ملک کی سالمیت خطرے میں ڈال رہی ہے تقسیم کی سیاست: رکن پارلیمان ماہوا موئترہ
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر پہلی مرتبہ منتخب ہوکر پارلیمان میں آنے والی رکن ماہوا موئترا کی اس حالیہ تقریر کی دھوم مچی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ انڈین ریاست میں فسطائیت کی ابتدائی علامات موجود ہیں۔ ان کی تقریر، جس میں انھوں نے فسطائیت کی سات علامات کی نشاندہی کی ہے، کو اس برس کی ’سب سے عمدہ تقریر‘ قرار دیا جارہا ہے۔ فسطائیت (فاشزم) ایسی قوم پرستی ہے جو آمریت کے طور طریقوں کی جانب جھکاؤ رکھتی ہو۔ ماہوا موئترہ کا تعلق حزبِ اختلاف کی جماعت ترینامول کانگریس پارٹی سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے فسطائیت کی ابتدائی علامات کی فہرست امریکہ کے ہالوکاسٹ میموریل میوزیم میں موجود ایک پوسٹر پر پڑھی تھی۔ موئترا کے مطابق اپنی تقریر میں ان علامات کو دہرنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ انڈیا کا آئین خطرے میں ہے اور حکمراں جماعت کی ’تقسیم کی سیاست کی ہوس‘ ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو حالیہ عام انتخابات میں ملنے والی شاندار کامیابی کی مبارک باد دینے سے کیا۔ حالیہ عام انتخابات میں عوام نے ملک کے طول و عرض سے اپنے ووٹ کے ذریعے یہ واضح کیا کہ وہ بی جے پی اور نریندر مودی کو دوبارہ برسراقتدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ مودی اور بی جے پی کو ملنے والی ناقابل یقین کامیابی نے حزب اختلاف، جو کہ سخت مقابلے کی توقع لگائے بیٹھی تھی، کو ششدر کر دیا۔
|
موئترا کے مطابق اپنی تقریر میں ان علامات کو دہرنے کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ انڈیا کا آئین خطرے میں ہے |
اپنی تقریر کے آغاز میں ماہوا موئترہ کا کہنا تھا ’حاصل ہونے والا مینڈیٹ اس بات کا متقاضی ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کو بھی سنا جائے۔‘ اور اس کے بعد حکمراں جماعت کی سرزنش کرتے ہوئے انھوں نے فسطائیت کی سات ’ابتدائی مگر خطرناک علامات‘ بتانا شروع کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’طاقت ور اور متواتر جاری رہنے والی قوم پسندی ہماری قومی ساخت کو دغدار کر رہی ہے۔ یہ سطحی، نفرت پر مبنی اور محدود ہے۔ یہ تقسیم کرنے کی ہوس ہے نا کہ اکٹھا کرنے کی خواہش۔‘
انھوں نے 'انسانی حقوق کو کمتر درجے' پر رکھنے کی حکومتی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں سنہ 2014 سے سنہ 2019 کے درمیان نفرت پر مبنی جرائم میں دس گنا اضافہ دیکھا گیا۔ موہوا موئترہ نے حکومت کو ’ذرائع ابلاغ پر ناقابل تصور تسلط` قائم کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے ٹی وی چینلز ’نشریات کا زیادہ تر وقت حکمراں جماعت کی جانب سے دیے گئے پراپیگنڈے کو نشر کرنے میں صرف کرتے ہیں۔‘
انھوں نے ’قومی سلامتی کو لے کر ذہنی ہیجان‘ میں مبتلا انڈین حکومت پر تنفید کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈر کی ایک فضا‘ ملک پر مسلط ہے جس کے تحت آئے روز ایک نیا دشمن تخلیق کیا جاتا ہے۔ ’حکومت اور مذہب کو باہم یکجا کر دیا گیا ہے۔ کیا مجھے اس بارے میں بات کرنے کی بھی ضرورت ہے؟ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ ہم نے شہری ہونے کی تعریف بدل کر رکھ دی ہے۔' انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ذی شعور افراد اور آرٹس کو مکمل طور پر حقیر جاننا اور اختلاف رائے کو دبانا‘ سب علامتوں میں سے خطرناک ترین علامت ہے۔ اور یہ چیز ’انڈیا کو تاریک دور (ڈارک ایجیز) کی طرف واپس دھکیل رہی ہے۔‘ فسطائیت کی آخری علامت بتاتے ہوئے موہوا موئترہ نے کہا کہ یہ ’ہمارے انتخابی عمل میں حاصل آزادی کی فرسودگی‘ ہے۔ ماہوا موئترہ کی یہ تقریر لگ بھگ دس منٹ دورانیے پر مبنی تھی جس کے دوران انھیں حکمران جماعت کے ممبران کی جانب سے کیے گئے شور و غوغا کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مگر اس کے باوجود وہ کھڑی رہیں اور پارلیمان میں سپیکر سے یہ استدعا کی کہ وہ 'پیشہ ور مداخلت کرنے والوں' کو لگام دیں۔
