Thursday 7 June 2018

اللہ کا قرب

اللہ کا قرب 
۔۔۔
قرب الٰہی حاصل کرنے والے
صحیح حدیث میں ہے:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم : (( إِنَّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِيْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ۔ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِيْ بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہٗ عَلَیْہِ۔ وَمَا یَزَالُ عَبْدِيْ یَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِيْ یَسْمَعُ بِہِ وَبَصَرَہُ الَّذِيْ یُبْصِرُ بِہِ وَیَدَہُ الَّتِيْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِيْ یَمْشِيْ بِھَا، وَإِنْ سَأَلَنِيْ لَأَعْطِیَنَّہُ، وَلَــِٔنِ اسْتَعَاذَ بِيْ لَأُعِیْذَنَّہُ وَمَا تَرَدَّدْتُّ عَنْ شَيْئٍ أَنَا فَاعِلُہُ تَرَّدُدِيْ عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَہُ مَسَائَ تَہُ۔))1
'' سیّدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ جل شانہ فرماتے ہیں: 
جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا، میں اس کو یہ خبر کیے دیتا ہوں کہ میں اس سے لڑوں گا۔ اور میرا بندہ جن جن عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں کوئی بھی عبادت مجھے اس عبادت سے زیادہ پسند نہیں ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے۔ (اس کے نفلی امور، اللہ کو اس کے فرضی امور سے زیادہ پسند ہیں۔ ) اور میرا بندہ (فرض ادا کرنے کے بعد) نفل عبادتیں کرکے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پھر تو یہ حال ہوتا ہے کہ میں ہی اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ وہ اگر مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں۔ وہ اگر کسی (دشمن یا شیطان) سے میری پناہ چاہتا ہے تو اس کو محفوظ رکھتا ہوں اور مجھے کسی کام میں جس کو میں کرنا چاہتا ہوں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا اپنے مسلمان بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو (بوجہ تکلیف جسمانی کے) برا سمجھتا ہے اور مجھے بھی اس کو تکلیف دینا برا لگتا ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب الرقاق، باب: التواضع، رقم: ۶۵۰۲۔
 شرح...: نوافل سے قرب الٰہی حاصل کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض (مثلاً نماز، روزہ، حج، زکاۃ وغیرہ) ادا کرنے کے ساتھ ساتھ نوافل کی ادائیگی پر بھی دوام کرتے ہیں۔
فرائض کی ادائیگی اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور ان کو ترک کرنے پر سزا کا اعلان بھی ہے بخلاف نوافل کے۔ لیکن اگر ثواب کی تحصیل میں فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل بھی شامل ہوجائیں تو فرائض کی وقعت دو چند ہوجاتی ہے۔ اسی وجہ سے نوافل اللہ تعالیٰ کو محبوب لگتے ہیں اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ چنانچہ فرض کی حیثیت بنیاد کی ہے اور نفل کی عمارت کی سی۔ فرائض کی شریعت کے مطابق ادائیگی اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے بڑا عمل ہے کیونکہ ان کو پورا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی سزا سے ڈرتے ہوئے بجا لاتا ہے لیکن رہا نوافل ادا کرنے والا تو وہ محض خدمت کے لیے ایثار کرتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی خدمت کے ذریعہ قرب حاصل کرنے کا مقصود (اللہ کا پیار) اس کو مل جاتا ہے۔
مذکورہ حدیث سے نماز کی قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے اور چونکہ یہ اللہ تعالیٰ سے سرگوشی اور قرب کا محل ہے اور اس وقت اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا، اس لیے اس سے اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے۔
بندے کی آنکھوں کو نماز سے بڑھ کر کوئی چیز ٹھنڈا نہیں کرسکتی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( حُبِّبَ إِلَيَّ مِنْ دُنْیَاکُمْ؛ أَلنِّسَائُ وَالطِّیْبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِيْ فِيْ الصَّلَاۃِ۔ ))1
''مجھے تمہاری دنیا میں سے عورتیں اور خوشبو پیاری ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ ''
.............
ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺎﯾﺰﯾﺪ ﺑﺴﻄﺎﻣﯽ رح ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ اللّٰہ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ: 
"اے اللّٰہ.! ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﺍ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ قُرﺏ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ."
اے ﺑﺎﺭﯼ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ.! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮨﺮ ﮨﺮ ﺻﻔﺖ ﺍﭘﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﻣﮕﺮ میں نے ﺟﺲ ﺻﻔﺖ ﮐﻮ بھی ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ ﺗﺠﮭﮯ ﺍُﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺎﻝ ﭘﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ. ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺳﺨﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ، ﺳﺨﯽ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺗﺠﮭﮯ ﺳﺨﺎﻭﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺎﻝ ﭘﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ.ﻋﺎﻟﻢِ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﻋﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺎﻝ ﭘﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ. ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻭ ﺩﺭﮔﺰﺭ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﯾﺎ ﺗﻮ تجھ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ. ﮨﺎﺩﯼ ﺑﻨﺎ ﺗﻮ ﺗﺠﮭﮯ ﮨﺎﺩﯼ ﺩﯾﮑﮭﺎ.
