Thursday 7 June 2018

کیا آج شب قدر ہے؟

کیا آج شب قدر ہے؟
السلام علیکم،
درج ذیل بات جو آجکل مشہور ہو رہی ہے کہاں تک درست ہے:
آج جمعرات ہے مغرب کے بعد جمعہ کی رات شروع ہو جائے گی. تئیسویں رات بھی ہوگی. طاق بھی اور جمعہ کی بھی. ابن رجب نے لطائف المعارف میں ابن ھبیرہ کا یہ قول لکھا ہے کہ جب جمعہ کی رات طاق رات سے آملے تو بہت امید کی جاسکتی ہے کہ یہی شب قدر ہو. امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب جمعہ کی رات آخری عشرہ رمضان کی طاق رات سے آملے تو یہ رات باذن اللہ زیادہ لائق ہے کہ اسے شب قدر کا درجہ ملے.
بینوا توجروا.
الجواب حامدا ومصلیا،
لیلۃ القدر آخری عشرے میں ہے، اس سے زیادہ تحدید کرنے والوں نے کہا طاق راتوں میں ہے. اس سے بڑھ کر اگرچہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باقاعدہ ستائیسویں رات کا نام تک لیا لیکن جمہور نے اسے قبول نہیں کیا اور طاق راتوں میں عام رکھا. جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تحدید کو مطلقا قبول نہیں کیا گیا تو بعد والوں کی تحدید (جسکی سند بھی معلوم نہیں) اس سے بھی کمزور تخمینہ ہے اس کی طرف دیہان نہیں دینا چاہئے. سو مکمل آخری عشرہ لیلۃ القدر کی تلاش میں عبادت کریں تو بہتر ہے ورنہ طاق راتوں میں تو ضرور کریں.
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إني أُريتُ ليلة القدر، وإني نسّيتها، أو أنسيتها. فالتمسوها في العشر الأواخر من كل وتر. متفق عليه.
قال أبي بن كعب رضي الله عنه في ليلة القدر؛ والله إني لأعلمها وأكثر علمي هي الليلة التي أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بقيامها، هي ليلة سبع وعشرين. وعن أبي بن كعب رضي الله عنه قال هي ليلة صبيحة سبع وعشرين، وأمارتها أن تطلع الشمس في صبيحة يومها بيضاء لا شعاع لها. رواهما مسلم.
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال تذاكرنا ليلة القدر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال أيكم يذكر حين طلع القمر وهو مثل شق جفنة؟ رواه مسلم.
شق جفنة: أي نصف قصعة قال أبو الحسين الفارسي: أي ليلة سبع وعشرين، فإن القمر يطلع فيها بتلك الصفة.
واللہ تعالی اعلم بالصواب.
کتبہ ہمایوں رشید.
.............
شب جمعہ، طاق رات اور لیلة القدر
تحقیقی جائزہ

سوشل میڈیا پر یہ بات گشت کر رہی ہے کہ:
رمضان کے آخری عشرہ میں جب شب جمعہ اور طارق رات یکجا ہوجائے تو وہی شب اصل میں لیلة القدر ہوگی،چنانچہ آج 22 رمضان 1439 ھ ہے، اور یہ تیئیسویں کی رات بھی ہوگی اور شب جمعہ بھی۔
تحریر پیش ہے:
ابن رجب نے لطائف المعارف میں ابن ھبیرہ کا یہ قول لکھا ہے: جب جمعہ کی رات طاق رات سے آملے تو بہت امید کی جا سکتی ہے کہ یہی شب قدر ہو۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جب جمعہ کی رات آخری عشرہ رمضان کی طاق رات سے آملے تو اس رات کا باذن اللہ زیادہ امکان ہے کہ یہ شب قدر ہو.

