Wednesday, 5 November 2025

دلہن سے نکاح کی اجازت لینے کا صحیح طریقہ کیا ہے

دلہن سے نکاح کی اجازت لینے کا صحیح طریقہ  کیا ہے

-------------------------------
-------------------------------

سوال:حضرت مفتی شکیل صاحب ودیگر مفتیان توجہ فرمائیں ـ منسلکہ ویڈیو کی روشنی میں  دلہن سے نکاح کی اجازت لینے کا صحیح طریقہ کیا ہے، براہ کرم رہبری فرمائیں۔

(مولانا) محمود احمد خاں دریابادی، ممبئی


الجواب وباللہ التوفیق: 

بلاوجہ کی تشویش وہیجان انگیزی ہے۔ نکاح کے باب میں عورت سے استیذان بلاشبہ ضروری ہے، تاہم اس کے ولی (جیسے والد، بھائی وغیرہ) کی اجازت بھی شرعاً معتبر اور کافی ہے۔ عملاً یہ ہوتا ہے کہ مسجد کے امام صاحب، دو گواہوں کے ہمراہ، اجازت لینے کے لیے خود تشریف لے جاتے ہیں؛ اگرچہ اس موقع پر گواہوں کی موجودگی فی نفسہٖ شرط نہیں، مگر بہتر ضرور ہے۔ عموماً پھر وہی امام صاحب یا قاضی جی ایجاب و قبول کی کارروائی بھی انجام دیتے ہیں۔ تاہم افضل یہی ہے کہ اجنبی کے بجائے خود کوئی محرم ولی یہ عمل سرانجام دے۔ اگر اجنبی قاضی یا امام مسجد اجازت لینے کے لیے نہ بھی جائے، بلکہ باپ، بھائی یا کوئی دوسرا شرعی ولی تنہا اپنی ولایت کی بنا پر یا اجازت حاصل کرنے کے بعد امام مسجد یا قاضی کو نکاح پڑھانے کا حکم دے دے اور خود بھی مجلسِ نکاح میں موجود ہو، جیسا کہ اکثر مواقع پر ہوتا ہے تو قاضی یا امام کی حیثیت صرف رابطہ کار یا ایجاب و قبول کروانے والے نمائندے (معبّر) کی ہوتی ہے۔ اس صورت میں توکیل علی التوکیل کا مفہوم پیدا نہیں ہوتا۔ عورت کی طرف سے اجازت بھی عموماً علی الاطلاق ہی دی جاتی ہے، وہ اجازت کسی مخصوص شخص یا نمائندے کے ساتھ خاص نہیں ہوتی۔ لہٰذا ایک سادہ اور واضح فقہی مسئلے کو بلاوجہ پیچیدہ اور الجھا ہوا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ فقط  

واللہ اعلم بالصواب 
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com

 https://saagartimes.blogspot.com/2025/11/blog-post.html

 


No comments:

Post a Comment