دفع مصائب کا غیبی علاج: قنوت نازلہ کا اہتمام
اللہ قادرمطلق ہیں اور انسان اپنے خالق کے مقابلہ عاجز محض، دنیا میں کوئی بھی واقعہ جو پیش آتا ہے، اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر وہ وقوع پذیر نہیں ہوسکتا؛ اس لئے ایک صاحب ایمان کا کام یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی مصیبت یا آزمائش سے دوچار ہو، اللہ کی طرف رجوع کرے اور اللہ کے خزانۂ غیب سے مدد کا طلبگار ہو؛ اسی لئے اسلام میں ایک مستقل نماز 'نمازِ حاجت' رکھی گئی کہ انسان کی کوئی بھی ضرورت ہو، دو رکعت نماز خاص اسی نیت سے پڑھ کر اللہ کے سامنے دست ِسوال پھیلائے، بعض دفعہ ضرورتیں یا ابتلائیں غیرمعمولی ہوجاتی ہیں، ان مواقع کے لئے شریعت نے مخصوص نمازیں رکھی ہیں، جیسے کسی کی وفات ہوجائے تو نمازِ جنازہ، بارش نہ ہو تو نماز استسقاء، کسی معاملہ کے بارے میں اضطراب ہو کہ کیا پہلو اختیار کرنا چاہئے؟ تو نمازِاستخارہ، سفر کے موقع پر دوگانۂ سفر۔
اسی طرح اگر دشمنوں سے مقابلہ ہو، خواہ مسلمان اعداء اسلام کے خلاف اقدامی جہاد کررہے ہوں، یا مدافعت کے موقف میں ہوں، یا ظلم وابتلاء سے دوچار ہوں، تو ایسے مواقع کے لئے کوئی مستقل نماز تو نہیں رکھی گئی؛ لیکن ایک خصوصی دُعاء رکھی گئی ہے، جس کو ’’قنوتِ نازلہ‘‘ کہتے ہیں، نازلہ کے معنی مصیبت وآزمائش کے ہیں اور قنوت کے متعدد معانی آتے ہیں، جن میں سے ایک معنی دُعاء ہے اور اس تعبیر میں یہی معنی مراد ہے، پس قنوتِ نازلہ کے معنی ہوئے مصیبت کے وقت کی دُعاء، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جو کمزور لوگ پھنسے ہوئے تھے اور اہل مکہ انھیں ہجرت کی اجازت نہیں دیتے تھے، ان کے لئے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے، اسی طرح ایک خاص واقعہ پیش آیا، جس میں حفاظ کی ایک بڑی تعداد شہید کردی گئی، یہ واقعہ سیرت کی کتابوں میں بئرمعونہ سے مشہور ہے، اس موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھی ہے۔
قنوتِ نازلہ کے سلسلہ میں کئی باتیں قابل ذکر ہیں، قنوتِ نازلہ کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھا، یا آج بھی امت کے لئے باقی ہے؟ قنوتِ نازلہ کن مواقع پر پڑھی جائے گی؟ کس نماز میں پڑھی جائے گی؟ اور نماز میں قنوت پڑھنے کا کیا محل ہے؟ کون پڑھے گا؟ بآوازِ بلند پڑھی جائے یا آہستہ؟ جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے تو مقتدی کیا کرے ؟ قنوتِ نازلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کن الفاظ میں منقول ہے؟
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ قنوتِ نازلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص تھی؛ لیکن تمام قابل ذکر فقہاء وائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی قنوت نازلہ کا حکم باقی ہے؛ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسیلمہ کذاب سے جنگ کے وقت آپ نے قنوتِ نازلہ پڑھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بعض مواقع پر قنوتِ نازلہ پڑھی ہے، آپ کی قنوت کے الفاظ بھی کتب ِاحادیث میں تفصیل کے ساتھ منقول ہیں، خلیفۂ راشد سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگ کے موقع پر دونوں نے قنوتِ نازلہ پڑھی ہے، (دیکھئے: منحۃ الخالق علی البحر: ۲ ؍ ۴۴) — اس لئے صحیح یہی ہے کہ قنوتِ نازلہ کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص نہیں تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے، ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں۔ (دیکھئے: حلبی: ۴۲۰، شرح مہذب: ۳ ؍ ۵۰۶، المقنع: ۴ ؍ ۱۳۵)
فقہاء رحمہم اللہ کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ وجدال کے علاوہ دوسری مصیبتوں کے مواقع پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھنی مسنون ہے، امام نووی شافعی رحمہم اللہ نے وباء اور قحط میں قنوت پڑھنے کا ذکر کیا ہے، (روضۃ الطالبین وعمدۃ المفتیین: ۱ ؍ ۲۵۴) حنابلہ کے یہاں بھی ایک قول یہ ہے کہ وبائی امراض پھوٹ پڑنے پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھی جاسکتی ہے، (دیکھئے: الانصاف مع المقنع: ۴ ؍۱۳۹) حنفیہؒ نے بھی لکھا ہے کہ طاعون کی بیماری پھیل جائے تو اس کا شمار بھی نوازل میں ہوگا، (ردالمحتار: ۲ ؍ ۴۴۷) ویسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے وبائی امراض وغیرہ میں قنوتِ نازلہ پڑھنا ثابت نہیں؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں جو 'طاعون عمواس' ('طاعون عمواس' خلافت فاروقی میں شام کے قریہ 'عمواس' میں پھیلنے والی ایک وبا جس سے بہت سے صحابی رضوان اللہ علیہم اجمعین وفات پاگئے۔ 18ھ میں بہت ہی خطرناک اور مہلک طاعون کی وبا پھیلی جس سے ہزاروں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وفات پاگئے مؤرخین نے دور فاروقی کا اہم واقعہ شمار کیا ہے۔ اس می بہت اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وفات ہوئی ان میں ابو عبیدہ بن جراح معاذ بن جبل یزید بن ابی سفیان حرث بن ہشام سہیل بن ہشام کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل تھے) کا واقعہ پیش آیا، تو اس موقع پر قنوت نہیں پڑھی گئی (الانصاف : ۴ ؍ ۱۳۹) گویا اصل میں تو قنوتِ نازلہ جنگ کے موقع پر پڑھی گئی ہے؛ لیکن اس پر قیاس کرتے ہوئے فقہاء نے دوسری مصیبتوں میں بھی قنوتِ نازلہ کی اجازت دی ہے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح میں قنوت اسی وقت پڑھتے تھے، جب کسی گروہ کے حق میں دُعاء کرنا یا کسی گروہ کے خلاف بد دُعاء کرنا مقصود ہوتا، (اعلاء السنن، حدیث نمبر: ۱۷۱۵) اسی مضمون کی روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ (اعلاء السنن: حدیث نمبر: ۱۷۱۴)
گویا جب مسلمان اعداء ِاسلام سے جنگ کی حالت میں ہوں تب تو خاص طور پر قنوتِ نازلہ مسنون ہے؛ لیکن دوسری اجتماعی مصیبتوں کے موقع پر بھی قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔
قنوتِ نازلہ کس نماز میں پڑھنی چاہئے؟ اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل ایک ماہ ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر میں آخری رکعت کے رکوع کے بعد قنوتِ نازلہ پڑھی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےبنوسلیم، رعل، ذکوان، عصیّہ قبائل کے لئے بددُعاء فرمائی ہے، (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۴۴۳) بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھا کرتے تھے، (بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۰۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فجر اور مغرب میں قنوتِ نازلہ پڑھنا حضرت براء بن عازب رضی اﷲ عنہما سے بھی مروی ہے، (طحاوی :۱ ؍ ۱۴۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں نمازِ عشاء میں قنوتِ نازلہ پڑھنے اور مکہ کے مستضعفین کے لے دُعاء کرنے کا ذکر ہے، امام طحاوی رحمة اللہ علیہ نے اس کو متعدد سندوں سے نقل کیا ہے؛ چنانچہ فقہاء شوافع کے نزدیک تو پانچوں نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کی گنجائش ہے، (شرح مہذب: ۲ ؍۵۰۶، روضۃ الطالبین: ۱؍۲۵۴) حضرت امام احمد رحمة اللہ علیہ کا بھی ایک قول یہی ہے، ایک قول کے مطابق فجر اور مغرب میں قنوتِ نازلہ پڑھنی چاہئے، ایک قول یہ ہے کہ تمام جہری نمازوں میں پڑھ سکتا ہے اور ایک قول کے مطابق صرف نماز فجر میں، (دیکھئے: الشرح الکبیر: ۴ ؍ ۱۳۷، الانصاف مع المقنع: ۴ ؍ ۱۳۷) غرض حنابلہ رحمہم اللہ کے مختلف اقوال اس سلسلہ میں منقول ہیں۔
فقہاء احناف کے یہاں دو طرح کی تعبیرات ملتی ہیں، ایک یہ کہ تمام جہری نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھنا چاہئے، فقہ حنفی کی اکثر متون یعنی بنیادی کتابوں میں یہی لکھا ہے: ’’فیقنت الامام فی الصلوٰۃ الجہریۃ‘‘ (ملتقی الابحر علی ہامش المجمع : ۱؍ ۱۲۹) مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفی رحمة اللہ علیہ نے بھی بعینہٖ یہی الفاظ لکھے ہیں، (درمختار مع الرد : ۲ ؍ ۴۴۸) مشہور محقق امام طحطاوی رحمة اللہ علیہ نے بھی جہری نمازوں میں قنوت کی اجازت نقل کی ہے، (طحطاوی علی المراقی: ۲۰۶) یہی بات بعض دوسرے فقہاء احناف سے بھی منقول ہے، (دیکھئے : رد المحتار: ۲ ؍ ۴۴۸) ماضیٔ قریب کے اہل علم میں مولانا انورشاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کا بھی یہی نقطۂ نظر ہے، (فیض الباری: ۲ ؍ ۳۰۲) اور علامہ حموی رحمة اللہ علیہ نے اسی قول کو زیادہ درست قرار دیا ہے، (منحۃ الخالق علی البحر: ۲ ؍۴۴) — دوسری رائے یہ ہے کہ صرف نمازِ فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھنا درست ہے، علامہ شامی رحمة اللہ علیہ کا رجحان اسی طرف ہے، شامی رحمة اللہ علیہ کا گمان ہے کہ ممکن ہے کہ بعض نقل کرنے والوں نے ’’صلاۃ الفجر‘‘ کو غلطی سے ’’صلاۃ الجہر‘‘ لکھ دیا ہو، (دیکھئے: ردالمحتار: ۲ ؍ ۴۴۸) لیکن جب اتنی ساری نقول موجود ہیں، تو محض ظن وتخمین کی بناء پر اسے رد نہیں کیا جاسکتا، اسی لئے خود علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شاید اس سلسلہ میں احناف کے دو قول ہیں: ’’ولعل فی المسئلۃ قولین‘‘۔ (منحۃ الخالق علی ہامش البحر: ۲ ؍ ۴۴)