  ___________________________
اس بابت یہ باتیں قابل تحقیق ہیں:
ابن ہبیرہ کی طرف اس قول کی نسبت درست ہے یا نہیں؟
امام ابن تیمیہ کی جانب اس قول کی نسبت درست ہے یا نہیں؟
شب قدر کو کسی خاص رات میں منحصر کر دینا شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟
*اس بات کو ابن رجب نے ابن ہبیرہ کی طرف منسوب کر کے نقل کیا ہے، دیکھیئے: (لطائف المعارف لابن رجب " (ص/203) .گویا یہ نسبت درست ہے۔
*یہ قول امام ابن تیمیہ کی طرف بھی منسوب کیا جاتا ہے، مگر بعض عرب اسکالرس کی تحقیق کے مطابق تلاش بسیار کے باوجود ان کے ہاں یہ بات نہیں مل پائی، اس لیئے اس کی نسبت ان کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔
*احادیث و آثار کے مطابق شب قدر پہلے متعین تھی، مگر اللہ تعالی نے اسے ذہن سے محو کروادیا ، اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تلاش کیا جائے:
عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنْ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ .
اسی حدیث کے پیش نظر امام نووی نے فرمایا ہے کہ:
"وفيه دليل على إخفاء ليلة القدر؛ لأن الشيء البيِّن لا يحتاج إلى الْتِماس وتَحَرٍّ "۔
اس حدیث میں شب قدر کے پوشیدہ ہونے کا ثبوت ہے، کیوں کہ جو چیز عیاں اور واضح ہو اس کی تلاش اور جستجو کی کیوں کر ضرورت پیش آسکتی ہے۔
گویا کسی شب کے بارے میں طئے کرلینا کہ "یہی شب قدر ہے" یہ بات شریعت کے مزاج و مذاق سے ہم آہنگ نہیں ہے۔، نیز نصوص اور آثار صحابہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے۔
اس بابت علامہ ابن حجر عسقلانی نے یوں خلاصہ کیا ہے:
"لَيْلَةُ الْقَدْرِ مُنْحَصِرَةٌ فِي رَمَضَان ، ثُمَّ فِي الْعَشْر الْأَخِيرِ مِنْهُ ، ثُمَّ فِي أَوْتَارِهِ ، لَا فِي لَيْلَةٍ مِنْهُ بِعَيْنِهَا , وَهَذَا هُوَ الَّذِي يَدُلُّ عَلَيْهِ مَجْمُوع الْأَخْبَار الْوَارِدَة فِيهَا " انتهى من " فتح الباري " (4/260).
ترجمہ: "شب قدر"کا تعلق رمضان، پھر رمضان کے آخری عشرہ اور مزید یہ کہ اس کی طاق راتوں ہی سے ہے، البتہ کسی خاص شب میں وہ متعین نہیں ہے، اس بابت وارد شدہ تمام حدیثیں اسی بات کی تائید کرتے ہیں۔
■ مذکورہ تفصیل سے حسب ذیل باتیں سمجھ میں آتی ہیں:
● شب قدر کو طاق راتوں میں سے کسی ایک میں محدود کرنا شریعت کے منشاء سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
● کسی خاص تاریخ یا شب سے متعلق قول کو شخصی خیال اور انفرادی رائے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی ہے۔
● تحقیق کے مطابق امام ابن تیمیہ کی جانب اس قول کی نسبت درست نہیں ہے، ہاں ابن ہبیرہ سے نقل کیا گیا ہے۔
اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی اہم ہے کہ ہر طاق رات کی یکساں اہمیت ہے، اس لئے  خوف و رجا، آہ و زاری اور خشوع و تضرع کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں رجوع ہونا چاہئے اور دعا و عبادت کا اہتمام کرنا چاہیئے ۔
مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی
(استاذ شعبہء حدیث و فقہ المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد۔ انڈیا)

 00919966624952
............
السلام علیکم،
درج ذیل بات جو آجکل مشہور ہورہی ہے کہاں تک درست ہے:
آج جمعرات ہے مغرب کے بعد جمعہ کی رات شروع ہو جائے گی. تئیسویں رات بھی ہوگی. طاق بھی اور جمعہ کی بھی. ابن رجب نے لطائف المعارف میں ابن ھبیرہ کا یہ قول لکھا ہے کہ جب جمعہ کی رات طاق رات سے آملے تو بہت امید کی جا سکتی ہے کہ یہی شب قدر ہو. امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب جمعہ کی رات آخری عشرہ رمضان کی طاق رات سے آملے تو یہ رات باذن اللہ زیادہ لائق ہے کہ اسے شب قدر کا درجہ ملے.
بینوا توجروا.
