Friday, 31 July 2015

...If misused!غلط استعمال کا نتیجہ

Words are free to use,
But may prove to be very costly if misused.

کوئی ٹی وی صحافی ایک کسان کا انٹرویو لے رہا تھا ...

صحافی: آپ بکرے کو کیا کھلاتے ہیں ... ؟؟
کسان: سیاہ یا سفید کو ... ؟؟

صحافی: سفید کو ..
کسان: گھاس ..

صحافی اور سیاہ کو ... ؟؟
کسان: اسے بھی گھاس ..

صحافی: آپ ان بکریوں کو باندھتے کہاں ہو ... ؟؟
کسان: سیاہ یا سفید کو ... ؟؟

صحافی: سفید کو ..
کسان: باہر کے کمرے میں ..

صحافی اور سیاہ کو ... ؟؟
کسان: اسے بھی باہر کے کمرے میں ...

صحافی اور انہیں نهلاتے کیسے ہو ... ؟؟
کسان: کسے سیاہ یا سفید کو ... ؟؟

صحافی: سیاہ کو ..
کسان: جی پانی سے ..

صحافی اور سفید کو ... ؟؟
کسان: جی اسے بھی پانی سے ..

صحافی کا غصہ ساتویں آسمان پرپہنچ گیا...وہ بولا: یہ کیا بات ہوئی! جب دونوں کے ساتھ سب کچھ ایک جیسا کرتا ہے، تو مجھ سے بار بار یہ کیوں پوچھتے ہو کہ .. سیاہ یا سفید ... ؟؟؟؟

کسان: کیونکہ سیاہ بکرا میرا ہے ...
صحافی اور سفید بکرا ... ؟؟
کسان: وہ بھی میرا ہے ...

صحافی بیہوش ...
  ہوش آنے پہ کسان بولا اب پتہ چلا تم کو کہ جب تم ایک ہی خبر کو سارا دن گھما پھرا کے دکھاتے ہو ہم بھی ایسے ہی عاجز اور پریشان ہوتے ہیں...

एक टी.वी. पत्रकार एक किसान का इंटरव्यू ले रहा था...

पत्रकार : आप बकरे को क्या खिलाते हैं...??
किसान : काले को या सफ़ेद को...??

पत्रकार : सफ़ेद को..
किसान : घाँस..

पत्रकार : और काले को...??
किसान : उसे भी घाँस..

पत्रकार : आप इन बकरों को बांधते कहाँ हो...??
किसान : काले को या सफ़ेद को...??

पत्रकार : सफ़ेद को..
किसान : बाहर के कमरे में..

पत्रकार : और काले को...??
किसान : उसे भी बाहर के कमरे में...

पत्रकार : और इन्हें नहलाते कैसे हो...??
किसान : किसे काले को या सफ़ेद को...??

पत्रकार : काले को..
किसान : जी पानी से..

पत्रकार : और सफ़ेद को...??
किसान : जी उसे भी पानी से..

पत्रकार का गुस्सा सातवें आसमान पर, बोला : कमीने ! जब दोनों के साथ सब कुछ एक जैसा करता है, तो मुझे बार-बार क्यों पूछता है.. काला या सफ़ेद...????

किसान : क्योंकि काला बकरा मेरा है...
पत्रकार : और सफ़ेद बकरा...??
किसान : वो भी मेरा है...

पत्रकार बेहोश...
  होश आने पे किसान बोला अब पता चला कमीने जब तुम एक ही news  को सारा दिन घुमा फिरा के दिखाते हो हम भी  ऐसे ही दुखी होते है।

Words are free to use, But may prove to be very costly if misused.

