Monday, 31 August 2020

حرام کمائی والے سے قرض لے کر تجارت میں لگانا؟

حرام کمائی والے سے قرض لے کر تجارت میں لگانا؟ 

-------------------------------
--------------------------------

سوال: جش شخص کی کمائی حرام ہو. کیا اس کے پاس کوئی چیز گروی اور رہن رکھ کر اس کی حرام کمائی سے قرض لینا اور پھر اسے تجارت اور کاروبار میں لگانا جائز ہے یا نہیں؟ مدلل و مفصل جواب تحریر فرماکر مشکور ہوں: ابوعفان قاسمی

الجواب وباللہ التوفیق: 

جو مال ناجائز طریقے سے حاصل کیا گیا ہو اگر اس کی عین و ذات میں ہی خبث اور حرمت ہو یعنی اس کے اصل مالک کی رضامندی کے بغیر اسے لے لیا گیا ہو جیسے چوری، ڈکیتی، راہ زنی اور غصب کے ذریعہ حاصل کردہ مال! تو ایسے اموال کو حاصل کرنے والا شخص ان کا مالک نہیں ہوتا؛ کیونکہ اصل مالک کا اذن ان اموال کے حصول میں شامل نہیں ہے؛ لہذا ایسے بندے سے قرض و رہن یا دیگر مالی معاملات کرنا جائز نہیں ہے؛ لیکن اگر غیرشرعی طور پہ حاصل کردہ اموال کی اصل اور عین وذات میں حرمت تو نہ ہو، یعنی ان کے حصول میں اصل مالک کی رضا شامل ہو؛ لیکن غیرشرعی طریقہ پر حاصل کیا گیا ہو جیسے: سود، قمار، جوا، بدکاری، ناچ گانے وغیرہ سے حاصل کیا گیا مال! تو ایسے مال حرام کا کاسب مالک بن جاتا ہے. اگر ایسا مال دیگر حلال مال سے مخلوط و مغلوب ہو تو لین دین کرنا جائز ہے، اگر یہ مخلوط وغیر متمیز اور غالب ہو تو اس سے مالی لین دین کرنا قضاءً تو  جائز ہے؛ البتہ دیانۃً درست نہیں، یعنی قابل اجتناب ہے. مذاہب اربعہ کا اس بابت یہ موقف ہے: 

'غمز عيون البصائر' (1/ 192، ط. دارالكتب العلمية للعلامة الحموي) میں ہے: 

[معاملة من أكثر ماله حرام ولم يتحقق المأخوذ من ماله عين الحرام فلا تحرم مبايعته؛ لإمكان الحلال وعدم التحريم، ولكن يكره خوفًا من الوقوع في الحرام، كذا في "فتح القدير"] اهـ.

علامہ دسوقي مالكي 'الشرح الكبير' (3/ 277، ط. دار إحياء الكتب العربية) کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:

[اعلم أن من أكثر ماله حلال وأقله حرام المعتمد جواز معاملته ومداينته والأكل من ماله، كما قال ابن القاسم خلافًا لأصبغ القائل بحرمة ذلك، وأما من أكثر ماله حرام والقليل منه حلال، فمذهب ابن القاسم كراهة معاملته، ومداينته والأكل من ماله وهو المعتمد، خلافًا لأصبغ المحرم لذلك] اهـ.

إمام نووي  "روضة الطالبين" (7/ 337) میں لکھتے ہیں: 

[دعاه من أكثر ماله حرام، كرهت إجابته كما تكره معاملته] اهـ. 

جلال السيوطي اپنی"الأشباه والنظائر" (ص: 107) میں لکھتے ہیں:

 [معاملة من أكثر ماله حرام إذا لم يعرف عينه لا يحرم في الأصح، لكن يكره، وكذا الأخذ من عطايا السلطان إذا غلب الحرام في يده كما قال في "شرح المهذب": إن المشهور فيه الكراهة لا التحريم] اهـ.

علامة ابن قدامة حنبلي "المغني" (4/ 180) میں لکھتے ہیں: 

[إذا اشترى ممن في ماله حرام وحلال؛ كالسلطان الظالم والمرابي، فإن علم أن المبيع من حلال ماله فهو حلال، وإن علم أنه حرام فهو حرام...؛ لأن الظاهر أن ما في يد الإنسان ملكه، فإن لم يعلم من أيهما هو كرهناه؛ لاحتمال التحريم فيه، ولم يبطل البيع؛ لإمكان الحلال، قل الحرام أو كثر، وهذا هو الشبهة، وبقدر قلة الحرام وكثرته تكون كثرة الشبهة وقلتها] اهـ.

فقہ البیوع میں ہے:

أمّا إذا خلطه بمال نفسه، فالمرادُ أنّه لايحلّ له الانتفاعُ بالحصّة المغصوبة، أمّا الانتفاعُ بحصّةِ ماله، فيجوز، سواءٌ كان قليلاً أو كثيراً. وقد اشتهر على الألسُن أنّ حكم التّعامل مع من كان مالُه مخلوطاً بالحلال والحرام أنّه إن كان الحلالُ فيها أكثر، جاز التّعاملُ معه بقبول هديّته وتعاقد البيع والشّراء معه، وبذلك صدرت بعضُ الفتاوى. ولكنّ ما يتحقّق بعد سبر كلام الفقهاء الحنفيّة فى هذا الموضوع أنّ اعتبارَالغلبة إنّما هو فى الصّورة الأولى، يعنى فيما إذا كان الحلالُ متميّزاً عن الحرام عند صاحبه، ولايعلمُ المتعاملُ معه أنّ ما يُعطيه من الحلال أو من الحرام. فحينئذٍ تُعتبر الغلبة، بمعنى أنّه إن كان أكثرُ ماله حلالاً، يُفرض أنّ ما يُعطيه من الحلال، والعكس بالعكس، كما قدّمنا نُصوصه فى الصّورة الأولى.

أمّا إذا كان الحلالُ مخلوطاً بالحرام دون تمييز أحدهما بالآخر، فإنّه لاعبرةَ بالغلبة فى هذه الحالة فى مذهب الحنفيّة. ويدلّ على ذلك ما يأتى:…………… وقد ذكرنا قولَ الفقهاء الحنفيّة فى القسم الثانى (المخلوط المتميّز) أنّه إن كان الغالبُ فى الأموال المتميّزة حلالاً، جاز للموهوب له أن ينتفعَ بما وُهِب له مالم يعلم أنّ ما أهدىَ إليه حرامٌ بعينه، وعلّله الفقهاء بقولهم: "إنّ أموالَ النّاس لاتخلو عن قليل حرام،" مع أنّ احتمالَ كونه من الحرام قائمٌ فى المال الّذى أكثرُه حلال، فالانتفاعُ بقدر الحلال من المال المخلوط أولى بالجواز، لأنّ احتمالَ كونه حراماً منتفٍ ههنا ……………….. وقد رُوى عن الإمام محمّد رحمه الله تعالى حِلُّ الانتفاع بقدر الحلال بصراحة. جاء فى التّتار خانيّةعنه: "غصب عشرةَ دنانير، فألقى فيها ديناراً، ثمّ أعطى منه رجلاً ديناراً، جاز، ثمّ ديناراً آخر، لا." والحلالُ ههنا أقلّ، ولكنّه أجيز بقدرالحلالِ بدون اعتبار الغلبة.

وخامساً: قال الكاسانيّ رحمه الله تعالى: "ولو خلط الغاصبُ دراهمَ الغصب بدراهم نفسه خلطاً لايتميّز ضمنَ مثلَها، ومَلك المخلوط، لأنّه أتلفها بالخلط. وإن مات كان ذلك لجميع الغرماء، والمغصوبُ منه أسوةُ الغرماء، لأنّه زال مِلكُه عنها وصار مِلكاً للغاصب."…………. والخلاصةُ أنّ الغاصبَ إن خَلَطَ المغصوبَ بماله، مَلَكه وحلّ له الانتفاعُ بقدر حصّته على أصل أبى حنيفة ومحمّد رحمه الله تعالى. فإن باعه أو وهبه بقدر حصّته، جاز للآخذ الانتفاعُ به. أمّا إذا باع أو وهب بعد استنفاد حصّته من الحلال، فيدخل فى الصّورة الثّانية الّتى كلُّ المخلوط فيها مغصوب، ولايحلّ له الانتفاعُ به، ولاللّذى يشترى أو يتّهب منه حتّى يؤدّى البدلَ إلى المغصوب منه. فأمّا إذا لم يعلم الآخذ منه كم حصّة الحلال فى المخلوط، يعمل بغلبة الظّنّ، فإن غلب على ظنّه أنّ قدرَ مايتعامل به حلالٌ عنده، فلابأس بالتّعامل، كما سيأتى فى الصّورة الرّابعة.

الصّورة الرابعة: أنّ المال مركّبٌ من الحلال والحرام، ولايُعرف أنّ الحلال مميَّزٌ من الحرام أومخلوطٌ غيرمميَّز. وإن كان مخلوطاً فكم حصّةُ الحلال فيه. و الأولى فى هذه الصّورة التنزّه، ولكن يجوز للآخذ أن يأخذَ منه بعضَ ماله هبةً أو شراءً، لأنّ الأصل الإباحة. وينبغى أن يُقيّد ذلك بأن يغلب على ظنّ الآخذ أنّ الحلالَ فيه بقدر ما يأخذه أو أكثرُ منه. (فقه البيوع) (احكام المال الحرام، ج:1 ص: 997-1003، مکتبۃ معارف القرآن، طبع جدید 2019ء)

واللہ اعلم بالصواب

شکیل منصور القاسمی

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_31.html



Sunday, 30 August 2020

یومِ عاشورا میں مخصوص طرز پر چار رکعت نفل

 یومِ عاشورا میں مخصوص طرز پر چار رکعت نفل

مسئلہ (۸): طلبۂ جامعہ کی طرف سے چسپاں کئے گئے جداری پرچوں میں سے ایک پرچہ ’’البدر‘‘ میں فضیلتِ یومِ عاشورا کے متعلق یوں تحریر ہے: ’’حضور پُرنور، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: ’’جو شخص اس دن کا روزہ رکھے گا، اس کے’’اگلے پچھلے‘‘ سارے گناہ اللہ کے فضل وکرم سے معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘… حالاں کہ صحیح روایت یوں ہے: ’’حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ’’ یومِ عاشورا کے روزے کے ثواب کے بارے میں خدائے پاک سے امید رکھتا ہو کہ اللہ اس کو گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بنادے۔‘‘ (۱) (جداری پرچے میں لفظ ’’اگلے‘‘ زائد ہے، جو کاتب کی زیادتی ہے)

اسی طرح اس پرچے میں مخصوص طرز پر چار رکعت نفل کا تذکرہ ہے کہ:

’’جو شخص یومِ عاشورا کو چار رکعت نماز پڑھے، اور ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے، تواللہ تعالیٰ اس کے پچاس برس کے گناہ معاف کردیتا ہے، اور اس کے لئے نور کا منبر بناتا ہے۔‘‘ــ(۲)- یہ بھی احادیثِ صحیحہ سے ثابت نہیں، بلکہ بدعت ہے، جسے ترک کرنا لازم ہے۔(۳)

طلبۂ کرام! یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ عاشورہ، یعنی۱۰؍ محرم کے دن خصوصیت کے ساتھ کوئی خاص ذکر یا تسبیح یا طریقۂ عبادت، مثلاً: مخصوص طرز پر چار رکعت نفل وغیرہ، قطعاً درست نہیں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے معتبرومستند طریق پر منقول نہیں، لہٰذا کسی خاص طریقہ پر نفل نماز پڑھنا اور اسے باعثِ اجر وثواب سمجھنا بدعت ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’جب کوئی قوم کسی بدعت کو رَواج دیتی ہے، تو اسی کے مثل سنت اٹھالی جاتی ہے، اس لئے کسی سنت پر عمل کرنا اِحداث فی الدین یعنی بدعت سے بہتر ہے۔‘‘(۴)

تنبیہ: مذکورہ جداری پرچے میں مخصوص طرز پر چار رکعت نفل کا طریقہ، کتاب ’’شامِ کربلا‘‘ (مصنف: مولانا محمد شفیع اوکاڑوی قبلہ، ناشر مکتبہ جامِ نور دہلی، مطبع؛ زمزم آفسیٹ پریس دہلی) سے ماخوذ ہے، جس کے مضامین عقائد اہل سنت والجماعت سے متصادم ہیں، لہٰذا جداری پرچوں کے ایڈیٹر وذمہ دار اور مضمون نگار طلبہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معتبر ومستند کتابوں سے ہی مضمون نگاری کریں، اور جو بھی مضمون لکھیں، محقق ومدلل اور احادیثِ صحیحہ کی مُراجَعت کے بعد ہی لکھیں!!

