیسائی مذہب قبول کرلیا اور اپنی بیوی ام حبیبہ کو بھی عیسائیت قبول کرنے کی دعوت دی لیکن ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے عیسائیت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد حبشہ ہی کے اندر عبیداللہ بن جحش کا انتقال ہوگیا۔ شاہ نجاشی نے ان کا نکاح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار ہزاردرہم مہر بھی ادا کیا۔ 594ء مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں اور 666ء مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ البتہ پہلے شوہر عبید اللہ بن جحش سے آپ کے یہاں ایک لڑکا عبداللہ اور ایک لڑکی حبیبہ تھی۔ اسی بیٹی حبیبہ کی وجہ سے آپ کی کنیت ام حبیبہ پڑی۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدت مصاحبت پانچ (5) سال رہی۔ ان کی مرویات حدیث پینسٹھ (65) ہیں۔ 
11: حضرت میمونہ بنت حارث الہلالیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا:
ان کا نام بھی بَرّہ تھا جسے حضور نے بدل کر میمونہ رکھدیا تھا، یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے آخری بیوی تھیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پہلے ابو رہم بن عبدالعزیٰ کے نکاح میں تھیں اور سنہ 7 ہجری میں پہلے شوہر کی وفات ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنہ 7 ہجری میں ان سے نکاح فرمایا۔ 592ء مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں اور 672ء مکہ مکرمہ کے مقام سرف میں وفات ہوئی۔ اتفاق ہے کہ نکاح بھی اسی جگہ پر ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدت مصاحبت پونے تین سال رہی۔ ان کی مرویات حدیث 76 ہیں۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
(مستفاد امہات المومنین کا مختصر تعارف / جناب ابوالبیان رفعت صاحب)
نوٹ: یہ کل گیارہ میرے آقا کی وہ ازواج مطہرات ہیں جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خلوت اختیار فرمایا تھا، ان میں سے دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں فوت ہوگئیں؛ یعنی سیدہ خدیجہ اور زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما، جبکہ بقیہ 9 ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت باحیات تھیں۔ اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ (زادالمعاد (1/105-114) 
( #ایس_اے_ساگر )




Friday, 13 September 2024

اپنے دوست کو غمگین دیکھے تو کیا کرے

اپنے دوست کو غمگین دیکھے تو کیا کرے؟
دخل عمر على النبي ﷺ فرآه ضائق الصدر، فقال: لأقولنّ شيئاً يضحكه ﷺ فالمرء إذا رأى صاحبه مهموماً استُحب أن يحدثه بما يزيل همه ويطيب نفسه-ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ 
(مترجم: عاصم مظاہری بھیلونی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت حاضر ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غمگین دیکھا. حضرت عمر رضی اللہ نے سوچا؛ کہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی بات ضرور کہوں گا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسا دے- اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛ کہ انسان جب اپنے کسی ساتھی کو غمزدہ دیکھے تو اسے کے ساتھ ایسی باتیں کرنی چاہئے  جسے اس کا غم زائل ہوجائے اور وہ خوش ہوجائے. ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_13.html

Wednesday, 11 September 2024

خیر کی چابی. شر کا تالا

خیر کی چابی. شر کا تالا
جس وقت سرسید نے اس علی گڑھ کالج کی بنیاد ڈالی تو انہوں نے اپنے ایک خاص معتمد کو گنگوہ بھیجا. اس کام کے لئے کہ حضرت مولانا گنگوہی رحمت اللہ علیہ سے ملاقات کرکے مولانا کو یہ پیام پہنچاؤ کہ میں نے مسلمانوں کی فلاح اور بہبود و ترقی کے لئے ایک کالج کی بنیاد ڈالی ہے۔ دوسری قومیں ترقی کرکے بہت آگے پہنچ چکی ہیں۔ مسلمان پستی کی طرف جارہے ہیں۔ اگر آپ حضرات نے اس میں میرا ہاتھ بٹایا تو میں بہت جلد اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤں گا جو حقیقت میں مسلمانوں کی کامیابی ہے۔ غرضکہ سفیر وہ گنگوہ آئے اور حضرت مولانا کے پاس حاضر ہوکر بعد سلام مسنون کے سرسید کا پیام عرض کیا۔ حضرت مولانا نے سرسید کا پیام سن کر فرمایا کہ بھائی ہم تو آج تک مسلمانوں کی فلاح اور بہبود اور ترقی کا زینہ اللہ اور رسول کے اتباع ہی میں سمجھتے رہے مگر آج معلوم ہوا کہ ان کی فلاح و بہبود ترقی کا زینہ اور بھی کوئی ہے تو اس کے متعلق یہ ہے کہ میری ساری عمر قال الله وقال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گزری ہے۔ مجھے ان چیزوں سے زیادہ مناسبت نہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمت اللہ علیہ کا نام لیا کہ وہ ان باتوں میں مبصر ہیں۔ ان سے ملو وہ جو فرمائیں گے اس میں ہم ان کی تقلید کرلیں گے۔ ہم تو مقلد ہیں۔ یہ صاحب حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمت اللہ علیہ سے ملے اور سرسید کا سلام پیام اور حضرت مولانا گنگوہی رحمت اللہ علیہ سے جو گفتگو ہوئی تھی اور اس پر حضرت مولانا نے جو جواب دیا تھا سب حضرت مولانا قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو سنادیا گیا۔ حضرت مولانا نے سنتے ہی فی البدیہ فرمایا کہ بات یہ ہے کہ کام کرنے والے تین قسم کے ہوتے ہیں: 
1۔ ایک وہ کہ ان کی نیت تو اچھی ہے مگر عقل نہیں۔ 
2۔ دوسرے وہ کہ عقل تو ہے مگر نیت اچھی نہیں۔ 
3۔ تیسرے یہ کہ نہ نیت اچھی نہ عقل۔ سر سید کے متعلق ہم یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ نیت اچھی نہیں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ عقل نہیں۔ اس لئے کہ جس زینہ سے مسلمانوں کو وہ معراج ترقی پر لیجانا چاہتے ہیں اور ان کی فلاح اور بہبود کا سبب سمجھتے ہیں یہی مسلمانوں کی پستی کا سبب اور تنزل کا باعث ہوگا۔ اس پر ان صاحب نے عرض کیا کہ جس چیز کی کمی کی شکایت حضرت نے سر سید کے اندر فرمائی ہے اس کو پورا کرنے کے لئے تو آپ حضرات کو شرکت کی دعوت دی جارہی ہے۔ تاکہ تکمیل ہوکر مقصود انجام کو پہنچ جائے۔ یہ ایسی بات تھی کہ سوائے عارف کے دوسرا جواب نہیں دے سکتا تھا۔ حضرت مولانا نے فی البدیہ جواب فرمایا کہ سنت الہی یہ ہے کہ جس چیز کی بنا پر ڈالی جاتی ہے بانی کے خیالات کا اثر ساتھ ساتھ اس میں ضرور ہوتا ہے۔ سو چونکہ سر سید بنیاد ڈال چکے ان کے ہی خیالات کے آثار اس بناء میں ضرور ظاہر ہوں گے اور اس کی بالکل ایسی مثال ہے کہ ایک تلخ درخت کا پودہ قائم کرکے ایک مٹکے میں شربت بھرکر اور ایک مالی کو وہاں بٹھلاکر ان سے عرض کیا جائے کہ اس شربت کو اس درخت کی جڑ میں سینچا کرو۔ سو جس وقت وہ درخت پھول پھل لائے گا سب تلخ ہوں گے۔ واقعی عجیب ہی بات فرمائی۔ (ملفوظات حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ۔ جلد 5۔ صفحہ 167)
(عکس: ماخوذ از نگارشات، مضمون نگار ندیم الواجدی) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_9.html

انسانی جسم اور ذہن پر موسیقی کے اثرات

انسانی جسم اور ذہن پر موسیقی کے اثرات
بے شمار سائنسی تجربات سے یہ پتا چلتا ہے کہ موسیقی اور گانے بجانے کے اثرات ہمارے جسم اور ذہن دونوں پر مرتب ہوتے ہیں اور موسیقی ایک معصوم یا بے ضرر تفریح نہیں ہے۔ موسیقی دراصل نپی تلی اور منظم آوازوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ موسیقی سننے سے ہمارے جسم اور کردار پر انتہائی دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال نے موسیقی کی اسی صفت کے متعلق فرمایا تھا:
چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ، بدن کو بیدار
یہی وجہ ہے کہ قرآن اور حدیث کی تعلیمات میں موسیقی اور گانے بجانے کو تقریباً چودہ سو سال پہلے نقصان دہ قرار دے دیا گیا تھا۔ مفسرِ قرآن عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا تھا: ’’اس قرآن کی بعض آیات کی تفسیر صرف زمانہ گزرنے کے ساتھ سمجھ میں آئے گی‘‘۔ موجودہ دور میں موسیقی کے زہر آلود اثرات کے متعلق بہت سی نئی سائنسی تحقیقات منظر عام پر آئی ہیں۔ اس مضمون میں انسانی جسم اور دماغ پر موسیقی کے اثرات کو جدید سائنسی تحقیقات کے تناظر میں بیان کیا جائے گا۔
انسانی جسم پر حیاتیاتی اثرات:
اِی اِی جی (Electroencephalography) ایک میڈیکل تکنیک ہے جس کے ذریعے دماغ کی برقی حرکت (Electrical Activity) کو ناپا جاتا ہے۔ انسانی دماغ پر موسیقی کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے سائنسدانوںنے ای ای جی کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے موسیقی سننے والوں کے سروں پر الیکٹروڈ لگائے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا کہ موسیقی سننے کے دوران انسانی دماغ کے مختلف حصے متحرک ہوجاتے ہیں، جس کی ایک ممکنہ وجہ ان حصوں میں خون کے بہائو میں تبدیلی ہوتی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ خوشی کے اظہار والی موسیقی اور گانوں کے سننے سے دماغ کے بائیں حصے میں نسبتاً زیادہ حرکت نظر آتی ہے جب کہ خوف اور غم کے اظہار والی موسیقی کا زیادہ اثر دائیں دماغ پر مرتب ہوتا ہے۔
جب گانے کے ساتھ موسیقی کے آلات بھی شامل ہوں تو گانوں کے بول سامعین کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ سامعین پر شاعری اس صورت میں زیادہ قابل ترغیب اور گانے کا پیغام زیادہ پُر اثر ہوتا ہے جب گانے کے ساتھ گٹار کا استعمال بھی ہو بہ نسبت اس صورت میں جب کہ گانے کے ساتھ کوئی آلۂ موسیقی شامل نہ ہو۔
ان تحقیقات کا ماحصل یہ ہے کہ جب گانے کے ساتھ موسیقی بھی شامل ہو تو اس کی گناہ اور فحاشی پر ابھارنے کی طاقت کئی گناہ بڑھ جاتی ہے۔
انسانی دماغ پر حیاتیاتی اثرات:
موسیقی بڑی حد تک منشیات کی طرح کام کرتی ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر کردیتی ہے۔ وہ ذہن کو پُر فریب حالت میں پہنچا دیتی ہے۔ سائنس میں اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ موسیقی کی کئی اقسام ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جس سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔ مثلاً دو مختلف یونیورسٹیوں میں کی گئی تحقیقات میں یہ دریافت ہوا کہ جب راک ـ(Rock) میوزک لگایا گیا تو چوہوں کے لیے بھول بھلیوں میں اپنا راستہ معلوم کرنا عام حالت کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ مشکل ہوگیا۔ دوسرے الفاظ میں چوہوں کی سیکھنے کی صلاحیتیں موسیقی کے زیر اثر کمزو پڑ گئیں۔
انسانی دماغ ایک ایسا عضو ہے جو غور و فکر، تقریر ااور جذبات کا ذمہ دار ہے۔ یہ جسم کا کنٹرول سینٹر ہے۔ انسان کے دماغ کے اگلے حصے کے اندر گہرائی میں ایک نظام ہوتا ہے جو Limbic System کہلاتا ہے۔ اس میں ایمگڈیلا (Amygdala)، ہپو کیمپس (Hippocampus) اور ہائپو تھیلمس (Hypothalamus) جیسے حصے شامل ہوتے ہیں۔ لمبک سسٹم ہمارے جسم میں درج ذیل وظائف ادا کرتا ہے۔
(۱) جذبات کو کنٹرول کرنا
(۲) جذباتی ردِعمل
(۳) کیمیاوی مادوں کے جسم میں اخراج کو کنٹرول کرنا
(۴) مزاج (mood) کو کنٹرول کرنا
(۵) درد اور لذت کو محسوس کرنا
(۶) طویل المیعاد یادداشت
جذبات و احساسات مثلاً غصہ، خوف، جوش، نفرت، خوشی اور غم وغیرہ سب دماغ کے لمبک سینٹر میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچ جائے تو انسان کی اظہارِ جذبات کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس کی علامات میں بے وجہ رونا یا ہنسنا، جلد غصے میں آجانا، فکر و پریشانی، بہت زیادہ جنسی رجحان اور ڈپریشن وغیرہ شامل ہیں۔
موسیقی، منشیات اور جنسی خواہش کا آپس میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ یہ تینوں دماغ کے ایک ہی حصے یعنی Limbic System کو متحرک کرتے ہیں۔ نوجوان موسیقی سے اس لیے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہیں کیوں کہ یہ دماغ کے Limbic System کو متحرک کرتی ہے۔ مزیں برآں، دماغ کے اسی حصے کو جنسی ہارمونز بھی متحرک کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق شراب بھی دماغ کے اسی حصے پر اثر انداز ہو کر اس میں تحریک پیدا کرتی ہے اور مزاج میں تشدد اور جھگڑالو پن (aggression) پیدا کرتی ہے۔
کوکین اور کریک (Crack) جیسی منشیات بھی دماغ کے Limbic Area بالخصوص Hypothalamus پر اثر انداز ہو کر جسم میں بہت زیادہ تحریک، تشدد پسندی، بھوک کا فقدان اور پریشانی (nervousness) پیدا کرتی ہیں۔ اس لیے یہ بات حیرانگی کا باعث نہیں کہ تشدد کے جرائم کی شرح ۱۵ سے ۲۴ سال کی عمر کے لوگوں میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ یونیورسٹی آف سین ڈی ایگو (University of san diego) میں جب خودکشی کے ۱۳۰ واقعات کا تجزیہ کیا گیا تو ان میں سے ۶۶ فی صدی کا بنیادی سبب شراب اور دیگر منشیات کا استعمال تھا۔
