Monday, 8 September 2025

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں قسط (۴)

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
قسط (۴)
بقلم: شکیل منصور القاسمی
دینی مدارس کے روشن چراغ، ہمارے عظیم مدرسین کرام، جن کے دم سے علم دین کی مشعلیں روشن ہیں اور جن کی شبانہ روز کی عرق ریزی ودماغ سوزی سے علماء راسخین فی العلم کی کھیپ در کھیپ تیار ہورہی ہے ، آج معیشت کی بے رحم آندھیوں کے بیچ لرزاں و ترساں کھڑے ہیں۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جن کی بدولت ہماری نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہوتی ہے، مگر افسوس! انہی کے گھرانوں میں فاقہ کشی کی پرچھائیاں رقصاں ہیں۔
اگر بالفرض ادارہ جاتی سطح پر مدارس اس بحران کا مداوا نہ کر سکیں تو ہم آزادانہ طور پر اجتماعی و انفرادی سطح پر ایسے طریقے اختیار کر سکتے ہیں جن سے ان بیچاروں کا بار کچھ ہلکا ہو سکے، مثلاً:
۱: مدرسین کی خود کفالت کا راستہ:
(الف) مدرسین کرام اگر اپنے فارغ اوقات میں تدریس کے علاوہ جدید ڈیجیٹل وسائل سے بھی جڑ جائیں تو یہ ان کی معاشی مشکلات کے لیے کسی قدر تریاق بن سکتا ہے۔
(ب) کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن تدریس کا آغاز 
(ج) تصنیف و تالیف اور علمی مقالات کی تیاری
(د) عربی و اردو زبان کی تدریس برائے عالمی طلبہ
(ہ) ترجمہ نگاری، ایڈیٹنگ اور پروف ریڈنگ جیسے فنون 
یہ وہ علمی ذرائع ہیں جن سے کسی حد تک معاشی بیچارگی کی تلافی ہو سکتی ہے۔
۲: سماجی بیداری اور اسلام پسند اہلِ ثروت کو متوجہ کرنا:
علماء و خطباء، اہل قلم اور اہلِ زبان اپنے خطبات، تحریروں، مجالس اور سوشل میڈیا روابط کے ذریعے اہلِ ثروت کو جگائیں۔,کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ہے کہ قوم ، پیشہ ور اور بے فیض مقررین، گویّوں، نعت خوانوں اور شعرا و شاعرات کو چند گھنٹوں کے عوض ہزاروں اور لاکھوں کا نذرانہ پیش کرتی ہے، مگر جنہوں نے دین کی بنیادیں بچا رکھی ہیں وہ محروم و بے سروسامان رہیں؟ یہ کیسا افسوسناک رویہ ہے!
۳: فارغ التحصیل طلبہ کا قرضِ وفاء:
وہ طلبہ جو انہی مدرسین کی محنت سے آج زندگی کے مختلف میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں، کیا ان پر یہ لازم نہیں کہ اپنے محسنین کو یاد رکھیں؟
ان کے لیے آپس میں ایک مستقل فنڈ قائم کریں، ایک تعاونی اسکیم تشکیل دیں ؛ تاکہ یہ چراغ مزید بجھنے نہ پائیں۔ یہ قرضِ وفا ہے، یہ شکر گزاری کی معراج ہے۔ ہر مدرسے کے باحیثیت ابناء قدیم اس طرح کا نظام بنالیں تو بہت بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
۴: اہلِ خانہ کی ہنرمندی:
اگر مدرسین کے بچے بڑے ہو چکے ہوں یا ان کی شریکِ حیات تیار ہوں تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ انہیں سلائی، کتب ایڈیٹنگ وغیرہ جیسے فنون سکھا دیے جائیں؟ یوں گھر کے اندر ہی ایک باعزت ذریعہ معاش پیدا ہو سکتا ہے اور خاندان کی کفالت کا بوجھ تنہا مدرس کے کاندھوں پر نہ رہے گا۔ 
ضروری ہے کہ اہلِ ایمان، اہلِ ثروت اور فارغ التحصیل باحیثیت طلبہ سب مل کر اس جہادِ معیشت میں مدرسین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، اور اس شمعِ نور کو معاش کی بے رحم آندھیوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں! (جاری)
شکیل منصور القاسمی
مرکز البحوث الاسلامیہ العالمی 
(پیر 15 ربیع الاوّل 1447ھ
8 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )

No comments:

Post a Comment