الحجۃ علی ما قلنا:

=(۱) ما في ’’صحیح مسلم‘‘: عن أبي قتادۃ مرفوعا: ’’صیام یوم عاشوراء احتسب علی اللہ أن یکفّر السنۃ التي قبلہ‘‘ ۔ (۱/۳۶۷ ، باب استحباب صیام ثلاثۃ أیام من کل شہر وصوم یوم عرفۃ وعاشوراء الخ، رقم: ۲۸۰۳، جامع الترمذي: ۱/۱۵۸، باب ما جاء في الحث علی صوم یوم عاشوراء، رقم: ۷۵۲، سنن ابن ماجہ :ص/۱۲۴، أبواب ما جاء في الصیام، باب صیام یوم عاشوراء، رقم : ۱۷۳۸، سنن أبي داود: ص/۳۲۹، کتاب الصیام ، باب في صوم الدہر تطوعًا، قدیمي)

(۲) ما في ’’نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس‘‘: وعنہ صلى الله عليه وسلم: ’’من صلی یوم عاشوراء أربع رکعات یقرأ في کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب وقل ہو اللہ أحد إحدی عشرۃ مرۃ غفر اللہ لہ ذنوب خمسین عامًا وبنی لہ منبرًا من نور‘‘۔ (۱/۱۶۵، باب فضل صیام یوم عاشوراء وصیام أیام البیض، عبدالرحمن بن عبدالسلام الصفوري/ الصفوي)

ما في ’’شام کربلا‘‘: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو عاشورے کے دن چار رکعتیں پڑھے ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کے پچاس برس کے گناہ معاف کردیتا ہے، اور اس کے لئے نور کا منبر بناتا ہے۔‘‘ (شامِ کربلا: ص/۲۸۸، فضیلتِ عاشوراء)

(۳) (فتاویٰ محمودیہ :۳/۲۵۵، ۲۵۶، طبع کراچی، و۳/۲۷۳، ۲۷۴)

(۴) ما في ’’مشکوۃ المصابیح‘‘: عن غضیف بن الحارث الثمالي قال: قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم: ’’ما أحدث قوم بدعۃً إلا رُفع مثلُہا من السنۃ؛ فتمسُّکُ بسنۃٍ خیرٌ من إحداث بدعۃ‘‘۔ رواہ أحمد۔ (ص/۳۱، کتاب الإیمان، باب الإعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثالث، قدیمي)

ما في ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘: والأظہر أن مرادہ علیہ الصلاۃ والسلام المبالغۃ في متابعتہ وأن سنتہ من حیث أنہا سنۃ أفضل من بدعۃ ولو کانت مستحسنۃ مع قطع النظر عن کونہا متعدیۃ أو قاصرۃ أو دائمۃ أو منقطعۃ، ألا تری أن ترک سنۃ أي سنۃ تکاسلا یوجب اللوم والعتاب، وترکہا استخفافًا یثبت العصیان والعقاب، وإنکارہا یجعل صاحبہ مبتدعًا بلا ارتیاب ۔ والبدعۃ ولوکانت مستحسنۃ لا یترتب علی ترکہا شيء من ذلک، وأما جعل خیر بغیر معنی التفضیل فبعید بل تحصیل حاصل معلوم عند المخاطبین فلا یکون فیہ فائدۃ تامۃ ولا مبالغۃ کاملۃ واللہ اعلم۔ (رواہ أحمد) قال میرک: بسند جید۔ (۱/۳۹۳، رقم :۱۸۷، الفصل الثالث) (فتاویٰ بنوریہ، رقم الفتویٰ: ۳۶۲۸۵) نقلہ: #ایس_اے_ساگر

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_30.html



Saturday, 29 August 2020

نبیؐ ــــــ فکری اوراجتہادی بصیرت کے چند جلوے

نبیؐ ــــــ فکری اوراجتہادی بصیرت کے چند جلوے

-------------------------------
--------------------------------

                اسلام کا دائمی معجزہ اورہمیشگی کی حجة اللہ البالغہ ”قرآن“ کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی ”سیرت“ ہے۔ دراصل ”قرآن“ اور ”حیات نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم“ معاً ایک ہی ہیں، قرآن متن ہے تو سیرت اس کی شرح۔ قرآن علم ہے تو سیرت اس کا عمل، قرآن مابین الدفتین ہے تو یہ ایک مجسم و ممثل قرآن تھا جو مدینہ کی سرزمین پر چلتا پھرتا نظر آتا تھا، کان خلقہ القرآن․

                سیرت نبوی کا اعجاز ہے کہ اس کے اندر ہزاروں روشن پہلو ہیں۔ دنیا کو جس پہلو یا گوشے سے روشنی اور گرمی مطلوب ہو، اس کو سیرت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثال خزانہ میں وہ اسوہ اور نمونہ مل جاتا ہے جس سے اپنے ہمہ نوعیتی مسائل و مشکلات کا کامیاب ترین حل نکال لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی گوشہ تاریکی میں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے تمام ہی پہلو سورج سے زیادہ ظاہر وعیاں ہوکر دنیا کے سامنے موجود ہیں، آپ جس پیغام الٰہی کو لے کر دنیا میں تشریف لائے، وہ ساری انسانیت کیلئے ایک ہمہ گیر، مستحکم ومضبوط اور ”عائمی نظام حیات“ ہے اور اس نے اپنی اس امتیازی شان، ہمہ گیری اور دوامی حیثیت کی بقاء کی خاطر اپنے اندر ایسی لچک اور گنجائش رکھی ہے کہ ہر دور میں اور ہر جگہ انسانی ضروریات کا ساتھ دے سکے اور کسی منزل پر اپنے پیروں کی رہبری سے عاجز وقاصر نہ رہے۔

                لوگوں کو جس قسم کے مسائل و حالات پیش آسکتے ہیں، ان کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:

                (۱) وہ مسائل جن میں حالات و زمانے کے اختلاف سے کوئی تغیر پیدا نہ ہو۔ ایسے مسائل کیلئے شروع ہی سے شریعت میں تفصیلی احکام و قواعد ثابت و موجود ہیں۔ جیسے نکاح، طلاق، محرمات اور میراث وغیرہ کے احکام۔

                (۲) وہ مسائل جو حالات و زمانے کے بدلنے سے متغیر ہوسکتے ہوں ایسے مسائل کے بارے میں شریعت نے کوئی تفصیلی احکام نہیں چھوڑے ہیں؛ بلکہ اس سلسلے میں عام قواعد اور بنیادی اصول ومبادی وضع کردی ہے اور امت کے بالغ نظر اور بلند پایہ فقہاء کیلئے یہ گنجائش چھوڑ دی ہے کہ شریعت کے مقاصد، اس کے مزاج ومذاق، احکام شرع کے مدارج اور دین کی بنیادی اصول و قواعد کو سامنے رکھ کر ان مسائل کے احکام تلاش کریں؛ لیکن اس مقصد کیلئے یہ ضروری ہے کہ علمائے امت کے سامنے سیرت نبوی کا فکری اور اجتہادی پہلو ہو جس کی رہنمائی میں ہر زمانہ کے علماء وفقہاء غیرمنصوص اور نئے پیش آمدہ مسائل میں شرعی غور و فکر کے ذریعہ کوئی شرعی حکم نکال سکیں۔ سیرت نبوی کا اعجاز دیکھئے کہ اس میں وہ قیاس واجتہاد کے ایک دو نہیں متعدد علمی نمونے موجود ہیں جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے قول وسیرت سے یہ راہ کھلی رکھی ہے تاکہ کتاب وسنت کے اصولی ہدایات کی تطبیق پیش آنے والی جزئیات یہ قیامت تک جاری رہ سکے۔ ذیل کی سطروں میں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی گوشہ کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کا استنباط واجتہاد:

                علماء اصول کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ غیرمنصوص مسائل میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اجتہاد جائز تھا یا نہیں؟ جمہور علماء اصول کے یہاں جائز ہے۔ معتزلہ اور ابن حزم ظاہری کے یہاں جائز نہیں ہے۔(۱)

                پھر جولوگ اجتہاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جائز قرار دیتے ہیں ان کے مابین دو باتوں میں اختلاف ہے:

                (الف) کس قسم کے مسائل میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کیا ہے؟

                (ب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کب اجتہاد فرمایا کرتے تھے؟

                علامہ قرافی رحمة اللہ علیہ، علامہ عبدالعزیز بخاری رحمة اللہ علیہ اور علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ نے اس پر جمہور علمائے امت کا اتفاق نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی امور اور دنیوی معاملات کے سلسلے میں اجتہاد فرمایا ہے۔

                بخاری کے الفاظ یہ ہیں: کلہم قد اتفقوا علیٰ أن العمل یجوز لہ بالرأی فی الحروب وامور الدنیا۔(۲)

                علامہ قرافی بھی یہی فرماتے ہیں: محمل الخلاف فی الفتاویٰ․ امّا الأقضیة فیجوز الأجتہاد بالاجماع“ (۳)

                لیکن کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرعی امور میں بھی اجتہاد کیا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں اصولیین کا قول مختلف ہے۔ دلائل کی روشنی میں جو قول نکھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے شرعی امور میں بھی اخذ واستنباط سے کام لیا ہے۔(۴) جس کی سب سے بڑی اور واضح دلیل یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کیفیت اذان کے سلسلے میں اپنے صحابہ کے ساتھ اجماعی غور وتدبیر کے بعد اپنے اجتہاد و قیاس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر ایک فیصلہ فرمایا اور پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا۔ غور کیا جاسکتا ہے کہ ”اذان“ کوئی دنیوی یا جنگی معاملہ نہیں؛ بلکہ خالص اللہ کا حق ہے اور شعائر دین ومذہب ہے؛ لیکن اس میں بھی آپ کا اجتہاد وقیاس ثابت ہے۔ اس سلسلے میں مزید دلائل کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

                اجتہاد نبوی کی کیفیت کے سلسلے میں جمہور محدثین اور ائمہ ثلاثہ کا رجحان یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی واقعہ کے پیش آتے ہی اجتہاد کرلیا کرتے تھے اس سلسلے میں آپ وحی کا انتظار نہیں فرماتے تھے؛ لیکن اس بارے میں احناف رحمہم اللہ کا راجح نقطئہ نظر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ مسائل میں پہلے ”وحی“ کا انتظار کرتے اگر ”مدت انتظار“ میں وحی نازل ہوجاتی تو فبہا ورنہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد وقیاس کے ذریعہ ان کا حل بتادیتے۔

                علامہ سرخسی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: وأصح الاأقاویل عندنا أنہ علیہ الصلوة فیما کان یبتلی بہ من الحوادث التی لیس فیہا وحی منزل، کان ینتظر الوحی الی أن تمضَی مدة الانتظار ثم کان یعمل بالرأی والاجتہاد(۵)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فکرواجتہاد کے مامور تھے:

                (۱) بنونظیر جب مدینہ طیبہ سے شام جلاوطن کردئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے اہل بصیرت کو ان کی بدعہدی اور شرارت پے عبرت دلاتے ہوئے فرمایا: ”فاعتبروا یا أولی الابصار“ ”اعتبار، کہتے ہیں کسی چیز کی حقیقت ودلائل میں غور وفکر کرکے اسی جنس کی دوسری چیز کو جان لینا.“

                آیت میں ارباب بصیرت، صاحب نظروفکر لوگوں کو غور وتدبر کا بالعموم حکم دیا گیا ہے۔ اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون بالغ نظر ہوسکتا ہے؟ لہٰذا آیت پاک میں جس غور وفکر کا حکم دیا جارہا ہے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے عموم میں داخل ہیں اور اجتہاد وقیاس کے مکلف آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہوئے۔(۶)

                (۲) واذا جاء ہم امر من الأمن اوالخوف أذاعوبہ ولوردوہ الی الرسول والی أولی الامر منہم لعلم الذین لیستنبطونہ منہم․ امام رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آیت پاک میں استنباط و تحقیق کے اندر اللہ تعالیٰ نے نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر اور حاکموں کو یکساں قرار دیا ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اخذ و استنباط کے مکلف تھے، فعلم من ذلک أن الرسول علیہ الصلاة والسلام مکلف بالاستنباط (۷)

                آیت پاک میں ”أمر من الامن اوالخوف“ سے اس نظریہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم شرعی مسائل میں بھی اجتہاد کرتے تھے، اس لئے کہ لفظ ”اَمرٌ“ مطلق آیا ہے، اور جس طرح سے جنگ وجدال میں امن وخوف کی حالت ہوتی ہے اسی طرح امور دینیہ میں بھی امن وخوف کی حالت کا تحقق ممکن ہے، لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم جنگی امور میں اجتہاد فرمایا کرتے تھے اسی طرح شرعی امور میں بھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد وقیاس کے مامور ومجاز تھے۔(۸)

                (۳) لولا کتاب من اللّٰہ سبق لمسکم فیما أخذتم عذاب عظیم․(۹)

                بدر کی لڑائی میں ستر کافر مسلمانوں کے ہاتھوں میں قید ہوکر آئے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قیدیوں کے سلسلہ میں مشورہ طلب کیا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اجتماعی غور وتدبر کے بعد ان قیدیوں کے سلسلے میں مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رائی یہ تھی کہ فدیہ لے کر ان تمام قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ تمام قیدیوں کو قتل کردیا جائے، حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی بھی یہی رائے تھی۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبعی رافت ورحمت کی بناء پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر عمل کیا۔ اور تمام قیدیوں کو فدیہ لے کررہا کردیا گیا۔ لیکن آپ کے اس فیصلہ کو خدا تعالیٰ کی جانب سے اجتہادی غلطی قرار دی گئی اور پھر آیت مذکورہ میں جو سخت عتاب آمیز لہجہ اختیار کیا گیا وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ آیت پاک سے دو مسئلے ثابت ہوتے ہیں: 

اوّل: یہ کہ کسی پیش آمدہ مسائل میں کتاب و سنت میں کوئی حکم نہیں ملتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اجتہاد کرنا جائز تھا۔ دوم: یہ ہے کہ جس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے جنگی امور میں اجتہاد کرنا جائز تھا۔ اسی طرح شرعی امور میں بھی آپ اجتہاد کے مکلف تھے۔ جنگ بدر کا معاملہ صرف ایک جنگی حد تک محدود نہ تھا بلکہ یہ جنگ ایمان وکفر، حق وباطل کی فیصلہ کن لڑائی ہونے کی وجہ سے مذہبی و شرعی معاملہ کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔

                امام رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: فالآیة صریحة فی بیان أن الرسول علیہ الصلاة والسلام کان یحکم بمقتضی الاجتہاد فی الوقائع التی لم ینزل بہا نص او وحی․(۱۰)

                (۴) فتح مکہ کے دن مکہ المکرمہ کی حرمت وعظمت کو بیان کرتے ہوئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فہو حرام بحرمة اللّٰہ تعالیٰ الٰی یوم القیامة، لا یُعضد شوکة ولا ینفر صیدہ ولا تلتقط لقطة الاّ من عرّفہا ولا یختل خلاہا․

                حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یارسول اللہ! آپ  صلی اللہ علیہ وسلم تمام گھانسوں کو ممنوع فرمارہے ہیں، حالانکہ ”اذخر“ کی ضرورت ہم لوگوں کو گھر کی چھتوں میں پڑتی رہتی ہے؟ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الا الاذخر“ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا پھر ”اذخر“ کا استثناء کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ گھاس وغیرہ کی حرمت کے سلسلہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کیا تھا۔ وہذا مبنی علی ان الرسول کان لہ ان یجتہد فی الاحکام(۱۱)

                (۵) قریش نے اپنے دور میں خانہ کعبہ جو تعمیر کی تھی۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے خلاف تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا: ألا تردہا علی قواعد ابراہیم؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لولا حدثان قومک بالکفر لفعلت(۱۲)

                آپ کا یہ ارشاد بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی تعمیر کردہ بنیاد کو جو باقی رکھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔ اس لئے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمارت منہدم کرنے کا مامور ہوتے تو خوف فتنہ اس سے قطعا مانع نہیں ہوتا۔

                مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اجتہاد و قیاس کے مامور ومکلف تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی ودنیوی تمام ہی امور میں اجتہاد کیا ہے۔ ذیل میں قدرے تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ کن کن معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد سے کام لیا ہے۔

دنیوی امور میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات:

                (۱) ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد نوش فرمایا، حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو اس کا علم ہوا تو دونوں نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ ہم میں سے جس کے پاس حضور تشریف لائیں، ہر کوئی یہ کہے کہ حضور آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آرہی ہے! ایسا ہی ہوا، آپ حضرت عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما میں سے جن کے پاس تشریف لے گئے آپ سے یہی سوال ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، میں نے زینب کے پاس شہد پیا ہے۔ اگر تم لوگوں کو اس شہد کی وجہ سے ناراضگی ہوئی تو دیا رکھو! آج سے میں شہد ہی نہیں پیونگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: لم یحرم ما احل اللّٰہ لک․ (۱۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ازواج کی دلجوئی کے واسطے اپنے اوپر شہد کو حرام کیا گیا، یہ محض آپ کا قیاس تھا۔

