انسانی جسم اور ذہن پر موسیقی کے اثرات
بے شمار سائنسی تجربات سے یہ پتا چلتا ہے کہ موسیقی اور گانے بجانے کے اثرات ہمارے جسم اور ذہن دونوں پر مرتب ہوتے ہیں اور موسیقی ایک معصوم یا بے ضرر تفریح نہیں ہے۔ موسیقی دراصل نپی تلی اور منظم آوازوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ موسیقی سننے سے ہمارے جسم اور کردار پر انتہائی دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال نے موسیقی کی اسی صفت کے متعلق فرمایا تھا:
چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ، بدن کو بیدار
یہی وجہ ہے کہ قرآن اور حدیث کی تعلیمات میں موسیقی اور گانے بجانے کو تقریباً چودہ سو سال پہلے نقصان دہ قرار دے دیا گیا تھا۔ مفسرِ قرآن عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا تھا: ’’اس قرآن کی بعض آیات کی تفسیر صرف زمانہ گزرنے کے ساتھ سمجھ میں آئے گی‘‘۔ موجودہ دور میں موسیقی کے زہر آلود اثرات کے متعلق بہت سی نئی سائنسی تحقیقات منظر عام پر آئی ہیں۔ اس مضمون میں انسانی جسم اور دماغ پر موسیقی کے اثرات کو جدید سائنسی تحقیقات کے تناظر میں بیان کیا جائے گا۔
انسانی جسم پر حیاتیاتی اثرات:
اِی اِی جی (Electroencephalography) ایک میڈیکل تکنیک ہے جس کے ذریعے دماغ کی برقی حرکت (Electrical Activity) کو ناپا جاتا ہے۔ انسانی دماغ پر موسیقی کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے سائنسدانوںنے ای ای جی کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے موسیقی سننے والوں کے سروں پر الیکٹروڈ لگائے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا کہ موسیقی سننے کے دوران انسانی دماغ کے مختلف حصے متحرک ہوجاتے ہیں، جس کی ایک ممکنہ وجہ ان حصوں میں خون کے بہائو میں تبدیلی ہوتی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ خوشی کے اظہار والی موسیقی اور گانوں کے سننے سے دماغ کے بائیں حصے میں نسبتاً زیادہ حرکت نظر آتی ہے جب کہ خوف اور غم کے اظہار والی موسیقی کا زیادہ اثر دائیں دماغ پر مرتب ہوتا ہے۔
جب گانے کے ساتھ موسیقی کے آلات بھی شامل ہوں تو گانوں کے بول سامعین کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ سامعین پر شاعری اس صورت میں زیادہ قابل ترغیب اور گانے کا پیغام زیادہ پُر اثر ہوتا ہے جب گانے کے ساتھ گٹار کا استعمال بھی ہو بہ نسبت اس صورت میں جب کہ گانے کے ساتھ کوئی آلۂ موسیقی شامل نہ ہو۔
ان تحقیقات کا ماحصل یہ ہے کہ جب گانے کے ساتھ موسیقی بھی شامل ہو تو اس کی گناہ اور فحاشی پر ابھارنے کی طاقت کئی گناہ بڑھ جاتی ہے۔
انسانی دماغ پر حیاتیاتی اثرات:
موسیقی بڑی حد تک منشیات کی طرح کام کرتی ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر کردیتی ہے۔ وہ ذہن کو پُر فریب حالت میں پہنچا دیتی ہے۔ سائنس میں اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ موسیقی کی کئی اقسام ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں جس سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔ مثلاً دو مختلف یونیورسٹیوں میں کی گئی تحقیقات میں یہ دریافت ہوا کہ جب راک ـ(Rock) میوزک لگایا گیا تو چوہوں کے لیے بھول بھلیوں میں اپنا راستہ معلوم کرنا عام حالت کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ مشکل ہوگیا۔ دوسرے الفاظ میں چوہوں کی سیکھنے کی صلاحیتیں موسیقی کے زیر اثر کمزو پڑ گئیں۔
انسانی دماغ ایک ایسا عضو ہے جو غور و فکر، تقریر ااور جذبات کا ذمہ دار ہے۔ یہ جسم کا کنٹرول سینٹر ہے۔ انسان کے دماغ کے اگلے حصے کے اندر گہرائی میں ایک نظام ہوتا ہے جو Limbic System کہلاتا ہے۔ اس میں ایمگڈیلا (Amygdala)، ہپو کیمپس (Hippocampus) اور ہائپو تھیلمس (Hypothalamus) جیسے حصے شامل ہوتے ہیں۔ لمبک سسٹم ہمارے جسم میں درج ذیل وظائف ادا کرتا ہے۔
