Sagar Times

Monday, 23 July 2018

تعزیت مسنونہ، تعزیتی اجلاس کا ثبوت، طعام میت اور سوگ میں خموشی

تعزیت مسنونہ، تعزیتی اجلاس کا ثبوت، طعام میت اور سوگ میں خموشی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ایک مکمل دین اور مستقل تہذیب ہے۔ اس میں زندگی کے ہر مسئلہ کا حل موجود ہے۔ کسی بھی دوسرے مذہب اور تہذیب وتمدن سے کچھ لینے اور خوشہ چینی کی ضرورت نہیں۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 208 مسلمانوں سے جو مطالبہ کیا گیا ہے وہ بہت ہی عام ہے کہ اسلامی عقائد واعمال اور احکام وتعلیمات کی صداقت وحقانیت پہ دل ودماغ بھی مطمئن ہو اور اعضاء وجوارح بھی عملی ثبوت پیش کریں۔
یہ حقیقت مسلم ہے کہ یہ دنیا رنج وراحت کا الگ الگ انداز رکھتی ہے۔
یہاں آرام وخوشی کے ساتھ دکھ ورنج بھی ہے۔ غمی کے ساتھ شادمانی بھی ہے۔تلخی کے ساتھ شیرینی بھی ہے ۔سردی کے ساتھ گرمی بھی یے۔
خوشی اور مسرت وشادمانی کے موقعوں پر مبارکباد دینا "تہنیت"۔ اور غم کے موقعوں سے مصیبت زدہ کے غم میں شریک ہونا۔ اسے تسلی دینا صبر دینا ماتم پرسی کرنا دلاسہ اور ہمت دلانا "تعزیت" کہلاتا ہے۔
معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں "تعزیت وتہنیت"
کی تشفی بخش ھدایات موجود ہیں۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں
صرف اس قدر عرض ہے ہر صاحب ایمان بندے کے لئے تعزیت ونصیحت اور تسلی وتشفی دینا "سنت" ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام جاہلیت کے رواج یافتہ تمام ماتمی رسومات ختم فرماتے ہوئے انسانی فطری غم کے اظہار کے لئے تعزیت کا مسنون طریقہ یہ بتایا ہے کہ موت کے بعد خواہ قبل دفن ہو یا بعد دفن۔تین دن تک میت کے تمام رشتہ داروں سے تعزیت کی جائے خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔ ہاں عورتوں کے سلسلہ میں یہ قید ہے کہ وہ محرم ہوں۔ غیر محرم عورتوں سے تعزیت درست نہیں۔ تین دن کے بعد تعزیت کرنا پسندیدہ نہیں کہ اس سے خواہ مخواہ غم تازہ ہوگا اور شکستگی اور مایوسی تازہ ہوتی جائے گی۔
البتہ اگر تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جارہی ہے وہاں موجود نہ ہو یا اسے علم نہ ہو تو تین دن کے بعد بھی حرج نہیں اور خط وکتابت کے ذریعہ بھی تعزیت کی جاسکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل جبل رضي اللّٰہ عنہ کے بیٹے کے انتقال پہ تعزیت نامہ لکھوایا تھا۔
عن معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ أنہ مات لہ ابن، فکتب إلیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعزیہ علیہ: بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ من محمد رسول اللّٰہ إلی معاذ بن جبل، سلام علیک، فإني أحمد اللّٰہ إلیک الذي لا إلٰہ إلا ہو۔ أما بعد! فأعظم اللّٰہ لک الأجر، وألہمک الصبر، ورزقنا وإیاک الشکر، فإن أنفسنا وأموالنا وأہلینا وأولادنا من مواہب اللّٰہ عزوجل الہنیئۃ، وعواریہ المستودعۃ، متَّعک بہ في غبطۃٍ وسرورٍ، وقبضہ منک بأجرٍ کبیرٍ، الصلاۃُ والرحمۃُ والہدیٰ إن احتسبتَہ فاصبِر، ولا یحبط جزعُک أجرَک فتندَمَ، واعلم أن الجزع لا یردّ شیئًا، ولا یدفع حزنًا، وما ہو نازلٌ فکان قد۔ والسلام۔ (المستدرک للحاکم، کتاب معرفۃ الصحابۃ / ذکر مناقب أحد الفقہاء الستۃ من الصحابۃ، معاذ بن جبل رضي اللّٰہ عنہ ۳؍۳۰۶ رقم: ۵۱۹۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت، المعجم الکبیر للطبراني / محمود بن لبید الأنصاري ۲۰؍۳۲۴ مکتبۃ الزہراء الموصل، وہٰکذا في مجمع الزوائد / باب التعزیۃ ۳؍۳ دار الریان للتراث القاہرۃ)