                (۲) آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو دیکھا کہ انصار مدینہ ترکھجور کا پیوند مادہ کھجور کو لگاتے ہیں تو کھجور زیادہ ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو اس طرز عمل سے منع کردیا۔ اتفاق سے اس سال مدینہ میں کھجور کی پیداوار بالکل گھٹ گئی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اجازت دے دی(۱۴) پہلے تابیر نخلہ کی ممانعت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔

                (۳) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اکابر قریش کو اسلام کی دعوت و تبلیغ میں مشغول تھے، اسی دوران حضرت عبداللہ بن ام مکتوم حاضر مجلس ہوئے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کے قبول اسلام کی امید پر نابینا صحابی سے منھ پھیر لیا، جس پر آیت: عبس و تولّٰی الخ نازل ہوئی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعراض محض اجتہاد تھا۔(۱۵)

جنگی امور میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات:

                (۱) بدر کی لڑائی کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے سے ایک جگہ متعین کی تھی، بعد میں حضرت حباب بن المنذر کی رائے سے وہ جگہ بدل دی- پہلی جگہ کے سلسلے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کیا تھا۔(۱۶)

                (۲) اساری بدر کے سلسلے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فیصلہ فرمایا تھا وہ آپ کا اجتہاد تھا۔

                (۳) غزوہٴ احد کے سلسلے میں مدینہ سے باہر نکلنے یا نہ نکلنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کیا تھا کہ مدینہ ہی میں رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے- بعد میں اس تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی۔(۱۷)

                (۴) ”خندق“ غزوہٴ احزاب میں حضرت سلمان فارسی کی رائے پر آپ نے عمل کیا۔ یہ آپ کا اجتہاد تھا۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔(۱۸)

                (۵) غزوہٴ خندق میں قبیلہ غطفان کے دو سردار عیینہ بن الحصن اور ”الحارث بن عوف المروی“ سے مدینہ کی ثلث کجھور پر مصالحت کی پیشکش کی تھی۔ یہ صرف آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔(۱۹)

                (۶) غزوہٴ تبوک میں بعض منافقوں کے اعذار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگ میں شریک نہ ہونے کی اجازت و رخصت دیدی تھی ۔ یہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔(۲۰)

معاملات و قضایا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات:

                (۱) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیوی سے رجوع کا حکم دیا تھا جس کو انھوں نے حالت حیض میں طلاق دی تھی۔(۲۱) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔

                (۲) حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ”ہند بنت عتبہ“ نے جب حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بخالت کی شکایت کی توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خذی من مالہ بالمعروف ما یکفیک ویکفی بینک․(۲۲) عورت کی ضرورت و کفایت کے بقدر شوہر پر نفقہ کا واجب کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔

عبادات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات:

                (۱) کیفیت اذان کے سلسلے میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فیصلہ فرمایا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔ اس سلسلہ میں کوئی وحی وغیرہ نازل نہیں ہوئی تھی۔(۲۳)

                (۲) ابتداء میں بیت المقدس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ تھا اور ۱۶ یا ۱۷ مہینہ ادھرہی رخ کرکے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی، لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ مسجد حرام ہوجائے، چنانچہ آیت نازل ہوئی: قد نریٰ تقلب وجہک فی السماء آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام کے قبلہ ہونے میں اجتہاد و قیاس کیا تھا۔(۲۴)

                (۳) منبر سازی کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کی درخواست قبول فرمائی۔ یہ آپ کا اجتہاد تھا۔(۲۵)

                (۴) جماعت کی نماز چھوڑنے والے کے سلسلے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا کہ لکڑیاں جمع کرکے انہیں جلادیا جائے، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارادہ سے رجوع کرلیا۔(۲۶) اگر تارک الجماعة کو جلانے کا حکم منجانب اللہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے رجوع نہ فرماتے۔

                (۵) رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کیلئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے استغفار کیا تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔(۲۷)

                (۶) حضرت ابوطالب سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: لاستغفرن لک مالم اُمن(۲۸)

                فأنزل اللّٰہ تعالیٰ: ما کان للنبی والذین آمنو ان یستغفروا للمشرکین آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے چچا کیلئے استغفار کا ارادہ محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔

                 مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ہی قسم کے معاملات میں اجتہاد و استنباط سے فیصلے کئے ہیں۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد اور امت کے مجتہدین کے اجتہادات میں آسمان وزمین کا فرق ہے۔ آپ کے اجتہاد میں ”ہدی ہی ہدی“ ہے۔

                اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد مشیت الٰہی کے مطابق نہیں ہوتا تو ہر وقت وحی کے ذریعہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح واقعہ کی رہنمائی کردی جاتی تھی؛ لیکن اتنا مسلّم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات وواقعات میں اپنے اجتہاد و استنباط سے کام لیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات کا حکم:

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مسائل میں اخذ واستنباط سے کام لیا ہے، تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اجتہاد میں درستگی ہی پر تھے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاء و چوک بھی واقع ہوا ہے؟ جمہور محدثین کی یہی رائے ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اجتہادات میں معصوم عن الخطاء تھے، جبکہ احناف کا اس سلسلے میں نقطئہ نظر یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات میں خطاء بھی واقع ہوئی ہے۔ البتہ وحی کے ذریعہ اس کو منسوخ کرکے صحیح واقعہ کی رہنمائی فی الفور کردی جاتی تھی۔ دلائل کی روشنی میں احناف کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی جس اجتہادی غلطی پر خدا کی جانب سے تنبیہ کی گئی ہے، اس میں ”عفا اللّٰہ عنک“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، لفظ ”عفو“ اسی وقت استعمال ہوسکتا ہے جبکہ اس سے پہلے ”خطا“ کو موجود مانا جائے۔

                (۲) ”لم اذنت لہم“ میں استفہام انکاری ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ منافقوں کو غزوئہ تبوک میں عدم شرکت کی اجازت دینا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی چوک تھی۔

                (۳) حضرت قتادہ اور عمروبن میمون فرماتے ہیں: ”اثنان فعلہما الرسول لم یوٴمر بشیء منہما اذنہ للمنافقین، واخذہ الفداء فی الأسٰریٰ، فعاتبہ اللّٰہ کما تسمعون“(۲۹)

                بہرحال آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات میں خطاء کا واقع ہوجانا ممکن ہے، لیکن وحی کے ذریعہ اس کو منسوخ کردیا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاء اجتہادی کو برقرار نہیں رکھا جاتا تھا۔(۳۰)

دورنبوی میں حضرات صحابہ کا اجتہاد:

                اجتہاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہ مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے رہتے ہوئے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کسی پیش آمدہ مسئلہ میں اجتہاد کرنا جائز تھا یا نہیں؟ اس بارے میں جمہور علماء اور احناف کی رائے یہ ہے کہ جس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو نئے اور غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی اجازت تھی، اسی طرح حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کیلئے بھی یہ جائز تھا کہ وہ اپنے اجتہاد و قیاس کے ذریعہ نوازل وواقعات کا حل تلاش کریں۔ ذیل میں ہم اس کی بھی چند مثالیں پیش کرتے ہیں:

                (۱) حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ سے یہود بنوقریظہ کے سلسلہ میں جو فیصلہ دیا تھاکہ ”انی أحکم فیہم ان یقتل الرجال وتقسم الاموال وتسبی الذرایا والنساء․

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے اس اجتہادی فیصلہ کی پرزورالفاظ میں تحسین فرمائی: لقد حکمت فیہم بحکم اللّٰہ من فوق سبع ارفعة (سماوات)

                (۲) غزوہٴ احزاب سے واپسی کے موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا تھا ”لایصلین احدکم العصر، الا فی بنی قریظة“ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس ارشاد کو حقیقی معنی پر معمول کرتے ہوئے بنی قریظہ میں عصر کی نماز ادا کرلی اور وقت کی تاخیر کی کوئی پروا نہیں کی۔ جبکہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اجتہاد کیا اوراس ارشاد نبوی کو محض غایت سرعت پر محمول کیا اور یہ خیال کیا کہ بنوقریظہ ہی میں عصر پڑھنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ مقصود جلدی پہنچنا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے راستہ ہی میں وقت پر عصر کی نماز پڑھ لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب واقعہ کا علم ہوا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فریق کو بھی برابھلا نہیں کہا۔ گویا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اجتہاد کو بھی معتبر مانا اور عمل بالظاہر کو بھی صحیح قرار دیا۔

                (۳) مقام بدر میں مسلمانوں کی چھاؤنی بنانے کے سلسلہ میں، غزوہٴ احزاب میں مدینہ کے اردگرد خندق کھودنے کے سلسلہ میں اور غزوہٴ احد میں مدینہ کے اندر یا باہر رہ کر مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں حضرات صحابہ نے جو کچھ بھی مشورہ دیا تھا۔ یہ ان کا اجتہاد تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اجتہاد کو معتبر مانا۔

                یہ تو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وہ اجتہادات تھے جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں انجام پائے تھے۔ ان حضرات کے بعض ایسے اجتہادات بھی ہیں جو انھوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبوبت میں انجام دیں لیکن جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صحیح قرار دیا، مثلاً:

                (۱) کسی سفر میں حضرت عمر اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو غسل جنابت کی حاجت ہوئی پانی دستیاب نہیں تھا جس سے غسل کرسکتے۔ تیمم کی نوبت آئی، دونوں حضرات نے تیمم غسل کی کیفیت کے سلسلہ میں اجتہاد سے کام لیا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے مٹی کے استعمال کو پانی پر قیاس کرتے ہوئے پورے جسم پر مٹی مل لی اور نماز ادا کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد یہ تھا کہ مٹی جنابت دور کیسے کرسکتی ہے؟ انھوں نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ ان دونوں کے واقعہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی جس سے ان حضرات کے اجتہاد کی تردید وممانعت ثابت ہوتی ہو؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس قدر فرمایا کہ تیمم غسل اور تیمم وضوء میں کوئی فرق نہیں ہے پورے جسم پر مٹی لیپنے کی ضرورت نہیں تھی۔

                (۲) حضرت عمروبن العاص کو غزوہٴ ذات السلاسل میں غسل کی حاجت ہوئی، سردی اتنی سخت تھی کہ پانی سے غسل کرنا ممکن نہیں تھا آپ نے تیمم کیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے ناپاکی کی حالت میں ساتھیوں کو نماز پڑھا دی، حضرت عمر بن العاص نے فرمایا: میں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہے ولا تقتلوا انفسکم ان اللّٰہ کان بکم رحیماً، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم یہ جواب سن کر ہنس پڑے۔(۳۱) اور ان کے اس اجتہاد و استنباط پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔

                (۳) حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا قاضی بناکر بھیجنے کا وہ مشہور واقعہ بھی ہے جس میں انھوں نے آخر میں کہا تھا ”اجتہد برایٴ“ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس اجتہاد و قیاس کو نہ صرف معتبر مانا بلکہ ان کو شاباشی دی کہ ”الحمد للّٰہ الذی وفق رسول رسول اللّٰہ بما رضی لہ رسول اللّٰہ(۳۲) اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے رہتے ہوئے حضرات صحابہ کا اجتہاد از رائے شرع ناجائز ہوتا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اس جملہ کی فوراً تردید فرماتے؛ لیکن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ تمام واقعات میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتہادات کو معتبر مانا۔

                یہ چند واقعات ہیں، جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون وشریعت جامد ومعطل نہیں ہے؛ بلکہ اس میں ایسی لچک موجود ہے کہ نوپیش آمدہ مسائل کو کتاب وسنت کے حدود میں رہتے ہوئے کتاب وسنت کے اصولی ہدایات پر منطبق کیا جاسکے۔ یعنی سیرت نبوی کا اجتہادی پہلو قیامت تک کیلئے یہ دروازہ کھلا رکھتا ہے کہ ہر زمانہ میں پیدا ہونے والے جدید مسائل پر اسلامی قوانین واصول کو چسپاں کیا جائے اور لوگوں کے مصالح اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسائل کا ایسا حل تلاش کیا جائے جو شریعت کے مزاج اور زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔

                اخذ واستنباط کی یہ کوشش ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے اور دراصل یہ ہے کہ اجتہاد نہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات میں ائمہ مجتہدین کے آراء کی تطبیق ہے جسے فقہ کی زبان میں ”تحقیق مناط“ کہا جاتا ہے۔ امام ابواسحاق شاطبی نے لکھا ہے کہ اجتہاد کی یہ وہ قسم ہے جو قیامت تک باقی رہے گی۔(۳۳)

                خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے نظام پراسلامی قانون کا انطباق ان مسائل ہی میں سے ہے جس کی ضرورت واہمیت سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے؛ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ شریعت اسلامی کو زندہ و حاضر اور عصری ثابت کرنے کی سب سے بہتر اور واحد صورت یہی ہے کہ ہم اسلامی قانون کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ وہ جدید مسائل وواقعات کا توازن اورمناسب حل پیش کرتا ہو۔

از: مفتی شکیل منصور الحسنی القاسمی: اساتذ مجمع عین المعارف للدراسات الاسلامیہ، کیرالہ

-------------------------------------

مصادر ومراجع:

(۱)                   الاحکام للآمدی ۴/۱۶۵، مسلم الثبوت ۲/۳۶۱، تیسیرالتحریر ۴/۱۸۳۔

(۲)                  کشف الاسرار شرح اصول البزدوی ۳/۹۲۶، شرح الاسنوی علی المنہاج ۳/۱۹۴۔

(۳)                 شرح الاسنوی علی المنہاج ۳/۱۹۴۔                     (۴)                 ارشاد الفحول ۲۵۵۔                   

(۵)                 اصول السرخسی ۲/۹۱۔                                    (۶)                  الاحکام للآمدی ۴/۱۶۵۔

(۷)                 التفسیر الکبیر للرازی ۱۰/۲۰۰-۲۰۱۔                  (۸)                 اجتہاد الرسول ۵۳۔

(۹)                  الانفال ۶۸۔                                                      (۱۰)                التفسیر الکبیر ۱۶/۷۴۔

(۱۱)                 فتح الباری ۴/۴۹۔                                            (۱۲)                فتح الباری ۳/۴۳۹۔

(۱۳)                اجتہاد الرسول ۸۷۔                                           (۱۴)                شرح النووی لصحیح مسلم ۱۰/۱۹۰۔

(۱۵)                اجتہاد الرسول ۸۸ سورة عبس۔                            (۱۶)                سیرت ابن ہشام ۲/۲۷۲۔       

