Friday, 30 August 2024

زوال سے پہلے نماز جمعہ کی ادائی سے متعلق مذاہب ائمہ اور ان کے مستدلات

زوال سے پہلے نمازجمعہ کی ادائی سے متعلق مذاہب ائمہ اور ان کے مستدلات
-------------------------------
-------------------------------
آج میں نے ابھی حرم مکی میں جمعہ ادا کی ہے۔ اذان اول زوال سے پورے دس منٹ پہلے ہوئی ہے۔ زوال ختم ہوتے ہی اذان ثانی ہوئی ہے۔ 
غور طلب بات یہ ہے کہ زوال سے پہلے اذان دینا کس دلیل کی بناء پر ہے؟ فجر کے سلسلہ میں قبل از وقت اذان دینے کے سلسلہ میں ائمہ کا تو اختلاف ہے، لیکن ظہر میں تو نہیں ہے۔
سائل مفتی مشیر عالم قاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
زوال سے پہلے اذان تو کیا؟ حنابلہ کے یہاں زوال سے ایک گھنٹہ پہلے جمعہ کی نماز کی ادائی بھی صحیح ہے، ان کے یہاں عیدین کا وقت ہی جمعہ کی نماز کا وقت ہے۔
جبکہ ائمہ ثلاثہ کے یہاں ظہر کا وقت، جمعہ کا وقت ہے، زوال سے پیشتر ظہر کی نماز صحیح ہے نہ جمعہ کی نماز! دخول وقت سے قبل نہ اذان جمعہ صحیح ہے نہ سنت قبلیہ کی ادائی، پہلے سے دی جانے والی اذان کا دخول وقت کے بعد اعادہ ضروری ہے۔ 
حنابلہ کا مستدل صحیح مسلم کی روایت ہے:
عن جَابِر بْنَ عَبْدِاللَّهِ: مَتَى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ؟ قَالَ: كَانَ يُصَلِّي ثُمَّ نَذْهَبُ إِلَى جِمَالِنَا فَنُرِيحُهَا"، زَادَ عَبْدُاللَّهِ فِي حَدِيثِهِ: "حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ " يَعْنِي النَّوَاضِحَ .صحيح مسلم 858. 
ائمہ ثلاثہ کا مستدل صحیحین کی درج ذیل روایت ہے: 
عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رضي الله عنه قَالَ "كُنَّا نُجَمِّعُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ نَرْجِعُ نَتَتَبَّعُ الْفِيءَ" .صحيح البخاري، كتاب المغازي - باب غزوة الحديبية 4168. وصحيح مسلم 860.
وعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ) رواه البخاري (904)
واللہ اعلم 
https://saagartimes.blogspot.com/2024/08/blog-post_30.html