الجواب حامدا ومصلیا:
لیلۃ القدر آخری عشرے میں ہے، اس سے زیادہ تحدید کرنے والوں نے کہا طاق راتوں میں ہے. اس سے بڑھ کر اگرچہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باقائدہ ستائیسویں رات کا نام تک لیا لیکن جمہور نے اسے قبول نہیں کیا اور طاق راتوں میں عام رکھا. جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تحدید کو مطلقا قبول نہیں کیا گیا تو بعد والوں کی تحدید (جسکی سند بھی معلوم نہیں) اس سے بھی کمزور تخمینہ ہے اسکی طرف دیہان نہیں دینا چاہئے. سو مکمل آخری عشرہ لیلۃ القدر کی تلاش میں عبادت کریں تو بہتر ہے ورنہ طاق راتوں میں تو ضرور کریں.
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال إني أُريتُ ليلة القدر، وإني نسّيتها، أو أنسيتها. فالتمسوها في العشر الأواخر من كل وتر. متفق عليه.
قال أبي بن كعب رضي الله عنه في ليلة القدر؛ والله إني لأعلمها وأكثر علمي هي الليلة التي أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بقيامها، هي ليلة سبع وعشرين. وعن أبي بن كعب رضي الله عنه قال هي ليلة صبيحة سبع وعشرين، وأمارتها أن تطلع الشمس في صبيحة يومها بيضاء لا شعاع لها. رواهما مسلم.
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال تذاكرنا ليلة القدر عند رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال أيكم يذكر حين طلع القمر وهو مثل شق جفنة؟ رواه مسلم.
شق جفنة: أي نصف قصعة قال أبو الحسين الفارسي: أي ليلة سبع وعشرين، فإن القمر يطلع فيها بتلك الصفة.
واللہ تعالی اعلم بالصواب.
کتبہ ہمایوں رشید.
.....
آج جمعرات ہے مغرب کے بعد جمعہ کی رات شروع ہو جائے گی۔ تیئیسویں رات بھی ہوگی۔ طاق بھی اور جمعہ کی بھی۔
ابن رجب نے لطائف المعارف میں ابن ھبیرہ کا یہ قول لکھا ہے: جب جمعہ کی رات طاق رات سے آملے تو بہت امید کی جا سکتی ہے کہ یہی شب قدر ہو۔
عن ابن هبيرة رحمه الله قال :
*( وإن وقع في ليلةٍ من أوتار العشر ليلة جمعة ، فهي أرجى من غيرها )*.
لطائف المعارف لابن رجب : (٢٠٣)
اور صوفیاء نے یقین کے ساتھ اس رات کو شب قدر کی طرف منسوب کیا ہے۔
(تحروا لَيْلَة الْقدر فِي) اللَّيَالِي (السَّبع الْأَوَاخِر) من رَمَضَان هَذَا مِمَّا اسْتدلَّ بِهِ من رجح لَيْلَةثَلَاث وَعشْرين على إِحْدَى وَعشْرين وَأول السَّبع الْأَوَاخِر لَيْلَة ثَلَاث وَعشْرين على حِسَاب نفص الشَّهْر دون تَمَامه وَقيل يحْسب تَاما (مَالك م د عَن ابْن عمر) بن الْخطاب
(تحروا لَيْلَة الْقدر فَمن كَانَ متحريها) أَي مُجْتَهدا فِي طلبَهَا ليحوز فَضلهَا (فليتحرهالَيْلَة سبع وَعشْرين) فَإِنَّهَا فِيهَا أقرب بِهِ أَخذ أَكثر الصُّوفِيَّة وَقطع بِهِ بَعضهم إِن وَافَقت لَيْلَة جُمُعَة (حم عَن ابْن عمر) بن الْخطاب وَرِجَاله رجال الصَّحِيح
التسير بشرح الجامع الصغير ٤٤٤/١
تنبیہ:
بعض لوگوں نے اس طرح شب قدر ہونے کی تصریح کا قول ابن تیمیہ کی طرف منسوب کیا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
إذا وافقت ليلة الجمعة ليلة وتر ، فهل تكون هي ليلة القدر؟
السؤال:
ليلة سبع وعشرين من هذه السنة توافق ليلة الجمعة ، وقد قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله : " إذا وافقت ليلة الجمعة إحدى ليالي الوتر من العشر الأواخر ، فهي أحرى أن تكون ليلة القدر " ، فهل يصح ذلك ؟
تم النشر بتاريخ: 2014-09-27
الجواب:
الحمد لله
لم نجد هذا القول المنسوب لشيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله ، وإنما نقله ابن رجب الحنبلي رحمه الله عن ابن هبيرة فقال رحمه الله - ناقلا عن ابن هبيرة رحمه الله - : "وإن وقع في ليلة من أوتار العشر ليلة جمعة ، فهي أرجى من غيرها " .