(۱) جذبات کو کنٹرول کرنا
(۲) جذباتی ردِعمل
(۳) کیمیاوی مادوں کے جسم میں اخراج کو کنٹرول کرنا
(۴) مزاج (mood) کو کنٹرول کرنا
(۵) درد اور لذت کو محسوس کرنا
(۶) طویل المیعاد یادداشت
جذبات و احساسات مثلاً غصہ، خوف، جوش، نفرت، خوشی اور غم وغیرہ سب دماغ کے لمبک سینٹر میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچ جائے تو انسان کی اظہارِ جذبات کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس کی علامات میں بے وجہ رونا یا ہنسنا، جلد غصے میں آجانا، فکر و پریشانی، بہت زیادہ جنسی رجحان اور ڈپریشن وغیرہ شامل ہیں۔
موسیقی، منشیات اور جنسی خواہش کا آپس میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ یہ تینوں دماغ کے ایک ہی حصے یعنی Limbic System کو متحرک کرتے ہیں۔ نوجوان موسیقی سے اس لیے لطف اندوز ہونا پسند کرتے ہیں کیوں کہ یہ دماغ کے Limbic System کو متحرک کرتی ہے۔ مزیں برآں، دماغ کے اسی حصے کو جنسی ہارمونز بھی متحرک کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق شراب بھی دماغ کے اسی حصے پر اثر انداز ہو کر اس میں تحریک پیدا کرتی ہے اور مزاج میں تشدد اور جھگڑالو پن (aggression) پیدا کرتی ہے۔
کوکین اور کریک (Crack) جیسی منشیات بھی دماغ کے Limbic Area بالخصوص Hypothalamus پر اثر انداز ہو کر جسم میں بہت زیادہ تحریک، تشدد پسندی، بھوک کا فقدان اور پریشانی (nervousness) پیدا کرتی ہیں۔ اس لیے یہ بات حیرانگی کا باعث نہیں کہ تشدد کے جرائم کی شرح ۱۵ سے ۲۴ سال کی عمر کے لوگوں میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ یونیورسٹی آف سین ڈی ایگو (University of san diego) میں جب خودکشی کے ۱۳۰ واقعات کا تجزیہ کیا گیا تو ان میں سے ۶۶ فی صدی کا بنیادی سبب شراب اور دیگر منشیات کا استعمال تھا۔
موسیقی جو نوجوانوں کی جنسی بے راہ روی، تشدد اور خودکشی کے بارے میں گفت گو کرتی ہے، ایک بہت بڑی معاشرتی بیماری ہے۔
دماغ کے Limbic System کا ایک حصہ ہپوکیمپس طویل المیعاد یادداشت کو برقراررکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ موسیقی دماغ کے اس حصے پر اثر انداز ہو کر جنسی بے راہ روی یا تشدد پر مبنی گانوں کو انسان کی بقیہ زندگی کے لیے اس کی یادداشت اور کردار کا حصہ بنا دیتی ہے۔
جنسی خواہشات کو ابھارنے میں موسیقی کا کردار:
چارلس ڈارون نے ۱۸۷۱ء میں طبع ہونے والی کتاب The Descent of Man and Selection in Relation to sex میں یہ انکشاف کیا تھا کہ جنسی خواہشات کو ابھارنے میں موسیقی کا کردار اہم ہے، کیونکہ اس کے ذریعے جنس مخالف کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔
یہ بات بیان کرنے کی حاجت نہیں مشرق اور مغرب میں موسیقی اور گانے بجانے کا مرکزی موضوع عام طور پر جنس مخالف اور عشق بازی ہی ہوتا ہے۔ دنیا کے اکثر رقص اپنے اندر جنسی عنصر رکھنے ہیں۔ دنیا کے کئی قدیم جاہلی معاشروں میں موسیقی اور رقص کا شریک حیات کے انتخاب سے گہرا تعلق ہوتا تھا۔ یہ چیز جانوروں میں کورٹ شپ کے دوران رقص سے مشابہہ ہے۔ مثلاً مور مورنی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے اپنے خوب صورت پر پھیلا کر ناچتا ہے اور اس دوران آوازیں بھی نکالتا ہے (گویا کہ وہ گانا گا رہا ہو)۔
موسیقی اور رقص کا عوام میں عام ہونا بلکہ اس سے نشے کی حد تک دلچسپی دراصل اس لیے ہے کہ یہ چیزیں انسان کے سفلی جذبات کو اپیل کرتی ہیں۔ یونانی فلسفی افلاطون نے کہا تھا:
Rhythm and melody, accompanied by dance are the barbarous expression of the soul.
