اولادِ رسول ﷺ کے مختصر احوال
-------------------------------
-------------------------------
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بیٹے (راجح قول کے مطابق) اور چار بیٹیاں (باتفاق علماء) تھیں.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹے:
1: حضرت قاسم رضی اللہ تعالی عنہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے حضرت قاسم پیدا ہوئے اور بعثتِ نبوت سے پہلے ہی انتقال فرما گئے ۔دو سال کی عمر پائی تھی، انہیں کے نام سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ''ابوالقاسم'' مشہور ہوئی ۔مکہ مکرمہ میں ولادت ہوئی اور وہیں انتقال ہوا. (المواھب اللدنیہ 479/1، زرقانی:3 ص 24)
2: حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ:
سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا سے اعلان نبوت کے بعد پیدا ہوئے ؛ اس لئے ان کا لقب طیب وطاہر پڑا، ایک سال چھ ماہ آٹھ دن زندہ رہے اور طائف میں 614ء میں وفات پائی (مواہب لدنیہ 478/1)
3: حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ:
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باندی حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے مدینہ منورہ میں سنہ 630ء میں پیدا ہوئے، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ نے حاضر خدمت رسول ہو کر ولادت کی خوشخبری سنائی، جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو رافع کو ایک غلام عطا فرمایا ۔ ساتویں روز عقیقہ ہوا جس میں دو مینڈھے ذبح کروائے گئے اور سر منڈواکر بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی، بال زمین میں دفن کئے۔ اٹھارہ ماہ کے قریب زندہ رہے، 632ء میں مدینہ منورہ میں وفات پائی، حضورؐ ان کی وفات پر بہت غمگین ہوئے، آپؐ نے فرمایا:
’’إن العين تدمع، والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضي ربنا، وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون“
آنکھیں اشک بار، دل غم سے نڈھال ہے؛ لیکن ہم راضی برضاے الٰہی رہیں گے، اے ابراہیمؓ! ہم تمہاری جدائی پر بہت غمزدہ ہیں۔ (صحيح البخاری، الجنائز، باب: قول النبي صلى الله عليه وسلم: إنا بك لمحزونون (1303)
ایک صحابیؓ نے کہا کہ یا رسول اللہؐ ! آپ ہمیں رونے سے منع فرماتے ہیں (لیکن آپ رورہے ہیں؟) فرمایا کہ زبان کے رونے سے منع کرتا ہوں آنکھ کا رونا تو فطری ہے۔ انہی کے انتقال کے وقت اتفاقاً سورج گہن ہوا تو بعضوں کو خیال ہوا کہ شاید حضرت ابراہیم کی وفات کے باعث ایسا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کی تردید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
«إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا تنكسفان لموت أحد ولا لحياته؛ ولكنهما آيتان من آيات الله يخوف الله بهما عباده فإذا رأيتموهما فافزعوا إلى الصلاة» [صحیح البخاري، كتاب: الجمعة، باب: الصدقة في الكسوف (1044)] (زاد المعاد (1 /103)، والفصول في سيرة الرسول صلى الله عليه وسلم لابن كثير (ص: 130). المواهب اللدنية 485-489 ج 1)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں:
باتفاق علماء اہل سیر ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے چار بیٹیاں بھی عطا فرمائیں، چاروں جوان ہوئیں اور چاروں کی شادیاں ہوئیں، تین بیٹیوں کی اولاد بھی ہوئی جبکہ ایک کی اولاد نہیں ہوئی۔