(۱۷)                سیرت ابن ہشام ۳/۶۴-۶۷۔  (۱۸)                اجتہاد الرسول ۹۴۔

(۱۹)                 سیرت ابن ہشام ۴/۱۰۴۔                                (۲۰)               اجتہاد الرسول ۹۶۔

(۲۱)                الاحکام لابن دقیق العید ۲/۲۰۱۔                        (۲۲)               صحیح مسلم کتاب الاقضیہ

(۲۳)               فتح الباری ۲/۷۷-۸۲۔                                    (۲۴)               سیرت ابن ہشام ۲/۲۵۷۔

(۲۵)               فتح الباری ۱/۴۸۶۔                                          (۲۶)               مسلم، کتاب المساجد۔

(۲۷)               تفسیر الرازی ۱۶/۱۴۶۔                                     (۲۸)               فتح الباری ۸/۳۳۷-۳۳۹۔

(۲۹)                تفسیر رازی ۱۶/۷۳، الاحکام ۴/۲۱۶۔                (۳۰)               التحریر ۵۲۷۔

(۳۱)                ابوداؤد ۱/۱۴۱۔                                                 (۳۲)               ابوداؤد ۲/۵۰۵۔

(۳۳)              الموافقات ۳/۹۷۔

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_91.html



انسانی زندگی پر گناہوں کے اثرات: امام امام ابن قیم ؒ کی کتاب سے خلاصہ

انسانی زندگی پر گناہوں کے اثرات: امام امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سے خلاصہ

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو مطیع اور فرمانبردار بندے کو عزت دینے والا جبکہ باغی اور سرکش کو ذلیل کر نے والا ہے۔ تقوی یقینا ہر نعمت کی بنیاد اور معصیت ہر آفت وبلا کا سبب ہے۔ انسان پر آنے والی ہر مصیبت اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جو وہ اللہ کے حق میں کوتاہی کرتا ہے، اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور محرمات میں گھس جاتا ہے۔ جس طرح نفس ترغیب کا محتاج ہے اسی طرح ترہیب کا بھی محتاج ہے۔ امام ابن قیم ؒ نے اپنی کتاب ’’الداء والدواء‘‘ میں ’’انسانی زندگی پر گناہوں کے اثرات‘‘ تفصیلا بیان کئے ہیں۔ جن کا خلاصہ آپ کے سامنے پیش خدمت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو گناہوں سے محفوظ فرمائے۔آمینگناہوں کے نقصانات

۱۔ علم سے محرومی: کیونکہ علم ایک روشنی ہے جس کو اللہ انسان کے دل میں ڈال دیتا ہے جبکہ گناہ اس روشنی کو بجھادیتا ہے۔

۲۔ رزق سے محرومی:جیسا کہ مرفوع حدیث میں وارد ہے: ((ان العبد لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ)) [مسندأحمد]

’’بندہ اپنے کردہ گناہوں کے سبب رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔

۳۔۔ وحشت کا احساس:وہ خوف خدا جو گناہ گار آدمی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، جس سے دراصل اس کی تمام لذتیں ختم ہو جاتی ہیں۔

۴۔ خوف کا احساس:وہ خوف جو گناہ گار شخص لوگوں سے محسوس کرتا ہے’’خصوصا نیک لوگوں سے‘‘ جب یہ خوف قوی ہوجاتا ہے تو مذکور شخص ان نیک لوگوں سے، اور ان کی مجالس سے دور بھاگتا ہے اور ان سے نفع اٹھانے کی برکت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اور شیطانی گروہ کے اتنا ہی قریب ہوجاتا ہے جتنا کہ رحمانی گروہ سے دور ہوتا ہے۔

۵۔ معاملات میں تنگی: گناہ گار شخص اپنے سامنے معاملات کی تنگی اور خیر کے ہر دروازے کو بند محسوس کرتا ہے، جیسا کہ متقی اور پرہیزگار شخص کے لئے اللہ تعالیٰ اس کے تمام معاملات کو آسان کر دیتا ہے۔

۶۔ اندھیرے کا احساس: گناہ گار شخص حقیقتا اپنے دل میں اندھیرا محسوس کرتا ہے۔ حتی کہ وہ رات کو اکیلے چلنے والے اندھے کی مانند گمراہی اور ہلاکتوں میں جا پڑتا ہے لیکن اس کو احساس تک نہیں ہوتا۔

۷۔ دل وبدن کی کمزوری: گناہ انسان کے دل اوربدن کو کمزور کر دیتا ہے۔ دل اتنا کمزور ہوجاتا ہے کہ اس کی روحانی موت واقع ہو جاتی ہے۔ جبکہ بدن کی کمزوری دراصل دل کی کمزوری ہے کیونکہ مومن کی ساری قوت اس کے دل میں ہوتی ہے۔ فاجر شخص اگرچہ دیکھنے میں مضبوط ہو مگر ضرورت کے وقت وہ کمزور ہی ثابت ہو گا۔

۸۔ اطاعت سے محرومی: گناہ انسان کو اطاعت اور فرمانبرداری سے روکتا ہے جس سے انسان مزید گناہوں میں پڑ جاتا ہے۔

۹۔ عمر میں کمی: گناہوں سے عمر کم ہوجاتی ہے اور عمر کی برکت ختم ہوجاتی ہے جبکہ نیکی کرنے سے عمر میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے۔

۱۰۔ گناہ کی طرف رجحان:کیونکہ گناہ سے گناہ ہی نکلتا اور پیدا ہوتا ہے۔ ایک گناہ دوسرے گناہ کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔

۱۱۔ ارادہ معصیت کی مضبوطی: گناہ کرنے کا سب سے خطرناک نقصان یہ ہے کہ گناہ کرنے کا ارادہ مضبوط ہوجاتا ہے اور توبہ کرنے کا ارادہ کمزور پڑجاتا ہے۔ حتی کہ آہستہ آہستہ انسان کے دل سے توبہ کرنے کا ارادہ کلیۃً ہی ختم ہوجاتا ہے۔

۱۲۔ گناہ کی قباحت کا دل سے محو ہوجانا: جب انسان کثرت سے گناہ کرتا ہے تو اس کے دل سے گناہ کی قباحت ختم ہوجاتی ہے اور گناہ کرنا اس کی عادت بن جاتی ہے۔ حتی کہ لوگوں کے دیکھ لینے یا برا بھلا کہنے کو بھی قبیح نہیں جانتا۔ بلکہ اگر اس نے گناہ کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈال دیا تو یہ بد بخت خود لوگوں میں اپنے گناہ کی تشہیر کرتا پھرتا ہے اور اس پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو معاف نہیں کیا جائے گا اور ان پر توبہ کا دروازہ بند ہے ۔جیسا کہ حدیث میں موجود ہے: ((کل أمتی معافی الا المجاھرین))

’’اپنے گناہوں کی تشہیر کرنے والوں کے علاوہ میری امت کے سارے لوگوں کو معاف کردیا جائیگا ۔‘‘

۱۳۔ مجرموں کی وراثت:گناہ مجرموں کی وراثت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک وبرباد کر دیا۔ مثلا لواطت قوم لوط کی وراثت اور زمین میں تکبر کرتے ہوئے فساد برپا کرنا قوم فرعون کی وراثت ہے،علی ہذا القیاس گناہگار شخص ان مجرموں کا لباس پہن کر وہی گناہ کرتا ہے جو ان لوگوں نے کیا۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من تشبہ بقوم فھو منھم)) ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے.‘‘ 

۱۴۔ ذلت ورسوائی کا سبب:گناہ کرنا اللہ تعالیٰ کے سامنے ذلت ورسوائی اور آنکھوں سے گرجانے کا سبب ہے۔اور جو شخص اللہ کے سامنے ذلیل ہوجائے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ہے۔ اگرچہ ظاہرا لوگ اس سے ڈرتے ہوئے یا لالچ میں اس کی عزت کرتے ہی ہوں۔لیکن انہی لوگوں کے دلوں میں وہ حقیر ترین شخص ہوگا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ((وَمَنْ یُھِنِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ)) [الحج:۱۸]’٠

"جسے رب ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں۔"

۱۵۔ گناہ کی حقارت:گناہ پر مداومت اور ہمیشگی کرنے سے انسان کے دل میں گناہ کرنا حقیر بن جاتا ہے۔اور یہی ہلاکت کی علامت ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: ((ان المؤمن یری ذنوبہ کأنہ فی أصل الجبال یخاف أن یقع علیہ ،وان الفاجر یری ذنوبہ کذباب وقع علی أنفہ فقال بہ ھکذا فطار))

’’مومن آدمی گناہ کو پہاڑ کی مانند تصور کرتا ہے اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں وہ پہاڑ اس پر نہ گرجائے، جبکہ فاسق وفاجرشخص گناہ کو مکھی کی مانند خیال کرتا ہے جو اس کی ناک پر بیٹھ گئی اور اس نے ہاتھ کے اشارے سے اس کو اڑا دیا۔‘‘

۱۶۔ نحوست: انسان اور جانور گناہ گار شخص کو نحوست کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔امام مجاہد ؒ فرماتے ہیں!جب قحط سالی پڑتی ہے اور بارش رک جاتی ہے تو چوپائے گناہگار اور نافرمان بنی آدم پر لعنت کرتی ہوئے کہتے ہیں: ((ھذا بشؤم معصیۃ ابن آدم)) یہ ابن آدم کی نافرمانی کی نحوست ہے۔

۱۷۔ عزت وآبرو کا خاتمہ: گناہ انسان کو ذلت ورسوائی سے دوچار کر دیتا ہے اور عزت وآبرو کو برباد کر دیتا ہے کیونکہ ساری کی ساری عزت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت میں مضمر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ((مَنْ کَانَ یُرِیْدُالْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعاً)) [فاطر:۱۰]

’’جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ہے۔‘‘

۱۸۔ عقل میں فتور:عقل اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نور اور روشنی ہے ،جبکہ گناہ اس نور اور روشنی کو بجھا دیتا ہے۔ جب یہ نو راور روشنی ہی بجھ جائے تو عقل وشعور میں فتور واقع ہوجاتا ہے۔ اور انسان آداب انسانیت بھول جاتا ہے۔

۱۹۔ غفلت کا سبب :کثرت سے گناہ کرنے کی وجہ سے انسان کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے اور اس کو غافلین میں سے لکھ دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان

((کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ)) [المطففین: ۱۴]

’’یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے۔‘‘

سے گناہ کے بعد پے در پے گناہ مراد لیا ہے۔

۲۰۔ لعنت کا سبب:جیسا کہ أحادیث میں وارد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف گناہ کرنے والوں پر لعنت فرمائی ۔مثلا آپ نے فرمایا کہ چور، سود خور، تصاویر بنانے والے اور قوم لوط کا فعل کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ لعنت کرے۔ وغیرہ

۲۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور فرشتوں کی دعاؤں سے محرومی: کیونکہ اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ مومن مرد اور مومن عورتوں کے لئے بخشش کی دعا کریں۔ اور فرشتوں کے بارے میں فرمایا: ((الَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا۔۔۔۔)) [المومن:۷]

’’عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے فرشتے اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے استغفار کرتے ہیں،کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچالے۔‘‘

۲۲۔ فساد فی الارض کا سبب:گناہ زمین میں فساد کا سبب ہے کیونکہ گناہوں کے سبب ہی زمین پر پانی، اناج اور پھلوں میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ((ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ)) [الروم:۴۱]

’’خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے فساد پھیل گیا۔اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔‘‘

۲۳۔ خسف ومسخ کا سبب:گناہوں کے سبب ہی زمین پر زلزلہ آتا ہے یا زمین دھنس جاتی ہے یا زمین کی برکات ختم ہوجاتی ہیں۔

۲۴۔ غیرت کا فقدان: گناہ گار شخص کے دل سے غیرت ختم ہو جاتی ہے اور وہ بے غیرت ہوجاتا ہے۔ حتی کہ وہ گناہ کرنے کو بھی قبیح نہیں سمجھتا خواہ وہ خود گناہ کررہا ہو یا اس کے اہل عیال گناہ کر رہے ہوں۔

۲۵۔ شرم وحیا کا خاتمہ:گناہ کرنے سے انسان کے دل میں موجود شرم و حیا ختم ہوجاتا ہے۔ جو کہ دل کی حقیقی زندگی اور ہر خیر کی بنیاد ہے۔ جب حیا ہی نہ رہے تو خیر بھی باقی نہیں رہتی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے! ’’جب تو حیا نہیں کرتا تو جو مرضی کر!‘‘

۲۶۔ اللہ کی تعظیم میں کمی: گناہ گار شخص کے دل میں اللہ کی تعظیم کمزور پڑجاتی ہے۔ کیونکہ اگر اس کے دل میں اللہ کی عظمت ہوتی تو وہ یہ گناہ کبھی نہ کرتااور اس کے اندر گناہ کی جرأت کبھی پیدانہ ہوتی۔ ۲۷۔ اللہ کی رحمت سے محرومی:اللہ رب العزت نافرمان اور باغی شخص کو بھلادیتے ہیں اور اس کو اس کی حالت پر تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ کس وادی میں جاکر ہلاک وبرباد ہو جائے۔

۲۸۔ نیکی سے بغاوت: گناہگا ر اور نافرمان شخص کو نیکی کی توفیق ہی نہیں ملتی اور وہ اپنے گناہوں میں ہی لتھڑا رہتا ہے۔

۲۹۔ خیر سے محرومی: گناہ گا رشخص ان بھلائیوں سے محروم جا تاہے جو اہل ایمان وتقوی کو اللہ تعالیٰ عنایت فرماتے ہیں: جس میں أجر عظیم کا ملنا ((وَسَوْفَ یُؤْتِ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ أَجْراً عَظِیْماً)) [النسائ:۱۴۶]

’’اللہ تعالیٰ مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔‘‘

دنیا وآخرت میں شر کا دور ہوجانا ((اِنَّ اللّٰہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا)) [الحج:۳۸]

’’سن رکھو! یقینا سچے مومنوں کے دشمنوں کو اللہ تعالیٰ خود ہی ہٹا دیتا ہے۔‘‘

اور درجات کی بلندی شامل ہے. ((یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوْتُوْا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)) [المجادلۃ:۱۱]

’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جوعلم دئیے گئے ہیں درجے بلند کردے گا۔‘‘

