Monday, 15 December 2025

علامہ شبیر احمد عثمانی کی ذات نبوت اور روضہ اطہر کی حفاظت

علامہ شبیر احمد عثمانی کی ذات نبوت اور روضہ اطہر کی حفاظت
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمت الله عليه کی پیدائش 11 اکتوبر 1887ء کو بھارت کی ریاست اتر پردیش کے بجنور شہر میں ہوئی۔
علامہ عثمانی مولنا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے۔ 1325ھ بمطابق 1908ء میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دورہ حدیث کے تمام طلبہ میں اول آئے۔
فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند میں فی سبیل اللہ پڑھاتے رہے۔ متوسط کتابوں سے لے کر مسلم شریف اور بخاری شریف کی تعلیم دی۔ مدرسہ فتح پور دلی تشریف لے گئے اور وہاں صدر مدرس مقرر ہوئے۔
1348ھ بمطابق 1930ء میں آپ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل تشریف لے گئے اور وہاں تفسیر و حدیث پڑھاتے رہے۔
1354ھ بمطابق 1936ء میں دار العلوم دیوبند میں صدر مہتمم کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔‘‘
علامہ شبیر احمد عثمانی کی سنہری خدمات میں سے صرف دوخدمتیں ایک تحفظ ذات رسول یعنی تحفظ ختم نبوت اور تحفظ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی حوالےسے خدمات کا تذکرہ کروں گا،
۱۳۴۳ھ میں سعودی فرماں روا عبدالعزیز بن سعود کی حکومت نے مذہبی حوالے سے جو متنازع اقدامات کئے، ان میں سے جنت المعلّٰی اور جنت البقیع کے مزاراتِ مقدسہ پر بنے ہوئے قُبّوں کی مسماری کا معاملہ بھی تھا۔ اہلِ سعود کا یہ اقدام یہیں تک محدود نہیں تھا، بلکہ اگلے مرحلے میں گبندِ خضراء کی مسماری بھی ان کا ہدف تھا، اس دوران اُمتِ مسلمہ میں سعودی حکومت کے بارے میں بڑے ناپسندیدہ جذبات پیدا ہوگئے اور دنیا بھر کے علماء اور مذہبی پیشواؤں نے ان کی فہمائش کی کوشش کی، جس کے نتیجہ میں شاہ عبدالعزیز بن سعود نے اسی سال حج کے موقع پر اسی موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں علماء ہند میں سے حضرت مفتی اعظم ہند مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اور چند دیگر علماء کو بطور خاص مدعو کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں سلطان عبدالعزیز بن سعود نے اپنے موقف کو توحید پرستی پر مبنی قراردیتے ہوئے کسی کی پرواہ نہ کرنے کا عزم ظاہر فرمایا، تو جوابی تقریر کے طور پر حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے شاہ ابنِ سعود کے نقطۂ نظر کی جو علمی تنقیح ، تردید اور تصحیح فرمائی، اس سے نہ صرف یہ کہ سعودی فرماں روا لاجواب ہوگئے، بلکہ مزید اقدامات جن میں گنبدِ خضراء کی توہین آمیز مسماری بھی شامل تھی، اس سے باز آگئے، اس طرح گنبدِ خضراء کا مہبطِ انوار منظر‘ علماء دیوبند کے سرخیل، بانیِ پاکستان علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم کارنامہ ہے,
خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے متوسلین میں سے حضرت مولنا قاضی شمس الدین درویش رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ غلغلہ برزلزلہ المعروف بہ جوہر تحقیق میں لکھتے ہیں کہ
کہ۱۳۴۳ھجری
 میں سلطان ابن سعود نے حجازِ مقدس کی سرزمین پر قبضہ کرلیا اور حرمین شریفین کے جنتِ معلی اور جنتِ بقیع کے مزاروں کے قُبّے گرادیئے، جس کی وجہ سے عام طور پر عالمِ اسلام کے مسلمانوں میں سخت ناراضگی پیدا ہوگئی تو سلطان نے ۱۳۴۳ ہجری کے موقع حج پر ایک مؤتمر منعقد کی، جس میں ہندستان کے علماء کی طرف سے حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ (صدر جمعیت علماء ہند دہلی)، حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی (رحمہم اللہ) اور کچھ دیگر علماء بھی شامل ہوئے۔