انتهى من " لطائف المعارف لابن رجب " (ص/203) .
ولعل هذا القول بناه صاحبه على أن ليلة الجمعة هي أفضل ليالي الأسبوع فإذا كانت في وتر العشر الأخير من رمضان فهي أحرى أن تكون ليلة القدر ، ولم نجد من الأحاديث النبوية أو أقوال الصحابة ما يؤيد هذا القول ، والذي تدل عليه الأحاديث أن ليلة القدر تنتقل في العشر الأواخر ، وأن أوتارها أرجى أن تكون فيها ليلة القدر ، وأرجى هذه الليالي هي ليلة سبع وعشرين ، من غير جزم أنها ليلة القدر .
وينبغي للمسلم أن يحرص على الاجتهاد في العشر الأواخر كلها اقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم .
قال الشيخ سليمان الماجد حفظه الله : " لا نعلم في الشريعة دليلا على أنه إذا وافقت ليلة الجمعة ليلة وتر ، فإنها تكون ليلة القدر ، وعليه : فلا يجزم بذلك ولا يعتقد صحته ، والمشروع هو الاجتهاد في ليالي العشر كلها ؛ فإن من فعل ذلك ، فقد أدرك ليلة القدر بيقين، والله أعلم " انتهى .
وقال الحافظ ابن حجر رحمه الله: " لَيْلَةُ الْقَدْرِ مُنْحَصِرَةٌ فِي رَمَضَان ، ثُمَّ فِي الْعَشْر الْأَخِيرِ مِنْهُ ، ثُمَّ فِي أَوْتَارِهِ ، لَا فِي لَيْلَةٍ مِنْهُ بِعَيْنِهَا , وَهَذَا هُوَ الَّذِي يَدُلُّ عَلَيْهِ مَجْمُوع الْأَخْبَار الْوَارِدَة فِيهَا " انتهى من " فتح الباري " (4/260).
وقال النووي رحمه الله : " حَدِيث أُبَيّ بْن كَعْب أَنَّهُ كَانَ يَحْلِف أَنَّهَا لَيْلَة سَبْع وَعِشْرِينَ , وَهَذَا أَحَد الْمَذَاهِب فِيهَا , وَأَكْثَر الْعُلَمَاء عَلَى أَنَّهَا لَيْلَة مُبْهَمَة مِنْ الْعَشْر الْأَوَاخِر مِنْ رَمَضَان , وَأَرْجَاهَا أَوْتَارُهَا , وَأَرْجَاهَا لَيْلَة سَبْع وَعِشْرِينَ وَثَلَاث وَعِشْرِينَ وَإِحْدَى وَعِشْرِينَ , وَأَكْثَرهمْ أَنَّهَا لَيْلَة مُعَيَّنَة لَا تَنْتَقِل ، وَقَالَ الْمُحَقِّقُونَ : إِنَّهَا تَنْتَقِل فَتَكُون فِي سَنَة : لَيْلَة سَبْع وَعِشْرِينَ , وَفِي سَنَة : لَيْلَة ثَلَاث , وَسَنَة : لَيْلَة إِحْدَى , وَلَيْلَة أُخْرَى وَهَذَا أَظْهَر ، وَفِيهِ جَمْع بَيْن الْأَحَادِيث الْمُخْتَلِفَة فِيهَا " .
انتهى من " شرح صحيح مسلم للنووي " (6/43).
وينظر للفائدة إلى جواب السؤال رقم : (50693) .
والله أعلم.
موقع الإسلام سؤال وجواب
و اللہ أعلم بالصواب
✍: محمد خان عفی عنہ
...