ایک کو مولا نے بلالیا...ایک کو راج ناتھ نےبھیج دیا

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا
سب سے بڑی عدالت کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ سی بی آئی نے جو مقدمہ بنایا اور ٹاڈا عدالت نے اسے جوں کا توں مانا، یا اُسے چمکانے کے لئے اپنے پاس سے زہریلا پالش نکال کر اُسے چمکایا پھر اس میں ہائی کورٹ نے بھی گل بوٹے ٹانکے اور سب سے آخر میں جب وہ سپریم کورٹ پہونچا تو یعقوب میمن پوری طرح پھانسی کا مستحق بنا دیا گیا تھا۔ ہر مجبور کی آخری اُمید زمین کے اوپر اپنے ملک کے صدر اور آسمان کے اوپر اپنے مولا سے رہ جاتی ہے۔ اپنے صدر صاحب جو کریں وہ نظر آتا ہے اور آسمان کے اوپر والا جو کرے وہ نظر نہیں آتا لیکن یقین ہے کہ وہ وہی کرتا ہے جو اس کے اور ہر مسلمان کیلئے مفید ہو۔
ہم بار بار عرض کرچکے ہیں کہ ہمارا حال کچھ ایسا ہے جیسے ؎
تن ہمہ داغ داغ شد پنجہ کجا کجا نہم
1960ء کی دہائی میں جب ندائے ملت نکال رہے تھے تو بہت کچھ دفتر میں تھا دستور ہند کی کاپی بھی تھی۔ اب جبکہ ندائے ملت ہی نہیں تو دستور کہاں ہوگا اور پچاس برس پرانی بات کسے یاد رہ سکتی ہے کہ اس میں صدر صاحب کے متعلق کیا کیا لکھا تھا؟ کل ایک مذاکرے میں ایک دانشور نے کہا کہ رحم کی اپیل کو منظور کرنا نہ کرنا صدر کے اختیار میں نہیں ہے۔ وہ تو اپیل کو وزارت داخلہ کو بھیج دیتے ہیں وہاں سے وزارت داخلہ یا کابینہ یہ فیصلہ کرکے واپس کردیتی ہے کہ اسے منظور کرلیا جائے یا مسترد کردیا جائے۔ یہ سننے کے بعد سوچنا پڑا کہ کیا ہم غریبوں کا کروڑوں روپیہ مہینہ ایک ایسے آدمی کی رہائش، مہماں نوازی، رسمی کارروائیاں، لکھی ہوئی تقریریں پڑھ کر سنانا اور حکومت کے ہر فیصلہ پر اپنی مہر لگانا جس کے فرائض میں ہے اور وہ اپنی صوابدیدے کچھ بھی نہ لکھ سکے نہ کہہ سکے کہ کیا غلط ہے کیا نہیں ہے؟ اور سب سے زیادہ حیرت ڈاکٹر عبدالکلام جیسے ہر وقت بجلی کی طرح حرکت میں رہنے والے کام کام کام جس کا ایمان ہو اور جو کہہ کر جائے کہ جس دن میں مروں میرے سوگ میں وقت خراب بلکہ اور زیادہ کام کرتا اس نے کیسے پنجرے میں بند رہ کر ’’میاں مٹھو نبی جی بھیجو‘‘ کہتے کہتے پانچ سال گذار دیئے؟ جبکہ ان کی زندگی کی کہانی سنانے والے سنا رہے تھے کہ وہ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے آتے تھے اور جلدی جلدی کھاکر بھاگتے تھے۔ معلوم نہیں ان کو کیوں جلدی ہوتی تھی؟ وہ آدمی اور سونے، ہیرے اور موتیوں کے پنجرے میں بند رہ کر پانچ سال ربڑ کی مہر بن کر رہنے پر کیسے تیار ہوگیا؟
یعقوب میمن مرحوم نے آخری دن پھر ایک رحم کی درخواست دی۔ اس سے بحث نہیں کہ اس میں کیا لکھا تھا؟ بس یہ کہا ہوگا کہ پھانسی نہ دی جائے۔ انہوں نے وزیر داخلہ کو بتایا ہوگا۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس روز روز کی ہائے ہائے کو ختم کرنے کے لئے خود ہی آجانا بہتر سمجھا اور آکر دو جملوں میں پانچ حکم دے دیا کہ اسے ردّ کردیجئے۔ وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ مٹھی بھر وہ، چالیس ہوں یا پچاس، اپنے سیکولرازم کی نمائش کے لئے یعقوب کو پھانسی دینے کی مخالفت کررہے تھے۔ لیکن وہ سب جنہوں نے ووٹ دے کر 280 سیٹیں بی جے پی کو دلائی تھیں ان میں سے کوئی ایک بھی یعقوب کو معاف کرنے پر تیار نہیں تھا اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ وہ ہیں جب شری موہن بھاگوت کے چہیتے گڈکری بی جے پی کے صدر تھے۔ اور وہ مزید پانچ سال کے لئے صدر بنائے جانے والے تھے تو اُن کی درجنوں فرضی بغیر پتے کی کمپنیوں کا راز کھل گیا اور وہ بہت بڑے فریبی بن کر سامنے آئے تو بھاگوت جی نے روتے ہوئے انہیں واپس بلالیا اور ان کے بعد آر ایس ایس کے سب سے بڑے فرمانبردار راج ناتھ سنگھ کو صدر بنا دیا۔