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_29.html



Friday, 28 August 2020

مسلمان کیسے آتم نِر بَھر (خودمکتفی) ہوں؟

مسلمان کیسے آتم نِر بَھر (خودمکتفی) ہوں؟

5 اگست 2020ءکو رام مندر کی مستقل اور وسیع عمارت کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا، اور اس بات کا جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے کہ ایک سیکولر ملک کے سربراہ اعلیٰ وزیراعظم نریندر مودی نے اس کی بنیاد رکھی، اس خبر پر مجھے چند سال پہلے کا واقعہ یاد آیا، جب گجرات فساد میں شہید ہونے والی مسجدوں کی حکومت کی طرف سے تعمیر کی بات آئی، اس وقت وہ وہاں وزیراعلیٰ تھے، اور انھوں نے بحیثیت وزیراعلیٰ بیان دیاکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، وہ کسی خاص مذہب کی عبادت گاہ کیسے تعمیر کرسکتا ہے؛ لیکن 2000 کا یہ اصول 2020 میں یکسر تبدیل ہوگیا، حکومت نے خود مندر کی تعمیر کے لئے ایک ٹرسٹ بنایا اور اعلیٰ ترین سرکاری عہدہ داروں نے اس کی بنیاد رکھی۔

قرآن مجید نے بنی اسرائیل کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص کا قتل ہوگیا، لوگوں میں بڑی الجھن پیدا ہوئی، کچھ لوگ چاہتے تھے کہ قاتل کا جرم چھپادیا جائے، اور زبان سے مطالبہ کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قاتل کے بارے میں بتائیں، آخر اللہ تعالیٰ نے ایک خاص گائے کی نشاندہی فرمائی اور کہاگیا کہ اس کو ذبح کریں اور اس کا گوشت مقتول کے جسم سے لگائیں، تو مقتول قاتل کے بارے میں بتانے کی حد تک زندہ ہوجائے گا؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا، مقتول ایک لمحہ کے لئے زندہ ہوا، قاتل کا نا م بتایا، اور ہمیشہ کے لئے موت کی آغوش میں چلا گیا، بابری مسجد کی صورت حال یہی ہے، اس کا قتل تو اسی وقت ہوگیا تھا،جب مسجد کے اندر مورتیاں رکھی گئیں؛ لیکن وہ یکے بعد دیگرے اپنے قتل میں شامل تمام چہروں سے پردہ ہٹاتی جارہی ہے، ان پنڈت نما غنڈوں سے جنھوں نے رات کی تاریکی میں مورتیا ں لاکر رکھ دی تھیں، ان پولیس والوں سے جنھوں نے مجرموں کا ہاتھ تھامنے کی بجائے ان کے کالے کرتوت سے آنکھیں موند لیں، ان حکومتوں سے جنھوں نے وعدے کئے اورانہیں وعدہ خلافی میں کو ئی عار نہ ہوئی، وہ کلیان سنگھ کی حکومت ہو یا نرسمہا راو اور نریندر مودی کی، ان عدالتوں سے جنھوں نے فیصلے کئے؛ لیکن انصاف فراہم نہیں کیا، غرض کہ یہ ایسی مقتول عمارت ہے جس نے حکومتوں کی بد یا نتی، پولیس کی بے عملی، اپنے آپ کو مذہبی نمائندہ کہنے والی شخصیتوں کے اندر چھپی ہوئی غنڈہ گردی، اور عدالتوں کا رویہ، اِن ساری حقیقتوں کو دوپہر کی دھوپ کی طرح عیاں کردیا ہے۔

جو کچھ ہوتا آیا تھااس لحاظ سے15 گست کی تقریب عین توقع کے مطابق تھی؛ لیکن جب دل پر چوٹ لگتی ہے، تو چاہے پہلے سے اس کا یقین رہا ہو، زخم تازہ ہو جاتا ہے؛ اس لئے اس واقعہ نے بجاطور پر مسلمانوں کو افسردہ بھی کیا اور ان کے حوصلوں کو بھی چوٹ پہنچائی، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان مایوسی اور حوصلہ شکستگی کے احساس سے باہر آئیں، انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام کی زندگی دیکھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پڑھیں، مسلمانوں کی فتح مندی اور پھر گاہے شکست سے دوچار ہونے کی طویل تاریخ کو ملاحظہ کریں اور یاد رکھیں کہ زندہ قوموں پر اس طرح کے حالا ت آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے، مردہ پر کوئی وار نہیں کیا جاتا؛ لیکن جو سپا ہی زندہ ہو،اسی پر حملے کئے جاتے ہیں، اس لئے نفرت و عداوت اور ظلم و ناانصافی کے تیر مسلمانوں کی زندگی کی علامت ہیں، اور بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ مسلمان تو شکست کھا سکتا ہے؛ مگر اسلام شکست نہیں کھا سکتا، اسلام کی قوت ناقابل تسخیر ہے، اس کی روشنی ایسی نہیں جسے بجھایا جاسکے،اس کی کشش زمین کی قوت کشش سے بھی بڑھ کر ہے، جو اجسام کو ہی نہیں دلوں کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے؛ اس لئے ہمیں بالکل مایوس نہیں ہونا چاہئے، اور اس ملک کے حالا ت کو سامنے رکھتے ہو ئے دین پر استقامت اور ملی وجو د کے تحفظ کے لئے منصوبہ بنانا چاہئے۔

جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر ایرانیوں کا طریقہ جنگ اختیا ر کیا تھا، اسی طرح اگر مسلمان اس ملک میں آر ایس ایس کی منصوبہ سازی اور طریقہ تنظیم سے فائدہ اٹھائیں تویہ ایک بہتر صورت ہوگی، منصوبہ جو بھی ہو، اس کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ ہم اپنے مسائل آپ حل کریں گے، ہمیں حکومتوں سے یہ امید نہیں رکھنی چا ہئے کہ وہ مسلمانوں کی تعلیم، صحت اور روزگا ر کے لئے کوئی خصوصی نظم کریں گی،یا انہیں دلتوں کی طرح ریزرویشن ملے گا، کوشش کرنے اور مواقع سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن نقشہ کا ر کچھ اس طرح بنایا جائے کہ مسلمان اپنی صلاحیت، افرادی وسائل اور مالی وسائل کے ذریعہ خود مکتفی ہوکر اپنا تحفظ کریں گے اور ترقی کے دور میں آگے بڑھیں گے، موجودہ سرکار کی زبان میں وہ اپنے آپ کو 'آتم نِربَھر' (خود مکتفی) بنائیں۔

اسلام کا تحفظ:

اس منصوبہ میں کم سے کم مسلمانوں کے7 اہداف ہونے چاہئے: سب سے پہلا ہدف مسلمانوں کو دین پرثابت قدم رکھنے کا ہے،اس سلسلے میں چند امور کی طرف اولین توجہ کی ضرورت ہے:

1۔ اسلام کے پانچ ارکا ن ہیں: کلمئہ شہادت، نماز، روزہ، زکٰوة اور حج؛ اگر غور کیا جائے تو ان میں سے سب سے کم بات کلمئہ شہادت یعنی ایمان پر کی جاتی ہے، رمضان المبارک کے پورے مہینہ میں روزہ، تراویح، زکٰوةاور انفاق پر بات کی جاتی ہے، ماہ ذوالحجہ میں حج اور قربانی کے موضوع پر بیانات ہوتے ہیں، نماز چونکہ سال بھر ادا کیا جانے والا فریضہ ہے؛ اس لئے موقع بموقع نماز کی اہمیت پر خطابات ہوتے رہتے ہیں، رجب میں واقعہ معراج کے ضمن میں خاص کر نماز پر تقریریں کی جاتی ہیں؛ لیکن اس احساس کے تحت کہ ہم سب خود مسلمان ہیں، کلمہ گو ہیں اور مسلمان والدین کی اولاد ہیں، ایمانیا ت پر بہت کم گفتگو کی جاتی ہے، اس وقت ہندوستان میں تعلیم کا بھگوا کرن کرنے، دھرم پریورتن کی دعوت دینے، میڈیا اور نصابی کتابوں کے ذریعہ دیومالائی کہانیاں اور ہندو تصورات پر مبنی نغموں کو رواج دینے، اور ہندو ثقافت کو آرٹ کے نام پر مسلط کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے، اس پس منظر میں بہت ضروری ہے کہ علماءاور خطباء ایمانیات کو اپنا موضوع بنائیں، توحید، رسالت، آخرت کی تفصیل سے وضاحت کی جائے اورکفر و شرک کی تردید اور بت پرستی کی نامعقولیت پر گفتگو کی جائے، خواہ وہ جمعہ و عیدین کے بیانات ہوں یا مدارس کے سالانہ جلسے اور اصلاح معاشرہ یا سیرت کے پروگرام، ہر جگہ ایمانیات پر بیانات کاحصہ رکھنا چاہئے؛ البتہ اس کو امت میں اختلاف کا ذریعہ نہ بنایا جائے؛ بلکہ دین کے تحفظ کی مہم کے طور پر خطاب کیا جائے؛ کیوں کہ یہ جلسے ہمارے لئے مسلم عوام تک پہنچنے کا سب سے موثر ذریعہ ہیں۔

2۔ مکاتب کا نظام بڑی اہمیت کا حامل ہے، جو بچے سرکاری یا پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، ان کو دین سے جوڑے رکھنے کے لئے اس سے زیادہ مو¿ثر کوئی نظام نہیں، اور مسلم سماج کو اس سلسلے میں بڑی سہولت ہے؛ کیونکہ قریب قریب ہر مسلمان محلہ میں مسجد موجود ہے اور مسجد میں امام و موذن مقرر ہیں، مسجد ہمارے لئے درسگاہ ہے، اور یہی امام و موذن اس درسگاہ کے معلم ہیں، نہ اس کے لئے الگ سے انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے اور نہ ملازمین کی، بہت ہی کم اخراجات کے ذریعے مکاتب کا نظام چل رہا ہے اور چل سکتا ہے، آر ایس ایس والوں نے شاید مسلمانوں کے نظام مکاتب کو دیکھتے ہوئے ایک خاص صورت ’ایک استاد ایک اسکول‘ کی نکالی ہے، جس میں وہ مذہبی تعلیم پر بھی پوری توجہ دیتے ہیں، مسلمانوں کے یہاں تو یہ نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی سے قائم ہے، بس ضرورت ہے توجہ اورتنظیم کی۔

3۔ مسلمانوں کے زیرانتظام ماشآءاللہ اسکولوں کی بڑی تعداد اس وقت پورے ملک میں موجود ہے، بظاہر شہروں میں75 فیصد مسلمان طلبہ و طالبات پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، اور چونکہ وہ کارپوریٹ اسکولوں کی فیس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؛ اس لئے ان میں زیادہ تر طلبہ و طالبات مسلم اسکولوں سے رجوع کرتے ہیں، اب ایک ضرورت تو یہ ہے کہ مسلمان انتظامیہ ان اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنائے؛ لیکن ساتھ ساتھ مسلمانوں کی نئی نسل کے دین وایمان کی حفاظت کے نقطہ نظر سے اپنے اسکولوں میں ضروری بنیادی دینی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دے، اور اس کو ایک ملی فریضہ تصور کرتے ہوئے انجام دیا جائے، عجیب بات ہے کہ جدید تعلیم یافتہ بھائیوں کی طرف سے دینی مدارس میں عصری مضامین داخل کرنے کی بات تو خوب کی جاتی ہے، اور اس پر بہت زور دیا جاتا ہے؛ لیکن عصری درسگاہوں میں دینی تعلیم پر توجہ نہیں دلائی جاتی؛ حالانکہ اس کی ضرورت زیادہ ہے، دینی مدارس میں طلباءکی تعداد پہلے سے کم ہے، اور جو کچھ ہے اس میں بھی دن بدن کمی ہوتی جارہی ہے؛ اس لئے مسلمانوں کے زیرانتظام عصری درسگاہوں میں ضروری دینی تعلیم پر ہماری اولین توجہ ہونی چاہئے۔

4۔ آج کل عصری تعلیم گاہوں میں’مختصر سرٹیفیکٹ کورس‘کا رواج بڑھتا جارہا ہے، جس میں طلبہ بہت دلچسپی لیتے ہیں، اور اب اس میں ایک نئی صورت آن لائن تعلیم کی بھی پیدا ہوگئی ہے، دینی مدارس اپنے نظام تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے، ہائی اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبائ کے لئے دینی تعلیم کا مختصر سرٹیفکیٹ کورس رکھ سکتے ہیں، جو چالیس سے پچاس گھنٹوں پر مشتمل ہو، جیسے: معلوماتِ قرآنی کورس، معلوماتِ حدیث کورس، شرعی مسائل کورس، سیرتِ نبوی کورس وغیرہ، خواہ یہ اردو میں ہو یا مقام کی مناسبت سے انگریزی یا مقامی زبان میں ہو، اس کا با ضابطہ امتحان ہو، اور اس پر انہیں ایک سند بھی دے دی جائے، یہ بہترین ذریعہ ہوگا عصری تعلیمی اداروں کو مدارس سے فیض یاب کرنے کا، ایسے کورس آن لائن بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن اتوار کے روز کلاس ہو۔

5۔ زیبائش و آرائش کا جذبہ انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے، اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں اس کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فیشن کے نام پر نامعقول سے نا معقول لباس کو لوگ قبول کر لیتے ہیں، اب یہی دیکھئے کہ کسی زمانے میں کپڑوں کا پھٹا ہونا یا پیوند لگا ہو نا فقر و غربت کی علامت تھی؛ لیکن آج کل یہ فیشن کا حصہ ہے، اور نوجوان شوق سے پھٹے ہوئے پینٹ پہنتے ہیں، اب سنگھ پریوار والے ہندو ثقافت کو فروغ دینے کے لئے یونیفارم اور عام ملبوسات میں بھی ہندوانہ رنگ کو فروغ دے رہے ہیں، زعفرانی کپڑے، پیشانی پر سرخ تلک، ہاتھ مین دھاگے یا کڑے وغیرہ کو رواج دیا جا رہا ہے، ان حالات میں ضرورت ہے'اسلامی فیشن' کو فروغ دینے کی؛ یعنی ایسے لباس ڈیزائن کئے جائیں جو خوبصورت بھی لگتے ہوں اور لباس کے سلسلے میں شریعت کی بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ بھی ہوں۔ پڑوسی ملک میں جنرل ضیاءالحق شہیدرحمة اللہ علیہ نے اپنے زمانے میں تمام آفسوں کے لئے پٹھانی سوٹ (قمیص شلوار) کو جاری کیا، اس کا بہتر اثر مرتب ہوا اور وہاں کے بلند پایہ علماءنے بھی اس کی تحسین کی، اس کی وجہ سے مسلمان نوجوان اسلامی ثقافت سے مربوط رہیں گے اور ان میں اپنی شناخت اور پہچان کا احساس پیدا ہوگا۔

تعلیمی ترقی:

دوسرا اہم مسئلہ عصری تعلیم میں مسلمانوں کی ترقی کا ہے، یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ جس امت کو سب سے پہلے پڑھنے کی تعلیم دی گئی، وہ وطن عزیز میں تعلیم کے میدان میں سب سے آخری صف میں کھڑی ہے، اس پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ایک طرف مسلمانوں میں شعور بیداری کی ضرورت ہے، اور بحمداللہ کسی حد تک پچھلے پچیس سال میں تعلیمی رجحان بڑھا ہے، آج آٹو اور رکشہ چلانے والا مسلمان بھی اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف کچھ نہ کچھ توجہ کررہا ہے، اور اسی لئے مسلم آبادیوں میں بھی کثرت سے اسکول قائم ہورہے ہیں، دوسری ضرورت ہے زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کرنے کی، ابھی مسلمان محلوں میں جو اسکول قائم کئے جارہے ہیں، وہ زیادہ تر تجارتی نوعیت کے ہیں، انتظامیہ طلبہ سے زیادہ سے زیادہ فیس وصول کرنے کی سعی کرتی ہے، اور اساتذہ کو کم سے کم تنخواہ دیتی ہے، تنخواہ ہی کے لحاظ سے اساتذہ کا معیار بھی ہوتا ہے؛ بہرحال پھر بھی یہ ادراے امت کا بڑا سرمایہ ہیں اور ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا؛ لیکن کچھ ایسے تعلیمی ادارے بھی ہونے چاہئیں، جو 'نہ نفع اور نہ نقصان' کے اصول پر کام کریں، اس طرح وہ طلبہ و طالبات جن میں ذہانت اور صلاحیت ہے؛ لیکن ان کے سرپرست مہنگی فیس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، وہ بھی تعلیم حاصل کرسکیں گے، اور جب اسکول کی پوری آمدنی اسکول ہی پر خرچ ہوگی تو زیادہ تنخواہیں دے کر اچھے ٹیچر رکھے جا سکیں گے، اس کے لئے ملی اور خیراتی اداروں کی ضرورت ہے، مسلم تنظیمیں، جماعتیں، دینی مدارس، مسجدیں، خیراتی ادارے اپنے زیرانتظام اگر ہائی اسکول قائم کریں اور اور انفراسٹرکچر کی بجائے اصل مقصد پر زیادہ سے زیادہ پیسہ خرچ کریں، تو انشآءاللہ اس سے بڑا فائدہ ہو سکتا ہے اور مسلم معاشرہ میں ایک تعلیمی انقلاب آ سکتا ہے۔

موجودہ صورت حال کے پس منظر میں ایک اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے مشترک طور پر طلبہ کے لئے نصابی نقطہ نظر سے بعض مضامین پر کتابیں مرتب کریں، ان میں تاریخ اور اخلاقیات کا موضوع خصوصی اہمیت کا حامل ہے، نئی تعلیمی پالیسی کے تحت تاریخ میں سے مسلم دور کو مکمل طور پر حذف کردیا گیا ہے، اور اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد بھی شامل ہے، اور بہت سی سچائیوں کو مسخ کردیا گیا ہے، جیسے آریوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ باہر سے نہیں آئے تھے، طبقاتی تقسیم کے بارے میں دعوی، کہ یہ تقسیم پیدائشی طور پر نہیں تھی؛ بلکہ لوگوں کے عمل اور کردار کے لحاظ سے تھی وغیرہ۔ ان تمام حقائق کو سچائی اور غیرجانبداری کے ساتھ ذکر کیا جائے۔

اسی طرح جدید تعلیمی پالیسی کے تحت اخلاقیات کی تعلیم میں ہندو مذہب کے سوا کسی اور مذہب کا ذکر نہیں ہوگا، اس کی وجہ سے معصوم بچوں کا جو ذہن بنے گا، وہ ظاہر ہے؛ اس لئے مختلف مرحلوں کے بچوں کے لئے ان کی سطح کے لحاظ سے اخلاقی تعلیم کا ایک ایسا نصاب ہونا چاہئے، جس میں انبیاءکرام علیہم الصلوہ والسلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین رحمہم اللہ کے اخلاقی واقعات اور تعلیمات ہوں، اردو زبان میں مولانا محمد میاں صاحب رحمة اللہ علیہ کی کتاب’دینی تعلیم کا رسالہ‘، جناب محمد افضل صاحب کی’اخلاقی کہانیاں‘ اور ’سچی کہانیاں‘، وغیرہ اس نقطہ نظر سے اہم کتابیں ہیں، اور ان سے استفادہ کرتے ہوئے موجودہ زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے ایسی مزید کتابیں مرتب کی جاسکتی ہیں، کم سے کم مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکول اس کو اپنے نصاب میں شامل کرلیں، یہ بہت ضروری ہے؛ تاکہ مسلمان بچے مشرکانہ افکار کا شکار نہ ہوں، اوران کے اندر اپنے دین اور اپنی تاریخ کے بارے میں احساس کمتری پیدا نہ ہو۔

اپنی حفاظت آپ:

اس منصوبے کا تیسرا اہم ایجنڈا ملت اسلامیہ کا تحفظ ہونا چاہئے، تحفظ میں جسمانی تحفظ بھی شامل ہے، اور ملی وقار کا تحفظ بھی شامل ہے، اس سلسلے میں چند باتیں اہم ہیں:

1۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے جسمانی تحفظ کے لئے تیار کرنا، اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس کی تربیت دینا، جیسے: مارشل آرٹ اور لاٹھی چلانے کا طریقہ وغیرہ، یہ حفظان صحت کے نقظہ نظر سے بھی ضروری ہے، اور ماب لنچنگ کے واقعات جس طرح بڑھتے جارہے ہیں، اس نے اس کی ضرورت کو اور بڑھا دیا ہے۔

2۔ مسلمان نوجوانوں کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے پر متوجہ کرنا، اس میں اعلی مہارت کے حصول کے لئے ان کا تعاون کرنا اور عدالتوں میں ماہر مسلمان وکلاءکو پہنچانا، یہ قانونی تحفظ کے لئے بے حد ضروری ہے، اب تو صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ بعض دفعہ وکلاءمسلمانوں کا کیس لینے کو آمادہ نہیں ہوتے، ان حالات میں بے حد ضروری ہے کہ ہمارے پاس اچھے وکیل ہوں،اور اچھے وکیل ہی جج کی کرسی پر پہنچتے ہیں، افسوس کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں مسلمان ججز کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے، ادھر مسلمانوں میں جدید تعلیم کا رجحان بڑھا ہے، مگر ان کی ساری توجہ میڈیکل اور انجینئرنگ پر ہے، یہ کافی نہیں ہے۔

3۔ ملی تحفظ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انتظامیہ میں اعلی عہدوں پر مسلمان موجود ہوں، گزشتہ کچھ عرصے سے بعض مسلمان اداروں نے اس کے لئے تیاری کرانے کا کام شروع کر رکھا ہے، اور اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس سال بھی 44 مسلم طلبہ نے اس امتحان میں کامیابی حاصل کی؛ لیکن اس پر ابھی مزید اور کافی کوششوں کی ضرورت ہے؛ اگر مختلف مسلم تنظیمیں اور جماعتیں سالانہ دو تین طلباءپرمحنت کروائیں اور انہیں کامیابی کی منزل تک پہنچائیں؛ یہاں تک کہ سالانہ تقریبا سو مسلمان اس میں کامیابی حاصل کرسکیں، تو حکومت کی مشینری میں مسلمانوں کی قابل لحاظ نمائندگی ہوسکے گی، اور حکومت کے فیصلوں میں بھی اور ان فیصلوں کے نفاذ میں بھی مسلمانوں کو انصاف حاصل ہوسکے گا، سیاسی نمائندگی بڑھانے کے لئے جتنی محنت کی جاتی ہے، اِس میدان میں اس سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔

5۔ آزادی کے بعد جتنے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں، ان میں پولیس کا جانبدارانہ بلکہ ظالمانہ رول بالکل واضح ہے، خود حکومت کے متعین کئے ہوئے بہت سے تحقیقاتی کمیشنوں نے اس کو واضح کیا ہے، اس پس منظر میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ پولیس کے محکمہ میں مسلمان زیادہ سے زیادہ داخل ہونے کی کوشش کریں، یہ حقیقت ہے کہ محکمہ پولیس میں مسلمانوں کا تناسب نہایت کم ہے، ہو سکتا ہے اس میں کچھ دخل تعصب کا بھی ہو؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پولیس کی ملازمت کی طرف رخ ہی نہیں کرتی، یا اسے حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے؛ حالانکہ اس شعبے میں چونکہ بنیادی طور پر صرف جسمانی موزونیت مطلوب ہوتی ہے، اس لئے ملازمت کے مواقع زیادہ ہیں، اس کے لئے ضرورت ہے ایک تو شعور بیداری کی، دوسرے: پولیس ٹیسٹ میں شرکت کے لئے ٹریننگ کی، اور یہ کام سول سروس امتحان کی تیاری کی طرح زیادہ خرچ طلب بھی نہیں ہے؛ اس لئے اگر مسلم ادارے اس جانب توجہ دیں تو مسلمانوں کی ایک مناسب تعداد اس شعبے میں داخل ہو سکتی ہے اور یہ چیز ان شاءاللہ پولیس ظلم کو روکنے میں ممدومعاون ہوگی۔

5۔ حفاظت کا ایک پہلو قومی اور ملی وقار کا تحفظ ہے، اس وقت قوموں کو بے وقار کرنے اور کسی گروہ کے وقار کو بے جا طریقہ پر بڑھانے اور اس کے حق میں مبالغہ آمیز جھوٹ اور پروپیگنڈے کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہے خواہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، نیشنل چینلز ہو یا یوٹیوب چینلز، ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا! اس لئے مسلمانوں کو اس شعبہ کی طرف توجہ کرنے کی اشدترین ضرورت ہے؛ اگر چہ وہ اس سلسلے میں بہت پیچھے ہوچکے ہیں؛ لیکن اگر صبح کا بھولا شام میں واپس آجائے تب بھی یہ ایک کامیابی ہے، اس کے لئے دورخی کوشش ہونی چاہئے: 

ایک: افراد سازی کی، کہ انگریزی اور مقامی زبانوں میں لکھنے والے جرنلسٹ اور بولنے والے ماہرین تیار کئے جائیں، 

دوسرے: اگر اخبارات کا نکالنا اور نیشنل سطح کا چینل شروع کرنا مشکل ہو، جیسا کہ تجربہ ہے، تو کم سے کم سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے چینل بنائے جائیں جو مسلمانوں کی آواز بنیں، مسلمانوں کی اچھی تصویر پیش کریں اور ان کے بہتر کاموں کو نمایاں کریں، یہ بھی اپنے تحفظ کا ایک حصہ ہے، اور اس سے بے توجہی نے مسلمانوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچایا ہے۔

نفرت کا ازالہ:

ملک کے موجودہ حالات میں بہت ہی اہم کام نفرت کی اس آگ کو بجھانا ہے، جو سنگھ پریوار نے لگائی ہے اور میڈیا نے پٹرول ڈال کر اس کو آتش فشاں بنا دیا ہے، تعلیم، دعوت اور معاشی ترقی، جو بھی کام ہو، اس کے لئے معتدل ماحول اور نفرت سے پاک سماج ضروری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنی حکمت عملی میں سب سے مقدم رکھا، آپ نے ماحول کو پرامن رکھنے کے لئے مکی زندگی میں یک طرفہ طور پر صبر سے کام لیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ”تنگ آمد بہ جنگ آمد“ کے مصداق اگر کہیں جوابی اقدام کرنا چاہتے، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیتے، مدینہ تشریف لانے کے بعد آپ نے وہاں کے تمام قبائل کو جوڑ کر معاہدہ کروایا؛ تاکہ امن وامان قائم رہے، آپ شروع سے چاہتے تھے کہ اہل مکہ سے صلح ہو جائے، مکی زندگی میں آپ نے اہل مکہ کے سامنے یہ بات بھی رکھی تھی کہ وہ دعوت اسلام کے کام میں رکاوٹ نہ بنیں، اگر آپ کو کامیابی حاصل ہوگئی تو خاندانی رشتے کی بنا پر تمام اہل مکہ کے لئے عزت کی بات ہوگی اور اگر کامیابی نہیں ہو پائی تو آپ کا مقصد حاصل ہوگیا؛ لیکن اس کو بھی اہل مکہ نے قبول نہیں کیا۔

بالآخر اہل مکہ نے دوبار اپنی طاقت لگا کر حملہ کیا اور بدر و احد کے غزوات پیش آئے، تیسری بار ان تمام طاقتوں کو اپنے ساتھ ملا کر حملہ آور ہوئے، جن کی تائید وہ حاصل کرسکتے تھے، اور غزوہ احزاب کا واقعہ پیش آیا؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے ان کی یہ مہم بھی ناکام و نامراد ہوکر رہ گئی؛ چونکہ اہل مکہ نے اپنی صلاحیت کا پورا تجربہ کرلیا تھا، اور اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بزور طاقت مسلمانوں کو زیر نہیں کر سکیں گے، تو اب وہ وقت آگیا جو بقائے باہم کے اصول پر صلح کے لئے سب سے موزوں وقت تھا؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا، جس کی پیشکش آپ ہی نے فرمائی اور آپ نے اہل مکہ ہی کی شرطوں پر صلح کو قبول کرلیا۔

اسی طرح مدینہ منورہ میں بار بار یہودیوں کی طرف سے زیادتی کے واقعات پیش آتے رہے، وہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے، کبھی اشعار کا سہارا لے کر مسلمانوں کی برائی بیان کرتے،کبھی مسلمان خواتین کی نسبت سے بدتمیزی کی باتیں کہتے، اہل مکہ کے لئے جاسوسی کرتے اور ان کو جنگ پر اکساتے، یہاں تک کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ بھی بنایا؛ لیکن آپ نے ہمیشہ صبر اور درگزر سے کام لیا، جب تک پانی سر سے اونچا نہ ہو گیا، درگزر ہی سے کام لیتے رہے؛ تاکہ مسلمانوں کو پرامن ماحول میں اسلام کی دعوت اور مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا موقع ملے، غرض کہ ہر طرح کے اصلاحی اور ترقیاتی کاموں کے لئے پرامن ماحول اور محبت کی فضا ضروری ہے۔

ہندوستان میں اس وقت نفرت کا ماحول قصدا پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، برسراقتدار پارٹی نفرت انگیز منصوبہ بناتی ہے، میڈیا اس منصوبہ کو تقویت پہنچاتا ہے اور اسے گھر گھر پہنچانے کا کام کرتا ہے، حکومت اس نفرت انگیز مہم سے آنکھ بند رکھتی ہے، اپنی انتظامی مشینری کو قصداً معطل کردیتی ہے اور قانون سازی کے ذریعے نفرت انگیز ایجنڈے کو قانون کا حصہ بنا دیتی ہے، اس نفرت کو دور کرنا موجودہ حالات میں سب سے بڑا کام ہے۔