سلطان ابنِ سعود کی تقریر
اس موقع پر سلطان ابنِ سعود نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
(الف) ’’چار اماموں کے فروعی اختلافات میں ہم تشدُّد نہیں کرتے، لیکن اصل توحید اور قرآن وحدیث کی اتباع سے کوئی طاقت ہمیں الگ نہیں کرسکتی، خواہ دُنیا راضی ہو یا ناراض۔‘‘
(ب) ’’یہود ونصاریٰ کو ہم کیوں کافر کہتے ہیں؟ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ غیراللہ کی پرستش کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا إِلَی اللہِ زُلْفٰی‘‘ (یعنی ہم ان کی پوجا وعبادت اللہ تعالیٰ کے تقرُّب ورضا حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں) تو جو لوگ بزرگانِ دین کی قبروں کی پرستش اور ان کے سامنے سجدے کرتے ہیں، وہ بت پرستوں ہی کی طرح کافر ومشرک ہیں۔
(ج) ’’جب حضرت عمرؓ کو پتہ چلا کہ کچھ لوگ وادیِ حدیبیہ میں شجرۃ الرضوان کے پاس جاکر نمازیں پڑھتے ہیں تو حضرت عمرؓ نے اس درخت کو ہی کٹوادیا تھا کہ آئندہ خدانخواستہ لوگ اس درخت کی پوجا نہ شروع کردیں۔‘‘سلطان کا مطلب یہ تھا کہ قُبّے گرانا بھی درختِ رضوان کو کٹوانے کی طرح ہی ہے۔
ہندوستان کے تمام علماء نے یہ طے کیا کہ ہماری طرف سے شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندیؒ سلطان ابن سعود کی تقریر کا جواب دیںگے۔
مولانا عثمانیؒ کی ایمان افروز تقریر
مولانا عثمانیؒ نے پہلے تو اپنی شاندار پذیرائی اور مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا، اس کے بعد فرمایا:
(الف):- ’’ہندوستان کے اہلِ سنت علماء پوری بصیرت کے ساتھ تصریح کرکے کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر پورا زور صرف کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل اتباع میں ہی ہر کامیابی ہے، لیکن کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مواقعِ استعمال کو سمجھنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے صائب رائے اور صحیح اجتہاد کی اشد ضرورت ہے:
۱:- حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ سے نکاح فرمایا اور اس بات کا بالکل خیال نہ رکھاکہ دنیا کیا کہے گی؟ دوسری طرف خانہ کعبہ کو گرا کر بنائے ابراہیمی پر تعمیر کرنے سے نئے نئے مسلمانوں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے، تاکہ دنیا والے یہ نہ کہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خانہ کعبہ ڈھادیا۔ دونوں موقعوں کا فرق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادِ مبارک پر موقوف ہے۔
۲:- اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: ’’جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ‘‘ (یعنی کفار ومنافقین سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو) ایک طرف تو اس حکمِ خداوندی کا تقاضا ہے کہ کفار ومنافقین کے ساتھ سختی کی جائے اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھا دی، پھر صحابہؓ نے عرض کیا کہ: منافقین کو قتل کردیا جائے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات منظور نہ فرمائی ’’خشیۃَ أن یقول الناسُ إن محمدًا یقتل أصحابَہ‘‘ (یعنی اس اندیشہ کے پیشِ نظر کہ لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوںکو قتل کرتے ہیں) حالانکہ یہ دونوں باتیں ’’وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ‘‘ سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتیں تو اس فرق کو سمجھنے کے لیے بھی مجتہدانہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے، جو ہما وشما کے بس کی بات نہیں اور ایسے مواقع پر فیصلہ کرنے کے لیے بڑے تفقُّہ اور مجتہدانہ بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے کہ نص کے تقاضے پر کہاں عمل کیا جائے گا اور کس طرح عمل کیا جائے گا؟ یہ تفقُّہ اور اجتہاد کی بات ہے۔