Wednesday, 21 August 2024

خطبۂ جمعہ کے دوران تحیۃ المسجد پڑھنا

خطبۂ جمعہ کے دوران تحیۃ المسجد پڑھنا
محترم جناب مفتی صاحب!
دورانِ خطبہ اگر مسجد میں پہنچے تو تحیۃ المسجد کا کیا حکم ہے ؟ بخاری شریف کی ایک حدیث کے اندر حضور ﷺ کا ارشاد مبارک نماز پڑھنے کے متعلق وارد ہے۔
الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً
دورانِ خطبہ کسی قسم کی نماز، چاہے تحیۃ المسجد ہو یا کوئی دوسری نماز، شرعاً ممنوع اور مکروہ ہے۔
’’لقولہ علیہ السلام "اذا خرج الامام فلا صلاۃ و لا کلام" ‘‘(المبسوط سرخسی ۲/ ۲۹)۔
جبکہ دورانِ خطبہ نماز پڑھنے سے متعلق احادیث کی روایات کے بارے میں شارحینِ حدیث کی رائے یہ ہے کہ یہ ممانعتِ نماز سے، قبل کا واقعہ ہے یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ شروع کرنے سے پہلے وہ شخص آیا اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز کی اجازت دیکر خطبہ تاخیر سے شروع فرمایا، اس لئے ان واقعات یا روایات سے غلط فہمی میں مبتلا ہونے سے احتراز لازم ہے۔
مأخَذُ الفَتوی
قال اللہ تعالیٰ: ﴿وَ إِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَ أَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾([الأعراف: 204)۔
و فی التفسير المظهري: قال سعيد بن جبير و عطاء و مجاهد ان الآية فى الخطبة، أمروا بالإنصات لخطبة الامام يوم الجمعة و اختار السيوطي هذا القول اھ (3/ 450)۔
و فی المعجم الكبير للطبراني: عامر الشعبي يقول: سمعت ابن عمر يقول : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول: «إذا دخل أحدكم المسجد و الإمام على المنبر، فلا صلاة و لا كلام، حتى يفرغ الإمام» . (13/ 75)۔
و فی مصنف ابن أبي شيبة: حدثنا محمد بن مصعب ، عن الأوزاعي ، عن مكحول ، و عطاء، و الحسن، «أنهم كانوا يكرهون أن يحتبوا و الإمام يخطب يوم الجمعة» اھ (1/ 454)۔
و فی مصنف ابن أبي شيبة: عن هشام بن عروة ، عن أبيه ، قال: «إذا قعد الإمام على المنبر فلا صلاة» اھ (1/ 447)۔
و فیہ أیضاً : عن ابن عباس ، و ابن عمر: «أنهما كانا يكرهان الصلاة و الكلام بعد خروج الإمام» (1/ 448)۔
و فی الهدایة : و إذا خرج الإمام یوم الجمعة ترك الناس الصلاة و الکلام حتی یفرغ من خطبته (إلی قوله) إذا خرج الإمام فلا صلاة و لا كلام اھ (۱/ ۱۷۱)۔
و فی عمدة القاري : و روى الدارقطني من حديث معتمر عن أبيه عن قتادة (عن أنس : دخل رجل من قيس المسجد و رسول الله صلى الله عليه و سلم يخطب ، فقال : قم فاركع ركعتين، و أمسك عن الخطبة حتى فرغ من صلاته) فإن قلت: كيف وجه هذه الروايات ؟ قلت: كون معنى هذه الأحاديث واحدا لا يمنع تعدد القضية، (إلی قوله) بل أجابوا بأجوبة غير هذا. الأول: أن النبي صلى الله عليه و سلم أنصت له حتى فرغ من صلاته، و الدليل عليه، ما رواه الدارقطني في (سننه) من حديث عبيد بن محمد العبدي: حدثنا معتمر عن أبيه عن قتادة عن أنس، قال: دخل رجل المسجد و رسول الله صلى الله عليه و سلم يخطب، فقال له النبي صلى الله عليه و سلم: قم فاركع ركعتين ، و أمسك عن الخطبة حتى فرغ من صلاته) (إلی قوله) قال: جاء رجل و النبي صلى الله عليه و سلم يخطب، فقال: يا فلان أصليت؟ قال: لا. قال: قم فصل، ثم انتظره حتى صلى) . قال : و هذا المرسل هو الصواب. قلت: المرسل حجة عندنا، و يؤيد هذا ما أخرجه ابن أبي شيبة: حدثنا هشيم، قال : أخبرنا أبو معشر (عن محمد بن قيس : أن النبي صلى الله عليه و سلم ، حيث أمره أن يصلي ركعتين أمسك عن الخطبة حتى فرغ من ركعتيه ، ثم عاد إلى خطبته) . و الجواب الثاني: أن ذلك كان قبل شروعه ، صلى الله عليه وسلم ، في الخطبة . و قد بوب النسائي في (سننه الكبرى) على حديث سليك، قال: باب الصلاة قبل الخطبة. ثم أخرج عن أبي الزبير عن جابر قال: (جاء سليك الغطفاني و رسول الله صلى الله عليه و سلم قاعد على المنبر، فقعد سليك قبل أن يصلي. فقال له "صلى الله عليه وسلم": أركعت ركعتين؟ قال : لا. قال: قم فاركعهما . الثالث : أن ذلك كان منه قبل أن ينسخ الكلام في الصلاة ، ثم لما نسخ في الصلاة نسخ أيضا في الخطبة لأنها شطر صلاة الجمعة أو شرطها. (6/ 232 ،231)۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب
عبد الماجد حسین عُفی عنه
دارالافتاء جامعه بنوریه عالمیه
---
عنوان: جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے دورانِ تقریر تحیة المسجد پڑھنا
سوال: حضرت، میرا سوال ہے کہ جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے ہماری مسجد میں اردو میں تقریر ہوتی ہے، اس وقت اگر مسجد میں کوئی شخص آکر جب کہ امام صاحب اردو میں تقریر کررہے ہوں تو کیا اس وقت وہ شخص اگلی صف میں تحیة المسجد کی نماز پڑھ سکتا ہے؟ میں حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں۔ براہ کرم قرآ ن و حدیث کی روشنی میں مسئلہ سمجھائیں۔
جواب نمبر: 155417
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 122-99/M=1/1439
دوران تقریر کوئی شخص مسجد آکر تحیة المسجد پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے ا س کے لئے اگلی صف میں پہنچنا لازم نہیں، پچھلی صفوں میں ایک کنارے یا کسی کونے میں ہوکر بھی پڑھ سکتا ہے اور اگر اگلی صف میں جگہ ہو تو وہاں بھی پڑھ سکتا ہے۔ لیکن اگر تقریر کی آواز تیز ہو نماز میں خلل کا اندیشہ ہو تو بیٹھ کر پہلے خاموشی کے ساتھ تقریر سن لے، ختم تقریر کے بعد پڑھ لے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
------
سوال: خطبہ شروع ہوجائے تو کیا نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: نہیں.
الجزء رقم :3، الصفحة رقم:14
875 (57) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ - وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ - حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ، فَقَالَ : " إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَدْ خَرَجَ الْإِمَامُ ؛ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ."
صحيح مسلم | كِتَابٌ: الْجُمُعَةُ.  | بَابٌ: التَّحِيَّةُ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ.
روایت صحیح ہے، اور اس مسئلے میں ائمہ کا اختلاف ہے، یہ حدیث شافعیہ ومن وافقہم رحمۃ اللہ علیہم کی دلیل ہے، حنفیہ و مالکیہ کے یہاں منع ہے۔ دیگر دلائل کی بنا پر۔ ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/08/blog-post_79.html?m=1