هل قال ابن تيمية" إذا وافقت ليلة الجمعة إحدى ليالي الوتر من العشر الأواخر فهي أحرى أن تكون ليلة القدر "
الحمد لله رب العالمين أما بعد:
فينتشر في وسائل التواصل المختلفة كلام منسوب إلى ابن تيمية رحمه الله أنه قال:
"إذا وافقت ليلة الجمعة إحدى ليالي الوتر من العشر الأواخر فهي أحرى أن تكون ليلة القدر"
أقول:
وهذا الكلام المنسوب لا يثبت عنه رحمه الله !
والصواب أنه من كلام الوزير ابن هبيرة كما نقله عنه ابن رجب في لطائف المعارف ؛فقال:
ذكر الوزير أبو المظفر ابن هبيرة أنه رأى ليلة سبع وعشرين وكانت ليلة جمعة بابا في السماء مفتوحا شامي الكعبة قال:
فظننته حيال الحجرة النبوية المقدسة قال: ولم يزل كذلك إلى أن التفت إلى المشرق لأنظر طلوع الفجر ثم التفت إليه فوجدته قد غاب قال: وإن وقع في ليلة من أوتار العشر ليلة جمعة فهي أرجى من غيرها "واعلم أن جميع هذه العلامات لا توجب القطع بليلة القدر"
[ص 203]
فهذا أصل الكلام المنشور وهذا الذي قاله ابن هبيرة لا دليل عليه
ولكنه يرجو لعظم الجمعة وليلتها، ولكن الصواب أنه لا يقطع
بأن ليلة سبع وعشرين هي ليلة القدر
......
باب إذا وافقت ليلة الجمعة إحدى الليالي الوترية
لم يثبت دليل على أنه إذا وافقت ليلة الجمعة إحدى الليالي الوترية من العشر الأواخر فهي أحرى أن تكون ليلة القدر.
ورأيت بعض التدوينات على صفحات الفايسبوك ومجموعات الواتساب وغيرها نسبة هذا الكلام لشيخ الاسلام ابن تيمية، وبعد البحث تبين أنه لا وجود له في مؤلفات ابن تيمية رحمه الله، وإنما نقله ابن رجب رحمه الله عن ابن هبيرة الحنبلي رحمه الله أنه قال: *"وإن وقع في ليلة من أوتار العشر ليلة جمعة، فهي أرجى من غيرها"* لطائف المعارف لابن رجب .(ص203).
فعلى المسلم والمسلمة الاجتهاد في العبادة في هذه العشر وخاصة الوتر منها لقوله عليه الصلاة والسلام: *"تحروا لَيلةَ القَدْرِ في الوتر من العَشرِ الأواخِرِ من رمضانَ"* رواه البخاري.
قال ابن بطال المالكي رحمه الله: "ثم لا حد في ذلك خاص لليلة بعينها لا يعدوها إلى غيرها؛ لأن ذلك لو كان محصوراً على ليلة بعينها لكان أولى الناس بمعرفتها النبي عليه الصلاة و السلام مع جده في أمرها ليعرفها أمته، فلم يعرفهم منها إلا الدلالة عليها أنها: ليلة طلقة، لا حارة ولا باردة، وأن الشمس تطلع في صبيحتها بيضاء لا شعاع لها،.." شرح صحيح البخاري لابن بطال (4/155).
وقال الحافظ ابن حجر رحمه الله: "لَيْلَةُ الْقَدْرِ مُنْحَصِرَةٌ فِي رَمَضَان، ثُمَّ فِي الْعَشْر الْأَخِيرِ مِنْهُ، ثُمَّ فِي أَوْتَارِهِ، لَا فِي لَيْلَةٍ مِنْهُ بِعَيْنِهَا, وَهَذَا هُوَ الَّذِي يَدُلُّ عَلَيْهِ مَجْمُوع الْأَخْبَار الْوَارِدَة فِيهَا" فتح الباري (4/260).
بقلم الدكتور عبد الحميد العقرة
الواتساب الدعوي المغربي
0637588833
.....