پس، جو بات راجح معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ قنوتِ نازلہ مغرب، عشاء اور فجر تینوں میں پڑھنے کی گنجائش ہے، جیسا کہ اس سلسلہ میں احادیث موجود ہیں؛ البتہ چوںکہ فجر کے بارے میں اتفاق ہے اور دوسری نمازوں کی بابت اختلاف؛ اس لئے بہتر ہے کہ فجر میں قنوتِ نازلہ پڑھنے پر اکتفا کیا جائے — رہ گئی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت جس میں ظہر وعصر میں قنوتِ نازلہ پڑھنے کا ذکر ہے، تو اکثر فقہاء کے نزدیک وہ منسوخ ہے اور احادیث میں بعض قرائن اس کے منسوخ ہونے پر موجود ہیں۔
نماز میں قنوتِ نازلہ کب پڑھی جائے گی؟ تو اس سلسلہ میں احادیث قریب قریب متفق ہیں کہ قنوتِ نازلہ رکوع کے بعد پڑھی جائے، (دیکھئے: بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۰۲، ابوداؤد: حدیث نمبر: ۱۴۴۴) فقہاء نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ (منحۃ الخالق علی ھامش البحر: ۲ ؍ ۴۴)
دُعاء ِقنوت زور سے پڑھی جائے یا آہستہ؟ اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ مضر کے خلاف بد دُعاء کرتے ہوئے جہراً قنوت پڑھی ہے، (بخاری کتاب التفسیر، باب قولہ: لیس لک من الامر شئی) اس لئے راجح قول یہی ہے کہ قنوتِ نازلہ امام کو جہراً پڑھنا چاہئے، اسی کو اہل علم نے ترجیح دی ہے، (دیکھئے: اعلاء السنن: ۶ ؍۱۱۲) یوں دُعاء آہستہ کرنا بھی درست ہے؛ بلکہ عام حالات میں آہستہ دُعاء کرنا افضل ہے؛ لہٰذا آہستہ دُعاء کرنے کی بھی گنجائش ہے — جب امام قنوتِ نازلہ پڑھے تو مقتدی کیا کرے؟ اس سلسلہ میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اگر امام جہراً دعاء قنوت پڑھے، تو مقتدی آمین کہنے پر اکتفاء کرے اور اگر آہستہ قنوت نازلہ پڑھے تو مقتدی بھی دُعاء کو دہرائے، (ردالمحتار: ۲ ؍ ۴۴۹) — اس بات پر حنفیہ کا اتفاق ہے کہ جیسے نماز سے باہر ہاتھ اُٹھاکر دُعاء کی جاتی ہے، اس طرح قنوتِ نازلہ میں ہاتھ اُٹھاکر دُعاء نہیں کی جائے گی؛ لیکن ہاتھ باندھ کر رکھا جائے؟ یا چھوڑدیا جائے؟ اس سلسلہ میں کوئی صریح حدیث موجود نہ ہونے کی وجہ سے فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ہاتھ باندھنا بہتر ہے اور امام محمد رحمة اللہ علیہ کے نزدیک ہاتھ چھوڑے رکھنا بہتر ہے، (دیکھئے: اعلاء السنن : ۶ ؍۱۲۲) چوںکہ قنوتِ نازلہ ’’قومہ‘‘ کی حالت میں پڑھا جاتا ہے اور قومہ کی حالت میں ہاتھ چھوڑے رکھنا مسنون ہے، اس لئے بہتر یہی معلوم ہوتا ہے، کہ ہاتھ چھوڑے رکھے؛ البتہ بعض شوافع اور حنابلہ کے نزدیک قنوتِ نازلہ میں بھی اسی طرح ہاتھ اٹھانے کی گنجائش ہے، جس طرح عام دُعاؤں میں، (دیکھئے: المغنی: ۲ ؍ ۵۸۴ بہ تحقیقی ترکی وغیرہ) مگر خاص نماز کی حالت میں ہاتھ اُٹھاکر دُعاء کرنے میں غالباً کوئی حدیث نہیں۔
رہ گئے قنوتِ نازلہ کے الفاظ، تو اس سلسلہ میں کچھ خاص الفاظ ہی کی پابندی ضروری نہیں: ’’واما دعاء ہ فلیس فیہ دعاء موقت‘‘ (البحرالرائق : ۲ ؍۴۱) البتہ ظاہر ہے کہ جو الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعینسے ثابت ہوں، ان کو پڑھنے کا اہتمام کرنا بہتر ہے، اس سلسلہ میں ایک تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان الفاظ میں دُعاء سکھائی:
اَللّٰھُمَّ اھْدِنِی فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِیْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِیْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْت، وَ بَارِک لِی فِیْمَا اَعْطَیْت وَقِنِی شَرَّ مَاقَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَایُقْضٰی عَلَیْکَ وَاِنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۴۲۵)
اے اللہ! مجھے بھی ان لوگوں کیساتھ ہدایت عطا فرمائیے، جنھیں آپ نے ہدایت دی ہے اور مجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ عافیت میں رکھئے، جن کو آپ نے عافیت سے سرفراز فرمایا ہے اور میری بھی ان لوگوں کے ساتھ نگہداشت فرمایئے، جن کو آپ نے اپنی نگہداشت میں رکھا ہے، جو کچھ آپ نے عطا فرمایا ہے، اس میں میرے لئے برکت عطا فرمایئے، قضاء وقدر کے شر سے میری حفاظت فرمائیے؛ کیوںکہ آپ فیصلہ کرتے ہیں، آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، جسے آپ دوست بنالیں وہ ذلیل نہیں ہوسکتا، اور جس کے آپ دشمن ہوں وہ باعزت نہیں ہوسکتا، پروردگار! آپ کی ذات، مبارک اور بلند ہے۔
حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کے بھی ایک دُعاء پڑھنا منقول ہے، جس کو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بیہقی کے حوالہ سے نقل کیا ہے، (الاذکار: ۹۷) اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے، جو وتر والی دُعاء قنوت پڑھنے کے بعد وہ پڑھا کرتے تھے، اس دُعاء میں حضرت عمرؓی دُعاء کا عطر بھی آگیا ہے، اس لئے اس دُعاء کے الفاظ کا نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
اللھم اعفر للمومنین والمومنات والمسلمین والمسلمات والف بین قلوبھم وأصلح ذات بینہم و انصرھم علی عدوک وعدوھم، اللھم العن کفرۃ اھل الکتاب الذین یکذبون رسلک ویقاتلون اولیاء ک، اللھم خالف بین کلمتہم وزلزل أقدامھم وأنزل بھم باسک الذی لا تردہ عن القوم المجرمین۔ (ردالمحتار: ۲ ؍ ۳۳،۴۳۲)
الٰہی! اصحابِ ایمان مردوں اور عورتوں اور مسلمان مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرمادیجئے ، ان کے دلوں کو جوڑدیجئے، ان کے باہمی اختلاف کو دور فرمادیجئے، ان کی آپ کے دشمن اور ان کے دشمن کے مقابل مدد فرمایئے، اے اللہ! کفار اہل کتاب پر آپ کی لعنت ہو جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور آپ کے اولیاء سے برسرپیکار ہیں، اے اللہ! ان کے درمیان اختلاف پیدا کردیجئے، ان کے قدم کو متزلزل فرمادیجئے اور ان کو آپ اپنے اس عذاب میں مبتلا فرمایئے، جو مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا۔
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ دعاء قنوت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھی بھیجنا چاہئے: ’’ویصلی علی النبی وبہ یفتی‘‘۔ (دالمختار: ۲ ؍ ۴۴۲)
یہ وقت ہے کہ ہرمسلمان اپنی جبینِ بندگی خدا کے سامنے خم کردے اور پورے الحاح اورفروتنی کے ساتھ اللہ کے سامنے دست ِسوال پھیلائے، کہ دنیا میں اسلام کا نام سربلند ہو اوراسلام اور مسلمانوں سے بغض رکھنے والے بالآخر آخرت کی طرح دنیامیں بھی محرومی کا حصہ لے کر واپس ہوں: ’’وما ذٰلک علی اﷲ بعزیز، انہ علٰی کل شییٔ قدیر‘‘۔ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) (ایس اے ساگر)