ولا بأس بتعزیۃ أہلہ وترغیبہم من الصبر، وفي الشامي: أي تصبیرہم والدعاء لہم بہ۔ (الدر المختار مع الشامي ۳؍۱۴۷)
ونقل الطحاوي عن شرح السید: أنہ لا بأس بالجلوس لہا ثلاثۃ أیامٍ من غیر ارتکاب محظورٍ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ / مادۃ تعزیۃ ۱۲؍۲۸۹ کویت)
اگرمیت کے متعلقین تک خود جاکر تعزیت کا موقع نہ ہواور میت ایسی مرکزی شخصیت کی مالک ہوکہ جس کے انتقال سے بہت لوگوں کوصدمہ ہو، یابہت لوگ تعزیت کی ضرورت محسوس کریں اور سب کا پہنچنا دشوار ہو تواس کے لئے سہل صورت یہ ہے کہ ایک جلسہ کرکے تعزیت کردیجائے اس میں بڑی جماعت سفر کی زحمت سے بچ جاتی ہے اور میت کے متعلقین پرکثیر مہمانوں کا بار بھی نہیں پڑتا اور مجمعِ عظیم کی متفقہ دُعاء بھی زیادہ مستحق قبول ہے، بظاہر اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں؛ لیکن بہت جگہ اس نے محض رسم کی صورت اختیار کرلی ہے کہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ اخبار میں نام آجائے اور ہماری شہرت ہوجائے؛ اگرہم نے تعزیتی جلسہ نہ کیا تولوگ ملاملت کریں گے وغیرہ وغیرہ؛ اگرچہ یہ صورت ہوتو پھرا س کا ترک کرنا چاہئے۔
(فتاویٰ محمودیہ:۹/۲۵۴،مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند)۔۔۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ حضرت امیر معاویہ جبل رضي اللّٰہ عنہ کے عہد امارت میں کوفہ کے والی تھے۔ سنہ ٥٠ہجری میں ان کا انتقال ہوا ۔ بیٹے عروہ کو عارضی طور پہ نائب بناگئے تھے تو حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کوفہ میں سب کو جمع فرمایا۔ اجتماع عام سے خطاب فرماتے ہوئے حضرت مغیرہ جبل رضي اللّٰہ عنہ کے اوصاف وکمالات پہ روشنی ڈالی۔ ان کے لئے استغفار فرمایا۔ اور یوں تعزیتی جلسہ کا انعقاد عمل میں آیا۔
58 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ يَوْمَ مَاتَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَالَ عَلَيْكُمْ بِاتِّقَاءِ اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَالْوَقَارِ وَالسَّكِينَةِ حَتَّى يَأْتِيَكُمْ أَمِيرٌ فَإِنَّمَا يَأْتِيكُمْ الْآنَ ثُمَّ قَالَ اسْتَعْفُوا لِأَمِيرِكُمْ فَإِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ الْعَفْوَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ
صحيح البخاري. كتاب الإيمان.
باب الدين النصيحة.
وأخرجه مسلم برقم 56 و 83....والترمذي برقم 192....والنساي في سننه برقم 4156....وأحمد برقم 18671.....والدارمي برقم 2540.).
میت اگر صاحب ایمان تھا تو تعزیت کرنے والے اس کے لئے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب  کرے۔ اور اہل میت کے لئے تسلی کے کلمات کہے اور صبر کی تلقین کرے۔
تعزیت کے الفاظ اور اس کا مضمون متعین نہیں الگ الگ اور مختلف ہے۔ صبر وتسلی کے لئے جو کلمات بھی موزوں اور مناسب ہوں وہ کہے جائیں۔ بہتر یہ ہے کہ یہ جملہ کہے:
ان لله ما أخذ وله ما أعطي وكل عنده بأجل مسمى .فالتصبر ولتحتسب. 