شبِ جمعہ طاق رات ہوتوکياوہ’شبِ قدر‘ ہوگی؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شبِ قدرکی تعیین کے بارے میں صحیح احادیث سے جوبات ثابت ہے وہ صرف اتنی ہےکہ شبِ قدر رمضان المبارک کےآخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کسی بھی رات میں ہوسکتی ہے،اس کی تائید بخاری شریف کی حدیث نمبر2017 سے ہوتی ہے، جس میں حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ
ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
بعض روایات میں صحابہ کرامؓ سےستائیسویں رات کی تحدیدبھی ثابت ہے،ابوداؤدشریف کی حدیث نمبر1386میں حضرت امیرمعاویہؓ روایت کرتےہیں:
عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِى سُفْيَانَ عَنِ النَّبِىِّ ﷺ فِى لَيْلَةِ الْقَدْرِ قَالَ «لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ»
ترجمہ:حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ روایت کرتےہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شب قدر کے متعلق فرمایا: ”شب قدر ستائیسویں رات ہے“۔
مسلم شریف میں اوراسی طرح ترمذی شریف کی حدیث نمبر793میں حضرت زِر بن حُبیشؓ فرماتے ہیں:
عَنْ زِرٍّ قَالَ: قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: أَنَّى عَلِمْتَ أَبَا المُنْذِرِ أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، قَالَ: بَلَى أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا «لَيْلَةٌ صَبِيحَتُهَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ لَيْسَ لَهَا شُعَاعٌ»، فَعَدَدْنَا، وَحَفِظْنَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَلَكِنْ كَرِهَ أَنْ يُخْبِرَكُمْ فَتَتَّكِلُوا
ترجمہ:حضرت زِر بن حُبیشؓ کہتے ہیں کہ میں نےحضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ سے پوچھاکہ اےابوالمنذر! آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ ستائیسویں رات ہے؟ تو انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ ”یہ ایک ایسی رات ہے جس کی صبح جب سورج نکلے گا تو اس میں شعاع نہیں ہو گی، تو ہم نے گنتی کی اور ہم نے یاد رکھا،حضرت زر بن حُبیشؓ فرماتےہیں کہ اللہ کی قسم! حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کو بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے، لیکن وہ یہ ناپسند کرتے ہیں کہ تمہیں یعنی مسلمانوں کواس کی  خبردیدیں اور تم اسی پربھروسہ کر کے بیٹھ جاؤ۔
ستائیسویں رات کے شب قدر ہونےپر بعض صحابہ کرامؓ  کےاقوال کے باوجودجب جمہورحضرات نے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں شبِ قدروالے قول کو ترجیح دی تو بعد کے بزرگوں کےاندازوں کو (جن کی صحیح سند بھی معلوم نہ ہو)عوام میں اس طرح پھیلانا کہ وہ اسی رات کو شبِ قدر سمجھنے لگ جائیں خلافِ احتیاط ہے، اس سلسلے میں صحیح بات یہی ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی بھی رات میں ہوسکتی ہے،اس لئے ہمیں آخری عشرہ کی کسی ایک رات کو حتمی سمجھنے کے بجائےتمام طاق راتوں میں عبادت کا اہتمام کرناچاہئے۔

=======
صحيح البخاري (/1 102):
عن عبادة بن الصامت قال خرج النبي ﷺ ليخبرنا بليلة القدر فتلاحى رجلان من المسلمين فقال خرجت لأخبركم بليلة القدر فتلاحى فلان وفلان فرفعت وعسى أن يكون خيرا لكم فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة
ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں شب قدرکےمتعلق بتانےآیاتھا لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کیا،پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہو گا، اب تم اس کی تلاش آخری عشرہ کی نو یا سات یا پانچ کی راتوں میں کیا کرو۔
=======
صحيح مسلم (1/ 525):
عن زر، قال: سمعت أبي بن كعب، يقول: وقيل له إن عبد الله بن مسعود، يقول: «من قام السنة أصاب ليلة القدر»، فقال أبي: «والله الذي لا إله إلا هو، إنها لفي رمضان، يحلف ما يستثني، ووالله إني لأعلم أي ليلة هي، هي الليلة التي أمرنا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم بقيامها، هي ليلة صبيحة سبع وعشرين، وأمارتها أن تطلع الشمس في صبيحة يومها بيضاء لا شعاع لها»
ترجمہ: حضرت  زر بن حبیش رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جو سال بھر تک جاگے گا، اس کو شب قدر ملے گی تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے، یہ کہنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ لوگ ایک ہی رات پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں (بلکہ ہمیشہ عبادت میں مشغول رہیں) ورنہ وہ خوب جانتے تھے کہ وہ رمضان میں، آخری عشرہ میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے۔ پھر انہوں نے بغیر انشاءاللہ کہے قسم اٹھا کر کہا کہ کہ وہ ستائیسویں رات ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومنذر! تم یہ دعویٰ کس بنا پر کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ایک نشانی یا علامت کی وجہ سے جس کی خبر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، وہ یہ کہ اس کی صبح کو آفتاب جو نکلتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی (مگر یہ علامت اس رات کے ختم ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے)۔
=======
تحریر : محمدعاصم، فاضل ومتخصص جامعہ دارالعلوم کراچی
www.facebook.com/m.asim1080
......