(موسیقی کا ترنم اور سوز، رقص کے ہم راہ دراصل انسانی روح کا وحشیانہ اظہار ہیں۔)
افلاطون نے اپنی کتاب Republic میں اس بات کا پُر زور اظہار کیا تھا کہ عوامی میوزک کو سختی سے سنسر کیا جائے۔ اس نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ برے گانوں اور موسیقی کی وجہ سے ملک کے شہری گمراہ ہوجائیں گے، ان کے اخلاق تباہ ہوجائیں گے اور وہ برے کاموں میں ملوث ہوجائیں گے۔
موسیقی کی روح کو اس سے بھی زیادہ بہتر الفاظ میں مشہور ولی اللہ شیخ فضیل بن عیاضؒ نے بیان کیا تھا: ’’گانا بجانا دراصل زنا کا ابتدائیہ ہوتا ہے۔‘‘ (عوارف المعارف: شیخ شہاب الدین سہروردیؒ)
علاوہ ازیں، اس حقیقت سے بھی انکار مشکل ہے کہ نوجوانوں (Teenagers) پر عام لوگوں کی نسبت موسیقی زیادہ زہر آلود اثرات مرتب کرتی ہے۔ جب لڑکے اور لڑکیاں بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہ موسیقی اور گانوں کے مروّجہ پیغامات سے رہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں شائع شدہ ایک تحقیق مقالے کے مطابق:
’’نوجوانوں کے لیے موسیقی کئی لحاظ سے اہم ہے۔ مثلاً سوسائٹی کی اجتماعی زندگی میں ان کے شامل ہونے میں موسیقی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جیسے جیسے نوجوان خود مختار ہوتے ہیں وہ زندگی کے شہوانی پہلوئوں (Sexual aspeets of life) کے متعلق معلومات کے حصول کے لیے موسیقی اور گانوں کا رُخ کرتے ہیں، اور یہ ایسے معاملات ہوتے ہیں جن پر گھر اور اسکول دونوں جگہوں پر ممانعت ہوتی ہے۔‘‘
۱۹۷۱ء میں چھپنے والی ایک تحقیق میں یہ رپورٹ کیا گیا کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں مشہور ترین گانوں میں سے تین چوتھائی کا مرکزی موضوع عشق اور جنسی بے راہ روی تھا۔ یہ رجحان بعد کے سالوں میں بدلا نہیں بلکہ بہ دستور وہی رہا۔ ۱۹۸۶ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائیوں میں گانوں کے الفاظ اور پیغامات میں جنسی اور عشقیہ رجحان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
ان تحقیقات سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ایسی موسیقی سننے سے سامعین پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انسانی دل کی دھڑکن اور موسیقی کی موزونیت:
آہنگ (rhythm) ایک ایسی طبعی قوت ہے جو فطرت نے بہت سے جسمانی افعال میں رکھی ہے، جیسے دل کی دھڑکن، دوڑنا اور سانس لینا وغیرہ۔ اس لیے ہمارا جسم فوری طور پر کسی بھی ایسی بیرونی چیز سے متاثر ہوتا ہے جس میں آہنگ کا عنصر موجود ہو۔ مثلاً ڈھول کی آواز، روشنیوں کا سحر انگیز طریقے سے بار بار جلنا بجھنا۔ یہ بات حیران کن نہیں کہ سب سے زیادہ آرام دہ موسیقی وہ ہوتی ہے جس میں ساز و آواز کی ضرب (beat) ایک منٹ میں ۷۰ سے ۸۰ تک ہوتی ہے، جو کہ دل کی دھڑکن کی فطری رفتار کے مطابق ہے۔ موسیقی کی مشہور قسم ’’جاز‘‘ (jazz) کی سب سے اہم خصوصیت دھڑکن کی آواز (Pullsating Rhythm) ہے۔ ’’جاز‘‘ میں ڈھول کی ضرب بھی دل کی دھڑکن کی طرح ایک منٹ میں تقریباً ۷۲ دفعہ ہوتی ہے۔