جب ایسی خصوصیات کے راج ناتھ سنگھ کے ہاتھوں میں فیصلہ ہو تو وہ کیسے 50 ہندوئوں اور ہر مسلمان کو خوش کرکے ان ہندوئوں کو ناراض کردیں گے جو یعقوب کے لئے انصاف مانگنے والوں کو بھی سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں؟ راج ناتھ سنگھ کے لئے فیصلہ مشکل نہیں تھا وہ انصاف، فراخ دلی اور سیکولرازم کو دیکھتے تو ان کی دو سو سیٹیں خطرہ میں پڑسکتی تھیں اور اگر سودا اتنا سستا ہو کہ ایک میمن کو پھانسی پر لٹکوانے سے دو سو سیٹیں محفوظ ہوسکتی ہوں تو کون اس موقع کو چھوڑ سکتا ہے؟ راج ناتھ نے اس کا انتظار بھی نہیں کیا کہ کاغذات اُن کے پاس آئے وہ خود کاغذ کے پاس چلے آئے اور موہن بھاگوت کی نظر میں مودی سے بھی زیادہ معتمد ہوگئے۔ اگر کچھ لوگوں کے ردّعمل دیکھنا ہوں تو اُن کے دیکھنا چاہئیں جنہوں نے انہیں ہار پھول پہناکر ووٹ دیئے اور دلائے۔
برابر خیال آرہا تھا کہ کہیں افضل کی کہانی میمن کے لئے بھی نہ دہرائی جائے؟ جسے خدا جانے غسل ملا یا نہیں مل سکا کفن نصیب ہوا یا جیل کے کپڑوں میں ہی اسے ناپاک ہاتھوں سے قبر میں اتار دیا۔ منہا خلقنا کم وفیہما نعید کم الخ پڑھتے ہوئے اس کی قبر پر مٹی ڈالی گئی یا نہیں؟ یہ سب ایک کافر حکومت اور بزدل وزیر داخلہ کے ہاتھ میں تھا۔ یعقوب کے متعلق خبر ہے کہ ناگ پور سے اس کا جنازہ چل پڑا ہے اور وہ طریقہ اپنایا جارہا ہے جو مسٹر بھٹو کے جنازے کے لئے ضیاء الحق نے اپنایا تھا لیکن وہاں فوج تھی جو خصوصی طیارے کے ذریعہ 4 اپریل 1979 ء بھٹو کی لاش لاڑکانہ لائی تھی اور فوج نے ہی دفن کردیا اُن کے خاندان کی تمام خواتین وہاں کھڑی صرف بین کرتی رہیں۔ میمن کو ناگ پور سے اُن کے گھر نہیں سیدھے قبرستان لایا جارہا ہے۔ دوپہر کا تین بچ چکا ہے ہر چینل صرف یہ بتارہا اور دکھا رہا ہے کہ بارہ بم دھماکوں میں کہاں کیا ہوا تھا؟ نہ قبرستان کی خبر ہے نہ نماز کی نہ غسل کی نہ کفن کی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ پورا میڈیا صرف رویش کمار اور دو تین کے علاوہ کوئی صحافی نہیں ہیں سب کے سب آر ایس ایس کی شاکھائوں کے تیار کئے ہوئے ملک دشمن ہیں۔ کل رات صرف رویش کمار 9 بجے دو ہندو وکیلوں سے لوہا لے رہے تھے۔ انہوں نے درجنوں بار یہ معلوم کرکے کہ 257 کا فیصلہ تو آگیا وہ جو انہیں دنوں میں 900 مسلمان قتل کردیئے تھے جس کی دو ججوں نے رپورٹیں لکھی ہیں ان کے مارنے والوں کو کتنی سزا ملی اور دونوں وکیل پوری بے غیرتی کے ساتھ 257 کے دائرے سے نکل نہیں پارہے تھے۔
11.30 بجے ڈاکٹر کلام کو سپرد خاک کردیا اُن کو سلامی دینے مٹی ڈالنے اور اپنے تاثرات بیان کرنے کے لئے تو ہزاروں ہزار آئے اور دعا دے کر چلے گئے اب اُن کا حساب میدان حشر میں ہوگا اور ان کی قبر سے ہی شروع ہوجائے گا۔ رہے یعقوب میمن تو اسلامی شریعت کے مطابق جب انہیں گناہ کی سزا مل چکی تو اگر کسی اور بندے کا کوئی حق یا اللہ کا کوئی حق ہوگا تو اس کا حساب ہوجائے گا اور اگر ان کے نامۂ اعمال میں صرف یہی بم دھماکے تھے اور کوئی گناہ کبیرہ نہیں تھا تو وہ اس فیصلہ سے خوش ہو رہے ہوں گے کیونکہ اگر وہ اپنے کہنے کے مطابق بے گناہ تھے تو وہ تو شہید ہیں اور ’’من قتل مظلوماً فہوَ شہید‘‘ کے اعلان کے بعد وہ صبح 07.1 بجے ہی جنت میں اپنے محل کا چارج لے چکے ہوں گے۔ ڈھائی بجے تک کی خبر کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ سب ٹی وی پر نہیں آنے دیا اس پر وہی عبدالکلام کا موٹا پردہ ڈال دیا ہے اور اسی تابوت کو کل تک نچاتے رہیں گے۔ شاید 30 تاریخ پر اصرار کی بھی یہی وجہ ہو کہ مسلمان یعقوب کے آخری رسوم دیکھنا چاہیں گے اور جنہوں نے کیا ہے وہ اسے چھپانا چاہیں گے۔ ہر زبان پر ایک دعا رہنا چاہئے کہ میمن اگر گناہگار تھا تو اسے اور سزا دی جائے اور بے گناہ تھا تو ہر سزا دینے والے کا مسئلہ مولا آپ کے حوالے ہے۔
حفیظ نعمانی