(جو لیا وہ اسی کا تھا اور جو دیا وہ اسی اللہ کا تھا ۔اللہ کے یہاں ہر چیز ایک معین مدت تک کے لئے ہے۔ پس صبر کر اور ثواب کی امید رکھ۔ مشکوة صفحہ150۔ باب البکاء علی المیت  ) ۔۔۔۔۔۔ بعض حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
أعظم الله أجرك وأحسن عزاك وغفر لميتك. 
(اللہ تم کو اجر عظیم عطاء فرمائے ۔تیرے صبر کا اچھا بدلہ دے۔ اور تیرے مردے کو بخش دے۔۔درمختار جلد 1۔صفحہ 843۔مطلب فی الثواب علی المعصیہ ۔
اگر میت بچہ یا مجنوں یا کوئی بھی غیر مکلف ہو تو "غفر لمیتک" نہ کہے۔
اسلام کےاعلی اخلاق واقدار کی ہی تعلیم  ہے کہ وہ غیر مسلم کی بیماری میں مزاج پرسی کو اللہ کی رضاء وقرب کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر مسلم مریض کی عیادت ثابت ہے۔
فقہی کتابوں میں ان کے انتقال کے وقت ان کے رشتہ داروں کے لئے تعزیت کا جواز اور مناسب کلمات تعزیت بھی مصرح ہے۔
غیر مسلم کی تعزیت کے وقت یہ کلمات کہے جائیں:
أعظم الله أجرك وأحسن عزاك 
(اس مصیبت پہ اللہ تعالی بڑا اور اچھا بدلہ دے۔۔الموسوعہ 289/12 )
اسی طرح یہ جملہ بھی آیا ہے
"أخلف آلله عليك خيرا واصلحك"
(اللہ اچھا بدلہ دے۔ بعد میں اچھی صورت نکالے اور حال درست فرمائے۔۔۔ محمودیہ 161/9)
بتصریح قرآن کریم ہرگروہ اور ہر جماعت خواہ اہل حق میں سے ہو یا اہل باطل میں سے اپنی ہی مزعومات ومعتقدات اور آئیڈیالوجی میں مگن ہے۔
"كل حزب بما لديهم فرحون"  (الروم ۔32۔)۔
اس بنیاد پر اگر کسی تہذیب ومعاشرت میں اجتماعی تعزیت کے موقع سے کچھ دیر کی "خاموشی" یا موم بتیاں جلانا یا جھنڈے سر نگوں کرنا مروج ہو تو یہ اس کا "اندرون خانہ" معاملہ ہے ۔کسی کے عمل، طریقہ اور رواج کی تحقیر وتضحیک کئے بغیر اسلامی طریقہ تعزیت پہ عمل کی کوشش کرنی چاہئے۔ تعزیت کے یہ طریقے مسلمانوں کے لئے جائز نہیں۔ اسلامی طریقہ تعزیت سے ہٹ کے نئے نئے طریقے وضع کرنا افسوس ناک بھی یے اور اسلامی غیرت اور دینی حمیت کے خلاف بھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جو شخص کسی دوسری قوم کے اخلاق وعادات اور طور طریقہ کی پیروی کرنے لگے وہ انہی میں سے ہوجاتا ہے۔
اس لئے مسلمانوں کو اپنے ہر عمل کو سنت اور شریعت کی کسوٹی پر جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔
اگر مسلمان خاموشی والی نوعیت میں کہیں مبتلا ہوجائے تو موقع اور حالات کے لحاظ سے کوئی پہلو یا حکمت عملی اختیار کرلے ۔۔
فتاوی رحیمیہ385/1۔۔۔۔و 84/7۔
خیر الفتاوی 219/3۔۔۔۔اسرار حیات صفحہ 154۔
ترمذی شریف 127/1۔۔۔ابن ماجہ 116۔مشکوة 150۔۔الموسوعہ الفقہیہ 289/12۔۔درمختار 843/1۔
میت کے رشتہ داروں کی طرف سے پرتکلف کھانے کا اہتمام 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کے گھر میت ہو جائے اس کے پڑوس اور دور کے رشتہ داروں کے لئے یہ حکم ہے کہ ایک دن ایک رات متوسط اور معتدل انداز کا  افراط سے پاک قدر ضرورت طعام  بناکر اہل میت کے گھر بھیجیں۔ انہیں بزور واصرار کھلائیں۔ ان کے یہاں دور دراز سے نماز جنازہ میں شرکت کے لئے جو مہمان آئیں گے انہیں بھی کھلائیں۔