|
’طاقت ور اور متواتر جاری رہنے والی قوم پسندی ہماری قومی ساخت کو دغدار کر رہی ہے‘ |
اقتدار میں آنے کے بعد مودی کی سربراہی میں بی جے پی پر اقلیتوں پر مظالم ڈھانے اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنے جیسے الزامات لگتے رہے ہیں تاہم بی جے پی ان تمام الزامات کی تردید کرتی ہے۔
انگریزی میں کی گئی ان کی تقریر میں نہ صرف حقائق اور اعداد و شمار بلکہ ہندی کی کئی نظمیں بھی شامل تھیں۔
ان کی مادری زبان بنگالی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہندی نظمیں پڑھنے پر ان کی سوشل میڈیا پر تعریف کی گئی۔ موئترہ لندن میں جے پی مورگن بینک میں انویسٹر بینکر کے طور پر کام کر رہی تھیں تاہم سنہ 2009 میں انڈیا میں سیاست میں قدم رکھنے سے قبل انھوں نے اس نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔ وہ اپنی پارٹی ٹی ایم سی کی ترجمان بھی رہ چکی ہے اور پرائم ٹائم ٹی وی شوز میں شمولیت کرتی رہتی ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بی بی سی نے دو دن ان کے ساتھ مغربی بنگال کی ریاست کرشنا نگر میں ان کی الیکشن مہم کو کور کرتے گزارے۔ اپنی تقاریر میں انھوں نے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کو براہ راست ہدف تنفید بنایا تھا۔ انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ بی جے پی ہندوؤں اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ بی جے پی کو سادہ اکثریت حاصل ہے اور حزب اختلاف پارلیمان میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے موئترہ کی تقریر کو اہم گردانا جارہا ہے۔ اس خاتون ممبر پارلیمان کی تقریر کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ انڈیا میں ابھی تک سیاست پدر شاہی کے گرد گھومتی ہے۔ پارلیمان میں خواتین کی تعداد صرف 14 فیصد ہے۔ اگرچہ کئی خواتین رکن پارلیمان کاروائی میں حصہ لیتی اور تقریریں کرتی ہیں مگر کافی وہ بھی ہیں جو خاموشی سے سائیڈ پر بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔ بدھ کے روز ماہوا موئترا نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم اپوزیشن میں ہیں اور یہ ہمارا کام ہے کہ مسائل کو سامنے لائیں۔ ہمیں آواز بلند کرنی چاہیے اور نشاندہی کرنی چاہیے۔ ہم ہر نوعیت کے مسائل پر آواز بلند کریں گے۔ اپوزیشن کا کام حکومت کی ناکامیوں اور ان مسائل کی نشاندہی کرنا ہے جن پر حکومت کی توجہ نہیں ہوتی۔ یہ میرا کام ہے اور میں اس کو بااحسن و خوبی سرانجام دوں گی۔'
|
انگریزی میں کی گئی ان کی تقریر میں نہ صرف حقائق اور اعداد و شمار بلکہ ہندی کی کئی نظمیں بھی شامل تھیں |
A spirited turn at the mic by a first-time female MP in India's parliament, in which she listed the "signs of early fascism", has been hailed as the "speech of the year" on social media.
Mahua Moitra, of the opposition Trinamool Congress Party (TMC), said she had seen a list of the early warning signs of fascism on a poster in the Holocaust Memorial Museum in the US.
She said she was reading the points to show that India's constitution was under threat and the country was being "torn apart" by the ruling party's "lust to divide".
Ms Moitra began by acknowledging the Bharatiya Janata Party's landslide victory in the recent general elections.
In the vote, Indians across the country demonstrated unequivocally they wanted the BJP and Prime Minister Narendra Modi back in power for a second term. The scale of victory stunned the opposition and pundits, who were expecting a much closer race.
Ms Moitra, however, said it was "the very nature of the overwhelming-ness of this mandate makes it necessary for the voices of dissent to be heard".
