Saturday, 6 September 2025

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاںقسط (۳)

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
قسط (۳)
بقلم: شکیل منصور القاسمی 
مدارس کے اساتذہ کرام اپنی صلاحیتوں، مزاج، استعداد اور خانگی احوال کے اعتبار سے مختلف و متنوع ہوتے ہیں۔ بعض انتظامی امور میں ماہر، بعض گھریلو زندگی میں قدرے مضبوط اور ذمہ داریوں سے آزاد، جبکہ بعض محض تدریس و تربیت میں منہمک اور گھریلو ذمہ داریوں سے گراں بار ہوتے ہیں۔ یہ حضرات اپنی تمام توانائیاں طلبہ کو علوم و فنون میں ماہر بنانے، ان میں لکھنے پڑھنے کی عادت ڈالنے، اور ان کی فکری و اخلاقی تربیت میں صرف کر دیتے ہیں۔ ان کی دنیا کا دائرہ اکثر مدرسہ اور اس کے طلبہ تک محدود رہتا ہے، اور وہ تجارتی پیچیدگیوں، مالی بازاروں یا معاشرتی سازشوں اور رنگینیوں سے بالکل بے خبر رہتے ہیں۔
اہل و عیال کی ضروریات اور زندگی کے تقاضوں کے باعث بعض اساتذہ اپنی سالوں کی جمع پونجی بازار میں سرمایہ کاری یا مضاربت کے نام پر لگا دیتے ہیں، مگر مکار اور چالاک تاجروں کے ہاتھوں یہ سرمایہ ہڑپ لیا جاتا ہے۔ یوں وہ استاد، جو علم و تدریس میں اپنی جان و دل لگا دیتے ہیں، آخرکار لُٹے پٹے گھر کے رہ جاتے ہیں نہ گھاٹ کے۔
رات و دن تدریس، تعلیم و تربیت اور طلبہ کی صلاحیت سازی میں مشغول یہ اساتذہ جب کسی مصیبت، بیماری یا حادثے کا شکار ہوتے ہیں، تو بعض مدرسہ کے ذمہ داران نہ صرف ان کی خبر گیری تک نہیں کرتے؛ بلکہ ان کی حالت زار پر سنجیدگی سے توجہ دینے اور جزوی انسانی معاونت تک سے گریز کرنے کو کار ثواب سمجھتے ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وہ اساتذہ، جنہوں نے قوم کے بچوں کی تعمیر اور مستقبل کی تشکیل میں اپنی زندگیاں قربان کیں، اگر ان تکلیف دہ سلوک کی وجہ سے تدریس چھوڑ کر محنت و مشقت یا امامت کی طرف نہ جائیں، تو ان کے لیے کون سا راستہ باقی رہ جاتا ہے؟ مدرسہ کی معمولی تنخواہ ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتی، اور اضافی ہنگامی اخراجات کی بھرپائی کب اور کیونکر ہوگی؟
ہمدردان قوم و ملت کب ان کے درد کو سمجھیں گے؟ ملک میں پیش آمدہ آفات اور ہنگامی حالات میں راحت رسانی اور خدمت انسانیت یقیناً ضروری ہے، یہ کام بھی جاری رہے؛ مگر ہمارے یہ مدرسین بھی "شاید انسان ہی ہیں" فرصت ملے تو کچھ رفاہی اقدامات حالات گزیدہ ان اساتذہ کے لیے بھی ہونے چاہئیں، جنہوں نے ہمارے لیے اپنی توانائیاں قربان کیں اور ہماری روشنی کو برقرار رکھا۔ یہ کیسا عدل ہے، یہ کیسا انصاف ہے، کہ وہ چراغ جو قوم کو روشن رکھنے میں اپنی جان لگا دیتے ہیں، خود اندھیروں میں رہ جائیں؟
اب ہم کیا کریں؟
یہ شاید قارئین کرام کو چھوٹا منہ بڑی بات لگے، مگر اظہار کے بغیر چارہ کار بھی تو نہیں۔کب تک مہر بہ لب رہا جائے ؟ ناچیز کے خیال سے اس وقت ترجیحی بنیادوں پر ضروری اقدامات درج ذیل ہوسکتے ہیں:
 1. رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند اس مسئلے پر سب سے پہلے پیش قدمی کرے۔
 2. تمام ملحقہ مدارس کے ذمہ داران کو پابند کرے کہ تنخواہوں کے معیار کو دارالعلوم دیوبند کے طرز پر مقرر کریں، تاکہ اساتذہ کی بنیادی ضروریات پوری ہوں اور وہ عزت و وقار کے ساتھ تدریس جاری رکھ سکیں۔
 3. ایک جامع لائحہ عمل ترتیب دیا جائے، جس میں مالی تحفظ، رفاہی انتظامات، اور ہنگامی صورت حال میں مدد کے فوری اقدامات شامل ہوں۔
 4. تمام ملحقہ اداروں کو عمل درآمد کا مکلف بنایا جائے اور ہر سطح پر نگرانی یقینی بنائی جائے۔
 5. اگلے اجلاس و اجتماع میں رپورٹ طلب کی جائے تاکہ پیش رفت کا جائزہ لیا جاسکے۔
 6. جو مدرسے اس لائحہ عمل پر عمل درآمد میں سست روی دکھائے یا ناکام رہیں، ان کی رکنیت کی منسوخی پر غور کیا جائے، تاکہ عملی اقدام کی اہمیت ہر کسی کے لیے واضح ہو۔
توقع ہے کہ یہ اقدامات اساتذہ کے تئیں انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کریں گے، اور ان کے لیے حقیقی تحفظ اور قدر کی ضمانت بھی فراہم کریں گے۔ ان محسنینِ قوم کی عزت و وقار بحال کیے بغیر، ہم اپنی آنے والی نسلوں کی تعلیم، تربیت اور روشن مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔
اگر یہ چراغِ علم  بجھ گئے، تو روشنی کے ساتھ امید بھی اندھیروں میں کھو جائے گی۔ لہٰذا یہ وقت ہے کہ قوم جاگے، رہنما سنجیدہ ہوں، اور مدارس کے ان چراغوں کو وہ مقام و منزلت دے جو ان کا حق ہے۔ کیونکہ حقیقت میں یہ "اجیر" نہیں، معمارِ قوم ہیں، اور آنے والی نسلوں کی روشنی ہیں۔ (جاری)
شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي 
(اتوار 14 ربیع الاوّل 1447ھ 6 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )

No comments:

Post a Comment