موسیقی کے اندر انسان کو ہپناٹائز کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ہپناٹزم کی بنیادی خصوصیت تکرار (repetition) ہے اور یہی چیز موسیقی اور گانوں میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ زیادہ دیر تک ایسی تکرار کے زیر اثر رہنے کے اثرات سحر انگیز ہوتے ہیں۔ مثلاً طبلے کی تھاپ کو مسلسل سننے سے انسان کے شعور (consciousness) کی حالت میں عارضی تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے اور دماغ ہپناٹزم کی ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے جس میں وہ ہر پیغام کو بغیر ردّوکد کے قبول کرلیتا ہے (Suggestive Hypnosis)۔ یہی اثرات گھنگھرو کی چھن چھن، طنبورے کی آس اور گھنٹی کی ٹن ٹن پیدا کرتے ہیں۔ ایسے ہپناٹزم کی حالت میں گانے کے پیغامات سننے والوں کے اذہان پر نقش ہوجاتے ہیں۔ آوازیں جن ذرائع سے انسانوں پر اثر انداز ہوتی ہیں، وہ بے شمار ہیں۔ آج کی موسیقی کی اونچی آوازیں اور تیز روشنیاں برین واشنگ کا بہترین ذریعہ ہیں۔
مغربی موسیقار لیونارڈ مائیر کے مطابق موسیقی کو اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ کچھ راگ یا گانے کے مضامین چند تبدیلوں کے ساتھ دیگر مضامین کے ہمراہ بار بار دہرائے جاتے ہیں، لیکن گانے کے اصل راگ اور بول گانے کے دوران بار بار واپس آتے ہیں جس سے سننے والے کو ایک طرح کی مانوسیت اور آسودگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ چیز نہ صرف کلاسیکل موسیقی میں بلکہ لوک اور پاپ میوزک میں بھی پائی جاتی ہے۔
کانوں کے راستے دل کی زنگ آلودگی اور تباہی:
ہمارے کان سننے کے لیے اسی طرح مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جس طرھ ہماری آنکھیں دیکھنے کے لیے۔ انسانی جسم کے حواسِ خمسہ میں سے سب سے طاقتور سننے اور دیکھنے کے حواس ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں قوتِ ذائقہ، قوتِ لامسہ اور قوتِ شامہ کی حیثیت ذیلی قسم کی ہوتی ہے اور ان کا انحصار انسان کی قوتِ سماعت اور بصارت سے حاصل شدہ معلومات پر ہوتا ہے۔
ہر قسم کی آوازیں ہم پر اپنا اثر ڈالتی ہیں اور یہ اثر اچھا بھی ہوسکتا ہے اور بُرا بھی۔ اسی وجہ سے کانوں کے ذریعہ بہت آسانی سے دل کی تباہی کا سامان مہیا کیا جاسکتا ہے۔ شیطان کو انسان کی اس کمزوری کا بہ خوبی علم ہے۔ اسی لیے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے شیطان کے متعلق فرمایا ہے:
’’تو (یعنی شیطان) انسانوں میں سے جس جس کو اپنی آواز سے پھسلا سکتا ہے، پھسلالے۔‘‘ (الاسراء: ۶۴)
شیطان اپنی آواز یعنی موسیقی اور گانے بجانے کے ذریعے انسانوں کو بہکاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے اسلام نے موسیقی کو شیطان کی پکار قرار دیا ہے۔ شیطان انسان کے دل کو کانوں کے راستے خراب کرتا ہے، اور یہ بات اب جدید سائنسی تحقیقات سے ثابت ہوچکی ہے کہ انسانی دل صرف ایک پمپ نہیں بلکہ عقل و سمجھ رکھنے والا ایک عضو ہے۔
یہ صحیح ہے کہ کانوں کی حفاظت کرنا آنکھوں کی حفاظت سے بھی مشکل کام ہے۔ اسی لیے قرآن میں قوتِ سماعت کا ذکر دیکھنے کی قوت کے ذکر سے پہلے کیا گیا ہے۔ مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔‘‘ (الاسراء:۳۱)
