جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا
سب سے بڑی عدالت کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ سی بی آئی نے جو مقدمہ بنایا اور ٹاڈا عدالت نے اسے جوں کا توں مانا، یا اُسے چمکانے کے لئے اپنے پاس سے زہریلا پالش نکال کر اُسے چمکایا پھر اس میں ہائی کورٹ نے بھی گل بوٹے ٹانکے اور سب سے آخر میں جب وہ سپریم کورٹ پہونچا تو یعقوب میمن پوری طرح پھانسی کا مستحق بنا دیا گیا تھا۔ ہر مجبور کی آخری اُمید زمین کے اوپر اپنے ملک کے صدر اور آسمان کے اوپر اپنے مولا سے رہ جاتی ہے۔ اپنے صدر صاحب جو کریں وہ نظر آتا ہے اور آسمان کے اوپر والا جو کرے وہ نظر نہیں آتا لیکن یقین ہے کہ وہ وہی کرتا ہے جو اس کے اور ہر مسلمان کیلئے مفید ہو۔
ہم بار بار عرض کرچکے ہیں کہ ہمارا حال کچھ ایسا ہے جیسے ؎
تن ہمہ داغ داغ شد پنجہ کجا کجا نہم
1960ء کی دہائی میں جب ندائے ملت نکال رہے تھے تو بہت کچھ دفتر میں تھا دستور ہند کی کاپی بھی تھی۔ اب جبکہ ندائے ملت ہی نہیں تو دستور کہاں ہوگا اور پچاس برس پرانی بات کسے یاد رہ سکتی ہے کہ اس میں صدر صاحب کے متعلق کیا کیا لکھا تھا؟ کل ایک مذاکرے میں ایک دانشور نے کہا کہ رحم کی اپیل کو منظور کرنا نہ کرنا صدر کے اختیار میں نہیں ہے۔ وہ تو اپیل کو وزارت داخلہ کو بھیج دیتے ہیں وہاں سے وزارت داخلہ یا کابینہ یہ فیصلہ کرکے واپس کردیتی ہے کہ اسے منظور کرلیا جائے یا مسترد کردیا جائے۔ یہ سننے کے بعد سوچنا پڑا کہ کیا ہم غریبوں کا کروڑوں روپیہ مہینہ ایک ایسے آدمی کی رہائش، مہماں نوازی، رسمی کارروائیاں، لکھی ہوئی تقریریں پڑھ کر سنانا اور حکومت کے ہر فیصلہ پر اپنی مہر لگانا جس کے فرائض میں ہے اور وہ اپنی صوابدیدے کچھ بھی نہ لکھ سکے نہ کہہ سکے کہ کیا غلط ہے کیا نہیں ہے؟ اور سب سے زیادہ حیرت ڈاکٹر عبدالکلام جیسے ہر وقت بجلی کی طرح حرکت میں رہنے والے کام کام کام جس کا ایمان ہو اور جو کہہ کر جائے کہ جس دن میں مروں میرے سوگ میں وقت خراب بلکہ اور زیادہ کام کرتا اس نے کیسے پنجرے میں بند رہ کر ’’میاں مٹھو نبی جی بھیجو‘‘ کہتے کہتے پانچ سال گذار دیئے؟ جبکہ ان کی زندگی کی کہانی سنانے والے سنا رہے تھے کہ وہ ایک ہوٹل میں کھانا کھانے آتے تھے اور جلدی جلدی کھاکر بھاگتے تھے۔ معلوم نہیں ان کو کیوں جلدی ہوتی تھی؟ وہ آدمی اور سونے، ہیرے اور موتیوں کے پنجرے میں بند رہ کر پانچ سال ربڑ کی مہر بن کر رہنے پر کیسے تیار ہوگیا؟
یعقوب میمن مرحوم نے آخری دن پھر ایک رحم کی درخواست دی۔ اس سے بحث نہیں کہ اس میں کیا لکھا تھا؟ بس یہ کہا ہوگا کہ پھانسی نہ دی جائے۔ انہوں نے وزیر داخلہ کو بتایا ہوگا۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس روز روز کی ہائے ہائے کو ختم کرنے کے لئے خود ہی آجانا بہتر سمجھا اور آکر دو جملوں میں پانچ حکم دے دیا کہ اسے ردّ کردیجئے۔ وجہ صرف یہ ہوسکتی ہے کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ مٹھی بھر وہ، چالیس ہوں یا پچاس، اپنے سیکولرازم کی نمائش کے لئے یعقوب کو پھانسی دینے کی مخالفت کررہے تھے۔ لیکن وہ سب جنہوں نے ووٹ دے کر 280 سیٹیں بی جے پی کو دلائی تھیں ان میں سے کوئی ایک بھی یعقوب کو معاف کرنے پر تیار نہیں تھا اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ وہ ہیں جب شری موہن بھاگوت کے چہیتے گڈکری بی جے پی کے صدر تھے۔ اور وہ مزید پانچ سال کے لئے صدر بنائے جانے والے تھے تو اُن کی درجنوں فرضی بغیر پتے کی کمپنیوں کا راز کھل گیا اور وہ بہت بڑے فریبی بن کر سامنے آئے تو بھاگوت جی نے روتے ہوئے انہیں واپس بلالیا اور ان کے بعد آر ایس ایس کے سب سے بڑے فرمانبردار راج ناتھ سنگھ کو صدر بنا دیا۔
