مفتی طارق مسعود صاحب کا حالیہ قضیہ: ہمارا غیر منصفانہ رویہ
-------------------------------
-------------------------------
موقع محل کی نزاکت وحساسیت کا ادراک، مزاج شناسی اور معاملہ فہمی بہت بڑی چیز ہے۔ ملکی، ملی، علمی، دعوتی واصلاحی کام کے وسیع وعریض میدان میں سرگرم عمل اور محو سفر رہنے والے افراد و اشخاص کی زبان اور باگِ قلم حد درجہ محتاط رہنے چاہئیں۔ انہیں موقع محل کی نزاکت ورعایت کے ادراک کے ساتھ ناپ تول کر اپنی باتوں کے مثبت ومنفی عواقب و نتائج پہ نظر رکھتے ہوئے "لب کُشا" ہونا چاہئے۔ ذرا سی بے احتیاطی، چوک اور مقتضائے حال کی عدم رعایت سے مفاد پرست ٹولۂ اوباش اہل حرم کو دست وگریباں کرکے اور اضطراب وانتشار وبے چینی پھیلاکر افراد ملت کے ذہنوں کو غیرضروری طور پر خلفشار کی آمجگاہ بناکر ہی چھوڑتا ہے، اپنی دعوتی واصلاحی خدمات کے باعث شہرت واعتبار رکھنے والے صالح عالم دین مفتی طارق مسعود صاحب کی قرآن میں عربی گرامر کی غلطی کی حالیہ تقریر کے حوالے سے بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا، جو انتہائی المناک وافسوناک وتکلیف دہ عمل تھا، بشری خامیوں اور فرگزاشتوں سے کون منزّہ ہے؟ انسان، علم وفضل وکمال اور تقوی وطہارت کے اعلی رتبے پہ فائز ہوکے بھی آخر خطائوں کا پتلا ہی رہتا ہے۔ اپنی خامیوں اور لغزشوں کے اعتراف میں ہی انسانی عظمت واقبال مندی کا راز پنہاں ہے۔ مفتی صاحب موصوف کی نیت خواہ کچھ بھی ہو ؛ پَر انہوں نے اس بابت جو کچھ فرمایا تھا وہ یقیناً ان کی لسانی فروگزاشت وخطا تھی ، اچھا ہوا کہ توجہ دہانی کے بعد انہوں نے بروقت اس کا اعتراف اور اس کی حساسیت کا ادراک فرمالیا اور اپنے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے دوٹوک انداز میں ان تمام لوگوں سے اس سبقت لسانی پر معذرت کرلی جن کے احساسات اس غیر محتاط بیان سے متاثر ہوئے تھے۔ یہ حوصلہ مندانہ اقدام یقیناً ان کے بڑے پن کا مظہر اور مزید ترقیوں کا زینہ ہے۔
کیا اہل علم سے یہ کہنے کی بات ہے؟ کہ ہمارا مذہب اعتدال وتوازن اور وسطیت سکھاتا ہے، مدح وذم، تعریف وتنقید ہر دو چیز میں ہمیں اعتدال اور حقیقت پسندی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے، کسی صاحبِ تحریر وتقریر کے منشاء ومراد کو پانے کے لئے گہری تحلیل وتجزیہ، ذہنی پس منظر، اصلی مزاج وطبعیت، اور نفسیاتی کیفیت کا دقت نظر کے ساتھ جائزہ لینا چاہئے، عجلت پسندانہ اور غیرمحتاط رد عمل وتبصرہ اندر کی بوکھلاہٹ اور شخص مذکور سے ذاتی رنجشوں بدگمانیوں، اور چپقلشوں کی غمازی کرتا ہے۔ ہمیں اس موقع سے اچھے اچھے اصحاب علم ودانش کو بلا وجہ قلمی توانائیاں صرف کرتے دیکھ کر بڑا افسوس ہوا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سارے مسائل اِعراض وچشم پوشی سے ازخود حل ہوجاتے ہیں، نزاعی مسائل اور لاطائل بحثوں کو بلاضرورت طول دینا، رائی کو پہاڑ بنانا، شیرہ لگاکر معاملے کو سوشلستان میں زندہ رکھنے کے مترادف ہے، جس سے غیرشرعی تنقیص آمیز محاذ آرائی ومہم جوئی کی فضا بدستور قائم رہتی ہے، اور آوارہ زبان ٹولہ علماء دین کے خلاف بھونکنے کو اپنا محبوب شغل بنائے رکھتا ہے۔
"لینے" اور "دینے" دونوں کا پیمانہ ایک ہونا چاہئے، "سیر" اور "سوا سیر" کی ذہنیت قرینِ انصاف نہیں، لسان وقلم کی سبقت ہر کسی سے ہوجاتی ہے۔ ہم اپنے تنقیص آمیز تبصروں کی جس خوبصورت تاویل وتوجیہ کرکے نکل جاتے ہیں ، دوسروں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھنا چاہئے، اظہارِ معذرت کے بعد اب اس معاملے کو بالکلیہ ختم کرکے ان کے ساتھ عفو ودر گزر کا معاملہ کرتے ہوئے حسب سابق باہمی آداب و احترام و رواداری کا معاملہ باقی رکھنا چاہیے، مفتی طارق مسعود صاحب سے بھی گزارش ہے آئندہ اپنی تقریروں میں حد درجہ محتاط رویہ اختیار کریں، عوامی مجالس میں خالص علمی نازک مسائل بیان کرنے سے پیشتر ممکنہ عواقب ونتائج پہ لازمی غور کرلیا کریں!
ہفتہ ۱۷ ربیع الاول ١٤٤٦ ہجری
https://saagartimes.blogspot.com/2024/09/blog-post_21.html ( #ایس_اے_ساگر )
No comments:
Post a Comment