1: حضرت زینب رضی اللہ عنہا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بیٹی حضرت زینبؓ تھیں، مکہ مکرمہ میں سنہ 600ء کو یعنی بعثت نبوی سے قریب دس سال پہلے پیدا ہوئیں، حضور کی عمر مبارک اس وقت تیس سال تھی. آپ کا نکاح اپنے خالہ زاد 'قاسم' المعروف ابوالعاص بن ربیعؓ سے ہوا تھا جو حضرت خدیجہؓ کے بھانجے تھے، یعنی حضور کی سالی حضرت ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے، یہ غزوۂ بدر میں کفار کی طرف سے لڑنے آئے تھے، غزوۂ بدر کے بعد ابوالعاص حضورؐ کی قید میں آگئے تھے جبکہ دونوں کا نکاح باقی تھا ؛ کیونکہ اس وقت تک نکاح کے نئے قوانین شرع نازل نہیں ہوئے تھے، حضرت زینبؓ نے اپنا ہار فدیہ میں دے کر اپنے خاوند کو رہا کروایا۔ ابوالعاصؓ بعد میں سنہ 7 ہجری میں ایک موقع سے مشرف باسلام ہوگئے تھے اور پھر مسلمانوں کی طرف سے معرکوں اور غزوات میں شریک بھی ہوتے رہے، انتہائی بہادر اور دلیر آدمی تھے۔ حضرت زینبؓ کے دو بچے تھے ، ایک بیٹا تھا اور ایک بیٹی۔ بڑی بیٹی امامہؓ بنت ابو العاص تھیں جبکہ بیٹے علی بن ابو العاص تھے۔ امامہؓ حضورؐ کی بہت لاڈلی نواسی تھیں، روایات میں آتا ہے کہ امامہؓ نماز کے دوران حضورؐ کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، حضورؐ قعدے میں بیٹھتے تھے تو امامہؓ کبھی کندھے پر چڑھ جاتیں اور کبھی آکر گود میں بیٹھ جاتی تھیں۔ حضورؐ نماز کے دوران سجدے میں جاتے تھے تو یہ گردن پر چڑھ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ امامہؓ جوان ہوئیں تو حضرت فاطمہؓ کے انتقال کے بعد حضرت علیؓ کے نکاح میں آئیں۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کی وصیت کے مطابق حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے امامہؓ سے نکاح کیا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سنہ 629 ء کو مدینہ منورہ میں وفات پائیں (الطبقات الكبرى لابن سعد (10 /31).
2: حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا:
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی حضرت رقیہؓ تھیں، سنہ 603ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں، آپ کا نکاح حضورؐ نے پہلے ابولہب کے بیٹے عتبہ سے کیا تھا، نکاح ہوگیا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ حضورؐ کی تیسری بیٹی ام کلثوم ابولہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کے نکاح میں تھیں۔اس دوران دعوتِ اسلام کا سلسلہ شروع ہوگیا، ابولہب نے اس کی عداوت میں اعلان کر دیا کہ میں اپنے بیٹوں کی شادیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں سے نہیں کروں گا۔ پھر حضرت رقیہ کا نکاح حضرت عثمانؓ سے ہوا، حضرت عثمانؓ جب ہجرت کر کے حبشہ گئے تو حضرت رقیہؓ ان کے ساتھ تھیں، حبشہ میں ان کا بیٹا عبد اللہؓ پیدا ہوا۔ حضرت عثمانؓ انہی کے حوالے سے ابوعبد اللہؓ کہلاتے تھے۔ یہ حضورؐ کا دوسرا نواسہ جبکہ حضرت رقیہؓ کے بطن سے پہلا بیٹا تھا، چھ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا، مدینہ منورہ میں ایک مرتبہ کھیل رہے تھے کہ کسی دوسرے بچے نے چھڑی ماری جو آنکھ میں لگ گئی، اسی زخم سے پھر وفات ہوگئی۔ حضرت عثمانؓ مدینہ میں ہوتے ہوئے بھی بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت رقیہؓ گھر میں بیمار تھیں، حضرت عثمانؓ کے علاوہ اور کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ حضورؐ نے خود حضرت عثمانؓ سے گھر پر رکنے کا کہا تھا کہ علالت ونقاہت کے سبب حضرت رقیہؓ کا اٹھنا بیٹھنا بھی مشکل تھا، حضرت عثمانؓ حضرت رقیہ کی تیمار داری میں مدینہ منورہ میں رکے رہے اور پھر اسی حالت میں غزوۂ بدر کے بعد حضرت رقیہؓ کا مدینہ منورہ میں 624ء میں انتقال ہوگیا۔ (المواهب اللدنية 480/1، و خاندان نبوت: ابوعمار زاہدالراشدی)
3: حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا:
حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دی، اسی لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے یعنی دو نوروں والے۔ آپ کی ولادت مکہ مکرمہ میں سنہ 604ء میں ہوئی تھی۔ جب حضرت ام کلثومؓ بھی فوت ہوگئیں تو اس وقت حضورؐ کی بیٹیوں میں صرف حضرت فاطمہؓ زندہ تھیں اور حضرت علیؓ کے نکاح میں تھیں۔ حضورؐ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے تیرے نکاح میں دیتا جاتا۔ سنہ ۹ موافق 630ء ہجری میں مدینہ منورہ میں آپ کا انتقال ہوا، حضرت ام کلثومؓ کی کوئی اولاد نہ تھی۔
(الطبقات الكبرى لابن سعد (10 /37).