اس طرح صرف ایک دن ایک رات کھانا بھجوانا سنت ہے۔ اس میں بھی یہ شرط ہے کہ نام نمود ریاء وشہرت سے پاک ہو ۔پرتکلف کھانے کا ایسا اہتمام نہ ہو جیسا ولیمہ کے موقع سے کیاجاتا یے۔ اگر اس طرح کے انتظامات ہونگے تو پہر کھانے میں قباحت پیدا ہوگی اب تعزیت کے لئے جانے والوں کو نہ کھانا بہتر ہے۔
اس طرح کھانا بھیجنا تو جائز ہے ۔مختلف حدیثوں سے ثابت ہے۔اس کھانے کو "طعام لاھل المیت" کہتے ہیں۔
لیکن بعد دفن اسی روز یا دوسرے تیسرے چالیسویں روز اہل میت کی طرف سے لوگوںکے لئے کھانے کا انتظام کرنا  "طعام میت " کہلاتا ہے جو امور جاہلیت میں سے ہے بدعت ہے اور گناہ ہے۔ ہاں اگر نیت ایصال ثواب کرنے کی ہو تو گنجائش ہے بشرطیکہ کھانے والے صرف فقراء ہوں، اسراف سے پاک ہو اور تمام ورثاء کی رضامندی سے ہو.
وان اتخذ ولي الميت طعاما للفقراءكان حسنا الا ان يكون في الورثة صغير فلا يتخذ ذلك من التركة .طحطاوي على المراقي 617.
۔ہندوپاک میں یہ رسم بد درآئی ہے کہ ایام مخصوصہ میں اہل میت کی طرف سے یا رشتہ داروں کی طرف سے ولیمہ کی طرح بریانی وقورمہ جیسے پرتکلف کھانے کا انتظام نہیں بلکہ اھتمام کیاجاتا ہے ۔ جس میں امراء غرباء سب ہی شریک ہوتے ہیں حالانکہ دعوت وضیافت کا اھتمام تو خوشی کے مواقع میں ہوتا ہے مصیبت اور غم کے مواقع میں نہیں ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس طرح کے کھانوں میں نیت نام نمود کی ہوتی ہے ۔اس لئے تمام ہی فقہاء ومحدثین نے اسے ناجائز کہاہے۔ اس قسم کے کھانے سے بہر طور پرہیز کرنا چاہئے ۔
تمام جزئیات کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
ص: 195] بَاب صَنْعَةِ الطَّعَامِ لِأَهْلِ الْمَيِّتِ
3132 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ أَتَاهُمْ أَمْرٌ شَغَلَهُمْ
سنن أبي داؤد۔
(اصنعوا لآل جعفر طعاما): فيه مشروعية القيام بمؤنة أهل البيت مما [ص: 312] يحتاجون إليه من الطعام لاشتغالهم عن أنفسهم بما دهمهم من المصيبة . قاله في النيل .
وقال السندي: فيه أنه ينبغي للأقرباء أن يرسلوا لأهل الميت طعاما (أمر يشغلهم): من باب منع أي عن طبخ الطعام لأنفسهم. وعند ابن ماجه قد أتاهم ما يشغلهم أو أمر يشغلهم وفي رواية له إن آل جعفر قد شغلوا بشأن ميتهم فاصنعوا لهم طعاما.
قال ابن الهمام في فتح القدير شرح الهداية: يستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم ليلتهم ويومهم ، ويكره اتخاذ الضيافة من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة انتهى.
ويؤيده حديث جرير بن عبد الله البجلي قال : كنا نرى الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام من النياحة أخرجه ابن ماجه وبوب باب ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام، وهذا الحديث سنده صحيح ورجاله على شرط مسلم . قاله السندي: وقال أيضا: قوله كنا نرى هذا بمنزلة رواية إجماع الصحابة أو تقرير من النبي صلى الله عليه وسلم ، وعلى الثاني فحكمه الرفع وعلى التقديرين فهو حجة.
وبالجملة فهذا عكس الوارد إذ الوارد أن يصنع الناس الطعام لأهل الميت فاجتماع الناس في بيتهم حتى يتكلفوا لأجلهم الطعام قلب لذلك : وقد ذكر كثير من الفقهاء أن الضيافة لأهل الميت قلب للمعقول لأن الضيافة حقا أن تكون للسرور لا للحزن انتهى.