جب ایسی خصوصیات کے راج ناتھ سنگھ کے ہاتھوں میں فیصلہ ہو تو وہ کیسے 50 ہندوئوں اور ہر مسلمان کو خوش کرکے ان ہندوئوں کو ناراض کردیں گے جو یعقوب کے لئے انصاف مانگنے والوں کو بھی سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں؟ راج ناتھ سنگھ کے لئے فیصلہ مشکل نہیں تھا وہ انصاف، فراخ دلی اور سیکولرازم کو دیکھتے تو ان کی دو سو سیٹیں خطرہ میں پڑسکتی تھیں اور اگر سودا اتنا سستا ہو کہ ایک میمن کو پھانسی پر لٹکوانے سے دو سو سیٹیں محفوظ ہوسکتی ہوں تو کون اس موقع کو چھوڑ سکتا ہے؟ راج ناتھ نے اس کا انتظار بھی نہیں کیا کہ کاغذات اُن کے پاس آئے وہ خود کاغذ کے پاس چلے آئے اور موہن بھاگوت کی نظر میں مودی سے بھی زیادہ معتمد ہوگئے۔ اگر کچھ لوگوں کے ردّعمل دیکھنا ہوں تو اُن کے دیکھنا چاہئیں جنہوں نے انہیں ہار پھول پہناکر ووٹ دیئے اور دلائے۔
برابر خیال آرہا تھا کہ کہیں افضل کی کہانی میمن کے لئے بھی نہ دہرائی جائے؟ جسے خدا جانے غسل ملا یا نہیں مل سکا کفن نصیب ہوا یا جیل کے کپڑوں میں ہی اسے ناپاک ہاتھوں سے قبر میں اتار دیا۔ منہا خلقنا کم وفیہما نعید کم الخ پڑھتے ہوئے اس کی قبر پر مٹی ڈالی گئی یا نہیں؟ یہ سب ایک کافر حکومت اور بزدل وزیر داخلہ کے ہاتھ میں تھا۔ یعقوب کے متعلق خبر ہے کہ ناگ پور سے اس کا جنازہ چل پڑا ہے اور وہ طریقہ اپنایا جارہا ہے جو مسٹر بھٹو کے جنازے کے لئے ضیاء الحق نے اپنایا تھا لیکن وہاں فوج تھی جو خصوصی طیارے کے ذریعہ 4 اپریل 1979 ء بھٹو کی لاش لاڑکانہ لائی تھی اور فوج نے ہی دفن کردیا اُن کے خاندان کی تمام خواتین وہاں کھڑی صرف بین کرتی رہیں۔ میمن کو ناگ پور سے اُن کے گھر نہیں سیدھے قبرستان لایا جارہا ہے۔ دوپہر کا تین بچ چکا ہے ہر چینل صرف یہ بتارہا اور دکھا رہا ہے کہ بارہ بم دھماکوں میں کہاں کیا ہوا تھا؟ نہ قبرستان کی خبر ہے نہ نماز کی نہ غسل کی نہ کفن کی۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ پورا میڈیا صرف رویش کمار اور دو تین کے علاوہ کوئی صحافی نہیں ہیں سب کے سب آر ایس ایس کی شاکھائوں کے تیار کئے ہوئے ملک دشمن ہیں۔ کل رات صرف رویش کمار 9 بجے دو ہندو وکیلوں سے لوہا لے رہے تھے۔ انہوں نے درجنوں بار یہ معلوم کرکے کہ 257 کا فیصلہ تو آگیا وہ جو انہیں دنوں میں 900 مسلمان قتل کردیئے تھے جس کی دو ججوں نے رپورٹیں لکھی ہیں ان کے مارنے والوں کو کتنی سزا ملی اور دونوں وکیل پوری بے غیرتی کے ساتھ 257 کے دائرے سے نکل نہیں پارہے تھے۔
11.30 بجے ڈاکٹر کلام کو سپرد خاک کردیا اُن کو سلامی دینے مٹی ڈالنے اور اپنے تاثرات بیان کرنے کے لئے تو ہزاروں ہزار آئے اور دعا دے کر چلے گئے اب اُن کا حساب میدان حشر میں ہوگا اور ان کی قبر سے ہی شروع ہوجائے گا۔ رہے یعقوب میمن تو اسلامی شریعت کے مطابق جب انہیں گناہ کی سزا مل چکی تو اگر کسی اور بندے کا کوئی حق یا اللہ کا کوئی حق ہوگا تو اس کا حساب ہوجائے گا اور اگر ان کے نامۂ اعمال میں صرف یہی بم دھماکے تھے اور کوئی گناہ کبیرہ نہیں تھا تو وہ اس فیصلہ سے خوش ہو رہے ہوں گے کیونکہ اگر وہ اپنے کہنے کے مطابق بے گناہ تھے تو وہ تو شہید ہیں اور ’’من قتل مظلوماً فہوَ شہید‘‘ کے اعلان کے بعد وہ صبح 07.1 بجے ہی جنت میں اپنے محل کا چارج لے چکے ہوں گے۔ ڈھائی بجے تک کی خبر کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ سب ٹی وی پر نہیں آنے دیا اس پر وہی عبدالکلام کا موٹا پردہ ڈال دیا ہے اور اسی تابوت کو کل تک نچاتے رہیں گے۔ شاید 30 تاریخ پر اصرار کی بھی یہی وجہ ہو کہ مسلمان یعقوب کے آخری رسوم دیکھنا چاہیں گے اور جنہوں نے کیا ہے وہ اسے چھپانا چاہیں گے۔ ہر زبان پر ایک دعا رہنا چاہئے کہ میمن اگر گناہگار تھا تو اسے اور سزا دی جائے اور بے گناہ تھا تو ہر سزا دینے والے کا مسئلہ مولا آپ کے حوالے ہے۔
حفیظ نعمانی
No comments:
Post a Comment