Monday, 12 August 2024

کیا بھنگ کا استعمال مضر صحت ہے

کیا بھنگ کا استعمال مضر صحت ہے
بھنگ کا مختلف شکلوں‌ میں ‌استعمال برصغیر میں‌ عام ہے جب کہ تجارتی مقاصد کے لئے امریکہ کی بات کریں تو وہاں‌ بھنگ کی صنعت تیز رفتاری سے ترقی کررہی ہے اور بعض‌ ماہرین نے خیال ظاہر کیا تھا کہ‌ 2020 تک اس کی فروخت 22 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
ہم نے تھوڑا جھجھکتے ہوئے اس پودے کے خواص اور فوائد کے بارے میں‌ پڑھا تو یہ جانا کہ:
نیک نے نیک سمجھا، بَد نے بد جانا "تجھے"
جس کا جتنا ظرف تھا اتنا ہی پہچانا "تجھے"
ایسا لگتا ہے کہ صدیوں‌ سے خاص طور پر برصغیر میں‌ بھنگ کو ڈھنگ سے کسی نے استعمال ہی نہیں‌ کیا اور یوں ہر کسی نے اسے بُرا سمجھا۔
دراصل بھنگ کے پتّے اور پھول نشہ آور ہوتے ہیں اور مشہور ہے کہ اس کا نشہ دماغ کو سکون اور راحت بخشتا ہے۔
بھنگ کے پتّوں اور پھولوں کی خاص ترکیب سے مشروب اور چرس تیار کی جاتی ہے اور برصغیر میں صدیوں‌ سے اسے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس پودے کو ہندی بھنگ، ہندی سن، قنبِ ہندی اور گانجا بھی کہا جاتا ہے۔
پچھلے سال ایک جرمن ادارے کی تحقیقی رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کے مطابق دارالحکومت نئی دہلی میں‌ 38 ٹن سے زائد چرس پی جاتی ہے۔
جرمن کمپنی کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 42 ٹن چرس پھونکی جاتی ہے۔
امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے ایک ڈاکٹر کی کہانی بھی سنتے چلیے جس نے ایک چار سالہ بچّے کو بھنگ والے بسکٹ تجویز کیے تھے اور اس کا لائسنس منسوخ کردیا گیا۔
ڈاکٹر ولیم ایڈلمین قدرتی اجزا سے بنی ہوئی ادویات کے ماہر ہیں۔ انھوں‌ نے یہ نسخہ ایک ایسے بچے کے لیے تجویز کیا جو بہت زیادہ چڑچڑا تھا اور اسے شدید غصہ آتا تھا۔
ڈاکٹر نے اس بچّے کے والدین کو مخصوص مقدار میں بھنگ یا چرس دینے کا مشورہ اس کا مزاج ٹھنڈا رکھنے کے لئے دیا تھا۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ معالج کے لائسنس کی منسوخی کی وجہ بھنگ استعمال کروانا نہیں‌ تھا بلکہ متعقلہ بورڈ نے اس کی اطلاع ملنے پر تحقیق کی تو ڈاکٹر ولیم کو ’علاج میں غفلت‘ برتنے کا مرتکب پایا۔ بورڈ کی نظر میں‌ ڈاکٹر کا فرض تھا کہ وہ بچّےکے  والد کو اس کے علاج کے لیے نفسیاتی ماہر کے پاس جانے کا مشورہ دیتا۔
ریاست کیلیفورنیا میں چرس یا بھنگ کے طبی استعمال کو 1996 میں جائز قرار دیا گیا تھا اور اسی طرح امریکا کی دیگر ریاستوں اور دنیا کے کئی ممالک میں‌ حکومتوں نے بھنگ کے تجارتی اور طبی استعمال کی اجازت دے رکھی ہے اور اس سے ان ممالک کو مالی فائدہ ہورہا ہے۔
امریکہ کی ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی کی 2013 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ بھنگ یا چرس کے استعمال سے مرگی اور دیگر اعصابی بیماریوں سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح‌ دیگر اداروں‌ کی مختلف برسوں‌ کے دوران طبی تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھنگ کا عرق، رس، خمیر یا چرس گلوکوما یا سبز موتیے سے بچاؤ میں معاون ہے۔ واضح رہے کہ گلوکوما کا مرض مستقل اندھے پن کا سبب بن سکتا ہے۔
اسی طرح چرس کا استعمال الزائمر کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔ تاہم یہ اسی صورت میں‌ ممکن ہے جب معالج کی ہدایت کے مطابق اس کا استعمال بطور دوا کیا جائے۔
امریکہ کی کینسر سے متعلق ویب سائٹ نے 2015 میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق بھنگ یا چرس سے کینسر کے خطرات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
طبی محققین کے مطابق بھنگ کے محدود استعمال سے ہیپاٹائٹس سی کے انسانی جسم پر منفی اثرات میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ اس فیصلے کے بعد میں‌ بھنگ کا پودہ لگانا، اس کی خرید و فروخت کرنا، اس کا نقل و حمل آسان اور قانونی شکل اختیار کرلے گا اور یہ صنعت حکومتوں اور سرمایہ کاروں کے لئے منافع بخش ثابت ہوگی، لیکن ضروری ہے کہ جامع اور ٹھوس پالیسی بناتے ہوئے بھنگ کا نشے کے لیے استعمال روکا جائے اور متعلقہ محکمہ اس کی تجارت اور خرید و فروخت کے عمل کی مکمل اور کڑی نگرانی بھی کرے۔ ( #ایس_اے_ساگر )