قال المنذري: والحديث أخرجه الترمذي وابن ماجه، وقال الترمذي حسن صحيح.
عون المعبود
[ص: 323] بَاب مَا جَاءَ فِي الطَّعَامِ يُصْنَعُ لِأَهْلِ الْمَيِّتِ
998 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْنَعُوا لِأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ شَيْءٌ لِشُغْلِهِمْ بِالْمُصِيبَةِ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَى وَجَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ هُوَ ابْنُ سَارَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ رَوَى عَنْهُ ابْنُ جُرَيْجٍ
سنن الترمذي. كتاب الجنائز.
قوله: (لما جاء نعي جعفر) أي: ابن أبي طالب أي: خبر موته بمؤتة ، وهي موضع عند تبوك سنة ثمان (ما يشغلهم) بفتح الياء والغين ، وقيل بضم الأول وكسر الثالث ، قال في القاموس: شغله كمنعه شغلا ويضم ، وأشغله لغة جيدة، أو قليلة، أو رديئة، والمعنى جاءهم ما يمنعهم من الحزن عن تهيئة الطعام لأنفسهم فيحصل الهم ، والضرر ، وهم لا يشعرون ، قال الطيبي: دل على أنه يستحب [ ص: 67 ] للأقارب والجيران تهيئة طعام لأهل الميت. انتهى ، قال ابن العربي في العارضة : والحديث أصل في المشاركات عند الحاجة ، وصححه الترمذي ، والسنة فيه أن يصنع في اليوم الذي مات فيه لقوله صلى الله عليه وسلم فقد جاءهم ما يشغلهم عن حالهم فحزن موت وليهم اقتضى أن يتكلف لهم عيشهم ، وقد كانت للعرب مشاركات ومواصلات في باب الأطعمة باختلاف الأسباب ، وفي حالات اجتماعها . انتهى ، قال القاري ، والمراد طعام يشبعهم يومهم ، وليلتهم ، فإن الغالب أن الحزن الشاغل عن تناول الطعام لا يستمر أكثر من يوم ، ثم إذا صنع لهم ما ذكر سن أن يلح عليهم في الأكل لئلا يضعفوا بتركه استحياء، أو لفرط جزع . انتهى، وقال ابن الهمام: ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام يشبعهم يومهم ، وليلتهم ؛ لقوله صلى الله عليه وسلم اصنعوا لأهل جعفر طعاما ، وقال : يكره اتخاذ الضيافة من أهل الميت ؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة . انتهى "وقال القاري: واصطناع أهل البيت الطعام لأجل اجتماع الناس عليه بدعة مكروهة بل صح عن جرير رضي الله عنه كنا نعده من النياحة ، وهو ظاهر في التحريم . انتهى . قلت : حديث جرير رضي الله عنه أخرجه أحمد وابن ماجه بلفظ : قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت، وصنعة الطعام بعد دفنه من النياحة. انتهى، وإسناده صحيح.
تحفة الاحوذي  شرح سنن الترمذي.
6866 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ قَالَ كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنْ النِّيَاحَةِ
مسند أحمد.
بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ الِاجْتِمَاعِ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةِ الطَّعَامِ
1612 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ح وَحَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ أَبُو الْفَضْلِ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ قَالَ كُنَّا نَرَى الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةَ الطَّعَامِ مِنْ النِّيَاحَةِ
سنن ابن ماجة. كتاب الجنائز.
