علامہ ابن أبي العز حنفی (731 - 792 هـ) کے افکار وخیالات
آج حلقۂ مركز البحوث الإسلامية العالمي میں مشہور عالمِ دین علامہ ابنِ ابی العز الحنفي سے متعلق ایک سوال کے ضمن میں فضلاءِ حلقہ نے نہایت بصیرت افروز اور تحقیقی نکات پر مشتمل گفتگو فرمائی۔ اُنہوں نے علامہ موصوف کے افکار و آراء، عقائد وخیالات کا علمی تجزیہ کرتے ہوئے بالخصوص شرحِ عقیدہ طحاویہ کے ضمن میں اُن کے فکری رجحانات اور بعض قابلِ توجہ انحرافات پر نہایت عالمانہ اور چشم کشا تبصرے پیش کئے۔ تعمیمِ فائدہ کے پیشِ نظر ان منتشر؛ مگر گراں قدر تعلیقات کو جمع کیا جارہا ہے، تاکہ بہ وقت ضرورت بطور مرجع کام آسکیں:
سوال: آسان علم کلام (مؤلفہ مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم صفحہ ۱۰۰) میں 'العقیدۃ الطحاویۃ' کی بابت یہ جو بات کہی گئی ہے، یہ کہاں تک درست ہے؟
"آج کل حنابلہ کے یہاں ان کے مذہب کی ترجمان کی حیثیت سے جو کتاب سب سے زیادہ مقبول ہے اور اہل علم کا مرجع ہے وہ امام جعفر احمد بن محمد بن الطحطاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (مولود: 239 ہجری، متوفی: 322 ہجری) کی تالیف "عقیدہ الطحطاوی" اور قاضی ابوالحسن علی بن علاء الدین کل ابن العز دمشقی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے اس کی شرح ہے، یہی متن و شرح موجودہ خلیجی ممالک میں عقیدہ کی کتاب کی حیثیت سے سب سے زیادہ معتبر مانی جاتی ہے۔"
سائل: مفتی مدثر قاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
یہ بات درست ہے لیکن متن سے زیادہ ابوالعز الحنفی جو اصولاً معتزلی اور فروعا حنفی ہیں، ان کی شرح زیادہ مقبول ہے اسی لیے صفات باری تعالیٰ میں کئی جگہیں انھوں نے جمہور اہل سنت والجماعت کے عقائد کے خلاف باتیں لکھی ہیں اور ان سب کا اچھا تعاقب مفتی رضاء الحق حنفی صاحب نے العصیدۃ السماویہ میں کیا ہے۔ (حذیفہ نوری قاسمی)
عجیب بات لکھی ہے۔ عقیدۂ طحاویہ ہمارا متن ہے، غیرمقلدین کو متن سے غرض نہیں، انھوں نے شروح گھڑ کر اپنے معانی بنائے ہیں۔ (مفتی محمد توصیف قاسمی لکھنوی)
ان کا نام ابن ابی العز حنفی ہے اور یہ اصولاً سلفی تھے، معتزلی نہیں۔ ان کی شرح سلفی اور غیر مقلد حضرات کے یہاں کافی مقبول ہے۔ سلفی تحریکوں کے ذریعہ ابن ابی العز کی شرح کے ایک لاکھ سے زائد نسخے پوری دنیا میں نشر کئے جاچکے ہیں۔ شرح بہت اچھی ہے بس چند مقامات پر جہاں اشاعرہ/ماتریدیہ اور محدثین کا اختلاف ہے اس میں ابن ابی العز نے سلفی محدثین کا سپورٹ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے اس زمانے کے شام کے احناف نے ان کی اس شرح پر نکیر کی تھی۔ حافظ ابن حجر نے 'الدرر الکامنہ' اور ان کے شاگرد سخاوی نے 'الضوء اللامع' میں اس سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کی ہیں۔ (مفتی محمد انوار خان قاسمی بستوی، دیوبند)
جہاں تک میرا ذاتی مطالعہ اور تحقیق ہے، اس کے مطابق ابنِ ابی العزؒ، جو اپنے ساتھ "الحنفی" کا لاحقہ بھی لگاتے تھے، وہ حقیقتاً نہ تو مکمل حنفی تھے، اور فکری و کلامی اعتبار سے وہ اشعریہ و ماتریدیہ سے کئی کلامی مسائل میں بنیادی اختلاف رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شرح سلفی مکتب فکر میں مستند و معتبر تسلیم کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں راقم الحروف کی کوتاہ نظر میں، صاحب العقیدہ السماویہ، مفتی رضا الحق زید مجدہ نے ان پر جگہ جگہ گرفت فرمائی ہے، مگر اُن کی یہ تنقید متین یکجا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مولانا محمد سجاد الحجابی زید مجدہ نے اپنی کتاب محاضرات فی العقیدہ و علم الکلام میں ایک انتہائی محققانہ مقالہ تحریر فرما کر ابنِ ابی العزؒ کی زلات، لغزشوں اور علمی مغالطوں کو واشگاف فرمایا ہے، جس میں چند نکات ملاحظہ ہوں:
1. ابنِ ابی العزؒ ابتدا حنفی تھے، بعد میں ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے متاثر ہوکر حنفی نہیں رہے تھے۔ یہی وجہ ہے وہ اپنی شرح میں ابنِ تیمیہؒ کی تصانیف سے صفحات کے صفحات نقل کرتے ہیں اور نسبت اُن کی طرف نہیں کرتے۔ تقریباً 180 مقامات پر ابنِ ابی العزؒ نے ابنِ تیمیہؒ اور ابنِ قیمؒ کی تحقیقات نقل فرمائی ہیں۔
2. عصمتِ انبیاء کے مسئلہ میں ابنِ ابی العزؒ نے جمہور سے انحراف کیا، تو حنفی علماء نے ان پر رد کیا (ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ)۔
3. ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ابنِ ابی العزؒ نفیِ تشبیہ کے ساتھ علو مکان کے قائل ہیں، جو مجسمہ اور مشبہہ کا عقیدہ ہے۔
4. اس شرح کی تشہیر غیر مقلدین خوب کرتے ہیں۔ علامہ البانیؒ نے اس کی احادیث کی تخریج کی ہے اور 62 صفحات پر مشتمل ایک مقدمہ لکھا ہے۔ وہ پورا کا پورا حنفیہ کا رد ہے اور شیخ زاہد بن حسن الکوثری رحمۃ اللہ علیہ پر گالیوں اور لعن طعن کی بوچھاڑ سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں تک کہ محمد ابنِ حسن الشیبانیؒ کو بھی ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ اسی لئے حضرت کوثری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
"ایک مجہول آدمی کی شرح شائع ہوئی ہے جس کی نسبت مذہبِ حنفی کی طرف جھوٹی ہے، اور اس کے ہاتھ کی کاوش بذاتِ خود یہ اعلان کررہی ہے کہ مؤلف اس فن سے جاہل، نابلد اور حشوی ہے جس کی کسوٹی بگڑی ہوئی ہے۔"
مذکورہ بالا نکات کو پیش کر کے راقم صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ مولانا باقریؒ کی اس شرح میں جا بجا اسی مذکورہ شرح کے حوالہ نظر آتے ہیں، اس لیے اہل علم، صاحبِ فن، خاص کر مفتی مجد القدوس رومی صاحب زید مجدہ، حکیم فخر الاسلام صاحب، نیز مولانا معاویہ سعدی صاحب جیسے اصحاب، اس کتاب کے ما لہ وما علیہ پر نظر ثانی فرمائیں، کہ کہیں ابنِ ابی العزؒ کی ہفوات، زلات اور لغزشوں کے اثرات آن حضرتؒ کی کتاب میں تو نہیں در آئے۔ (مولانا سید سعدی قاسمی)
علامہ ابن ابی العز کے ساتھ حنفی لاحقہ سلفیوں کی تلبیس ہے، یہ وہی شناختی اسٹریٹجی ہے جو بی جے پی بعض فضلا کی نسبت اختیار کرتی ہے، خوب معلوم ہے کہ فاضل اب "دیر" میں ہے،: آمادۂ قشقہ" ہے، "کب کا ترک اسلام ہوا"؛ مگر فرمان ہے کہ قاسمی لاحقہ نمایاں رکھو، ایک شخص تقلید ترک کر چکا، اجتہاد کا مدعی ہوا، ابن تیمیہ کا بھگت بنا، پھر بھی آپ اس کی متنازعہ تصنیف پر حنفی لکھتے ہیں، سلفیوں کی ہٹ دھرمی اور بی جے پی کی ضد؛ دونوں ایک ہی خانے اور ایک ہی مصرف میں ہیں: تلبیس، مغالطہ اور نفاقِ نسبت۔ (مفتی محمد فہیم الدین قاسمی بجنوری، بنگلور)
موجودہ سلفی تو ابھی جلدی کی پیداوار ہیں۔ ابن ابی العز فروعا حنفی تھے اصولا نہیں۔ جیسے ذہبی اور ابن کثیر وغیرہ فروعا شافعی تھے لیکن اصولا سلفی یا حنبلی۔ ابن ابی العز کا فروعا حنفی ہونا تاریخ سے ثابت ہے۔ شعیب ارناووط کا نسخہ ابن ابی العز کا ملاحظہ فرمائیں۔ کچھ حضرات نے یہ بات اٹھائی ہے کہ ابن ابی العز حنفی نہیں تھے لیکن یہ تاریخی طور پر درست نہیں ہے۔ وہ فقہ میں حنفی ہی تھے لیکن فروع میں اثری تھے۔ ایسا کوئی مستبعد نہیں۔ بہت مثالیں ہیں اس کی۔ اصل میں انسان کے اساتذہ کا اثر اس کی عقلیت اور فکر پر بہر حال پڑتا ہے۔ چونکہ ملک شام میں ابن ابی العز کے کئی اساتذہ اثری یا حنبلی تھے اس لیے وہ ان سے متاثر ہوگئے۔ حافظ ابن کثیر ابن ابی العز کے استاذ خاص ہوتے ہیں اور ابن تیمیہ ابن کثیر کے استاذ خاص۔ یہیں سے ابن ابی العز کی فکر بدلی۔ (مفتی انوار خان قاسمی بستوی)