(ب):- سجدۂ عبادت اور سجدۂ تعظیم کا فرق بیان کرتے ہوئے مولانا عثمانی ؒ نے فرمایا:
’’اگر کوئی شخص کسی قبر کو یا غیر اللہ کو سجدۂ عبادت کرے تو وہ قطعی طور پر کافر ہوجاتاہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر سجدہ سجدۂ عبادت ہی ہو-جو شرکِ حقیقی اور شرکِ جلی ہے- بلکہ وہ سجدۂ تحیت بھی ہوسکتا ہے، جس کا مقصد دوسرے کی تعظیم کرنا ہوتا ہے اور یہ سجدۂ تعظیمی شرکِ جلی کے حکم میں نہیں ہے۔ ہاں! ہماری شریعت میں قطعاً ناجائز ہے اور اس کے مرتکب کو سزا دی جاسکتی ہے، لیکن اس شخص کو مشرک قطعی کہنا اور اس کے قتل اور مال ضبط کرنے کو جائز قرار نہیں دیاجاسکتا۔ خود قرآن پاک میں حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے سجدہ کرنے اور حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں اور والدین کے سجدہ کرنے کا ذکر موجود ہے اور مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سجدہ سے معروف سجدہ (زمین پر ماتھا رکھنا) ہی مراد لیاہے اور پھر اس کو سجدہ ٔ تعظیمی ہی قرار دیا ہے۔ بہرحال اگر کوئی شخص کسی غیر اللہ کو سجدۂ تعظیمی کرے تو وہ ہماری شریعت کے مطابق گنہگار تو ہوگا، لیکن اسے مشرک، کافر اور مباح الدم والمال قرار نہیں دیاجاسکتا اور اس بیان سے میرا مقصد سجدۂ تعظیمی کو جائز سمجھنے والوں کی وکالت کرنا نہیں، بلکہ سجدۂ عبادت اور سجدۂ تعظیمی کے فرق کو بیان کرنا ہے۔ رہا مسئلہ قُبّوں کے گرانے کا، اگر ان کا بنانا صحیح نہ بھی ہو تو ہم قُبّوں کو گرادینا بھی صحیح نہیں سمجھتے۔ امیر المؤمنین ولید بن عبد الملک عبشمی (اُموی) نے حاکمِ مدینہ حضرت عمر بن عبد العزیز عبشمی کو حکم بھیجا کہ امہات المؤمنین کے حجراتِ مبارکہ کو گرا کر مسجدِ نبوی کی توسیع کی جائے اور حضرت عمر بن عبد العزیز عبشمی نے دوسرے حجرات کو گراتے ہوئے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ بھی گرادیا، جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کی قبریں ظاہر ہوگئیں تو اس وقت حضرت عمر بن العزیزؒ اتنے روئے کہ ایسے روتے کبھی نہ دیکھے گئے تھے، حالانکہ حجرات کو گرانے کا حکم بھی خودہی دیا تھا۔ پھر سیدہ عائشہؓ کے حجرے کو دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم دیا اور وہ حجرۂ مبارکہ دوبارہ تعمیر ہوا۔
اس بیان سے میرا مقصد قبروں پر گنبد بنانے کی ترغیب دینا نہیں، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ قبورِ اعاظم کے معاملے کو قلوب الناس میں تاثیر اور دخل ہے جو اُس وقت حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے بے تحاشا رونے اور اس وقت عالمِ اسلام کی آپ سے ناراضگی سے ظاہر ہے۔
(ج) :- حضرت عمرؓ نے درخت کو اس خطرہ سے کٹوادیا تھا کہ جاہل لوگ آئندہ چل کر اس درخت کی پوجا نہ شروع کردیں۔ بیعتِ رضوان ۶ ہجری میں ہوئی تھی اور حضور علیہ السلام کا وصال پُر ملال ۱۱ ؍ہجری میں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفۂ اول کے عہدِ خلافت کے اڑھائی سال بھی گزرے، لیکن اس درخت کو کٹوانے کا نہ حضور علیہ السلام کو خیال آیا، نہ صدیق اکبرؓ کو۔ ان کے بعد حضرت عمرؓ کی خلافت راشدہ قائم ہوئی، لیکن یہ بھی متعین نہیں ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی دس سالہ خلافت کے کون سے سال میں اس درخت کے کٹوانے کا ارادہ کیا۔ گو حضرت عمرؓ کی صوابدید بالکل صحیح تھی، لیکن یہ گنبد تو صدیوں سے بنے چلے آرہے تھے اور اس چودھویں صدی میں بھی کوئی آدمی ان کی پرستش کرتاہوا نہیں دیکھا گیا۔