پیدائش کے وقت بچے کے سننے کی صلاحیت مکمل طور پر کام کررہی ہوتی ہے، جبکہ بچہ ایک خاص فاصلے سے زیادہ کی چیز نہیں پہچان سکتا۔ نومولود بچے کو اس چیز میں کئی ہفتے لگتے ہیں کہ وہ لوگوں کے چہرے پہچان سکے۔ اسی طرح قرآن میں ارشاد ہے:
’’اللہ نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے۔ اس نے تمہیں کان دیے، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دیے، اس لیے کہ تم شکر گزار بنو۔‘‘ (النحل: ۷۸)
’’ان سے کہو اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، تم کو سننے اور دیکھنے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیے، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔‘‘ (الملک: ۲۳)
ان آیات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ’’سننے‘‘ کا ذکر دیکھنے کی صلاحیت سے پہلے ہوا ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ رحم مادر میں پہلے قوتِ سماعت نشو و نما پاتی ہے اور پھر قوتِ بصارت۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جدید سائنس نے صرف اسی صدی میں دریافت کیا ہے جب کہ قرآن اسے ۱۴۰۰ سال سے بیان کررہا ہے۔ اسی طرح یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ بچے اپنی نشو ونما کے ابتدائی سالوں میں بہت عرصے تک صرف سنتے ہیں اور پھر بولنا شروع کرتے ہیں۔ مزید برآں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے صبح و شام ایک دعا مانگا کرتے تھے جس میں قوت سماعت کا ذکر قوت بصارت سے پہلے فرمایا کرتے۔
’’اے اللہ! مجھے تو جسم کی سلامتی عطا فرما۔ اے اللہ! مجھے سننے کی سلامتی عطا فرما۔ اے اللہ! مجھے دیکھنے کی صلاحیت کی سلامتی عطا فرما‘‘۔
قوتِ سماعت کی اہمیت کا اندازا اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس حس کو قرآن میں عقل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
’’اور وہ کہیں گے کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزا واروں میں نہ شامل ہوتے.‘‘ (الملک: ۱۰)
اسی طرح قرآن میں دوسری جگہ سننے کی حس کا تعلق سمجھ کے ساتھ بیان ہوا ہے:
’’اے ہمارے رب! ہم نے ایک پکارنے والے کو سُنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو، پس ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی.‘‘ (آل عمران: ۱۹۳)
اور انسانی قلب اور کانوں کا تعلق قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
’’یقینا اس میں عبرت کا سبق ہے ہر اُس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو یا جو توجہ سے بات کو سُنے.‘‘ (ق: ۳۷)
اگر ہم غور کریں تو دیکھیں گے کہ سننے کی حس چاروں سمتوں میں یعنی (Circular) کام کرتی ہے،جبکہ آنکھیں صرف سامنے دیکھ سکتی ہیں یعنی (Linear)۔ ہم کسی بھی سمت سے آنے والی آواز سُن سکتے ہیں جبکہ ہم صرف وہی چیز دیکھ سکتے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو۔ اگر خدا کی نافرمانی کا کوئی کام ہمارے سامنے ہو رہا ہو تو ہم اپنی آنکھیں آسانی سے بند کر سکتے ہیں لیکن اپنے کانوں کی حفاظت کے لیے ہمیں جسمانی طور پراس جگہ کو چھوڑنا پڑتا ہے۔