1۔ اس کے لئے غیرمسلم بھائیوں کے ساتھ سماجی تعلقات کو استوار کرنا نہایت ضروری ہے، الیکشن کے وقت اتحاد کی دعوت اور غیرمسلموں کے ساتھ یگانگت ایک حد تک خود غرضی کو ظاہر کرتی ہے، اور اس کو سیاسی فائدے کا عمل تصورکیا جاتا ہے؛ لیکن سیاست سے ہٹ کر سماجی زندگی میں برادرانِ وطن سے تعلقات کی استواری بہت اہم ہے، جیسے قدرتی آفات میں گاو¿ں اور محلہ کے غیرمسلم بھائیوں کی مدد، غیرسودی قرض اداروں کا قیام اور اس میں ان کو بھی شامل کرنا، رمضان المبارک، عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع سے ان کو اپنے یہاں بلانا، مشترک سماجی مسائل کو مل جل کر حل کرنا، صفائی ستھرائی مہم چلانا، وبائی امراض کے لئے طبی کیمپ، ایک ساتھ کھانے پینے کی دعوت وغیرہ، اگر غیرمسلم تنظیمیں، جماعتیں اور ادارے اپنے اپنے حلقے میں اس کام کو انجام دیں، تو انشآءاللہ ضرور نفرت کم ہوگی اور اگر عمل میں تسلسل ہوتو نفرت ختم ہوگی۔

2۔ غیرمسلموں میں بڑا حصہ دلت بھائیوں کا ہے، برہمنوں نے اگرچہ اس بات کے لئے کہ وہ اجتماعی شکل اختیار نہ کرلیں، ان کو بی سی، ایس ٹی اور او بی سی میں تقسیم کردیا ہے، اور بعض جگہ تو دلت اور مہا دلت کی اصطلاح قائم کردی ہے؛ لیکن حقیقت میں سماجی اعتبار سے ان سب کے حالات یکساں ہیں، اس طبقہ سے خاص طور پر تعلقات کو بہتر بنانے، ان کے سماجی اور سیاسی قائد ین کو ساتھ لے کر چلنے اور ان کے ساتھ مساویانہ برتاو کرنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ یہ آبادی کا تقریباّ 80 فیصد ہیں، اور تھوڑی محنت اور حسن سلوک کے ذریعہ ان کو قریب کیا جاسکتا ہے، جیساکہ مختلف ریاستوں میں عیسائیوں نے کیا ہے۔

کیا بہتر ہوکہ ہر قصبہ، گاوں، محلہ میں مسلمان آگے بڑھ کر دلت مسلم انجمن قائم کریں، جو رفاہی کام بھی انجام دیں اور مشترک برائیوں جیسے: جہیز کی رسم، نشہ، گندگی وغیرہ کو ختم کرنے کے لئے مل جل کر کام کریں؛ گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبل ازنبوت زندگی کی اصطلاح میں ایک ’حلف الفضول‘ قائم ہوجائے، جو تمام کمزوروں کی نمائندہ ہو۔

3۔ مسلم غیرمسلم نفرت کا سب سے بڑا سبب میڈیا کے لوگ ہیں، جنہوں نے اپنا ضمیر بیچ دیا ہے، اس کا مقابلہ بھی اسی راستے سے کرنا ہوگا، اس سلسلہ میں سہل الحصول ذریعہ سوشل میڈیا ہے، نفرت بھی اسی ذریعہ سے پھیلائی جاتی ہے، اور نفرت کا علاج بھی اسی ذریعہ سے ممکن ہے، ویسے تو مسلمان بھی مختلف مقاصد کے لئے سوشل میڈیا کا کافی استعمال کرتے ہیں؛ لیکن ضرورت ہے اس میں منصوبہ بندی کی، اور وہ اس طرح کہ:

الف: جو غلط باتیں پھیلائی جاتی ہیں، ہندی اور مقامی زبانوں میں دلیل کے ساتھ غیرجذباتی ہوکر ان کا جواب دیا جائے۔

ب: نفرت انگیز مواد پر کثرت سے کمنٹ کیا جائے، اور کمنٹ اس کی تردید پر مشتمل ہو، نیز اسی میڈیا کے ذریعہ جو جواب دیا جائے، کمنٹ میں اس کا حوالہ بھی ہو کہ آپ اس کی سچائی جاننے کے لئے فلاں پروگرام دیکھ سکتے ہیں۔

ج: غیرمسلم حضرات کے ساتھ جو حسن سلوک کیا جائے، اس پر ان کے تاثرات کی بھی ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے اور اسے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے خوب پھیلایا جائے۔

د: دلتوں، بدھسٹوں، جینیوں وغیرہ کے ساتھ مسلم دور سے پہلے جو مظالم کئے جاتے رہے ہیں، ان کو تاریخی شہادتوں کے ساتھ پیش کیا جائے؛ تاکہ تصویر کا دوسرا رخ لوگوں کے سامنے آئے۔

ہ: موجودہ دور میں دلتوں کے ساتھ تحقیر و تذلیل کا جو رویہ اختیار کیا جاتا ہے، ان واقعات کو پیش کیا جائے۔

و: انسانی بنیادوں پر محبت اور بہتر سلوک کی جو تعلیم اسلام میں دی گئی ہے، اس کو پیش کیا جائے۔

ز: مسلم دور حکومت میں ملک کو جو ترقی حاصل ہوئی اور تمام قوموں کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا گیا، ان کو سامنے لایا جائے۔

ح: غیرمسلم بھائیوں اور بالخصوص دلتوں سے رابطہ کے وسائل جیسے: واٹس ایپ نمبر حاصل کئے جائیں اور ان تک اپنی بات پہنچائی جائے۔

ط: یوٹیوب چینل پر ڈبیٹ رکھی جائے، جس میں فرقہ پرستوں کے عمل کو ایجنڈا بنایا جائے، جیسے :بودھوں اورجینیوں کی وہ عبادت گاہیں جو آج مندروں کی شکل میں ہیں، شودر اور ہندو مذہبی کتابیں، منوسمرتی نیز ہندو مذہبی کتابوں کے بعض غیراخلاقی مضامین، وغیرہ، اس میں ہندو مقدس شخصیتوں کے احترام کا پورا لحاظ رکھا جائے اور اپنی بات کو نقلِ واقعہ تک محدود رکھا جائے، نیز یہ ڈیبیٹ بہوجن سماج کے لوگوں اور کمیونسٹ برادرانِ وطن کے ذریعہ ہو، غرض کہ ایک منصوبہ کے ساتھ سوشل میڈیا کا استعمال کیا جائے۔

4۔ ہندی اور مقامی زبانوں میں 15 /16 صفحات کے ایسے پمپفلیٹس شائع کئے جائیں، جن میں برہمنوں کی طبقاتی تقسیم، عورتوں کے بارے میں منوسمرتی کی تعلیمات، مذہبی کتابوں میں مذکور غیراخلاقی واقعات وغیرہ کا ذکر ہو، اور یہ غیرمسلم مصنفین کے ہوں، اسی طرح بابا صاحب امبیڈکر، جیوتی باپھلے وغیرہ نے برہمنی افکار اور نظام پر جو تبصرے کئے ہیں، انہیں مرتب کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے، نیز اسلام کی انسانیت نواز تعلیم اور مساوات انسانی کے تصور پر بھی موثر لٹریچر تیار کیا جائے، اور اسے برادرانِ وطن تک ان کی زبان میں زیادہ سے زیادہ پہنچایا جائے۔

معاشی ترقی:

کسی بھی قوم کے لئے معیشت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی ہے، اسلام نے حالانکہ آخرت کو مقصد زندگی بنانے کا حکم دیا ہے اور دنیا پر دین کو ترجیح دینے کا سبق پڑھایا ہے؛ لیکن کسب معاش کی بھی ترغیب دی ہے، اس بات کو بہتر قرار دیا ہے کہ مسلمان کے پاس دینے والا ہاتھ ہو نہ کہ لینے والا، حلال روزی کو اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ انسان بہت سے فرائض دولت کے بغیر ادا نہیں کرسکتا اور جو قوم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا تی ہے، وہ عزت و سربلندی کا مقام حاصل نہیں کر پاتی ہے۔

ہندوستان کی صورتحال یہ ہے کہ انگریزوں ہی کے دور سے یہاں خاص طور پر مسلمانوں کی معیشت کو نشانہ بنایا گیا، ملازمتوں سے ان کو الگ کیا گیا، آزادی کے بعد جن شہروں میں کوئی کاروبار مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا، جیسے: علیگڑھ، بنارس، بھاگلپور، مرادآباد وغیرہ، وہاں خوں ریز فسادات کروائے گئے، سخت معاشی پسماندگی کے باوجود مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم رکھا گیا، ملازمتوں میں ان کا گراف اتنا گرچکا ہے کہ وہ بالکل آخری صف میں ہیں؛ اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان معیشت کے ایسے وسائل اختیار کریں، جو کم اخراجات پر مبنی ہوں، جن کے لئے سرکاری وسائل کی ضرورت نہ ہو اور جن کو اپنے اختیار سے چلایا جاسکتا ہو، اس کے لئے ان امور پر توجہ کی ضرورت ہے:

1۔ چھوٹی صنعتوں کا قیام، ان میں اخراجات بھی کم آتے ہیں، قانونی مسائل بھی زیادہ نہیں پیدا ہوتے، جن شہروں میں مسلمانوں نے چھوٹی صنعتوں کو اپنا ذریعہ معاش بنایا ہے، وہاں مسلمانوں کی مالی حالات نسبتا بہتر ہے، جیسے: بنارس اور مﺅ میں ساری کا کاروبار، علی گڑھ میں تالے، بھاگلپور میں ریشم کے کپڑے، وغیرہ۔

2۔ تجارت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجارت میں برکت رکھی گئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تجارت کی ہے، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور اکثر مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تجارت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا تھا، آج بھی جن علاقوں میں مسلمانوں نے تجارت کی طرف توجہ دی ہے، جیسے: بمبئی، کلکتہ، گجرات اور جنوبی ہند کے بعض علاقے، وہاں وہ معاشی طور پر بہتر حالت میں ہیں، جب معیشت بہتر ہوگی تو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے مواقع بھی حاصل ہوں گے اور یہ بھی ان کے لئے معاشی ترقی کا ذریعہ بنے گا۔

3۔ معاش کے دو قدیم ترین ذرائع ہیں: زراعت اور مویشی پالن، پہلے یہ کام معمولی سطح پر کیا جاتا تھا؛ لیکن اب زراعت اور مویشی پالن کی ایک پوری سائنس وجود میں آچکی ہے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے کم جگہ میں زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ جہاں پانی کم ہو وہاںاسی لحاظ سے ایسی چیز وں کی زراعت کی جاسکتی ہے جس میں زیادہ پانی کی ضرورت نہیں پڑتی، مویشی پالن کے ایسے طریقے آگئے ہیں کہ کم مدت میں جانور کا وزن بڑھ جاتا ہے، مسلمانوں کو ان ذرائع کے اختیار کرنے کی ترغیب دینی چاہئے، اس طرح کم وسائل کے ذریعے وہ زیادہ آمدنی حاصل کرسکتے ہیں، اس کی بہترین مثال پنجاب ہے، جہاں معیشت کا بنیادی ذریعہ زراعت ہے، پھر بھی وہ معاشی ترقی کے اعتبار سے ملک کی ریاست نمبر ایک سمجھی جاتی ہے، مسلمان کاشتکار عام طور پر شعور سے تہی دامن ہیں اور وہ حالات کو دیکھے بغیر روایتی کاشت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

4۔ روزگار کا ایک کم خرچ اور مفید ذریعہ ہنر ہے، ہنرمندوں کی ضرورت قدم قدم پر پیش آتی ہے، الیکٹریشن ہو یا پلمبر، یا کسی اور فن کا ماہر، ہر جگہ اس کی طلب ہے، خلیجی ممالک میں ہنرمندوں کی بہت زیادہ کھپت ہے، بعض شعبے ایسے ہیں جن سے خواتین بھی استفادہ کر سکتی ہیں، جیسے: نرسنگ، میڈیکل لیب، گارمنٹ کی تیاری، وغیرہ، میں جب بنگلہ دیش گیا تو دیکھاکہ گارمنٹ فیکٹری کے باہر عورتوں کی لمبی قطاریں کھڑی ہیں، یہ سب وہاں کام کرنے والیاں ہیں اور انہیں معقول معاوضہ ملتا ہے، اسی کے نتیجے میں بنگلہ دیش اس وقت سارک ممالک میں معاشی ترقی کے اعتبار سے اول نمبر پر ہے، بعض ہنر ایسے بھی ہیں کہ جو لوگ زیادہ جسمانی محنت نہیں کرسکتے اور کسی قدر تعلیم یافتہ بھی ہیں، وہ ان سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں، حکومت اسکیل ڈیولپمنٹ کے نام سے ہنرمندوں کی تیاری پر بہت توجہ دے رہی ہے اور اس کی بہت حوصلہ افزائی کرتی ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

5۔ سرکاری اسکیمیں، غریبوں بے روزگاروں اور اقلیتوں کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی بعض خصوصی اسکیمیں ہیں، اگر آپ اقلیتی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست کسی ذریعہ سے حاصل کریں تو آپ دیکھیں گے کہ سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کا حصہ اس میں بہت ہی کم ہے،ان ا سکیموں سے فائدہ اٹھانا ہمارا حق ہے؛ کیونکہ مسلمان بھی اس ملک کو ٹیکس ادا کرتے ہیں، جب کوئی مصیبت آتی ہے تو ہنگامی تعاون کرتے ہیں، ابھی کووِڈ کے موقع سے جن لوگوں نے بڑا ڈونیشن دیا، ان میں کئی مسلمان ہیں اور جس نے سب سے بڑا ڈونیشن دیا، وہ بھی ایک مسلمان ہی تھا، تو مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ ایسی اسکیموں سے فائدہ اٹھائیں اور ان میں سے بیشتر اسکیمیں ایسی ہے جن کو علماءنے شرعی نقطہ نظر سے بھی جائز قرار دیا ہے۔

ان اسکیموں سے محروم رہنے کے دو بنیادی اسباب ہیں: پہلا سبب افسروں کا تعصب ہے؛ لیکن اگر ہمت نہ ہاری جائے، مقررہ ضوابط کی پیروی کی جائے تو دو چار بار دوڑنے اور دو چار سرکاری آفسوں کی خاک چھاننے کے بعد کامیابی حاصل ہو جاتی ہے؛ اس لئے جدوجہد کرنی چاہئے اور اپنا حق حاصل کرنا چاہئے، اس کا دوسرا اور بڑا سبب مسلمانوں کی بے خبری ہے، عام طور پر مسلمان ان اسکیموں سے باخبر نہیں ہوتے، اگر سرسری طور پر کچھ معلوم بھی ہو تو طریقہ کار کی تفصیل سے ناواقف ہوتے ہیں؛ اس لئے اکثر اپنی لاعلمی کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں، ضرورت ہے کہ مسلم آبادیوں میں’گائیڈنس سینٹر‘ قائم کئے جائیں، اس سے بہت سے فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں، جیسے: سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانا، پرائیویٹ کمپنیوں میں اور سرکاری محکموں میں ملازمت کے مواقع سے واقفیت، ہنر کی تعلیم کے مراکز وغیرہ، یہ ہمہ مقصدی سینٹر ہوسکتا ہے، اور اگر مسجدوں کو اس کا مرکز بنایا جائے مثلا ہفتہ یا مہینے میں ایک دن مسجد میں کوئی واقف کار شخص چند گھنٹوں کے لئے اپنا وقت دے دے تو مسجد سے مسلمانوں کا رشتہ مضبوط ہوگا اورکتنے ہی مسلمانوں کو باعزت روزگار مل سکے گا ہے۔