Wednesday, 29 July 2015

قصہ لامتناہی...

سپریم کورٹنے چار بج کرپچاس منٹ پرپھرسزائے موت پرمہر ثبت کی... پرشانت بھوشن کی کوششیں بھی ناکام... نہیں ملی چودہ دنوں کی مہلت...

فجر کی اذان کے لئے موذن نے اللہ اکبر کہا ادھر پھانسی کی درخواست رد کا فیصلہ آیا...
انا للہ وانا الیہ راجون
.

سات بجے پھانسی کے بعد گیارہ بجے عبدالکلام کوخراج عقیدت پیش کرنے رامیشورم جائیں گے مودی...

یاد کیجئے حفیظ میرٹھی کو....

دیش کا نیتا ، ووٹ کی بهکشا، بهاشن دے کر مانگے ہے
یعنی ہمارے قتل کو قاتل ہم سے ہی خنجر مانگے ہے

آج کا انساں بڑا سیانا کب تک ان کو جهیلے گا
ایک نئی تاریخ لکهے گا جب بهی نیند سے جاگے گا

Saturday, 25 July 2015

صحت نہیں...بیماری ہے یہ!

21 دن میں موٹاپا غائب

محترم حضرت حکیم صاحب
السلام علیکم!
میرا ایک بارہا کا آزمایا ہوا نسخہ موٹاپے کیلئے ہے۔
آج کل سب سے زیادہ عام جو مرض ہورہا ہے وہ موٹاپا ہے اور اس کا علاج سب سے مشکل ہے۔
مگر آج میں آپ کو ایک ایسا نسخہ بتارہی ہوں جو ہمارااپناآزمایا ہوا ہے۔ یہ نسخہ اکیس دن بلاناغہ استعمال کرنا ہے۔

ھوالشافی: عناب پانچ دانے‘
منقیٰ پانچ دانے‘
لونگ پانچ عدد‘
دار چینی دو بڑے ٹکڑے اور ایک لیموں بڑے سائز کا لیں۔
دو کپ پانی ڈال کر یہ تمام چیزیں ڈالیں اور پکائیں‘
جب ایک کپ پانی رہ جائے تو چھان لیں‘
منقیٰ کو بیج نکال کر کھالیں اور باقی چیزیں پھینک دیں‘
پھر اس پانی میں لیموں نچوڑ کر پی لیں‘
اگر چاہیں تو تھوڑی سی چینی ملا سکتیں ہیں۔
یہ ایک دن کی خوراک ہے۔
انشاء اللہ بائیس ویں دن آپ خود کو پہچان نہیں سکیں گیں
لیکن ان اکیس دنوں میں چاول ہرگز نہیں کھانے ۔

Friday, 24 July 2015

ہوشیار!!!