ﺷﻔﯿﻖ ﺑﻨﺎ ﺗﻮ ﺗﺠﮭﮯ ﺷﻔﻘﺖ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺩﯾﮑﮭﺎ. ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﻄﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ. ﺍﻟﻐﺮﺽ ﮨﺮ ﮨﺮ ﺻﻔﺖ ﺍﭘﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﻣﮕﺮ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﻭﻟﯿﺖ ﮐﯽ ﺷﺎﻥ ﺩﯾﮑﮭﯽ. ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻮﻻ.! ﻣﯿﮟ ﮐﺲ ﺻﻔﺖ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺗﯿﺮﺍ قُرﺏ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻭﮞ؟ اللّٰہ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ: ﺍﮮ ﺑﺎﯾﺰﯾﺪ.! ﻭﮦ ﺻﻔﺖ ﺍﭘﻨﺎ ﺟﻮ مجھ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ. ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ. ﻋﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ: “ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻭﮦ ﮐﻮﻧﺴﯽ ﻧﻌﻤﺖ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﺰﺍﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ.؟ اللّٰہ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﻨﺪﮔﯽ ﻧﮩﯿﮟ ہے، ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﺑﻨﺪﮔﯽ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﮭﮏ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﮑﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ.
ﺑﻨﺪﮔﯽ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﻭ ﺗﻮﺍﺿﻊ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺍﺿﻊ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﻮﮞ. ﺑﻨﺪﮔﯽ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺍﻧﮑﺴﺎﺭﯼ ﮐﺎ، ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﺴﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮨﻮﮞ. ﺑﻨﺪﮔﯽ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﮐﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﮞ. ﭘﺲ ﺍﯾﺴﯽ ﺻﻔﺖ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺻﻔﺖ ﺻﺮﻑ ﺑﻨﺪﮔﯽ ﮨﮯ. ﺑﻨﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁﺅ. میں ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﺮﻟﻮﮞ ﮔﺎ. ﮐﻤﺎﻝ ﺗﻮﺍﺿﻊ، ﮐﻤﺎﻝ ﺍﻧﮑﺴﺎﺭﯼ، ﮐﻤﺎﻝ ﺧﺸﻮﻉ، ﮐﻤﺎﻝ ﺧﻀﻮﻉ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﺑﻨﺪﮔﯽ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ. بس تُو ﻣﯿﺮﺍ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺁ، میں ﺗﺠﮭﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ.
.................
حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی رحمت اللہ علیہ پیشہ کے اعتبار سے ہومیوپیتھک معالج تھے اور مطب (کلینک) کرتے تھے۔ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے۔
یہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمت اللہ علیہ سے بیعت تھے اور ان کی صحبت اور تربیت سے روحانی معالج بھی بن گئے اور جید علماء ان سے بیعت ہوئے، جیسے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب وغیرہ ڈاکٹر سے بیعت ہوئے۔
مشہور کتاب اسوۂ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ڈاکٹر صاحب ہی کی لکھی ہوئی ہے۔
ایک دفعہ حاضرین مجلس سے فرمانے لگے آپ کہاں لمبے لمبے مراقبے اور وظائف کرو گے۔ میں تمہیں اللہ کے قرب کا مختصر راستہ بتائے دیتا ہوں۔ کچھ دن کر لو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے، قرب کی منزلیں کیسے طے ہو تی ہیں:
1۔۔اللہ پاک سے چُپکے چُپکے باتیں کرنے کی عادت ڈالو وہ اس طرح کہ جب بھی کوئی جائز کام کرنے لگو دل میں یہ کہا کرو
اللہ جی۔۔
1 اس کام میں میری مدد فرمائیں۔۔
2 میرے لئے آسان فرما دیں۔۔
3 عافیت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔۔
4 اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیں۔۔
یہ چار مختصر جملے ہیں مگر دن میں سینکڑوں دفعہ اللہ کی طرف رجوع ہوجائیگا اور یہ ہی مومن کا مطلوب ہے کہ اسکا تعلق ہر وقت اللہ سے قائم رہے۔۔
2۔۔۔انسان کو روز مرہ زندگی میں چار حالتوں سے واسطہ پڑتاہے۔۔
1۔ طبیعت کے مطابق۔
2۔ طبیعت کے خلاف۔
3۔ ماضی کی غلطیاں اور نقصان کی یاد۔
4۔ مستقبل کے خطرات اور اندیشے۔
جو معاملہ طبیعت کے مطابق ہوجائے اس پر
اللهم لك الحمد ولك الشكر
کہنے کی عادت ڈالو۔
جو معاملہ طبیعت کے خلاف ہوجائے تو
انا للله وانا اليه راجعون
کہو۔
ماضی کی لغزش یاد آجائے تو فورا استغفراللہ
کہو۔ مستقبل کے خطرات سامنے ہوں تو کہو
اللهم اِنى أعوذ بك من جميع الفتن ما ظهر منها وما بطن۔
شکر سے موجودہ نعمت محفوظ ہوگئی۔۔
نقصان پر صبر سے اجر محفوظ ہوگیا اور اللہ کی معیت نصیب ہوگی۔۔
استغفار سے ماضی صاف ہوگیا۔۔
اور اللهم انى أعوذ بك سے مستقبل کی حفاظت ہوگئی۔۔
3۔۔شریعت کے فرائض و واجبات کا علم حاصل کرکے وہ ادا کرتے رہو اور گناہِ کبیرہ سے بچتے رہو۔
4۔۔تھوڑی دیر کوئی بھی مسنون ذکر کرکے اللہ پاک سے یہ درخواست کرلیا کرو اللہ جی۔۔۔ میں آپ کا بننا چاھتا ہوں، مجھے اپنا بنالیں، اپنی محبت اور معرفت عطا فرمادیں۔
چند دن یہ نسخہ استعمال کرو پھر دیکھو کیا سے کیا ہوتا ہے اور قرب کی منزلیں کیسے تیزی سے طے ہوتی ہیں!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۱۱۹۔
...............
ایس اے ساگر

No comments:

Post a Comment