......
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلاَمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْر ﴿سورة القدر﴾
ترجمہ: ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا، تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے، اس دن فرشتے اور روح امین ﴿جبرئیل علیہ السلام﴾ اپنے رب کی اجازت سے ہر حکیمانہ حکم لے کر نازل ہوتے ہیں، یہ سلامتی والی {رات﴾ فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ۔ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيم ﴿سورہ الدخان: ۳،۴﴾
بلاشبہ ہم نے اس (کتاب حکیم) کو ایک بڑی ہی بابرکت رات ﴿شب قدر﴾ میں ہی اتارا ہے کہ ہمیں بہرحال خبردار کرنا ہے،جس میں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر حکمت والے کام کا.
شب قدر کی عبادت سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” َمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ﴿صحیح بخاری، كتاب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ،باب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصرہا، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح ﴾
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کرے گا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔
شب قدر کی تعیین:
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا أَوْ نُسِّيتُهَا فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ فِي الْوَتْر
(صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح، باب إلتماس ليلة القدر في السبع الاواخر)
ترجمہ: ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی مگربھر بھلا دیا گیا، لہذا اب تم اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔
شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: “تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنْ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ” 
(صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح، 4 – باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر, مسلم في الصيام باب استحباب صوم ستة أيام من شوال)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَيَقُولُ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ 
(صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح، باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر)
عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔
شب قدر کو آخری سات راتوں میں تلاش کرنے کا حکم
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” مَنْ كَانَ مُتَحَرِّيهَا فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الأَوَاخِر“
(صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح،باب إلتماس ليلة القدر في السبع الاواخر)
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کو ﴿شب قدر﴾ کی تلاش کرنی ہو آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔
شب قدر کے ۲۷ ویں رات میں تلاش کرنے کا بیان:
عن زر قال : سمعت أبي بن كعب يقول والله إني لأعلم أي ليلة هي هي الليلة التي أمرنا بها رسول الله صلى الله عليه و سلم بقيامها هي ليلة صبيحة سبع وعشرين وأمارتها أن تطلع الشمس في صبيحة يومها بيضاء لا شعاع لها ﴿صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصرہا ، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح ﴾
زر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابی بن کعب سے سنا وہ کہ رہے رہے تھے کہ اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ کون سی رات ہےجس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرنےکا حکم دیا ہے، یہ ستائیسویں رات ہے۔ اس کی نشانی یہ ہے اس دن صبح کو سورج سفید ہوتا ہے اور اس میں شعائیں نہیں ہوتی ہیں۔
شب قدر کو ۲۹ ویں اور ۲۳ ویں رات میں تلاش کرنے کا بیان:
عنابن عباس رضي الله عنهما : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( هي في العشر هي في تسع يمضين أو في سبع يبقين ) . يعني ليلة القدر ﴿بخاری،كتاب صلاة التراويح باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر﴾
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شب قدر آخری عشرے میں جب نو رات گذریں تب یعنی ﴿۲۹﴾ انتیسویں رات میں یا جب سات راتیں باقی ہوں یعنی ﴿۲۳﴾ تیئسویں رات میں ہے۔
شب قدر کو ۲۱ ویں ۲۳ ویں اور ۲۵ ویں رات میں تلاش کرنے کا بیان