قال فی الشامی فی کتاب الوصیۃ عن آخر الجنائز من الفتح ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اہل المیت لانہ شرع فی السرور دون الشرور وہی بدعۃ مستقبحۃ ۔روی الا مام احمد عن جرید بن عبد اللّٰہ قال کنا نعد الا جتماع الی اہل المیت وصنعہم الطعام من النیاحۃ (شامی کتاب الوصیۃ ص ۴۶۴ ج۵)
رشتہ دار کافر کی موت پہ کلمہ استرجاع

رشتہ دار کافر کی موت پہ کلمہ استرجاع پڑھنے کی گنجائش ہے 
کیونکہ ہر چیز اللہ کی ہے 
اور اللہ ہی کی طرف لوٹنے والی ہے 
ابو دائود وترمذی  کی ایک حدیث میں اس کا عموم بیان ہوا ہے 
جو کافر مسلم سب کو شامل ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّهِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَقُلْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ عِنْدَكَ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي فَأْجُرْنِي فِيهَا وَأَبْدِلْنِي مِنْهَا خَيْرًا فَلَمَّا احْتُضِرَ أَبُو سَلَمَةَ قَالَ اللَّهُمَّ اخْلُفْ فِي أَهْلِي خَيْرًا مِنِّي فَلَمَّا قُبِضَ قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ عِنْدَ اللَّهِ احْتَسَبْتُ مُصِيبَتِي فَأْجُرْنِي فِيهَا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ [ص:499] وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو سَلَمَةَ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْأَسَدِ 
سنن الترمذی 3511
یقین کے ساتھ جب معلوم ہو کہ یہ بحالت کفر مرا ہے 
تو یقینا وہ جہنمی ہے 
فی نار جھنم اس کے لئے پڑھ سکتے ہیں 
لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی دوسرا کافر سننے نہ پائے 
تاکہ اسے تکلیف نہ 
اوپر کے مضمون میں تعزیت کا طریقہ درج ہے 
کافر کی موت کی خبر سننے کے بعد کہی جانے والی بات کا ذکر اس میں مذکور نہیں 
دونوں علیحدہ علیحدہ امر ہے 
فقط
واللہ اعلم بالصواب
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

Posted by SAGAR TIMES at 08:57
Email ThisBlogThis!Share to XShare to FacebookShare to Pinterest

No comments:

Post a Comment

Newer Post Older Post Home
View mobile version
Subscribe to: Post Comments (Atom)

Blog Archive

  • ►  2025 (23)
    • ►  April (2)
    • ►  March (3)
    • ►  February (6)
    • ►  January (12)
  • ►  2024 (97)
    • ►  December (3)
    • ►  November (6)
    • ►  October (10)
    • ►  September (11)
    • ►  August (7)
    • ►  July (5)
    • ►  June (15)
    • ►  May (6)
    • ►  April (2)
    • ►  March (1)
    • ►  February (13)
    • ►  January (18)
  • ►  2023 (68)
    • ►  December (7)
    • ►  November (11)
    • ►  October (2)
    • ►  September (3)
    • ►  August (2)
    • ►  July (20)
    • ►  June (8)
    • ►  May (3)
    • ►  April (3)
    • ►  March (2)
    • ►  February (4)
    • ►  January (3)
  • ►  2022 (88)
    • ►  December (6)
    • ►  November (4)
    • ►  October (7)
    • ►  September (14)
    • ►  August (9)
    • ►  July (2)
    • ►  June (8)
    • ►  May (8)
    • ►  April (4)
    • ►  March (11)
    • ►  February (3)
    • ►  January (12)
  • ►  2021 (101)
    • ►  December (14)
    • ►  November (6)
    • ►  October (15)
    • ►  September (4)
    • ►  August (13)
    • ►  July (15)
    • ►  June (18)
    • ►  May (5)
    • ►  April (3)
    • ►  March (2)
    • ►  February (2)
    • ►  January (4)
  • ►  2020 (316)
    • ►  December (3)
    • ►  November (7)
    • ►  October (7)
    • ►  September (25)
    • ►  August (39)
    • ►  July (53)
    • ►  June (46)
    • ►  May (43)
    • ►  April (50)
    • ►  March (32)
    • ►  February (9)
    • ►  January (2)
  • ►  2019 (379)
    • ►  December (31)
    • ►  November (34)
    • ►  October (44)
    • ►  September (67)
    • ►  August (75)
    • ►  July (20)
    • ►  June (39)
    • ►  May (12)
    • ►  April (10)
    • ►  February (16)
    • ►  January (31)
  • ▼  2018 (1037)
    • ►  December (24)
    • ►  November (21)
    • ►  October (21)
    • ►  September (23)
    • ►  August (122)
    • ▼  July (148)
      • ایس ایم ایس کے ذریعہ طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہو...
      • من ترک سنتی لم ینل شفاعتی کی تحقیق
      • عہد تمیمی ۔۔۔ فلسطینی نسل نو کا عظیم شاہکار
      • حالت جنابت میں جمعہ کا خطبہ دینا؟
      • گاندھی اور صیہونیت: نئے انکشافات یا تاریخ کو مسخ ک...