مزید برآں، انسان کی قوتِ سماعت اندھیرے اور روشنی میں دونوں جگہ کام کر سکتی ہے، جبکہ آنکھیں اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتیں۔ مسلم عرب ماہر نفسیات محمد عثمان نجاتی اپنی کتاب ’’قرآن کریم اور علم النفس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ انسان کی قوتِ سماعت کو اس کی قوتِ بصارت پر اس لیے بھی فوقیت حاصل ہے کہ سونے کے دوران بھی انسان کے کان بیدار رہتے ہیں، جبکہ نیند میں جاتے ہی انسان کی آنکھیں دیکھنا بند کر دیتی ہیں۔
اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کانوں کو گناہوں سے بچانا آنکھوں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے۔ موسیقی ہمارے روحانی دل کو کانوں کے ذریعے تباہ کرتی ہے۔ یہ حقیقت کہ دل کی تباہی کا سب سے آسان راستہ کانوں کے ذریعہ ہوتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات سے بھی سمجھ میں آ سکتی ہے جن کے مطابق جسم میں کانوں تک جانے والی رگیں (Auditory Nerves) سب سے زیادہ غالب ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کان بہت حساس ہوتے ہیں اور اس کے بہت سے سائنسی شواہد موجود ہیں۔ ہمارا دماغ دائیں اور بائیں حصوں (Right and Left Hemispheres) پر مشتمل ہوتا ہے جو مختلف فرائض انجام دیتے ہیں۔ نتیجتاً ہمارے دو کان موسیقی اور گانے بجانے کو جب سنتے ہیں تو آنے والی آوازوں یا انفارمیشن کو مختلف انداز میں پرکھتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے دونوں کان گلوکار کی آواز کے سوز، درد اور گانے کے اشعار کو علیحدہ علیحدہ پرکھتے ہیں۔ یہ بات پہلی بار ۱۸۷۸ء میں دریافت ہوئی۔ بعد میں اس میدان میں دوہری سماعت (Dichotic Listening) کے تجربات کیے گئے۔ دوہری سماعت کی تحقیقات میں مختلف آوازیں (اس معاملے میں وہ آوازیں موسیقی اور گانے تھے) دونوں کانوں کو علیحدہ علیحدہ ہیڈ فونز کے ذریعے سنائی جاتی ہیں، یعنی ایک کان کو کوئی ایک طرح کی آواز سنائی جاتی جبکہ دوسرے کان کو بالکل دوسری طرز کی کوئی آواز۔ پھر اس چیز کا مطالعہ کر کے کہ کون سا کان کس قسم کی آواز کو زیادہ بہتر طریق پر پرکھ سکتا ہے، محققین یہ بتا سکتے ہیں کہ کون سا کان کس قسم کی موسیقی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مثلاً ۱۹۸۲ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق عام انسانوں میں بایاں کان گلوکار کی آواز کے سوز اور جذباتی پہلو کی پہچان میں بہتر ہوتا ہے جبکہ دایاں کان گانے کے الفاظ اور اشعار کے اصل پیغام کو پہچاننے میں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کان اس معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں کہ ان میں جانے والی انفارمیشن کس قسم کی ہے اور بالآخر یہی انفارمیشن ہمارے افعال کو متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، جیسا کہ قرآن اور حدیث سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ موسیقی اور گانا عام طور پر ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ اس میں حیرانگی کی بات نہیں کہ جب موسیقی اور گلوکار کی آواز کو ملایا جاتا ہے تو اس طرح شیطان انسان کے دائیں اور بائیں دونوں کانوں کا استعمال کر کے اس کے دل کو بیمار کر دیتا ہے۔
موسیقی سے کانوں کو پہنچنے والا نقصان:
موجودہ زمانے میں سمعی ٹیکنالوجی (Audio Technology) میں تیزی سے ترقی کی وجہ سے اربابِ فکر موسیقی سننے سے کانوں کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں پریشان ہیں۔ موسیقی کو جن طریقوں سے لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے ان میں آلاتِ موسیقی، روایتی اسپیکر، کمپیوٹر اور ہیڈ فونز شامل ہیں۔ گزشتہ تیس سالوں میں پبلک ایڈریس سسٹم کی ایجاد کی بدولت موسیقی کے عوامی پروگراموں (Musical Concerts) میں آواز میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ پی اے سسٹم دراصل عوامی جگہوں پر آواز میں اضافہ کرنے کا الیکٹرانک سسٹم ہوتا ہے اور یہ لائوڈ اسپیکر مائیکروفونز، مکسنگ بورڈ، ایمپلی فائر وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا مقصد آواز کو نکھار کر اور بڑھا چڑھا کر سامعین و حاضرین تک پہنچانا ہوتا ہے۔ ایک عام پاپ میوزک کنسرٹ میں آواز کی شدت (Intensity) تقریباً ۱۴۰ ڈے سی بیل (Decibell) ہوتی ہے۔
امریکا میں سمعی آلودگی (Noise Pollution) کے خلاف ایک احتجاجی ادارہ Noise-Free America ہے، جس کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق ۱۴۰ سے ۱۵۰ ڈے سی بیل تک اونچی آواز کے میوزیکل کنسرٹ میں موسیقی سننا اس چیز کے برابر ہے کہ انسان بوئنگ ۷۴۷ ہوائی جہاز کے بالکل پاس کھڑا ہو جبکہ جہاز کے پنکھے پورے زور و شور کے ساتھ چل رہے ہوں۔
اونچی آواز میں موسیقی سننے کی وجہ سے قوت سماعت میں کمزوری اور Tinnitus (کانوں میں گھنٹی بجنے کی آواز ہر وقت سنائی دینا) جیسی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ امریکا کے شہر لاس اینجلس میں کانوں کی بیماریوں کے ایک ریسرچ سینٹر کے مطابق:
’’۱۹۶۰ء کی دہائی میں پاپ میوزک اور موسیقی سننے کے نت نئے آلات کی کثرت کے بعد بہت سے امریکی عوام کی قوتِ سماعت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔ ہم نے اب یہ مشاہدہ کرنا شروع کیا ہے کہ بہت سے موسیقار اور آلاتِ موسیقی پر کام کرنے والے انجینئر حضرات جو عرصے تک اس پیشے سے منسلک رہتے ہیں، انہیں سننے میں مشکلات (Hearing Problems) پیش آتی ہیں‘‘۔
اسی طرح کانوں پر ہیڈ فونز لگا کر موسیقی سننے کے بھی بہت بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین علم سماعت (Audiologists) قوتِ سماعت کے نقصان کا ذمہ دار نوجوانوں کا موسیقی سے شدید لگائو (بالخصوص ہیڈ فونز) کو ٹھہراتے ہیں۔ اونچی آواز میں موسیقی کو کسی بھی ذریعے سے لگاتار سننے سے انسان کی سننے کی صلاحیت مستقل طور پر ناکارہ ہوسکتی ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ موسیقی اونچی آواز میں سننے کے بُرے اثرات صرف کانوں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اونچی آوازوں کے غیرسمعی (Non-auditory) اثرات بھی ہوتے ہیں جو قوتِ سماعت کو متاثر نہ بھی کریں لیکن آلات کی مدد سے ناپے جا سکتے ہیں۔مثلاً بلڈپریشر کا بڑھ جانا، بے خوابی، سانس لینے میں دقّت، دل کی دھڑکن کا بڑھ جانا اور خون کی شریانوں کا سکڑنا وغیرہ ایسے اثرات ہیں جو اونچی آوازوں کو سننے سے پیدا ہوتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ کی ایک پیش گوئی:
رسول پاکﷺ نے اپنی ایک حدیث میں فرمایا:
’’میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو شراب پئیں گے، اس کو اس کے نام کے علاوہ دوسرے نام سے پکاریں گے۔ ان کے سروں پر موسیقی اور گانے کے آلات ہوں گے اور وہ گانے والیوں کو سنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے نیچے سے زمین کو شق کر دیں گے اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دیں گے‘‘۔ (ابنِ ماجہ)
گویا آخری زمانے کی علامات میں سے ایک علامت لوگوں کا سروں پر موسیقی کے آلات اٹھائے پھرنا ہے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے سروں پر موسیقی کے ہیڈ فونز لگا رکھے ہیں، یعنی چودہ سو سال پرانی پیشنگوئی کی آج تصدیق ہو رہی ہے۔
آج کے نوجوان کے لیے میوزک خاص طور پر ہمہ گیر حالت ہے۔ راک میوزک کے اوائل کے دنوں میں ریڈیو بھاری اور حجم میں بڑے ہونے کے باعث بس ایک ہی جگہ رکھے جاتے تھے۔ جب ٹرانسسٹر ریڈیو نکل آئے تو میوزک کو ساتھ لیے پھرنا آسان ہوگیا۔ آلاتِ موسیقی (ہیڈ فونز) کا حجم چھوٹے سے چھوٹا ہوتا جانا اور ان کی ہلکی اور اعلیٰ ترین بناوٹ نے نوجوانوں کے لیے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو موسیقی میں مسلسل غلطاں رکھیں۔
یہ بات بھی قابلِ مذمت ہے کہ ہمارے جدید معاشرے نے ایسی تفریحی صنعت گری کی ہے تاکہ لوگ کرۂ ارض پر ہر جگہ موسیقی سے لطف اندوز ہو سکیں۔ چھوٹے آلاتِ موسیقی کے ذریعے سے چلتے پھرتے، کام کرتے، یہاں تک کہ سوتے ہوئے بھی وہ اپنے پسندیدہ میوزک ویڈیوز دیکھ یا سُن سکتے ہیں۔ بعض گارمنٹ کمپنیوں نے اپنے گاہکوں کے لیے ذاتی اسٹیریو اس طرح مہیا کیا ہے کہ Jackets کے ٹوپی والے حصے (Hoods) میں ریڈیو اور اسپیکرز اندر ہی سی دیئے گئے ہیں۔
آج دس بیس سال کی عمر کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موسیقی ہی کے لیے زندہ ہے۔ یہ ان کا جنون ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چیز ان کو محظوظ نہیں کر سکتی۔ وہ کسی ایسی چیز کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جس کا تعلق موسیقی سے نہ ہو۔ وہ موسیقی کے لیے بے چین رہتے ہیں اپنے اسکول کے وقت میں یا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوتے ہیں، گھروںمیں، کاروں میں ہر جگہ موسیقی کے اسٹیریوز موجود ہیں۔ موسیقی کی محفلیں ہیں۔ ہر جگہ موسیقی کے چینلز مل جاتے ہیں۔ واک مین کی وجہ سے سفر کے دوران اور کتب خانوں سمیت کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں طلبہ کو میوزک سے بچا کر اور روک کر رکھا جائے۔ جب تک ان کے ساتھ واک مین ہے ان کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ عظیم روایات کا کیا مطالبہ ہے۔ موسیقی کی اس طویل رفاقت کے بعد جب وہ کانوں سے اس کو ہٹائیں گے تو معلوم ہو گا کہ وہ بہرے ہوچکے ہیں۔ ( #ایس_اے_ساگر )
(یہ مضمون ڈاکٹر گوہر مشتاق کی کتاب ’’موسیقی: اسلام اور جدید سائنس کی روشنی میں‘‘ (مطبوعہ اذانِ سحر پبلی کیشنز، منصورہ ملتان روڈ لاہور ۲۰۰۹ء سے ماخوذ ہے۔ اختصار کے پیش نظر مراجع و مصادر کے حوالہ جات حذف کر دیئے گئے ہیں۔ تفصیل کے لیے اصل کتاب ملاحظہ فرمایئے)
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_11.html