برمنگھم یونیورسٹی سے ملنے والا قرآن کریم جعلی ہے، کفار کی سازش ہے، وہ قرآن موجودہ قرآن سے تھوڑا مختلف ہے، احتیاط کریں یہ قرآن کو متنازعہ بنانے کی سازش کا ابتدائی مرحلہ ہے ۔۔۔!!
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے ایک حالیہ اعلامیے میں برطانیہ کی برمنگهم یونیورسٹی کی جانب سے انکی لائبریری میں سو سال سے موجود ایک مخطوطے کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم کا قدیم ترین نسخہ ہوسکتا ہے لیکن اس نسخے کی جو تصویر اور ویڈیو منسلک ہے اس سے یہ خبر کلی طور سے مطابقت نہیں رکهتی جسکی مکمل تحقیق تو ماہرین فن ہی پیش کر سکتے ہیں تاہم فی الوقت چند طالبعلمانہ نکات پیش خدمت ہیں .
1- اس نسخے میں نقطے موجود ہیں جبکہ میری ناقص معلومات کے مطابق عہد عثمانی کے آخر تک قرآنی رسم الخط میں نقطے نہیں تهے ،نقطوں کی ابتداء میری ناقص معلومات کے مطابق بظاہر حضرت معاویہ رضى الله عنه کے دور میں ذیاد بن ابیہ حاکم بصرہ کے حکم سے ابوالاسود الدؤلى نے کی یا عبدالملک بن مروان کے دور میں انکے شاگرد نصر بن عاصم اللیثی اور یحیی بن یعمر العدوانی نے کی لهذا یہ نسخہ بظاہر عهد نبوی سے بعد کا ہے جب رسم الخط قدرے ترقی کر چکا تها -
2- اس نسخے میں دو سورتوں کے درمیان نیز آیات کے درمیان فاصلہ بیان کرنے کیلئے سہ نقطی اور چهار نقطی علامات موجود ہیں جبکہ ابتدائی دور میں یہ طریقہ متداول نہیں تها ، نیز سرخ روشنائی کا استعمال برتا گیا ہے جوکہ قدیم طرز میں نہیں تها بلکہ دوسری صدی کے اواخر اور تیسری صدی کی ابتدا میں رائج ہوا
3- انکی ریڈیو کاربن ٹیسٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ نسخہ عیسوی تقویم کے سن 568 سے سن 645 کے درمیان کا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایک قول کے مطابق 568 اور راجح قول کے مطابق 571 ہے اور نبوت چالیس سال کی عمر میں ملی ہے تو وحی کی ابتدا 608 اور 611 کے درمیان ہوگی اور تئیس سال تک وحی نازل ہوتی رہی اس اعتبار سے مکمل نسخہ 631 اور 634 کے درمیان ہی وجود میں آسکتا ہے اس سے پہلے نہیں، جبکہ دیگر علامات سے اس کا کم از کم دوسری صدی کے اواخر کا ہونا ثابت ہوتا ہے
4- یہ رسم الخط توپ قاپی میں محفوظ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نسخے سے ذیادہ ترقی یافتہ بهی ہے لهذا توپ قاپی میں محفوظ نسخہ قدیم تر ہے اور موجودہ رائج قرآن کے مطابق بهی اور حال ہی میں وہ نسخہ اب من وعن چهپ چکا ہے اور موجودہ رسم الخط کا صفحہ اس کے بالمقابل اس کے ساته چهاپا گیا ہے ،
ا 5- ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے اگر اس کی کهال کا زمانہ عهد نبوی فرض کر بهی لیا جائے تب بهی اس سے نسخے کا عهد نبوی میں تحریر کیا جانا ثابت نہیں ہوتا بلکہ ممکن ہے کہ قدیم کهال پر بعد کے زمانے میں تحریر کی گئی ہو جیسا کہ یہ طریقہ نادر نہیں ہے ،
6- قرآن کا واحد اور قدیم ترین نسخہ وہی ہے جو اہل علم کے سینوں میں روز اول سے تا قیامت عزیز وحکیم ذات کی تائید سے محفوظ ہے اور رہے گا .
7- اسلامی اصول تحقیق کی رو سے کوئی تحریر اس وقت تک معتبر قرار نہیں پاتی جب تک اس کے کاتب کا تعین نہ ہو اور وقت تحریر سے وقت دریافت تک ہر دور میں اس کی حفاظت کی یقینی تفصیل اس پر مذکور نہ ہو -
8- قرآن کا ثبوت تواتر کی یقینی اور قوی ترین قسم تواتر طبقہ سے ہے جو اپنی ابتدا سے تا قیامت نسل در نسل سینہ بسینہ منتقل ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا لہذا ہر نئی تحریر اور مخطوطہ اپنے معتبر ہونے میں اس قرآن کی مطابقت کی محتاج ہے لیکن قرآن اپنے معتبر ہونے میں کسی مخطوطے کے مطابق ہونے کا محتاج نہیں .
ان امور کو مد نظر رکهتے ہوئے محض ان ماہرین کی تحقیق پر سر تسلیم خم کرنے کے بجائے درایت کے اصولوں کی کسوٹی پر بهی پرکهنا مطلوب ہے .