زبان:

کسی بھی قوم کے لئے اپنی زبان کی بڑی اہمیت ہے، ہندوستان ایک کثیر لسانی ملک ہے؛ اس لئے زبان کے مسئلہ پر یہاں جھگڑے بھی شروع سے ہوتے رہے ہیں، اردو زبان کا تعلق اگرچہ مذہب سے نہیں ہے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں پچاسی سے نوے فیصد مسلمانوں کے لئے اردو ہی رابطے کی زبان ہے، دینی مدارس میں یہی ذریعہ تعلیم ہے، مسجدوں میں زیادہ تر بیانات اسی زبان میں کئے جاتے ہیں، یہی زبان جلسوں کی رونق ہے، اردو اخبارات ہی مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی کرتے ہیں، اور سب سے اہم بات یہ کہ اسلامی لٹریچر کے اعتبار سے عربی کے بعد یہ سب سے دولت مند زبان ہے۔

افسوس کہ اردو نے جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا اور اردو شعر و ادب سے دنیا بھر میں ہندوستان کا تعارف ہوا؛ لیکن آزادی کے بعد ہی سے اس زبان کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور موجودہ تعلیمی پالیسی نے اس متعصبانہ کوشش کو آخری درجہ پر پہنچا دیا ہے، اگر حکومت کی یہ سازش کامیاب ہوگئی تو ہماری نئی نسل کا رشتہ اپنے ماضی سے اور عوام کا رشتہ علمائ سے کٹ کر رہ جائے گا۔

اس پس منظر میں ہمیں ایک طرف قانونی طور پر اردو کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور دوسری طرف اپنے طور پر بھی اپنی زبان کی حفاظت کا سروسامان کرنا چاہئے، اس کی بہترین مثال یہودی ہیں،جنھوں نے ہزاروں سال اقتدارسے محروم رہنے کے باوجود اپنی زبان ”عبرانی“ کو محفوظ رکھا اور جب اسرائیل قائم ہوا تویہ اسرائیل کی سرکاری زبان بن گئی۔

اس سلسلے میں درج ذیل امور پر توجہ دینی چاہئے:

1- مسلمان اپنی گھریلو زبان کے طور پر اردو ہی کا استعمال کریں؛ تاکہ نئی نسل کم سے کم بولی کی حد تک اردو زبان سے ضرور واقف رہے۔

2- آپسی خط و کتابت میں اردو کا استعمال کریں۔

3- اپنی دکانوں اور آفسوں وغیرہ کے سائن بورڈ میں اردو کو شامل کریں۔

4- اپنے گھروں میں اردو اخبارات و رسائل جاری کریں اور انہیں پڑھنے کی عادت ڈالیں۔

5- ہر بچہ کو مکتب میں یا گھر میں اردو بولنا اور لکھنا ضرور سکھائیں۔

6- مسلمان اپنے زیرانتظام تعلیمی اداروں میں – چاہے اس کا میڈیم انگلش ہو – بطور ایک زبان کے اردو پڑھائیں۔

7- اردو کتابیں خریدیں، اپنے گھروں میں لاکر رکھیں اور اردو کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔

8- اردو زبان میں تقریر، تحریر، بیت بازی، حمد، نعت اور غزل کے مقابلے رکھوائیں اور اس پر انعام دیں۔

اگر ہم یہ اور اس طرح کی تدبیروں پر عمل کریں تو ہم خود اپنی کوششوں سے اپنی زبان کو زندہ رکھ سکتے ہیں اور اپنی نسلوں کا رشتہ اسلامی لٹریچر کی وسیع دنیا کے ساتھ استوار کرسکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی شدید ضرورت ہے کہ ہندی اور مقامی زبانوں میں منتخب اسلامی لٹریچر کو تیزی سے منتقل کیا جائے، فارسی زبان کوئی اسلامی زبان نہیں ہے، یہ آتش پرستوں کی زبان تھی؛ لیکن جب مسلمان اس خطہ میں پہنچے تو انہوں نے اِس زبان پر اتنی محنت کی کہ یہ مسلمانوں کی زبان بن گئی، یہاں تک کہ آج مسلمان شعراءاور مصنفین کے بغیر فارسی زبان و ادب کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اس پر توجہ کی بہت شدید ضرورت ہے؛ تاکہ ہمارے جو بچے اردو نہیں پڑھ سکتے، وہ دین سے نا واقف نہ رہیں، اور اس لئے بھی کہ ہم تمام قوموں کی مشترک زبان ہی کے ذریعہ برادران وطن تک پہنچ سکتے ہیں اور ان تک اسلام کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔

سیاسی قوت میں اضافہ:

اس سے کوئی سمجھدار آدمی انکار نہیں کر سکتا کہ سیاسی قوت کی بڑی اہمیت ہے اور زندگی کے تمام شعبوں پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مسلمانوں کو آزادی کے بعد ہی سے منصوبہ بند طریقے پر سیاست کے میدان میں بے وزن کرنے کی کوشش کی گئی، متناسب ووٹنگ کا نظام ختم کر دیا گیا، اگر متناسب ووٹنگ کا نظام باقی ہوتا تو کسی شہری کا ووٹ ضائع نہیں ہوتا؛ بلکہ جو پارٹی جتنے ووٹ حاصل کرتی، اس کے لحاظ سے اس کو نمائندے نامزد کرنے کا حق ہوتا، اس صورت میں ملک میں بکھرے ہوئے مسلمان بھی اپنے ووٹ کو موثر بناسکتے تھے، موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اکثریت کے مقابلے میں اقلیت کا ووٹ ضائع ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ جس حلقے میں مسلمانوں کے زیادہ ووٹ ہوتے ہیں، ان کو محفوظ قرار دے دیا جاتا ہے؛ لہذا ایک تو اس سلسلے میں قانونی کوشش کرنی چاہئے اور مسلم علاقوں کومحفوظ قرار دینے کے معاملہ کوعدالت میں چیلنج کرنا چاہئے، دوسرے: ایسی پارٹیوں کو تقویت پہنچانی چاہئے جو مسلمانوں کے لئے نسبتا مفید ہوں۔

اس سلسلے میں درج ذیل باتیں قابل توجہ ہیں:

1- جہاں کوئی مسلم پارٹی کا امیدوار کھڑا ہو اور پچاس فیصد سے زیادہ اس کے جیتنے کی توقع ہو، وہاں اس کو جتانے کی کوشش کرنی چاہئے؛ کیونکہ وہ کھل کر مسلم مسائل پر بات کر سکتا ہے، اس پر پارٹی کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، اس کے برخلاف بعض جماعتیں جو اپنے آپ کو سیکولر قرار دیتی ہیں، وہ بھی اپنے مسلم نمائندے کو کھل کر اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دیتیں؛کیونکہ ان کو انتہا پسند فرقہ پرستوں کے ووٹ کی فکر دامن گیر رہتی ہے؛ اس لئے مسلم پارٹی کو ترجیح دینی چاہئے۔

2- جہاں مسلم پارٹی تو نہ ہو؛ لیکن کسی ایسی پارٹی کا مسلمان امیدوار ہو، جو کم سے کم اپنے آپ کو زبان سے سیکولر کہتی ہو اور اس امیدوار کے جیتنے کی پچاس فیصد سے زیادہ توقع ہو، تو اس کے حق میں ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے؛ کیونکہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ایوان قانون میں بھی اور اپنی پارٹی میں بھی مسلمانوں کے مسائل کی ترجمانی کرسکے گا۔

3- جہاں مسلم پارٹی ہو یا مسلمان امیدوار ہو؛ لیکن اس کے جیتنے کی کم امید ہو، وہاں ان کو ووٹ دینا اپنے ووٹ کو ضائع کرنا ہے؛ اس لئے وہاں اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینا چاہئے، جو سیکولرمنشور رکھتی ہو، بہت سی دفعہ لوگ سوچتے ہیں کہ فلاں پارٹی سیکولرزم کا نعرہ لگاتی تھی؛ لیکن اسی کے عہداقتدار میں مسلمانوں کو ڈھیر سارا نقصان بھی پہنچا، یہ حقیقت واقعہ ہے؛ لیکن جب تمام پارٹیاں فرقہ واریت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہوں تو اس وقت ہمیں بڑے نقصان اور چھوٹے نقصان کا موازنہ کرنا ہوگا اور بڑے نقصان سے بچنے کے لئے کم تر درجے کے نقصان کو گوارا کرنا ہوگا،فقہاءکے یہاں یہ ایک مستقل اصول ہے، مثلا اس وقت جو پارٹی اقتدار میں ہے، اس نے مسلمانوں کو پہنچنے والے ماضی کے نقصانات کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں سنگین ا ضا فہ یہ کیا ہے کہ دستوری طور پر مسلمانوں کی شہریت، مذہبی تشخص اور حق تعلیم کو جو تحفظ حاصل ہے، اسے ہی ختم کر رہی ہے، یعنی کوشش ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کی بنیادیں ہی اکھیڑ دی جائیں، یہ یقینا اس نقصان سے بڑھا ہوا ہے، جو ہم نے پچھلی حکومتوں سے اٹھایا ہے، یہاں تک کہ گزشتہ روایات سے ہٹتے ہوئے وزارتوں میں کسی مسلمان کی نمائندگی بھی قبول نہیں کی جاتی،حکمر انوں کا حال یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے وفد سے ملاقات بھی نہیں کرنا چاہتے، ان حالات میں ان لوگوں کو کمزور سے کمزورتر کردینا جنہوں نے اپنے اصول اور منشور میں سیکولرزم کو شامل کر رکھا ہے، بے حد نقصان دہ ہوگا۔

4- علاقائی پارٹیوں کی بھی اہمیت ہے، اب ملک کی اکثر ریاستوں میں ایسی پارٹیاں موجود ہیں؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریاستی سطح کی پارٹیوں کا کوئی نظریہ اور موقف نہیں ہوتا، وہ اپنا قبلہ بدلتی رہتی ہیں اور وہ مرکزی حکومت کے بننے اور گرنے میں بنیادی رول ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں، ملک بھر کے لئے قانون مرکزی ایوانِ قانون میں بنتا ہے اور وہاں اقتدار میں نیشنل پارٹیاں ہوتی ہیں؛ اس لئے نیشنل پارٹیوں سے مسلمانوں کو بے تعلق نہ ہونا چاہئے اور اس میں شامل رہ کر پریشر گروپ کے طور پر کام کرنا چاہئے، اس کی اہمیت کا اندازہ بی جے پی کے نعرے سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کانگریس ±مکت بھارت، کمیونسٹ ±مکت بھارت کا نعرہ لگا رہی ہے؛ لیکن ریاستی پارٹیوں کے بارے میں اس طرح کے نعرہ لگانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی؛ کیونکہ یہ ان کے عزائم کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔

5- سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان خاموش طریقہ پر اپنے ووٹ کو متحد کریں اور ایسے امیدوار کو کامیاب بنائیں، جو فرقہ پرست امیدوار کو شکست دے سکتا ہو؛ورنہ فرقہ پرست ووٹوں کا اتحاد ہوجائے گا اور مسلمانوں کے ووٹ ضائع ہوجائیں گے۔

6- یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی جلسوں میں جذباتی اور جارحانہ تقریروں سے بچا جائے، اس سے وقتی طور پر مسلمانوں کے جذبات کی تسکین ضرور ہوتی ہے اور نعرے بھی خوب لگتے ہیں، مگر فائدہ سے زیادہ نقصان ہوتا ہے اور مسلم مخالف ووٹ متحد ہو جاتا ہے، اسوہ نبوی ہمارے سامنے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مسلمانوں کو کس قدر تکلیفیں دی گئیں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبات میں ہمیشہ دین کی، انسانیت کی اور انصاف کی باتیں کیں اور کبھی اعدا ئ اسلام کے مظالم کو موضوعِ سخن نہیں بنایا۔

7- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غیرمسلم قبائل سے معاہدہ کیا ہے، ہجرت کے بعد مدینہ میں بسنے والے تمام قبائل کو جوڑ کر وہ تاریخی معاہدہ کروایا، جو ”میثاق مدینہ“کہلاتا ہے، اس میں یہ سبق ہے کہ ہمیں برادرانِ وطن میں سے ان لوگوں کو ساتھ لینا چاہئے جو ہماری ہی طرح مظلوم ہیں، یعنی :دلت، اگر ہر علاقے میں مسلمان دلتوں کے ساتھ مل کر اپنی پالیسی طے کریں اور شرائط کی بنیاد پر ان کے ساتھ اتحاد کریں تو ملک میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے اور ناانصافی کا سدباب ہو سکتا ہے۔

غرض کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنا جن لوگوں کی ذمہ داری ہے، وہ خود نفرت کے بیج بورہے ہیں اور اقلیتوں کو خوف زدہ کیا جارہا ہے، ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمانوں کو دین پر ثابت قدم رکھا جائے، انہیں تعلیم میں آگے بڑھایا جائے، وہ ’آپ اپنی حفاظت‘کے لائق بن سکیں، نفرت کے ماحول کو اپنے اخلاق کے ذریعہ تبدیل کیا جائے، معاشی ترقی کے لئے ان وسائل پر توجہ دی جائے، جن کا حکومت کی مدد پر انحصار نہیں ہے، اردو زبان سے نئی نسل کو آشنا کیا جائے اور اس کو زیادہ سے زیادہ رواج دیا جائے، مقامی زبان میں اسلامی لٹریچر کو منتقل کیا جائے ،اور سیاست کے میدان میں باریک بینی کے ساتھ حکمت عملی اختیار کی جائے، اور ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ برادران وطن کے درمیان اسلام کااور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا سچا تعارف کروایا جائے، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس کو پہنچایا جائے، نیز حالات کچھ بھی ہوں، اپنے آپ کو کم ہمتی سے بچاکر رکھا جائے؛ کیونکہ بے حوصلہ قوم کی مثال اس درخت کی ہوتی ہے جو اندر سے سوکھ جائے، اس کو ہوا کا ایک جھونکا بھی اکھاڑ پھینکتا ہے۔

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی :: ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ :: پیش کش: ایس اے ساگر #Sa_Sagar

https://saagartimes.blogspot.com/2020/08/blog-post_71.html