      • قبض؛ ام الامراض
      • خلاصہ مناظرہ چھبڑا
      • اسلامی لباس
      • ہاروت وماروت کی معصیت سے متعلق قصہ من گھڑت وبے بن...
      • چاند گہن؛ افراط و تفریط سے بچیں
      • کیا کسی کتاب میں حدیث ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے؟
      • مغليه دور، نظام تعليم، شرح تعليم، مسلم حکمران اور ...
      • عنوان: تعریف کرنے والے کے منہ پر مٹی ماردو حدیث ...
      • کیا نماز کا فدیہ دیا جاسکتا ھے؟
      • چاند گہن کے موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
      • اختر رضا خان ازہری کے ایک خلیفہ کا اندازِ ماتم
      • کیا نیت کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی؟
      • اکیسویں صدی کا طویل ترین چاند گہن: جمعہ 27 جولائی ...
      • تین بار قل ھو اللہ پڑھنے سے پورے قرآن کا ثواب؟
      • حضرت علی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کے مابین کچ...
      • نذر کا مصرف اور اس کے جانور کا تبادلہ
      • مسوں کا گھریلو علاج
      • چھ چیزوں سے پہلے پہلے مرجاؤ
      • نمازِ جنازہ میں کتنے آدمی تھے؟
      • ڈگری تو محض تعلیمی اخراجات کی رسید ہوتی ہے
      • ہارون یحی کون ہے؟ Who is Harun Yahya?
      • ایک بریلوی کی انکشافی تحریر؛ لڑکیوں کے مدرسے یا عش...
      • نکاح کا وکیل نامحرم ہوسکتا ہے
      • بریلویوں کے اختر رضا خان کی وفات اور علماء اہلسنت ...
      • غلط طریقے سے امتحان میں کامیابی کی شرعی حیثیت
      • ضبط ولادت، خاندانی منصوبہ بندی یا فیملی پلاننگ کا ...
      • عدم ثبوت حرمت مصاہرت
      • تعزیت مسنونہ، تعزیتی اجلاس کا ثبوت، طعام میت اور س...
      • نماز کے شروع میں زبان سے نیت کرنا اکابر حنفی علما ...
      • حجۃ الوداع کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ا...
      • بچوں کو مارنے کے متعلق روایات و اقوال
      • شق القمر معجزہ کو ہندوستان کے کونسے راجہ نے دیکھا؟...
      • عشبہ؛ ایک بیل دار بوٹی
      • اجتماعیت؛ عوامل، فضائل اور احکام
      • ٹی وی پر علماء کرام کا آنا مثبت ومنفی پہلو Does TV...
      • طلاق کے فوائد तलाक़ का क़ानून होने का फ़ायदा
      • کیا کاتبین وحی میں سے کوئی صحابی مرتد ہوئے ہیں؟
      • سوال: قرآن وحدث کی روشنی میں بتائیے کہ دار القضاء ...
      • قرآن اور حدیث کی رو سے کیا تقلید ضروری ہے؟
      • احرام کی حالت میں عورت کے چہرہ کا پردہ: ایک غلط فہ...
      • رکوع میں جانے سے پہلے دونوں ہاتھوں سے قمیص کے پچھل...
      • حضرت آدم علیہ السلام کہاں اترے؟
      • مولانا کو قانونی طور پر بچاؤ کیا جانا چاہئے कानूनी...
      • ناخن کاٹنے کا مستحب طریقہ
      • کیا شراب کی دوکان میں کسی طرح کا ریپیرنگ کا کام کر...
      • وہ ایک تھپڑ
      • اللہ کے نیک بندوں کے اجسام محفوظ کیوں ہیں؟
      • زندگی کیا ہے؟
      • بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
      • پہلا تھپڑ عورت نے اٹھایا، کیا پلٹ وار کرنا جرم ہے؟
      • اس کا عیب و ہنر چھپا ہوا ہوتا ہے
      • ہم بھی کسی سے کم نہیں!
      • لاحول ولاقوة إلا بالله کی ایک مخصوص فضیلت کی تحقیق
      • اف! .... باطل کو ملا اک نیا شوشا
      • آدابِ تبلیغ اور ضرورتِ تبلیغ
      • عارف باللہ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب...