4: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا:
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی لیکن سب سے چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا ء رضی اللہ عنہا تھیں، سنہ 604ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں، اور سنہ 632ء کو مدینۃ منورہ میں وفات پائیں، ان کا نکاح حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد حضرت علی بن ابی طالب سے ہوا، دامادوں میں حضرت علیؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ چہیتے داماد تھے؛ جبکہ بیٹیوں میں حضرت فاطمہؓ حضورؐ کی سب سے زیادہ چہیتی بیٹی تھیں۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بہت زیادہ محبت تھی۔ آپؐ کسی سفر پر جانے سے پہلے سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ملنے جاتے، پھر جب آپؐ سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے پاس جاتے؛ تاکہ ان سے غیاب کا وقفہ کم سے کم تر رہے ، حضرت علیؓ نے حضورؐ سے ان سے نکاح کی خواہش ظاہر فرمائی تو حضورؐ نے پوچھا کچھ مال پاس ہے یا نہیں؟ حضرت علیؓ نے بتایا، یا رسول اللہؐ کچھ بھی نہیں ہے۔ پوچھا مہر دینے کے لیے کچھ ہے؟ بتایا، یا رسول اللہؐ وہ بھی نہیں ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ زرہ کہاں ہے جو تمہیں غنیمت میں ملی تھی؟ بتایا، وہ میرے پاس ہے۔ آپؐ نے فرمایا جاؤ لے کر آؤ۔ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے وہ زرہ لے کر بیچ دی جسے حضرت عثمانؓ نے خریدا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اس میں سے مہر بھی ادا کرنا اور کچھ سامان وغیرہ بھی خریدنا۔ نکاح کے بعد ایک انصاری صحابی حضرت حارث رضی اللہ عنہ کے مکان میں رہائش اختیار فرمائی، ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حضرت فاطمہؓ کے علاوہ آپؐ کی ساری اولاد فوت ہوگئی تھی۔ حضرت فاطمہؓ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں حضر ت حسنؓ، حضرت حسینؓ اور حضرت محسنؓ۔ (حضرت محسن صغر سنی ہی میں وفات پاگئے تھے) بیٹیوں میں ام کلثوم بنت علی اور زینب بنت علی رضی اللہ عنہما تھیں، یعنی دونوں بہنوں کا نام خالہ کے نام پر ہی رکھا گیا تھا ، حضرت ام کلثوم بنت علی کا نکاح سنہ 71 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ہوا، دوسری بیٹی حضرت زینب بنت علی کا نکاح حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے ہوا (نسب قریش ص 52)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں جن بچوں نے پرورش پائی ان میں حضرت امامہؓ بنت علی، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ تھے۔ (خاندان نبوت، ابو عمار زاہدالراشدی)
اس طرح ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں، تین داماد اور آٹھ نواسے اور نواسیاں تھیں رضی اللہ عنہم اجمعین۔
( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_96.html
No comments:
Post a Comment