آپ نے تحقیق کی ہے تو تسلیم کے ماسوا چارہ نہیں کہ حنفی رہ گئے ہوں گے، تاہم ان کے انداز میں اس کی گنجائش کم ہے، علامہ زاہد کوثری علیہ الرحمہ نے تصریح کی ہے کہ ان کی حنفی نسبت جعلی ہے؛ لیکن میرے نزدیک آپ کی تحقیق مقدم ہے، علامہ کوثری مخالفین کی پٹائی میں توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔ (مفتی فہیم الدین بجنوری)
ابن أبی العز گوکہ حنفی نسبت سے مشہور ہیں؛ مگر ناچیز کی تعبیر میں وہ فکری طور پر "مضطرِب عالم" تھے، نسبت حنفیت بھی محقق نہیں ہے۔ انہوں نے امام ابوجعفر الطحاویؒ کی شہرۂ آفاق کتاب العقیدة الطحاویة کی شرح تو لکھی؛ مگر متن کی تشریح وتوضیح کی بجائے متن کی یک گونہ تحریفِ معنوی کا آئینہ بن گئی۔ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عقیدۂ طحاویہ میں ذاتِ باری تعالیٰ کو جسم، جہت اور حوادث سے منزّہ قرار دیا تھا، مگر ابن أبي العز نے ان صریح عباراتِ تنزیہ کی تاویلات فاسدہ کرکے انہیں اہلِ تجسیم کے موافق محملوں پر ڈھال کر "ظاہریتِ تیمی" کے رنگ میں رنگ دینے کی مکمل سعی کی ہے، ان کی شرح میں تجسیم و تشبیہ جھلکتے نہیں؛ "چھلکتے" محسوس کریں گے۔ علامہ ابن تیمیہ و ابن القیم رحمہما اللہ کے افکار سے حد درجہ متأثر تھے، اسی اثر نے شرح عقیدہ طحاوی کی تالیف میں ان کے قلم سے وہ تعبیرات صادر کروائیں جو روحِ طحاوی کے خلاف اور مسلکِ احناف سے بعید تر تھیں؛ اسی لئے ائمۂ محققین نے ان کی شرح سے احتیاط کی تلقین فرمائی ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح فقہ اکبر میں انہیں اہلِ تجسیم و مشبّہہ کی صف میں شمار کرتے ہوئے ان کی تاویلات کو فاسد اور محدَث وبدعت قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اور حافظ ابن رجبؒ سمیت دیگر اکابرِ اہلِ علم نے ان کے انحرافات پر نکیر فرماتے ہوئے ان کے اقوال کو مردود ٹھہرایا ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ ابن أبی العز نے ابن تیمیہ کے تلامذہ کی فکری زنجیر میں منسلک ہونے کے باوجود، "قِدَمُ النَّوع" جیسے مسائل میں "فکر تیمی" سے اختلاف کیا ہے، جس سے ان کا "فکری تذبذب اور اضطراب" آشکارا ہوتا ہے۔ ان کی شرح طحاویہ اپنے بسط و بیان کے سبب گوکہ سلفیوں اور ظاہر یوں کے ہاں مشہور ہوگئی، مگر اہلِ تحقیق کے نزدیک وہ علمی التباس، فکری اضطراب، اور عقائدِ احناف سے انحراف کا مظہر ہے،عقائد طحاوی کی آئینہ دار نہیں ہے۔ فقط۔ (مفتی شکیل منصور القاسمی، بانیِ حلقہ)
بعض "ارکانِ سوقِ بداں" کہتے ہیں کہ وہ پیدائشی مسلمان ہیں، اس کی تشریح یہ ہے کہ وہ بمبئی آنے کے بعد اسلام کے پیروکار نہیں رہے، ہاں وہ مسلم والدین کے گھر پیدا ہوئے تھے، جانبین کے دلائل دیکھنے سے واضح ہوا کہ علامہ ابن ابی العز بس اسی معنی میں حنفی ہیں، یعنی وہ حنفی گھرانے میں پیدا ہوئے، حنفی مدارس میں تعلیم پائی، حنفی اداروں میں مدرس رہے؛ لیکن تیمی فکر سے متاثر ہونے کے بعد حنفی اداروں سے وابستگی کا ثبوت نہیں ملتا، پھر تو وہ فقہ اور فروع میں بھی مجتہد بن گئے تھے، حنفی فقہی مسائل کے خلاف موقف اختیار کرتے تھے، ان امور کی تصریح اہل تحقیق نے کی ہے۔ (مفتی فہیم الدین قاسمی بجنوری)
(جمع وترتیب: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/10/731-792.html
No comments:
Post a Comment