اہلِ اسلام پر جب نماز فرض ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے پوچھا،
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نماز کیسے ادا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
صلوا کما رأيتمونی أصلی.
ایسے نماز ادا کرو جیسے مجھے ادا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہو۔
بخاری، الصحيح، 1 : 226، رقم : 605، دارا بن کثير اليمامه، بيروت.
نمازِ فجر، مغرب اور عشاء میں بلند جبکہ ظہر و عصر میں پست آواز میں تلاوت کرنے کی ہمارے لیے یہی وجہ کافی ہے کہ شارع علیہ السلام نے ایسا کیا ہے۔ رسول کرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے نماز کا جو انداز اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سکھایا وہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تابعین رحمہم اللہ کو سکھایا۔ یوں کئی طبقات سے ہوتا ہوا نماز کا وہی طریقہ آج ہم تک پہنچا۔ سری اور جہری نمازوں کی مصلحت ہماری سمجھ آئے یا نہ آئے، ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ محسنِ انسانیت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ یہی ہے۔
تاہم اہلِ علم نے کچھ ظاہری مصلحتیں بھی بیان کیں ہیں۔
1. نمازوں کے فرض ہونے کے بعد جب مسلمان نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے تو کفار شور و غل کرتے۔ اس لئے حکم ہوا کہ دن کے اوقات میں تلاوت آہستہ کی جائے، تاکہ کفار خدا و رسول کی اہانت نہ کر سکیں۔
2. رات کے اوقات میں چونکہ کفار کو مسلمانوں کی عبادت کی خبر نہیں ہوتی تھی، تو رات کی نمازوں میں اونچی آواز میں تلاوت کی جاتی تھی۔ بعد میں شارع علیہ السلام نے اسی طریق کو پسند کیا اور بدلا نہیں، تو آج تک یہی مروج ہے۔
No comments:
Post a Comment