Thursday, 8 August 2024

تین خصلتیں ہیں، میں ان پر قسم اٹھاتا ہوں

تین خصلتیں ہیں، میں ان پر قسم اٹھاتا ہوں
حضرت ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تین خصلتیں ہیں، میں ان پر قسم اٹھاتا ہوں اور میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، تم اسے یاد کرلو، وہ چیزیں جن پر میں قسم اٹھاتا ہوں یہ ہیں: صدقہ کرنے سے بندے کا مال کم نہیں ہوتا، جس بندے کی حق تلفی کی جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو اس کے بدلے میں اللہ اس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے، اور بندہ جب کسی سے سوال کرتا ہے تو اللہ اسے فقر میں مبتلا کردیتا ہے، رہی وہ بات جو میں تمہیں بتانے جارہا ہوں اس کو خوب یاد رکھنا۔“ پس فرمایا: ”دنیا چار قسم کے لوگوں کے لئے ہے: ایک وہ بندہ جسے اللہ نے مال اور علم عطا کیا ہو اور وہ اس (علم) کے بارے میں اپنے رب سے ڈرتا ہو، صلہ رحمی کرتا ہو اور وہ اس (علم) کے مطابق اللہ کی خاطر عمل کرتا ہو، یہ سب سے افضل درجہ ہے۔ ایک وہ بندہ جسے اللہ نے علم دیا ہو لیکن اسے رزق نہ دیا ہو، اور وہ نیت کا اچھا ہے، وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں (مالدار) شخص کی طرح خرچ کرتا، ان دونوں کے لئے اجر برابر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال عطا کیا لیکن علم نہیں دیا تو وہ علم کے بغیر اپنے مال کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے، اور وہ نہ تو اپنے رب سے ڈرتا ہے اور نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اسے حق کے مطابق خرچ کرتا ہے، یہ شخص انتہائی برے درجے پر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال دیا نہ علم، وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں شخص کی طرح عمل (یعنی خرچ) کرتا، وہ صرف نیت ہی کرتا ہے جبکہ دونوں کا گناہ برابر ہے۔“ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ سندہ ضعیف، واہ الترمذی۔
حدیث نمبر: 5287
وعن ابي كبشة الانماري انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «ثلاث اقسم عليهن واحدثكم حديثا فاحفظوه فاما الذي اقسم عليهن فإنه ما نقص مال عبد من صدقة ولا ظلم عبد مظلمة صبر عليها إلا زاده الله بها عزا ولا فتح عبد باب مسالة إلا فتح الله عليه باب فقر واما الذي احدثكم فاحفظوه» فقال: إنما الدنيا لاربعة نفر: عبد رزقه الله مالا وعلما فهو يتقي فيه ربه ويصل رحمه ويعمل لله فيه بحقه فهذا بافضل المنازل. وعبد رزقه الله علما ولم يرزقه مالا فهو صادق النية ويقول: لو ان لي مالا لعملت بعمل فلان فاجرهما سواء. وعبد رزقه الله مالا ولم يرزقه علما فهو يتخبط في ماله بغير علم لا يتقي فيه ربه ولا يصل فيه رحمه ولا يعمل فيه بحق فهذا باخبث المنازل وعبد لم يرزقه الله مالا ولا علما فهو يقول: لو ان لي مالا لعملت فيه بعمل فلان فهو نيته ووزرهما سواء. رواه الترمذي وقال: هذا حديث صحيح ( #ایس_اے_ساگر )

ناصیہ: جھوٹ اور غلطی کی جگہ

ناصیہ: جھوٹ اور غلطی کی جگہ
"ناصیہ" وہ حصہ ہے جو جھوٹ اور غلطی کے ذمہ دار ہوتا ہے اور یہی حصہ فیصلے کرنے کا مرکز بھی ہے۔ اگر اس دماغ کے حصے کو کاٹ دیا جائے جو کہ کھوپڑی کی ہڈی کے نیچے واقع ہے، تو انسان کی آزادانہ مرضی ختم ہوجاتی ہے اور وہ انتخاب نہیں کرسکتا۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "لنسفعاً بالناصية" یعنی ہم اسے پکڑکر اس کے جرائم کی سزا دیں گے۔ جدید علم کے مطابق، ناصیہ کا حصہ جانوروں میں کمزور اور چھوٹا ہوتا ہے، جو انہیں خود مختارانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں دیتا۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "ما من دابة إلا هو آخذ بناصيتها" یعنی ہر جاندار کی ناصیہ اللہ کے قبضے میں ہے۔
حدیث میں بھی آیا ہے: 
"اللهم إني عبدك وابن عبدك وابن أمتك ناصيتي بيدك" 
یعنی "اے اللہ، میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، اور تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری ناصیہ تیرے ہاتھ میں ہے۔"
اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق، ناصیہ کو سجدے میں جھکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سجدے کے دوران، سر کی منفی شحنات زمین میں منتقل ہوتی ہیں اور دماغ کو مکمل طور پر خون ملتا ہے، جس سے مثبت شحنات حاصل ہوتی ہیں جو کہ دماغ کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ دماغ میں کچھ رگیں ایسی ہوتی ہیں جن تک خون سجدے کے بغیر نہیں پہنچ سکتا۔ ( #ایس_اے_ساگر )