موسیقی جو نوجوانوں کی جنسی بے راہ روی، تشدد اور خودکشی کے بارے میں گفت گو کرتی ہے، ایک بہت بڑی معاشرتی بیماری ہے۔
دماغ کے Limbic System کا ایک حصہ ہپوکیمپس طویل المیعاد یادداشت کو برقراررکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ موسیقی دماغ کے اس حصے پر اثر انداز ہو کر جنسی بے راہ روی یا تشدد پر مبنی گانوں کو انسان کی بقیہ زندگی کے لیے اس کی یادداشت اور کردار کا حصہ بنا دیتی ہے۔
جنسی خواہشات کو ابھارنے میں موسیقی کا کردار:
چارلس ڈارون نے ۱۸۷۱ء میں طبع ہونے والی کتاب The Descent of Man and Selection in Relation to sex میں یہ انکشاف کیا تھا کہ جنسی خواہشات کو ابھارنے میں موسیقی کا کردار اہم ہے، کیونکہ اس کے ذریعے جنس مخالف کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔
یہ بات بیان کرنے کی حاجت نہیں مشرق اور مغرب میں موسیقی اور گانے بجانے کا مرکزی موضوع عام طور پر جنس مخالف اور عشق بازی ہی ہوتا ہے۔ دنیا کے اکثر رقص اپنے اندر جنسی عنصر رکھنے ہیں۔ دنیا کے کئی قدیم جاہلی معاشروں میں موسیقی اور رقص کا شریک حیات کے انتخاب سے گہرا تعلق ہوتا تھا۔ یہ چیز جانوروں میں کورٹ شپ کے دوران رقص سے مشابہہ ہے۔ مثلاً مور مورنی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنے خوب صورت پر پھیلا کر ناچتا ہے اور اس دوران آوازیں بھی نکالتا ہے (گویا کہ وہ گانا گا رہا ہو)۔
موسیقی اور رقص کا عوام میں عام ہونا بلکہ اس سے نشے کی حد تک دلچسپی دراصل اس لیے ہے کہ یہ چیزیں انسان کے سفلی جذبات کو اپیل کرتی ہیں۔ یونانی فلسفی افلاطون نے کہا تھا:
Rhythm and melody, accompanied by dance are the barbarous expression of the soul.
(موسیقی کا ترنم اور سوز، رقص کے ہم راہ دراصل انسانی روح کا وحشیانہ اظہار ہیں۔)
افلاطون نے اپنی کتاب Republic میں اس بات کا پُر زور اظہار کیا تھا کہ عوامی میوزک کو سختی سے سنسر کیا جائے۔ اس نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ برے گانوں اور موسیقی کی وجہ سے ملک کے شہری گمراہ ہوجائیں گے، ان کے اخلاق تباہ ہوجائیں گے اور وہ برے کاموں میں ملوث ہوجائیں گے۔
موسیقی کی روح کو اس سے بھی زیادہ بہتر الفاظ میں مشہور ولی اللہ شیخ فضیل بن عیاضؒ نے بیان کیا تھا: ’’گانا بجانا دراصل زنا کا ابتدائیہ ہوتا ہے۔‘‘ (عوارف المعارف: شیخ شہاب الدین سہروردیؒ)
علاوہ ازیں، اس حقیقت سے بھی انکار مشکل ہے کہ نوجوانوں (Teenagers) پر عام لوگوں کی نسبت موسیقی زیادہ زہر آلود اثرات مرتب کرتی ہے۔ جب لڑکے اور لڑکیاں بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہ موسیقی اور گانوں کے مروّجہ پیغامات سے رہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں شائع شدہ ایک تحقیق مقالے کے مطابق:
’’نوجوانوں کے لیے موسیقی کئی لحاظ سے اہم ہے۔ مثلاً سوسائٹی کی اجتماعی زندگی میں ان کے شامل ہونے میں موسیقی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جیسے جیسے نوجوان خود مختار ہوتے ہیں وہ زندگی کے شہوانی پہلوئوں (Sexual aspeets of life) کے متعلق معلومات کے حصول کے لیے موسیقی اور گانوں کا رُخ کرتے ہیں، اور یہ ایسے معاملات ہوتے ہیں جن پر گھر اور اسکول دونوں جگہوں پر ممانعت ہوتی ہے۔‘‘
۱۹۷۱ء میں چھپنے والی ایک تحقیق میں یہ رپورٹ کیا گیا کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں مشہور ترین گانوں میں سے تین چوتھائی کا مرکزی موضوع عشق اور جنسی بے راہ روی تھا۔ یہ رجحان بعد کے سالوں میں بدلا نہیں بلکہ بہ دستور وہی رہا۔ ۱۹۸۶ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائیوں میں گانوں کے الفاظ اور پیغامات میں جنسی اور عشقیہ رجحان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
ان تحقیقات سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ایسی موسیقی سننے سے سامعین پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انسانی دل کی دھڑکن اور موسیقی کی موزونیت:
آہنگ (rhythm) ایک ایسی طبعی قوت ہے جو فطرت نے بہت سے جسمانی افعال میں رکھی ہے، جیسے دل کی دھڑکن، دوڑنا اور سانس لینا وغیرہ۔ اس لیے ہمارا جسم فوری طور پر کسی بھی ایسی بیرونی چیز سے متاثر ہوتا ہے جس میں آہنگ کا عنصر موجود ہو۔ مثلاً ڈھول کی آواز، روشنیوں کا سحر انگیز طریقے سے بار بار جلنا بجھنا۔ یہ بات حیران کن نہیں کہ سب سے زیادہ آرام دہ موسیقی وہ ہوتی ہے جس میں ساز و آواز کی ضرب (beat) ایک منٹ میں ۷۰ سے ۸۰ تک ہوتی ہے، جو کہ دل کی دھڑکن کی فطری رفتار کے مطابق ہے۔ موسیقی کی مشہور قسم ’’جاز‘‘ (jazz) کی سب سے اہم خصوصیت دھڑکن کی آواز (Pullsating Rhythm) ہے۔ ’’جاز‘‘ میں ڈھول کی ضرب بھی دل کی دھڑکن کی طرح ایک منٹ میں تقریباً ۷۲ دفعہ ہوتی ہے۔
موسیقی کے اندر انسان کو ہپناٹائز کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ہپناٹزم کی بنیادی خصوصیت تکرار (repetition) ہے اور یہی چیز موسیقی اور گانوں میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ زیادہ دیر تک ایسی تکرار کے زیر اثر رہنے کے اثرات سحر انگیز ہوتے ہیں۔ مثلاً طبلے کی تھاپ کو مسلسل سننے سے انسان کے شعور (consciousness) کی حالت میں عارضی تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور دماغ ہپناٹزم کی ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے جس میں وہ ہر پیغام کو بغیر ردّوکد کے قبول کرلیتا ہے (Suggestive Hypnosis)۔ یہی اثرات گھنگھرو کی چھن چھن، طنبورے کی آس اور گھنٹی کی ٹن ٹن پیدا کرتے ہیں۔ ایسے ہپناٹزم کی حالت میں گانے کے پیغامات سننے والوں کے اذہان پر نقش ہوجاتے ہیں۔ آوازیں جن ذرائع سے انسانوں پر اثر انداز ہوتی ہیں، وہ بے شمار ہیں۔ آج کی موسیقی کی اونچی آوازیں اور تیز روشنیاں برین واشنگ کا بہترین ذریعہ ہیں۔
مغربی موسیقار لیونارڈ مائیر کے مطابق موسیقی کو اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ کچھ راگ یا گانے کے مضامین چند تبدیلوں کے ساتھ دیگر مضامین کے ہمراہ بار بار دہرائے جاتے ہیں، لیکن گانے کے اصل راگ اور بول گانے کے دوران بار بار واپس آتے ہیں جس سے سننے والے کو ایک طرح کی مانوسیت اور آسودگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ چیز نہ صرف کلاسیکل موسیقی میں بلکہ لوک اور پاپ میوزک میں بھی پائی جاتی ہے۔
کانوں کے راستے دل کی زنگ آلودگی اور تباہی:
ہمارے کان سننے کے لیے اسی طرح مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جس طرھ ہماری آنکھیں دیکھنے کے لیے۔ انسانی جسم کے حواسِ خمسہ میں سے سب سے طاقتور سننے اور دیکھنے کے حواس ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں قوتِ ذائقہ، قوتِ لامسہ اور قوتِ شامہ کی حیثیت ذیلی قسم کی ہوتی ہے اور ان کا انحصار انسان کی قوتِ سماعت اور بصارت سے حاصل شدہ معلومات پر ہوتا ہے۔
ہر قسم کی آوازیں ہم پر اپنا اثر ڈالتی ہیں اور یہ اثر اچھا بھی ہوسکتا ہے اور بُرا بھی۔ اسی وجہ سے کانوں کے ذریعہ بہت آسانی سے دل کی تباہی کا سامان مہیا کیا جاسکتا ہے۔ شیطان کو انسان کی اس کمزوری کا بہ خوبی علم ہے۔ اسی لیے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کے متعلق فرمایا ہے:
’’تو (یعنی شیطان) انسانوں میں سے جس جس کو اپنی آواز سے پھسلا سکتا ہے، پھسلالے۔‘‘ (الاسراء: ۶۴)
شیطان اپنی آواز یعنی موسیقی اور گانے بجانے کے ذریعے انسانوں کو بہکاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے موسیقی کو شیطان کی پکار قرار دیا ہے۔ شیطان انسان کے دل کو کانوں کے راستے خراب کرتا ہے، اور یہ بات اب جدید سائنسی تحقیقات سے ثابت ہوچکی ہے کہ انسانی دل صرف ایک پمپ نہیں بلکہ عقل و سمجھ رکھنے والا ایک عضو ہے۔
یہ صحیح ہے کہ کانوں کی حفاظت کرنا آنکھوں کی حفاظت سے بھی مشکل کام ہے۔ اسی لیے قرآن میں قوتِ سماعت کا ذکر دیکھنے کی قوت کے ذکر سے پہلے کیا گیا ہے۔ مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔‘‘ (الاسراء:۳۱)
پیدائش کے وقت بچے کے سننے کی صلاحیت مکمل طور پر کام کررہی ہوتی ہے، جبکہ بچہ ایک خاص فاصلے سے زیادہ کی چیز نہیں پہچان سکتا۔ نومولود بچے کو اس چیز میں کئی ہفتے لگتے ہیں کہ وہ لوگوں کے چہرے پہچان سکے۔ اسی طرح قرآن میں ارشاد ہے:
