قیامت تک وہی فرقہ اہلِ حق کہلائے گا جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مطابق دین کی تشریح کرے گا، جو فرقہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روِش سے جتنا دور ہوگا، وہ حق سے اتنا ہی دور ہوگا، اور جو جتنا قریب ہوگا، وہ حق سے اتنا ہی قریب ہوگا، اہل السنة والجماعة کا کوئی فرد ایسا نہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعن طعن کو جائز سمجھتا ہو، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت پر امتِ مسلمہ میں سلف وخلف رحمہم اللہ کا اجماع ہے، محدثین رحمہم اللہ نے روایتِ حدیث کی تحقیق میں جرح و تعدیل کے اصول مرتب کئے؛ مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی چوکھٹ پر آکر سب کے سب رُک گئے، کسی نے ایک قدم آگے نہیں بڑھایا۔ ہر ایک نے سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عادل وصادق قرار دیا، کسی کو نقد وجرح کا نشانہ نہیں بنایا۔
اہل السنة والجماعة کے علاوہ فرقوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نشانہ بنایا، مثلاً ماضی بعید میں معتزلہ اور خوارج نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تنقید کا نشانہ بنایا، شیعوں نے مخالفت میں نہایت مکروہ روش اختیار کی، یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کافر ومرتد کہتے ہوئے بھی نہیں چوکتے، عصر حاضر کے بعض فرقے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سلسلے میں انھیں باطل فرقوں کی روش پر ہیں؛ مثلاً ”جماعتِ اسلامی کے سربراہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے جگہ جگہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کی ہے، ان کی کتاب ”خلافت وملوکیت“ میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں، ایک جگہ نہایت ہی بے باکی سے لکھتے ہیں:
”محض صحابیت کے شرف سے کوئی غلطی ”شریف کام“ نہیں بن سکتا؛ بلکہ صحابی کا بلند مقام اس غلطی کو حددرجہ نمایاں کردیتا ہے۔“
(خلافت وملوکیت، ص:۱۴۳)
مولانا مودودی نے جماعتِ اسلامی کے دستور میں یہ وضاحت کی ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی تنقید سے بالاتر نہیں
(دستور جماعت اسلامی ص۵)،
گویا انھوں نے صحابہ کر ام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کرنے کو اپنے اصول میں داخل کیا ہے۔ ان کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال وافعال کی کوئی اہمیت نہیں، یہ بھی شیعہ اور خوارج کی طرح اہل السنة والجماعة کی راہِ مستقیم سے ہٹے ہوے ہیں۔
عصرِ حاضر کے فرقوں میں غیرمقلدین بھی اہل السنة والجماعة کے طرزِ فکر وعمل سے منحرف ہیں، انھوں نے آثارِ صحابہ کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا، اجماعِ صحابہ کا انکار کیا، اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ انھوں نے ”بیس رکعات تراویح“ کو بدعتِ عمری قرار دیا، ”جمعہ کی پہلی اذان“ کو بدعتِ عثمانی قرار دیا اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ترکِ رفع یدین کو نقل کیا تو ان پر الزامات کی بوچھار کردی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجتہادات ان کے فتاویٰ اور تفاسیر کو ناقابلِ اعتبار ٹھہرایا، بعض غیرمقلدین نے صحابہ کرام کے خلاف بغض ونفرت کا شدید اظہار کیاہے؛ چناںچہ:
* مشہور غیرمقلد عالم مولانا وحیدالزماں حیدرآبادی لکھتے ہیں: ”بعض صحابہ فاسق تھے.“
(نزلُ الأبرابر، ۲/۹۴)
انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ:
”معاویہ پر دنیا کی طمع غالب ہوگئی تھی، ان کو تمام خاندانِ رسالت سے دشمنی تھی“۔ (لغاتُ الحدیث: ۲/۱۴) ایک جگہ انھوں نے حضرت امیر معاویہ وعمرو بن عاص دونوں کو باغی سرکش اور شریر لکھا ہے۔ (لغاتُ الحدیث:۲/۳۶)
* ایک دوسرے غیرمقلد عالم مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
”عائشہ حضرت علی سے لڑتے ہوئے مرتد ہوئی، اگر بے توبہ مری تو کافر مری“۔
ایک جگہ لکھتے ہیں:
”صحابہ کو پانچ پانچ حدیثیں یاد تھیں، ہم کو سب حدیثیں یاد ہیں، صحابہ سے ہمارا علم بڑا ہے صحابہ کو علم کم تھا“۔
(کشف الحجاب:ص:۲۱)
* ایک دوسرے غیرمقلد جناب حکیم فیض عالم لکھتے ہیں:
”سیدنا علی کے خود ساختہ حکمرانہ عبوری دور کو خلافتِ راشدہ میں شمار کرنا صریحاً دینی بددیانتی ہے“۔ اس طرح کی گستاخی اس کتاب میں متعدد جگہوں پر موجود ہے۔
(خلافتِ راشدہ، ص:۵۵،۵۶)
ایک جگہ حضرت حسن وحسین کی توہین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”حضراتِ حسنین کو زُمرئہ صحابہ میں شمار کرنا صریحاً سبائیت کی ترجمانی ہے، یا اندھا دھندتقلید کی خرابی۔“
(سیدناحسن بن علی، ص:۲۳)
ایک جگہ لکھتے ہیں:
”سیدنا حسن کی موت کے متعلق اپنی تالیفات ”عترتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم “ اور ”حسن بن علی“ میں دلائل کے ساتھ ثابت کرچکا ہوں کہ کثرتِ جماع، ذیابیطس اور تپِ محرِقہ سے ہوئی، آپ کہاں شہید ہوئے تھے اورآپ کو کس نے شہید کیا تھا؟“۔ (خلافتِ راشدہ، ص:۱۱۵)
ایک جگہ لکھتے ہیں:
”سیدنا حسن کثرت سے حرم کی زندگی (کثرتِ جماع) کے دل دادہ تھے، جس کی وہ سے آپ کو بعض روایات کے مطابق آخری ایام میں سِل کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا۔“
(سیدنا حسن بن علی، ص:۸۰)
غیرمقلدین شیعوں کی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تئیں سب سے زیادہ گستاخ ہیں، مذکورہ بالا مثالیں محض نمونہ کے لیے دی گئی ہیں، ورنہ ان کی کتابیں اس طرح کے مکروہ مواد سے بھری ہوئی ہیں۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو ان غیرمقلدین کے شرور سے بچنے ضرورت ھے.
No comments:
Post a Comment