(ہ):- رہا وہاں نماز پڑھنا، تو حدیثِ معراج میں آتاہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے حضور علیہ السلام کو چار جگہ براق سے اُترکر نماز پڑھوائی، پہلے مدینہ میں اور بتایا کہ یہ جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی ہے ، دوسرے جبل طور پر کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا، پھر مسکنِ حضرت شعیب ؑپر، چوتھے بیت اللحم پر جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی۔ (نسائی شریف، کتاب الصلوٰۃ، ص:۸۰، مطبع نظامی، کانپور، ۱۲۹۶ھ)
۱:- پس اگر جبلِ طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھوائی گئی کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کلام کیاتھا، تو جبلِ نور پر ہم کو نماز سے کیوں روکا جائے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی پہلی وحی حضور علیہ السلام پر آئی تھی؟
۲:-مسکنِ شعیبؑ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز پڑھوائی گئی تو کیا غضب ہوجائے گا جو ہم مسکنِ خدیجۃ الکبریٰؓ پر دو نفل پڑھ لیں؟ جہاں حضور علیہ السلام نے اپنی مبارک زندگی کے اٹھائیس نورانی سال گزارے تھے۔
۳:- جب بیت اللحم مولدِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضور علیہ السلام سے دو رکعت پڑھوائی جائیں تو اُمتِ محمدیہ کیوں مولدِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دو رکعت پڑھنے سے روکی جائے؟ جبکہ طبرانی نے مقام مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’أنفس البُقاع بعد المسجد الحرام في مکۃ‘‘ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے بعد مقام مولدِ نبی کریم علیہ التسلیم کو کائناتِ ارضی کا نفیس ترین ٹکڑا قرار دیا ہے۔
۴:- مسکنِ شعیبؑ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پناہ لی تھی، تو اس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو نفل پڑھوائے گئے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی جو ہم لوگ غارِ ثور -جہاں حضور علیہ السلام نے تین دن پناہ لی تھی- دو نفل پڑھ لیں؟
سلطان ابنِ سعود کا جواب
مولانا عثمانی ؒ کے اس مفصل جواب سے شاہی دربار پر سناٹا چھا گیا۔ آخر سلطان ابنِ سعود نے یہ کہہ کر بات ختم کی کہ:
’’میں آپ کا بہت ممنون ہوں اور آپ کے بیان اور خیالات میں بہت رِفعت اورعلمی بلندی ہے، لہٰذا میں ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتا۔ ان تفاصیل کا بہتر جواب ہمارے علماء ہی دے سکیں گے، ان سے ہی یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔‘
مولناامیرالزماں کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کےرسالہ،، فتنہ مرزائیت،،کی تقریظ میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں   
علمائے دیوبند اور فتنہ قادیانیت
 حضرات علمائے دیوبند ایک ٹھوس تعلیمی کام میں مشغول ہنگاموں اور پلیٹ فارموں سے دور رہنے کے عادی تھے۔ لیکن اس وقت فتنہ قادیانیت کا شیوع مسلمانوں کو ہزار طرح کے حیلوں سے مرتد بنانے کی اسکیم ناقابل تحمل ہوگئی تو دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور دوسرے اکابر علماء اس پر مجبور ہوئے کہ اس فتنہ کو مسلمانوں میں آگے نہ بڑھنے دیں۔ اس وقت ان اکابر کی ایک جماعت نے دیوبند سے صوبہ سرحد تک ایک تبلیغی دورہ کر کے جابجا اپنی تقریروں سے ان کے مکائد کی قلعی کھولی اور مسلمانوں کو ان کے شر سے آگاہ کیا۔