’’اللہ نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمہیں کان دیے، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دیے، اس لیے کہ تم شکر گزار بنو۔‘‘ (النحل: ۷۸)
’’ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔‘‘ (الملک: ۲۳)
ان آیات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ’’سننے‘‘ کا ذکر دیکھنے کی صلاحیت سے پہلے ہوا ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ رحم مادر میں پہلے قوتِ سماعت نشو و نما پاتی ہے اور پھر قوتِ بصارت۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جدید سائنس نے صرف اسی صدی میں دریافت کیا ہے جب کہ قرآن اسے ۱۴۰۰ سال سے بیان کررہا ہے۔ اسی طرح یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ بچے اپنی نشو ونما کے ابتدائی سالوں میں بہت عرصے تک صرف سنتے ہیں اور پھر بولنا شروع کرتے ہیں۔ مزید برآں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے صبح و شام ایک دعا مانگا کرتے تھے جس میں قوت سماعت کا ذکر قوت بصارت سے پہلے فرمایا کرتے۔
’’اے اللہ! مجھے تو جسم کی سلامتی عطا فرما۔ اے اللہ! مجھے سننے کی سلامتی عطا فرما۔ اے اللہ! مجھے دیکھنے کی صلاحیت کی سلامتی عطا فرما‘‘۔
قوتِ سماعت کی اہمیت کا اندازا اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس حس کو قرآن میں عقل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
’’اور وہ کہیں گے کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں میں نہ شامل ہوتے.‘‘ (الملک: ۱۰)
اسی طرح قرآن میں دوسری جگہ سننے کی حس کا تعلق سمجھ کے ساتھ بیان ہوا ہے:
’’اے ہمارے رب! ہم نے ایک پکارنے والے کو سُنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو، پس ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی.‘‘ (آل عمران: ۱۹۳)
اور انسانی قلب اور کانوں کا تعلق قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
’’یقینا اس میں عبرت کا سبق ہے ہر اُس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو یا جو توجہ سے بات کو سُنے.‘‘ (ق: ۳۷)
اگر ہم غور کریں تو دیکھیں گے کہ سننے کی حس چاروں سمتوں میں یعنی (Circular) کام کرتی ہے،جبکہ آنکھیں صرف سامنے دیکھ سکتی ہیں یعنی (Linear)۔ ہم کسی بھی سمت سے آنے والی آواز سُن سکتے ہیں جبکہ ہم صرف وہی چیز دیکھ سکتے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو۔ اگر خدا کی نافرمانی کا کوئی کام ہمارے سامنے ہو رہا ہو تو ہم اپنی آنکھیں آسانی سے بند کر سکتے ہیں لیکن اپنے کانوں کی حفاظت کے لیے ہمیں جسمانی طور پراس جگہ کو چھوڑنا پڑتا ہے۔
مزید برآں، انسان کی قوتِ سماعت اندھیرے اور روشنی میں دونوں جگہ کام کر سکتی ہے، جبکہ آنکھیں اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتیں۔ مسلم عرب ماہر نفسیات محمد عثمان نجاتی اپنی کتاب ’’قرآن کریم اور علم النفس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ انسان کی قوتِ سماعت کو اس کی قوتِ بصارت پر اس لیے بھی فوقیت حاصل ہے کہ سونے کے دوران بھی انسان کے کان بیدار رہتے ہیں، جبکہ نیند میں جاتے ہی انسان کی آنکھیں دیکھنا بند کر دیتی ہیں۔
اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کانوں کو گناہوں سے بچانا آنکھوں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے۔ موسیقی ہمارے روحانی دل کو کانوں کے ذریعے تباہ کرتی ہے۔ یہ حقیقت کہ دل کی تباہی کا سب سے آسان راستہ کانوں کے ذریعہ ہوتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات سے بھی سمجھ میں آ سکتی ہے جن کے مطابق جسم میں کانوں تک جانے والی رگیں (Auditory Nerves) سب سے زیادہ غالب ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کان بہت حساس ہوتے ہیں اور اس کے بہت سے سائنسی شواہد موجود ہیں۔ ہمارا دماغ دائیں اور بائیں حصوں (Right and Left Hemispheres) پر مشتمل ہوتا ہے جو مختلف فرائض انجام دیتے ہیں۔ نتیجتاً ہمارے دو کان موسیقی اور گانے بجانے کو جب سنتے ہیں تو آنے والی آوازوں یا انفارمیشن کو مختلف انداز میں پرکھتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے دونوں کان گلوکار کی آواز کے سوز، درد اور گانے کے اشعار کو علیحدہ علیحدہ پرکھتے ہیں۔ یہ بات پہلی بار ۱۸۷۸ء میں دریافت ہوئی۔ بعد میں اس میدان میں دوہری سماعت (Dichotic Listening) کے تجربات کیے گئے۔ دوہری سماعت کی تحقیقات میں مختلف آوازیں (اس معاملے میں وہ آوازیں موسیقی اور گانے تھے) دونوں کانوں کو علیحدہ علیحدہ ہیڈ فونز کے ذریعے سنائی جاتی ہیں، یعنی ایک کان کو کوئی ایک طرح کی آواز سنائی جاتی جبکہ دوسرے کان کو بالکل دوسری طرز کی کوئی آواز۔ پھر اس چیز کا مطالعہ کر کے کہ کون سا کان کس قسم کی آواز کو زیادہ بہتر طریق پر پرکھ سکتا ہے، محققین یہ بتا سکتے ہیں کہ کون سا کان کس قسم کی موسیقی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مثلاً ۱۹۸۲ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق عام انسانوں میں بایاں کان گلوکار کی آواز کے سوز اور جذباتی پہلو کی پہچان میں بہتر ہوتا ہے جبکہ دایاں کان گانے کے الفاظ اور اشعار کے اصل پیغام کو پہچاننے میں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کان اس معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں کہ ان میں جانے والی انفارمیشن کس قسم کی ہے اور بالآخر یہی انفارمیشن ہمارے افعال کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، جیسا کہ قرآن اور حدیث سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ موسیقی اور گانا عام طور پر ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ اس میں حیرانگی کی بات نہیں کہ جب موسیقی اور گلوکار کی آواز کو ملایا جاتا ہے تو اس طرح شیطان انسان کے دائیں اور بائیں دونوں کانوں کا استعمال کر کے اس کے دل کو بیمار کر دیتا ہے۔
موسیقی سے کانوں کو پہنچنے والا نقصان:
موجودہ زمانے میں سمعی ٹیکنالوجی (Audio Technology) میں تیزی سے ترقی کی وجہ سے اربابِ فکر موسیقی سننے سے کانوں کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں پریشان ہیں۔ موسیقی کو جن طریقوں سے لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے ان میں آلاتِ موسیقی، روایتی اسپیکر، کمپیوٹر اور ہیڈ فونز شامل ہیں۔ گزشتہ تیس سالوں میں پبلک ایڈریس سسٹم کی ایجاد کی بدولت موسیقی کے عوامی پروگراموں (Musical Concerts) میں آواز میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ پی اے سسٹم دراصل عوامی جگہوں پر آواز میں اضافہ کرنے کا الیکٹرانک سسٹم ہوتا ہے اور یہ لائوڈ اسپیکر مائیکروفونز، مکسنگ بورڈ، ایمپلی فائر وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا مقصد آواز کو نکھار کر اور بڑھا چڑھا کر سامعین و حاضرین تک پہنچانا ہوتا ہے۔ ایک عام پاپ میوزک کنسرٹ میں آواز کی شدت (Intensity) تقریباً ۱۴۰ ڈے سی بیل (Decibell) ہوتی ہے۔
امریکا میں سمعی آلودگی (Noise Pollution) کے خلاف ایک احتجاجی ادارہ Noise-Free America ہے، جس کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۱۴۰ سے ۱۵۰ ڈے سی بیل تک اونچی آواز کے میوزیکل کنسرٹ میں موسیقی سننا اس چیز کے برابر ہے کہ انسان بوئنگ ۷۴۷ ہوائی جہاز کے بالکل پاس کھڑا ہو جبکہ جہاز کے پنکھے پورے زور و شور کے ساتھ چل رہے ہوں۔
اونچی آواز میں موسیقی سننے کی وجہ سے قوت سماعت میں کمزوری اور Tinnitus (کانوں میں گھنٹی بجنے کی آواز ہر وقت سنائی دینا) جیسی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ امریکا کے شہر لاس اینجلس میں کانوں کی بیماریوں کے ایک ریسرچ سینٹر کے مطابق:
’’۱۹۶۰ء کی دہائی میں پاپ میوزک اور موسیقی سننے کے نت نئے آلات کی کثرت کے بعد بہت سے امریکی عوام کی قوتِ سماعت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔ ہم نے اب یہ مشاہدہ کرنا شروع کیا ہے کہ بہت سے موسیقار اور آلاتِ موسیقی پر کام کرنے والے انجینئر حضرات جو عرصے تک اس پیشے سے منسلک رہتے ہیں، انہیں سننے میں مشکلات (Hearing Problems) پیش آتی ہیں‘‘۔