Then, in a rebuke to the governing party, she listed these seven "danger signs of early fascism":
* "There is a
powerful and continuing nationalism that is searing into our national fabric," she said. "It is superficial, it is xenophobic and it is narrow. It's the lust to divide and not the desire to unite."
* She pointed to a "resounding
disdain for human rights", which she said had led to a 10-fold increase in the number of hate crimes between 2014 and 2019.
* Ms Moitra criticised the government for its "unimaginable
subjugation and control of mass media". She said India's TV channels spend "the majority of airtime broadcasting propaganda for the ruling party".
* She attacked the government for what she said was an
"obsession with national security". An "atmosphere of fear" pervaded the country, with new enemies being created every day.
* "The
government and religion are now intertwined. Do I even need to speak about this? Need I remind you that we have redefined what it means to be a citizen?" she demanded, saying laws had been amended to target Muslims.
* She said
"a complete disdain for intellectuals and the arts" and "the repression of all dissent" was the most dangerous sign of all - and it was "pushing India back to the Dark Ages".
* The last sign, Ms Moitra said, was the
"erosion of independence in our electoral system".
Ms Moitra spoke for about 10 minutes while MPs from the treasury benches tried to shout her down, but she stood firm and called on the Speaker to rein in the "professional hecklers".
Since it came to power, the BJP has been accused of targeting minorities and weakening state institutions under Mr Modi's powerful leadership. It has consistently dismissed such allegations.
Her speech in English, which was laced with facts and figures, even included a couple of poems in Hindi. Many people on social media praised her for reciting these as she is not a Hindi-speaker - her mother tongue is Bengali.
A former investment banker with JP Morgan, Ms Moitra quit her well-paying job in London in 2009 to return to Indian politics. She has been the TMC's national spokesperson for several years and regularly appears in prime-time TV debates.
During the recent elections, the BBC spent two days following her around on the campaign trail in rural Krishnanagar constituency in West Bengal state, where the TMC is in power.
In speech after speech, she took direct aim at Mr Modi. She talked about the deadly suicide attack in Kashmir and India's subsequent air raid in Pakistan. She accused the BJP of trying to divide Hindus and Muslims. She said elections in the past were to change the government, but this election was to save the constitution of India.
So on Tuesday, when the 43-year-old stood up to address the lower house, I was among those expecting an intelligent speech. But it was more than that. It won her fans and admirers and trended on Twitter for hours.
संसद में पहली बार चुनकर आईं तृणमूल कांग्रेस की सांसद महुआ मोइत्रा ने चिंता जताई है कि देश के मौजूदा हालात फ़ासीवाद के शुरुआती संकेत जैसे हैं.
संसद में पहली बार बोलते हुए उन्होंने सात संकेतों का ज़िक्र किया और अमरीका के 'होलोकॉस्ट मेमोरियल म्यूज़ियम' की मेन लॉबी में साल 2017 में प्रदर्शित एक पोस्टर का हवाला दिया.
जर्मनी में 1940 के दशक के दौरान नाज़ी हुकूमत के तहत यहूदियों की सामूहिक हत्या को याद करने के लिए बने मेमोरियल म्यूज़ियम में 2017 में लगाए गए पोस्टर में फ़ासीवाद के शुरुआती संकेतों की सूची छपी है.
बीबीसी से बातचीत में सासंद महुआ मोइत्रा ने कहा, "ये लिस्ट मैंने नहीं बनाई, ये पुरानी लिस्ट है और बाक़ि आपके सामने है. फ़ासीवाद, मेजोरिटेरियनिज़म (बहुसंख्यकों का प्रभुत्व) से जुड़ा है. जहां ये माना जाता है कि हम जो सोचते हैं वही सही है बाक़ि सब ग़लत और उसको अक्सर जन समर्थन मिलता है, जैसा कि अभी हुआ है."
वो पोस्टर अब भी होलोकॉस्ट मेमोरियल म्यूज़ियम या उसकी गिफ़्ट शॉप में प्रदर्शित है या नहीं इसकी पुष्टि नहीं हो पाई है पर पोस्टर की एक तस्वीर साल 2017 में ट्विटर पर पोस्ट होने के बाद ये चर्चा में आया था.
महुआ के मुताबिक़ उनका इशारा बड़े स्तर के किसी जनसंहार की तरफ़ नहीं है पर इतने बड़े जनादेश को ध्यान में रखते हुए इन मुद्दों पर जानकारी फैलाना उनकी ज़िम्मेदारी है.