 قادیانیوں نے اپنے مکرو دجل اور مرزاقادیانی کے ذاتی حالات پر پردہ ڈالنے کے لئے چند علمی مسائل حیات عیسیٰ علیہ السلام، مسئلہ ختم نبوت وغیرہ میں مسلمانوں کو الجھا دیا تھا۔ جن سے درحقیقت مرزاقادیانی کی نبوت اور قادیانی مذہب کا کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر طویل الذیل علمی مسائل میں ہر شخص کو کچھ نہ کچھ بولنے کا موقع مل جاتا ہے اور اسی وجہ سے یہ بحثیں مسلمانوں میں چل پڑھیں۔ حضرات علمائے دیوبند نے تحریری طور پر بھی بیسیوں رسائل ان کے ہر مسئلہ اور ہر موضوع پر تصنیف فرمائے۔ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے قادیانیوں کی تکفیر پر رسالہ اکفار الملحدین، حیات عیسیٰ علیہ السلام کے ثبوت میں عقیدۃ الاسلام عربی زبان میں اور مسئلہ ختم نبوت (پر خاتم النبیین) فارسی زبان میں تصنیف فرمائے۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اسی زمانے میں رسالہ ’’الشہاب‘‘ لکھا۔ حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن چان پوریؒ ناظم تعلیم دارالعلوم نے ایک درجن سے زائد رسالے ہر موضوع پر لکھے۔(
بحوالہ احتساب قادیانیت جلد نمبر 34ص118)
اسی طرح شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نائب امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اپنے خطاب میں فرماتے ہیں کہ
کہ اللہ تبارک و تعالٰی مرتدوں کے مقابلے میں ایک قوم کو کھڑا کرے گا:
ارشاد باری تعالی ہے :
يا ايها الذين امنو من يرتد منكم عن دينه فسوف حياتي الله بقوم يحبهم ويحبونه اذلة على المومنين اعزة على الكافرين يجاهدون فى سبيل الله و لا يخافون لومة لائم ذالك فضل الله يوتيه من يشاء والله واسع عليم
(سوره مائده : آیت نمبر ۵۴) ترجمہ : اے ایمان والو! تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے گا ( مرتد ہو جائے گا، پس جلدی اللہ تعالیٰ اس کے مقابلے میں ایک قوم کو کھڑا کرے گا جسے اللہ محبوب رکھے گا اور وہ اللہ کو محبوب رکھیں گے مومنوں کے حضور پست ہو کر رہیں گے (سرنگوں رہیں گے) کافروں کے مقابلے میں عزت والے ہوں گے (دبدبے والے ہوں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں: یہ
اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے"۔ چنانچه قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کے مطابق واقعہ پیش آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد عرب کے قبائل مرتد ہو گئے اور کچھ نے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کی نبوت کو تسلیم کر لیا ۔ یہ پیشین گوئی کا پہلا حصہ تھا کہ تم میں سے کچھ لوگ مرتد ہوں گے۔ دوسرے حصے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مرتدوں کے مقابلے میں ایک قوم کو کھڑا کرنے کا
اعلان فرمایا اور اس کی چھ صفات بھی بیان فرمائیں۔ ذکورہ چھ صفات سے متصف ایک جماعت حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کی قیادت میں کھڑی ہوئی اور ان مرتدین کا قلع قمع کیا۔ بلاشبہ مندرجہ بالا چھ صفات پر حضرت ابو بکر صدیق
اور ان کی جماعت ہی پورا اتر سکتی تھی کہ یہ بڑے نصیب کی بات ہے: لاہور موچی دروازہ میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا جلسہ تھا اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کی تقریر تھی۔ آپ نے کہیں آیات تلاوت فرمائیں اور کہا آج کے دور میں ان آیات کا مصداق سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور ان کی جماعت ہے۔" (خطاب حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی "، "ختم نبوت کانفرنس ۷ / مئی ۱۹۹۲ء، ایبٹ آباد) (محمد ساجد منکیرہ
مبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت میانوالی خوشاب) (وفات: 13 دسمبر 1949ء) ( #ایس_اے_ساگر )

No comments:

Post a Comment