Thursday, 23 July 2015

زیتون اور اسپغول

ﺯﯾﺘﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﭙﻐﻮﻝ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺿﺮﻭﺭ ﺍٓﺯﻣﺎﺋﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍٓﺋﮯ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻗﻄﺮ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﺗﯿﻞ ﻧﮑﺎﻟﻨﮯ
ﻭﺍﻟﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍٓﭖ
ﮐﺎ ﺩﺭﺱ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺑﮩﺖ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﭽﮫ ﺗﺤﻔﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ‘ ﺍٓﺧﺮ ﺍٓﭖ ﻧﮩﯿﮟ
ﭼﮭﭙﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﮭﭙﺎﻭٔﮞ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ
ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺍﺋﯿﺎﮞ ﺍﯾﻨﭩﯽ ﺑﺎﺋﯿﻮﭨﮏ
ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﻔﻆ ﺍﯾﻨﭩﯽ ﺑﺎﺋﯿﻮﭨﮏ ﺳﮯﭼﮍ ﮨﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﻨﭩﯽ ﺑﺎﺋﯿﻮﭨﮏ ﮈﺍﮐﭩﺮﯼ
ﺩﻭﺍﺋﯽ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﺳﯽ
ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﭘﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﺎﺋﯽ ﭘﻮﭨﯿﻨﺴﯽ ﺍﯾﻨﭩﯽ ﺑﺎﺋﯿﻮﭨﮏ
ﮐﮭﺎﺋﯽ۔ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍٓﺋﻨﺪﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﺘﺎﻧﺎ
ﮨﻢ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺠﮭﮯ
ﻣﻌﺪﮮ ﮐﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﮨﻮﺋﯽ‘ ﮐﺒﮭﯽ ﻗﺒﺾ ‘ ﻗﺒﻀﯽ ﻣﻮﺷﻦ‘
ﮐﮭﭩﮯ ﮈﮐﺎﺭ‘ ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﻭﺳﻮﺳﮯ‘ ﺧﯿﺎﻻﺕ‘
ﮔﯿﺲ ﺗﺒﺨﯿﺮ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ‘ ﻭﺳﻮﺳﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﯿﻔﯿﺖ ‘ ﺑﮩﺖ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﯽ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﯿﺎ ﭘﮭﺮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﻮﺭﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮﻧﮓ
ﮈﯾﭙﺎﺭﭨﻤﻨﭧ ﮐﺎ ﮨﯿﮉ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﭩﯿﻨﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺩﻭ ﺑﻮﺗﻠﯿﮟ
ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻥ ﺑﻮﺗﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺎ ﺍﯾﮏ
ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﺳﭙﻐﻮﻝ ﮐﺎ ﭼﮭﻠﮑﺎ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﯿﮟ
ﺯﯾﺘﻮﻥ ﮐﺎﺗﯿﻞ ‘ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭘﯿﺎﻟﯽ ﻟﯽ‘ ﺍﯾﮏ ﭼﻤﭻ ﺑﮍﺍ
ﺯﯾﺘﻮﻥ ﮐﺎ ﺗﯿﻞ ﮈﺍﻻ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﭼﻤﭻ ﺍﺳﭙﻐﻮﻝ ﮐﮯ
ﭼﮭﻠﮑﮯ ﮐﮯ ﮈﺍﻟﮯ ‘ ﻣﮑﺲ ﮐﺮﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﺳﮯﺍٓﺩﮬﺎ
ﺍٓﺩﮬﺎ ﭼﻤﭻ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﮭﺎﻟﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﻟﯿﺎ ‘ ﺫﺍﺋﻘﮧ
ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﯿﻦ
ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﺮﻟﻮ ﭼﺎﮨﻮ ﭼﺎﺭ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﺮﻟﻮ‘ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﺮﻟﻮ ﺑﺲ
ﯾﮩﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻭ۔ ﻭﺍﻗﻌﯽ ! ﺗﯿﻦ ﺧﻮﺭﺍﮐﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﺍﺗﻨﺎ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺻﺤﺖ ‘ ﺷﻔﺎﺀ‘
ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺗﺴﻠﯽ ﺑﺨﺶ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮩﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً
ﯾﮩﯽ ﭼﮭﻠﮑﺎ ﺍﺳﭙﻐﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺘﻮﻥ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺍٓﺯﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻗﻌﯽ
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﯾﺾ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻼ
ﺟﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﻟﯿﺴﭩﺮﻭﻝ ﻟﯿﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﯾﺴﮯ
ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﮐﯿﻤﯿﮑﻞ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﮐﻮ
ﻟﯿﺒﺎﺭﭨﺮﯾﺎﮞ ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ
ﭨﯿﺴﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﯿﮏ ﮐﺮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺩﻭﺍﺋﯿﺎﮞ
ﮐﮭﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﻠﮉﭘﺮﯾﺸﺮ ﮨﺎﺋﯽ ﺗﮭﺎ ‘ ﭨﯿﻨﺸﻦ ﺑﮩﺖ
ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮭﯽ ‘ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﯽ ﮔﻮﻟﯽ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ
ﺷﻮﮔﺮﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﻠﮉﭘﺮﯾﺸﺮ ﮐﯽ‘ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ
ﺍٓﭖ ﭼﺎﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻓﯽ ﺍﻟﺤﺎﻝ ﮐﻮﺋﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮﯼ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻧﮧ
ﭼﮭﻮﮌﯾﮟ۔ ﺍٓﭖ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﭼﻤﭻ ﺯﯾﺘﻮﻥ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭ ﭼﻤﭻ
ﺍﺳﭙﻐﻮﻝ ﭼﮭﻠﮑﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ
ﻋﺮﺻﮧ ﭼﻨﺪﺩﻥ، ﭼﻨﺪ ﮨﻔﺘﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻭﮦ
ﺭﺯﻟﭧ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺟﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﭼﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ
ﮨﻮﮔﺎ۔ ﭼﻨﺪ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻠﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ
ﺳﻮﻟﮧ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﯾﮧ ﮐﻢ ﺳﮯ
ﮐﻢ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺍٓﭖ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺩﮐﮭﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺑﻠﺴﭩﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ۔ ﮐﮩﻨﮯ
ﻟﮕﮯ ﺍﺏ ﺻﺮﻑ ﺩﻭ ﮔﻮﻟﯿﺎﮞ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ
ﺑﮭﯽ ﭼﻨﺪ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﺳﻮﻓﯿﺼﺪ
ﭼﮭﻮﭦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺗﯽ ﮨﮯ‘
ﻣﻌﺪﮦ ‘ ﺟﮕﺮ‘ ﭘﭩﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﺼﺎﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺑﮩﺖ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺑﻮﺍﺳﯿﺮ ﺗﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺍﻟﺪﮦ
ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﻮ
ﺑﮭﯽ ﺍ ﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮩﺖ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﯽ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻣﻮﭨﺎﭘﺎ
ﺗﮭﺎ ‘ ﭘﯿﭧ ﺑﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺮﻭﻗﺖ ﺟﻮﮌﻭﮞ ﭘﭩﮭﻮﮞ ﮐﺎ
ﺩﺭﺩ‘ ﺳﺎﻧﺲ ﺑﮩﺖ ﭘﮭﻮﻟﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ
ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺑﮩﺖ ﺻﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﺣﻮﺻﻠﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﯿﮟ ‘
ﺍﺏ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺻﺒﺮ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺧﺘﻢ‘ ﻏﺼﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺮﻭﺝ ﭘﺮﺗﮭﺎ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻧﺴﺨﮧ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ
ﺑﮩﺖ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﺯﻟﭧ ﻣﻼ۔ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻭﺍﻟﺪﮦ
ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺑﻮﺍﺳﯿﺮ ﺧﺘﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺗﮑﺎﻟﯿﻒ ﺧﺘﻢ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺗﺴﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯾﺎﮞ ﺟﻮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ
ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺻﺤﺖ ﯾﺎﺏ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ! ﯾﮧ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﺳﺎ ﭨﻮﭨﮑﮧ ﺟﻮ ﮨﺮ ﺷﮩﺮ ﮨﺮ ﻣﻠﮏ ﺍﻭﺭ
ﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺍٓﺳﺎﻧﯽ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﮐﮩﯿﮟ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﺎ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﻟﯿﮑﻮﺭﯾﺎ‘ ﻣﻮﭨﺎﭘﺎ ‘
ﭘﯿﭧ ﮐﺎ ﺑﮍﮬﻨﺎ ‘ ﮔﯿﺲ ‘ ﺗﺒﺨﯿﺮ‘ ﺑﻠﮉﭘﺮﯾﺸﺮ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮩﺖ
ﻻﺟﻮﺍﺏ ﭼﯿﺰﮨﮯ‘ ﻣﻌﺪﮮ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﯾﺎ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺟﻦ ﮐﻮ
ﺷﻮﮔﺮ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﺎ ﺳﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺴﻢ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ
ﻓﻀﻞ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ ﮐﮧ ﺟﺲ
ﮐﻮ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ﮨﻮ۔ ﺣﺘﯽٰ ﮐﮧ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﻗﺒﺾ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﺍﻧﯽ
ﺑﻮﺍﺳﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺠﺮﺑﮧ
ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﺑﮭﯽ
ﺍٓﺯﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺋﺪﮮ ﻣﻨﺪ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ۔ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺍٓﭖ
ﮐﻮ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﮨﻮﮔﺎ ﺍٓﭖ ﻟﮑﮭﯿﮟ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭨﻮﭨﮑﮧ ﻧﺴﺨﮧ
ﻓﺎﺭﻣﻮﻟﮧ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺍٓﺯﻣﺎﯾﺎ ﮨﻮ ﺗﻮﺿﺮﻭﺭ ﻟﮑﮭﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ
ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ۔