      • چاروں اماموں سے پہلے لوگ کس امام کی تقلید کرتے تھے؟
      • نکاح متعہ اور اسے مباح کہنے والے رافضی شیعوں پر رد
      • اکیلے ہوتے جاؤگے
      • چار قسم کے مسلمان؛ آپ کس زمرہ میں شامل ہیں؟
      • بشار الاسد کون ہے اور کیا ہے؟
      • موت کے وقت کلمہ زبان پر جاری نہ ہونا روایت کی تحقیق؟
      • فیصلہ ہفت مسئلہ: حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رہنمائی
      • مسلم لڑکیاں غیروں کے ساتھ؛ مجرم کون؟
      • حج سے پہلے عازم حج رشتہ دار کی دعوت کرنا
      • کیا آپ اپنی بیوی کی باتوں کا مطلب سمجھتے ہیں؟
      • مچھلی اور دودھ ایک ساتھ استعمال کرنے کا حکم
      • حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ کی شادی
      • جنابت کی حالت میں سونا یا کھانا پینا؟
      • بیلجیم کی آتشزدگی اور شاہ فیصل کی بصیرت و دور اندیشی
      • کیا جنابت کی حالت میں وضوء کے بعد جماع کرنا آپ صل ...
      • اپنی کمرشل جگہ کسی آدمی کو کرایہ پر دینا جو اس می...
      • صحرا کا شیر؛ عمر مختار
      • پردہ کرنے پر پابندی ہو تو کیا کریں؟
      • ومَنْ طَلبَ العُلا سَهِرَ اللّيالي And whoever see...
      • جس دل میں قرآن پاک محفوظ نہیں وہ ویران گھر ہے، کیا...
      • بہترین اور بدترین
      • نماز جمعہ اور جمعہ کی فجر میں کونسی سورۃ پڑھنا مسن...
      • اعمال شب جمعہ
      • خطبہ سے قبل اذان کہاں دی جائے؟
      • کیسے اٹھائیں اسکول کے یہ بستے How to carry your sc...
      • دودھ مچھلی دونوں کا استعمال ایک ساتھ؟
      • جانچ کے لئے لیبارٹی میں بھیجنے پر ڈاکٹر کا کمیشن لینا
      • شادی اور کفو
      • ثم استوى علی العرش كا كيا مطلب ہے؟
      • مسلمانوں کی ماکولات اور مشروبات میں حلال ہونے کے س...
      • नमाज़ जनाज़ा के दलाईल
      • نور ہی نور .....
      • عقد صحيح کے بعد ثبوت نسب کے لئے امکان وطی شرط نہیں
      • رقیہ شرعیہ؛ شرعی دم
      • طلاق بالکتابہ میں بیوی کا حاضر اور غائب ہونا یکساں...
      • امام نے تین رکعت والی نماز میں دو رکعت پڑھادی پھر ...
      • نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی امتیازی خصوصیات
      • کسی ناگہانی مصیبت کے وقت اذان
      • سوتیلی ماں کے حقوق
    • ►  June (125)
    • ►  May (145)
    • ►  April (72)
    • ►  March (56)
    • ►  February (161)
    • ►  January (119)
  • ►  2017 (427)
    • ►  December (85)
    • ►  November (69)
    • ►  October (62)
    • ►  September (44)
    • ►  August (46)
    • ►  July (38)
    • ►  June (26)
    • ►  May (20)
    • ►  April (6)
    • ►  March (5)
    • ►  February (12)
    • ►  January (14)
  • ►  2016 (625)
    • ►  December (19)
    • ►  November (25)
    • ►  October (23)
    • ►  September (29)
    • ►  August (26)
    • ►  July (47)
    • ►  June (33)
    • ►  May (87)
    • ►  April (103)
    • ►  March (73)
    • ►  February (87)
    • ►  January (73)
  • ►  2015 (1101)
    • ►  December (86)
    • ►  November (158)
    • ►  October (143)
    • ►  September (128)
    • ►  August (55)
    • ►  July (37)
    • ►  June (6)
    • ►  May (21)
    • ►  April (95)
    • ►  March (146)
    • ►  February (99)
    • ►  January (127)
  • ►  2014 (32)
    • ►  December (32)
  • ►  2013 (16)
    • ►  October (1)
    • ►  September (2)
    • ►  August (13)

About Me

SAGAR TIMES
View my complete profile
Simple theme. Powered by Blogger.