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي تَاسِعَةٍ تَبْقَى فِي سَابِعَةٍ تَبْقَى فِي خَامِسَةٍ تَبْقَى ﴿ بخاری كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب الطِّيبِ لِلْجُمُعَةِ﴾
ابن عباس سے رایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو، جب سات دن باقی ہوں، سات دن باقی ہوں اور جب پانچ دن باقی ہوں۔یعنی ۲۱ ویں ۲۳ ویں اور ۲۵ ویں رات۔
شب قدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلادی گئی:
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُخْبِرَنَا بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ فَتَلَاحَى فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَرُفِعَتْ وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَكُمْ فَالْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ ﴿ بخاری كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب رَفْعِ مَعْرِفَةِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ لِتَلَاحِي النَّاسِ﴾
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کے بارے میں بتانے کے لئے نکلے اسی دوران دو مسلمان دو مسلمان ﴿کسی معاملے میں ﴾ آپس میں جھگڑ پڑے، آپ نے ارشاد فرمایا، میں نکلا تھا کہ تم لوگوں کو شب قدر کے بارے میں بتاوں مگر فلاں فلاں جھگڑنے لگے اور اس کا علم اٹھا لیا گیا ﴿بھلادیا گیا﴾ مجھے امید ہے کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہے لہٰذا تم لوگ اس رات کو۲۹ویں، ۲۷ ویں اور ۲۵ ویں رات میں تلاش کرو۔
آخری عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل:
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ”
(صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح، باب العمل في العشر الاواخر من رمضان)
عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے لئے﴾ کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔
شب قدر کی دعا:
عن عائشة أنها قالت يا رسول الله أرأيت إن وافقت ليلة القدر ما أدعو ؟ : قال ( تقولين اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني ﴿سنن ابن ماجہ كتاب الدعاء، باب الدعاء بالعفو والعافية
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علی وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں کون سی دعا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو: اللہم انک۔۔۔۔۔ ترجمہ: اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذا تو ہمیں معاف کردے۔
خلاصہ کلام:
شب قدر کون سی رات ہے اس کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷ اور ۲۹ویں رمضان کی سبھی راتوں کے بارے میں حدیثیں ملتی ہیں،یہی وجہ ہے کہمحدثین کرام کا کہنا ہے کہ یہ رات ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رات کے بارے میں بھلادیا دیا گیا، ایسے میں کسی ایک رات کو اپنی طرف سے شب قدر مان کر بقیہ طاق راتوں کو عبادت سے غافل رہنا بہت بڑی محرومی کا سبب ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس رات کو شب قدر مان رہے ہوں وہ اس کے علاوہ کسی اور رات میں ہو۔ جبکہ آخری عشرے کی سبھی راتوں میں تلاش کرنے میں یہ خطرہ نہیں، اس رات کو پوشیدہ رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بندہ زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کرسکے۔
اللہ تعالی ٰ ہمیں شب قدر میں عبادت کا موقع نصیب فرمائے۔ 
آمین
...........................
إذا وافقت ليلة الجمعة ليلة وتر، فهل تكون هي ليلة القدر؟
وما صحة القول المتداول في وسائل التواصل والمنسوب لشيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله ؟

قال الشيخ الباحث إبراهيم السكران في حسابه في تويتر:
تنبيه:
ينسب البعض لابن تيمية أنه (إذا وافقت ليلة الجمعة ليلة وتر فهي أحرى أن تكون ليلة القدر) وبحسب ما أعلم فهذا النقل خطأ، ولم يقله ابن تيمية.

وقال الشيخ سليمان الماجد: 
لم يصح عن ابن تيمية أنه قال: إذا وافقت ليلة الجمعة ليلة وتر فأحرى أن تكون ليلة القدر .

وقال الشيخ الدكتور عمر المقبل:
الكلام المنسوب لابن تيمية عن ليلة القدر إذا وافقت ليلة وتر لم أجد له أثراً في كتبه بعد البحث (الحاسوبي) وهي مشهورة عن ابن هبيرة، نقلها ابن رجب.

وقال الشيخ عبدالعزيز الطريفي:
‫ ‌‌لم يرد عن النبي صلى الله عليه وسلم ، ولا عن الصحابة ربط ليلة القدر بليلة الجمعة، ولا مزية لليلة الجمعة،
 لا يصح نسبة هذا القول لشيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله ۔۔۔

No comments:

Post a Comment