उन्होंने कहा, "फ़ासीवाद सिर्फ़ जर्मनी में ही नहीं था, अब कई जगह हैं, मेरी बात का ये मतलब नहीं कि साठ लाख यहूदियों को मार दिया जाएगा, लेकिन ये साफ़ है कि फ़ासीवाद के शुरुआती संकेत दिख रहे हैं."
अपने चुनाव प्रचार में भी महुआ मोदी सरकार की आलोचना करती रही हैं. उन्होंने लोगों की जानकारी की निजता के हक़ की सुरक्षा के लिए याचिकाएं भी दायर की हैं.
बीबीसी से बातचीत में उन्होंने कहा, "हमारे पास डेटा प्राइवेसी क़ानून नहीं है और सरकार अध्यादेश के ज़रिए प्राइवेट कंपनियों को लोगों की जानकारी देने के प्रावधान बना रही है, हमारे देश में लोगों में निजता के बारे में जागरूकता नहीं है और सस्ती चीज़ों, सेवाओं के लिए वो अपना डेटा देने से हिचकते नहीं हैं."
महुआ के मुताबिक़ ऐसे में सरकार की ज़िम्मेदारी है लोगों के हक़ में सही क़ानून लाना लेकिन वो कॉरपोरेट और राजनीतिक हित को देख रही है.
पश्चिम बंगाल के कृष्णानगर लोकसभा क्षेत्र से जीतकर आईं महुआ मोइत्रा पहले लंदन में बहुराष्ट्रीय कंपनी जे पी मॉर्गन में इंवेस्टमेंट बैंकर थीं.
साल 2009 में ये नौकरी छोड़ वो भारत आईं और राजनीति में जुड़ गईं. साल 2016 में वो करीमपुर विधानसभा क्षेत्र से जीती.
1972 से वो सीट वाम दल ही जीतते आए थे. 2016 से महुआ मोइत्रा तृणमूल कांग्रेस की राष्ट्रीय प्रवक्ता भी हैं.
2019 में उन्होंने पहली बार लोकसभा का चुनाव लड़ा और जीता. मंगलवार को वो राष्ट्रपति के अभिभाषण पर धन्यवाद प्रस्ताव में बोलीं. ये संसद में उनका पहला संबोधन था.
अपने भाषण में उन्होंने जिन सात संकेतों को रेखांकित किया वो सब उस पोस्टर में चिन्हित हैं.
पहला, देश में लोगों को अलग करने के लिए उन्मादी राष्ट्रवाद फैलाया जा रहा है. दशकों से देश में रह रहे लोगों को अपनी नागरिकता का सबूत देने को कहा जा रहा है.
उन्होंने प्रधानमंत्री और सरकार के कुछ मंत्रियों पर चुटकी लेते हुए कहा कि जहां सरकार के मंत्री ये तक नहीं दिखा पा रहे हैं कि उन्होंने किस कॉलेज या यूनीवर्सिटी से ग्रेजुएशन किया है वहां सरकार ग़रीब लोगों से नागरिकता के सबूत देने को कह रही है.
दूसरा, सरकार के हर स्तर में मानवाधिकारों के ख़िलाफ़ घृणा पनपती जा रही है. दिन दहाड़े भीड़ के द्वारा की जा रही लिंचिंग पर चुप्पी है.
तीसरा, मीडिया पर नकेल कसी जा रही है. देश की सबसे बड़ी पांच मीडिया कंपनियों पर या तो सीधा या अप्रत्यक्ष तरीक़े से एक व्यक्ति का नियंत्रण है. फ़ेक न्यूज़ के ज़रिए लोगों को दिगभ्रमित किया जा रहा है.
चौथा, राष्ट्रीय सुरक्षा के नाम पर दुशमन ढूंढे जा रहे हैं. जबकि पिछले पांच सालों में कश्मीर में सेना के जवानों की मौत में 106 फ़ीसदी का इज़ाफ़ा हुआ है.
पांचवा, सरकार और धर्म आपस में मिल गए हैं. 'नैश्नल रेजिस्टर ऑफ़ सिटिज़न्स' और 'सिटिज़नशिप अमेंडमेंट बिल' के ज़रिए ये सुनिश्चित किया जा रहा है कि एक ही समुदाय को इस देश में रहने का हक़ रहे.
छठा, बुद्धीजीवियों और कला की उपेक्षा की जा रही है और असहमति की आवाज़ों को दबाया जा रहा है. और सातवां, चुनाव प्रक्रिया की स्वायत्ता कम हो रही है.