اسی طرح کانوں پر ہیڈ فونز لگا کر موسیقی سننے کے بھی بہت بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین علم سماعت (Audiologists) قوتِ سماعت کے نقصان کا ذمہ دار نوجوانوں کا موسیقی سے شدید لگائو (بالخصوص ہیڈ فونز) کو ٹھہراتے ہیں۔ اونچی آواز میں موسیقی کو کسی بھی ذریعے سے لگاتار سننے سے انسان کی سننے کی صلاحیت مستقل طور پر ناکارہ ہوسکتی ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ موسیقی اونچی آواز میں سننے کے بُرے اثرات صرف کانوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اونچی آوازوں کے غیرسمعی (Non-auditory) اثرات بھی ہوتے ہیں جو قوتِ سماعت کو متاثر نہ بھی کریں لیکن آلات کی مدد سے ناپے جا سکتے ہیں۔مثلاً بلڈپریشر کا بڑھ جانا، بے خوابی، سانس لینے میں دقّت، دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا اور خون کی شریانوں کا سکڑنا وغیرہ ایسے اثرات ہیں جو اونچی آوازوں کو سننے سے پیدا ہوتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کی ایک پیش گوئی:
رسول پاکﷺ نے اپنی ایک حدیث میں فرمایا:
’’میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو شراب پئیں گے، اس کو اس کے نام کے علاوہ دوسرے نام سے پکاریں گے۔ ان کے سروں پر موسیقی اور گانے کے آلات ہوں گے اور وہ گانے والیوں کو سنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے نیچے سے زمین کو شق کر دیں گے اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دیں گے‘‘۔ (ابنِ ماجہ)
گویا آخری زمانے کی علامات میں سے ایک علامت لوگوں کا سروں پر موسیقی کے آلات اٹھائے پھرنا ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے سروں پر موسیقی کے ہیڈ فونز لگا رکھے ہیں، یعنی چودہ سو سال پرانی پیشنگوئی کی آج تصدیق ہو رہی ہے۔
آج کے نوجوان کے لیے میوزک خاص طور پر ہمہ گیر حالت ہے۔ راک میوزک کے اوائل کے دنوں میں ریڈیو بھاری اور حجم میں بڑے ہونے کے باعث بس ایک ہی جگہ رکھے جاتے تھے۔ جب ٹرانسسٹر ریڈیو نکل آئے تو میوزک کو ساتھ لیے پھرنا آسان ہوگیا۔ آلاتِ موسیقی (ہیڈ فونز) کا حجم چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جانا اور ان کی ہلکی اور اعلیٰ ترین بناوٹ نے نوجوانوں کے لیے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو موسیقی میں مسلسل غلطاں رکھیں۔
یہ بات بھی قابلِ مذمت ہے کہ ہمارے جدید معاشرے نے ایسی تفریحی صنعت گری کی ہے تاکہ لوگ کرۂ ارض پر ہر جگہ موسیقی سے لطف اندوز ہو سکیں۔ چھوٹے آلاتِ موسیقی کے ذریعے سے چلتے پھرتے، کام کرتے، یہاں تک کہ سوتے ہوئے بھی وہ اپنے پسندیدہ میوزک ویڈیوز دیکھ یا سُن سکتے ہیں۔ بعض گارمنٹ کمپنیوں نے اپنے گاہکوں کے لیے ذاتی اسٹیریو اس طرح مہیا کیا ہے کہ Jackets کے ٹوپی والے حصے (Hoods) میں ریڈیو اور اسپیکرز اندر ہی سی دیئے گئے ہیں۔
آج دس بیس سال کی عمر کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موسیقی ہی کے لیے زندہ ہے۔ یہ ان کا جنون ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چیز ان کو محظوظ نہیں کر سکتی۔ وہ کسی ایسی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جس کا تعلق موسیقی سے نہ ہو۔ وہ موسیقی کے لیے بے چین رہتے ہیں اپنے اسکول کے وقت میں یا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوتے ہیں، گھروںمیں، کاروں میں ہر جگہ موسیقی کے اسٹیریوز موجود ہیں۔ موسیقی کی محفلیں ہیں۔ ہر جگہ موسیقی کے چینلز مل جاتے ہیں۔ واک مین کی وجہ سے سفر کے دوران اور کتب خانوں سمیت کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں طلبہ کو میوزک سے بچا کر اور روک کر رکھا جائے۔ جب تک ان کے ساتھ واک مین ہے ان کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ عظیم روایات کا کیا مطالبہ ہے۔ موسیقی کی اس طویل رفاقت کے بعد جب وہ کانوں سے اس کو ہٹائیں گے تو معلوم ہو گا کہ وہ بہرے ہوچکے ہیں۔ ( #ایس_اے_ساگر )
(یہ مضمون ڈاکٹر گوہر مشتاق کی کتاب ’’موسیقی: اسلام اور جدید سائنس کی روشنی میں‘‘ (مطبوعہ اذانِ سحر پبلی کیشنز، منصورہ ملتان روڈ لاہور ۲۰۰۹ء سے ماخوذ ہے۔ اختصار کے پیش نظر مراجع و مصادر کے حوالہ جات حذف کر دیئے گئے ہیں۔ تفصیل کے لیے اصل کتاب ملاحظہ فرمایئے)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_11.html