ا

Wednesday, 22 July 2015

Are U A Muslim? کیا آپ مسلمان ہیں؟

میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘
I asked him, "Are u a Muslim?"
اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں میں جارڈن کا یہودی ہوں۔
میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں‘‘
He smiled and replied, "No, I am a Jewish Rabbi from Jordan and currently pursuing a PHD on Islam in Paris."
میں نے پوچھا ’’تم اسلام کے کس
پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو؟‘‘
"On which aspect of Islam are you pursuing a PHD?" I asked.
وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا ’’میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں‘‘
He was shy at my question and after a little thought he spoke, "I am researching about the orthodox nature of the Muslims." (Staunch nature of the Muslims)
میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟‘‘
I laughed aloud and asked, "How far have you got with your research?"
اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا ’’میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں‘‘
He took a rather long sip of his coffee, then said, "I have completed my research and am now compiling a paper on my findings."
میں نے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟‘‘
I then asked, "What have your findings been?"
اس نے لمبا سانس لیا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔
یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے‘‘
He took a deep breath, looked to the right and left, shook his head, then spoke in a low voice, "After five years of research I have come to the conclusion that Muslims have a greater love for their Nabi (SAW) than their religion of Islam.
They may bear any sort of attack or provocation against Islam, but will not tolerate even a finger being lifted against their Nabi (SAW)
یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا‘ میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘
This answer was a shock to me. I placed my coffee mug on the table and sat up straight.
وہ بولا ’’میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے‘ یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی‘ آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔ آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوں یا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘
He continued, " According to my research, whenever Muslims fought battles, stood up against opposition or attacked, it was for the sake of defending their Nabi (SAW).

If you capture their Masaajid, destroy their governments, place restrictions on the publication of the Quraan, or murder their entire household, they will bear such difficulties. However, the moment you abuse the name of their Nabi (SAW) they will arise with fury and challenge you regardless of how brave you are or even if you are as ruthless as Fir'aun (Ferrow).
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘
I kept staring at him in astonishment and he continued saying, "According to my research, the day Muslims no longer have love for their Nabi (SAW), that will be the end of Islam.

Thus if you wish to destroy Islam, you will need to remove the love of their Nabi (SAW) from the hearts of the Muslims."
اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا‘ اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا‘ کندھے پر رکھا‘ سلام کیا اور اٹھ کر چلا گیا
Having said this, he placed his coffee mug down, placed  his satchel over his shoulder, greeted me and departed.
لیکن میں اس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں‘ میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ میں اس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا‘
میں جان گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے‘ جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
However, since that day I have sitting in a daze. I consider this Jewish Rabbi to be my benefactor because prior to my meeting him I was just an ordinary Muslim. However he explained the whole meaning of Islam in two sentences.

I have understood that the love for Nabi Sallallahu alayhi wa Sallam, in essence, is the soul of Islam. As long as the soul is there, Islam will exist.

When this soul is destroyed there will be no difference between us and the Jews and Chris[truncated by WhatsApp]