Monday, 5 August 2024

تجوید کے قاعدے

نون ساکن اور تنوین کے قواعد:
نون ساکن اور تنوین کےچار قواعد ہیں۔
1۔  اظہارِ حلقی۔                         
2۔ ادغام ۔                                
3۔ اقلاب۔                              
4۔ اخفاء حقیقی۔
1۔  اظہارِ حلقی:  
لغوی معنی: " ظاہر کرنا"۔
اصطلاحی معنی:  نْ اور تنوین کی آواز کو  اس طرح ظاہر کرنا کہ بغیر غنّہ کے ادا ہو۔
حروف:  "ء ،   ہ ،  ع ،  ح ،  غ ،  خ "۔
قاعدہ:   نْ اور تنوین کے بعد اگر حرفِ  حلقی  میں سے کوئی بھی حرف آجائے تو  نْ اور تنوین کی آواز کو ظاہر کر کے پڑھیں گے۔
مثالیں:   سَوَآءٌ عَلَيْـهِـمْ ،  عَذَابٌ أَلِيمٌ
2۔ ادغام:
لغوی معنی:  "ملانا، داخل کرنا"۔
اصطلاحی معنی:   نْ اور تنوین کی آواز کو داخل کرنا ۔
حروف:  "ی ،  ر ،  م ،  ل ،  و ،  ن"۔ ان کا مجموعہ "یرملون " ہے۔
اقسام:  ادغام کی" دو "اقسام ہیں۔                             ا۔ ادغام مع الغنّہ۔                    
ب۔ ادغام بلا غنّہ۔
ا۔ ادغام مع الغنّہ:
قاعدہ:   نْ اور تنوین کے بعد اگر" ی، و، م، ن" میں سے کوئی بھی حرف آجائے تو  نْ اور تنوین کی آواز کو ملا کر پڑھیں گےاور غنّہ کریں گے۔
مثالیں:   فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ ، بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِه۔
ب۔ ادغام بلا غنّہ:
قاعدہ:  نْ اور تنوین کے بعد اگر" ل "اور "ر" آجائے تو  نْ اور تنوین کی آواز کو ملا کر پڑھیں گےلیکن  غنّہ  نہیں کریں گے۔
مثالیں:  وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ،  مِّنْ رَّبِّـهِـمْ ۔
3۔ اقلاب:
لغوی معنی:  "بدلنا"۔
اصطلاحی معنی:  نْ اور تنوین کی آواز کو  "م" سے بدلنا۔
حرف:  "ب"
قاعدہ:  نْ اور تنوین کے بعد اگر حرف "ب"  آجائے تو  نْ اور تنوین کی آواز کو حرف " م " سے بدل کر  پڑھیں گے۔
مثالیں:   وَاللّـٰهُ مُحِيْطٌ بِالْكَافِـرِيْنَ، مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ
4۔ اخفاء حقیقی:
 لغوی معنی: " چھپانا"۔
اصطلاحی معنی:   نْ اور تنوین کی آواز کو چھپانا۔
حروف:   حروفِ حلقی،  حروفِ یرملون، الف اور حرف "ب" کے علاوہ باقی تمام حروف۔
قاعدہ:  نْ اور تنوین کے بعد اگر حرفِ اخفاء  میں سے کوئی بھی حرف آجائے تو  نْ اور تنوین کی آواز کو چھپا کر  پڑھیں گے۔
مثالیں:   مِنْ قَبْلِكُمْ ، مَآءً فَاَخْرَجَ 
٭٭٭٭٭
اظہارِ مطلق:
قاعدہ: نْ اور تنوین کے بعد اگر حرفِ یرملون ایک ہی کلمے میں آجائیں تو وہاں اظہارِ مطلق ہوگا۔ ادغام ہمیشہ دو کلموں میں ہوتا ہے ۔ لیکن جہاں دونوں ایک ہی کلمے میں آجائیں وہاں ادغام  نہیں بلکہ اظہار ہوگا۔ اسے اظہارِ مطلق کہتے ہیں۔ یہ اظہار پورے قرآن میں چار جگہوں میں آتا ہے۔
مثالیں:   بُنْیَانٌ ، صِنْوَانٌ ، قِنْوَانٌ ، الدُّنْیَا۔

https://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%AA%D8%AC%D9%88%DB%8C%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%82%D9%88%D8%A7%D9%86%DB%8C%D9%86.10318/

Saturday, 3 August 2024

بہترین دوست کون ہے

بہترین دوست کون؟
حضرت عبدالله ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ سے پوچھا گیا: بہترین ہم نشین کون ہے؟
فرمایا: "ایسا دوست جس کو دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلادے؛ جس کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل آخرت یاد دلادے."
(مسند ابی یعلی 37-24)